فقہی مسائل

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

فقہی مسائل کے اختلافات سے متعلق چند باتیں

(بالخصوص رفع یدین)

 

ہم سب کا مسلمہ ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب ’’القرآن ‘‘ کو وحی کے ذریعہ نبی کریم ؐ پر نازل فرما کر اس پر عمل کرنے کا طریقہ اپنے رسول ؐ اور صحابہ ؓ کے ذریعہ متعین فرمادیا ہے اور نبی کریم ؐ نے قرآن کو اپنی زندگی ہی میں تحریر کروا کر محفوظ فرمادیا۔ اور یہ بھی مسلمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے احکام و ہدایات ایک دم نہیں بلکہ یکے بعد دیگرے  ‘ ضرورت پر اور موقع بہ موقع دیا ہے جن کی تکمیل ۲۳ سال میں ہوئی ہے مثلاً ابتداء ہی سے مکہ میں نماز پڑھی جاتی تھی اور روزے بھی رکھے جاتے تھے ۔ چنانچہ نماز ہی کے تعلق سے  وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ۝۳۠  (المدثر ) ’’ اور اے نبیؐ اپنے رب کی بڑائی بیان کرو ۔‘‘  وَثِيَابَكَ فَطَہِرْ۝۴۠ۙ  (مدثر ) ’’اور اے نبی ؐ اپنے کپڑوں کو پاک کرو ۔‘‘  وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْہِ تَبْتِيْلًا۝۸ۭ ( المزّمِل) ’’ اور اے پیغمبر ؐ ہر طرف سے بے تعلق ہو کر اپنے رب کا نام یاد کیجئے ۔‘‘   فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ۝۰ۭ … اور فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْہُ۝۰ۙ ( المزمل :۲۰) ’’ پس پڑھو قرآن میں سے جو تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو ۔‘‘ کی ہدایات دی گئیں۔ لیکن پانچ وقت کی نماز نبوت کے بعد مکہ ہی میں فرض ہوئیں۔ اور نشہ کی حالت میں نماز ادا کرنے کی ممانعت کی گئی  لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى ( النساء : ۴۳) ’’ نشے کی حالت میں نماز کے قریب مت جائو‘‘غسل ‘ وضو ‘ تیمم ‘ نماز با جماعت اور اس کے لئے اذان کے احکامات ابتدا میں دے دیئے گئے ‘ جمعہ و عیدین ‘ تبدیلی قبلہ کے احکام و ہدایات ہجرت کے بعد مدینہ میں دیئے گئے۔ روزہ کی فرضیت اور اعتکاف کے متعلق ہدایات نبوت کے ساڑھے چودہ سال بعد دیئے گئے۔

ذہن نشین رہے کہ تکبیر تحریمہ ‘ قیام ‘ رکوع ‘ سجدہ ‘ قعدہ وغیرہ ابتداء ہی سے نماز کے بنیادی و اہم رکن رہے ہیں لیکن ان کے ادا کرنے کے طریقوں میں بتدریج تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ مثلاً دل سے یا زبان سے نیت کرنا ‘ حالت قیام میں سینہ پر یا زیر ناف ہاتھ باندھنا یا ہاتھ چھوڑنا ‘ رکوع اور سجدوں میں رفع یدین کرنا یا نہ کرنا ‘ کون سے کلمات کس موقع پر اور کس حالت میں کہنا ‘ نماز کیسے ختم کرنا ‘ رکعتوں کی تعداد ‘ جہری و سری نمازیں ‘ قرأت ‘ خلفِ امام ‘ آمین بالجہر یا آہستہ کہنا ‘ سُترہ وغیرہ لیکن آخری زمانہ میں ان امور پر جس طرح عمل ہوا اسی کو سنت قائمہ کہا جاتا ہے۔

غور کیجئے  ! ایسے تمام حضرات جن کو صرف ابتدا ہی میں یا جن کو صرف درمیانی زمانہ میں یا جن کو صرف عبوری دور ہی میں نبی کریم ؐ کے ساتھ نماز ادا کرنے کا موقع مل سکا ایسے تمام حضرات صرف ان ہی طریقوں کو سنت رسولؐ کی حیثیت سے بیان کرتے رہے جن کا انھوں نے نبی کریم ؐ کے ساتھ مشاہدہ کیا تھا۔ مثلاً پہلے نماز میں سلام کا جواب دیا جاتا تھا لیکن بعد میں منع کردیا گیا اسی وجہ سے ان مسائل میں اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔

غور کیجئے کہ مدینہ میں دس سال روزانہ پانچ وقت آپ ؐ کے پیچھے سینکڑوں صحابہ ؓ  نماز پڑھتے تھے۔ اس دس سالہ پوری مدت میں نبی کریم ؐ کا طریقہ اگر ایک ہی ہوتا تو آپ کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کا طریقہ بھی ایک ہی ہونا لازمی تھا لیکن حقیقتِ واقعہ اس کے خلاف ہے جس کا انکار ممکن نہیں ۔

ان اختلافات کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ اس دس سال کے دوران نبی کریم ؐ کے طریقے بھی مختلف رہے ہوں یا ہر شخص کو اس کے اپنے مشاہدہ کے مطابق ان کو ادا کرنے کی اجازت ہو اس کے سوا کوئی اور صورت ممکن ہی نہیں ہوسکتی جس سے قطعی طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ طریقہ دراصل ‘ اصل ِنماز نہیں ہیں اور نہ ان میں اختلاف سے نماز کے مقصد کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ چنانچہ ان طریقوں میں صحابہ ؓ کا مختلف ہونا اس کا کھلا ثبوت ہے ۔

نبی کریم ؐ نے اپنے امتیوں میں سے صرف سیدنا ابو بکر ؓ کے پیچھے نماز ادا کئے لیکن ان مسائل کے بارے میں ان سے ایک بھی روایت کا نہ ہونا ان مسائل کے غیر اہم ہونے پر سب سے بڑی دلیل ہے۔

احادیث سے متعلق چند باتیں

دشمنانِ اسلام اور نادان واعظین غلط سلط باتیں حدیث کے نام سے عوام میں پھیلا رہے تھے جس سے نبی کریم ؐ کی تعلیمات بھی دوسرے پیغمبروں کی تعلیمات کی طرح مسخ ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوا ۔ جس سے بچانے کے لئے سب سے پہلے جھوٹی حدیثیں گھڑے جانے کو روکنا ضروری تھا اس لئے محدثین کرام نے ان تمام باتوں کو جو عوام میں حدیث کے نام سے مشہور ہوچکی تھیں جمع کیا ۔ چنانچہ امام بخاری ؒ نے چھ لاکھ حدیثیں جمع کرکے اپنے معیار کے مطابق ان میں سے (۱۴۵۷) احادیث کو اپنی کتاب صحیح بخاری میں درج کیا۔ اور ایک ہی حدیث سے جتنے بھی مسائل معلوم ہوسکتے تھے اس کو ہر مسلہ کے تحت نقل کرنے سے صحیح بخاری کے احادیث کی تعداد کچھ کم آٹھ ہزار ہوگئی ہے اور امام مسلم ؒ نے چار لاکھ احادیث جمع کئے جن میں سے اپنے معیار کے مطابق صرف بارہ ہزار احادیث کو اپنی کتاب صحیح مسلم میں درج کیا ہے۔ دیگر محدثین کا بھی یہی حال رہا ہے ۔ موجودہ ذخیرہ حدیث کی تمام رویات صرف راویوں کی ثقاہت کے اعتبار سے ہے۔

معدودے چند کے سوا باقی تمام احادیث بالمعنیٰ روایت کی گئی ہیں یعنی ہر راوی نے ارشاد ِ رسولؐ کو اپنے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ ایسا کرنے میں بھول چوک ہونا الفاظ میں کمی و زیادتی ہونا ‘ راوی کو غلط فہمی ہونا اور مسلکی عصبیت کا کارفرما ہونا ایسے حقائق ہیں جن کا انکار ممکن نہیں ۔

ہر محدث کا معیار ِ انتخاب دوسرے سے مختلف رہا ہے ۔ مثلاً امام بخاریؒ اور امام مسلم ؒ ہم عصر ہونے کے باوجود راویوں کے انتخاب میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے چنانچہ امام بخاریؒ نے امام مسلمؒ کے چار سو سے زائد راویوں سے اور امام مسلم نے امام بخاری کے تین سو سے زائد راویوں سے روایت نہیں لی۔

ہر امام جس طرح کسی نہ کسی تابعی کی اور ہر تابعی کسی نہ کسی صحابی کی اور ہر صحابی ‘ نبی کریم ؐ کی پیروی کئے اسی طرح ہر محدث ابتداً کسی نہ کسی امام ہی کے پیرو رہے ہیں کیونکہ محدثین اماموں کے بعد کے لوگ ہیں۔ چنانچہ حدیث کی چھ کتابیں جن کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے ‘ ائمہ کے بعد ہی لکھی گئی ہیں۔ صحیح بخاری کو ’’اصح بعد الکتاب اللہ ‘‘ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کے راوی دوسری کتب حدیث کے راویوں کے مقابلہ میں زیادہ ثقہ ہیں لیکن اس میں بھی ایسی حدیثیں موجود ہیں جن پر علما نے نکیر کیا ہے اسی لئے اس کی ہر حدیث کو صحیح سمجھنا محض ’’غلو ‘‘ ہے۔ بہرحال صحیح بخاری کی اعلیٰ ترین روایات میں کم سے کم تین راوی ہیں جن کی تعداد صرف (۲۳) ہی ہے جو ثلاثیات کہلاتی ہیں لیکن ائمہ جو محدثین سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کی کثیر روایات میں زیادہ سے زیادہ دو راوی ہیں اور بعض روایات میں تو ایک ہی راوی ہے۔ ان کی ادنیٰ روایات صرف ثلاثیات ہی ہیں۔ راویوں کی تعداد کے لحاظ سے ائمہ کی ادنیٰ ترین روایات ‘ صحیح بخاری کے اعلیٰ ترین روایات کے مماثل ہیں ۔ لازمی امر ہے کہ راوی جتنے زیادہ ہوں گے اس میں غلطی کے احتمالات بھی زیادہ ہوں گے اور جس میں راوی کم ہوں گے اس میں مقابلتاً غلطی کے احتمالات بھی کم ہوں گے ۔ محدثین کے مقابلہ میں ائمہ کا زمانہ نبی کریم ؐ سے قریب تر کا ہونے کی بنا پر یہ عین ممکن ہے کہ جو حدیث ائمہ کے پاس قوی رہی ہو وہ محدثین تک پہنچتے پہنچتے ضعیف بن گئی ہو اور جو ضعیف تھی وہ قوی بن گئی ہو ۔

