کرنے کا کام: ابدی عذاب سے بچنے کی کوشش کرنا ہے

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

کرنے کا کام ابدی عذاب سے بچنے کی کوشش کرنا ہے

 

سب سے پہلے ایمان (فکر وعقائد) کی درستگی قرآن کی روشنی میںاوراعمال کی اصلاح سنّت ِ رسولؐ ( احزاب۲۱)اور سبیل المؤمنین( اصحاب رسول کاطریقہ)النساء :۱۱۵) کی روشنی میں کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اہل وعیال کوآگ سے بچانے کی کوشش(تحریم:۶) رشتہ داروں اور دوسروں کوابدی عذاب سے بچنے کیلئے توجہہ دلاتے رہنا ہے تاکہ رب کے حضور عذر پیش کرنے کا موقف حاصل ہو اور وہ خود اپنے بچائو کی فکرکریں۔(اعراف: ۱۶۴)اور اپنے وجودکامقصد پورا کر کے’’خیرِاُمّت ہونے کے شرف کے مستحق ہوسکے۔(اٰل عمران : ۱۱۰) اس طرح تین افراد ہم خیال ہوجائیں توحکم الہی کی تعمیل میں ایک امیرکے تحت زندگی بسرکرنے کی کوشش کی جائے۔ (النساء :۵۹) اوراس کام کوجاری وساری رکھنے کے لئے’’اور تم میں ضرور ایک ایسی جماعت ہوجوخیرکی طرف بلاتی رہے اوربھلائی کے کام کرنے کوکہاکرے اور بُرے کاموں سے روکاکرے اورایسا کرنے والے ہی فلاح پائیں گے۔(اٰل عمران: ۱۱۰) امّتِ واحدہ کواختلافات سے بچنے کے لئے وہ امور بھی بتادیئے گئے جن کے بارے میں’’امر ونہی‘‘ کرناہے تمام انسانوں کی اصل ونسل ایک ہی ہونے کی بناء پر اِن سب کے لئے جزاء کاقانون بھی صرف ایک یعنی ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘(البقرہ۲۸۶) دوسرے ابدی عذاب سے بچنے کی فکر پیدا کی جائے تیسرے ابدی عذاب سے بچنے کا واحد طریقہ بلاشرکت غیرے صرف اللہ ہی کواکیلا وتنہا تمام مخلوقات کاپروردگار اور حاجت روا ہونے کی حقیقت واقعہ کونہ صرف ماننا بلکہ یقین کرناہے۔ جس کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ زندگی اِسی کی اطاعت و فرمانبرداری اوراس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقہ پربسر کرنے کی کوشش کرنا ہے۔(ہود ۱۴، الانبیاء ۱۰۸)۔خود اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ فرقان کو  مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ  پراسی لئے نازل کیاہے کہ آپ قیامت تک کے تمام انسانوں کوابدی عذاب سے خبردار کرنے والے ہوں (فرقان : ۱ )، چنانچہ اللہ کو گواہ بناکرنبی کریمؐ نے فرمایا  کہ میری طرف قرآن اسی لئے تووحی کیاگیاہے کہ میں تم کوابدی عذاب سے خبردار کروں اوریہ قرآن جس تک بھی پہونچے وہ بھی یہی کام کرے۔(انعام :۱۹)کتاب اللہ کے ذریعہ ابدی عذاب سے خبردارکرنا نہ صرف صحیح بلکہ معقول طریقہ ہے اسی لئے تمام پیغمبروں کاطریقہ بھی یہی رہاہے۔ جیساکہ فرمایا گیا :  یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِنَا (ہماری آیات پڑھ پڑھ کر سناتے تھے)۔(قصص:۵۹)۔ پروردگار اپنے بندوں کو ابدی عذاب ہی سے خبردار کرنے کیلئے کتابیں نازل فرمایاہے۔(قصص ۸۵)۔ اور تمام پیغمبروں کی بعثت کا بنیادی مقصد بھی بندوں کوآخرت کی زندگی کے تعلق سے خبردار کرنارہاہے۔(ص ٓ ۴۶)چنانچہ ہرپیغمبر نے اپنی قوم کوابدی عذاب سے بچنے کاطریقہ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (اعراف ۵۹) (ترجمہ اے میری قوم اللہ ہی کی عبادت کروکیونکہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود۔ (حاجت روا، فریادرس نہیں ہے)بتایا …چنانچہ نوح علیہ السلام ساڑھے نو سوسال تک اپنی قوم کے پنجتن پاک کی عبادت کرنے سے منع کرتے رہے اور نبی  کریم ؐمکہ میں تیرہ ۱۳ سال تک یٰاَیُّہَاالنَّاسُ قُوْلُوْا لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ تُفْلِحُوْا (اے لوگوں کہو کہ اللہ کے سوا کوئی بھی (معبود ۔ حاجت روا۔ فریادرس ) نہیں ہے اورفلاح پاجائو۔

