حقیقتِ بدعت

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

حقیقتِ بدعت

لغت میں ہر نئے کام اور نئی ایجاد کو بدعت کہتے ہیں ۔ اسی سے لفظ بدیع بنا ہے۔ جو اللہ تعالی کا صفاتی نام ہے لیکن اصطلاح شریعت میں بدعت ہر اس شئے کو کہا جاتا ہے جسے دین سمجھ کر یا ثواب سمجھ کر اختیار کیا جائے۔ اور وہ کتاب و سنت اور اسوہ صحابہؓ سے ثابت نہ ہو۔ دنیاوی ایجادات و اختراعات کو نہ شریعت میں بدعت کہتے ہی اور نہ شریعت اس سے منع کرتی ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے۔  مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدُّ   (بخاری ج ا:۳۷۱، ابو داؤد ج ۲ ۹:۲۷: ابن ماجہ:۳)’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کی جو اس دین میں نہ ہو تو وہ ردہے‘‘۔

یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھئے کہ نبی کریم  ؐنے جس فعل کو اختیار نہیں فرمایا اس کا ترک کرنا بھی سنت ہے اور اسے اختیار کرنا بدعت ہے، کیونکہ اگر اس فعل میں کوئی خوبی ہوتی اور اس فعل سے کچھ ثواب حاصل ہوتا یا اس کا کرنے والا اللہ تعالی کی جانب سے کسی اجر کا مستحق ہوتا تو نبی کریم ؐ اس پر ضرور عمل فرماتے اور ہر گز ترک نہ فرماتے کیونکہ یہ تو نا ممکن ہے اس فعل میں کوئی خیر و خوبی پائی جاتی ہو اور پھر نبی کریمؐ اسے ترک فرما دیں ۔ اس لئے کہ اس صورت میں یہ لازم آئے گا کہ نبی کریم ؐنے نعوذ باللہ یا تو اخفاء دین سے کام لیا  یا بصورت ثانیہ اسلام ایک نامکمل دین ہے اور یہ دونوں امر محال ہیں ۔ کیونکہ اخفاء کی صورت میں رسالت ہی باطل ہو جاتی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے  :   يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ۝۰ۭ (مائدہ:۶۷) ’’اے رسول ! آپ کی جانب آپ کے پروردگار کی طرف سے جو کچھ نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اپنی رسالت کو نہیں پہنچایا‘‘ ۔

اور دوسری صورت میں دین کامل نہیں رہتا اور اس سے قرآن کا انکار لازم آتا ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ ( مائدہ:۳)’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو پسند کیا‘‘ ۔

اس اعلان الٰہی کا منشا یہی ہے کہ اب اس دین میں تا قیامت کسی ترمیم و تنسیخ یا حذف و اضافہ کی نہ کوئی ضرورت باقی ہے اور نہ اس دین میں اس کی کوئی گنجائش ہے کیونکہ ہدایت اور نجات کے لئے جن جن احکامات کی ضرورت تھی وہ سب نازل کر دیئے گئے ہیں اور نبی کریم  ؐنے اس کی تشریح فرما دی ہے اب جو شخص دین میں کسی ایسے امر کا اضافہ کرتا ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے نہ دی ہو تو گویا وہ اس بات کا مدّعی ہے کہ مذہب اسلام ایک نا مکمل دین ہے اور میری ترمیم و اضافہ کا محتاج ہے۔ اس طرح وہ قانون الٰہی میں دخل اندازی کر کے اپنی خدائیت کا مدّعی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا انکار کرتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لئے جو احکامات نازل فرمائے ہیں وہ ناکافی ہیں ۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کو چاہئے تھا کہ وہ یہ احکامات نازل کرتے وقت اس سے مشورہ لیتا اور اس شخص سے مشورہ کئے بغیر اللہ تعالیٰ کو کسی شئے کے حلال یا حرام کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ عیاذ باللہ

یہ تو بدعت سے پیدا ہونے والے وہ اتہامات ہیں جو اللہ تعالیٰ پر قائم ہوتے ہیں اور نبی کریم  ؐپر جواتہامات لازم آتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں جس میں سے پہلا الزام یہ ہے کہ نبی کریم  ؐنے دین میں اخفاء سے کام لے کر رسالت میں خیانت کی اس الزام کی حقیقت امام مالکؒ بن انس مدنی المتوفی  ۷۹ ۱  ؁ ھ کی زبانی سنئے۔

مَنْ ابتدع فی الاسلام بدعۃ یراھا حسنۃً فقد زعم اَنَّ محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم خان الرسالۃ لان اللّٰہ تعالیٰ یقول اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ( الایۃ) فما لم یکن یومئذ دینا فلا یکون الیوم دینًا( الاعتصام ج:۱:۴۷، ج:۲: ۱۵۰) جس نے اسلام میں کوئی بدعت جاری کی، اور وہ اسے اچھا کام تصور کرتا ہو  تو گویا وہ دعویٰ کر رہا ہے کہ رسول اللہ ؐ نے رسالت کی ادائیگی میں خیانت کی۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے۔’’میں نے آج تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا‘‘۔ چنانچہ جو شئے اس روز(یعنی اللہ کے اس فرمان کے نزول کے وقت)  دین نہ تھی وہ آج کے دن بھی دین نہیں ہو سکتی‘‘۔

علامہ حسام الدین علی المتقی الحنفی المتوفی  ۹۷۹؁ ھ رقم طراز ہیں۔

بل فیہ طعن و مذمۃ و ملامۃ علی السلف حیث لم یبینوا بل علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حیث ترک بل علی اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ حیث لم یکمل الشریعۃ و قد قال اللّٰہ تعالیٰ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ۔ ( تفہیم المسائل ۱۷۲؎)’’ بلکہ اس میں اسلام پر ایک قسم کا طعن اور اسلاف کی ملامت و مذمت ہے کہ انہوں نے احکامات دین بیان نہیں کئے ۔ بلکہ نبی کریم  ؐ پر بھی اعتراض ہے کہ آپ نے دین کو ناقص چھوڑ دیا بلکہ سبحانہ و تعالیٰ پر بھی اعتراض ہے کہ اس نے شریعت کی تکمیل نہیں کی۔ حالانکہ اللہ تعالی فرماتا ہے ‘‘آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا‘‘۔

ملا علی قاری حنفی المتوفی ۱۰۱۴؁ھ فرماتے ہیں۔

قال اللّٰہ تعالیٰ ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمْ الْاِسْلَامَ دِیْناً‘‘ فلا نحتاج الی تکمیلہ الی امر خارج عن الکتاب والسنۃ کما قال اللّٰہ تعالیٰ اولم یکفہم انا انزلنا علیک الکتاب یتلی علیہم او قال تعالیٰ وما اٰتٰکم الرسول فخذوہ وما نہاٰکم عنہ فانتہوا ( شرح فقہ اکبر:۱۱؎) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا‘‘تو اب ہم اس کی تکمیل کے لئے کسی ایسے امر کے محتاج نہیں جو کتاب و سنت سے خارج ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’کیا ان کے لئے یہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ، جو ان پر تلاوت کی جاتی ہے۔‘‘اور ایمان والوں کو حکم دیا ’’رسول ؐ تمہیں جو حکم دیں اسے لازم پکڑو اور جس کام سے تمہیں منع کردیں اس سے رک جاؤ‘‘ ۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

ان امور کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو بخاری و مسلم نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ تین صحابہ ازواج مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے نبی کریم  ؐ کی عبادت کا حال دریافت کیا ۔ جب ازواج مطہرات نے آپ کی عبادت کی کیفیت بیان کی تو انہوں نے اس عبادت کو قلیل تصور کیا اور کہنے لگے۔

این نحن من النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم و قد غفر اللّٰہ ما تقدم من ذنبہ وما تاخر فقال احدھم اما اذا فاصلی اللیل ابداً و قال الاخر انا اصوم النَّہار ابدا و قال الاخر انا اعتزل النساء فلا اتزوج ابداً  ’’ ہم رسول اللہؐ کے برابر کہاں ہو سکتے ہیں حالانکہ اللہ تعالی نے آپؐ کے گذشتہ و آئندہ سب گناہ معاف فرما دیئے ہیں ان میں سے ایک نے کہا میں ہمیشہ تمام رات نماز پڑھوں گا۔ دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھوں گا، تیسرا بولا کہ میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا اور کبھی نکاح نہ کروں گا‘‘۔

نبی کریمؐ یہ گفتگو سنتے ہوئے تشریف لے آئے آپ ؐ نے ان حضرات سے مخاطب ہو کر فرمایا’’ قلتم کذا و کذا اما واللہ انی لا خشٰکم للہ واتقاکم لہ ولکنی اصوم وافطر واصلی و ارقد و اتزوج النساء فمن رغب عن سنَّتی فلیس مِنِّیْ‘‘ (بخاری ج:۲ ۲۵۷؎ ، مشکوہ:۲۷؎) تم لوگوں نے ایسی بات کہی ۔ اللہ کی قسم میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تم سے زیادہ متقی ہوں۔ لیکن میں روزے رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا۔ رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ۔ او رعورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں تو جس نے میری سنت سے اعراض کیاوہ مجھ سے (میری امت) نہیں ہے‘‘ ۔

قارئین کرام غور فرمائیں ان صحابہؓ نے دین میں کسی نئی عبادت کے ایجاد کا خیال نہیں کیا تھا بلکہ ان اعمال میں جو شریعت سے ثابت تھے اور بعض صورتوں میں فرض اور بعض مسنون تھے ان میں انفرادی طور پر اضافہ کا تصور کیا تھا۔ لیکن نبی کریم ؐ نے اسے اپنی سنت کے منافی تصور کیا اور اس کی ممانعت فرمائی اور ایسے کرنے والے افراد کو بھی اپنی ملت سے خارج قرار دیا۔