اسماء الرجال کے علماء میں بھی راویوں کی ثقاہت کے تعلق سے اختلافات ہیں یعنی ایک راوی کو جس عالم نے ثقہ کہا ہے اسی کو دوسرے عالم نے ضعیف قرار دیا ہے۔

غور کیجئے کہ چیف منسٹر ہو یا پرائم منسٹر یا صدر مملکت ان کا کوئی حکم جب قوی اور ضعیف نہیں ہوسکتا تو پھر اللہ کے رسول کا کوئی قول قوی اور کوئی قول ضعیف کیسے ہوسکتا ہے ۔ دراصل قوی اور ضعیف کا جھگڑا محض راویوں کے اعتبار سے ہے ۔ ان میں سے کسی بھی حدیث کو جھوٹی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ اس لئے صحاح ستہ کی حدیث کو قوی قرار دے کر ائمہ کے مدون مسائل کو جن کی بنیاد قرآن کی آیات یا کوئی حدیث چاہے وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو غلط قرار دے کر تقلید کہنا صریحاً دین سے ناواقفیت اور مسلکی عصبیت ہے کیونکہ ائمہ نے کتاب و سنت اور اسوہ ٔ صحابہ ؓ  ہی کی روشنی میں عبادات و زندگی کے دیگر امور انجام دینے کے طریقہ بتائے ہیں تاکہ عوام کے لئے آسانی و سہولت ہو ۔ کتاب و سنت اور اسوۂ صحابہ ؓ کے خلاف کسی کی بھی بات ماننا تقلید شخصی ہے جو حرام ہے  ۔

ایک ہی مسئلہ سے متعلق متضاد و متخالف احادیث و آثار ہونے کی بناء پر ہی ان مسائل کی ادائیگی کے پانچ طریقے اختیار کئے گئے ہیں۔ حنفی ‘ مالکی ‘ شافعی ‘ حنبلی ‘ اہل حدیث ۔ اور ہر مسلک والا اپنے مسلک کے ثبوت میں احادیث و آثار ہی کو پیش کرتا ہے جن کو کسی نے بھی جھوٹ و غلط قرار نہیں دیا اور نہ ایسا کرنا درست ہے ۔ دراصل مسئلہ صرف استحباب و غیر استحباب ‘ ترجیح و غیر ترجیح ‘ اولیٰ اور غیر اولیٰ کا ہے ۔ ائمہ نے ان متضاد و متخالف احادیث میں سے ان ہی کو اپنے مسلک کی بنیاد بنایا ہے جو ان کی نظر میں اولیٰ اور رائج تھیں۔ امام ابو حنیفہ ؒ ‘ اللہ و رسول ؐ کی ہدایت کی تعمیل میں حدیث کو سب سے پہلے قرآن کی روشنی میں جانچتے تھے ۔ جو درایت کا بھی ایک اہم اصول ہے اور پھر ان ہی صحابہ ؓ کی روایت کو ترجیح دیتے تھے جو صف اول کے اور دینی بصیرت کے لحاظ سے ایک  مقام کے حامل تھے۔ یہ ایک حقیقت واقعہ ہی ہے کہ نمازمیں صف اول کے لوگ بمقابلہ دوسری صف کے لوگوں کے نبی کریم ؐ کی نماز سے زیادہ واقفیت رکھتے تھے ۔ مثلاً عبدللہ ابن مسعود ؓ جن کو معلمِ امت کاخطاب ملا۔ جو نبی کریم ؐ کی وفات تک آپؐ کے ایسے خدمتگار رہے کہ لوگ آپ کو بھی نبی کریم ؐ کے خاندان ہی کا ایک فرد سمجھتے تھے۔

موجودہ ذخیرہ کی احادیث کے راویوں کی ثقاہت کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ہدایت الٰہی  اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝۰ۭ (سورہ نساء ۸۲) ’’کیا قرآن کی باتوں پر غور نہیں کرتے ‘‘ کی رو سے ان کے متن (مضمون) کو درایت کے اصولوں پر جانچنے کا کام ہونا ابھی باقی ہے۔ درایت کے یہ اصول ’’سیرۃ النبی ‘‘ جلد اول مولفہ شبلی نعمانی ؒ میں ( درایت کی ابتداء) کے عنوان سے نقل ہوئے ہیں ۔ جس میں قرآن  کی سورتوں کے فضائل والی تمام احادیث کو موضوع ( جھوٹی ) قرار دیا گیا ہے۔

اہل ایمان کا مقصد حیات مغفرت و جنت ہے جس کے حصول کا واحد ذریعہ و طریقہ پوری زندگی میں اللہ و رسول ؐ کی اتباع و اطاعت کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ دامے درمے سخنے ‘ اللہ کے دین کو دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچانے کی مرتے دم تک کوشش کرتے رہنا ہے لیکن شیطان ‘ نفس اور ماحول اہل ایمان کو ان کے مقصد حیات سے غفلت و بھول میں مبتلا کرکے مستحق دوزخ بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اور ان کے مکر و فریب سے بچنا اسی وقت ممکن ہے جبکہ اہل ایمان اپنا مقصد حیات یاد رکھیں۔ اسی لئے یعنی مقصد حیات یاد دلانے کے لئے عبادات فرض کئے گئے ہیں جن میں سب سے آسان اور بار بار دہرائی جانے والی عبادت نماز ہے جس میں روزانہ پانچ وقت اور ہر مرتبہ کئی دفعہ مغفرت و جنت کی یاد تازہ کی جاتی ہے ۔ اسی لئے حکم دیا گیا ہے۔  مُنِيْبِيْنَ اِلَيْہِ وَاتَّقُوْہُ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۳۱ۙ (سورہ روم) مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ دوزخ کی ابدی زندگی سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ ہر معاملہ میں اپنے رب کی طرف رجوع ہوتے رہیں اور زندگی کے تمام امور اس کے احکام کے مطابق انجام دینے کی پوری پوری کوشش کرتے رہیں ۔ اس طریقہ بندگی کو یاد دلانے والی چیز چونکہ نماز ہے اس لئے اس کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے رہو جو نہ صرف فطری طریقہ زندگی کی فکری و عملی مشق ہے بلکہ یہی وہ واحد طریقہ و ذریعہ ہے جو ایمان والوں کو شرک سے بچاسکتا ہے )

اسی لئے نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ دن میں پانچ مرتبہ غسل کرنے والا میل کچیل سے جس طرح صاف ہوتا رہتا ہے اسی طرح نمازی ‘ نماز کے ذریعہ اپنے گناہوں کو دھوتا رہتا ہے ۔ ایک اور ارشاد میں فرمایا کہ اپنی فکر و عمل سے جو دوزخ کی آگ سلگالیا کرتا ہے وہ نماز پڑھنے سے بجھ جاتی ہے یعنی ہر نماز میں اعتراف قصور و شرمندگی اور بخشش کی التجا کرتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے قانونِ توبہ کے تحت قبول فرمالیتا ہے ۔ اس طرح سلگائی ہوئی آگ بجھ جاتی ہے۔

