مروّجہ بدعات

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

(شروع کرتا ہو) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان‘ بار بار رحم کرنے والا ہے

 

مروجہ بدعات

 

بدعت کے لغوی معنی دینِ اسلام میں ہر وہ نئے کام کے ہیں جس پر قبل ازیں عمل نہ ہوا ہو۔ اگر اس نئے عمل کا تعلق ضروریاتِ زندگی کی تکمیل و سہولت و آسانی اور مفادِ دنیا سے ہو اور جس پر عمل کرنے سے شریعت کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو تو اس پر گمراہی کا اطلاق نہ ہوگا کیونکہ نئے نئے ایجاد و اختراع انسانی زندگی کی اہم ضرورت ہے جو زماں و مکاں کے تحت پیدا ہوتی ہی رہتی ہے لیکن دین کی تکمیل و اتمام کے بعد دین میں کسی نئے عمل کی ایجاد کا سوال پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے امور دینیہ میں ہر نئے طریقے کو گمراہی قرار دیا گیا ہے۔ البتہ دنیاوی معاملات اور ضروریاتِ زندگی کے تعلق سے کوئی مسئلہ کسی وجہ سے بھی پیدا ہوجائے اور جس کا حل کرنا انسانی زندگی کے لئے ناگزیر ہو تو شریعت کی روشنی میں اس کا حل معلوم کیا جاسکتا ہے۔

بدعت جس کو رسول اللہﷺ نے گمراہی قرار دیا ہے اس کو سمجھنے سے پہلے ایک دو باتوں کا جان لینا ضروری ہے ایک تو یہ کہ محدثینؒ نے حدیث کی کتابوں میں بدعات کا کوئی علیحدہ باب مقرر نہیں کیا ہے بلکہ اعتصام کتاب و سنت کے باب میں وہ تمام حدثیں درج فرمائی ہیں جن میں بدعات کابیان ہے۔ اِن محدثینؒ کی اس ترتیب سے بدعت کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے اور بدعت کا ایک ایسا متعین مفہوم ذہن میں آتا ہے جس سے اختلاف کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ارشاداتِ رسولﷺ ملاحظہ فرمایئے۔ مَنْ اَحْدَثَـ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ (متفق علیہ) ترجمہ: (جس نے ہمارے اس دین میں ایسی بات نکالی جو اس (دین) سے نہیں ہے وہ رد کردینے کے قابل ہے) فَاِنَّ خَیْرُ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ وَخَیْرَالْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدَ وَّشرَّ الْاُمورِ مَحدثاتُھَا وَکُلُّ بِدَعۃٍ ضَلَالَۃٌترجمہ: (نفع بخش بات کتاب اللہ (کی تعلیم) ہے اور کتاب اللہ پر عمل کرنے کا نفع بخش طریقہ محمدؐ کا طریقہ ہے اور بدترین کام نئی باتیں ہیں یعنی نئے نکالے ہوئے طریقے ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے) یہ ایک مسلّمہ بات ہے کہ کتاب اللہ کی تعلیم اور اتباع و اطاعتِ نبوتؐ کا حکم اسی لئے دیا گیا ہے کہ گمراہ انسان راہِ ہدایت اختیار کریں۔ آیت ملاحظہ ہو :- ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝۲ۙ (سورہ جمعہ) ترجمہ: (وہی ہے جس نے عرب کے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی (کی قوم) میں سے یعنی (عرب میں سے) ایک پیغمبر بھیجا جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو (عقائد باطلہ و اخلاق ذقیمہ سے) پاک کرتے اور ان کو کتاب اور دانشمندی (کی باتیں) سکھاتے ہیں اور یہ لوگ (آپ کی بعثت سے) پہلے کھلی گمراہی میں تھے) آیت کریمہ کے خط کشیدہ الفاظ سے گمراہی کا مفہوم متعین ہوجاتا ہے۔ قرآن میں گمراہ لوگوں سے متعلق یہ تصریح موجود ہے کہ وہ اللہ ہی کو رزّاق‘ بینائی و شنوائی کا مالک‘ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کو پیدا کرنے والا‘ نظام عالم کا مدیرِ اعلیٰ مختصر یہ ہے کہ ہر قسم کی قدرت کاملہ کا مالک و مختار مانتے تھے چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ۝۰ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللہُ۝۰ۚ (سورہ یونس: 31) ترجمہ: (آپؐ (ان مشرکین سے) پوچھئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو (تمہارے کانوں اور آنکھوں پر اختیار رکھتا ہے؟ اور وہ کون ہے جو جاندار (چیز) کو بے جان (چیز) سے نکالتا ہے اور بے جان (چیز) کو جاندار (چیز) سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ پس وہ خود بھی جواب دیں گے کہ وہ اللہ ہی ہے) قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۴ سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۝۰ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۸۵ قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ۝۸۶ سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۝۰ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۝۸۷ قُلْ مَنْۢ بِيَدِہٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُوَيُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْہِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۸ سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۝۰ۭ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ۝۸۹ (سورہ المؤمنون: 84 تا 89) ترجمہ: (آپؐ ان سے پوچھئے بتاؤ تو زمین اور جو کچھ اس میں ہے یہ سب کس کا ہے اگر تم کچھ علم رکھتے ہو تو جھٹ کہہ دیں گے اللہ ہی کا ہے تو اُن سے کہیے کیا تم اس پر بھی نصیحت نہیں پکڑتے ہو۔ آپؐ ان سے پوچھئے بتاؤ ساتوں آسمانوں کا اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے تو جھٹ کہہ دیں گے اللہ ہے تو ان سے کہیے پھر کیا تم اس سے ڈرتے نہیں ہو۔ آپؐ ان سے پوچھئے بتاؤ اگر جانتے ہو کہ ہر چیز پر کس کی حکومت ہے اور وہ کون ہے جو پناہ دیتا ہے لیکن اس کے خلاف کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ تو جھٹ کہہ دیں گے اللہ ہے‘ تو ان سے کہیے پھر تم کو کس چیز نے محسور کردیا ہے) لیکن ان چند حقائق کے سوا ان کے تمام عقائد باطل تھے جن میں سے اکثر تو باپ داداؤں سے ان کو وراثتاً میں ملے تھے اور بعض تو ان کے اپنے گھڑے ہوئے تھے۔ ان سب کے مجموعہ و آمیزہ کو ہی وہ عین الٰہی تعلیم اور عین خدا پرستی سمجھے تھے۔ حتیٰ ایں کہ وہ وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَيْہَآ اٰبَاۗءَنَا وَاللہُ اَمَرَنَا بِہَا۝۰ۭ ۝۲۸ (سورہ الاعراف) ترجمہ: (جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو یہی کرتے ہوئے دیکھا اور اللہ نے ہم کو اسی کے کرنے کا حکم دیا ہے) اور جن جانوروں کو وہ اپنی آبائی تعلیم کی بناء پر معبودانِ باطل سے نامزد کرتے تھے اس کو بھی اللہ ہی کا حکم سمجھتے تھے جس کی تردید ان الفاظ میں کی گئی ہے :- مَا جَعَلَ اللہُ مِنْۢ بَحِيْرَۃٍ وَّلَا سَاۗىِٕبَۃٍ وَّلَا وَصِيْلَۃٍ وَّلَا حَامٍ۝۰ۙ وَّلٰكِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ۝۰ۭ ۝۱۰۳ (سورہ المائدہ) ترجمہ: (اللہ تعالیٰ نے بحیرہ کو مشروع کیا اور سائبہ کو اور نہ وصیلہ اور نہ حامی کو لیکن جو لوگ کافر ہیں وہ اللہ پر جھوٹ لگاتے ہیں)

چنانچہ ان مندرجہ بالا مسلمات کے ماننے والوں کو جب ’’اعبد اللہ اور ولا تشرکو بہ شیاء‘‘ کی دعوت دی گئی تو انہوں نے جواب میں کہا کہ وَاِذَا قِيْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ ۝۱۰۴ (سورہ المائدہ) ترجمہ: (اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں اور رسولؐ نے جو ہدایات دی ہیں ان کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم کو تو وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آبا و اجداد کو پایا) وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ ۝۲۱ (سورہ لقمٰن: 21) ترجمہ: (اور جب ان سے کہا جاتا ہے اس چیز کی اتباع کرو جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے تو کہتے ہیں کہ نہیں ہم اس کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا) قرآن میں اسی معنی و مطلوب کی اور بھی کئی آیتیں ہیں جن سے حسبِ ذیل امور ثابت ہوتے ہیں۔

۱)کلامِ الٰہی کے اوّلین مخاطبین یعنی مشرکینِ عرب‘ اللہ تعالیٰ کے منکر نہیں تھے بلکہ خدا پرست تھے۔

۲)اللہ تعالیٰ کے متعلق ان کے جو مشرکانہ عقائد تھے وہ ان کو اپنے آبا و اجداد سے وراثتاً ملے تھے اور اسی کو وہ الٰہی تعلیم سمجھتے تھے۔ بالفاظ دیگر ان کی خدا پرستی کے طور و طریق ان کے آبا و اجداد کی ایجاد و اختراع تھے۔

۳)اپنی اسی خدا پرستی کے جو من گھڑت طریقے ان کے دین و ایمان کی اساس تھے۔ اسی کو حق تعالیٰ نے ضلالت فرمایا ہے :- ’’وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٌ‘‘ بالفاظ دیگر کلامِ مجید سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ ذکرِ الٰہی اور عبادتِ الٰہی کے وہ تمام طریقے جو ذہنِ انسانی کی پیداوار ہیں‘ ضلالت ہیں۔

ان تمام تشریحات سے ہدایت و ضلالت کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اللہ تعالیٰ کی عبادت‘ اللہ و رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر کرنا ہی ہدایت ہے اور اللہ تعالیٰ کی یاد اور اللہ تعالیٰ کی عبادت‘ اپنے آبا و اجداد یا اپنے خود ساختہ طریقوں سے کرنا یقینا ضلالت ہے۔

کلامِ الٰہی سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو یا اللہ کی عبادت اس غرض سے کی جائے کہ تقویٰ حاصل ہو :- يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۲۱ۙ (سورہ البقرہ: 21) ترجمہ: (اے لوگو اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ) یعنی نفس کا تزکیہ ہو‘ قلب کی تطہیر ہو‘ رحمتِ الٰہی نازل ہو‘ غضبِ الٰہی سے حفاظت ہو اور زندگی کے معاملات و کاروبار میں خیر و برکت حاصل ہو اور بلحاظ انجام آخرت مغفرت و جنت حاصل ہو۔ اس غرض و غایت کو پانے کے لئے انسانوں نے اپنے طور پر ذکرِ الٰہی اور عبادتِ الٰہی کے جو طریقے ایجاد کرلئے تھے ان ہی کو گمراہی قرار دیا گیا اور یہی امور یعنی ذکرِ الٰہی و عبادتِ الٰہی‘ تزکیہ نفس و تطہیر قلب کے طریقے اگر الٰہی تعلیم‘ سنت رسولؐ اور روشِ صحابہؓ کے مطابق ہو تو یہی ہدایت ہے چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے کہ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ ۝۳ (سورہ مائدہ: 3) ترجمہ: (آج میں نے تمہارے دین کی تمہارے لئے تکمیل کردی اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے پسند کیا)

مندرجہ بالا وضاحت کے بعد اس حدیث کو سامنے رکھئے جو ابتدائی سطر میں بیان کی گئی ہے :- ’’فَاِنَّ خَیْرُ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ وَخَیْرَالْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدَ وَّشرَّ الْاُمورِ مَحدثاتُھَا وَکُلُّ بِدَعۃٍ ضَلَالَۃٌ ‘‘ ترجمہ: (نفع بخش بات کتاب اللہ (کی تعلیم) ہے اور کتاب اللہ پر عمل کرنے کا نفع بخش طریقہ محمدؐ کا طریقہ ہے اور بدترین کام نئی باتیں ہیں یعنی نئے نکالے ہوئے طریقے ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے) اللہ و رسولؐ کے ارشادات سے حسبِ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں۔

۱)الٰہی تعلیم کا انکار کر کے یا اس کے ساتھ ساتھ اپنے آبا و اجداد کے خود ساختہ طریقوں‘ عقائد و اعمال سے اللہ تعالیٰ کی یاد و عبادت کرنا حسبِ ارشادِ الٰہی گمراہی ہے۔