بہت سے لوگوں کو عبادت میں انہماک ہوتا ہے اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم میں اور نبی  کریم ؐمیں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ نبی  کریم ؐکے تمام گزشتہ اور آئندہ گناہ معاف ہو چکے ہیں۔ اس لئے آپؐ  کو  تو کسی خاص عبادت کی ضرورت نہ تھی اور ہم لوگ گناہگار ہیں ۔ اس لئے ہم آپ سے زیادہ عبادت کے  محتاج ہیں۔ اس طرز فکر سے بہت سی نئی نئی بدعات وجود میں آئیں اور دین میں نئے نئے اضافے ہوتے رہے۔ اسی انداز فکر کا نتیجہ تھا جو صوفیاء نے ترک دنیا اختیار کی اور چلّہ کشی اور بھوکے رہنے کی بدعت جاری کی۔ موجودہ شبینے بھی اسی انداز فکر کا نتیجہ ہیں ۔ حالانکہ یہ ایک زبردست شیطانی دھوکہ ہے جو ان تینوں صحابہ نے بھی کھایا تھا۔ کیونکہ یہ تصور کہ نبی  کریم ؐ  کو چنداں عبادت کی ضرورت نہیں اور ہم عبادت کے زیادہ محتاج ہیں۔ بظاہر تو بہت حسین معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن اس سے نبی کریم ؐ پر زبردست اتہامات واقع ہوتے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گویا کہنے والا عکس نقیض کے طور پر یہ کہہ رہا ہے کہ میں نبی کریم ؐسے زیادہ متقی زیادہ پرہیزگار اور زیادہ عبادت گزار ہوں اور اللہ کا خوف نبی کریم ؐسے زیادہ میرے دل میں ہے۔ یا میں نبی کریم ﷺ سے زیادہ دین کا واقف کار ہوں۔ یا یوں کہئے کہ نبی کریم ؐ اللہ کے شکر گزار بندے نہ تھے۔ لیکن میں ناشکرا نہیں ہوں۔ بلکہ آپؐ سے زیادہ شکر گزار ہوں۔ نبی کریم ؐنے اسی لئے یہ جملہ ارشاد فرمایا : اِنّی اَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ متقی ہوں۔

اور اسی قسم کے ایک اور واقعہ میں یہ الفاظ فرمائے : فو اللّٰہ انّی لا علمہم باللّٰہ و اشدُّھم لہ خشیۃً  ( مسلم ج:۲۶۱؎)  ’’اللہ کی قسم میں ان سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والا اور ان سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں‘‘۔

اسی قسم کے ایک اور سوال کے جواب میں فرمایا۔ اَفَلا اَکُوْن عبداً شکوراً (شمائل ترمذی:۲۲؎ ) کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

آپ نے غور فرمایا کہ شیطان نے اس قسم کے لوگوں کو دھوکہ دے کر کس بات کا اقرار کروایا۔ کہ ہم نبی  کریم ؐسے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے نبی کریم ؐ سے زیادہ متقی، نبی کریمؐ سے زیادہ دین کے واقف کار اور نبی کریمؐ سے زیادہ اللہ کے شکر گزار ہیں لیکن وہ تو صحابہ ؓ رسول تھے جو ایک اشارہ ہی میں اس نکتے کو سمجھ گئے ۔ لیکن بعد کے بدعتی اور صوفیاء اسی دھوکہ میں آج تک مبتلا ہیں ۔ حالانکہ اگر کوئی شخص ان امور میں سے ایک کا بھی صراحتاً دعوی کرے تو وہ ایمان سے خارج ہو جاتا ہے اور توہین رسول کے جرم میں وہ واجب القتل ۔ اس طرح شیطان نے ان نادانوں کو ورغلا کر محبت رسول کی آڑ میں ان سے نبوت و خدائیت کا دعویٰ کرا دیا گویا یہ شیطان کا ایک تبرا تھا جو مولویوں اور صوفیوں کے ذریعہ اس نے انجام دلایا۔  اعاذنا اللہ من ذلک۔

اقسامِ سنّت

اس حدیث میں یہ بات بھی نبی  کریم ؐنے واضح فرمادی کہ گمراہی اور بدعت کی صرف یہی ایک صورت نہیں کہ دین میں کوئی نئی شئے اپنی جانب سے ایجاد کر لی جائے بلکہ ایک مشروع اور مسنون فعل کو اس کی حدود سے بڑھانا بھی بدعت و گمراہی ہے۔

یہ نکتہ بھی اس سے واـضح ہو گیا کہ دین ترک دنیا کا نام نہیں ۔ جیسا کہ صوفیاء کو دھوکہ ہوا ہے اور نہ چلّہ کشی کا نام دین ہے۔

اور تیسری بات یہ بھی واضح ہو گئی کہ جس طرح اس کام کا کرنا سنت ہے جسے نبی کریم ؐنے انجام دیا ہو۔ اسی طرح اس شئے کا ترک کرنا بھی سنت ہے جسے نبی  کریم ؐنے ترک فرمایا ہو۔ مثلا اگر کوئی شخص نماز عیدین سے قبل نفل نماز پڑھنے لگے جسے نبی  کریم ؐ نے ترک کیا ہے تو یہ نماز پڑھنے والا بدعتی سمجھا جائیگا اور اسے ترک کرنے والا پابند سنت۔ یا مثلا نبی  کریم ؐنے نماز تہجد انفرادی طور پر ادا فرمائی ۔ انفرادی طور پر یہ نماز ادا کرنے والا پابند سنت ہوگا لیکن جماعت کے ساتھ ادا کرنے والا سنت کا مخالف ہوگا۔ سید جمال الدین محدث فرماتے ہیں ۔ ترکہ صلی اللہ علیہ وسلم کما ان فعلہ سنۃ ۔ (لجنہ:۱۴۳؎)   رسول اللہ ؐ  کا کسی فعل کو ترک کرنا اسی طرح سنت ہے جس طرح آپ کا کسی فعل کو انجام دینا سنت ہے۔

شرح مسند ابی حنیفہ میں ہے :  ولاتباع کما یکون فی الفعل یکون فی الترک فمن واظب علی مالم یفعل الشارع ﷺ فہو مبتدع لشمول قولہ صلی اللہ علیہ وسلم من عمل عملا لیس علیہ امرنا فہو رد ۔’’ جس طرح اتباع کسی فعل میں ہوتی ہے ، اسی طرح ترک میں بھی اتباع ہوتی ہے تو جس شخص نے کسی ایسے فعل کو اختیار کیاجو شارع علیہ السلام نے انجام نہیں دیا تو وہ بدعتی ہے،کیوں کہ رسول اللہ ؐکا ارشاد ہے جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم موجود نہیں ہے وہ ردّ ہے‘‘ ۔

امام مسلم المتوفی  ۲۶۴؁ ھ نے اپنی صحیح میں حذیفہ بن الیمانی رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے نبی  کریم ؐنے ارشاد فرمایا : تکون بعدی ائمۃ لا یہتدون بہدی ولا یستنون بسنتی و سیقوم فیہم رجال قلوبہم قلوب الشیاطین فی جثمان انس۔ ( مسلم ج: ۲ ۱۲۷؎) میرے بعد ایسے آئمہ ہوں گے جو میری ہدایت پر نہ چلیں گے اور نہ میری سنت کو اختیار کریں گے۔ ان میں ایسے آدمی کھڑے ہوں گے (برسر اقتدر یا برسر ممبر آئیں گے) جن کے دل تو شیطانوں کے دل ہوں گے اور جسم انسانوں کے۔

امام نونی رحمۃ اللہ المتوفی  ۶۷۶؁ ھ اس حدیث کی تشریح فرماتے ہیں : قال العلماء ھٰؤلاء من کان من الامراء یدعو الی بدعۃ او ضلالۃ۔ (مسلم ج: ۲ ۱۲۷؎ ) علماء فرماتے ہیں امراء سے مراد وہ  لوگ ہیں جو بدعت اور گمراہی کی دعوت دیتے ہیں۔

صحابہؓ کا قول و عمل بھی سنت ہے

سطور بالاسے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہو گئی کہ جس کام کو نبی  کریم ؐنے سر انجام نہ دیا ۔ یا اس کی ترغیب بیان نہ فرمائی ہو وہ بدعت و گمراہی ہے ۔ کیونکہ اگر اس کام میں کوئی بھلائی ہوتی تو نبی  کریم ؐاس فعل کو یا تو خود انجام دیتے یا صحابہ کرامؓ  کو اس کی ترغیب دیتے اور جب آپ نے وہ کام نہ خود فرمایا اور نہ اوروں کو ترغیب دی تو اس میں کوئی بھلائی نہیں اور ایسا کام بدعت و ضلالت ہے۔ خواہ وہ بظاہر عبادت ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا کرنا حرام ہے اور اس کا مرتکب گمراہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ تفرق امتی علی ثلاث و سبعین ملۃ کلّہم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یا رسول اللّٰہ قال ما انا علیہ و اصحابی ( ترمذی ج: ۲ ۸۹، مستدرک للحاکم ج: ۱ ۱۲۹، مشکوۃ:۳۰) اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ جہاں نبی  کریم ؐکی سنت پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے وہاں صحابہ کرام ؓ  کی اقتداء بھی لازمی ہے۔ جس طرح نبی  کریم ؐکی سنت کا تارک گمراہ ہے ۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ کے طریقہ کار کو چھوڑنے والا بھی دین سے خارج ہے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے۔ من کان مستنا فلیستن بمن قد مات فان الحی لا تومن علیہ الفتنۃ اولٰٓئک اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کانوا افضل ھذہ الامۃ ابرھا قلوبا و اعمالہا علما و اقلہا تکلفا اختارھم اللّٰہ لصحبۃ نبیۃ ولا قامۃ دینہ فاعرفوا بما فضلہم و اتبعوھم علی اثر ھم تتمسکوا بما استطعتم من اخلاقہم و سیرھم فانہم کانوا  علی الہدی المستقیم( مشکوۃ: ۳۲؎ ) ’’جو شخص کسی کا طریقہ اختیار کرنا چاہتا ہے تو وہ ان لوگوں کا طریقہ اختیار کرے جو مر چکے کیوں کہ زندوں کے بارے میں یہ اطمینان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ فتنوں میں مبتلا نہ ہوں گے۔ یہ رسول اللہ ؐ کے صحابہؓ ہیں ۔ جو اس امت کے افضل ترین انسان ہیں جن کے دل نیک جن کا علم گہرا اور جو تکلف میں سب سے کم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبیؐ کی صحبت اور اپنا دین قائم کرنے کیلئے پسند فرمایا۔ ان کی فضیلت کو پہچانو۔ ان کے نقشِ قدم کی پیروی کرو اور جہان تک ہو سکے ان کے اخلاق اور ان کی سیرت کو لازم پکڑ لو۔ کیونکہ یہ لوگ سیدھے راستے پر ہیں‘‘۔