امت کے انتشار و افتراق کی اصل وجہ قرآن سے جہل و بے خبری ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کا مقصد اختلافات کو مٹانا فرمایا ہے۔   وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِــيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ۝۰ۭ (البقرہ : ۲۱۳) ’’ اور اللہ نے اتارا ان پیغمبروں کے ساتھ کتاب (حق) علم کے ساتھ تاکہ پیغمبر انسانوں کے ان اختلافات کو دور کریں جو انھوں نے پیدا کرلئے ہیں ‘‘افسوس ہمارے حال پر کہ ہم میں گروہ یا فرقہ یا جماعت یا مسلک کی عصبیت اس قدر رچ بس گئی ہے کہ ہم اللہ کی کتاب ہی میں اختلافات پیدا کرلئے ہیں حالانکہ ایسا کرنے والوں کے متعلق فرمایا گیا  وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِي الْكِتٰبِ لَفِيْ شِقَاق ٍ بَعِيْدٍ   (البقرہ:۱۷۶) ’’اور بلا شبہ جو لوگ کتاب ہی میں اختلافات پیدا کریں وہ شدید ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں۔‘‘  ان تنبیہات کے باوجود صدہا برس سے ہم کمال دین کے نام پر علم باطن ‘ علم لَدُنی ‘ طریقت ‘ حقیقت ‘ معرفت ‘ یافت و شہود جیسے عجمی تصورات کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں ۔ حالانکہ طاغوت کا انکار کئے بغیر ایمان باللہ اور طاغوت کی بندگی سے توبہ کئے بغیر رجوع ( انابت ) الی اللہ صحیح نہیں ہوسکتا ۔ اور بدعات سے توبہ کئے بغیر کوئی نیک عمل قبول نہیں ہوسکتا لیکن ان خرابیوں کی سب سے پہلے اصلاح کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے ان خرابیوں ہی کو اختلافی مسائل قرار دے کر سکوت اختیار کرلیا گیا ہے چنانچہ ہم میں سے کوئی اشاعت دین کے نام سے اپنے اپنے مسلک کا پرچار کررہا ہے تو کوئی صرف نماز پڑھنے کی طرف بلارہا ہے تو کوئی اقامتِ دین کی طرف اور کوئی نیکی و فضائل کے چکر چلارہا ہے۔ حالانکہ عمل کی قبولیت کے لئے سب سے پہلے ایمان کو شرک کے اجزا سے اور اعمال کو بدعات سے پاک اور نیکی سے پہلے برائیوں کو ترک کرنے کی کوشش کرنا لازمی اور ضروری ہے ۔ طرفہ تماشہ یہ کہ ہر ایک برسرِ حق ہونے کا مدعی ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے  وَاُوْحِيَ اِلَيَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَ۝۰ۭ  (انعام : ۱۹) ’’ اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعہ تم کو ڈرائوں اور جس تک یہ قرآن پہنچے ‘‘  اور  وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا كَبِيْرًا( فرقان :۵۲)  ’’اور اہل باطل کے خلاف قرآن کے ذریعہ بھرپور جہاد کرو ‘‘ کی ہدایات تبلیغ کے لئے اور اصلاح کے لئے وَالَّذِيْنَ يُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ۝۰ۭ اِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِيْنَ۝۱۷۰ (اعراف) ’’ اور جو لوگ کتاب کو مضبوط پکڑتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں بے شک اس طرح اصلاح کرنے والوں کا ہم اجر ضائع نہیں کریں گے ‘‘ کے طریقے کی نشاندہی فرمادی ہے۔

چنانچہ تبلیغ و اصلاح کے لئے تمام پیغمبروں کا بھی یہی طریقہ کار رہا ہے۔

پچھلی امتیں فقہی مسائل کی بنا پر جس طرح گروہ ‘ فرقہ بندی میں مبتلا ہوگئی تھیں اس سے بچنے کے لئے اہل ایمان کو یہ علم دیا کہ  وَلِلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ۝۰ۤ فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ۝۰ۭ (البقرہ : ۱۱۵)  ’’اور مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں پس جدھر بھی تم منہ کرکے اللہ کی طرف رجوع ہوں گے تو تم اللہ کو اپنے حال پر متوجہ پائو گے۔‘‘ اور یہ بات بھی سمجھائی   لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ  (البقرہ : ۱۷۷)  ’’مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے کو اصلی نیکی نہ سمجھو ‘‘ سمت قبلہ مقرر کرنے کا مقصد اور پھر نماز کی ادائی سے اس کو جوڑنے میں جو اہمیت ہے وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔ قبلہ نماز کے لئے مقرر کیا گیا ہے نہ کہ قبلہ کے لئے نماز فرض کی گئی ہے۔ اس لئے خبردار کیا گیا ہے کہ قبلہ کی طرف صرف منہ کرلینا حقیقی و اصلی نیکی نہیں ہے اور مزید فرمایا  وَلِكُلٍّ وِّجْہَۃٌ ھُوَمُوَلِّيْہَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ۝۰ۭ۬ اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يَاْتِ بِكُمُ اللہُ جَمِيْعًا۝۰ۭ (البقرہ:۱۴۸) ’’اور ہر ایک کے لئے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ منہ کرتا ہے (پس اے ایمان والو ! تم سمتوں ہی کو نیکی نہ سمجھ لو ) بلکہ اس عبادت کے ذریعہ تم کو جو خیر (تقویٰ) حاصل ہوتا ہے اس کے حصول پر تمہاری نظر رہنا چاہئے کیونکہ جہاں کہیں بھی تم ہوں گے اللہ تم سب کو جمع کرے گا ۔‘‘

 غور کیجئے نماز کے لئے ان امور کی ادائی کے طریقوں کی فی الواقع کوئی اہمیت ہوتی تو یہ مختلف نہیں ہوتے اگر اختلاف کیا بھی گیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ اس کی اصلاح فرمادیتا اور ان طریقوں میں اختلاف کرنا فی نفسہ اگر بگاڑ ہوتا تو اللہ تعالیٰ صراحتاً نہ سہی اشارۃً ضرور ذکر فرماتا کیونکہ منافقین کے تعلق سے ان کی نماز روزوں کے پیش نظر جب صحابہ ؓ  میں اختلاف رائے پیدا ہوا تو اللہ نے وحی کے ذریعہ اس کی تصحیح فرمادی ۔  فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنٰفِقِيْنَ فِئَتَيْنِ (سوہ النسا ء : ۸۸) ’’پس اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا کہ منافقین کے بارے میں تم دو گروہ ہوگئے ‘‘ حالانکہ ایک کی رائے سے دلیل و ثبوت کی بناء پر اختلاف کرنا ایک فطری حق ہے لیکن اللہ تعالیٰ منافقین کو صادق فی الایمان سمجھنے والے صحابہ کی رائے کو غلط قرار دیا کیونکہ منافقین کا نفاق کھلا ہوا تھا اور فرمایا ’’ اللہ کی یہ شان نہیں کہ اہل ِ ایمان کو خبیث و طیب میں پہچان دیئے بغیر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دے ۔‘‘  ( آل عمران : ۱۷۹)

 

تنبیۂ الٰہی

وَمَا كَانَ اللہُ لِيُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ ہَدٰىھُمْ حَتّٰي يُبَيِّنَ لَھُمْ مَّا يَتَّقُوْنَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۱۱۵ (التوبہ ) ’’ اور یہ اللہ کی شان نہیں کہ لوگوں کو ہدایت دے دینے کے بعد گمراہ کرے البتہ ان امور کو کھول کھول کر بیان کردیا جن سے ان کو بچنا ضروری ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ہے ‘‘ سے ثابت ہے کہ گمراہی سے بچنے کے لئے ان امور سے بھی بچنا بے حد ضروری ہے جن سے بگاڑ ‘ افتراق و انتشار پیدا ہوتا ہے ۔ ان میں سے ایک اہم ’’غلو‘‘ ہے یعنی ’’غیر اہم ‘‘ کو ’’اہم ‘‘ قرار دینا ۔ سب کا مسلمہ ہے کہ رفع یدین نہ فرض ہے نہ واجب اور نہ یہ ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ؐ ہمیشہ رفع یدین ہی کرتے رہے ۔ اور کبھی بھی اس کو ترک نہیں کیا۔ کیونکہ نبی کریم ؐ کا رفع یدین نہ کرنا بھی  ثابت ہے۔

دوزخ سے بچے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سبیل المومنین ( ایمان والوں ) صحابہ ؓ کے طریقوں کی پیروی کرنے کو لازمی قرار دیا ہے اور اللہ کے رسول ؐ نے ما انا علیہ و اصحابی (میں اور میرے صحابہ ؓ جس طریقہ پر ہیں ) فرما کر رہنمائی فرمائی ہے۔ اس لحاظ سے بھی ثابت ہے کہ صحابہ ؓ میں سے بعض رفع یدین کرتے تھے اور بعض رفع یدین نہیں کرتے تھے۔

غرض اللہ و رسول نے جن اصحاب کو ہمارے لئے ایمان و عمل میں نمونہ قرار دیا ہے (بقرہ۔ ۱۳۔ ۱۳۷ ‘ النساء ۱۱۵ ۔ ۱۱۰‘ توبہ ۔۱۰۰) ان میں بھی ان مسائل میں اختلافات موجود تھے لیکن وہ ان کو اہمیت دے کر گروہ و فرقہ بندیوں میں مبتلا نہیں ہوئے اور نہ مساجد الگ کئے بلکہ ایک دوسرے کے پیچھے ہی نماز پڑھتے اور ایک مرکز ہی سے منسلک رہے۔ مثلاً ابو ہریرہ ؓ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کے ٹوٹ جانے کے قائل تھے لیکن ہمیشہ سیدنا ابو بکر ؓ ‘ عمر ؓ ‘ عثمان ؓ ‘ علی ؓ کے پیچھے ہی نماز پڑھتے رہے حالانکہ یہ چاروں صحابہؓ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو نہیں کیا کرتے تھے۔ امام ابو یوسف ؒ خلیفہ وقت ہارون رشید کے پیچھے اس وقت بھی نماز پڑھی جبکہ خلیفہ کی پنڈلی سے خون بہہ رہا تھا ۔ حالانکہ امام ابو یوسف ؒ وضو کے مقامات سے خون بہنے پر وضو کے ٹوٹ جانے کے قائل تھے۔

ملحوظ رہے کہ نماز کے لئے رفع یدین سے کہیں زیادہ اہم و بنیادی معاملہ وضو کا ہے کیوں کہ اس کے ٹوٹ جانے پر نماز ہی باطل ہوجاتی ہے ایسے اہم معاملہ میں بھی بے وضو اماموں کی اقتدا کی جاتی رہی ہے کیونکہ یہ جانتے تھے کہ ان اختلافی امور کی بنا پر جماعت سے الگ ہوجانا دراصل امت واحدہ میں پھوٹ ڈالنے کا جرم کرنا ہے جس کو قرآن میں وضاحت کے ساتھ بار بار بیان کیا گیا ہے ۔ تمام انبیا کو  اَنْ اَقِیْمُو الدِّیْنَ وَلَا تَـتَفَرَّقُو ا (سورہ شوریٰ ۔ ۱۳)  ’’ یہ کہ دین قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو ‘‘ کا حکم دیا گیا لیکن امتیوں نے اپنے دین میں اختلافات پیدا کرلئے ( انبیاء ۹۳ ‘ المومنون ۵۳ ‘ مریم  ۳۷‘  طٰہٰ ۹۴ ‘ روم ۳۲) اور اس تعلق سے نبی کریم سے فرمایا گیا ’’جو اپنے دین میں تفرقے ڈال لئے تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں ‘‘( انعام ۱۵۹)