۲)تکمیل دین کے بعد احداث (محدثات) ذکر و عبادتِ الٰہی کے ان طریقوں کو کہا جائے گا جو نہ الٰہی تعلیم ہیں اور نہ نبویؐ طریقہ کار ہیں بلکہ ذہن انسانی کی اختراع و ایجاد کئے گئے ہیں۔ بہ زبان رسالت ﷺ یہی ضلالت و گمراہی ہے اور یہ بدعت ہے۔

۳) تکمیل دین کے بعد ایسے تمام خود ساختہ طریقے ضرر رساں ہیں۔ یعنی ان سے نہ تقویٰ حاصل ہوگا اور نہ نفس کا تزکیہ ہوگا اور نہ قلب کی تطہیر ہوگی اور نہ رحمتِ الٰہی نازل ہوگی اور نہ غضبِ الٰہی سے حفاظت ہوگی اور نہ زندگی کے معاملات و کاروبار میں خیر و برکت حاصل ہوگی اور جو بلحاظِ انجام آخرت نقصان رساں ہیں۔

۴)الٰہی تعلیم اور نبویؐ طریقہ کار ہی نفع بخش ہے۔ مدارج تقویٰ تزکیہ اور زیادہ سے زیادہ خیر و برکت کے حصول کا یہی واحد طریقہ ہے۔

نفس مسئلہ کے تمام پہلو اچھی طرح ذہن نشین ہونے کے لئے رسول اللہ ﷺ کے حسبِ ذیل ارشادات کو بھی سامنے رکھئے :- (۱)فَاِنَّہٗ مَنْ یَّعْشَ مِنْکُمْ بعدی فَسَیَویٰ اِختلاف کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمْ بِسُنِّی وسنۃ الخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیْنَ تَمتکُوا بِھَا وَعَضُّوا عَلَیْھَا بِاالنَّواجِد وَاِیَّاکُمْ وَمَحدثاتٍ الْاُمُورِ فَاِنَّ کُل مُحدثۃٍ بِدعہ وَکُلَّ بدعہ ضَلَالۃٌ (احمد‘ ابوداؤد‘ ترمذی) ترجمہ: (پس میرے بعد تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ عنقریب کثیر اختلاف دیکھے گا (اور اس اختلاف کے دور میں) تم پر لازم ہے کہ میرے طریقے اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی روش پر جمے رہو اور اس کو دانتوں سے مضبوط پکڑو اور بچو نئے نئے طریقوں سے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے) ابو داؤد کی حدیث میںاتنا اضافہ ہے۔ ’’کُلُّ ضَلَالَۃٖ فِی النَّارِ‘‘ (ہر بدعت کا انجام نار ہے) (۲)  مَنْ عَمِلَ عَمَلا لَیْسَ لَہٗ اَمرُنَا فَھُوَرَدٌّ (مسلم) ترجمہ: (جس نے (دین سمجھ کر) ایسا کام کیا جس کے تعلق سے ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ رد کردینے کے قابل ہے) (۳) تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمَرَیْنِ لَنْ تُضِلُّوْا مََاتَمَسَکْتُمْ بِھِمَا کِتٰبٌ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ رَسُوْلِہ (موطا) ترجمہ: (میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں جب تک تم ان کو پکڑے رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہو گے اور وہ ہیں کتاب اللہ اور اس کے رسولؐ کی سنت) (۴) عَنْ عَبداللّٰہ ابْنِ مَسْعُود قَالَ خَطَّ لَنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ َصَّلی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَّا ثُمَّ قَالَ ھٰذَا سَبِیْلُ اللّٰہِ ثُمَّ خَطَّ خُطُوْطًا عَنْ یَّمِیْنِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ وَقَالَ ھَذِہٖ سلٌ عَلٰی کُلِّ سَبِیْل مِّنْھَا شَیْطَانٌ یَّدْعُوْ اِلَیْہِ وَتَدْعَ وَاَنْ ھَذا صِرَاطِ مُّسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہٗ(الایہ) (رواہ) (احمد والدارمی و النسالی) ترجمہ: (عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے (سمجھانے کے لئے) ایک سیدھی لکیر کھینچی پھر فرمایا یہ اللہ کی راہ ہے اور پھر اس کے دائیں اور بائیں بہت سی لکیریں کھینچیں اور فرمایا کہ (متفرق) راہیں ہیں‘ (ان میں کی) ہر راہ پر شیطان ہے جو ان (راہوں) کی طرف بلاتا ہے اور یہ آیۂ کریمہ تلاوت فرمائی جو اوپر حدیث میں بیان ہے، یہ میری راہ سیدھی راہ ہے پس اسی پر چلو۔ (الاّیہ)

علاوہ ازیں اس مسئلہ میں رسول اللہ ﷺ کی تعلیم کو کماحقہٗ سمجھنے کے لئے آپ کے حسبِ ذیل ارشادات بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ محدثینؒ نے جن کو اعتصام بالکتاب و سنّت اور بدعت ہی کے سلسلہ میں لکھا ہے۔ مَنْ فارق الجماعۃ شبرا فَقَدْ خلع ربقَۃَ الْاِسْلَامِ مِنْ عُنْقِہِ (احمد و ابوداؤد) ترجمہ: (جو جماعت سے ایک بالشت ہٹ گیا اس نے اسلام کی رسی اپنے گلے سے نکال دی) اس ارشاد میں جماعت سے مراد وہ جماعت ہے جس نے اللہ و رسولؐ کے زیر نگرانی تعلیم و تربیت پائی یعنی صحابہ کرامؓ کی جماعت۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا عقیدہ و عمل صحابہ کرامؓ کے عقیدہ سے ہٹا ہوا ہوگا وہ صحیح معنوں میں مسلمان نہیں کیونکہ اسلامی برادری یعنی امت محمدی کا صحیح صحیح نمونۂ صحابہ کرامؓ ہی ہیں۔ اب اگر امورِ دینیہ میں کسی کی دانش و بینش صحابہ کرامؓ کی دانش و بینش کے مطابق نہیں تو وہ حاملِ سنت و جماعت نہ ہوگا بلکہ متبع بدعت ہوگا۔بخاری کی روایت ہے کہ تین لوگ اللہ کے پاس مقبول نہیں ہیں۔ ازاں جملہ ایک وہ شخص ہے جو اسلام میں طریقہ جاہلیہ کا طالب ہے۔ الفاظِ حدیث یہ ہیں۔ وَمُبْتَغِ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃَ الجَاہِلِیَّہ(بخاری) اس ارشاد میں ’’سنت الجاہلیہ‘‘ سے مراد ذکر و عبادتِ الٰہی کے وہ تمام طریقے جو قبل اسلام ذہن انسانی کی اختراع تھے۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ اسلام کے بعد اگر کوئی شخص ذکر و عبادت کے ایسے نئے طریقے رائج کرے گا وہ عنداللہ مبغوض (غضبِ الٰہی کا مستحق) ہوگا۔ علاوہ ازیں یہ ایک اہم واقعہ بھی قابلِ غور ہے :- وَعَنْ جَابر عن النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حین اتاہُ عمر فَقَالَ اِنَّا تَسْمَعُ اَحَادِیْثُ من یَھُوْدَ تعجبنا افتری ان نکتب بَعْضُھَا فَقَالَ امتھوکون اَنْتُمْ کَمَا تھولت الیھُوْدُ وَالنَّصَارٰی لَقَدْ جِئْتُکُمْ بِھَا بَیْضَآئِ فقِیَّۃ وَلَوْ کَانَ مُوْسٰی حَیَّا وَسِعَہُ اِلَّا اتبَاعِیْ:  جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ (سیدنا) عمرؓ، رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور عرض کی کہ ہم یہود سے بعض (پند و نصیحت) کی باتیں سنتے ہیں۔ اگر آپؐ کا ارشاد ہو تو ہم بعض باتیں لکھ لیا کریں۔ (آپؐ نے فرمایا) کیا تم اسی طرح حیران ہوتے ہو جس طرح کہ یہود و نصاریٰ (اپنے پاس کی انبیائی تعلیم کھوکر) حیران ہوگئے۔ بے شک میں تمہارے پاس ایک روشن شریعت لے کر آیا ہوں (جس کی موجودگی میں تقویٰ و تزکیہ کے لئے تم کو ادھر اُدھر جانے کی ضرورت نہیں) اگر آج موسیٰؑ بھی زندہ ہوتے تو میری اتباع کے بغیر ان کے لئے کوئی چارہ نہ تھا) مطلب یہ ہے کہ شریعت کی جامع و مکمل تعلیم کے بعد تقویٰ و تزکیہ کے لئے ذکرِ الٰہی اور عبادتِ الٰہی کے دوسرے تمام طریقے پسندیدۂ حق نہیں۔

صحابہ کرامؓ ان ارشادات کا کیا مطلب سمجھتے تھے اور ان کی روشنی میں وہ کن باتوں کو بدعت قرار دیتے تھے، آئندہ سطور میں اس پر روشنی ڈالی جائے گی۔

بالفعل رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے اس واقعہ کو سامنے رکھیئے۔ روایت طویل ہے اس لئے صرف ترجمہ لکھ دیا جاتا ہے :- ’’انسؓ سے روایت ہے کہ تین اصحابؓ نبی کریمﷺ کی عبادت کی کیفیت دریافت کرنے کے لئے آپؐ کی بی بیوں کے پاس تشریف لائے جب ان کے سامنے آپؐ کی عبادت کی کیفیت بیان کی گئی تو انہوں نے (اپنے لئے) اس کو بہت کم سمجھا اور آپس میں کہنے لگے کہ ہم نبی کریمﷺ کے برابر تو نہیں ہوسکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں (لہٰذا بخشش کے لئے ہم کو اور زیادہ عبادت کرنی چاہیئے) پس ان میں سے ایک صحابیؓ نے کہا کہ میں ہمیشہ تمام رات نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے صحابیؓ نے کہا کہ میں ہمیشہ مسلسل روزے رکھا کروں گا اور کبھی ناغہ نہ کروں گا۔ تیسرے صحابیؓ نے کہا کہ میں ہمیشہ عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی نکاح نہ کروں گا جب رسول اللہ ﷺ کو اس واقعہ کی خبر پہنچی تو آپ ان کے پاس گئے اور پوچھا کہ تم لوگوں نے ایسا ایسا کہا؟ اور فرمایا اللہ کی قسم میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سے زیادہ اللہ کے نزدیک متقی ہوں مگر میں کبھی روزہ رکھتا ہوں کبھی نہیں رکھتا۔ رات کو سوتا بھی ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پس جس نے منہ موڑا میری سنت سے وہ میرا متبع نہیں‘‘ (متفق علیہ) اس واقعہ میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ نفل نمازیں اور نفل روزے آپؐ کے عمل سے ثابت ہیں مگر اس میں اپنی طرف سے اتنا اضافہ کہ رات کی چند ساعتوں میں سنت کے مطابق نماز پڑھنے کی بجائے ساری رات نماز پڑھنے کا عزم کرلینا اور اسی طرح رمضان کے سواء کبھی کبھی روزے رکھ لینا بھی آپؐ کے عمل سے ثابت ہے۔ اس میں صرف اتنا اضافہ ہے کہ مسلسل ہمیشہ روزے رکھنے کا عزم کرلینا نبی کریمﷺ نے گوارا نہیں فرمایا اور صاف صاف اعلان فرمادیا کہ ایسا شخص جو میرے طریقے کے مطابق عبادت نہیں کرتا وہ میرا متبع نہیں ہے اور نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی فرمادیا کہ جو میرے طریقے کے خلاف کوئی کام کرتا ہے وہ بھی میرا متبع نہیں ہے۔ یعنی یہ کہ شادی کرنا آپؐ کا طریقہ ہے اور شادی نہ کرنا طریقۂ نبویؐ کے خلاف ہے۔ مزاجِ اسلامی کی نزاکت و لطاقت کو سمجھنے کے لئے اس واقعہ میں بڑا درس ہے کہ آپ کی نفل نمازوں اور روزوں میں کسی کا اپنی طرف سے اضافہ بھی گوارا نہیں کیا گیا۔ جب صورتحال یہ ہو تو پھر ایسے عقیدے گھڑلینا اور ذکر و عبادت کے ایسے طریقے تجویز کرلینا جو سرے سے شارع علیہ السلام کی تعلیم ہی نہ ہو وہ کیونکر پسندیدہ حق ہوگا۔ نفل عبادت کی جو ترغیب و تحریص ہے‘ اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ تقویٰ و تزکیہ زیادہ سے زیادہ حاصل ہو۔ مذکورہ بالا واقعہ سے یہ امر متحقق ہوتا ہے کہ ایسی نفل عبادتیں بھی جن کا سنت ہونا ثابت ہو وہ بھی اگر طریقہ نبویؐ کے مطابق نہ ہوں گی تو نہ تقویٰ و تزکیہ حاصل ہوگا اور نہ رحمتِ الٰہی کے مستحق ہوں گے بلکہ اللہ و رسولؐ کی ناراضی کا موجب ہوگا۔

