صدّیقیّت و قرب - احسان

واپس فہرست مضامین

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان بار بار رحم کرنے والا ہے

 

صدّیقیت یا قُرب (احسان)

 

ہدایت کے مذکورہ دو مقام یا بندگیٔ رب کے دو درجے صالحیت و شہادت سے بلند‘ کمالِ بندگی کا جو مقام ہے اس کو صدیقیت یا قرب کہتے ہیں جہاں دین و ایمان کی تکمیل ہے۔ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کو صدیق و مقرب کہا گیا ہے۔ سورہ مریم میں ہے وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ۝۰ۡاِنَّہٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا۝۵۶ۤۙ (سورہ مریم) ترجمہ: (کتاب میں ادریسؑ کا واقعہ پڑھو وہ بڑے سچے نبی تھے۔) اسی طرح ابراہیمؑ کو اِنَّہٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا۝۴۱ (سورہ مریم) اور موسیٰؑ کو قَرَّبْنٰہُ نَجِیًّا (سورہ مریم: 52) ترجمہ: (ہم نے ان کو مقرب بنایا) اور حضرت عیسیٰؑ کو ’’من المقربین‘‘ (وہ مقربین سے تھے) فرمایا۔ حق تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے کسی متبع رسالت، اللہ و رسول ہی کے ارشادات سے اپنے دل و دماغ و کردار کو منور رکھنے والے کو بھی بطور وراثت‘ قرب و صدیقیت کا درجہ عطا فرماتے ہیں۔ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖٓ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ۝۰ۤۖ (سورہ حدید: 19) ترجمہ: (جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں وہی صدیق ہیں۔) اس ارشاد سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مقامِ صدیقیت کا علم و عمل وہی ہے جو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً ثابت ہے اور انسان کے کشف و الہام کو اس میں دخل نہیں۔

اللہ و رسول پر ایمان لانے کا ذریعہ کلمۂ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے اس کلمہ کے ذریعہ فلاحِ دارین پانے کے لئے انسان کو اس کی فطری حیثیت‘ محتاجی و بندگیٔ رب سے واقف کراکے بندگیٔ رب کا شرف حاصل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام کو بھی یہی تعلیم دی گئی تھی۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵ (سورہ الانبیاء: 25) ترجمہ: (ہم نے آپؐ سے پہلے کوئی ایسا پیغمبر نہیں بھیجا جس کے پاس ہم نے یہ وحی نہیں بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود و مستعان نہیں ہے پس میری ہی عبادت کرو۔) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی ہدایت فرمائی کہ اللہ ہی کی عبادت کیجئے۔ بندگی ہی کے شعور و ادراک میں رہیئے اور اسی پر قائم رہیئے۔ فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہٖ۝۰ۭ (سورہ مریم: 65) ترجمہ: (اس کی عبادت کرو اور اسی کی عبادت پر قائم رہو۔) تمام انبیاء علیہم السلام کی یہی خصوصیت بیان فرمائی۔ وَکَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ (سورہ الانبیاء: 73) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی زبانِ حقیقت ترجمان سے بھی یہی کہلوایا وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ (سورہ البقرہ: 138) ترجمہ: (ہم اسی کے سراپا بندے بنے ہوئے ہیں) لفظ عابدون بہت پُر معنی لفظ ہے جس میں بندگی کے اس انتہائی مقام کی طرف اشارہ ہے، جہاں بندگی میں حسن ہے، خوبی ہے۔ علم حق کے جن رموز و نکات سے وہ لوگ مطلع کئے گئے تھے، اس کالازمی اثر یہ تھا کہ وہ اپنے فقر و احتیاج اور اپنے نفس کے شر سے پوری طرح واقف تھے، جس کی وجہ سے ان کے دل خشیّتِ الٰہی سے معمور رہتے تھے (جس کا اثر ان کی چال ڈھال بات چیت وغیرہ سے نمایاں رہتا تھا) اور وہ بہرحال مرضیِ رب کی اتباع و اطاعت کرتے اور بڑی رغبت و پورے خوف کے ساتھ سراپا دعا رہتے تھے۔ اِنَّہُمْ كَانُوْا يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَيَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَہَبًا۝۰ۭ وَكَانُوْا لَنَا خٰشِعِيْنَ۝۹۰ (سورہ الانبیاء) یہ سب نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے امید و بیم (خوف اور امید) کے ساتھ ہماری ہی طرف متوجہ رہتے تھے اور ہمارے سامنے مؤدب رہتے تھے۔) عبادت اور الخیرات کے الفاظ قابل غور ہیں۔ نہایت حسن و خوبی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے تذلّل و عاجزی‘ تضرع و زاری‘ اظہار حاجت‘ اللہ تعالیٰ ہی سے خوف و ہیبت‘ دعاء و انابت‘ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و انقیاد‘ تسلیم و رضا‘ اللہ تعالیٰ سے گرویدگی و شیفتگی‘ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سرفروشی و جاں بازی‘ جہاد فی سبیل اللہ کی جو صورت ہو علماً و عملاً‘ بالّلسان بالسّیف‘ زبان سے مخلوق کے حقوق کی کما حقہٗ ادائی یہ سب امور عبادت اور الخیرات میں داخل ہیں۔ عبادت اور الخیرات میں حسن و خوبی پیدا ہوجانا کمالِ ایمان اور سراپا دعا و سراپا عبادت ہوجانا کمال بندگی ہے۔ مختصر یہ کہ ان لوگوں کی یہ حالت تھی کہ آیات اللہ کا مشاہدہ ان کو آستانۂ رب پر تضرع و زاری کے ساتھ سجدہ ریز رکھتا تھا۔ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِيًّا۝۵۸۞ (سورہ مریم) ترجمہ: (جب ان کے سامنے اللہ‘ رحمن کی آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو وہ سجدہ کرتے ہوئے روتے ہوئے زمین پر گرجاتے تھے۔) اس آیتِ کریمہ میں الرحمن کا لفظ بتلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسم حسن ’’الرحمن‘‘ کا اثر و فیضان جس سے انسان اور عالم کا ذرہ ذرہ فیض یاب ہے، انبیاء علیہم السلام جن کو صدیق و مقرب فرمایا گیا ہے۔ ان کے علوم کا بنیادی و خصوصی شعبہ ہے اسی لئے یہ تاکید فرمائی کہ ’’الرحمن‘‘ کو کسی جاننے والے سے پوچھو۔ اَلرَّحْمٰنُ فَسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا (سورہ الفرقان: 59) یعنی رحمانیت کی تحقیق کرو، یہ معلوم کرو کہ رحمانیت کیا ہے۔ اسی سے قرب و صدیقیت کا مقام حاصل ہوسکتا ہے۔