ان کھلے اور روشن ہدایات و واقعات کے ہوتے ہوئے بھی شیطان نے اہل ایمان کو فکر و خوف آخرت سے غفلت و جہل میں مبتلا کرنے کے لئے ’’عبادت ‘‘ ہی کے نام پر ’’عبادت کی ادائی ‘‘ کے طریقوں کو عبادت سے زیادہ اہم و اصل سمجھا دیا ہے جس سے یہ طریقے اصلِ عبادت سمجھ لئے گئے ہیں اور اصل عبادت محض رسم بن کر رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ اپنا مقصد وجود امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے نہ صرف غافل ہوگئی ہے بلکہ خود فرقہ بندی گروہ بندی کا شکار ہوکر مساجد تک الگ الگ کرلی ہیں۔ حالانکہ اللہ کے رسولؐ نے خبردار فرمادیا ہے کہ مسجدیں دلہن کی طرح سجی ہوں گی لیکن نمازیوں کے قلوب ایمان ( فکرِ آخرت ) سے خالی ہوں گے ۔ ان کے رہنماء بدترین مخلوق ہوں گے جو فتنہ کا باعث ہوں گے ۔

کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ اللہ کے رسول ؐ نے رفع یدین نہیں کیا ہے بلکہ کہنا یہ ہے کہ زیر بحث رفع یدین کے لئے اللہ کے رسول ؐ نے کوئی حکم نہیں دیا ہے ۔ البتہ جن مواقع پر رفع یدین کرنا ہے ان کو بیان فرمادیا ہے ۔ جن میں زیر بحث رفع یدین کا اشارہ تک نہیں ہے لیکن ہم ہیں کہ رفع یدین کا حکم الٰہی ہونا ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ کتابچہ ’’قصہ رفع یدین ‘‘ کا از جناب نثار محمد صاحب پٹنکر میں بحوالہ ابن کثیر ‘ ابن ابی حاتم ‘ مستدرک حاکم ‘ ایک حدیث نقل کی گئی ہے جس میں سورہ کوثر کے لفظ ’’وانحر ‘‘ سے سینہ پر ہاتھ باندھنا اور رفع یدین کرنا مراد ہونے کی بات ہے اور لکھا گیا ہے : ’’ رفع یدین کی ابتداء سورہ کوثر کے نازل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوئی نہ کہ کسی وقتی ضرورت کے طور پر ‘ اب یہ مسئلہ فروعی نہ رہا بلکہ ایمانیات میں داخل ہوگیا۔ ‘‘ جو صریحاً مغالطہ دہی ہے کیونکہ خود تفسیر ابن کثیر میں اس حدیث کو ’’سخت منکر‘‘ قرار دیا گیا ہے اور آخر میں ہے ’’ اور یہ سب اقوال غریب ہیں اور ’’وانحر ‘‘ سے مراد قربانیوں کو ذبح کرنا ہی صحیح قول ہے ‘‘۔ اس روایت کے صحیح ماننے والوں کے لئے سجدوں میں بھی رفع یدین کرنا داخل ایمانیات ہوجاتا ہے کیونکہ یہ اسی حدیث ہی کی بات ہے ۔ عدم رفع یدین والوں پر جو الزام لگایا جارہا ہے اسی الزام کے وہ بھی مورد ہیں جو سجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کرتے۔ فاعتبرو ا یا اولی الابصار ۔

رفع یدین کرنے کے مواقع کی حدیث کو امام بخاری ؒ نے کتاب المفرد میں ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا : ’’ نہ اٹھائے جائیں ہاتھ مگر سات جگہ میں (۱) نماز شروع کرنے کے وقت (۲) استقبا ل کعبہ (۳) صفا اور مروہ (۴) عرفات میں (۵‘ ۶) مزدلفہ میں دو مقام پر (۷) نزدیک جمرات کے‘‘۔

ابن عباس ؓ  ۷۸  ؁ھ بہ عمر ستر سال وفات پائے جس سے یہ حکم آخری دور کا ثابت ہوتا ہے ۔

مندرجہ بالاحدیث ہزار نے نافع کے طریق سے ابن عمر ؓ سے بھی نقل کی ہے ۔

رفع یدین نہ کرنے کا حکم رسول: ’’ جابر بن سمرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ؐ ہماری طرف آنکلے اور فرمایا تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اس طرح اپنے ہاتھ اٹھاتے ہو گویا کہ وہ بے چین گھوڑوں کی دُمیں ہیں اسکنو فی الصلوٰۃ  ’’نماز میں سکون اختیار کرو ‘‘ مسلم باب الامر با لسکون فی الصلوٰۃ ۔ اس حدیث کو عدم رفع یدین سے غیر متعلق قرار دینے کے لئے اسی راوی کی ایک اور روایت جس میں سلام پھیرتے وقت ہاتھ ہلانے کی ممانعت ہے پیش کرکے کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث بھی سلام پھیرنے کے وقت ہاتھ ہلانے کی ممانعت ہی سے متعلق ہے عدم رفع یدین سے نہیں جو بایں وجوہ محل نظر ہے۔

پہلی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ؐ بذات خود صحابہ ؓ کے ساتھ شریک نماز نہ تھے اس لئے صحابہ ؓ کے عمل کو دیکھ کر ہی آپؐ نے  اسکنو فی الصلوٰۃ ( نماز میں سکون اختیار کرو ) کا حکم دیا ہے ۔ جو قرینِ عقل  ہے لیکن دوسری حدیث میں آپؐ خود امام تھے اور آپ کا اپنے مسبوق ( ایک یا چند رکعت کے بعد شریکِ جماعت ہونے والے ) مصلیوں کو دیکھ کر ہی یہ حکم دینا ممکن ہے اور اس میں صرف سلام پھیرتے وقت ہاتھ سے بھی اشارہ کرنے کی ممانعت ہے ۔ اسکنوا فی الصلوٰۃ کے الفاظ نہیں ہیں پھر ان دونوں کو ایک ہی مسئلہ سے متعلق قرار دینا محل غور ہے ۔ اپنی بات کو مضبوط کرنے کے لئے وہ حدیث کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں نبی کریم ؐ کا اپنے پیٹھ کے پیچھے والوں کو دیکھنے کا ذکر ہے جو محل غور ہے ۔ کیونکہ جو امام دوران نماز میں اپنے مصلیوں کو دیکھ رہا ہو تو اس کا خشوع و حضوری قلب کیسے باقی رہ سکتا ہے جو نماز کی اصل و جان ہیں۔ علاوہ اس کے پیٹھ کے پیچھے دیکھنے کو مہر نبوت کے ذریعہ مشاہدہ بتانا اور اس کو معجزہ بھی قرار دینا ہر لحاظ سے محلِ نظر ہی ہے۔ کیونکہ معجزہ نبی کے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے کافروں کے لئے ظہور میں آیا ہے ۔ ایمان والوں کے لئے معجزہ کی ضرورت نہیں ۔ مہر نبوت کے ذریعہ اگر پیٹھ پیچھے دیکھنے کی بات صحیح ہوتی تو معجزہ کے مطالبہ پر اس کو بطورِ دلیل پیش کیا جانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا ہے ۔ مزید برآں وہ حدیث جس میں آپ نے اپنے مصلیوں سے پوچھا کہ تم میں سے کس نے ’’حمداً کثیراً طیبا ً مبارکاً فیہ‘‘ کہا ہے ‘ سے پیٹھ پیچھے دیکھنے کی بات غیر صحیح قرار پاتی ہے ۔ اگر آپ پیٹھ پیچھے بھی  دیکھ سکتے تھے تو خود آپؐ کو معلوم ہوجانا چاہئے تھا کہ یہ الفاظ کس نے کہے ہیں اور سترہ کے متعلق ہدایت بھی محلِ نظر قرار پاتی ہے ۔ مسلم کی روایت کے راوی جابر بن سمرہ ؓ کی وفات  ۷۴   ؁ھ میں ہوئی ہے جس سے یہ روایت آخری دور ہی کی ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔

اب وہ احادیث پیش ہیں جن میں نماز کے ان امور کو بیان فرمایا گیا ہے جن کی ادائی میں نقص و کوتاہی نماز ہی کو باطل کردیتی ہے ۔ جن کا خصوصی خیال نمازیوں کو رکھنا چاہئے۔

(۱)  ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک گوشہ میں تشریف رکھتے تھے تو ایک شخص مسجد میں آیا اور نماز پڑھی پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام کیا آپؐ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا جا پھر نماز پڑھ ‘ اس لئے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی وہ شخص گیا اور پھر نماز پڑھی اس کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا جا پھر نماز پڑھ ‘ اس لئے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اس طرح تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا تو اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھ کو بتلائیے کہ میں کس طرح نماز پڑھوں ۔ آپؐ نے فرمایا کہ جب تو نماز کے لئے تیار ہو تو اچھی طرح وضو کر پھر قبلہ رخ کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہہ ‘ پھر قرآن میں سے جو تو آسانی سے پڑھ سکتا ہے پڑھ ‘ پھر رکوع کر اطمینان کے ساتھ ‘ پھر سر اٹھا یہاں تک کہ بالکل سیدھا ہوجائے ‘ پھر سجدہ کر اطمینان کے ساتھ ‘ پھر سر اٹھا اور بیٹھ اطمینان کے ساتھ ‘ پھر سجدہ کر اطمینان کے ساتھ ‘ پھر اٹھ یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجائے ۔ اپنی نمازوں میں ایسا ہی کیا کر ۔ (مشکوٰۃ ۔ بخاری و مسلم )