عمر ؓنے ایک خاص موقع پر ارشاد فرمایا:  ’’ تمہارے نبیؐ کے بعد کوئی دوسرے نبی آنے والے نہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر جو کتاب نازل فرمائی ہے وہ کامل ہے اس کے بعد کوئی دوسری کتاب آنے والی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو شئے حلال فرمادی وہ تا قیامت حلال رہے گی اور جو چیز حرام فرمادی وہ تا قیامت حرام رہے گی۔ میں اپنی جانب سے کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں۔ بلکہ میں صرف احکام الہی نافذ کرنے والا ہوں‘‘۔

اس کے بعد ارشاد فرماتے ہیں : الاوانَّی لست بمبتدع ولکنی متبع (الاعتصام ج :۱ ، ۱۰۱ ، سیرت ابن جوزی : ۱۰۸)’’خبردارا  !  میںکوئی بدعتی نہیں،میں تومتبع ہوں‘‘۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ‘ صحابہ کرامؓ کی اتباع اور بدعت کی مذمت ان الفاظ میں فرماتے ہیں: الاوانَّی لست بمبتدع ولکنی متبع (الاعتصام ج :۱ ، ۱۰۱ ، سیرت ابن جوزی : ۱۰۸)’’خبردارا  ! میںکوئی بدعتی نہیں ‘ میں تو متبع ہوں‘‘۔ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کی اتباع اور بدعت کی مذمت ان الفاظ میں فرماتے ہیں:  اتّبعوا ثارنا فلا تبدعوا فقد کفیتم (الاعتصام ج: ۱ ۵۴) ’’ہمارے نقش قدم کی پیروی کرو اور بدعت اختیار نہ کرو ۔ کیونکہ تمہارے لئے ہمارا طریقہ کافی ہے‘‘۔

امام ابو داؤد طیالسی المتوفی  ۲۰۴؁ ھ نے اپنی مسند میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے۔ آپ نے فرمایا ان اللّٰہ عزو جل نظر فی قلوب العباد فاختار محمدا فبعثہ برسلتہ و انتخبہ بعلمہ ثم نظر فی قلوب الناس بعدہ فاختار لہٗ اصحابہ فجعلہم انصار دینہ و وزراء نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم فما رآہ المسلمون حسناً فہو عند اللّٰہ حسن و ماراہ قبیحا فہو عند اللّٰہ قبیحٌ(مسند ابی داؤد طیالسی ۳۳) ’’اللہ عزوجل نے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد ؐ  کو اپنی رسالت اور اپنے علم کیلئے منتخب فرمایا پھر آپؐ کے بعد لوگوں کے دلوں پر نگاہ ڈالی تو آپؐ کیلئے آپ کے صحابہ ؓکو پسند فرمایا، تو انہیں اپنے نبیؐ کے دین کا مددگار اور اپنے نبی  کریم ؐ  کا وزیر بنایا۔ تو جسے یہ صحابہؓ اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جسے یہ صحابہ ؓبُرا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بُری ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں مختلف مقامات پر صحابہ کرام ؓکی اتباع کا حکم دیا ہے اور جن آیات میں ان کے فضائل بیان فرمائے ہیں وہ تو لا تعداد ہیں ۔ ہم چند آیات بطور نمونہ ذیل میں پیش کرتے ہیں۔ ارشاد ہے۔

وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا۝۱۱۵ۧ (نساء)’’جس شخص نے رسولؐ  کی مخالفت کی اس کے باوجود کہ اس کے لئے ہدایت واضح ہو چکی اور مومنین کی راہ کو چھوڑ کر کسی اور راہ کی پیروی کی ‘ ہم بھی اس سے روگردانی کریں گے۔ جو روگردانی کرے گا ہم اسے جہنم میں ڈالیں گے جو بہت برا ٹھکانا ہے‘‘۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جہنمی قرار دیا ہے جو نبی  کریم ؐکی ہدایت پر کار بند نہیں ہوتے اور صحابہ کرام ؓکے طریقہ کار اور ان کے اسوہ کو چھوڑ کر غیروں کی نقالی کرتے پھرتے ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے۔  فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا۝۰ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ۝۰ۚ (بقرہ: ۱۳۷)’’یہ لوگ بھی اگر ایسے ہی ایمان لے آئیں جیسے تم لوگ نبی  کریم ؐپر ایمان لائے ہو تو ہدایت پا جائیں گے اور اگر یہ روگردانی کریں تو یہ خود اختلاف میں پڑے ہیں‘‘۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کے ایمان کو نمونہ قرار دے کر لوگوں سے انہی جیسے ایمان کا مطالبہ کیا ہے اور آخری جملہ میں یہ بھی اشارہ فرمادیا ہے کہ ان کی اقتداء کے بغیر اختلاف دور ہونا ناممکن ہے کیونکہ ان کی اقتداء ہدایت اور اتحاد کے لئے شرط ہے۔

ایک مقام پر اللہ تعالی عزوجل ان صحابہؓ سے اپنی رضامندی کا اظہار ان الفاظ میں فرماتا ہے ۔ وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ۝۰ۙ رَّضِيَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۱۰۰ ( توبہ) مہاجرین و انصار میں سے سبقت کرنے والے ، پہلے گزرنے والے اور وہ لوگ جنہوں نے نیکی میں لگن کے ساتھ ان کی پیروی کی ہے ان سے اللہ راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ اللہ نے ان کیلئے جنتیں تیار کی ہیں ‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور جس میں یہ ہمیشہ رہیں گی۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔

اس آیت میں جہاں اللہ تعالیٰ نے تمام سابقین اولین مہاجرین و انصار کے لئے اپنی رضا اور جنت کا اعلان فرمایا ہے وہاں ان کے ساتھ ساتھ ان کی پیروکاروں کو بھی اپنی رضا اور جنت کی بشارت دی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں ان کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔

حافظ ابن کثیر المتوفی   ۲۷۶؁ھ نے کیا خوب تجزیہ فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں  :  واما اہلُ السنّۃ والجماعۃ یقولون کل فعل و قول لم یثبت عن اصحابۃ فہو بدعۃ لانہ لو کان خیرا لسبقونا الیہ لانّہم لم یترکوا خصلۃ من خصال الخیر الا  وقد بادرُوْا الیہا۔ (الاعتصام ج: ۱ ۱۸۸)’ ’اہل سنت والجماعت کہتے ہیں ہر وہ قول و فعل جو صحابہؓ سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے۔ کیونکہ اگر اس میں بھلائی ہوتی تو وہ اس کی طرف ہم سے پہلے سبقت کرتے ۔ کیونکہ نیک کاموں میں سے کوئی کام ایسا نہیں ہے جسے انہوں نے ترک کر دیا ہو بلکہ انہوں نے اس کی طرف پہلے سبقت کی‘‘۔

بدعت کی مذمت

اگرچہ سطور بالا سے بدعت کی مذمت بخوبی ہو چکی ہے۔ لیکن چونکہ یہ مرض اتنا عام اور اتنا پرانا ہو چکا ہے کہ چند حوالوں سے اس کا ازالہ ممکن نہیں ۔ اس لئے ہم ذیل میں چند ایسی احادیث پیش کرتے ہیں کہ جن میں نبی  کریم ؐنے اپنی زبان اقدس سے بدعت کی مذمت فرمائی ہے۔

بخاریؔ و مسلم ؔ نے سیدہ عائشہؓ سے رویت کیا ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  :  مَن اَحدثَ فی امرنا ھٰذا ما لیس منہ فہو رَدٌّ  ( بخاری ج:۱:۳۷۱ ، مسلم ج: ۳:  ۱۷۷ؔ، ابو داؤد ج: ۲۔۲۷۹؎ ، ابن ماجہ ج: ا ۔ ۶؎)’’جس شخص نے ہمارے اس کام میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کی جو اس دین میں نہ ہو تو وہ رد ہے‘‘۔

امام مسلمؔ، نسائیؔ اور ابن ماجہؔ نے جابر بن عبداللہؓ سے روایت کیا ہے رسول اللہ ؐنے ارشاد  فرمایا  :  اَمَّا  بعد فَانَّ خیر الحدیث کتابُ اللّٰہِ و خیرَ الہدیٰ ھدی محمد و شر الامور محدثتہا و کل بدعۃ ضلالۃ۔  ( مسلم ج:۱۔۱۷۹) ’’ بعد حمد وثنا کہ سب سے بہترین بات کتاب اللہ ہے اور سب سے بہترین طریقہ محمد ؐ کا طریقہ ہے اور سب سے بد ترین کام نئی باتیں ہیں اور ( دین میں) ہر نئی بات گمراہی ہے‘‘۔

اور ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں ۔ وکل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار۔  ( ابن ماجہ) ’’ہرنئی  بات بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی  اورہرگمراہ دوزخ میں جائے گا‘‘۔

بخاری و مسلم نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ایک کام کیا اور لوگوں کو اجازت دی ۔ لیکن کچھ لوگوں نے اسے خلاف دینداری تصور کرتے ہوئے اس سے گریز فرمایا۔ نبی  کریم ؐ  کو جب اس کی اطلاع ملی ۔ تو آپؐ نے خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ما بال اقوام یتنزھون عن الشئی اصنعہ فواللّٰہ انی لا علمہم باللّٰہ و اشدھم لہ خشیۃ (مسلم ج:۲۔۲۶۱، بخاری ج: ۲۔۱۰۸۴)’’لوگوں کو کیا ہو گیا کہ وہ ایک ایسے کام سے احتراز کرتے ہیں جسے میں کرتا ہوں۔اللہ کی قسم میں ان سے زیادہ اللہ کو جاننے والا اور ان سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہوں‘‘۔

یہاں بھی کسی اضافہ کا تصور نہیں ۔بلکہ ایک قسم کی کمی بیشی کا تصورہے ان دونوں احادیث سے یہ امرثابت ہے کہ سنتِ رسول ؐ میں کسی قسم کی کمی کا تصور ہے ان دونوں احادیث سے یہ امرثابت ہے کہ سنت رسولؐ میں کسی قسم کی کمی وبیشی دونوں حرام ہیں اور اس کی منطقی وجہ یہ ہیکہ اگر کسی سنت میں انفرادی طور پر کسی کو اضافہ کی اجازت دے دی جائے تو تھوڑے ہی عرصہ میں وہ عام ہو جائے گی اور جب لوگوں کی عادات پختہ ہو جائیںگی تو اسی کو دین تصور کیا جانے لگے گااور اس کے خلاف عمل کو گناہ تصور کیا جائے گا اس طرح سنت ختم ہو جائے گی بلکہ وہ ایک گناہ متصور ہونے لگے گی اور یہی صورت کسی شئے سے گزیر کی ہوگی کہ کچھ عرصہ بعد اسے حرام تصور کیا جانے لگے گا۔ موجودہ دور میں تمام بدعات کی یہی صورت ہے کہ ان کے ترک کو ایک گناہ تصور کیا جاتا ہے او ر جو ان بدعات پر نکیر کرتا ہے اسے دین سے خارج قرار دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ جس شئے کو وہ دین تصور کر رہے ہیں سرے سے وہ دین ہی نہیں۔

یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ ہمیشہ بدعات کو اچھا ہی سمجھ کر اختیار کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسانی طبیعت اسے ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔

مسلمؔ نے سیدنا ابوہریرہؓ سے نقل کیا ہے کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا:  یکون فی آخر الزّمان دجَّالون کذابون یاتونکم من الاحادیث بما لم تسمعُوا انتم ولا آباؤکُم فایِّاکم  وایّاہُم لا یضلونکم ولا یفتنونکم( مسلم ج:۱:۱۰) ’’آخر زمانے میں جھوٹے دجّال پیدا ہوں گے جو تمہارے پاس وہ احادیث لے کر آئیں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے آباء نے ۔ تم ان سے بچو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور تمہیں فتنہ میں مبتلا نہ کر دیں‘‘۔ یعنی ایسی احادیث بیان کریں گے جو صحابہ کرام ؓنے کبھی نہ سنی ہوں گی اور نہ ان کے زمانہ میں ان کو وجود ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ صحابہ ؓ کے بعد جس شد و مد سے احادیث وضع کی گئیں ان کی تعداد اصل تعداد سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اور مختلف طبقوں نے یہ کام انجام دیا۔ روافض اور صوفیاء نے اتنی احادیث وضع کیں جن کی تعداد لاکھوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس طرح امت مسلمہ کے عقائد اور اعمال کی ہیئت اور صورت ہی بدل کر رہ گئی اور روز بروز ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور تعجب تو ان علماء پر ہے جنہیں دنیا شیخ الحدیث تصور کرتی ہے اور جو ان روایات کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ اس قسم کی خرافات ان کی کتابوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ان میں سے بعض حضرات تو ان کتابوں سے بھی ان خرافات کو نقل کر لیتے ہیں جو محدثین کرام نے ان خرافات کے رد میں لکھی ہیں۔ اور محدثین نے جو ان روایات پر اعتراض کئے تھے انہیں شیر مادر سمجھ کر پی جاتے ہیں۔  فیاللعجب۔

بخاری و مسلم نے سیدہ عائشہ ؓسے روایت کیا ہے کہ رسول اللہؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی  : ھُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ۰ۭ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْـغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِیْلِہٖ۝۰ۚ۬ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللہُ   وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ۝۰ۙ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا۝۰ۚ وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۷  ( اٰل عمران) ’’اللہ وہ ذات ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی اس میں سے کچھ آیات محکم ہیں اور کچھ متشابہ ہیں۔ تو جن لوگوں کے دعوی میں کجی ہوتی ہے وہ اِس قرآن میں سے متشابہ کی پیروی کرتے ہیں۔ فتنہ پیدا کرنے اور تاویل تلاش کرنے کے لئے ۔ حالانکہ ان کی تاویل اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اور جو علم میں راسخ ہیں وہ یہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ہر شئے ہمارے پروردگار کی جانب سے ہے او ر اہل عقل کے علاوہ کوئی نصیحت حاصل نہیں کرتا‘‘ ۔

اس کے بعد آپؐ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : فاذا رئتم الَّذین یبتغون ما تَشَابَہ منہ فاُولئک الَّذین سمَّاھم اللّٰہ فاحذرو ھُمْ (مسلم ج : ۲ :۳۲۹، ابوداؤد ج:۲ :۲۸۴)  عرباضؓ بن ساریہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی  کریم ؐنے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی ۔ پھر ہمیں ایک خطبہ دیا جس سے ہمارے دل دہل گئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے تو آج ہمیں اس طرح نصیحت فرمائی ہے جیسے کوئی کسی کو رخصت کرتے وقت نصیحت کرتا ہے آپ ہمیں کچھ اور مزید نصیحت فرمائیں آپؐ نے ارشاد فرمایا: اوصیکم بتقویٰ اللّٰہ و السَّمع و الطاعۃ ان کان عبدا حبشیا فانہ من یعش منکم بعدی فسیریٰ اختلافًا کثیرًا فعلیکم بسنّتی و سنۃ الخلفا الراشدین المہدیین تمسَّکُوا بہا و عَضُّوا علیہا بالنَّوجذ و ایَّاکم و محدثات الامورِ فَاِنَّ کلَّ محدثۃٍ بدعۃٌ وکلَّ بدعۃٍ ضلالۃٌ وکُلّ ضلالۃٍ فی النَّارِ (ابو داؤد ج: ۲ ۲۷، ابن ماجہ ج:۵۱ ، مسند احمد ج:۴ ۲۷، مستدرک ج:۱ ۹۵، دارمی ج:ا ۲۶، ترمذی ج:۲  ۱۰۸)۔  ’’میں تمہیںاللہ سے ڈرنے ، امیر کی بات سننے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ حبشی غلام ہی کیوں نہ حکم دے کیوں کہ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا۔ وہ زبردست اختلاف دیکھے گا تو تم میری سنت اور ان خلفاء کی سنت کو لازم پکڑو جو خود ہدایت یافتہ ہوں اور دوسروں کو ہدیت کرنے والے ہوں تو ان دونوں طریقوں پر عمل کرو اور انہیں کچلیوں سے مضبوط دبا لو۔ اور نئے کاموں سے احتراز کرو کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر ایک گمراہ آگ میں جائے گا‘‘۔

ترمذی نےبلالؓ بن حارث مزنی سے ابن ماجہ نے عمرو بن عوف بن مالک الاشجعی سے روایت کیا ہے، یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں۔ نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا: من اَحْیَا سُنَّۃً من سنتی قد اُمِیتت بعد فان لہ من الاجر مثل اجور من عمل بہا من غیر ان ینقص من اجورھم شیئا ومن ابتدع بدعۃ ضلالۃ لا یرضاہا اللّٰہ ورسولہ کان علیہ من الاثم مثل اثام من عمل بہا لا ینقص ذلک من اوزارھم شیئا۔ ( ترمذی:۲  ۱۰۸، ابو داؤد عن ابی ہریرہ ؓ ج:۲ ۲۸۷ )’’ جس شخص نے میری اس سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مر چکی ہو تو اس شخص کے لئے ان لوگوں کا اجر ہے جو اس پر عمل پیرا ہوں ان کے اجر میں کوئی کمی کئے بغیر اور جس نے کوئی گمراہ بدعت جاری کی جسے اللہ اور اس کا رسولؐ نا پسند فرماتا ہو تو اس شخص پر ان لوگوں کا بھی گناہ ہوگا جو اس پر عمل پیرا ہوں گے اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہ کی جائے گی‘‘۔

امام احمد بن محمد بن حنبل ؒاور ابو داؤد ؒنے امیر معاویہ ؓسے روایت کیا ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا : سیخرج فی امتی اوام تتجاریٰ بہم تلک الاھواء کما یتجاری الکلب بصاحبہ لا یبقی منہ عرق ولا مفصل الا دخلہ ( مشکوٰۃ : ۳۰  : ابوداؤد ج : ۲: ۲۸۳)’’میری امت میں ایسی قومیں پیدا ہوں گی جنہیں خواہشات نفس اپنے پیچھے پیچھے اس طرح چلائیں گی جس طرح کتا اپنے مالک کے پیچھے چلتا ہے ۔ ان کی کوئی رگ اور کوئی جوڑ ایسا باقی نہ رہے گا۔ جس میں یہ خواہش نفس داخل نہ ہو جائے‘‘۔

ابوداؤد نے سیدناانسؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا: لا تُشددُّوْا علی انفسکم فیشدد اللّٰہ علیکم فان قوما شددوا علی انفسہم فشدد اللّٰہ علیہم فتلک بقایاہم فی الصوامع والدیار رھبانیۃ ابتدَعُوہَا مَاکَتبناھا عَلَیْہِمْ (مشکوٰۃ: ۳۱) اپنی جانوں پر سختی نہ کرو ورنہ اللہ بھی تم پر سختی فرمائے گا ، ایک قوم نے اپنی جانوں پر خود سختی کی تھی۔ یہ گرجاؤں اور دیروں میں ان ہی کے باقی ماندہ لوگ موجود ہیں ’’ترک دنیا کو انہوں نے خود اختیار کیا تھا۔ ہم نے ان پر یہ فرض نہیں کیا تھا‘‘۔

امام احمد بن حنبل ؒنے اپنی ’’مسند‘‘میں حنیفؓ بن حارث الشمانیؓ سے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا : ما اَحدثَ قومٌ بدعۃً اِلَّا رفع مثلَہا من السنۃ فتمسَّکٌ بسنۃ خیر من احداث بدعۃٍ  ( مسند احمد ۔ ج  :  ۴  : ۱۰۵) جب کوئی قوم کوئی بدعت پیدا کرتی ہے تو اس جیسی سنت اٹھا لی جاتی ہے پس سنت کو لازم پکڑنا بدعت جاری کرنے سے بہتر ہے‘‘ ۔

بیہقی نے شعب الایمان میں ابراہیم بن میسرہ سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا من وقر صاحب بدعۃ اعان علی ھدم الاسلام (مشکوۃ:۳۱)’’جس شخص نے کسی بدعتی کی عزت کی اس نے اسلام کے ڈھانے میں اس کی مدد کی‘‘بخاری و مسلم نے سہلؓ بن سید الساعدی سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ؐنے ارشاد  فرمایا  :  انی فرطکم علی الحوض من مر علی شرب ومن شرب لم یظما ابدا لیردن علی اقوام اعرفہم و یعرفوننی ثم یحال بینی و بینہم فاقول انہم منی فیقال انک لاتدری ما احدثوا بعدک فاقول سحقا لمن غیر بعدی۔ (مشکوہ: ۴۸۷ ، نسائی ج:۱ ۔ ۹۱)’’ میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا۔ جو شخص میرے پاس سے گزرے گا ۔ وہ حوض سے ضرور پیئےگا۔ اور جو اس سےپیئے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ مجھ پر ایسی قوموں کا گزر بھی ہوگا جنہیں میں جانتا ہوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے۔ پھر میرے اور ان کے درمیان کوئی شئے حائل کر دی جائے گی۔ میں کہوں گا۔ یہ تو میری امت کے لوگ تھے تو جواب دیا جائے گا تمہیں کیا معلوم کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں جاری کی تھیں ۔ تو میں کہوں گا انہیں دور کردو‘‘۔

