شب برأت

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

شب برأت

 

شعبان کی پندرہویں شب کو شب برات کہاجاتاہے ۔ اور اس کے دن میں روزہ رکھاجاتا ہے۔ سورہ دخان کی آیات اور روایات سے واعظین اس رات کی فضیلت کے بار ے میں بہت ساری باتیں بیان کرتے ہیںاور کتابوں میں بھی تحریر ہیں۔ یہ سب باتیں محض قیاس ہیں جن کے ذریعہ اللہ کی شان ربوبیت و سبحانیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیلتہ مبارک سے لیلتہ القدر مراد ہونا  شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ  (رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاہے)  قطعاً ثابت ہے چنانچہ ابن کثیر ،شاہ ولی اللہ ، شاہ عبدالقادر ، شاہ رفیع الدین ،شاہ محمود حسن ، اشرف علی تھانوی ، شبیر احمد عثمانی،مفتی محمدشفیع، فتح محمدجالندھری، عبدالماجد دریا آبادی،عبداللہ یوسف علی ، ابوالاعلیٰ مودودی، امین احسن اصلاحی مفسرین نے سورہ دخان کی اسی آیت کی روشنی میں لیلتہ مبارکہ سے شب برات مرادلینے کی نفی کی ہے ۔

قیاس کی بناء پر یہ بھی کہاگیاہے کہ شب برات میں قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیا اور شب قدر میں نبی کریمؐ پر نازل ہونا شروع ہوا جو صحیح نہیں۔ کیونکہ سب کا مسلمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہر آیت اپنے پیغمبرپر وحی کیا ہے اور فرشتہ کے ذریعہ بھی ۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رات میں قبیلہ بنو کلب کی بکریوںکے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ بندو ں کی بخشش کی جاتی ہے جو قطعاً غلط ہے کیونکہ مغفرت کسی بھی ساعت اور کہیں بھی مانگی جاسکتی ہے اورمغفرت اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے مطابق فرمائے گا نہ رات کی بناء پر ۔ اگر رات کی بناء پر ہوتو مانناپڑے گاکہ اللہ کے پاس بھی شبھ یعنی مبارک رات ہے جوصریحاً رب کی سبحانیت کے خلاف ہے۔

فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ۝۴  حَکِیْمٍ کے ضمیر ھا سے رات مراد لے کر ’’یفرق‘‘ سے لوگوں کی موت و حیات عمر ، رزق، اولاد وغیرہ کے فیصلے کئے جاتے ہیں کی بات کہی گئی ہے جوصحیح نہیں کیونکہ خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ (عبس: ۱۹) (پیدا کیا اس کو اور اس کے لئے اندازہ مقرر کیا ) کے خلاف ہے ۔علاوہ اس کے ’’ھا‘‘سے مراد کتاب مبین ہے اور یفرق سے مراد فرق کرنے والی کتاب ہے چنانچہ قرآن کو بیشتر جگہ فرقان کہا گیا ہے۔ یعنی وہ کتاب جس سے حق و باطل ، ہدایت و گمراہی ، ایمان و کفر، اطاعت و نافرمانی نہ صرف معلوم ہوجاتی ہے بلکہ ان کا انجام بھی معلوم ہوجاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے کاروبار کو دنیا کی حکومت کے سالانہ بجٹ کے مماثل قراردینا قطعاً غلط ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بند ے کو ماعلیہ ومالہ  کے ساتھ اس وقت سے جانتا ہے جبکہ ان کے جسم کے ذرات ابھی مٹی میں ہی تھے ۔ اور اس وقت سے ہی جبکہ وہ جنبین کی حالت میں ماں کی رحموں میں تھے ۔( نجم آیت ۳۲) یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اس رات نبی کریم ؐ جنت البقیع تشریف لے گئے تھے جو صحیح نہیں کیونکہ آپ اپنی زندگی میں صرف ایک ہی دفعہ جس رات تشریف لے گئے وہ شعبان کی پندرہویں شب نہ تھی اوریہ واقعہ بھی آپ کی وفات سے صرف چند ہی دن قبل کا ہے نہ آپ نے وہاں فاتحہ پڑھی اور نہ پھول چڑھایا نہ آپ نے بی بی عائشہ ؓ اور دیگر ازواج مطہرات کو شب بیداری کی ہدایت کی ، نہ نوافل پڑھنے کی نہ روزہ رکھنے کی اور نہ آپ نے پندرھویں تاریخ کو روزہ رکھا ۔ اس لئے یہ سب باتیں شیطان کی سکھائی ہوئی ہیں۔

یہ بھی سمجھاجاتا ہے کہ مرنے والے کی ارواح پھر اس دنیا میں اسی رات واپس آتی ہیںاس لئے اس کو مُردو ںکی عید کہاجاتا ہے ۔ جو صریحاً قرآن کی خلاف ہے ۔ کیونکہ کوئی بھی مرا ہوا آدمی کسی حیثیت سے بھی اور کسی طرح بھی اس دنیا میں پھر واپس نہیں آسکتا اور نہ فوت شدہ لوگوں کو دنیا والوں کی کیفیت اور حالت کی کچھ خبر ہی ہوتی ہے۔

شب برات کی روایت صحاح ستہ میں سے صرف ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے جو مجہول، مضطرب اورمنقطع اور مرسل ہیں۔ اس لئے ناقابل قبول ہیں۔ دیگر کتب میں شب  برات سے متعلق جتنی بھی روایتیں ہیں وہ سب جھوٹی ہیں۔ ( تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو کتاب ’’ شب برات ‘‘ از حافظ محمد حبیب الرحمن کاندھلوی پاکستان کراچی )