مندرجہ بالاحدیث میں جن امور کا ذکر ہے وہی امور کم و بیش سیدہ عائشہ ؓ سے بھی مروی ہے (مشکوٰۃ۔حدیث: ۷۳۵) اور یہی باتیں ابو حمید ساعدی ؓ حدیث نمبر ۷۳۶ اور ابو ہریرہ ؓ سے حدیث نمبر ۷۴۳ اور رفاعہ بن رافع حدیث نمبر ۷۴۸ میں بھی بیان ہوئے ہیں۔

صحیح بخاری جلد اول میں مالک بن حویرث ؓ سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے جس میں راوی اپنے حالات اور نبی کریم ؐ کے اخلاق بیان کرتے ہوئے نماز کے بارے میں حکمِ رسول ’’صلوا کما  رأیتمونی اصلی‘‘ ( تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتا ہوا دیکھتے ہو )’’ پس جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان دے اور تم میں جوبڑا ہو وہ امامت کرے ‘‘ بیان کیا ہے۔

مندرجہ بالااحادیث سے ثابت ہے کہ رفع یدین وغیرہ کے مسائل کا تعلق اصلِ نماز اور مقصد نماز سے نہیں ہے ۔ ایک اور حدیث جو انس ؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’جس نے نماز کو اس کا وقت ٹال کر پڑھا اور وضو ‘رکوع و سجدوں کو ٹھیک طور پر ادا نہیں کیا اور نماز میں  لَمْ یَتِمُّ لَھَا خُشُوعُھَا یعنی حضوری قلب کے ساتھ نماز ادا کرنے کی کوشش نہیں کی تو اس کی یہ نماز اس کے منہ پر ماردی جائے گی‘‘ جس سے ثابت ہے کہ نماز کے لئے بنیادی اہمیت حضوری قلب کی ہے نہ کہ ان مسائل کی۔

اب وہ احادیث و آثار پیش ہیں جن سے عدم رفع یدین کا ثبوت ملتا ہے ۔

(۱) عبداللہ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ نماز پڑھی میں نے ساتھ رسول اللہ ؐ کے اور ابو بکر ؓ اور عمر ؓ کے ‘ سو نہ اٹھایا انھوں نے اپنے ہاتھوں کو مگر نماز شروع کرنے کے وقت ۔ (دار قطنی )

(۲) عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہؐ صرف شروع کی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے بعد ساری نماز میں اس کا اعادہ نہیں کرتے تھے ۔

(۳)  علیؓ تکبیر اولیٰ میں ہاتھ اٹھاتے تھے جس سے نماز کی ابتدا کرتے تھے پھر نماز میں کسی جگہ ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے  ( موطا امام محمد ) امام طحاوی نے بھی یہ روایت نقل کی ہے ۔ دار قطنی نے اس حدیث کو موقوف صحیح کہا ہے ۔

(۴) امام محمد کہتے ہیں کہ سنت یہی ہے کہ آدمی اپنی نماز میں جب جھکے اور جب کھڑا ہو اور جب دوسرے سجدہ کے لئے جھکے تو تکبیر کہے ‘ رفع یدین نماز میں ایک ہی مرتبہ کرے۔ جب نماز شروع کرے تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک لے جائے پھر اس کے بعد نماز میں کسی جگہ ہاتھ نہ اٹھائے ۔ یہی امام ابو حنیفہ ؒ کا قول ہے اور اس بارے میں بہت سے آثار وارد ہیں۔ ( موطا امام محمد )

(۵) ابو دائود ‘ ترمذی اور نسائی نے علقمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ٹھیک اس طرح نماز نہ پڑھوں جس طرح نبی کریم ؐ نماز پڑھا کرتے تھے ۔ پھر آپ نے نماز پڑھی اور سوائے تکبیر تحریمہ کے اور کسی موقع پر رفع یدین نہیں کیا ۔ ترمذی نے اس روایت کو احسن اور ابن حزم صحیح قرار دیتے ہیں۔

(۶) ابن ارشد مالکی نے ہدایۃ المجتہد میں لکھا ہے کہ امام مالک ؒ نے اہل مدینہ کے طرز عمل سے مطابقت کرنے کی خاطر رفع یدین ترک کردیا تھا۔

ملحوظ رہے کہ اہل مدینہ دوسرے علاقہ کے لوگوں کے مقابلہ میں نبی کریم ؐ کے طریق نماز سے زیادہ واقفیت رکھتے تھے کیونکہ یہ لوگ آپ ؐ کے پیچھے دس سال تک نماز پڑھتے رہے تھے ۔ اہل مدینہ کے مطابقت میں ایک مسلمہ عالم دین کا رفع یدین ترک کردینا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ رفع یدین وغیرہ جیسے مسائل کے اختیار و ترک کرنے سے نفس و مقصدِ نماز میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا۔

(۷) ابراہیم نخعی ؒ ‘ امام ابو حنیفہ ؒ  سفیان ثوری ؒ اور جملہ اہل کوفہ رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔

(۸) آج بھی اہل سنت و جماعت کی اکثریت رکوع میں رفع یدین نہیں کرتی اور نہ سجدوں میں جس کے لئے ان کے پاس احادیث و آثار ہیں اور ماباقی اصحاب رفع یدین صرف رکوع میں کرتے ہیں اور سجدوں میں نہیں کرتے جس کے لئے ان کے پاس بھی احادیث و آثار ہیں۔

کوئی بھی دوسرے کی نماز کو باطل قرار نہیں دیتا ہے ۔ ذہن نشین رہے کہ عدم رفع یدین کے احادیث و آثار کو محض ضعیف کہہ دینے سے رفع یدین کا سنت مستمرّہ ( ہمیشگی ) ہونا ثابت نہیں ہوجاتا جب تک کہ مخالف روایات و آثار کو موضوع ( جھوٹا ) ثابت نہ کردیا جائے ۔

(۹) طحاوی اور ابن شیبہ اور بیہقی سند صحیح کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ مجاہد نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ ابن عمر ؓ کے پیچھے نماز پڑھی وہ سوائے تکبیر اولیٰ کے کسی مقام پر ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ۔

عبداللہ ابن عمر ؓ  ۷۳    ؁ھ میں وفات پائے اور ان سے روایت کرنے والے مجاہد بن جبیر معطم کی وفات  ۱۰۰    ؁ھ میں ہوئی جس سے عبداللہ ابن عمر ؓ کا اپنے آخری زما نہ میں عمل عدم رفع یدین ہونا ثابت ہوتا ہے ۔

ملحوظ رہے کہ آپ رفع یدین کی حدیث کے سب سے اہم راوی ہیں لیکن آپ کا عمل اپنی ہی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہے ۔ راویوں کا اپنی  روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل کرنا دیگر مسائل میں بھی ثابت ہے ۔ مثلاً ایصالِ ثواب وغیرہ لیکن عبداللہ ابن عمر ؓ کا معاملہ تو یہ ہے کہ ایک طرف آپ رفع یدین کے سب سے اہم ترین راوی ہیں اور آثار سے بھی اس پر آپ کا عمل کرنے کا ثبوت ملتا ہے اور اس کے برخلاف آپ رفع یدین کے مواقع کی حدیث کے بھی راوی ہیں جس سے زیر بحث رفع یدین کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اور آپ کا رفع یدین نہ کرنے کی بات مندرجہ بالا روایت سے ثابت ہے اصول کی رو سے رفع یدین کی وہ احادیث جن کے راوی آپ ہیں ‘ رفع یدین کے ثبوت میں پیش نہیں کی جاسکتی یا اس وقت تک پیش نہیں کی جاسکتیں جب تک رفع یدین کے مواقع والی حدیث اور آپ کا رفع یدین نہ کرنے کے اثر کو موضوع ( جھوٹا) ثابت نہ کردیا جائے ۔

(۱۰) یہ مسلمہ ہے کہ حالتِ رکوع میں جو شریکِ نماز با جماعت ہوتا ہے اس کو رکعت مل جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ رفع یدین بھول جانے سے یا ترک سے سجدہ سہو لازم نہیں آتا۔ ولو فرض تمام مسلمان رفع یدین والی نماز کے پابند بھی ہوجائیں تو کیا ان کی نمازیں قبول ہوجائیں گی یہ باتیں ہمارے لئے لمحہ فکر فراہم کرتی ہیں۔

نماز کی قبولیت کا معاملہ بالکلیہ اللہ تعالیٰ کے اختیار کا ہے جس کے متعلق احکام و ہدایات دے دیئے گئے ہیں جن پر نماز میں دھیان رکھنا قبولیت نماز کے لئے لازمی و ضروری ہے جن میں سے چند حسب ذیل ہیں۔

(۱)  وَاَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِذِكْرِيْ (طٰہٰ : ۱۴)  ’’ میری یاد کے لئے نماز قائم کرو ‘‘  اللہ کی یاد سے مراد دوزخ کے ابدی عذابوں کی یاد ہے ۔ چنانچہ فرمایا گیا   وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۱۳۰ۚ  وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ۝۱۳۱ۚ  (آل عمران)  ’’ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاسکو ۔ اور ڈرو اس آگ سے جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ )

(۲)   اِنَّ الصَّلٰوۃَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا (النساء:۱۰۳) ’’بے شک اہل ایمان پر نماز کا اس کے اپنے وقت پر ادا کرنا فرض کردیا گیا ہے ۔‘‘