رحمانیت کی مختصر تشریح

انسان کی پیدائش‘ انسان کے لئے کائنات کی پیدائش‘ انسان کی بقاء و حیات و نشو و نما کے لئے گوناگوں اشیاء کی پیدائش۔ ان اشیاء میں حرکت‘ ان کے آثار و خواص‘ ان میں باہم توافق‘ انسان میں سمع و بصر‘ عقل و تمز کی قوت‘ تصرف و اختیار‘ سعی و محنت کا ملکہ‘ اشیاء اور ان کے آثار و خواص کا علم‘ ان کے استعمال کا طریقہ بتلانا اور غلط و صحیح استعمال کے مفید و مضر نتائج سے باخبر کرنا‘ انسان کی فلاح کے لئے دینِ حق نازل کرنا‘ انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کرنا‘ دین و نعمت کو کامل و تمام کرنا‘ ایک آخری نبی کو بھیجنا‘ قیامت تک کتاب و سنتؐ کی تعلیم کی حفاظت کا انتظام کرنا‘ انسان کو سعی و محنت کا عارضی و ابدی بدل عطا کرنا‘ اہلِ ایمان کو صلاح و ہدایت کی توفیق اور نافرمانوں کو گمراہی میں مبتلا رکھنا‘ زمین و خشکی و جاذبیت‘ پانی میں برودت و روانی‘ آگ میں گرمی و احتراقیّت‘ ہوا میں فرحت و سرعت‘ پرندوں میں پرواز وغیرہ وغیرہ اور پرسشِ اعمال کے لئے یومِ حساب‘ یومِ قیامت مقرر کرنا‘ جزائے اعمال کے لئے عالمِ جزاء ’’الجنۃ والجحیم‘‘ پیدا کرنا‘ یہ سب رحمانیت کا فیض و اثر ہے۔ جو باذنِ الٰہی ہر آن جاری و ساری ہے۔ تمام اسمائے الٰہی جن کا تعلق انسان کی پرورش و حفاظت و عمل و بدلِ عمل سے ہے وہ سب ’’الرحمن‘‘ ہی کے شعبے ہیں اور عفو و مغفرت اور رحمتِ خصوصی کا تعلق اسم ’’الرحیم‘‘ سے ہے۔ رحمانیت و رحیمیت ہی سے تمام عالموں کی پرورش ہورہی ہے۔ اسی لئے فرمایا جو رب العالمین ہے وہی الرحمن الرحیم ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱ۙ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝۲ۙ (سورہ فاتحہ)۔ غرض حیات و ممات سعی و عمل کی یہ تمام ہنگامہ آرائی‘ جزائے اعمال کا عالمِ آخرت‘ حیات بعد الموت‘ اللہ تعالیٰ ہی کے اسمائے حسن ’’ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘‘ کے فیضان (قانون) و آثار سے وابستہ ہے۔ چنانچہ عرشِ الٰہی جہاں سے احکامِ الٰہی صادر ہوتے ہیں۔ اس کا ذکر ’’ الرَّحْمٰنِ‘‘ ہی کے ساتھ ہے۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی (طٰہٰ: 5) قیامت کا دن جو پرسشِ اعمال کا دن ہے اس دین ’’الرحمن‘‘ ہی کی حکومت ہوگی۔ اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ۝۰ۭ (سورہ الفرقان: 26) رحمانیت ہی کی یہ شان بھی بیان فرمائی کہ جو لوگ رحمانیت کو نہیں مانتے شیطان ان کا دوست اور ہم نشین بنادیا جاتا ہے۔ وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَھُوَ لَـہٗ قَرِیْنٌ (سورہ الزخرف: 36) ترجمہ: (جو شخص الرحمن کی نصیحت سے اندھا بن جائے ہم اس پر شیطان کو مسلط کردیتے ہیں جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے۔) نظام کائنات پر نظر ڈالنے سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سارے عالم میں محبت ہی کار فرما ہے۔ ایک قانونِ کشش تمام عالم میں جاری و ساری ہے۔ ہر شئے انسان کی طرف کھینچی چلی آرہی ہے اور ہر شئے کو انسان اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ یہ باہمی جذب و کشش ساری مخلوقات میں یکساں بلا خلل نمایاں ہے جو رحمانیت ہی کا کرشمہ ہے۔ مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ۝۰ۭ (سورہ الملک: 3)۔ رحمانیت کے یہ چند وہ رموز و نکات ہیں جن سے انبیاء علیہم السلام پوری طرح باخبر ہوتے تھے جس کی وجہ سے ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر بھی زیادہ ہوتا تھا اور اللہ جل شانہٗ سے محبت و گرویدگی بھی۔ اس لئے انبیاء علیہم السلام کو ’’خاشعین‘‘ بھی فرمایا اور ’’عابدین‘‘ بھی۔ عبادت جو بظاہر عبد و رب کا ایک شرعی و غائبانہ تعلق سمجھا جاتا ہے، وہ حقیقتاً عبد و رب کا ایک حبّی و حضوری تعلق ہے۔ اس تعلق کے اظہار کی ایک جامع صورت ’’الصلوٰۃ‘‘ (نماز) ہے۔ بندہ جو محتاجِ رحمت ہے اس کو اپنے رب ’’رحمن و رحیم‘‘ سے ہر وقت عارضی و ابدی و خصوصی رحمت طلب کرتے رہنے کا جو طریقہ اللہ ’’رحمن و رحیم‘‘ نے سکھایا ہے وہ نماز ہی ہے۔ یہی انبیاء علیہم السلام کا خصوصی عمل ہے۔ وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْھِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ (سورہ الانبیاء 73) ترجمہ: (اور ہم نے ان کے پاس نیک کام کرنے اور نماز کی پابندی (یعنی نماز قائم کرنے) کا حکم بھیجا۔) حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے پابندی نماز و استقامتِ نماز کی دعا فرماتے ہیں۔ رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ۝۰ۤۖ (سورہ ابراہیم: 40) ترجمہ: (اے ہمارے پروردگار مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنادیجئے۔) موسیٰؑ کو حکم دیا گیا وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَلِذِکْرِیْ (سورہ طٰہٰ: 14) ترجمہ: (نماز قائم کرو میری یاد (ڈر و تقویٰ) کے لئے۔) عیسیٰؑ فرماتے ہیں کہ وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا (سورہ مریم: 31) ترجمہ: (اللہ تعالیٰ نے مجھ کو نماز اور زکوٰۃ کی نصیحت فرمائی جب تک میں زندہ ہوں۔) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تاکید فرمائی گئی کہ اپنے متعلقین کو نماز کی تاکید کرتے رہیئے اور خود بھی اس کی پابندی کیجئے۔ وَاْمُرْ اَہْلَكَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْہَا۝۰ۭ (سورہ طٰہٰ: 132)۔ اور ایک زائد عبادت جو آپؐ پر فرض کی گئی وہ بھی نماز تہجد ہے۔ وَمِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ (سورہ اسریٰ: 79)۔ صحابہ کرامؓ کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں ان میں پہلے نماز ہی کا ذکر ہے۔ تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا۝۰ۡسِيْمَاہُمْ فِيْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ۝۰ۭ (سورہ الفتح: 29) ترجمہ: (تم ان کو رکوع و سجدہ میں دیکھو گے اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے جو سجود کے آثار بوجہ تاثیر سجدہ ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔) اہلِ علم کا خاص عمل جو وہ لوگوں کی نظروں سے چھپا کر رات میں کیا کرتے تھے، نماز ہی ہے۔ اَمَّنْ ہُوَقَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَّقَاۗىِٕمًا يَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَيَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ۝۰ۭ قُلْ ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۰ۭ (سورہ الزمر: 9) ترجمہ: (کیا جو شخص اوقاتِ شب میں سجدہ و قیام کی حالت میں عبادت کررہا ہو، آخرت سے ڈر رہا ہو، اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہو۔ پوچھئے کیا اہلِ علم اور جاہل برابر ہوسکتے ہیں۔) یعنی اہلِ علم وہی ہیں جن کا خصوصی شغل نماز ہے اور جو انجامِ آخرت سے ڈرتے ہیں اور رحمتِ ربّ کے امیدوار رہتے ہیں۔ مصلحین کے خصوصی شغل دو ہی بیان کئے گئے۔

(۱) تمسک بالکتاب(۲) نماز کی پابندی (قائم کرنا)