نیز بخاری نے سیدناانس ؓ سے یہ الفاظ نقل کئے ہیں: لیردن علی الناس من اصحابی الحوض حتی عرفتہم اختلجوا دونی فاقول اصحابی فیقال لاتدری ما احدثوا بعدک (بخاری ج:۲:۹۷۴)’’مجھ پر میری ساتھیوں میں سے کچھ لوگوں کا گزر ہوگا حتی کہ میں انہیں پہچان لوں گا۔ پھر میرے اور ان کے درمیان پردہ کر دیا جائے گا۔ تو میں کہوں گا یہ تو میرے ساتھی ہیں تو جواب دیا جائے گا تمہیں کیا معلوم کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا بدعات جاری کی تھیں ـ‘‘۔

ابوہریرہؓ اور سیع بن المسیبؓ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ یرد علی یوم القیٰمۃ رھط من اصحابی فیحلئون من الحوض فاقول یا رب اصحابی فیقال انک لا علم لک بما احدثوا بعدک انہم ارتدوا علی ادبارہم القھقریٰ (بخاری:ج :۲ ۹۷۴) ’’ قیامت کے روز میرے ساتھیوں کی ایک جماعت کا مجھ پر گزر ہوگا۔ پھر وہ حوض سے ہٹا دیئے جائیں گے تو میں کہوں گا۔ اے میرے پروردگار یہ تو میرے ساتھی ہیں ۔ تو جواب دیا جائے گا تمہیں کچھ معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا بدعت جاری کی تھی۔ یہ اپنی ایڑیوں کے بل واپس لوٹ گئے تھے یعنی مرتد ہو گئے تھے یا زمانہ جاہلیت کا طریقہ اختیار کر لیا تھا‘‘۔

بخاری ومسلم نے سیدناعلیؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا: المدینۃ حرامٌ ما بین عیر الی ثور فمن احدث فیہا حدثا فعلیہ لعنۃُ اللّٰہ و الملآئکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللّٰہ منۃ صرفًا ولا عدلاً (بخاری :ج ۲  ۔ ۱۰۸۴) ’’مدینہ عیر سے ثور تک حرم ہے ۔جس نے اس میں کوئی بدعت جاری کی یا بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ ، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو‘‘۔اللہ تعالیٰ ان سے نہ تو انفاق قبول فرمائے گا اورنہ انصاف۔

اس حدیث میں حرم مدینہ کی شرط تقبیح اور مزید مذمت کیلئے ہے اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ بدعت کی حرمت مدینہ کے ساتھ مخصوص ہے اور مدینہ کے علاوہ ہر جگہ جائز ہے بلکہ اس کا مقصد یہی ہے جو ان جملوں کا ہوتا ہے کہ مسجدوں میں گالیاں نہ دیا کرو ۔ روزے میں لڑنا نہیں چاہئے ۔ یعنی یہ افعال بالذات بھی برے ہیں۔ لیکن متذکرہ صورت میں ان کی برائی میں اضافہ ہو جائے گا۔ اسکی طرح اگر بدعت کو مدینہ میں اختیار کیا جائے گا تو یہ انتہائی بے دینی اور الحاد کا سبب ہوگا کہ جس مقام سے بدعات کا قلع قمع کیا گیا ہو اسی سے بدعت کی ابتداء کی جائے۔

اس حدیث سے جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مبتدعین پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے اور اس کی کوئی فرضی اور نفلی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ بدعتی کو پناہ دینے والا بھی اسی لعنت کا مستحق ہے اور قیامت کے روز اسے حوض کوثر سے دھکے مل جائیں گے اور جو لوگ ان سے میل جول رکھتے اور ان سے محبت کرتے ہیں ان کا کیا انجام ہوگا۔ اس پر قارئیں خود غور فرمالیں؟

ابن ماجہ نے عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا:  ابی اللّٰہ ان یقبل عمل صاحب بدعۃ حتی یدع البدعۃ (ابن ماجہ مصری:ج:۱۔۶)  ’’اللہ تعالی بدعتی کا کوئی عمل قبول کرنے سے اس وقت تک کیلئے انکار فرماتا ہے جب تک وہ بدعت کو نہ چھوڑے‘‘۔

شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ چونکہ بدعتی اپنی بدعت کو ایک کار خیر تصور کرتا ہے اس لئے اس کے ترک کا سوال پیدا نہیں ہوتا کجا کہ اس سے توبہ کرنا‘ یہی مقصد ہے اس حدیث کا ۔ نیز فرماتے ہیں کہ ایک بدعت سے ہزار زنا بہتر ہیں کیوں کہ زانی زنا کو گناہ تصور کرتا ہے۔ اس لئے اس سے کسی نہ کسی وقت توبہ کی امید بھی کی جا سکتی ہے اور زنا تحریف فی الدین کے گناہ سے ہرصورت میں کم ہے اسلئے تحریف فی الدین سے پوری امت گمراہی میں مبتلا ہوتی ہے۔

ابن ماجہ نے حذیفہ بن الیمانی ؓ کے ذریعہ رسول اللہ ؐ  کا یہ ارشاد نقل کیا  ہے۔   لا یقبل اللّٰہ لصاحب بدعۃ  صوما ولا صلوٰۃ ولا  صدقۃ  ولا حجّا  ولا   عمرۃ   ولا جہادا و صرفا ولا عدلا یخرج من الاسلام کما تخرج الشعرۃ من العجین ( ابن ماجہ : مروجہ ج:۱۔۶ ) ’’اللہ تعالی کسی بدعتی کا نہ روزہ قبول فرماتا ہے نہ نماز، نہ صدقہ ، نہ حج ، نہ عمرہ ، نہ جہاد ، نہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور نہ انصاف کرنا۔ وہ اسلام سے اسی طرح نکل جاتا ہے جیسے آٹے سے بال نکل جاتا ہے‘‘۔

عبداللہ بن سلامؓ پہلے ایک یہودی عالم تھے جب اسلام سے مشرف ہوئے تو سوچنے لگے کہ اسلام نے اونٹ کا گوشت فرض نہیں کیا اور مذہب یہودیت میں اونٹ کا گوشت حرام ہے۔ کیوں نہ اس سے اجتناب کیا جائے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۝۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۲۰۸  فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْكُمُ الْبَيِّنٰتُ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۰۹ (بقرہ ) ’’اے ایمان والو ! اسلام میں پورے طور پر داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو۔ کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ اگر تم دلائل آجانے کے بعد بھی اپنے مقام سے پھسل جاؤگے تو جان لو کہ اللہ غالب ، صاحب حکمت ہے‘‘۔

ان احادیث سے بدعت کی مذمت بخوبی واضح ہو گئی ہے اور مندرجہ بالا آیت سے بھی ثابت ہو گیا کہ ایسے لوگوں کا اسلام ایک فریب ہے ۔ اعاذنا اللہ من ذلک۔

اہلِ بدعت کے ساتھ صحابہ کرامؓ کا طرزِ عمل

عبداللہ بن مسعود ؓ کا طرز عمل

  امام بخاری ؒ نے سیدناعبداللہ بن مسعودؓ سے نقل کیا ہے انہوں نے فرمایا: اِنَّ احسنَ الحد یث کتابُ اللّٰہِ و احسنَ الہدیٰ ھدیُ محمدٍ صلی اللہ علیہ وسلم و شر الامورِ محد ثاتُہا وا ن ما توعدون لات وما انتم بمعجزین۔ (بخاری  ج:۲۔۱۰۸۰  )’’سب سے بہترین بات کتاب اللہ اور سب سے بہترین ہدایت محمدؐکی ہدایت ہے ۔ اور سب سے بدترین امور بدعات ہیں اور تم سے جن باتوں کا وعدہ کیا گیا ہے وہ پیش آنے والے ہیں اور تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے‘‘۔

عبدالرحمن بن یزیدؓ  کا بیان ہے کہ عثمان غنی ؓ نے منیٰ میں جاکر چار رکعت نماز پڑھائی ۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے اس پر فرمایا:  صلیت مع رسول اللّٰہ  ﷺ  بمنیٰ رکعتین و صلیتُ مع ابی بکر الصدیقؓ بمنیٰ رکعتین و صلیت مع عمر بن الخطابؓ بمنی رکعتین فلیت حظی من اربع رکعات رکعتان متقبلتان۔ (بخاری ج: ۱ ۔ ۱۴۷ ، مسلم ج:۱۔۲۴۳ ، ابوداؤد ج:۱۔۲۷۷  ، نسائی ج:۱۔۱۴۷ ) ’’میں نے رسول اللہؐ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت پڑھیں ۔ ابوبکرؓ کے ساتھ بھی منیٰ میں دو رکعت پڑھیں۔ اور عمرؓ کے ساتھ بھی منیٰ میں دو رکعت پڑھیں۔ کاش چار رکعتوں کے بدلے میرے حصہ میں دو مقبول رکعتیں آجاتیں‘‘۔

عبداللہ بن مسعودؓ نے اس دو رکعت نماز کے اضافہ پرجوسنت رسول ؐ سے ثابت نہ تھا افسوس فرمایا اورچار رکعت نماز کوخلاف سنت ہونے کے باعث غیر مقبول قراردیا۔ والذی لاالہ غیرہ ہذا مقام الذی انزلت علیہ سورۃ البقرۃ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں۔ یہ اس شخص کے قیام کی جگہ ہے جس پر سورئہ بقرہ نازل کی گئی ہے۔

 عبداللہ بن مسعود نے موجودہ دور کے آئمہ کی طرح اپنے دور کے اماموں کو دیکھا کہ نماز کا سلام پھیر کر دا  ہنی طرف مڑتے ہیں اور بائیں طرف قطعا نہیں مڑتے ۔ آپ ؐ نے فرمایا ۔ لا یجعلن احدکم للشیطان من نفسہ جزء لا یریٰ الا ان حقًا علیہ ان لا ینصرف الا عن یمینہ اکثر ما رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلَّـم ینصرف عن شمالہ۔ ( مسلم ج: ۱۔۲۴۷ ، نسائی ج:۱۔۱۳۸ ، بخاری ج:۱۔۱۱۸ )’’تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان کا ایک حصہ متعین نہ کرے کہ وہ یہ سمجھے کہ سلام پھیر کر داہنی طرف سے مڑنا ضروری ہے۔ میں نے رسول اللہ ؐ   کو اکثر بائیں طرف مڑتے دیکھا ہے‘‘ ۔