حدیث (ابن ماجہ ) میں ہے کہ جبرئیل ؑ نے نبی کریم ؐ کے ساتھ پہلی مرتبہ پانچوں وقت کی نماز ان کے ابتدائی اوقات میں پڑھی اور دوسری مرتبہ نمازوں کے انتہائی اوقات میں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز ابتدائی اور انتہائی وقت کے درمیان کبھی بھی پڑھی جاسکتی ہے ۔ جماعت کے لئے وقت کا تعین مصلیوں کی سہولت کے پیش نظر کرنا چاہئے۔ اس لئے وقت ٹال کر یا نمازوں کو جمع کرکے پڑھنا درست نہیں ۔ مقام عرفات میں ظہر و عصر اور مزدلفہ میں مغرب و عشا ایک ساتھ ادا کرنے کا معاملہ یہ ہے کہ پہلی نماز کو اس کے اپنے انتہائی وقت پر اور دوسری کو اس کے بالکل ابتدائی وقت میں پڑھنا ہے۔ یا یہ معاملہ بھی ایسا ہی ہے جیسے احیاناً طلوع آفتاب کے بعد بیدار ہونے پر سب سے پہلا کام نماز فجر کی ادائی ہو تو وہ قضا نہیں بلکہ ادا میں شمار ہوگی۔

(۳)   يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ  (الاعراف:۳۱)  ’’ اے اولاد آدم ! (کعبہ ہی نہیں) ہر مسجد کی حاضری کے (نماز کے) وقت (پورا) لباس پہنو (پہن لیا کرو) جو تمہارے لئے زینت ہو ۔ ‘‘غور کیجئے کہ ننگے سر اور بنیان پہن کر نماز ادا کرنا فرمانبرداری ہے یا نافرمانی ۔ ننگے سر سجدہ اس وقت کیا جاسکتا ہے جبکہ اپنی انتہائی محتاجی ‘ عاجزی اور خطا کاری کا اظہار کرنا مقصود ہو ۔ اسی لئے احرام کی حالت میں نمازیں ننگے سر ہی ادا کی جاتی ہیں البتہ مجبوری ہو تو ستر عورت (ناف کے اوپر سے گھٹنے کے نیچے تک ) کا ڈھانکنا کافی ہے ۔

(۴)  اُولٰۗىِٕكَ مَا كَانَ لَھُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَاۗىِٕفِيْنَ (بقرہ: ۱۱۴)  ’’ان کیلئے لائق ہی نہ تھا کہ وہ اس (مسجد)میں داخل ہوں مگر خوف کھاتے  ہوئے ‘‘  غور کیجئے مساجد میں جب ڈرتے ہوئے داخل ہونے کو ضروری قرار دیا گیا ہے تو حالتِ نماز میں بدرجہ اولیٰ خشیت و زاری کا ہونا لازمی قرار پاتا ہے ۔

(۵)  قُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِيْنَ (بقرہ ۲۳۸)  ’’اللہ کے سامنے خطا کار غلام ‘ محتاج و عاجز کی طرح ادب و شرمندگی کے ساتھ خاموش کھڑے رہو ‘‘  اس حکمِ الٰہی کی رو سے اللہ کے سامنے اسی طرح کھڑے رہنا چاہئے جس طرح کوئی بادشاہ کے حضور دست بستہ ‘ با ادب ‘ نظر نیچی کئے ہوئے کھڑے ہوتا ہے ۔ اسی لئے اللہ کے رسولؐ نے سکون کے ساتھ نماز ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ( مسلم) یا کم از کم دیکھنے والوں کو یہ محسوس ہو کہ یہ شخص حالت نماز میں ہے۔ 

(۶)  الَّذِيْنَ ہُمْ فِيْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ۝۲ۙ  ( المومنون) ’’وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں جو نماز میں زاری ( گڑگڑاتے ) کرتے ہیں ‘‘  یہ کیفیت اسی وقت پیدا ہوگی جب کہ ہم کو اپنی محتاجی و خطا کاری کا احساس ہونے کے ساتھ ساتھ رب العالمین کی عظمت و قدرت سے ہیبت بھی پیدا ہو ۔ غور کیجئے روزہ کی حالت میں بھوک پیاس کی تکلیف کم یا رفع کرنے سے ہم کو صرف خوفِ الٰہی روکتا ہے لیکن اتنا بھی خوفِ الٰہی کا احساس ہم کو حالت نماز میں نہیں ہوتا ۔ حالانکہ نماز اہم و آسان عبادت ہے جس میں کم از کم روزہ کے برابر خوفِ الٰہی کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

ارشادِ رسول ؐ :  ان تعبد اللہ کانک تراہ و ان لم تکن ترہ فانہ یرک ( یہ کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اگر ایسا نہ کرسکو تو اس بات پر تو یقین رکھو کہ بلاشبہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے ) سے بھی زاری و حضوری قلب اور ہیبت الٰہی کا احساس حالت نماز میں ہونا ضروری قرار پاتا ہے چونکہ فقیر جب دست سوال دراز کرتا ہے تو اس کی پوری توجہ داتا کی طرف ہی ہوتی ہے ۔ اسی طرح نماز میں ہماری توجہ اپنے رب کی طرف ہونا چاہئے۔ ارشاد رسول ؐ   الدعا مخ العبادہ  ( دعا ہی مغز عبادت ہے ) اور الدعا ہی العبادہ ( عبادت کی اصل دعا ہی ہے ) سے بھی نماز حضور قلب کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کرنا بے حد ضروری ہے۔ ارشاد رسول ؐ  الصلوٰۃ معراج المومن  (نماز ایمان والوں کی معراج ہے) یعنی حالت نماز میں بندہ اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے ۔ چنانچہ رب کے حضور کھڑے ہوکر سب سے اہم ترین و بنیادی حاجت و دعا  اھدنا الصراط المستقیم ( چلا ہم کو سیدھے راستہ پر جس کی منزل مغفرت و جنت ہے ) عرض کرتا ہے ایسے وقت میں نمازی کا ذہن اس بات سے اگر خالی و غافل ہو کہ وہ کس کے سامنے کھڑا ہے اور کیا مانگ رہا ہے تو اس کی یہ نماز یقیناً اس کے منہ پر ماردی جائے گی۔ چنانچہ نماز میں وسوسے آنے کے متعلق نبی کریم ؐ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے ہدایت فرمائی کہ ان میں بہک نہ جائو ۔ بلکہ بار بار اپنے رب کی طرف رجوع ہونے کی کوشش کرتے رہو اور نماز کو اپنی آخری نماز سمجھ کر ادا کرو ۔

(۷)  ہدایتِ الٰہی  حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ  (النساء : ۴۳) ’’یہاں تک کہ تم اپنے منہ سے جو بھی کہتے ہو اس کی نوعیت کا تم کو شعور ہونا چاہئے ‘‘  کی رو سے نماز میں جو الفاظ بھی ہم اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں کم از کم ان کی نوعیت کا تو شعور ہونا ضروری ہوجاتا ہے اور یہ شعور اسی وقت ہوگا جب کہ ہم اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا احساس بھی رکھتے ہوں۔ جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ نماز میں پڑھے جانے والے کلمات کے معنی و مفہوم سے ہم واقف ہونے کی کوشش کریں جس سے حضوری قلب میں بڑی مدد ملتی ہے۔

سترہ : نماز میں بندہ راست اپنے رب کے حضور عرض معروض کرنے میں مصروف رہتا ہے اس کی توجہ کو رب سے ہٹانے والا ہر قول و عمل شیطانی کام ہے اسی لئے اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا کہ نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو گزرنے کا عذاب معلوم ہوجائے تو ایک قدم آگے بڑھنے سے سو سال تک اسی جگہ کھڑے رہنا پسند کرے گا۔ (ابن ماجہ ) اور بخاری و مسلم میں روایت کے مطابق فرمایا گیا کہ چالیس روز تک اسی جگہ کھڑے رہنا پسند کرے گا۔ مشکوٰۃ میں کعب احبار ؓ سے مروی ہے کہ وہ اپنا زمین میں دھنس جانا نمازی کے سامنے سے گزرنے سے زیادہ پسند کرے گا۔ اس سے بھی نماز میں حضوری قلب کی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مسجد میں اس طرح سلام یا گفتگو یا تقریر یا وعظ یا کام یا ایسی آواز پیدا کرنا یا  نمازی کی طرف رخ کرکے بیٹھنا جو نمازی کی توجہ الی اللہ میں خلل پڑے یہ سب مستحق عذاب بنانے والے امور ہیں جن کی طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا ۔

(۸)  وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَــہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ۝۲۰۵ (اعراف ) ’’اور اے نبیؐ ! اپنے رب کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ صبح و شام پست آواز کے ساتھ یاد کیا کرو اور غافلوں میں سے مت ہوجائو ‘‘ کے حکم الٰہی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں حضور قلب ‘ عاجزی اور خوف کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کرنا کس قدر ضروری ہے۔  اگر نماز اس کیفیت سے خالی ہو تو اس کا شمار غافلوں میں سے ہوگا اور اس کی نماز اس کے منہ پر ماردی جائے گی۔

احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم ؐ سلام پھیرنے کے بعد ایک دفعہ ’’اللہ اکبر ‘‘ فرماتے اور تین مرتبہ ’’استغفار ‘‘ پڑھتے ۔ حالانکہ نماز گناہ کا کام تو نہیں ہے جس پر استغفار کیا جائے ۔ اس موقع پر آپ ؐ کا استغفار کرنا دراصل کما حقہٗ حضوری قلب نہ ہونے کی  بنا پر یعنی