وَالَّذِيْنَ يُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ۝۰ۭ اِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِيْنَ۝۱۷۰ (سورہ الاعراف) ترجمہ: (اور جو لوگ کتاب سے تمسک کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے اور اُس کی پابندی کرتے ہیں ہم ایسے مصلحین کا اجر ضائع نہیں کرتے۔) یعنی مصلح وہی ہے جس کی ہر فکر و نظر اور ہر خیال و عقیدہ کا ماخذ کتاب اللہ ہو وہ تمام مسائل کتاب اللہ‘ سنتِ رسولؐ او رجماعت صحابہ کرامؓ کی روشنی میں حل کرتا ہے۔ علم و حکمت کے انمول موتی وہ اسی چشمہ سے حاصل کرتا ہے۔ کتاب اللہ کے آیاتِ محکمات ہی علم و حکمت کا سرچشمہ ہیں۔ قرآن مجید سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ نماز ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دلی لگاؤ بڑھتا ہے۔ نفس کے تزکیہ کی منزلیں طے ہوتی ہیں۔ رب و مولیٰ کے سامنے ذلت و عاجزی و نیازمندی‘ الحاح و زاری‘ گرویدگی و شیفتگی‘ خوف و خشیّت‘ شرم و ندامت کی تمام کیفیتیں جو بندگی کے لوازم ہیں نماز ہی میں پیدا ہوتی ہیں۔ نماز ہی ایک محتاج‘ سراپا محتاج کی ان دلی آرزؤں و تمناوں کے اظہار کا طریقہ ہے جو ایک بندۂ حق کے دل میں پیدا ہوتی رہتی ہیں وہ یہ کہ اس کو ہر اس عمل کی توفیق ہو جو مرضیٔ رب ہے اس کا دل خشیّت الٰہی و حبِّ الٰہی سے معمور رہے۔ اس میں سرفروشی و جان نثاری کا عزم و حوصلہ پیدا کیا جائے، اس کو سراپا دعا و سراپا بندگی بنادیا جائے اور دید و لقائے رب کا مشتاق‘ درجاتِ جنت کا حریص، تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ابدی‘ خصوصی رحمتوں کا مستحق ہوجائے۔ غرض انبیاء علیہم السلام (صدیقین و مقربین) اور اہلِ علم‘ صحابہ کرامؓ کے خصوصی علم و عمل کا یہ اجمالی نقشہ اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ قرب و صدیقیت کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

تقرب الیٰ اللہ

اللہ تعالیٰ کا مقرب بندہ بنے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ زیادہ سے زیادہ رحمتِ خاصہ سے سرفراز کیا جائے۔ انبیاء علیہم السلام جن کو صدیق و مقرب فرمایا گیا ہے ان کے متعلق ارشاد ہے وَاَدْخَلْنٰہُمْ فِيْ رَحْمَتِنَا۝۰ۭ (سورہ الانبیاء: 86) ترجمہ: (ہم نے ان کو اپنی رحمت میں داخل کیا۔) سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنے والوں کے متعلق ارشاد ہے سَـيُدْخِلُھُمُ اللہُ فِيْ رَحْمَتِہٖ۝۰ۭ (سورہ توبہ: 99) ترجمہ: (اللہ تعالیٰ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرلیں گے۔) نیز رسول کریمﷺ فرماتے ہیں کہ بندے کو اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے والی کتاب قرآن کے برابر کوئی اور چیز نہیں ہے۔ ’’ماتقرب العباد الی اللہ بمثل ماخرج فیہ منہ یعنی القراٰن‘‘ (احمد و ترمذی)۔ قرآن مجید جو بندوں کے لئے ایک دستورِ رحمت ہے وہ اسی لئے نازل کیا گیا کہ بندے اس کی اتباع کر کے مستحقِ رحمت بنیں۔ وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۱۵۵ۙ (سورہ الانعام) ترجمہ: (یہ قرآن جو ہم نے نازل کیا ہے بڑی برکت والی کتاب ہے پس اس کی اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت نازل کی جائے۔) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور الٰہ واحد ہونے کے مفصل دلائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ رحمانیت و رحیمیت کے فیضان و اثر کا بیان ہے تاکہ بندہ اپنے فقر و بندگی کو پہچانے‘ اپنے انجامِ حیات اور اپنے فرائض حیات’’بندگیٔ رب و احکاماتِ الٰہی‘‘ کو سمجھے اور ان فرائض کو انجام دے کر حق تعالیٰ کی ابدی رحمت و مغفرت‘ جنت و درجاتِ جنت کا مستحق بنے، یہی نیکو کار بندوں کی بڑی کامیابی ہے۔ سورہ جاثیہ میں روزِ قیامت کے بیان کے بعد ارشاد ہے فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُدْخِلُہُمْ رَبُّہُمْ فِيْ رَحْمَتِہٖ۝۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْفَوْزُ الْمُبِيْنُ۝۳۰ (سورہ جاثیہ) ترجمہ: (پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے ان کو ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ یہی صریح کامیابی ہے۔) مقام صالحیت و شہادت کی تکمیل کے بعد اگر بندۂ حق میں آگے بڑھنے اور اس سے بلند مقام پر فائز ہونے کی طلب ہو اور اس طلب کے ساتھ وہ قرآنی آیات میں غور و تدبّر کرتا رہے تو حق تعالیٰ کی رحمانیت و رحیمیت کا جو فیضان و اثر ہر آن جاری ہے اس سے بندۂ حق باخبر اور مطلع کیا جاتا ہے۔ اس فیضان و اثر پر جب اس کی نظر جم جاتی ہے تو جن اسمائے حسنیٰ پر ایمان لاکر وہ صادق ہوا تھا ان پر ایسا یقین ہوجاتا ہے جیسے کسی چیز کو دیکھ کر اس کے ہونے کا یقین ہوجائے۔ جس کا یقین و صدق اتنا پختہ ہوجاتا ہے اس کو صدیق کہتے ہیں۔ لفظِ صدیق صادق کا صیغہ مبالغہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان خبر کے دائرے سے نکل کر مشاہدہ کی طرح ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقت اس کی سمجھ میں آجاتی ہے کہ کائنات اور خود انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا جو فیضان و اثر باذنِ الٰہی (قانونِ الٰہی کے تحت) ہر آن جاری ہے وہ بھی قرآن مجید کی اصطلاح میں ’’آیات اللہ‘‘ ہے۔ ان آیات اللہ پر نظر جم جانے سے یہ حقیقت اس پر واضح کردی جاتی ہے کہ وہ اللہ جل شانہٗ ربِّ اعلیٰ و عظیم یعنی اللہ تعالیٰ اس کے حال پر متوجہ ہیں۔ اس کے محافظ و نگران ہیں اور اپنے کو ہر وقت اللہ جل شانہٗ کے سامنے حاضر و موجود سمجھتا ہے۔ حدیث شریف میں اس کیفیت کا نام ’’احسان‘‘ ہے۔ ’’ان تعبد ربک کانک تراہٗ فانلم یکن تراہٗ فانہٗ یراک‘‘ ترجمہ: (اپنے رب کی اس طرح عبادت کر گویا تو اس کو دیکھ رہا ہے اگر چہ تو اس کو نہیں دیکھتا وہ تو تجھ کو دیکھتا ہے۔)