مذکورہ بالا تمام تصریحات سے لفظی‘ لغوی مباحث میں اور منطقی موشگافیوں میں اور فلسفیانہ الجھنوں میں مبتلا ہوئے بغیر بدعت جس کو ضلالت کہا گیا ہے۔ اُس کی حسبِ ذیل تعریف ثابت ہوتی ہے۔

بدعت کی تعریف

تقویٰ و تزکیہ حاصل ہونے‘ رحمتِ الٰہی کا مستحق بننے‘ غضبِ الٰہی سے بچنے‘ دنیاوی معاملات و کاروبار میں خیر و برکت حاصل ہونے‘ دنیا و آخرت کی مشکلات سے محفوظ رہنے‘ ثواب و مغفرت‘ جنت و درجاتِ جنت کا مستحق بننے کے لئے ایسے عقائدپیدا کرلینا جن کی تعلیم قرآن میں ہو نہ ارشاداتِ رسولؐ میں اور متذکرہ مقاصد کے حصول کے لئے ذکرِ الٰہی‘ ذکر نبیؐ کے ایسے طریقے ایجاد و اختراع کرنا جن کے متعلق نہ نبویؐ تعلیم ہو‘ نہ نبویؐ طریقہ ا ور نہ صحابہ کرامؓ کی روش‘ ایسا ہر عقیدہ و عمل بدعت ہے۔ اسی کو گمراہی‘ ضلالت فرمایا گیا ہے۔

بدعت کی وہ تعریف ہے جو بالکلیہ رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سے متعین ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایسی باتیں کہ ’’شیروانی پہننا بھی کیا بدعت ہوجائے گا؟ ریل و ہوائی جہاز میں سفر کرنا بھی بدعت ہے۔ کیا رومی ٹوپی پہننا بھی بدعت ہے؟ کیا موٹر میں بیٹھنا بھی بدعت ہے۔‘‘ وغیرہ اہلِ عقل تصفیہ کریں کہ کتنے مہمل سوالات اور کتنی مہمل باتیں ہیں۔

نوٹ:- یہاں ایک مغالطہ پیدا ہونے کا امکان ہے، اس لئے قبل از قبل اس کو رفع کردیا جاتا ہے چونکہ بدعت کو بھی ضلالت فرمایا گیا ہے اس لئے ضلالت کا مفہوم واضح ہونے کے لئے چند قرآنی آیات ابتداء میں پیش کی گئی ہیں۔ ناظرین اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ بدعت بھی بالکلیہ ویسی ہی ضلالت ہے جس کو قرآن میں شرک و کفر کہا گیا ہے اور ہر بدعتی مشرک و کافر ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ایک ضلالت وہ ہے جو قبل ایمان ہے جس کا قرآنی نام شرک و کفر ہے اور ایک ضلالت وہ ہے جو بعد ایمان ہے جس کا شرعی نام بدعت ہے جس طرح کافر و مشرک کو ’’ضال‘‘ تو کہیں گے مگر بدعتی نہ کہیں گے اسی طرح بدعتی کو بھی ضال تو کہیں گے مگر مشرک و کافر نہ کہیں گے۔ حسبِ ارشاد پیغمبر علیہ السلام‘ بدعتی کے لئے بھی نار (دوزخ) کی وعید ہے۔ ’’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃ وَکُلُّ ضَلَالہ فِی النَّارِ‘‘ اس لئے وہ ہر بندہ حق جس کے دل میں امت کے ہر بگاڑ کی اصلاح کا درد ہو وہ افرادِ امت کی اصلاح کی نیت سے حسب ارشاد پیغمبر علیہ التحیۃ والسلام‘ وعید نار ہی کو پیش کرے گا۔ اس مسنون طریقہ اصلاح کی یہ غلط تعبیر کرنا اور لوگوں کو یہ مغالطہ دینا کہ وہ مسلمانوں کو دوزخی قرارا دیتا ہے۔ عقل و دانائی کی بات نہیں ہے۔ کوئی بندہ حق یہ جرأت ہی نہیں کرسکتا کہ وہ محاسبۂ اعمال کی کرسیٔ عدالت پر بیٹھ کر یہ آخری فیصلہ صادر کردے کہ فلاں فلاں دوزخی ہے۔

اب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم‘ تابعین‘ تبع تابعین‘ ائمہ حدیث و فقہ مجددین وقت علیہ الرحمہ کے چند ایسے واقعات پیش کئے جاتے ہیں جن سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان اصحاب کے پاس بدعت کا کیا مفہوم تھا اور وہ کن اعمال کو ناجائز و بدعت کہتے تھے۔

(۱)ایک بار ابو بکرؓ نے ایک عورت کو دیکھا کہ خاموش ہے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اس نے خاموش حج کرنے کا ارادہ کرلیا ہے‘ آپؓ نے اس کو فوراً منع کیا اور کہا یہ جائز نہیں ہے اور یہ کہ یہ جاہلیت کا کام ہے (بخاری‘ باب ایام جاہلیہ)۔

(۲)قرن اولیٰ میں غلافِ کعبہ کے متعلق یہ عمل تھا کہ متولی کعبہ‘ اس کو زمین میں دفن کردیا کرتا تھا تاکہ وہ ناپاک انسانوں کے استعمال میں نہ آئے۔ شیبہ بن عثمان نے جو اس زمانہ میں کعبہ کے کلید بردار تھے۔ سیدہ عائشہؓ سے یہ واقعہ بیان کیا تو انہوں نے سمجھ لیا کہ غلاف کعبہ کی یہ تعظیم غیر شرعی ہے کیونکہ اللہ اور رسولؐ نے اس کا حکم نہیں دیا اور ممکن ہے کہ آئندہ اس سے سوئِ اعتقاد اور بدعات کا سرچشمہ پھوٹے، اس لئے سیدہ عائشہؓ نے شیبہ سے کہا یہ تو اچھی بات نہیں، تم بُرا کرتے ہو، جب غلاف‘ کعبہ سے اترگیا اور کسی نے اس کو ناپاکی کی حالت میں استعمال کرلیا تو کوئی مضائقہ نہیں۔ تم کو چاہئے کہ بیچ ڈالو اور اس کی قیمت غریبوں اور مسافروں میں تقسیم کردو (عین الاصابہ بحوالہ سنن بیہقی)۔

(۳)ابن عمرؓ جب کسی کو دیکھتے تھے کہ دعا کے لئے ہاتھ بہت زیادہ اٹھایا ہے تو فرماتے کہ یہ بدعت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا کے وقت ہاتھ سینے سے زیادہ اونچا نہیں کئے (احمد)۔

(۴)سیدنا علیؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز عید سے پہلے نفل نماز پڑھ رہا ہے۔ فرمایا کیوں عذاب کا کام کررہا ہے۔ اس نے کہا کیا نماز پڑھنے سے بھی عذاب ہوتا ہے؟ سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ نماز پر عذاب نہیں ہوگا مگر سنت کی مخالفت پر عذاب ہوگا (انوار اللغۃ مولفہ وحید الزماں)۔

(۵)عبداللہ بن عمرؓ کا واقعہ ہے کہ آپؓ ایک مسجد سے نکل گئے جہاں موذن نے اذاں کے بعد دوبارہ لوگوں کو پکارا۔ ’’الصلوۃ ایھا المؤمنون‘‘ آپ نے فرمایا اس بدعتی کے پاس سے نکل چلو (بحوالہ ایضاً)۔

(۶)سید احمد کبیر رفاعیؒ فرماتے ہیں کہ صوفیاء نے علم حق کی یہ جو تفریق کردی ہے کہ ’’ایک علم ظاہر ہے دوسرا علم باطن‘‘ یہ بدعت ہے۔

(۷)امام ابن جوزیؒ نے اپنی کتاب ’’تلبیس ابلیس‘‘ میں عبداللہ ابن مسعودؓ کا یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ آپؓ نے دیکھا کہ مسجد میں کچھ لوگ بعد مغرب حلقہ باندھ کر ایک خاص ترتیب سے ذکر کررہے ہیں یعنی ایک مقررہ تعداد سے اللہ اکبر اور تسبیحات پڑھ رہے ہیں تو آپ نے ان پر برہمی کا اظہار کیا اور فرمایا قسم ہے اس معبود کی جس کے سواء کوئی معبود نہیں ہے۔ تم نے بڑا ظلم کیا جو یہ بدعت نکالی۔ اس واقعہ کو امام دارمیؒ نے جو امام بخاری کے ہمعصر تھے نقل کیا ہے۔ اس واقعہ سے ظاہر کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے ذکر و تسبیح کو بدعت نہیں قرار دیا بلکہ ذکر و تسبیح کا ایک خاص طریقہ جو اپنے طور پر تجویز کرلیا گیا تھا۔ اس کو بدعت فرمایا۔ نیز سیرت و آثار کی کتابوں میں تابعین و تبع تابعین کے ایسے کئی واقعات ملتے ہیں کہ یہ اصحابؓ جب کسی عمل کو نبویؐ طریق اور روش صحابہ کرامؓ کے مطابق نہ دیکھتے تو اس کو بدعت قرار دیتے۔

(۸)ترمذی میں نافعؓ سے روایت ہے کہ اِنْ رَجلًا عطس الی جنبٍ ابنُ عمر قَالَ الحمد اللّٰہ وَالسَّلامُ عَلٰی رَسُوْلُ اللّٰہ قَالَ ابنُ عمر انا اَقْوال الحمد للّٰہ وَالسَّلامُ عَلٰی رَسُوْلُ اللّٰہ وَلَیْسَ فکذَا علمنا رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ علمنا اِن نقول الحمد للّٰہ عَلٰی کُل حالِ‘‘(مشکوٰۃ) ترجمہ: (ایک شخص عبداللہ ابن عمرؓ کے پہلو میں کھڑے ہوئے چھینکا اور کہنے لگا الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ‘ ابن عمرؓ نے فرمایا یہ بات تو میں بھی کہتا ہوں لیکن رسول اللہ نے ہمیں اس طرح نہیں سکھایا ہے بلکہ یوں سکھایا کہ ہر حال میں الحمد للہ کہیں) غور کیجئے کہ ’’وَالسَّلامُ عَلٰی رَسُوْلُ اللّٰہ‘‘جیسا پاکیزہ جملہ کو ابن عمرؓ نے پسند نہ فرمایاکیونکہ چھینک کے بعد صرف ’’الحمد اللّٰہ‘‘کہنا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے اور اسی پر اکتفا کرنا ہی دین کا تقاضہ ہے۔ اس تقاضہ کو آپؓ نے رسول اللہ ﷺ ہی سے سمجھا تھا۔

(۹)ذوی النونؒ جو تبع تابعین کے آخری دور کے بزرگ تھے ان کے پاس بعض علماء آئے اور ذوی النونؒ سے نفسانی خطرے اور شیطانی وساوس کی حقیقت دریافت کی تو ذوی النونؒ نے فرمایا یہی گفتگو بدعت ہے۔ تم نماز کے مسائل یا احادیث دریافت کرو (بحوالہ تلبیس ابلیس)۔

ائمہ مجتہدین‘ امام شافعی‘ امام احمد حنبل وغیرہ ہم علم کلام اور کلامی مسائل کو اور کلامی انداز میں دینی مسائل کی تفہیم کو بدعت کہتے ہیں اور اہلِ کلام کی صحبت میں بیٹھنے سے لوگوں کو منع کرتے تھے کیونکہ دینی مسائل کی افہام و تفہیم کا کلامی طریقہ نبویؐ طریقہ نہیں ہے۔

مجدّد الف ثانیؒ نے اپنے مکتوبات میں صوفیاء کے نکالے ہوئے ذکر و مراقبے کے تمام طریقوں کو اختراع و بدعت لکھا ہے۔ ان واقعات سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اصحاب خیر القرون یا بعد کے اہلِ تحقیق کے پاس بدعت کا وہی مفہوم تھا جو کتاب ہذا کے صفحہ (۶) پر بیان کیا گیا ہے۔