کہوں کس منہ سے کہ پورا ہوا پیمانہ سجود

ایک سجدہ بھی تیری شان کے شایان نہ ہوا

کے مصداق ہی ہوسکتا ہے ۔ رسولؐ کی اتباع میں ہم بھی اس احساس کو پیدا کرنے کی کوشش کرتے اور دوسروں کو بھی توجہ دلاتے رہتے ہیںلیکن  الا ماشا اللہ کے سوا ہماری نمازوں کا حال ’’تیری نماز بے سرور تیرا امام بے حضور‘‘ جیسا ہے ۔ حاملانِ کتاب و سنت کے بیشتر تحریر و تقریر میں اس کی طرف شاید اس لئے اشارہ تک نہیں ہوتا کہ حضوری قلب کا معاملہ بالکلیہ رب اور بندہ کا نجی ( خانگی ) معاملہ ہے ہمارا کام تو صرف ظاہر پر حکم لگانا ہے ۔

(۹)  نماز میں قرأت کے متعلق  وَلَا تَجْـہَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا (بنی اسرائیل : ۱۱۰)  ’’ اور اے نبی ؐ ! اپنی نماز میں نہ تو بہت بلند آواز سے نہ تو بالکل ہی پست آواز سے پڑھئے اور دونوں کے درمیان کے طریقے کو اختیار کیجئے ‘‘ کا حکم دیا گیا اور سورہ اعراف آیت ۲۰۵ میں دُونَ الْجَـھْرِ مِنَ الْقَوْلِ (پست آواز سے ) کی تاکید کی گئی ۔ ان احکام کی موجودگی میں جہر اور سر کو ایک مسئلہ بنادینا محلِ غور ہی ہے ۔

(۱۰)  وَالَّذِيْنَ ہُمْ عَلٰي صَلَوٰتِہِمْ يُحَافِظُوْنَ۝۹ۘ  (المومنون ) ’’اور فلاح پانے والے وہ لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘یہی بات سورہ المعارج آیت ۳۴ میں بھی فرمائی گئی ہے ۔

نماز کی حفاظت میں حضوری قلب قیام ‘ رکوع ‘ و سجود کو اچھی طرح ادا کرنا بھی شامل و داخل ہے ۔ اور ہر اس کام سے بچنا چاہئے جس سے نماز اس کے اپنے وقت پر نہ پڑھی جاسکے اگر ایسا کرنا بھی ہو تو نماز کو اس کے اپنے وقت پر ادا کرنے کا انتظام کرکے کرنا چاہئے اور ایک نماز ادا کرنے کے بعد دوسرے وقت کی نماز کا انتظار بھی ذہن میں ہونا چاہئے۔

(۱۱)  حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰى  (البقرہ: ۲۳۸) ’’اپنی نمازوں کی حفاظت کیا کرو بالخصوص نماز وسطیٰ کی‘‘ ستّر(۷۰) سے زیادہ احادیث میں عصر کی نماز کو نماز وسطیٰ کہا گیا ہے اور باقی فجر ‘ ظہر ‘ مغرب و عشا کی نمازوں کا بھی نماز وسطیٰ ہونے کے بارے میں متعدد احادیث ہیں جن کی روشنی میں صحیح بات یہی ہے کہ نماز وسطیٰ سے مراد ایسی نماز ہے جس کا اس کے وقت پر ادا کرنا خوشی یا غم یا مصروفیت و مشغولیت کی وجہ سے ایک دقت طلب امر بن جائے ۔

(۱۲)  الَّذِيْنَ ہُمْ عَلٰي صَلَاتِہِمْ دَاۗىِٕمُوْنَ۝۲۳۠ۙ  (المعارج)  ’’ایمان والے وہ ہیں جو اپنی نمازوں کو ان کے اپنے وقت پر پابندی سے ادا کرتے ہیں  ‘‘کے حکمِ الٰہی کی  رو سے ایمان والے وہی قرار پاتے ہیں جن میں یہ صفت بھی ہو اس لئے جو گنڈے دار یعنی دل میں آیا تو پڑھ لئے یا لوگوں کا ساتھ دینے کے لئے پڑھ لئے ان کو ایمان والوں کی یہ صفت پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہئے ورنہ  من ترک الصلوٰۃ متعمدا فقد کفر (جس نے عمداً نماز ترک کی اس نے یقینا کفر کیا ) کا فرد جرم لگنے سے بچ نہ سکیں گے ۔ کیونکہ نماز ہی سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ کون کافر ہے کون ایمان والا ۔ کس کو اپنے گناہوں اور خطائوں کا احساس ہے اور کس کو نہیں ۔ کس کو ابدی زندگی کی فکر ہے اور کون دنیا ہی میں مشغول ہے ۔ نماز کی پابندی تبلیغ کا باعث بھی بن سکتی ہے اور اصلاح کا بھی ۔

(۱۳) نماز با جماعت ادا کرنے کا حکم ۔  وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ (بقرہ : ۴۳) ’’رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو ‘‘کے حکم ِ الٰہی کا منشاء یہی  معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام لوگ جو اپنی اصل و نسل میں ایک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہی ذات کو اپنا حاجت روا مانتے ہیں‘ابدی زندگی کے تعلق سے بھی ایک ہی فکر رکھتے ہیں وہ باہم متحد ہوکر ایک مضبوط برادری بن جائیں جس میں امیر و غریب ‘ آقا و غلام کا کوئی امتیاز نہ ہو بقول   اقبالؔ    ؎  

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نماز

اس حکم کے مخاطب ایک مرکز سے وابستہ اصحاب تھے ۔ یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ اس کی تعمیل سے اجتماعی زندگی بسر کرنے کا جذبہ پروان چڑھے جس سے تبلیغ بھی ہوتی ہے ۔ نبی کریم ؐ فرماتے ہیں کہ تم سب ایک جسم کے مانند ہو ۔ کسی عضو کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم اس کو محسوس کرے ‘ یعنی مصلیوں میں سے کسی کو کوئی ضرورت یا تکلیف ہو تو سب مل کر اس کو رفع کریں اسی لئے نماز با جماعت کا ثواب ستائیس گنا فرمایا گیا ہے ۔ کسی حکم پر اس طرح عمل کرنا کہ اس کا مقصدِ حکم فوت ہوجائے تو حکم کی تعمیل نہیں بلکہ اس کا مذاق اڑانا ہے جس کا کھلا ثبوت مصلیوں کے درمیان جھگڑے اور پارٹی بندیاں ہیں اور ہم بغیر امیر کے زندگی بسر کررہے ہیں اور ہمارے امام کے عقائد مشرکانہ اور اعمال بدعتی ہیں ۔ جس کی وجہ سے امام ہی کی نماز کا قبول ہونا ممکن نہیں تو پھر مصلیوں کی نماز کئے قبول ہوسکتی  ہے ۔ اصلاح ( امر بالمعروف و نہی عن المنکر ) کی کوشش کئے بغیر نماز با جماعت ادا کرتے رہنا عقلمندی نہیں ۔

(۱۴)  وَاْمُرْ اَہْلَكَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْہَا۝۰ۭ  (طٰہٰ : ۱۳۲)  ’’اپنے اہل و عیال کو نماز پڑھتے رہنے کا حکم کرتے رہو اور خود بھی نمازوں کی پابندی کرتے رہو‘‘ یہ حکم الٰہی ان نمازیوں کے لئے لمحہ فکر ہے جو خود تو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں لیکن اہل و عیال کے تعلق سے لاپروائی برتتے ہیں ۔ حالانکہ اہل ایمان کو  يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا (تحریم : ۶) ’’ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو آگ سے بچانے کی کوشش کرو ‘‘کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا احکام الٰہی کی تعمیل کی کوشش کرنے والوں ہی کے لئے ان کے اہل و عیال ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک اور وہ لوگوں کے لئے پیشوا بن سکیں گے ۔

(۱۵) نماز کسی حالت میں بھی معاف نہیں :  فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا۝۰ۚ (سورہ بقرہ : ۲۳۹) ’’پس اگر تم پیدل ہو یا سواری پر بہرحال نماز پڑھا کرو ‘ حالت ِجنگ ہو یا خوف یا سفر ‘‘( سورہ النساء آیت : ۱۰۱‘۱۰۲) بہرحال نماز ادا کرنا ضروری ہے البتہ ان حالات میں نماز قصر ( کم رکعت ) کی جاسکتی ہے اور بیماری کیسی ہی کیوں نہ ہو نماز نہیں ترک کی جاسکتی ۔ البتہ عورتوں کے لئے حیض و نفاس کے زمانہ میں نماز معاف ہے لیکن اس زمانے کے روزوں کی قضا کرنا ضروری ہے ۔

(۱۶)  وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ۝۹۹ۧ  (الحجر ) ’’اور اپنے رب کی عبادت کرو یہاں تک کہ تمھیں موت آجائے  ‘‘اس ارشاد الٰہی سے مرنے کے بعد قبر میں یا برزخ میں نماز پڑھنے کی جو باتیں ہیں ان کا غلط و جھوٹ ہونا ثابت ہوجاتا ہے ۔

نبی کریم ؐنے ارکانِ نماز کو جلد ‘ جلداور پوری طرح ادا نہ کرنے کو سب سے بدترین چوری فرمایا ہے اور امام سے پہلے ارکانِ نماز ادا کرنے والو ںکے سر گدھوں کے سر کی طرح بنادیئے جانے کی بات فرمائی ہے اور حالتِ سجدہ میں کہنیوں کو رانوں یا زمین پر رکھنے سے منع فرمایا ہے ۔