انسان‘ اللہ جل شانہٗ کا معلوم و مخلوق ہے۔ مخلوق اپنے خالق سے دور و پوشیدہ نہیں ہے‘ بندہ ہر وقت آقا کے سامنے ہے ایسے بندے کو رحمتِ خاصہ سے سرفراز کیا جاتا ہے۔ یعنی اس کو وراثتاً انبیائی علوم اور انبیائی بصیرت عطا کی جاتی ہے۔ اس کے الہامات‘ آیاتِ محکمات کے مطابق ہوتے ہیں۔ دوسروں کے کشفی ارشاد سے وہ بے نیاز کردیا جاتا ہے، اس کا خصوصی عمل بھی نماز ہے۔ نماز جس میں شروع سے آخر تک بندگی کی مشق ہے‘ بندگی کا اظہار ہے‘ اس مقام پر بندگی کا اظہار والہانہ ہوتا ہے۔ قیام‘ رکوع‘ سجدہ‘ نشست و برخاست‘ عرضِ حال (سورہ فاتحہ کی تلاوت) یہ سب اس طرح مودبانہ ہوجاتے ہیں جیسے ایک غلام اپنے ایک بڑے اقتدار والے حاکم کے سامنے اظہارِ بندگی کررہا ہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ نماز ہی میں حضوری کی مشق ہے جس سے اٹھنے میں‘ بیٹھنے میں‘ سونے میں‘ کھانے پینے میں‘ گفتگو میں‘ زندگی کی ہر حرکت و سکون میں بھی حضوری کے آداب ملحوظ ہوجاتے ہیں۔ یہی ادب و تمیز بندگی کا حسن ہے۔ بندگی کی خوبی ہے اس سے غفلت ہو تو استغفار کی توفیق ہوجاتی ہے اور جس طرح حالتِ نماز میں بندہ اپنے رب کے حضور میں رہتا ہے اس کی ہر حرکت و سکون سے بندگی ظاہر ہوتی ہے اسی طرح بندۂ مقرب کی پوری زندگی کا ظاہری و باطنی یہی نقشہ ہوتا ہے۔ ہر وقت اپنے حقیقی حاجت روا کے حضور میں رہنے سے یہ حقیقت بھی آشکار رہتی ہے کہ وہی علم دے رہے ہیں۔ ہر بات سکھارہے ہیں‘ چلارہے ہیں‘ دکھارہے ہیں‘ سنارہے ہیں‘ کھلارہے ہیں وغیرہ۔ اور اپنے عمل میں جو خوبی و حسن پاتا ہے اس کو اسمائے حسنیٰ کا فیض و اثر سمجھتا ہے۔ جس کی وجہ سے قلب جذبۂ شکر گزاری سے معمور ہوتا ہے، دعائے مسنونہ ’’اللھم مااصبح (امسیٰ) بی من نعمہ اوباحدِ من خلقک فمنک وحدک لا شریک لک فلک الحمد ولک الشکر‘‘ میں اسی جذبہ شکر گزاری کا اظہار ہے، جس کی وجہ سے یادِ الٰہی کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ رب و مولیٰ سے شیفتگی و گرویدگی بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس کی ہر دوستی و دشمنی‘ منع و عطاء اللہ جل شانہٗ ہی کی محبت میں ہوتی ہے۔ عمل میں یہ حسن و خوبی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ ’’ان احب الاعمال الی اللہ تعالی الحب فی اللہ والبغض فی اللہ‘‘ (احمد و ابوداؤد) ترجمہ: (اللہ کے نزدیک تمام اعمال میں سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ ہی کے لئے محبت اور اللہ ہی کے لئے (بغض) دشمنی کرنا ہے۔) تکمیلِ ایمان کا یہی مقام ہے۔ ’’من احب للہ والبغض للہ واعطی للہ و منع للہ فقد استکمل الایمان‘‘ (ترمذی‘ ابوداؤد) ترجمہ: (جو اللہ ہی کے لئے محبت کرے اور اللہ ہی کے لئے دشمنی کرے اور اللہ ہی کے لئے دے اور اللہ ہی کے لئے رُکے۔ بے شک اس نے اپنے ایمان کو مکمل کرلیا۔) یہ محبت بھی کتاب و سنت ہی کے تحت ہوتی ہے۔ شریعت کا وقار ایسی ہی محبت سے قائم رہتا ہے۔ یہ محبت گم صم کرنے والی محبت نہیں ہوتی بلکہ حق کی حفاظت‘ حق کی اشاعت و تبلیغ میں تن من دھن کی بازی لگا دینے والی محبت‘ کتاب و سنتؐ کی اتباع و اطاعت کے شوق میں ہر سبّ و شتم اور لعن و طعن بطیبِ خاطر گوارا کرنے والی محبت‘ راہِ حق میں ہر تلخی کو شیرینی‘ ہر زحمت کو رحمت‘ ہر تکلیف کو راحت سمجھنے والی محبت‘ باطل کے ہنگاموں میں حق کو حق‘ باطل کو باطل کہنے کا عزم و حوصلہ پیدا کرنے والی محبت‘ اللہ او رسولؐ کی خوشنودی کو تمام دنیا کی خوشنودی پر مقدم اور بہرحال و بہر صورت اللہ تعالیٰ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کو پیشِ نظر رکھنے والی محبت‘ مرضیِ رب کو اپنی ذات اور اپنے دائرہ اثر میں نافذ کرنے والی محبت‘ چونکہ صدیق خیر و خوبی کا حریص ہوتا ہے اور تمام خیر و خوبی کے جامع اللہ تعالیٰ جل شانہٗ ہیں ’’لہ الاسماء الحسنی‘‘ وہی مانگنے والے کو خیر و خوبی عطا کرتے ہیں۔ اس لئے صدیق کو اللہ جل شانہٗ سے گہری محبت ہوتی ہے۔ عربی زبان میں گہرے دوست کو صدیق کہتے ہیں۔