مذکورہ تفصیل کے بعد اب ان تمام علمی اور علمی بدعات کو بیان کیا جاتا ہے جو صدیوں سے اہلِ سنت والجماعت کی زندگیوں میں جاری و ساری ہیں دانستہ ہوں یا نادانستہ اور جن کی وجہ سے اہلِ سنت و جماعت پر بھی صحیح معنوں میں اہل سنت و جماعت ہونے کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ وہ ’’مَااَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ کے معیار پر پورے نہیں اترتے جو ہدایت و گمراہی کو سمجھنے کا واحد معیار ہے جس کو رسول اکرم ﷺ نے امت کے ہاتھ میں دیا۔

علمی و عملی بدعات کی تفصیل

(۱)وحدت الوجود کا عقیدہ یعنی یہ سمجھنا کہ خلق موجود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی ذات پر جیسے کے ویسے قائم رہ کر بصورت خلق ظاہر ہوئے ہیں، اس لئے حقیقتاً موجود اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔ مخلوق پردہ ہے اور اس پردہ میں اللہ تعالیٰ ہی جلوہ گر ہیں۔ ایک لحاظ سے وہی خالق ہیں اور ایک لحاظ سے وہی مخلوق ہیں‘ وہی عابد ہیں‘ وہی معبود ہیں۔ ان تصورات کو قرب و کمالِ دین کی بات سمجھنا علمی بدعت ہے چاہے مذکورہ عقیدہ تنزّلات ستّہ کی اصطلاح میں پیش کیا جائے چاہے حق تعالیٰ کی قُرب و معیت اور اس کے اسمائے حسن المحیط‘ القیوم‘ الاول الاخر‘ الظاہر‘ الباطن کی تفسیر میں بیان کیا جائے اور اس کو قرآنی معارف کا نام دیا جائے۔ نیز وحدت الشہود اور اس کی تفصیلات۔

اس عقیدہ کے تحت انائے واحد‘  وجودِ واحد‘  یافت  و  شہودِ حق (دید حق‘ وصالِ حق) کی مشق اور یافت و شہودِ حق کا مقام حاصل ہونے کے لئے ذات و صفاتِ حق کے مراقبے‘ ذکر و شغل کے طریقے جو بزرگانِ دین کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں عملی بدعات ہیں اور ان لوگوں کو جن کے یہ عقائد و اعمال ہیں بعض ان عقائد و اعمال کی وجہ سے بزرگ‘ ولی‘ مقربِ حق محبوب حق سمجھنا اور ان کا ادب و احترام ایک کار خیر سمجھ کر کرنا بھی بدعت ہے۔

(۲)مذکورہ بالا عقیدے کے تحت اللہ تعالیٰ کو ان معنوں میں فاعل حقیقی سمجھنا کہ نیکی بھی وہی کرواتے ہیں‘ گناہ بھی وہی کرواتے ہیں اور اس کی مشق کے لئے جو ریاعتیں اور مشقیں اہلِ سلوک نے ایجاد کی ہیں وہ تمام بدعات ہیں اور جن کا اصطلاحی نام طریقت‘ حقیقت معرفت رکھا گیا ہے۔

(۳)علمِ کلام کے مسائل وہ یہ کہ صفاتِ حق‘ عین ذاتِ حق ہیں یا غیر ذاتِ حق ان مسائل کے جواب میں اہلِ کشف کا یہ تصفیہ کہ وہ عینِ حق بھی ہیں‘ غیر حق بھی ہیں۔ قضاء و قدر جزاء و سزاء کے کلامی مسائل اللہ تعالیٰ کے متعلق اہلِ کشف کا یہ بیان کہ اللہ تعالیٰ عین خلق ہیں یا عینِ خلق بھی ہیں اور غیر خلق بھی ہیں یا یہ کہ ذات ایک‘ وجود ایک یا ذات ایک‘ وجود  دو۔ اور اسی قسم کے تمام مسائل کو دینی مسائل سمجھنا یا ان کو قرآنی و نبویؐ تعلیم کا ایک جز قرار دینا اور ان ہی مسائل میں مشغول و منہمک رہنا۔

(۴)شریعت اور محبت میں فرق پیدا کرنا اور محبت کے نام سے غیر مسنون اعمال بجالانا۔ مسنون اعمال کو ترک کردینا۔ حقیقت‘ طریقت‘ معرفت کی اصطلاحات‘ ان اصطلاحات کے تحت جو تعلیم دی جاتی ہے اس کو شریعت کے سواء سمجھنا یا ان کو شریعت کی تفصیل قرار دینا۔ علم ظاہر اور علم باطن کی تفریق اور مذکورہ عقائد اور اعمال کو علم سینہ یا علم لدنی قرار دینا‘ سرِّ تخلیق کی اصطلاح کے تحت یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کمالات کے اظہار کے لئے مخلوق کو پیدا کیا‘ کشف و الہام کے مطابق ارشاداتِ اللہ و رسولؐ کی تاویل کرنا اور کشف و الہام ہی کو معیارِ حق قرار دینا‘ آیات متشابہات کی تاویل و تعبیر میں منہمک ہونا اور یہ سمجھنا کہ آیات متشابہات ہی علم و عرفان کا سرچشمہ ہیں۔ آیات متشابہات یا حروف مقطعات کی خبیر و توجہہ کرنے والوں کو بڑا عالم ربانی سمجھنا اور امور غیبیہ کے مشاہدہ کامطالبہ اور اس کے حصول کے لئے تجرید روحی کے مشاغل اور اس کے حصول کے تمام طریقے‘ امور غیبیہ جس کو نظر آئیں (جو کہ ہرگز ممکن نہیں) اس کو عالم ربانی سمجھنا۔

(۵)ذکر سلطانی یعنی یہ کہ ہر بن مو سے ’’اللہ اللہ‘‘ کی آواز سنائی دے۔ ذکرِ قلبی یہ کہ قلب کی حرکت سے ’’اللہ اللہ‘‘ کی آواز آئے‘ کشف و کرامات کی خواہش و طلب اور ان اغراض کے لئے ذکر کے مجوزہ طریقے گوشہ نشینی‘ ترک علائق‘ ترک حیوانات‘ ترک مباحات‘ نظر بند‘ گوش بند‘ لب بند جیسے مجاہدے‘ چلہ کشی وغیرہ۔

(۶)کلامِ الٰہی کی ایک ایک آیت کے کئی کئی مطالب بیان کرنا اور کئی کئی مطالب بیان کرنے والے کو بڑا علّامہ سمجھنا یا صرف دین کے جزوی مسائل جن کا تعلق اعمالِ دینیہ کے جزئیات سے ہے ان کے جاننے والے ہی کو بڑا عالم دین سمجھنایا اسی کو انبیائی علم و بصیرت کا حامل سمجھنا اور ایسے لوگوں کی بصیرت پر اعتماد کرنا۔

(۷)فناء فی اللہ‘ باقی باللہ‘ سیرالی اللہ‘ سیر باللہ اور سیر فی اللہ کے عنوانات کے تحت جو حقائق بیان کئے جاتے ہیں ان کو حقائق دینیہ سمجھنا‘ تصورِ شیخ یا فنافی الشیخ و فنا فی الرسول کی تعلیم۔

(۸)ایصالِ ثواب کے تمام مجوزہ طریقے مثلاً سیوم‘ چہلم‘ برسی‘ ختمِ قرآن کے اجتماعات‘ میت کے سینے پر کلمہ طیبہ لکھنا‘ سرمہ لگانا‘ میت کے ساتھ غلافِ کعبہ رکھنا‘ شجرہ بیعت رکھنا‘ نماز جنازہ کے بعد فاتحہ پڑھنا‘ پھولوں کی چادر اوڑھانا‘ جنازہ کے ساتھ تکبیر و تسبیح بالجہر پڑھنا۔ مولود خوانی آب زمزم میں کفن بھگو کر رکھنا‘ دفن کے بعد اذان اور پھر فاتحہ‘ چالیس قدم کے بعد مکرر فاتحہ مقام وفات پر چالیس (۴۰)دن چراغ جلانا‘ میت کے نام پر چالیس (۴۰)دن کھانا کھلانا‘ قبر میں توشہ رکھنا‘ 3دن کے بعد اگر کوئی خوشی کی تقریب کا موقع آئے تو نہ کرنا‘ شعبان کی چودہ (۱۴)تاریخ کو میت کے نام پر یا مردوں کے نام پر حلوہ روٹی پکا کر تقسیم کرنا اور یہ سمجھنا کہ اس کے بغیر میت کا شمار مردوں میں نہیں ہوتا اور یہ سمجھنا کہ شعبان کی مقررہ تاریخ کو روحیں آتی ہیں۔

(۹)شادی کی ابتداً بی بی کی صحنک سے یا مولود خوانی سے کرنا‘ کم سے کم مہر کو ہی شرعی مہر سمجھنا‘ دفع بلا کے لئے دلہا‘ دلہن کو یا سفر پر جانے والے کو امام ضامن باندھنا‘ دلہا‘ دلہن پر بکرا یا مرغ صدقہ کرنا‘ دلہا‘ دلہن پر سے روپئے پیسے صدقہ کرنا (وارن پھیرن) و آر سی مصحف کی رسم‘ دلہن کے گھر جانے سے پہلے دلہا کو کسی مسجد میں لے جاکر نماز پڑھوانا (خواہ دلہا نے عمر بھر کبھی نماز نہ پڑھی ہو)‘ خطبۂ نکاح کے بعد فاتحہ پڑھنا‘ مہر کا ایک جز و دینار یا درہم مقرر کرنا‘ کارِ خیر سمجھ کر بسم اللہ خوانی کی تقریب یا دفع بلا کے لئے سالگرہ کی تقریب۔

(۱۰)اہلِ بیت کے نام سے محرم میں عَلم بٹھانا‘ ان کی تعظیم کرنا یعنی ان کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا‘ سر جھکانا‘ محرم کو ماتم کا مہینہ سمجھنا اور اس ماہ میں خوشی کی کوئی تقریب انجام نہ دینا‘ بچوں کو سبز کپڑے پہنانا‘ دسویں محرم کو اہل بیتؓ کی محبت کے اظہار میں رونا‘ محرم میں کارِ ثواب سمجھ کر شربت کچھڑی‘ روٹ‘ چونگھے پکاکر کھانا اور کھلانا‘ سبز و سیاہ کپڑے وغیرہ پہننا‘ مجالسِ غم‘ ذکرِ اہلِ بیتؓ منعقد کرنا‘ محرم کی دس (۱۰)تاریخ تک گوشت نہ کھانا‘ عورتوں کا بناؤ سنگھار نہ کرنا‘ میاں بیوی کا الگ رہنا۔

(۱۱)ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا‘ تیرہ (۱۳)تاریخ مختلف طریقوں سے صدقہ نکالنا‘ اس ماہ میں آخری چہارشنبہ منانا۔

(۱۲)ماہ ربیع الاول میں بارھویں کرنا‘ سیرت‘ آثار و میلاد کے جلسے کرنا‘ چراغاں کرنا‘ بارہ (۱۲)تاریخ کی شب میں خصو صیت سے شب بیدار رہنا‘ نمازیں پڑھنا‘ روزہ رکھنا‘ یومِ ولادت مبارکہ کو عید الاعیاد‘ عیدِ میلاد کہنا‘ خصوصیت سے اس ماہ میں درود و سلام زیادہ پڑھنا اور اس مہینے میں مولود خوانی کے جلسے کرنا‘ نبی کریم ﷺ پر سلام پڑھتے وقت کھڑا ہوجانا یا کھڑے ہو کر سلام پڑھنا‘ بارہ مجلسیں مقرر کرنا۔

(۱۳)ربیع الثانی میں گیارہویں کی تقاریب و مجالِ ذکر‘ صلوٰۃ غوثیہ اور ماہ ربیع الاول و ربیع الآخر کو متبرک سمجھ کر ان میں بیویوں سے قربت نہ کرنا۔

(۱۴)رجب کے کُنڈے‘ کھیر پوریاں‘ ۲۷؍رجب کو شبِ معراج کے جلسے اور شب بیداری کا اہتمام اور ۲۷؍رجب کو روزہ رکھنا۔

(۱۵)مساجد میں شب برأت کا اہتمام‘ شب بیداری کے جلسے تمام رات شب بیداری کا لزوم‘ نماز میں سورتوں اور ان کی تعداد کا تعین‘ روحیں آنے کے خیال سے چراغاں کرنا‘ شعبان کی چودہ و پندرہ تاریخ کو فجر کی نماز کے بعد یا بوقت مغرب قبروں پر جاکر پھول چڑھانا‘ فاتحہ پڑھنا‘ ۱۵؍شعبان کے سواء ۱۴ تاریخ کو بھی روزہ رکھنا۔