آخری اُمّت ہونے کی بناء پراِس کوجوبنیادی فرض قیامت تک اداکرتے رہنا ہے اوراس کوانجام دینے کا طریقہ (سورہ فرقان آیات:۵۱ ، ۵۲،)میں بتادیاگیاہے۔’’اگر ہم چاہتے تو ہربستی میں ڈرانے والا مبعوث کردیتے (حفاظت ِ الہٰی کی بناء پرقرآن آخری کتاب جومحمد رسول اللہؐ پر نازل ہونے سے وہ خاتم النبیّن ہوئے(احزاب :۴۰) اورتم اُن کی امت ہو) اس لئے اہل باطل کی بات (لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مت کہو)کومت مانو اور قرآن کے ذریعہ ان کے باطل فکر وعقائد کے خلاف مقدور بھر کوشش کرتے رہو)۔ اِسی لئے نبی کریم ؐ نے امّت کوتاکید فرمائی ہیکہ مشرکین کے خلاف اپنے مالوں، جانوں اور زبانوں سے جہاد کرتے رہو۔ (ابودئود ، نسائی) نبی  کریم ؐنے ایمان والوں کومشرکین کے خلاف جہاد کرتے رہنے کی جوہدایت فرمائی ہے وہ بے حد اہم ہے کیونکہ اس ہدایت پرعمل کرتے رہنے سے ایک تومشرکانہ عقائد کی گندگی اور قباحت لوگوں کے علم میں آتی رہے گی جس سے مشرکانہ عقائد پھیلنے نہ پائیں گے دوسرے لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ کی حقیقتِ واقعہ یعنی بغیر کسی کے واسطہ اور وسیلہ وطفیل کے بلاکسی رائے مشورہ وسفارش کے تنہا واکیلا رب ہی اپنی تمام مخلوقات کی ہرآن پرورش، حاجت برآری اورمشکل کشائی کررہاہے کی حقیقتِ واقعہ کے علم سے لوگ واقف رہیں  گے جوکائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے جس کا تمام پیغمبروں کو سب سے پہلے علم دیاگیا۔(الانبیاء :۲۵)بلکہ اس حقیقتِ واقعہ کاان کومشاہدہ بھی کروایاگیا(سورہ انعام۷۶)۔ خصوصی طورپر نبی  کریم ؐ  کو اس حقیقت واقعہ کے علم کوہمیشہ ذہن نشین رکھنے کی نہ صرف تاکید کی گئی بلکہ اِن عملی تقاضوں کوبھی بتا دیاگیاجواس حقیقت واقعہ کے علم کی بناء پر کرتاہے۔(سورہ محمد۱۹)ہرنفس کواس کے اپنے ہی اعمال کا بدلہ ملنے اور ابدی عذاب سے بچنے کاواحد طریقہ دنیامیں رب کی اطاعت وفرمانبرداری کاثبوت اپنے قول وعمل سے دے دینا خیرامت کے فرائض حیات ہیں۔ (ابراہیم : ۵۱، ۵۲) فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ (بقرہ،۲۵۶)(پس جو طاغوت کاانکار کرے اوراللہ پر ایمان لائے) اور  لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ(زمر:۶۵) (اگر تو شرک کرے گا تو تیرے اعمال غارت ہوجائیںگے)اِن اٹل قوانین اِلہٰی کی روسے ’’ایمان کوجب تک شرک کے اجزاء سے پاک کرنے کی کوشش نہ کی جائے گی(انعام:۸۲) اس وقت تک اللہ پرنہ ایمان صحیح ہوگا اورنہ ہی کوئی عمل قبول ہوگا۔

عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْہِ اُنِيْبُ۝۸۸ (ہود)