مقامِ قرب و احسان کے بندے پر یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ مجھ میں جہل ہی جہل ہے‘ شر ہی شر ہے‘ اپنی کسی نیکی کو وہ نقص و خامی سے پاک نہیں سمجھتا۔ سجدہ پہ سجدہ کرتا رہتا ہے اور عرض کرتا ہے ایک سجدہ بھی تیری شان کے شایاں نہ ہوا جس کی وجہ سے ندامت و خشیتِ الٰہی اس پر غالب رہتی ہے۔ ابو بکر صدیقؓ سے بڑھ کر امت میں کون صدیق ہوگا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتے ہیں کہ نماز میں پڑھنے کی کوئی دعا سکھلایئے۔ نبی کریمﷺ نے جو دعا سکھلائی اس میں اپنے ذاتی شر و جہل ہی کا ادراک ہے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحمت کی طلب ہے۔ ’’اللھم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا ولا یغفر الاذنوب الا انت فاغفرلی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک انت الغفور الرحیم‘‘ ترجمہ: (اے میرے اللہ میں نے اپنے نفس پر بڑی زیادتیاں کی ہیں اور گناہوں کو تیرے سوا کوئی نہیں بخشتا پس تو ہی مجھ کو بخش دے۔ مغفرت (بخشنا) تیرے ہی اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہی غفور رحیم ہے۔) امت کے سب سے بڑے صدیق کی یہ دعا مقام صدیقیت کے جذبات اور احساسات کا پتہ دے رہی ہے۔ اس میں حضورِ قلبی بھی ہے۔ (انت) انتہائی ندامت کے ساتھ اعترافِ قصور بھی ہے اور صرف رحمت و مغفرت کی تمنّا کا والہانہ و مؤدّبانہ اظہار و طلب ہے۔

بندۂ مقرب کو پختہ یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ جل شانہٗ بلا کیفیت و تشبیہ اس کے قریب و اقرب ہیں۔ اس کے ساتھ ہیں’ اس کے محافظ و نگران ہیں۔ یہی یقین اس کے ہزاروں دکھ کی ایک دوا اور ہزاروں امراض کا ایک علاج ہے۔ انسان کے جو فطری خواہشات ہیں مثلا بھوک و پیاس وغیرہ یہ اللہ تعالیٰ کے قانون سے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ان فطری امور کی تکمیل میں بھی بندۂ مقرب کو حق تعالیٰ کی حاکمیت او راپنی محکومیت مستحضر ہوجاتی ہے۔ اس کی حالت بادشاہ کے پیشی کے غلام کی سی ہوتی ہے۔ اس طرح وہ سراپا اطاعت اور سراپا دعا بن جاتا ہے، یہی کمالِ بندگی ہے۔ اپنے تمام کاروبار و معاملات میں مرضیٔ رب پہچاننے کی ایک خاص صلاحیت اس میں پیدا کردی جاتی ہے اور وہ مرضیٔ رب کو اپنی مرضی بنالیتا ہے۔ اس طرح رحمتِ خاصہ سے سرفراز ہوکر بندۂ مقرب بن جاتا ہے۔