عمارہ راوی کا بیان ہے جو اس حدیث کے راوی ہیں ۔ اَتیتُ المدینۃَ بعد فرأیت منازل النبی صلی اللّٰہُ علیہ وسلم من یسارہ (ابوداؤد ج:۱۔۱۵۶ ) ’’میں اس کے بعد مدینہ آیا تو میں نے بائیں طرف رسول اللہ ؐ کے مڑنے کی جگہیں دیکھیں‘‘۔

ان ہی عبداللہ بن مسعود ؓ کا گزر ایک بار مسجد میں ذاکرین کی ایک جماعت پر ہوا جو حلقہ بنائے بیٹھے تھے ۔ انہیں ایک شخص تلقین کرتا جاتا کہ سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو ، وہ کنکریوں پر سو بار اللہ اکبر پڑھتے ۔ پھر وہ کہتا سو بارسبحان اللہ پڑھو ۔ یہ سو بار سبحان اللہ پڑھتے۔ عبد االلہ بن مسعودؓ نے دریافت کیا تم ان کنکریوں پر کیا پڑھتے ہو ، وہ کہنے لگے ہم تکبیر و تہلیل اور تسبیح پڑھتے ہیں۔ عبد االلہ نے فرمایا : فعدُّوا من سیاتکم فانا ضامن ان لا یضیع من حسناتکم شئی و یحکم یا امۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما اسرع ھلکتکم ھو لاصحابہ بینکم متوافرون و ھذا ثیابہ لم تبل وانیتہ لم تکسر الی ان قال او مفتتحی باب ضلالۃ (سنن دارمی: ۳۸ ) تم اپنی برائیوں کو شمار کرو میں اس کا ضامن ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کوئی شئے ضائع نہ ہوگی۔ اے امت محمدیہؐ  تم پر افسوس تم کتنی جلدی ہلاک ہو گئے۔ ابھی تو تم میں بکثرت صحابہ ؓموجود ہیں ۔ یہ حضور ؐ کے کپڑے موجود ہیں جو ابھی پرانے نہیں ہوئے۔ آپؐ کے برتن موجود ہیں جو ابھی ٹوٹے نہیں کیا تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو‘‘۔

شیخ الاسلام ابن دقیق العید المتوفی  ۷۰۴؁ ھ نے یہ واقعہ اس طرح نقل کیا ہے کہ عبداللہ ابن مسعودؓ کے سامنے ایک ایسی جماعت کا تذکرہ کیا گیا۔ انہوں نے فرمایا جب تم اس جماعت کا ذکر کرتے دیکھو تو مجھے مطلع کرنا ۔ جب یہ جماعت ذکر کے لئے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھی تو لوگوں نے ابن مسعودؓ کو آکر مطلع کیا ابن مسعودؓ چادر اوڑھ کر مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا ۔ مَنْ عرفنی فقد عرفنی ولم یعرفنی فانا عبد اللّٰہ بن مسعود تعلمون انکم لا ھدیٰ من محمد صلی اللّٰہُ علیہ وسلّم و اصحابہ الی ان قال لقد جئتم ببدعۃ عظمی او لقد فضلتم اصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلّم علما ( احکام الاحکام ج:۱ ۔ ۵۲ ) ’’جس نے مجھ کو پہچان لیا اس نے تو مجھے پہچان ہی لیا اور جو نہیں پہچانتا تو میں عبداللہ بن مسعودؓ ہوں۔ کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐ کے صحابہ ؓسے بھی زیادہ ہدایت یافتہ ہو؟ پھر آخر میں آپؓ نے فرمایا تم نے ایک بڑی بدعت پیدا کی۔ یا تم علم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓپر بھی فضیلت حاصل کر چکے ہو؟‘‘

قاضی ابراھیم ؒ عبداللہ بن مسعودؓ کی اس روایت کو ان الفاظ میں نقل فرماتے ہیں۔

انا عبدُاللّٰہ بن مسعود فوَالَّذی لآ اِلٰہ غیرہ لقد جئتُم ببدعۃٍ ظلماء او لقد فقتم علی اصحاب محمدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (مجالس الابرار:۱۳۳ ) ’’میں عبداللہ بن مسعودؓ ہوں ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی اِلہٰ نہیں ۔ تم نے ایک تاریک بدعت جاری کی ہے یا تم نبی کریم ؐکے صحابہ ؓپر فوقیت حاصل کر چکے ہو‘‘۔

عبداللہ بن مسعودؓ کا اس سے مطلب صرف یہ تھا کہ اگرچہ تکبیر و تہلیل اور تسبیح و تحمید کے بہت کچھ فضائل ثابت ہیں ۔لیکن اس کا یہ مخصوص طریقہ جناب نبی کریم ؐاور آپ کے صحابہؓ کا بتایا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ خود تمہارا ایجاد کردہ ہے اس لئے یہ بدعت بھی ہے ضلالت بھی ۔ گمراہی بھی ہے اور بدعت ظلمی بھی۔

اما دارمی المتوفی   ۲۵۵؁ ھ کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں ۔ فوقف علیہم فقال ما ھذا الذی اراکم تصنعون قالوا یا ابا عبدالرحمٰن حصا نعد بہ الکتبیر و التھلیل والتسبیح قال فعدوا سیاتکم۔ ( درمی: ۳۸)’’اب مسعودؓ  ان کے پاس جاکر ٹہرے اور سوال فرمایا ۔ میں تمہیں یہ کیا کرتے دیکھ رہا ہوں ۔ انہوں نے جواب دیا۔ ہم کنکریوں پر تکبیر و تہلیل اور تسبیح شمار کر رہے ہیں ۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا تو تم اپنی برائیاں شمار کرو‘‘۔

ظاہر ہے کہ تسبیحات وغیرہ ایک انفرادی فعل ہے اسے اجتماعی صورت میں حلقے بنا کر یا جہری طور پر پڑھنا خلاف سنت ہے اسی لئے ابن مسعود ؓ اس پر نکیر فرما رہے ہیں۔

عن فتاوی القاضی انہ حرام لما صح عن ابن مسعود انہ اخرج جماعۃ من المسجد یہللون و یصلون علی النَّبی صلی اللّٰہُ علیہ وسلم جہرا و قال لہم ما اراکم اِلاَّ مبتدعین (شامی ج:۵۔۳۵۰) فتاوی قاضی خاں میں ہے کہ ذکر بالجہر حرام ہے کیوں کہ ابن مسعودؓ سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک ایسی جماعت کو مسجد میں سے نکال دیا تھا جو کلمہ اور نبی  کریم ؐپر بلند آواز سے درود پڑھ رہی تھی اور فرمایا میں تو تمہیں بدعتی خیال کرتا ہوں۔

انقلاب زمانہ دیکھئے کہ آج جو شخص بلند آواز کے ساتھ مل کر درود و سلام نہیں پڑھتا ۔ اسے اہل بدعت وہابی کے نام سے بدنام کرتے ہیں ۔ مگر عبداللہ بن مسعودؓ ایسے لوگوں کو گمراہ اور بدعتی قرار دے کر مسجد سے نکال دیتے ہیں اور پھر علماء احناف بھی اس ذکر بالجہر کو حرام کہتے ہیں۔

حموی اور فتاوی قاضی خاں میں ذکر بالجہر کی تصریح میں ہے۔ : الذّکرُ بِالْجَہْرِ حَرَامٌ وقد صح عن ابن مسعود انہ سمع قوماً اجتمعوا فی مسجد یہللون و یصلون علیہ الصلاۃ والسلام جہر افراح الیہم وقال ما عہد وا ذلک علی عہدہ علیہ الصلوۃ والسلام ما اراکم مبتدعین فما زال یذکر ذلک حتی اخرجہم من المسجد۔ ذکر بالجہر حرام ہے۔ کیوں کہ ابن مسعود ؓ سے صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ انہوں نے سنا کہ ایک جماعت مسجد میں جمع ہو کر کلمہ اور  درود بلند آواز سے پڑھتی ہے۔ ابن مسعودؓ  ان کے پاس گئے اور فرمایا صحابہ کرام نے نبی  کریم ؐکے زمانہ میں کوئی ایسی حرکت نہ کی تھی۔ میں تو تمہیں بدعتی خیال کرتا ہوں۔ ابن مسعودؓ  اسی قسم کے الفاظ بار بار دہراتے رہے ۔ پھر انہیں مسجد سے نکال دیا۔

عبداللہ بن عباس ؓ  کا فتویٰ

عبد اللہ بن عباس ؓ اس آیت فَلاَ تَقَعُدُوْا مَعَہُمْان کے ساتھ نہ بیٹھو ۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔  دخل فی ھذہ الایۃ کل محدث فی الدین وکل مبتدع الیٰ یوم القیٰمۃ (معالی برخازن ج : ۱۔۵۰۹ ) اس آیت میں قیامت تک کے لئے بدعتی اور ہر نئی چیز پیدا کرنے والا داخل ہے۔

عبد اللہ بن عباسؓ نے طاؤس بن کیسان بابعیؓ کو عصر کے بعد نماز پڑھتے دیکھا تو انہوں نے طاؤس کو منع فرمایا ۔ طاؤس نے ان احادیث کی تاویل پیش کی جن میں عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔ ابن عباس ؓ نے سخت لہجہ میں فرمایا۔ ماادری ا یعذب ام یوجر لان اللّٰہ تعالیٰ یقول وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلاَ مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْراً اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمْ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ط ’’ میں نہیں جانتا کہ اسے عذاب دیا جائے گا یا اجر دیا جائے گا کیوں کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔‘‘کسی مومن مر و عورت کو جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ فرمادے تو اپنے کسی کام کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ (احزاب:۳۶)

آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ ابن عباسؓ نے طاؤس کو خلاف سنت نماز پڑھنے پر عذاب کا مستحق سمجھا ۔ امام حاکم اس حدیث کو روایت کر کے فرماتے ہیں۔ صحیح علی شرط البخاری و مسلم ’’بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے‘‘ ۔اور امام ذہبی نے اس کی تصدیق کی ہے۔

 

عثمان ؓ بن ابی العاص کا فیصلہ

عثمان ؓ بن ابی العاص المتوفی   ۵۵   ؁ ھ کو ایک ختنہ میں دعوت دی گئی۔ انہوں نے شرکت سے انکار کر دیا اور فرمایا ۔  انا کنا لاناتی الختان علی عہد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا ندعی لہ۔ (مسند احمد ج : ۴ ۔ ۲۱)  ہم رسول اللہ ؐ کے زمانے میں نہ تو ختنوں میں شریک ہوتے اور نہ اس میں شرکت کی دعوت دی جاتی۔