(۱۶)بچوں کی روزہ رکھائی کو بطور ایک دینی تقریب کے انجام دینا‘ رمضان کی پہلی تاریخ کی خصوصیت سے نہا دھوکر کپڑے بدلنا‘ نماز تراویح میں بآواز بلند (بالجہر) اجتماعی طور پر ہر ترویحہ کے بعد تسبیح پڑھنا‘ اجتماعی طور پر شبینہ کا اہتمام یعنی متعدد حفاظ سے ایک ہی رات میں پورا قرآن سننا‘ نماز تراویح کے بعد انبیاء علیہم السلام پر صلوٰۃ و سلام بھیجنا‘ مساجد میں شب قدر پانے کے لئے شب بیداری کااہتمام کرنا۔

(۱۷)ذی الحجہ میں نویں ذی الحجہ کو یوم عرفہ منانا اور خصوصیت سے زیارت قبور کرنا یعنی اس دن اچھا کھانا‘ اچھا پہننا‘ غیر حاجی کا پہلی ذی الحجہ سے ۱۰؍ذی الحجہ تک احرام باندھنا‘ حج کے لئے اونٹ ہی پر سفر کرنے کو ضروری سمجھنا‘ رمی جمار میں کنکریوں کی بجائے بڑے بڑے پتھر پھینکنا۔

(۱۸)نماز عصر و فجر کے بعد اجتماعی طور پر فاتحہ پڑھنا‘ نذر و منت کے کھانے پر عود و لوبان جلا کر فاتحہ پڑھنا‘ نماز عصر و عشاء کے بعد اجتماعی طور پر حلقہ بناکر ذکر کرنا یا مساجد میں حلقے باندھ کر ذکر کرنا۔

(۱۹)مستحبات و مباحات کو لازم کرلینا‘ ذکر کے لئے نشست و مقام کا تعین‘ اذاںسنتے وقت ’’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘سن کر انگوٹھے چومنا اور آنکھوں پر ملنا۔

(۲۰)مجالس سماع اور وجد وحال‘ خودرفتگی و بے ہوشی‘ استغراق کی کوشش کرنا اور ان باتوں کو موجب قربِ الٰہی سمجھنا‘ وظائف و اوراد کے لئے نشستوں کا تعین اور خاص خاص ریاضتوںکی مشق‘ کلمہ طیبّہ کا ذکر‘ یک ضربی‘ دو ضربی‘ سہ ضربی‘ ختم خواجگان وغیرہ۔

(۲۱)عرس‘ چراغاں‘ بزرگوں کے قبور پر اجتماعات‘ قبور کی صندل مالی گلپوشی‘ ان پر غلاف چڑھانا اور اس غلاف کو نیز (چاہے) غلاف کعبہ کو متبرک سمجھنا‘ قبور پر گنبد بنانا‘ کسی بزرگ ہستی یا کسی تاریخی واقعہ کے یادگاری جلسے بعنوان یوم فلاں و یوم فلاں‘ مُنہیات کو ترک کرنے کی بجائے نوافل کااہتمام کرنا‘ آنکھ بند کر کے نماز پڑھنا‘ بہت جھک کر نماز پڑھنا‘ نماز میں خشوع و خضوع کے بجائے لطف و سرور و ذوق پیدا کرنے کی سعی کرنا‘ محویت و استغراق کو نماز کی خوبیوں میں شمار کرنا‘ بزرگوں و مرشدوں کی قدم بوسی‘ ان کے سامنے نماز کے قاعدہ کی طرح دو زانو بیٹھنا‘ ان کے دیوان خانوں‘ نشست گاہوں میں جوتا اتار کر جانا‘ ان سے مل کر پلٹتے وقت ان کی طرف پشت نہ کرنا‘ ان کے خلاف شرع باتوں پر اعتراض کرنے کو بُرا و بے ادبی سمجھنا‘ ان کے بچوں کی تعظیم و تکریم کرنا‘ ان سے پردہ کرنے کو بُرا سمجھنا۔

(۲۲)احکامِ اللہ و رسولؐ کی غلط تاویل کر کے بدعات کا جواز ثابت کرنا‘ بدعات سے روکنے والے کو وہابی کہنا۔ (ذہن نشین رہے کہ بدعتی شرعی لفظ ہے اور وہابی اختراعی لفظ ہے)۔

ایک بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ ذکر‘ عبادت‘ درود و سلام‘ سورہ فاتحہ‘ سورہ اخلاص کی تلاوت‘ اوراد  و  وظائف کو بدعت نہیں کہا جاتا ہے بلکہ ان کی انجام دہی کے لئے جو من مانی نئے طریقے نکالے گئے ہیں۔ مثلاً سلام کے وقت کھڑے ہوجانا‘ نمازوں کے بعد بالاجتماع‘ سورہ فاتحہ ایک مرتبہ سورہ اخلاص تین مرتبہ اور درود شریف ایک مرتبہ الفاتحہ کہہ کر پڑھنا‘ کلمہ طیبّہ کے ضربات وغیرہ۔ یہ ترتیب اور طریقے بدعت ہیں‘ نہ کہ نفسِ درود و سلام‘ نفسِ تلاوت سورہ فاتحہ۔ اس فرق کو نہ سمجھنے کا یہ نتیجہ ہے کہ عام طور پر لوگوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ فلاں ادارہ کے لوگ سورہ فاتحہ‘ سلام‘ ذکرِ الٰہی اور ذکرِ نبویؐ کو ہی بدعت سمجھتے ہیں۔ یہ ایک بڑا مغالطہ ہے۔

ذکر ذات و صفات کے بعض طریقے اور مراقبے جو بزرگوں کی طرف منسوب ہیں اور جس کو ان بزرگوں نے نیک نیتی سے ایجاد کیا اور غلط فہمی سے اس کو بدعت نہیں سمجھا، یہ ان کی اجتہادی غلطی تھی۔ اجتہادی غلطی قابلِ اصلاح ہوتی ہے۔ قابل اتباع نہیں ہوتی۔ یہ سمجھنا کہ بزرگوں سے غلطی نہیں ہوتی صحیح نہیں ہے نیز ہم کو صحابہ کرامؓ کی پیروی کا حکم ہے نہ کہ صاحبانِ کشف و کرامت کی پیروی کا۔

ان حضرات کو غلط فہمی یہ پیدا ہوئی کہ ذکرِ الٰہی کو مقصود بالذات سمجھا گیا اور اپنے طور پر یہ قرار دے لیا گیا کہ جب مقصود بالذات ذکر ہے تو جس طریقے سے بھی ذکر کیا جائے اس کو غیر مشروع طریقہ نہیں کہیں گے۔ حالانکہ جیسا کہ قبل ازیں عرض کیا گیا ہے کہ تعلیم الٰہی و تعلیم نبویؐ میں ذکر و عبادت کے طریقے ہی متعین کئے گئے ہیں اور انسان کے خود ساختہ طریقوں ہی کو ضلالت کہا گیا ہے چنانچہ کلام اللہ میں یہ تاکید بھی کردی گئی ہے کہ اللہ کا ذکر‘ کثرت سے ذکر کرنے والوں کو چاہیئے ذکر کے طریقے رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبّہ ہی سے حاصل کریں۔ ملاحظہ ہو آیت کریمہ :- لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًا۝۲۱ۭ (سورہ الاحزاب) ترجمہ: (یقینا تم میں جو رحمتِ الٰہی و آخرت کا طالب ہے اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا چاہتا ہے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے) صفحہ اول کی حدیث بالکلیہ اس آیت کریمہ کی ہم معنی ہے۔ مطلب صاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عارضی و ابدی رحمت کا مستحق بننے اور کثرت سے ذکر اللہ کے شائقین کے لئے طریقہ نبویؐ کے سواء اور کوئی طریقہ ذکر نفع بخش نہیں‘ راہِ ہدایت نہیں۔ وَاذْكُرُوْہُ كَـمَا ھَدٰىكُمْ۝۰ۚ وَاِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّاۗلِّيْنَ۝۱۹۸ (سورہ بقرہ) ترجمہ: (یاد کرو اس کو (اللہ تعالیٰ کو) جیسا کہ تم کو بتایا گیا ہے اور تحقیق تم تھے اس سے قبل گمراہوں میں سے) متذکرہ بالا آیت میں ان اصحاب کو جو ایمان لانے سے پہلے خانہ کعبہ کا حج کیا کرتے تھے‘ تاکید کی جاری ہے کہ تم مناسکِ حج رسولؐ کے بتلائے ہوئے طریقے پر ادا کرو۔ اس سے پہلے تم میں حج کی ادائی کے جو طریقے رائج تھے وہ چونکہ رسولؐ کے بتائے ہوئے نہ تھے اس لئے وہ اللہ کے پاس قابلِ قبول نہیں۔

یہاں قابل ذکر یہ امر ہے کہ اہلِ عرب رسول اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی مناسک حج وغیرہ صرف اللہ کے عذاب سے بچنے اور رحمتِ الٰہی کے مستحق ہونے کے لئے پورے اخلاص کے ساتھ انجام دیتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ رسولؐ کی بعثت کے بعد ان تمام طریقہ عبادات کو جو رسول وقت کے بتائے ہوئے نہ تھے نیت میں اخلاص ہونے کے باوجود گمراہی قرار دیا ہے :- يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ۝۳۳ (سورہ محمد) ترجمہ: (اے ایمان والو اللہ و رسولؐ کی اطاعت کرو ان کی نافرمانی کر کے اپنے تمام دیگر اعمالِ نیک کو برباد مت کرلو) مذکورہ بالا آیت میں اہلِ ایمان کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ یہ سلسلۂ جہاد‘ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی تعمیل بلا لحاظ ضرر جان و مال کیا کرو اگر ان کے احکام کی تعمیل نہ کرو گے تو تمہارے تمام اعمال برباد ہوجائیں گے۔ اس سے ثابت ہوا کہ صرف وہی دینی اعمال برباد نہ ہوں گے جو اللہ و رسول کی اطاعت میں نہ ہوں بلکہ دیگر وہ اعمال بھی جو اطاعت میں انجام پائے ہیں برباد ہوجائیں گے۔ وَاِنْ تُطِيْعُوْہُ تَہْتَدُوْا۝۰ۭ ۝۵۴ (سورہ النور) ترجمہ: (اور اگر اس کی (رسولؐ کی) اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤگے) یہاں حق تعالیٰ ہدایت کو رسول کی اطاعت سے مشروط فرمارہے ہیں۔ ثابت ہوا کہ جن امور میں اللہ و رسولؐ کے واضح احکام موجود ہونے کے باوجود اگر ان کی خلاف ورزی ہوتی رہے تو انجام کار ہدایت سے محرومی ہے جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ دینی اعمال سنتِ رسول اللہ ﷺ کے مطابق انجام دینا (اتباع) ہدایت ہے۔ زندگی کے دیگر معاملات میں اللہ و رسولؐ کے احکام کی تعمیل کرنا اطاعت ہے جو شخص رسولؐ کی اتباع و اطاعت سے انحراف کرے گا تو وہ ہدایت سے محروم ہوجائے گا۔ مندرجہ بالا تشریح کے تحت نیکی و ثواب سمجھ کر ایسے اعمال اختیار کرنا جس کے متعلق نہ رسولؐ کا حکم ہے اور نہ عمل تو ان پر ہرگز ہدایت کا اطلاق نہیں ہوسکتا، بلکہ یہی گمراہی ہے۔ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۝۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۝۰ۚ ۝۷ۘ (سورہ الحشر) ترجمہ: (اور جو کچھ تم کو رسول دیں اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ) اللہ کا ذکر و عبادت کرنے اور عذابِ الٰہی سے بچنے‘ رحمتِ الٰہی کے مستحق ہونے‘ تزکیۂ نفس و تطہیر قلب کے لئے جو طریقے رسول اکرم ﷺ نے بتائے ہیں صرف ان ہی کو اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے متعلق رسول کاحکم نہ ہو‘ منع ہے۔ چنانچہ آیت کے دوسرے جز ’’ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۝۰ۚ ‘‘ سے پہلے جز کی نہ صرف توثیق کی گئی بلکہ ان تمام طریقوں سے حکماً روکا گیا ہے جو سنت نہیں ہیں۔ وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا۝۱۱۵ۧ (سورہ النساء) ترجمہ: (اور جو شخص رسول کی مخالفت کرے گا بعد اس کے کہ امرِ حق ظاہر ہو اور مسلمانوں (صحابہؓ) کا راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرے تو ہم اس کو جو کچھ وہ کرتا ہے کرنے دیں گے اور اس کو جہنم میں داخل کریں گے جو بُری جگہ ہے۔