اس کے مقربِ حق‘ محبوبِ حق‘ داخلِ رحمت حق ہونے کی خاص علامت یہ ہے کہ اس کے علم و عمل‘ ظاہر و باطن میں علماً و عملاً رسالت کی پوری پوری اتباع و اطاعت کے خط و خال نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس کے سوا بزرگی و ولایت کی جو علامتی بیان کی جاتی ہیں وہ من گھڑت ہیں۔

دین و نعمت

روایات اور بزرگوں کے ارشاد کی بناء پر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ دین الگ ہے اور نعمت الگ ہے۔ نعمت وہ اس تعلیم کو سمجھتے ہیں جو وحدۃ الوجود‘ فنا و بقاء اور علمِ سینہ کے نام سے صوفیاء و مشائخ میں رائج ہے۔ یہ بالکل مہمل خیال ہے دین جس کا تعلق بندوں کی اصلاح سے ہے اسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت فرمایا مثلاً سورہ مائدہ آیت ۶ میں وضو کے احکام بیان کر کے ’’لیتم نعمتہ‘‘ فرمایا۔ تحویلِ قبلہ کے حکم کے بعد ارشاد ہے وَلِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ(سورہ بقرہ: 150)۔ سورہ حجرات آیت 8 میں ایمان سے محبت‘ نافرمانی سے کراہیت پیدا کرنے کو اپنا فضل و رحمت فرماتے ہیں۔ اس سے ثابت ہے کہ دینِ اسلام  و نعمت ایک ہی چیز ہے۔ دینِ اسلام ہی کو اپنی نعمت فرمایا۔ دینِ اسلام و نعمت کو الگ الگ سمجھنا قرآن کے خلاف ہے۔ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ (سورہ المائدہ: 3) ترجمہ: (تم سے راضی ہیں دین اسلام پر۔)

غرض اختلافات کے زمانے میں سلامتی کی راہ یہی ہے کہ اسوۂ حسنہ اور صحابہ کرامؓ کی پوری پوری اتباع و اطاعت کی جائے۔ اس تحریر سے یہی مقصد ہے کہ حق‘ طالبانِ حق کے سامنے آجائے۔

زتحریر م غرض عرضِ ہنر نیست: دما غم را ازیں بُوہا خبر نیست

اور حق تو یہ ہے کہ حق صحیح ادا نہ ہوا

اُن کے حسن و جمال کا ہم سے :اُن کے شایاں بیان نہ ہوسکا

’’تبصرۃ و ذکری لکل عبد منیب‘‘

نوٹ:- کتاب کا ماحصل مختصراً یہ ہے کہ دینِ اسلام دراصل جو عین دینِ فطرت ہے، فطرت انسانی کی صحیح رہنمائی کے لئے خالقِ فطرت نے ایک کتاب ’’القراٰن‘‘ جو مکمل علم کی کتاب ہے، اپنے بندے و آخری رسول محمد رسول اللہﷺ پر نازل فرمادی جو کہ سارے انسانوں کے لئے سامانِ ہدایت و فلاح ہے۔ خود رسول اللہﷺ بھی اللہ کے ان احکامات پر عمل کیا بلکہ ایک جماعت صحابہ کرامؓ کی تیار فرمادی، تاکہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے علم (یعنی قرآن) اور عمل (سنّتِ رسولؐ و روش صحابہ کرامؓ) کی مکمل رہنمائی ہوسکے۔ جس وقت نزولِ قرآن کا سلسلہ چل رہا تھا تب مخالفین‘ منافقین‘ ضعیف الایمان ان کی ساری مخالفتیں اس لئے تھیں کہ وہ قرآن کو اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں سمجھتے اور نہیں مانتے تھے۔ کلام الٰہی کے ہونے میں انہیں شک تھا اسی لئے انہیں کہا گیا ہے کہ اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝۰ۭ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِيْہِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا۝۸۲ (سورہ النساء: 82) ترجمہ: (کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے۔ ولوفرض، اگر یہ قرآن (اللہ تعالیٰ کے سواء) کسی اور کا (محمدﷺ کا) بھی ہوتا تو وہ اس میں (بہت سارے) اختلافات پاتے) اگر یہ کلام خالقِ انسان‘ خالقِ فطرت کا نہ ہوتا کسی اور کا ہوتا تو اس میں اور عقل و فطرتِ انسانی میں ٹکراؤ ہوتا۔  اس قرآن کے احکامات ناقابل عمل ہوتے، انسان کے فطری جذبات و مطالبات کچھ ہوتے، احکام و ہدایات کچھ اور۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ خود قرآنی احکامات میں تضاد ہوتا، حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ لَا تَبْدِيْلَ لِكَلِمٰتِ اللہِ۝۰ۭ (یونس: 64) ترجمہ: (اللہ تعالیٰ کے کلام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی)۔ تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۝۰ۤۙ (سورہ الروم: 30) ترجمہ: (اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق میں کوئی تغیر ہو ہی نہیں سکتا، یہی دینِ قیّم ہے)۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْـلَا (الاحزاب: 62) ترجمہ: (اور تم اللہ تعالیٰ کے طریقہ کار میں ہرگز کوئی تبدیل نہ پاؤگے)۔ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝۰ۥۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَحْوِيْلًا۝۴۳ (سورہ فاطر) ترجمہ: (تم اللہ تعالیٰ کی سنت میں ہرگز کوئی تبدیل نہ پاؤگے۔ اور تم اللہ تعالیٰ کے طریقہ کار میں کوئی تغیر نہیں پاؤ گے) سُـنَّۃَ اللہِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ۝۰ۚۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝۲۳ (الفتح) ترجمہ: (یہی سنتِ الٰہی ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے اور آپ اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے) بلکہ قرآنی احکام شروع سے آخر تک ہم آہنگ ہیں۔ بعض مصلحینِ قوم جو احکاماتِ الٰہی سے بے بہرہ تھے، انہوں نے اپنی عقل ہی سے انسانوں کی اصلاح کے لئے یہ نصیحت کی کہ حرص‘ غم‘ غصّہ‘ جنسی میلانات‘ اکل و شرب کی خواہشات یہ سب بہیمانہ صفات ہیں، انہیں مٹادینا چاہئے۔ اکل و شرب کے مطالبات چونکہ مٹائے نہیں جاسکتے، اس لئے ان کو کم سے کم درجہ میں رکھنا چاہئے یا پھر یہ نصیحت کی کہ ترکِ دنیا ہی سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوسکتی ہے۔ درحقیقت قال اللہ و قال رسول میں انسانوں کے فطری مطالبات ہی کی تکمیل کا سارا سامان ہے۔ عالم وہ نہیں ہے، جو بے بہرہ انسانوں کے سامنے دین کو صرف قال اللہ و قال رسول کہہ کر پیش کردے، بلکہ عالم و ماہر وہ ہے جو دینِ الٰہی میں انسان کی عقل و فطرت سے جو چیز ہم آہنگ ہیں، اس کو واضح کرے اور انہیں دعوت الی اللہ دے (سورہ الرم: 30)۔