عثمان ؓ بن ابی العاص نے اس قاعدہ سے کام لیا ہے کہ چونکہ نبی  کریم ؐکے عہد مبارک میں ختنوں میں بلائے جانے کا دستور نہ تھا اور نہ لوگوں کو دعوتیں دی جاتی تھیں اور جو کام نبی  کریم ؐکے عہد میں نہ ہو وہ بدعت ہے اور میں بدعت میں شرکت کے لئے تیار نہیں۔

ابو مالک اشجعیؓ  کا فیصلہ

ابو مالک اشجعی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے عرض کیا کہ آپ رسول اللہؐ اور ابوبکرؓ ، عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ کے پیچھے پانچ سال تک کوفہ میں نمازیں پڑھی ہیں کیا یہ صحابہ ؓصبح کی نماز میں قنوت پڑھتے تھے ۔ تو انہوں نے فرمایا اے بنی محدث اے میرے بیٹے یہ بدعت ہے۔ (ترمذی ج: ۱ ۔ ۷۹ ، نسائی ج: ۱۔۱۰۸)

عبداللہؓ بن مغُل کا حکم

عبداللہ بن مغفل ؓکے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ میں نے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھی ۔ میرے والد نے سن کر فرمایا۔اے بنی محدث ایک  و الحدث قال ولم ارا احد ا من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان ابغض الیہ الحدث فی الاسلام یعنی منہ وقال وقد صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم و ابی بکر و عمر و عثمان فلم اسمع احدا منہم یقولہا فلا تقلہا (ترمذی ج : ۱ ۔ ۵۲ ، نسائی ج: ۱۔۹۲ )’’اے میرے بیٹے ! یہ  بدعت  ہے اور بدعت سے احتراز کر، کیونکہ میں نے رسول اللہؐ کے صحابہ ؓکو اسلام میں بدعت سے زیادہ کسی اور شئے سے نفرت کرتے نہیں دیکھا اور میں نے رسول اللہ ؐ، ابوبکرؓ ، عمرؓ اور عثمانؓ کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔ میں نے ان میں سے کسی کو بسم اللہ پڑھتے ہوئے نہیں سنا ، تُو بھی اسے نہ پڑھ‘‘ ۔

غور فرمائے کہ عبداللہ بن مغفلؓ اور ابومالک اسجعی ؓ کے والد نے اس شئے کو بدعت قرار دیا جسے نبی  کریم ؐاور آپ کے خلفاء راشدین نے نہیں کیا تھا۔ بلکہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو بسم اللہ کا نماز میں پڑھنا سب کے نزدیک سنت ہے لیکن چونکہ اس میں جہر نہیں ہے اس لئے عبداللہ بن مغفلؓ نے اس ترمیم کو بھی کہ وہ بلند آواز سے پڑھی جائے بدعت فرمایا۔ (کاش غیر مقلدین اس بدعت سے احتراز کرے)

اسی طرح قنوت فی الصبح مصیبت  کے وقت نبی  کریم ؐسے ثابت ہے، لیکن چونکہ یہ ایک وقتی فعل تھا۔ اسے دوامی سمجھ کر اس پر دواما عمل کرنا یہ اضافہ فی الدین ہے ۔ اسی لئے ابو مالک اشجعیؓ کے والد نے اسے بدعت فرمایا۔

 

 

عمرؓ کا فرمان

اب ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ ایک موذن نے اذان کے بعد الصلوٰۃ الصلوٰۃ کہہ کر لوگوں کو نماز کی دعوت دی ۔ عمرؓ نے سن کر فرمایا کیا تو پاگل ہے؟ تیری اذان میں جو دعوت تھی کیا وہ لوگوں کو بلانے کے لئے کافی نہ تھی۔

سالمؓ بن عبید کا طرز عمل

سالم بن عبید ؓکے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ اسے چھینک آئی تو اس نے کہا السلام علیکم ۔ سالمؓ نے فرمایا ۔ علیک و علی امک ’’تجھ پر اور تیری ماں پر بھی‘‘۔

یہ بات اس شخص کو ناگوار گزری تو سالمؓ نے فرمایا : اما انی لم اقل الا ماقال النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فقال السلام علیکم فقال النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم علیک و علی امّک  اذا عطس احدکم فلیقل اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (ترمذی:۲۔۱۱۶؎ ، ابو داؤد ج:۶۔۴۰۶؎  ) ’’میں نے صرف وہی بات کہی ہے جو نبی  کریم ؐنے فرمائی ہے۔ آپؐ کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے السلام علیکم کہا ۔ نبی  کریم ؐنے ارشاد فرمایا ۔ تجھ پر بھی سلام ہو اور تیری ماں پر بھی۔ تم میں سے جب کسی کو چھینک آئے تو کہے الحمد للہ رب العالمین‘‘۔

علیؓ کا فیصلہ

علیؓ نے عید کے روز نماز سے قبل ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نفل نماز پڑھنے کا ارادہ کر رہا ہے۔ علیؓ نے اس کو منع فرمایا۔ اس شخص نے عرض کیا میں نماز پڑھ رہا ہوں اور وہ عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کسی عبادت پر عذاب نہیں دیتا۔ علیؓ نے جواب دیا ۔  اعلم ان اللہ  تعالیٰ لا یثیب علی فعل حتی یفعلہ رسول اللہ ﷺ او یَحث علیہ فتکون صلاتک عبثا والعبث حرام فلعلہ تعالیٰ یعذبک بہ لمخالفتک لرسولہ ﷺ (البیان ۷۳؎ ، لجنہ ۱۶۵؎ )’’میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالی کسی ایسے فعل پر ثواب نہیں دیتا۔ جب تک اس کو رسول اللہ ؐ انجام نہ دیں یا اس کی ترغیب نہ فرمالیں۔ اس صورت میں تیری یہ نماز بے کار ہوئی اور بیکار شئے پر عمل کرنا حرام ہے۔ تو شائد اللہ تعالی تجھے رسول اللہ کی مخالفت کی وجہ سے عذاب دے‘‘۔

علیؓ کرم اللہ وجہہ کے فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ چونکہ نبی  کریم ؐ نماز عید سے قبل نوافل ادا نہ فرمائے تھے اور نہ ان کے پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ اس لئے یہ نماز بھی عبث اور بے کار فعل ثابت ہوئی اور فعل عبث حرام ہے اور حرام کے مرتکب کو ثواب نہیں ملتا بلکہ عذاب دیا جاتا ہے اور جب یہ فعل نبی  کریم ؐسے ثابت نہیں تو نبی  کریم ؐکی مخالفت پر ضرور عذاب ملے گا  اس لئے یہ نماز بھی عذاب کا ذریعہ ہوئی۔

اگر آج کل کے بدعتی یا صوفیاء اس وقت موجود ہوتے تو نہ معلو م علیؓ پر کس قسم کے فتوے صادر کرتے اور انہیں کس کس طرح بدنام کرتے اور پروپگنڈہ کرتے پھرتے کہ وہ تو نماز سے بھی منع کرتے ہیں۔

نووی المتوفی  ۶۷۱  ؁ ھ نے شرح مہذب میں نقل کیا ہے کہ علیؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ عشاء کی اذان میں تثویب کر رہا ہے۔ یعنی حی علی خیر العمل کہہ رہا ہے ۔ انہوں نے یہ سن کر فرمایا۔ اخرجوا ھذا المبتدع من المسجد (بحر الرائق ج:۱ ۔ ۱۶۱؎    )’’ اس بدعتی کو مسجد سے نکال دو‘‘۔

عمارۃ بن رویبہ کا طرز عمل

عمارۃ بن روبیہ نے بشر بن مروان کو خطبہ کے دوران منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو سخت لہجہ میں فرمایا ۔ قَبَّحَ اللّٰہ ھاتین الیدین لقد رایتُ رسول اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیہ وسلّم ما یزید علی ان یقول ھکذا بیدہ و اشار باصبعہ المسبحۃ ۔(مسلم ج: ۱أ۲۸۷؎، نسائی ج:۱۔۱۴۳، ابو داؤد ج:۱۔۱۶۴)’’اللہ تعالی یہ دونوں ہاتھ توڑ دے ۔ میں نے رسول اللہ ؐ  کو دیکھا کہ اس سے زیادہ نہ کرتے اور پھر انہوں نے اپنی انگشت شہادت کی جانب اشارہ کیا ۔ یعنی اس سے زیادہ نہ اٹھاتے‘‘۔

عبداللہ بن عمرؓکے فیصلے

ابو داؤد اور ترمذی نے امام مجاہد المتوفی  ۱۰۲  ؁ ھ سے روایت کیا ہے کہ میں عبداللہ بن عمرؓکے ساتھ ایک مسجد میں گیا۔ وہاں اذان ہو چکی تھی۔ ابھی ہم نماز کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ مؤذن نے الصلوٰۃ الصلوٰۃ کے الفاظ سے تثویب شروع کی۔ ابن عمر نے مجاہد سے فرمایا ۔ اُخرج بنا من عند ھذا المبتدع ’’ ہمیں اس بدعتی کے پاس سے باہر لے چلو‘‘ اور ابن عمرؓنے اس مسجد میں نماز نہیں پڑھی ۔ مجاہد کا بیان ہے انما کرہ عبداللّٰہ بن عمر ؓ التثویب الذی احدثہا الناس بعد ( ترمذی ج : ۱۔۴۹)’’گویا عبداللہ بن عمرؓ نے اس مکرر اعلان کو جو لوگوں نے بعد میں جاری کیا تھا برا سمجھا‘‘ ۔

ابو داؤد کی روایت میں یہ الفاظ ہیں اخرج بنا ھذہ بدعۃ   ( ابوداؤد ج:۱۔۷۹؎  )  اخرج بنا فان ھذہ بدعۃ  (ابوداؤد ج:۱۔۷۹؎   ) ’’ ہمیں یہاں سے لے چلو کیوں کہ یہ تو بدعت ہے‘‘۔عبداللہ بن عمرؓ کی آخر میں آنکھیں جاتی رہی تھیں ۔ اسی لئے آپ نے اپنے شاگرد سے فرمایا مجھے یہاں سے لے چلو، آپ نے غور فرمایا کہ ابن عمرؓ  اہل بدعت سے کتنی نفرت کا اظہار فرماتے ہیں اور صرف ایک بدعت کے باعث نماز چھوڑ دیتے ہیں اور اس مسجد میں نماز پڑھنا بھی گوارا نہیں فرماتے۔