منافقین کی نماز :  وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۝۰ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا (النساء : ۱۴۲)  ’’اور جب یہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو بہت ہی کاہلی اور بیزارگی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ بھی لوگوں کو دکھانے کے لئے اور نماز میں اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا خیال بھی نہیں کرتے مگر تھوڑا ‘‘ان تنبیہات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم کو اپنی نمازوں کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تین قسم کے نمازیوں کا ذکر فرمایا ہے :

(الف)  اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ۝۰ۭ  (العنکبوت:۴۵)  ’’بلاشبہ نماز (نمازی کو) فحش و منکرات سے روکتی ہے ‘‘یعنی جس طرح عوام کو حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی سے روکنے والی چیز بے عزتی ‘ جرمانہ ‘ سزا و جیل کا خوف ہی ہے اسی طرح  آخرت کے  ابدی عذاب کا خوف ہی نمازی کو فحش و منکرات سے روکتا ہے ۔ کیونکہ نماز میں وہ ان ہی عذاب کو یاد کرتا ہے اور ان ہی سے بچانے کی رب سے دعا بھی کرتا ہے ۔ ایسی نماز پڑھنے والوں ہی کے لئے فرمایا  اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ۝۰ۭ  (سورہ ھود : ۱۱۴) ’’بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں‘‘یہ ارشاد خصوصیت کے ساتھ نماز ہی سے متعلق ہے ۔ اسی سے متعلق ارشادات رسول ؐ بھی پہلے پیش کردیئے گئے ہیں۔

(ب)  فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّـبَعُوا الشَّہَوٰتِ  (مریم : ۵۹)  ’’ان انعام یافتہ بندوں کے ایسے ناخلف جانشین ہوئے جو اپنی نمازوں کو ضائع کرتے ہیں اور اپنے خواہشاتِ نفس کی پیروی بھی کرتے ہیں ) یعنی نماز تو پابندی سے پڑھتے ہیں لیکن ان کی زندگیوں میں اللہ و رسول کی نافرمانیاں بھی جاری و ساری رہتی ہیں۔  مثلاً جھوٹ بولنا ‘ وعدہ خلافی کرنا ‘ ناپ تول میں کمی و بیشی کرنا ‘ ملاوٹ کرنا ‘ اسمگلنگ کرنا ‘ غیبت کرنا ‘ چغلی کھانا ‘ دھوکہ دینا ‘ حقوق ادا نہ کرنا ‘ بے پردگی ‘ سینما بینی ‘ ٹی وی وغیرہ ۔ نبی کریم ؐ کی دعا  ’’ اے اللہ ! میں ایسی نماز سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو مجھے نفع نہ دے ۔‘‘ (ابو دائود ) ہر نمازی کے لئے لمحہ فکر ہے ۔

(ج) فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۝۴ۙ (سورہ ماعون ) ’’پس بربادی ہے نماز پڑھنے والوں کے لئے‘‘ حدیث میں ہے کہ ’’ویل ‘‘ سے ایسی وادی مراد ہے جس سے خود دوزخ بھی پناہ مانگتی ہے ۔ یہ انجام ان نمازیوں کا ہوگا جن میں نماز کے اثرات کے برخلاف بالخصوص غیر نمازیوں کے مقابلہ میں اپنے بہتر ہونے کا احساس پیدا ہوجائے ۔ اپنی کوتاہیاں معمولی نظر آنے لگیں اور اللہ کے بندوں کے حقوق کی عدم ادائی کے نقصانات سے بے پروا ہوجائیں۔

مذکورہ بالا انجام ان نمازیوں کا ہوگا جن کی اصلاح نماز سے نہ ہوسکی تو جو سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتے یا صرف جمعہ یا عیدین کو ‘ تو ان کا انجام اس سے بھی بدتر ہونا یقینی ہے ۔ جیسا کہ بیان ہوا ہے :’’ جنتی دوزخیوں سے پوچھیں گے کہ کس چیز نے تم کو دوزخ میں داخل کیا تو جواب میں کہیں گے ‘ ہم نماز نہیں پڑھا کرتے تھے ۔‘‘ )  (سورہ مدثر : ۴۲‘ ۴۳)

سب سے اہم و بنیادی بات تو یہ ہے کہ نماز ہو یا روزہ یا حج ‘ اعمال کی  قبولیت کے لازمی شرطوں میں سے ایک اہم ترین شرط ’’ ھُوَ مُؤمِن‘‘ ( وہ ایمان والاہو ) بھی ہے ۔ ایمان والے کی وضاحت ’’جو ایمان لائے اور اپنے ایمان کو شرک کے اجزا سے پاک رکھنے کی کوشش کئے یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے امن ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں ۔‘‘ ( انعام : ۸۲)  الا ماشاء اللہ کے سوا حاملانِ کتاب و سنت کے دعویداروں کا حال یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کو وقت ‘ مقام ‘ افراد پر منحصر سمجھتے ہیں جو صریحاً قرآن کے خلاف ہے۔ کیونکہ ہر ایک کی دعا جب بھی وہ دعا کرتا ہے قبول کرنے کا تیقن دینے کے ساتھ شیطان کی دعا قبول کرکے ثبوت بھی دے دیا گیا ہے ( بقرہ ۔۱۸۶‘ المومن ۶۰‘ اعراف ۔۱۵) رات اور دن کو مبارک مانتے ہیں حالانکہ رات و دن میں فی نفسہٖ نہ نحوست ہے نہ برکت سب یکساں ہیں ( توبہ : ۳۶) اور نسی حرام مہینوں کو ( آگے پیچھے کرنا ) کفر میں زیادتی قرار دیا گیا ہے ( توبہ : ۳۷) اور دارالاسباب میں بلا اسباب ظاہری کے جادو ‘ دم ‘ تعویذ ‘ نظر بد ‘ شیطان کا بھیس بدلنا ‘ سایہ سپٹ کو مانتے ہیں ۔ عوام درگاہوں کے چکر ‘فاتحہ ‘ ایصال ثواب ‘ ختم قرآن ‘ ختم بخاری ‘ ختم خواجگان ‘ یوم فلاں ‘ یاد فلاں ‘ درود کی مجلسیں ‘ میلاد کے جلوس و جلسے ‘ آیت کریمہ کے دسترخوان وغیرہ جیسے مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا ہیں جو دن بدن وبا کی طرح پھیلتی جارہی ہیں جن کے خلاف بھرپور جدوجہد کرنے کی شدید ضرورت ہے چونکہ اعمال میں بگاڑ عقائد کے بگڑنے سے ہی پیدا ہوتا ہے اسی لئے تمام پیغمبر سب سے پہلے عقائد ہی کی اصلاح کرتے رہے ہیں جس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ اصلاح کا صحیح طریقہ یہی  ہے چونکہ امت مسلمہ کا پورا جسم زخموں سے داغدار ہے تو ہر زخم پر مرہم لگانے کے بجائے خون کو صاف کرنے کی کوشش کرتے رہنا ہی صحیح علاج ہے ۔ اصلاح کے لئے اس طرح کوشش کرنے والے ہی معذرۃ الیٰ ربکم ( تمہارے رب کے روبرو عذر پیش کرنے) کہنے کے موقف میں ہوں گے۔ اس کے بجائے فقہی مسائل کو اہمیت دے کر مسجدیں الگ کرلینا دین کی خدمت نہیں بلکہ ’’نیکی برباد گناہ لازم ‘‘ کا سا معاملہ ہونے کا قوی امکان ہے ۔ کیونکہ اس طرز اصلاح پر ارشاد ِ الٰہی  كُلُّ حِزْب ٍ بِمَا لَدَيْہِمْ فَرِحُوْنَ۝۳۲ ( روم) ’’ ہر گروہ اپنی ہی بات کو صحیح قرار دے کر نازاں ہے‘‘پوری طرح چسپاں ہوتا نظرآتا ہے ۔ یہی طریقہ یہود و نصاریٰ ایک دوسرے کو غلط ٹھیرانے کے لئے اختیار کئے تھے ۔ ( بقرہ ) اس لئے ہم کو چاہئے کہ حکمٰ الٰہی  قُلْ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰي شَاكِلَتِہٖ۝۰ۭ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَاَہْدٰى سَبِيْلًا۝۸۴ۧ (بنی اسرائیل) ’’اے نبی ! کہہ دو کہ ہر ایک اپنے طریقہ پر کام کررہا ہے پس تمہارا پروردگار ہی خوب جا نتا ہے اس کو جو سب سے زیادہ ٹھیک راستہ پر ہے ‘‘کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔

غور کیجئے کہ حکم الٰہی  يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ (النساء : ۵۹) ’’ اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور صاحب امر (امیر ) کی بھی جو تم ہی میں سے ہو‘‘کی رو سے ہر ایمان والے کی زندگی میں تین اطاعتیں ہونا ضروری و لازمی ہے جس کی عدم تعمیل ایمان کی وہ خرابی ہے جس کی تلافی کوئی نیکی پُرنہیں کرسکتی۔ ہماری جہالت و نادانی کا عالم یہ ہے کہ ہم زبان سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت کا دم بھرتے ہیں لیکن آپ کی وہ اصلی سنت سے بے خبر و لاعلم ہیں جس پر عمل کئے بغیر ہمارا شمار آپؐ کی امت میں ہو ہی نہیں سکتا۔

مندرجہ بالاباتیں اگر صحیح ہوں تو یقیناً اللہ کی توفیق سے ہے اگر ان میں کوئی بات غلط ہو تو اس کو میرے جہل پر محمول فرماکر مطلع فرماکر ماجور ہوں ۔

( اللہ تعالیٰ سے التجا ہے کہ اے اللہ ہم کو حق ‘ حق کی شکل میں دکھا اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما اور باطل کو باطل کی شکل میں دکھا اور اس سے بچنے کی ہم کو ہمت عطا فرما ۔ آمین )