متذکرہ بالا آیت میں سبیل المؤمنین سے مراد صرف روشِ صحابہؓ ہے۔ ثابت ہوا کہ عذابِ الٰہی سے بچنے‘ رحمتِ الٰہی کے مستحق ہونے‘ تزکیۂ نفس اور تطہیر قلب کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جو روشِ صحابہؓ نہ ہو تو وہ اللہ کے پاس نہ صرف ناقابلِ قبول بلکہ الٹا موجب عذاب ہوگا۔ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَ۝۱۵۸ (سورہ الاعراف) ترجمہ: (پیروی کرو رسول اللہ ﷺ کی تاکہ تم ہدایت پاؤ) اگر کوئی ذکر و عبادت کرنے اور عذابِ الٰہی سے بچنے‘ رحمتِ الٰہی کا مستحق ہونے‘ تزکیۂ نفس اور تطہیر قلب کے لئے وہ اعمال اختیار کرے جو رسول اکرم ﷺ سے ثابت نہ ہوں تو وہ ہرگز ہدایت نہیں پاسکتا۔

علیٰ وجہ بصیرت عرض ہے کہ صدیوں سے ذکرِ الٰہی کے جو طریقے ومراقبے رائج ہیں مستند روایت سے کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ یہ نبوی تعلیمات یا طریقے ہیں اور جن بدعات کی تفصیل عرض کی گئی ہے جن کو ثواب وبرکت‘ تقویٰ اور تزکیہ کے لئے اختیار کیا گیا ہے، ان کو بھی مستند روایت سے کوئی یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ یہ صحابہ کرامؓ کی روش ہے یا نبوی تعلیم۔ (جاہلانہ تاویلات کا میدان بہت وسیع ہے)

بعض اہلِ علم نے اپنے زمانہ میں بدعتِ واجبہ اور مکروہ وغیرہ کے نام سے بدعت کے جو اقسام اختراع کئے ہیں وہ بھی صحیح نہیں ہیں کیونکہ ہر نئی چیز وہ بدعت نہیں جو ضلالت ہے۔ ملکی نظم و نسق کے لئے دنیاوی معاملات میں سہولت کے لئے حصولِ دین میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے اگر کوئی امور ایجاد کئے جائیں تو ان کو بدعت سمجھنا غلطی ہے۔ مثلاً سیدنا عمرؓ کے اولیات‘ حسابات کے لئے رجسٹرات کی ترتیب‘ محکمہ پولیس کا قیام‘ سنہ ہجری کا نفاذ‘ اسلامی سکوں کی اجرائی وغیرہ۔ اسی طرح تابعین کے دور میں قرآنی حروف پر اعراب لگانا یا دینی تعلیم کے لئے مدارس کاقیام وغیرہ آخر الذکر جیسے امور کے متعلق بعض حلقوں سے یہ آواز بلند ہوئی یہ بدعات ہیں یعنی اعراب لگانا اور مدارس میں دین کا قیام وغیرہ۔ حالانکہ غیر عربی دانوں کی سہولت کے لئے قرآنی حروف پر اعراب لگائے گئے اور حصولِ علم میں سہولتیں پیدا کرنے کے لئے مدارس کا قیام عمل میں لایا گیا کیونکہ رعایا کی سہولت کے لئے یہ اور اس جیسے امور ضروری تھے۔ ان امور پر بدعات کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جبکہ یہ کہا جاتا کہ مقرب قرآن پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے یا یہ کہا جاتا کہ یہ موجب ثواب ہے اور غیر معرب پڑھنے کا ثواب کم یا یہ کہا جاتا ہے کہ مدارس میں تعلیم پانے کا ثواب زیادہ ہے یا موجب ثواب ہے تو بے شک یہ امور بدعات میں داخل ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ امت کی سہولت و ضرورت کے مد نظر اگر کوئی ایسا طریقہ جاری کیا جائے جو عہد رسالت ﷺ اور دورِ صحابہؓ میں نہیں تھا تو اس کو بدعت نہیں کہہ سکتے جن حلقوں میں ایسے امور پر بھی بدعت ہونے کا اعتراض کیا گیا، ان کا مسکت جواب صرف اتنا ہی تھا کہ اس زمانے کے اہلِ علم نے سنجیدگی کے ساتھ اعتراض کی ناواجبیت پر غور نہیں کیا اور اعتراض کو صحیح سمجھ لیا۔ اب مشکل یہ آپڑی کہ ایک طرف امت‘ رعایا کی دنیاوی و دینی ضروریات کی تکمیل کے لئے مذکورہ جیسے طریقوں کا نفاذ و اجراء بھی ضروری ہے اور دوسرے طرف یہ کہ ان پر بدعات کے اقسام مقرر کردیئے جائیں جیسے واجبہٗ مکروہ وغیرہ۔ اللہ معاف کرے اہلِ علم کی یہی وہ لغزش ہے جس کے سہارے اہلِ بدعت‘ ہر بدعت کو جائز قرار دیتے ہیں۔

اب یہاں تصفیہ طلب امر یہ ہے کہ جس طرح دنیاوی امور کی انجام دہی کے لئے نئے نئے ایجادات سے استفادہ ضروری ہے۔ کیا اسی طرح ذکرِ الٰہی‘ حصولِ ثواب‘ تقویٰ اور تزکیہ کے لئے مندرجہ بالا بدعات کی اجراء اور نفاذ کی ضرورت ہے۔ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو اس سے دین کا ناقص اور نا تمام ہونا ثابت ہوتا ہے جس کی بناء پر اللہ کا ارشاد اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ ۝۳ (المائدہ) ترجمہ: (آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی) اور ارشاداتِ رسول ’’خیر الہدی ہدی محمد ‘‘(نفع بخش طریقہ محمدؐ کا طریقہ ہے) ’’کُلُّ بدعت ضلالۃ فِی النَّار ‘‘ (ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام نار ہے) وغیرہ غلط اور بے معنی قرار پاتے ہیں، العیاذ باللہ۔ کیا کوئی مسلمان ایسا تصور بھی کرسکتا ہے بلکہ ہر مسلمان یہ مانتا اور جانتا ہے کہ دینِ اسلام اپنی تمام اکمل ترین شکل میں موجود ہے اور رہے گا۔ اس طرح ثابت ہوا کہ تکمیل دین‘ اتمام نعمت کے بعد امت کو اب کبھی بھی ایسی تعلیم اور طریقہ کی ضرورت نہیں جو رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و سنت نہ ہو اور جو روشِ صحابہؓ سے ثابت نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر احداث اور بدعات کا اطلاق ہوگا۔ یعنی نہ ذکر و عبادتِ الٰہی کے لئے کسی خود ساختہ طریقہ کی ضرورت ہے اور نہ خیر و برکت کے لئے قرآنی سورتوں کو کسی خاص ترتیب سے پڑھنے کی ضرورت ہے تو صاف ظاہر ہے کہ ایسے امور کو جائز قرار دے کر ان کو امت میں جاری و ساری رکھنے کی کوشش کیا اس بات کی علامت نہیں ہے کہ دیدہ و دانستہ امت کو الٰہی و نبویؐ تعلیم سے بے نیاز کر کے راہِ ضلالت پر ڈال دیا گیا اور نادانستہ الٰہی و نبویؐ تعلیم کو مذکورہ مقاصد کے لئے ناتمام و نامکمل سمجھا گیا اور کیا یہ الٰہی و نبوی تعلیم کی ناقدری نہیں ہے؟ غالباً اسی لئے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مَنْ وقد صَاحب بِدْعَۃٍ فَقَدْ اَعَانَ عَلٰی ھَدَم الْاِسْلَامِ (بیہقی) ترجمہ: (دین کے ایسے ناقدر صاحبِ بدعت کی جس نے قدر کی اس نے اسلام کو ڈھادینے میں مدد کی) اس موقع پر اُس حدیث کی بھی وضاحت کردی جاتی ہے جس کو بدعات کی سندِ جواز بنایا گیا ہے :- مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃَ فَلَہٗ اَجْرَھا وَاَجْر مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْم بَعْدِہٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّنْقُصَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْئٌ وَّمَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃ سَیَئَۃً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَوِذُرْ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْم بَعْدِہٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّنْقُصُ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیْئٌ (رواہ مسلم) ترجمہ: (جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا وہ اس کا بدل پائے گا اور جس نے اس کے بعد اس طریقہ کو جاری رکھا (یا اس کے مطابق عمل کیا) وہ بھی اجر پائے گا پہلے شخص کے اجر میں کمی ہوئے بغیر اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اس کا گناہ اسی کو ہوگا اور اس کو بھی ہوگا جس نے اس کے بعد اس کے مطابق عمل کیا۔ پہلے لوگوں کے گناہ میں کمی ہوئے بغیر) ذہن نشین رہے کہ محدثین کرام نے یہ حدیث اعتصام کتاب و سنت و بدعات کے باب میں نہیں لکھی ہے۔ اس حدیث کے پس منظر کو سامنے رکھے بغیر حدیث کا صحیح مفہوم واضح نہ ہوگا۔ اس حدیث کا تعلق ایک ایسے واقعہ سے ہے جس میں چند پریشان حال مسلمانوں کی مالی و معاشی حیرانی کو دور کیا گیا تھا۔ حدیث کی ماقبل عبارت قابلِ ملاحظہ ہے۔ بخوف طوالت صرف ترجمہ لکھ دیا جاتا ہے۔ جریرؓ صحابی فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم قریب نصف النہار رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے پھر آپ کے پاس ایک قوم کے لوگ آئے جن کے بدن پر لباس نہیں تھا۔ جسم پر سیاہ و فید دھاری کا کمبل یا صرف عبا پہنے ہوئے تھے۔ گردنوں میں تلواریں لٹکی ہوئی تھیں۔ اکثر بلکہ سب کے سب قوم مضر سے تھے۔ ان کی معاشی پریشان حالی کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کا چہرۂ مبارک متغیر ہوگیا۔ آپؐ فوراً گھر میں تشریف لے گئے اور پھر باہر نکل آئے اور بلالؓ کو اذاں کا حکم دیا۔ پھر بعد تکبیر و اقامت‘ نماز پڑھی اور لوگوں کو مخاطب فرماکر یہ آیتیں پڑھیں کہ اے لوگو! ڈرو اللہ سے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا جس کی آخری آیت یہ ہے :- اِنَّ اللہَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا۝۱ (سورہ النساء) ترجمہ: (بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے) اور ’’ اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۝۰ۚ ۝۱۸ (سورہ حشر) ترجمہ: (اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو کوئی کام کرتے وقت یہ غور کرلینا چاہئے کہ وہ کل (حیات بعد الموت) کے لئے کیا کررہا ہے) پھر فرمایا کہ انسان کو چاہئے کہ خیرات کرتا رہے اپنے دینار و درہم سے‘ کپڑے سے‘ گیہوں اور کھجور سے۔ فرمایا اگر چہ کھجور کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ پس انصار میں سے ایک صاحب بھری ہوئی وزنی تھیلی لے آئے اتنی وزنی کے ہاتھ بوجھل ہوگیا۔ پھر لوگوں نے ان کی اتباع میں اپنا مال لانا شروع کیا۔ یہاں تک کہ دیکھا میں نے دو )۲) تودے غلّے اور کپڑے کے اور دیکھا میں نے رسول اللہ ﷺ کا چہرۂ مبارک خوشی سے چمک اُٹھا گویا کہ سونے سے ملمّع کی ہوئی چاندی) اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کا وہ ارشاد ہے جس کی ابتداء  ان الفاظ سے ہے :- مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃٗ اِلی الْاٰخَر: رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد جس مذکورہ واقعہ سے متعلق ہے، اس کو پیش نظر رکھے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اپنے عمل و ارشاد سے امت کو یہ ترغیب دی ہے کہ امت کی مالی و معاشی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے کوئی ایسا طریقہ جاری کیا جائے جس سے ان کی مالی پریشانی دور ہو ایک اچھا طریقہ ہے اور ایسے طریقے کو نہ صرف جاری کرنے والا بلکہ بعد میں بھی اس کو جاری رکھنے والے عنداللہ اجر پاتے رہیں گے۔ اس کے برخلاف کوئی ایسا طریقہ نکالے جو افراد امت کے لئے مالی و معاشی پریشانی یا دیگر مشکلات میں مبتلا ہونے کا باعث ہو تو اس کا وبال اس پر پڑے گا اور اس پر بھی جو اس کو جاری رکھے۔