موجودہ دور ہوتا تو لوگ یہی کہتے کہ اس میں حرج ہی کیا ہے۔ موذن نماز ہی کی تو دعوت دے رہا ہے۔ لیکن ابن عمر ؓ خوب جانتے تھے کہ نبی کریم ؐنے دعوت نماز کا جو طریقہ جاری فرمایا ہے اس پر تو عمل ہو چکا اور اب اپنی جانب سے جو ایک نئی قسم کی دعوت دی جا رہی ہے وہ بدعت ہے اور جب بدعت حرام ہے تو بدعت میں شرکت کیسے حرام نہ ہوگی اور بدعتیوں کے پیچھے نماز پڑھنا بدعت میں شرکت نہ ہوگی تو اور کیا ہوگی۔ اس طرح بدعت میں خود بخود شرکت لازم آئے گی۔ اور جب ہر بدعتی گمراہ ہے تو گمراہوں کے پیچھے نماز کیسے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ابن عمرؓ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے کہ انہوں نے اس عقدہ کو ایک ہی جملہ میں حل فرمادیا۔

نفع المتوفی   ۱۱۷ ؁ ھ کیا بیان ہے کہ ایک شخص ابن عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں شخص نے آپ کو سلام کہلوایا ہے آپ نے فرمایا:  بلغنی انہ قد احدث فان کان احدث فلا تقرء ہ منی السلام  ( ترمذی؛ ج :۲۔۴۷) مجھے اطلاع ملی ہے کہ اس نے بدعت جاری کی ہے۔ اگر جاری کی ہے تو اسے میرا سلام نہ کہنا۔

ان ہی نافع کا بیان ہے کہ ایک شخص کو جو ابن عمرؓ کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ چھینک آئی۔اس شخص نے کہا الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ‘‘ہر تعریف اللہ کے لئے ہے اور رسول اللہ پر سلام ہو ۔ یہ سن کر ابن عمرؓ نے فرمایا : وانا اقول الحمد للہ واسلام علی رسول اللہ ولیس ھکذا علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علمنا ان نقول الحمد للہ علی کل حال۔ ( ترمذی ج:۲۔۱۱۶)’’  میں بھی کہتا ہوں الحمدللہ اور السلام علی رسول اللہ لیکن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح تعلیم نہیں دی بلکہ ہمیں تو یہ تعلیم دی ہے کہ ہم ہر حال میں الحمدللہ کہیں ‘‘۔

صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جسے چھینک آئے وہ  الحمد للّٰہ کہے مگر اس موقع پر والسلام علی رسول اللہ  کے الفاظ کی نبی کریم نے کوئی تعلیم نہ  فرمائی تھی۔ اس لئے  ابن عمرؓ نے اس پر انکار کیا۔

اب کوئی سلامیہ (سلام پڑھنے والا ) ابن عمرؓ سے جاکر پوچھے کہ انہوں نے نبی کریم ؐ پر سلام بھیجنے سے کیوں روکا ؟ کیا رسول اللہ پر سلام بھیجنا گناہ تھا؟ آخر ابن عمرؓ وہابی کیوں بن گئے لیکن چونکہ ابن عمرؓ پابند سنت رہے وہ حمد و سلام کے مواقع سے خوب واقف تھے اس لئے انہوں نے اس پر انکار کیا۔

انہی ابن عمرؓ نے لوگوں کو سفر میں فرائض کے بعد سنتیں پڑھتے دیکھا تو فرمایا : سافرت مع النبی صلَّی اللہ علیہ وسلّم و ابی بکرو عمرو عثمان و کانو یُصلُّون الظہر والعصر رکعتین رکعتین لا یُصلُّون قبلہا ولا بعدہا وقال عبداللّٰہ لو کنت مصلیا قبلہا وبعدھا لا تممت (ترمذی:ج ا ۔۹۸، مسلم:ج:۱۔۲۴۲، بخاری:ج:۱۔۱۴۹، نسائی ج:۱۔۱۴۷، ابو داؤد ج:۱۷۹۱) ’’میں نے رسولؐ ، ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ کے ساتھ سفر کیا وہ ظہر و عصر کی دو رکعت پڑھتے اور ان فرضوں سے قبل یا بعد میں کوئی سنت ادا نہ کرتے۔ پھر عبداللہ نے فرمایا۔ اگر مجھے ان فرضوں سے پہلے یا بعد میں سنتیں پڑھنی ہوتیں تو میں نماز ہی پوری پڑھ لیتا‘‘۔

یہ حدیث بخاری، مسلم، ابوداؤد ، نسائی اور تمام کتب حدیث میں موجود ہے۔ صرف لفظوں میں تھوڑا بہت تفاوت ہے اور نافع کے علاوہ اسے سعید بن جبیر ؓ نے بھی روایت کیا ہے۔

سیدہ عائشہ ؓ کا فیصلہ

حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے کہ عائشہؓ کے بڑے بھائی عبدالرحمن ابی بکرؓ کے یہاں اولاد نہ ہوتی تھی ۔ ان کے گھر میں کسی عورت نے کہا اگر عبدالرحمنؓ کے یہاں بچہ ہوا تو ہم عقیقہ میں اونٹ ذبح کریں گے۔ سیدہ عائشہؓ نے فرمایا۔  لابل السنۃ افضل عن الغلام شاتان مکافئتان وعن الجاریۃ شاۃ۔ (مستدرک ج:۴۔۲۳۸؎ ) ’’نہیں بلکہ سنت افضل ہے لڑکے کی جانب سے دو بکریاں کافی ہیں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری‘‘۔

اگر اونٹ اور دو بکریوں کی قیمت یا ان کے گوشت کا موازنہ کیا جائے تو نمایاں فرق نظر آئے گا۔ مگر سیدہ عائشہؓ  اونٹ ذبح کرنے پر اس لئے راضی نہیں کہ وہ خلاف سنت ہے اور سنت کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنا بدعت ہے۔

امام سعید بن المسیبؓ  کا فتوی

امام سعید بن المسیب ؓ المتوفی  ۹۴   ؁ھ نے ایک شخص کو عصر کے بعد نماز پڑھتے دیکھا ۔ سعید بن المسیب نے اسے منع کیا۔ اس نے عرض کیا اے ابو محمد کیا اللہ تعالیٰ مجھے نماز پر بھی عذاب دے گا۔ انہوں نے فرمایا:  ولکن یعذبک بخلاف السنۃ (دارمی: ۶۲؎   ) ’’نہیں بلکہ تجھے خلاف سنت فعل پر عذاب دے گا‘‘۔

امام ابراھیم نخعیؒ  کا خیال

امام اعمش ؒ المتوفی  ۱۴۸  ؁ ھ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بار حجاج بن یوسف ثقفی المتوفی     ۹۵   ؁ھ  کو یہ کہتے سنا کہ قرآن کو اسی طرح جمع کرو جس طرح جبرئیل نے نازل کیا تھا اور سورتوں کے نام اس طرح لکھو کہ وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے وہ سورت جس میں آل عمران کا ذکر ہے اور وہ سورۃ جس میں عورتوں کا ذکر ہے۔ یعنی یہ نہ کہا کرو کہ سورہ بقرہ، سورہ ال عمران اور سورہ نساء کیوں کہ یہ سورتوں کے نام نہیں ۔

اعمشؒ کہتے ہیں میں نے ابراہیم نخعی سے اس کا ذکر کیا۔ انہوں نے حجاج کو برا بھلا کہا اور فرمایا مجھ سے عبدالرحمن بن یزید نے بیان کیا ہے کہ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے ساتھ حج کو گئے۔ عبداللہؓ نے درمیان وادی سے جمرہ عقبہ کی رمی کی۔عبدالرحمن نے عرض کیا لوگ تو کہتے ہیں کہ اوپر بلند ی کی جانب سے رمی کی جائے۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا:  ھذا والذی لا اِلٰہ غیرہ مقام الذی انزلت علیہ سورۃ البقرۃ (بخاری ج:۱۔۲۲۵، مسلم ج:۱۔۴۱۹، ابوداؤد ج:۱،۲۷۸، نسائی ج:۲۔۴۱)  ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی اِلٰہ نہیں ۔ یہ اس ذات اقدس کی رمی کی جگہ ہے جس پر سورۃ بقرہ نازل کی گئی تھی‘‘۔

امام ابراھیم نخعیؒ نے یہ حدیث صرف یہ بتانے کیلئے بیان فرمائی کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے بھی اس سورۃ کا نام سورہ بقرہ بیان کیا ہے اور یہ حجاج کی بدعت ہے جو وہ ان ناموں کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔

سطور بالا سے بدعت کی مذمت اور اس کی حیثیت بخوبی واضح ہو چکی ہے۔ لیکن یہ امر ضرور غور طلب ہے کہ وہ کون کون سے امور ہیں جو بدعت ہیں اور اس کو پہچاننے کے لئے سنت کو جاننا  انتہائی ضروری ہے۔

تمام بدعات دو اقسام پر مشتمل ہیں ۔ بدعت اعتقادی اور بدعت عملی۔ گزشتہ اور موجودہ گمراہ طبقے صرف بدعت اعتقادی کا نتیجہ میں مثلا روافض خارجیہ، معتزلہ ، جبریہ، قدریہ، ملامتیہ، وغیرہ لیکن اس وقت ہمارا موضوع صرف بدعت عملی ہے اور اس مین بھی صرف ایک خاص بدعت مقصود ہے۔

پھر یہ دونوں بدعات دو طرح کی ہیں یا تو بدعت جدید ہوگی جیسے موجودہ فاتحہ‘ درود و سلام اور صلوۃ التسبیح یا یہ بدعت قدیمہ ہوگی جیسے بنو عباس کے لئے دعا کرنا‘رجب کے روزے رکھنا اورشب برأت وغیرہ ۔اس قسم کی بدعات پر چونکہ صدیاں گزر چکی ہیں اس لئے اب یہ بدعات عوام میں دین کا درجہ اختیار کر چکی ہیں چونکہ یہ قطعی بدعات ہیں اور ہر بدعت کا انجام آخرت کی آگ ہونا بھی فیصلہ الہی ہے اس لئے عوام کو آگ سے بچنے کی دعوت دینا ہر ایمان والے کا کام ہے تاکہ حشر کے دن وہ اللہ کی پکڑ سے بچ سکے۔