آیات قرآنی دراصل احکامات و ہدایاتِ الٰہی ہیں جو بندوں کے فکر و عقیدہ کی ہی اصلاح انہیں کرتے بلکہ زندگی میں عمل کرنے کے لئے نازل کی گئی ہیں۔ آیاتِ قرآن ایک دوسرے سے پوری طرح مربوط ہیں تضاد بیانی ہرگز نہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ مکمل قرآن ’’وحدہٗ لا شریک لہٗ‘‘ (یکتا و تنہا جس کا کوئی شریک نہیں اور جو ہر نقص و عیب سے پاک ہے) نے نازل فرمایا ہے۔

آج تک جب سے کائنات بنی ہے دنیا شاہد ہے جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ انسان اس کائنات کی ہر شئے کو استعمال کرتا چلا آرہا ہے اور مزید استعمال کے طریقہ تلاش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ۝۰ۡۖ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۶۵ۧ (سورہ الانعام) ترجمہ: (وہ وہی تو ہے جس نے تم کو زمین پر صاحبِ اختیار بنایا۔ اور تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی، تاکہ جو کچھ اس نے تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ اگر چہ کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتے ہیں کہ کون کیا عمل کرتا ہے (لیکن آزمائش اِتمام حجّت کا باعث ہوتی ہے) بے شک آپ کا رب بہت جلد سزا دینے والا ہے اور واقعی وہ (توبہ کے بعد) بڑا بخشنے والا اور رحم فرمانے والا بھی ہے)۔ ترقی کا عالم تو یہ ہے کہ آج کا انسان کمپیوٹر‘ لیاب ٹاپ‘ موبائل‘ انٹرنیٹ ہی نہیں بلکہ ضروریاتِ زندگی کے بہت سارے دیگر مسائل، میڈیکل کے ہوں یا جنگی خطوط کے ان کو الکٹرانک انداز سے استعمال کررہا ہے، پھر بھی حقائق سے ناواقف اور جاہل ہے۔ کئی ایک ایسی اور ایجادات باقی ہیں جن کا کبھی اختتام نہیں۔ ایک نامور سائنسداں نے اعتراف کیا ہے کہ سائنس کی منزل اگر ایک ہزار میل دور ہے تو آج تک انسان نے جو کچھ بھی ترقی و معلومات حاصل کئے ہیں، اس ایک ہزار میل کا صرف اور صرف ایک قدم بھی مکمل نہیں چلا ہے (معلومات حاصل نہیں کیا ہے)۔ تو پھر ذرا غور کریں، اس تصّرفِ کائنات کا نظام جو بنایا ہے اور چلا رہا ہے اور اس کے استعمال کا حق و اختیار جس مخلوق کو اُس نے دیا ہے، اس مخلوق کے سواء تصّرف میں کوئی اور دوسری مخلوق (ملائکہ‘ جن و شیاطین) ہی کیوں نہ ہو، کسی اور کو بھی مداخلت کا اختیار ہے؟ ہر گز نہیں۔۔۔ فی الارضِ خلیفہ صرف اور صرف انسان (آدم  و زریّتِ آدم ہی) ہیں۔