اسی ترغیب و تحریص کی بناء پر صحابہ کرامؓ  ‘ تابعین و تبع تابعین کے زمانہ ہی سے غریبوں کے لئے مسافر خانے‘ دواخانے‘ بیت المعذورین‘ یتیم خانے‘ قائم ہونا شروع ہوگئے تھے اور اسی قسم کے دیگر رفاہِ عام کے کام بھی۔

اس ارشادِ گرامی کے پس منظر کو نہ بیان کر کے اس کی آخری عبارت کو بدعات کی مسند جواز بناکر پیش کرنا اہلِ عقل‘ اہلِ علم کا کام تو نہیں ہوسکتا۔ اس کو تاویل الجاہلین کہیں گے یا طفل تسلی کی باتیں، اگر اہلِ علم محض عامۃ المسلمین سے خراج تحسین حاصل کرنے کے لئے بعنوان ’’حقیقت فاتحہ‘‘ ایسی تاویلات کرتے ہیں تو اس سے ظاہر ہے کہ ان کے قلوب خوفِ الٰہی سے خالی ہیں۔

علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ نے نمازوں کے بعد یا صبح و شام ذکر و تسبیحات اور قرآن کریم کی بعض سورتوں اور درود و سلام کے فضائل بیان کر کے ان کو پڑھتے رہنے کی جو ترغیب دی ہے اس کو بھی بدعات کی سند جواز میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ نہ ان احادیث کا ترجمہ صحیح کیا جاتا ہے اور نہ واقعہ کو اس کی اصلی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ نیز فضائل‘ نوافل کی حدیثوں سے غلط تاویل کر کے اپنے اختراعی طریقوں‘ بدعات کا جواز ثابت کرنا بصیرت نہیں کورا نہ تقلید ہے۔ بے شک احادیث میں سورہ فاتحہ‘ سورہ اخلاص اور درود و سلام کے فضائل کا بیان ہے لیکن اہلِ بدعت اپنی جس مجوزہ ترتیب سے جن مواقع پر بعنوان ’’الفاتحہ‘‘ پڑھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح پڑھنے کی تعلیم نہیں دی اور نہ صحابہ کرامؓ نے ان احادیث کا ایسا مطلب سمجھ کر اس طرح ’’الفاتحہ‘‘ پڑھی پس ان سورتوں کو اپنی مجوزہ ترتیب خاص سے پڑھنا اور اس کو موجب خیر و برکت سمجھنا ہی وہ بدعت ہے جس کو ضلالت کہا گیا ہے۔

نفسِ مسئلہ کو یا اس مسئلہ میں جو الجھاؤ پیدا کیا گیا ہے اس کو پوری طرح صاف کرنے کے لئے مکرر عرض ہے کہ دنیاوی ضروریات کی تکمیل کے لئے حصولِ دین کی سہولت کے لئے یا مسلمانوں کی مالی و معاشی سہولتوں کے لئے اور ایسے ہی دیگر رفاہی کاموں کے لئے جو طریقے نکالے جاتے ہیں وہ حسبِ ارشاد پیغمبر علیہ السلام احسن طریقے ہیں۔ وہ نہ بدعت ہیں اور نہ ان کو بدعت سمجھنا صحیح ہوگا جیسا کہ قبل ازیں عرض کردیا گیا ہے۔ برخلاف اس کے تکمیل دین کے بعد تقویٰ و تزکیہ‘ خیر و برکت و ثواب کے لئے نئے نئے طریقے اور سورتوں کی تلاوت کی خاص ترتیب ایجاد کرنے کی ضرورت محسوس کرنا اور ان کو ایجاد کرنا گویا دینِ اسلام کو ناقص اور نا تمام قرار دینا ہے۔ یہی وہ ضلالت ہے جو حسب ارشاد پیغمبر علیہ السلام بدعت یعنی گمراہی ہے۔

بدعت کا نقصان

رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ مَا اَحْدَثَـ قَوْمٌ بِدْعَۃ اِلَّا رفع مِثْلُھَا مِنَ الْسُنَّۃِ (الی الآخر) (احمد) ترجمہ: (جب قوم کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے تو (تزکیہ نفس کے) مسنون طریقے اس سے متروک ہوجاتے ہیں) مطلب یہ ہے کہ تقویٰ و تزکیہ کی مسنون تعلیم اس قوم سے بھلادی جاتی ہے جو بدعات میں مبتلا ہوجاتی ہے :- مَا ابْتَدََعَ قَوْمٌ بدعۃ فِی دِیْنھم اِلَّا تزع اللّٰہ من ستَتِھِمْ مِثْلَھَا ثُمَّ لَا یُعِیْدُ ھَا اِلَیْھِمْ اِلٰی یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (دارمی) ترجمہ: (جب کوئی قوم اپنے دین میں کوئی بدعت نکالتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو نبوی تعلیم و نبوی طریقوں سے محروم کردیتے ہیں اور پھر قیامت تک ان کو اتباعِ سنّت کی توفیق نہیں ہوتی) مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ذکر و عبادت کے غیر مسنون طریقوں میں افادیت کا تصور پیدا کرلیتے ہیں اور ان ہی بدعات میں مست و مگن رہتے ہیں وہ مرتے دم تک نبوی تعلیم اختیار نہیں کرسکتے۔ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی(متفق علیہ) ترجمہ: (جو میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں) مطلب یہ ہے کہ تقویٰ و تزکیہ وغیرہ کے لئے غیر مسنون طریقوں کو جو اختیار کرے گا وہ رسول اللہ ﷺ کا متبع نہیں۔

بدعات سے متعلق وعید

(۱)کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ کُلّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ (ابوداؤد) ترجمہ: ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام نار ہے۔

(۲)اَبی اللّٰہُ اَنْ یُّقْبَلَ عَمَلَ صَاحِبِ بِدْعَۃٍ حَتّٰی یَدْعُ بِدْعَتَہٗ (ابن ماجہ) ترجمہ: (انکار کیا اللہ تعالیٰ نے اس سے کہ قبول کرے کوئی عمل بدعت والے کا جب تک کہ وہ اپنی بدعت نہ چھوڑ دے) مطلب یہ ہے کہ بدعتی کو بدعات سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔

(۳)وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَۃً ضَلَالَۃ یَرْضَا ھَا اللّٰہٗ وَرَسُوْلُہٗ(ترمذی) ترجمہ: (جس نے کوئی بدعت گمراہی نکالی اللہ اور رسول اس سے راضی نہیں) مطلب یہ ہے کہ ثواب خیر و برکت وغیرہ کے لئے کوئی نئی بات‘ نیا طریقہ کتنی ہی حسن نیت سے ایجاد کیا جائے وہ ناراضگی حق کا موجب ہی ہوگا۔

(۴)لِیُرِدَنَّ عَلٰی اَقْوامٌ اَعْرَفُھُمْ یَعْرِفُوْنَنِیْ ثُمَّ یُحَالُ بَیْنِیْ وَبَیْنَھُمْ فَاَقَوْلُ اِنَّھُمْ مِنِّی فَیْقَالُ فَاِنَّکَ لَا تَدْری مَااحدوا بَعْدَکَ فَاَقُوْلُ سُحْقًا لِمَنْ غَیْرَ دِیْنِیْ بَعْدِیْ‘‘ (متفق علیہ) ترجمہ: (میرے سامنے آئیں گے بعض گروہ جن کو میں پہچان لوں گا اور مجھ کو وہ پہچان لیں گے پھر میرے اور ان کے درمیان پردہ حائل کردیا جاے گا۔ میں کہوں گا کہ یہ تو میری اُمّت کے لوگ ہیں۔ پس مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کے بعد ان لوگوں نے کیا نئی باتیں نکالیں۔ پس میں کہوں گا کہ وہ مجھ سے دور ہو دور ہو جس نے میرے بعد میرے دین کو بدل دیا) اس ارشادِ گرامی کے آخری خط کشیدہ الفاظ بہت زیادہ قابلِ غور ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ‘ تزکیہ‘ خیر و برکت‘ ثواب وغیرہ کے لئے نبویؐ تعلیم و نبویؐ طریقوں کو چھوڑ کر اپنی طرف سے نئے نئے طریقے امت میں جاری کرنا گویا دینِ حق کو بدل دینا ہے۔ یہ وعید الٰہی بھی ان ہی لوگوں سے متعلق ہے جو دین جیسی نعمتِ الٰہی کو اس طرح بدل دیتے ہیں۔ وَمَنْ يُّبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُ فَاِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲۱۱ (سورہ بقرہ) ترجمہ: (نعمتِ دین مل جانے کے بعد کوئی اس کو بدل دے تو وہ (سن لے) کہ اللہ تعالیٰ سخت سزاء دینے والے ہیں)

بعض غلط فہمیوں کا ازالہ

مسئلہ تراویح کے متعلق یہ جو روایت ہے کہ سیدنا عمرؓ جنہوں نے باجماعت تراویح پڑھنے کا حکم دیا تھا ، انہوں نے اس کو ’’نعم البدعۃ‘‘ فرمایا۔ کتاب ’’نماز تراویح کی تحقیق‘‘ تالیف مولوی فضل اللہ صاحب استاد جامعہ عثمانیہ جو حال ہی میں ادارہ ہذا سے شائع کی گئی ہے اس میں اس روایت پر کافی روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ سیدنا عمرؓ کے الفاظ نہیںہیں بلکہ راوی کے الفاظ ہیں جن کے متعلق اہلِ تحقیق بیان کرتے ہیں کہ وہ اکثر احادیث میں اپنے الفاظ بھی لکھ دیئے ہیں جس سے لوگوں کو یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث کے الفاظ ہیں۔ یوں بھی عقلاً روایت کے یہ الفاظ سیدنا عمرؓ کے نہیں ہوسکتے کیونکہ جانشین رسول خلیفۂ راشد کے حکم پر بدعت کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔ پیغمبر ﷺ کا ارشاد ’’عَلَیْکُمْ بِسنتی وَ سنَّت الخُلَفَاء الرَّشِدِیْن وَالْمَھْدِییْن‘‘ اس پر شاہد ہے پس ایسی روایت کو بدعات کی سند جواز بنانا کسی طرح درست نہیں۔

شائد مذکورہ غلط فہمی کی بناء پر اور کچھ بزرگوں سے مرعوب ہو کر ان کے مجوزہ ذکر و عبادت کے طریقوں کا جواز ثابت کرنے کے لئے ’’بدعت حسنہ اور بدعت سیہ ‘‘ کی تقسیم کی گئی حالانکہ جب الفاظ حدیث یہ ہیں ’’کل بدعۃ‘‘ جس کے مفہوم میں ہر بدعت داخل ہے جس پر ضلالت کا اطلاق ہوگا تو پھر حسنہ اور سیہ کی تقسیم اور ضلالت کو حسنہ قرار دینا یا ضلالت میں حسنہ کا تصور پیدا کرنا بڑی کج فہمی ہے۔

شیخ احمد سرہندی مجدّد الف ثانیؒ نے بدعت کی مذکورہ تقسیم پر سخت تنقید فرمائی ہے ۔آپؒ کے دو مکتوبات کا ترجمہ درج ذیل ہے جس کے ملاحظہ سے معلوم ہوگا۔ سیہ و حسنہ کی تقسیم کتنی گمراہ کن تقسیم ہے۔

ترجمہ مکتوبات

(ترجمہ مکتوب 23؎ دفتر دوم مکتوباتِ مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سر ہندی)

’’تمام دوستوں کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ سنتِ سُنیّہ کی تابعدای کریں اور بدعت ناپسندیدہ سے بچیں۔ اسلام دن بدن غربت پیدا کرتا جارہا ہے اور مسلمان غریب ہوتے جارہے ہیں اور جوں جوں مرتے جائیں گے، زیادہ غریب تر ہوتے جائیں گے۔ حتیٰ کہ زمین پر کوئی اللہ کہنے والا نہ رہے گا۔ ’’ونَقُوْم الْقِیَامَۃ عَلٰی اشرار النَّاسِ‘‘ ترجمہ: (اور قیامت بُرے لوگوں پر قائم ہوگی) سعادت مند وہ شخص ہے جو اس غربت میں متروکہ سنّتوں میں سے کسی سنت کو زندہ کرے اور مروّجہ بدعتوں میں کسی بدعت کو مٹائے۔

اب وہ وقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے ہزار سال گزر چکے ہیں اور قیامت کی علامتیں ظاہر ہورہی ہیں۔ سنت عہد نبوت کے بعد (دوری) کے باعث پوشیدہ ہوگئی ہے اور بدعت جھوٹ کے ظاہر ہونے کے باعث جلوہ گر ہوگئی ہے۔ اب ایک ایسے بہادر و جوان مرد کی ضرورت ہے جو سنت کو زندہ کرے اور بدعت کو فنا کردے۔ بدعت کا جاری کرنا‘ دین کی بربادی کا موجب ہے اور بدعتی کی تعظیم کرنا اسلام کے گرانے کا بعث ہے۔ ’’من وقد صاحب البدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام‘‘ ترجمہ: (جس نے کسی بدعتی کی تعظیم کی اُس نے اسلام کے گرانے میں مدد دی)

اچھی طرح سن رکھئے کہ پورے ارادے، کاملِ ہمت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہیئے کہ سنتوں میں کوئی سنت جاری ہوجائے اور بدعتوں میں سے کوئی بدعت دور ہوجائے۔ اسلام کی رسمیں (طریقے) جب ہی قائم رہ سکتی ہیں جبکہ سنت کو جاری کیا جائے اور بدعت کو دور کیا جائے۔ گزشتہ لوگوں نے شائد بدعت میں کچھ خوبی دیکھی ہوگی جو بدعت کے بعض اقسام کو مستحسن اور پسندیدہ سمجھا ہے لیکن یہ فقیر اس مسئلہ میں ان کے ساتھ موافقت نہیں رکھتا اور بدعت کے کسی قسم کو حسنہ نہیں جانتا، بلکہ سوائے ظلمت و کدورت کے اس میں کچھ محسوس نہیں کرتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :- ’’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالۃ‘‘ ترجمہ: (ہر ایک بدعت گمراہی ہے)

اسلام کے اس ضعف و غربت کے زمانہ میں سلامتی سنت کے بجا لانے پر موقوف ہے اور خرابی بدعت کے حاصل کرنے پر وابستہ ہے۔ ہر بدعت کو کلہاڑی کی طرح جاننا ہے جو بنیاد اسلام کو گرا رہی ہے اور سنت کو چمکنے والے ستارے کی طرح دیکھنا ہے جو گمراہی کی سیاہ رات کو روشن بنارہا ہے۔ حق تعالیٰ علمائے وقت کو توفیق دے کہ کسی بدعت کو ’’حسن‘‘ کہنے کی جرأت نہ کریں اور کسی بدعت پر عمل کرنے کا فتویٰ نہ دیں خواہ وہ بدعت ان کی نظروں میں صبح کی سفیدی کی طرح روشن ہو کیونکہ سنت کے ماسوا میں شیطان کے مکر کو بڑا دخل ہے۔

گزشتہ زمانہ میں چونکہ اسلام قوی تھا۔ اس لئے بدعت کے ظلمت کو اٹھا سکتا تھا اور ہوسکتا ہے کہ بعض بدعتوں کے ظلمات، نور اسلام کی چمک میں نورانی معلوم ہوئے ہوں گے اور حسن کا حکم پالیتے ہوں گے اگر چہ در حقیقت ان میں کسی قسم کا حسن اور نورانیت نہ تھی۔ مگر اس وقت کہ اسلام ضعیف ہے۔ بدعتوں کے ظلمات کو نہیں اٹھا سکتا۔ اس وقت معتقدین و متاخرین کا فتویٰ جاری نہ کرنا چاہئے کیونکہ ہر وقت کے احکام جدا ہیں۔ اس وقت تمام جہاں بدعتوں کے بکثرت ظاہر ہونے کے باعث دریائے ظلمات کی طرح نظر آرہا ہے اور سنت کا نور غربت پیدا ہونے کی وجہ اس دریائے ظلماتی میں کرمِ شب افروز یعنی جگنو کی طرح محسوس ہورہا ہے اور بدعت کا عمل اس ظلمت کو اور زیادہ کرتا جاتا ہے اور سنت کے نور کو کم کرتا جاتا ہے۔ سنت پر عمل کرنا اس ظلمت کے کم ہونے اور اس نور کے زیادہ ہونے کا باعث ہے۔

صوفیہ وقت بھی اگر کچھ انصاف کریں اور اسلام کے ضعف اور جھوٹ کی کثرت کو دیکھیں تو چاہیئے کہ سنت کے سواء اپنے پیروں کی تقلید نہ کریں اور اپنے شیوخ کا بہانہ کر کے امور مخترعہ پر عمل نہ کریں۔ اتباعِ سنت ہی میں نجات اور خیر و برکات ہیں۔‘‘

(مکتوب 19؎ جلد دوم مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سر ہندی)

’’سب سے اعلیٰ نصیحت یہی ہے کہ سید المرسلینﷺ کا دین اور متابعت اختیار کریں۔ سنت سُنیّہ کو بجالائیں اور بدعت نامرضیہ سے پرہیز کریں۔ اگر چہ بدعت صبح کی سپیدی کی طرح روشن ہو لیکن درحقیقت اس میں کوئی روشنی اور نور نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی بیماری کی دوا اور بیماری کی شفا ہے کیونکہ بدعت دو حال سے خالی نہیں یا سنت کی رافع یا سنت سے ساکت ہوگی۔ ساکت ہونے کی صورت میں بالضرور سنت پر زائد ہوگی جو درحقیقت اس کو (سنت کو) منسوخ کرنے والی ہے کیونکہ نص پر زیادتی نص کی ناسخ ہے۔ پس معلوم ہوا کہ بدعت خواہ کسی قسم کی ہو۔ سنت کی رافع اور اس کی نقیص ہوتی ہے۔ اس میں کسی قسم کا خیر و حسن نہیں۔ ہائے افسوس جنہوں نے دینِ کامل اور اسلام پسندیدہ ہیں جبکہ نعمت تمام ہوچکی بدعت محدثہ کے حسن ہونے کا کس طرح حکم دیا؟ یہ نہیں جانتے کہ اکمال اور اتمام اور رضا حاصل ہونے کے بعد دین میں کوئی نیا کام پیدا کرنا حسن سے کوسوں دور ہے۔ ’’فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلَالُ‘‘ ترجمہ: (حق کے بعد گمراہی ہے) اگر لوگ یہ جانتے کہ دین میں محدثہ امر کو حسن کہنا دین کے کامل نہ ہونے کو مستلزم کرتا ہے اور نعمت ناتمام رہنے پر دلالت کرتا ہے تو ہر گز اس قسم کے حکم پر دلیری نہ کرتے۔‘‘

چند اعتراضات کا جواب

ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ ان کی ممانعت کہاں ہے بتلاؤ؟  اس کا جواب یہ ہے کہ کیا رسول اللہ ﷺ کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ دین میں نئی نئی باتیں‘ نئے نئے طریقے مت نکالو جو بات جو طریقہ تعلیم و طریقہ نبویؐ کے مطابق نہ ہو اُس کو رد کردو۔ تکمیلِ دین کے بعد طریقۂ نبویؐ و تعلیم نبویؐ کے سوا ہر نئی بات‘ نیا طریقہ شر ہے، گمراہی ہے۔ اس تاکید کے بعد تقویٰ و تزکیہ‘ خیر و برکت و ثواب وغیرہ کے لئے ذکر و عبادت الٰہی‘ درود و سلام وغیرہ کے نئے نئے طریقوں کی ضرورت محسوس کر کے ان کو ایجاد کرنا اور اُمّت میں ان کو جاری رکھنا یا تو تجاہل عارفانہ ہے یا کور نگاہی ہے۔

بدعات کے متعلق رسول اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی مطلق اور قطعی ہے، اس حکم میں وہی امور گمراہی قرار پاتے ہیں جو اپنے اجزاء کے لحاظ سے پاک و صاف ہوں اور جن کا ہر جُز باعثِ خیر ہو لیکن ان کی مجموعی شکل کا عملی ثبوت نہ سنت رسول اللہ ﷺ میں ملتا ہو اور نہ روشِ صحابہؓ میں بلکہ بعد کے لوگوں کی ایجاد و اختراع ہو۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم کسی ایسے فعل سے متعلق ہو ہی نہیں سکتا جس کا کوئی جز بھی غیر صالح یا منکر ہو کیونکہ قرآن اور احادیثِ رسولؐ میں ان کی قباحت موجود ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ ذکر و عبادتِ الٰہی کے خود ساختہ طریقوں پر عمل کرنے اور سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص و درود شریف خود ساختہ ترتیب سے پڑھنے میں کیا حرج ہے۔ جواب یہ ہے کہ احکامِ دینیہ کی بجا آوری کے لئے خود ساختہ طریقوں و ترتیب و ہیئت و نشستوں ہی کو شارع علیہ السلام نے گمراہی قرار دیا اور فرمایا کہ ایسے خود ساختہ عقائد و اعمال سے نہ اللہ خوش‘ نہ اللہ کے رسولؐ خوش۔ ایسے اعمال بجالانے والا اتباعِ رسالتؐ کے شرف سے محروم۔ اس کے یہ اعمال عنداللہ مقبول نہیں۔ وہ نار سے دو چار ہوگا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا حرج ہے۔

ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ یہ ایک جزوی معاملہ ہے۔ اس کو اہمیت دے کر اتنی مخالفت کیوں کی جارہی ہے۔

جواب یہ ہے کہ یہ الزام اہلِ بدعت ہی پر عائد ہوتا ہے۔ ان ہی لوگوں نے اس کو اتنی اہمیت دے رکھی ہے کہ الفاتحہ نہ پڑھنے والے پر لعن طعن کرتے ہیں جو امام مروجہ فاتحہ نہ پڑھے اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اور جو امام اس کو ترک کردے تو اس کو امامت سے معزول کردیتے ہیں۔

صاحبانِ بدعت یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مسائل اختلافی ہیں یعنی یہ کہ بعض علماء کے نزدیک یہ بدعات ہیں اور بعض کے نزدیک یہ بدعات نہیں ہیں۔ تو پھر سوال ہے کہ ایسے اختلافات کے دور میں امّت کو کیا کرنا چاہئے؟ اور رسول اللہ ﷺ نے کیا رہنمائی فرمائی ہے؟

جواب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحابی‘‘ کے ذریعہ اُمّت کی کافی رہنمائی فرمادی ہے یعنی بہ زمانۂ اختلاف میری تعلیم میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی روش پر جمے رہو۔ مطلب یہ ہے کہ جب امت میں اختلافات رونما ہوجائیں تو یہ دریافت نہ کرو کہ جائز کیا ہے اور ناجائز کیا ہے بلکہ یہ دریافت کرو کہ طریقہ نبویؐ کیا ہے اور روشِ صحابہ کرامؓ کیا ہے ۔اسی کی تلاش کرو اور اس پر جمے رہو۔ امت کے اختلاف و افتراق کو دور کر کے اس کو ایک ہی مرکز اتحاد سے وابستہ کرنے کا یہی آسان اور واحد طریقہ ہے ۔

ایک حجت یہ بھی کی جاتی ہے کہ ان خود ساختہ طریقوں پر عمل کرنے سے فوائد حاصل ہوتے ہیں مثلاً دکھ‘ درد کا دور ہونا‘ بیماری و پریشان حالی سے نجات پانا وغیرہ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ طریقے اللہ کے پاس پسندیدہ ہیں جب ہی تو یہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ذرا سا بھی غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ غیر مسلم بھی اپنے اپنے طریقوں کو اختیار کر کے اسی قسم کے فوائد حاصل کرتے ہی ہیں کیا اسی بناء پر ان کے طریقوں کو بھی پسندیدہ حق (اللہ کی پسند) مان لیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ مفروضہ فوائد کی بات کہہ کر غیر شعوری طور پر اسلام اور باطل ادیان کو ایک سطح پر لاکھڑا کرنا ہے۔ تیسرے یہ کہ کیا ان مفروضہ فوائد کے حصول کا الٰہی مجوزہ طریقہ صرف یہی ہے۔ ادارۂ اہل سنت و جماعت کی مساعی کا مقصد بہ فضلِ الٰہی صرف یہ ہے کہ امت ’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحابی‘‘ کے معیار پر حقیقی معنوں میں اہل سنت و جماعت بن جائے جس کا ایک ہی امام ہو‘ ایک ہی محاذ ہو جہاں سے بیک وقت اہلِ باطل کو دعوتِ خیر و صلاح بھی دی جاتی رہے اور قرآنی ہتھیاروں سے باطل کے مورچوں کو مسمار کرنے کی جدوجہد بھی ہوتی رہے۔ مغفرت و جنّت اور درجاتِ جنّت کا مستحق بننے کا یہی واحد الٰہی طریقہ ہے۔ مذکورہ معیارِ حق کو قبول نہ کیجئے تو پھر امت کے انتشار و تفریق کا کوئی علاج ہی نہیں ہے۔

 

وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہ