صالحیّت

واپس فہرست مضامین

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان بار بار رحم کرنے والا ہے

 

صالحیت

 

کلمہ طیبہ

انسان جب تک کہ بندگیٔ حق پر قائم نہ ہوجائے وہ صالح‘ پاکیزہ نہیں ہوسکتا۔ یہی اس کی فطری حیثیت ہے۔ بندگیٔ حق کا نقطۂ آغاز ’’ایمان باللہ‘‘ ہے جو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صحیح تعلیم سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کلمہ کا نام ’’القراٰن‘‘، ’’صحیفۂ فطرت‘‘میں کلمۂ طیبہ ہے یعنی پاک کلمہ۔ مطلب یہ ہے کہ ان چند الفاظ میں دانش و آگہی کا جو غیر محدود ذخیرہ‘ جاہل و نادان انسان کو عطا کیا گیا ہے اس سے انسان کا دل و دماغ اور اس کی زندگی تمام غیر فطری‘ ناشائستہ‘ انسانیت سوز و گندے افکار و کردار سے پاک ہوجاتی ہے۔

اس کلمہ کے پہلے الفاظ لَآ اِلٰہَمیں انسان کے باطل و غیر فطری افکار کی تردید ہے اور اِلَّا اللّٰہسے عبد و رب کا فطری تعلق جڑ جاتا ہے۔ باطل و غیر فطری افکار کا قرآنی نام شرک‘ کفر و نفاق ہے۔ ان سے توبہ کر کے ہی حق و صداقت کا پیام ’’کلمۂ طیبہ‘‘ قبول کیا جاسکتا ہے۔ دل جب تک ان گندے خیالات و عقائد سے پاک نہ ہوجائے نورِ ایمان سے منور نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اولاً شرک‘ کفر و نفاق کا قرآنی مفہوم پیش کیا جاتا ہے۔

شرک

اسلام کا دعوتی کلمہ لا الہ الا اللہکے مخاطب مشرکینِ عرب بھی تھے اور اہلِ کتاب بھی۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ‘ دیگر افرادِ خلق‘ ملائکہ‘ اجنّہ‘ انبیاء علیہم السلام اور بزرگانِ دین کو بھی الٰہ بنائے ہوئے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اَىِٕنَّكُمْ لَتَشْہَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللہِ اٰلِہَۃً اُخْرٰي۝۰ۭ قُلْ لَّآ اَشْہَدُ۝۰ۚ قُلْ اِنَّمَا ہُوَاِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِيْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۝۱۹ۘ(سورہ الانعام) ترجمہ: (کیا واقعی تم یہی گواہی دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ اور بھی الٰہ (معبود و مستعان) ہیں آپؐ  کہہ دیجئے کہ میں (ایسی غلط بات کی) گواہی نہیں دیتا۔ آپؐ  کہہ دیجئے کہ وہ (اللہ) ایک ہی الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بندگانِ خدا کو بھی ’’الٰہ‘‘ قرار دینا شرک ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے سواء بندگانِ خدا‘ ملائکہ‘ اجنّہ‘ انبیاء علیہم السلام اور بزرگانِ دین کے متعلق یہ عقیدہ گھڑلینا کہ وہ دنیا و آخرت کی مشکلات میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو دفعِ مصائب‘ حلِ مشکلات اور حاجت روائی کا اختیار دے رکھا ہے اس لئے اب وہ مالک و مختار ہیں بطور خود یا اللہ تعالیٰ سے سفارش کر کے قہرِ الٰہی سے بچا سکتے ہیں۔ دنیا و آخرت کی ہر خرابی اور ہر مشکل ان کا واسطے اور وسیلے کے بغیر دور نہیں ہوسکتی۔ اس باطل عقیدہ کے تحت انجاحِ حاجات اور حلِ مشکلات و دفعِ مصائب کے لئے ان کو پکارنا‘ ان کے آگے سرِ نیاز جھکانا‘ ان سے منت مانگنا‘ ان کی نذر کرنا اور اُن کے قبور پر طواف‘ رکوع و سجدے کرنا‘ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کو بھی الٰہ قرار دینا اور ان کی عبادت کرنا (ان کو پکارنا) ہے۔ وَلَا تَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ۝۰ۘ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۣ (سورہ القصص: 88) ترجمہ: (مت پکارو اللہ کے ساتھ کسی اور کو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔) سے ظاہر ہے کہ مصیبتوں میں مدد کے لئے انسان جس کو پکارتا ہے وہی اس کا الٰہ ہے اور یہی شرک ہے۔ نیز اللہ جل شانہٗ کی اطاعت و فرمانبرداری سے روگردان ہوکر اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنا‘ خواہش نفسانی کو الٰہ بنانا ہے یہ بھی شرک ہے۔ آیت کریمہ اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ۝۰ۭ (سورہ الفرقان: 43‘جاثیہ: 23‘ القصص: 50) ترجمہ: (کہ آپؐ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو الٰہ بنا رکھا ہے۔) اس اجمال کی مختصر تفصیل یہ ہے:-

۱)اللہ جل شانہٗ کے سوا کسی دیکھی یا ان دیکھی ہستی کو اللہ تعالیٰ کی رحمانیت‘ خالقیت‘ غفاریت مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے کسی اسم حسن سے کسی مخلوق کو متصف سمجھنا یا مخلوق میں کسی اسمِ حسن کو ثابت کرنا شرک ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے مقررہ نظام دنیا و آخرت یعنی اللہ کے امر و حکم و نہی کے نفاذ و اجراء و تدبیر میں کسی مخلوق کو دخیل اور شریک کار سمجھنا خواہ وہ ملائکہ ہوں یا انبیاء علیہم السلام‘ اولیاء کرام ہوں یا اجنّہ۔ مثلاً زندگی‘ موت‘ رزق‘ اولاد‘ صحت و مرض‘ عافیّت‘ عذاب و مغفرت‘ ہدایت‘ گمراہی‘ غضب و رحمت‘ حاجت روائی و مشکل کشائی یا شرور و آفات سے حفاظت وغیرہ کے الٰہی نظام میں مخلوق کو شریک سمجھنا شرک ہے۔ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَہُمْ فِيْہِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَہٗ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِيْرٍ۝۲۲ (سورہ السبا) ترجمہ: (وہ ذرہ برابر بھی اختیار نہیں رکھتے نہ آسمانوں میں نہ زمین میں اور نہیں ان کے لئے آسمان و زمین میں کوئی شرکت اور نہیں ہے ان میں سے کوئی بھی اللہ کا مشیر۔)

۲)مخلوق کی کسی صفت سے اللہ جل شانہٗ کو متّصف سمجھنا شرک ہے مثلاً یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کے اولاد ہے اور بی بی ہے (سورہ التوبہ: 30‘ مریم: 88 تا 92‘ المائدہ: 116‘ اسریٰ: 40اور الزخرف: 18-19) یا وہ کسی سے مشورہ کئے بغیر حکومت نہیں فرماسکتا (بنی اسرائیل: 111)۔

۳)انسان کا اپنے آپ کو مالک و مختار سمجھ کر من مانی زندگی بسر کرنا شرک ہے۔ انسانی تجاویز و قوانین اور احکام کو موجبِ فلاح و خیر سمجھنا یا امن و سلامتی‘ عدل و انصاف کے آئین و قوانین بنانے کی قابلیت و صلاحیت انسان کے لئے ثابت کرنا اور انسانی اقتدار کے آگے بطیبِ خاطر سربسجود رہنا شرک ہے۔ مَا كَانَ لَہُمُ الْخِيَرَۃُ۝۰ۭ سُبْحٰنَ اللہِ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝۶۸ (سورہ القصص) ترجمہ: (ان میں تجویز احکام کی کوئی قابلیت ہی نہیں، پاک ہے اللہ ان کے شرک سے اور برتر ہے۔)

۴)فکر و تدبر‘ سعی و جدوجہد کے نتائج کو (اللہ کی مدد سے نہیں بلکہ) اپنی تدبیر کا نتیجہ سمجھنا۔

۵)واقعات و حوادث و انقلابات کو ستاروں کی گردش کا اثر سمجھنا’ بدشگونی لینا‘ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا‘ نجومی کی باتوں کو سچ سمجھنا۔

۶)اللہ جل شانہٗ میں کوئی عیب یا نقص مثلاً ظلم‘ بے انصافی‘ جہل وغیرہ یا اللہ کے لئے جسم و صورت’ حلول و اتحاد وغیرہ ثابت کرنا بھی شرک ہے اور اللہ تعالیٰ کے افعال و نظام پر اعتراض کرنا بھی۔

۷)دنیا و آخرت کے نفع و ضرر کے تعلق سے جس کا ذکر فقرہ (1) میں کیا گیا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ بندوں کو یا اجنّہ و شیاطین کو مدد کے لئے پکارنا ان کو راضی رکھنے کے لئے ان کے نام سے جانور ذبح کرنا‘ ان کے مسکن یا ان کے قبور کو خیر و برکت کے نزول کا مقام سمجھنا‘ ان کی تعظیم کے لئے ان کے سامنے قیام یا ایسے افعال جن سے اپنی عاجزی‘ ذلّت اور ان سے اپنی احتیاج اور ان کے علو و برتری‘ جلال و کبریائی کا اظہار ہو‘ شرک ہے۔

توضیح: اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے بجائے مخلوق کا خوف‘ اللہ تعالیٰ سے شدید محبت کے بجائے مخلوق سے وابستگی‘ اللہ جل شانہٗ پر اعتماد کی بجائے مخلوق پر اعتماد و بھروسہ‘ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے اپنی نمود و شہرت یا مخلوق سے جزا پانے کی نیت سے دینی و دنیوی امور انجام دینا جس کو ریا کہتے ہیں یہ سب شرک ہی کے اجزاء ہیں۔

دینِ حق‘ علمِ حق سے بے بہرہ رہنے کی وجہ سے ہر چھوٹے بڑے میں کم و بیش شرک کے اجزاء پائے جاتے ہیں۔ اس لئے نہایت ضروری ہے کہ علمِ دین حاصل کیا جائے۔ جہل کی وجہ سے اگر شرک کے اجزاء پرورش پاتے رہیں گے تو خسرانِ آخرت تو یقینی ہے۔ زہر کو اگر شربت سمجھ کر پی لیا جائے گا تو اثر زہر ہی کا ہوگا۔ یہ جہل ہی کے نتائج ہیں کہ اللہ جل شانہٗ کی مخلوق انبیاء علیہم السلام سے غیر طبعی امور‘ معجزات کا ظہور دیکھ کر انسان ان کے آگے جھک جاتا ہے اور اُن کو اپنا مشکل کشا و حاجت روا خیال کرلیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی قدرت کا کچھ حصہ عطا فرمایا ہے۔ نظامِ عالم میں ان کو تصرف کا اختیار دیا ہے اور اللہ جل شانہٗ کے پاس ان کو اس قدر رسوخ حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ ان کے مشورہ کے بغیر کوئی حکم صادر کرتے ہیں اور نہ ان کے ذریعہ و واسطہ کے بغیر اللہ جل شانہٗ تک رسائی ہوسکتی ہے اور نہ دعاؤں کی سنوائی۔ اس شیطانی فریب میں جب انسان مبتلا ہوجاتا ہے تو وہ نجات و مغفرت کے لئے اپنی فکر و عمل کی اصلاح ضروری نہیں سمجھتا اور اس دھوکہ میں مبتلا رہتا ہے کہ دنیا میں من مانی زندگی گزار کر خدا کے مقبول بندوں کو (اگر ان کے نام سے ایصالِ ثواب کر کے اور ان کی نذر و منّت کر کے) راضی رکھے گا تو آخرت کی سختی سے چھٹکارا پاجائے گا اور دنیا کے دکھ‘ درد اور حیرانی و پریشانی سے حفاظت ہوجائے گی۔ دنیا و آخرت کی خوش حالی‘ فکر و عمل کی پاکیزگی سے نہیں بلکہ اللہ کے مقبول بندوں کے دامن سے وابستہ رہنے سے ہے‘‘ حالانکہ خدائے تعالیٰ کے قانونِ منع و عطا‘ نفع و ضرر‘ مغفرت و عذاب میں کسی فردِ خلق کو رتی برابر دخل (مداخلت کا حق) نہیں اور جن کو وہ صاحبِ اختیار سمجھ کر مدد کے لئے پکارتا ہے وہ کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے۔ وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ  قِطْمِیْرٍ (سورہ الفاطر: 13) ترجمہ: (اللہ کے سوا جن کو تم (واسطہ سمجھ کر) پکارتے ہو وہ رتی برابر بھی اختیار نہیں رکھتے۔)

نیز جہل کی وجہ سے اس پندار میں رہتا ہے کہ اس کو خدا نے عقل اس لئے عطا کی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو سمجھے اور اس کے مسائل کا حل خود معلوم کرے اور اپنی فلاح و خیر کے لئے اپنی زندگی کا نظام خود مرتب کرلے۔ ان شیطانی خیالات کی بناء پر اپنی ہویٰ و ہوس کی اتباع کرتا ہے اور مخلوق کی غلامی کا طوق اپنی گردن میں ڈال لیتا ہے‘ خدا پرستی کی فطری راہ چھوڑ کر غیر فطری راہ پر گامزن ہوجاتا ہے۔ اللہ و رسولؐ نے شرک سے بچنے کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ یہ ایسا مرض ہے جو غیر محسوس طور سے قلب میں گھر کر جاتا ہے۔ چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ غیر محسوس جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: والذی نفسی بیدہ الشرک اخفی فیکم من دبیب النمل (الادب المفرد للامام البخاری)۔ اہلِ علم کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہر وقت اپنے قلب کا جائزہ لیتے رہیں کہ غیر شعوری طور سے کہیں شرک کے جراثیم پرورش تو نہیں پارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے رہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو یہی تعلیم دی اور یہ دعا سکھائی۔ اللھم انی اعوذ بک من اَنْ اشرک بک وانا اعلم واستغفرک لما لا اعلمترجمہ: (اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ جان بوجھ کر شرک کروں اور جو بغیر جانے بوجھے ہوجائے۔ اس کی تجھ سے بخشش چاہتا ہوں۔) انسان کی فطرت وحدت پسند ہے مثلاً بہ خوشی کسی کا محکوم ہو تو اپنے حاکم کے سوا غیر کی حکومت پسند نہیں کرتا۔ اگر حاکم ہو تو اپنی حکومت میں دوسرے کی شرکت گوارا نہیں اس آیت کریمہ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌاَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ (سورہ یوسف: 39) ترجمہ: (کیا کئی ارباب (حاجت روا) بہتر ہیں یا صرف ایک ہی اللہ غالب حاجت روا بہتر ہے۔) میں انسان کی وحدت پسند فطرت ہی کی طرف اشارہ ہے کہ شرک مزاجِ انسانی کے مطابق نہیں اور ایک ہی مرکز اعلیٰ و عظیم سے وابستگی اور اسی کی اطاعت و فرمانبرداری انسان کی فطرت ہے۔ مختصر یہ کہ مخلوق میں کسی ایک کو بھی مدد کے لئے پکارنا اور اس کی بندگی کرنا شرک ہے، حق تعالیٰ سے کھلی مخالفت ہے۔ حقیقی مالک و حاکم سے بغاوت ہے۔ اس مخالفت و بغاوت کے چند روزہ و ابدی نتیجے خالقِ انسان نے مقرر کردیئے ہیں جو نہایت تکلیف دہ ہیں اور وہی ہیں جس کو انسانی فطرت پسند نہیں کرتی۔ مثلاً اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ (سورہ توبہ: 28) ترجمہ: (بے شک شرک کرنے والے گندے ہیں۔) گندگی یہ کہ اللہ اعلیٰ و عظیم کا بندہ ہوکر اپنے ہی جیسے ادنیٰ یا اپنے سے کمتر مخلوق کا بندہ اور ہویٰ و ہوس کا پرستار بن جائے گا تو اس ناپاکی کا ناپاک اثر افکار و کردار پر یہ ہوگا کہ ناپاک و پاک میں کوئی امتیاز نہ رہے گا۔ گندی چیزوں سے نفرت نہ ہوگی۔ اس کی زندگی حیوانوں کی طرح ناپاک زندگی ہوگی۔ یعنی کمزور اور بے وسیلہ (بے سہارا)‘ انسانوں کی حق تلفی کرے گا۔ جبر و استبداد‘ دغا و فریب‘ غارت گری و خونریزی‘ جان و مال‘ عزت و ناموس کی بربادی ان شرک کرنے والوں کی سیاست ہوگی۔ ہویٰ و نفس کے تقاضوں کی تکمیل‘ لذّت و شہوت پوری کرنے کے لئے غیر فطری ذریعہ ان کی تہذیب کے بنیادی اصول ہوں گے۔ کھیل‘ تماشہ‘ نسلی و قومی تفاخر‘ مال و زن و اولاد کی کثرت کی ہوس‘ جسم و صورت‘ لباس و مکان کی تزئین و آرائش‘ نام و نمود ان کے مطلوب و مقصود ہوں گے۔

پچھلی گمراہ قوموں کے واقعات تاریخ میں پڑھئے ان کی سیاست و تہذیب کا یہی نقشہ رہا اور اس ترقی یافتہ زمانہ میں بھی اللہ جل شانہٗ کے باغی اور نافرمان انسانوں کی زندگی کا جو چلن ہے ان کی حکومت کا جو نظام ہے‘ سرمایہ دارانہ ہو یا اشتراکی‘ شخصی ہو یا جمہوری‘ اس کے بھی یہی خط و خال ہیں۔ عقل اتنی اندھی ہوجاتی ہے کہ گندیوں کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اپنی حیوانی زندگی کو بہترین انسانی زندگی سمجھتے ہیں اور اس کا پرچار کرتے ہیں۔ بالکل سچ ارشاد ہے۔ اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَہُمْ يَسْمَعُوْنَ اَوْ يَعْقِلُوْنَ۝۰ۭ اِنْ ہُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِيْلًا۝۴۴ۧ (سورہ فرقان) ترجمہ: (کیا تم خیال کرتے ہو کہ ان میں سے اکثر بینا و دانا ہیں؟ نہیں! وہ جانور کی طرح ہیں بلکہ اس سے زیادہ (راہِ راست سے بھٹکے) گم گشتۂ راہ۔) پالتو جانور میں اتنی تمیز تو ہوتی ہے کہ وہ اپنے کھلانے پلانے والے کو پہچانتا ہے اور ایک حد تک اس کے اشاروں پر چلتا ہے مگر یہ اندھی عقل والے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں پرورش پاتے رہنے کے باوجود حق کو جھٹلاتے ہیں۔ شرک کا دوسرا عارضی و ابدی نتیجہ حبطِ اعمال ہے۔ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ (سورہ الزمر: 65) ترجمہ: (اگر شرک کروگے‘ تمہارے عمل غارت ہوجائیں گے۔) واقعہ یہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں جو کچھ میسر آتا ہے وہ سعی و محنت کے بعد ملتا ہے۔ ہاتھ پیرچلانے‘ (حرکت) کے بعد اس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ دیتے ہیں۔ محنت کے بعد ہی محنت کا ثمرہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے۔ عمل برباد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تمام تر کوششوں کا جو ایک مقصد یہ ہے کہ اس کو امن وسکون کی زندگی‘ بے خوف و حزن زندگی نصیب ہو تو اس کا یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا اور اس کو امن و راحت نصیب نہیں ہوتی۔ معاش کی طرف سے بعد از خرابیٔ بسیار فراغت بھی ہو تو طرح طرح کے افکار و آلام اُس کو لپٹ جاتے ہیں نہ دماغ کو سکون ملتا ہے نہ دل کو چین۔ حبطِ اعمال کی یہ صورت تو اسی زندگی میں پیش آجاتی ہے۔ آخرت میں حبطِ اعمال کی صورت یہ ہے کہ مشرک غیر اللہ کو آخرت میں اپنا وسیلہ و شفیع سمجھ کر ان کی نذر و منت کرتا رہتا ہے اور ان کے نام پر کافی روپیہ خرچ کرتا ہے تاکہ وہ اس کی مدد کریں اس کے یہ اعمال غارت ہوجائیں گے کیونکہ آخرت میں اس کا نہ کوئی شفیع ہوگا اور نہ ولی۔ لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیْعٌ (سورہ الانعام)۔ مشرکانہ بہیمانہ زندگی کی ابدی جزاء یہ ہے کہ مغفرتِ الٰہی و جنت سے یکسر محرومی نصیب ہوگی اور ابدی سوز و تپش کا عالمِ نار اس کا ٹھکانا ہوگا۔ اِنَّہٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَيْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰىہُ النَّارُ۝۰ۭ وَمَا لِلظّٰلِــمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝۷۲ (سورہ مائدہ) ترجمہ: (جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا آخرت کی خیر و ابقیٰ زندگی اس پر اللہ حرام کرے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔) اس کرۂ آتشیں میں خاک کے پتلے‘ آگ کے پتلے اور آگ کا ایندھن بن کر ہمیشہ ہمیشہ جلتے بھنتے رہیں گے۔ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۳۹ۧ (سورہ البقرہ)۔ الغرض شرک ہی وہ شجرِ خبیث ہے، کفر و نفاق جس کی شاخیں ہیں۔

کُفر

کفر کی ایک جامع تعریف اللہ جل شانہٗ نے بیان فرمائی ہے اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللہِ وَرُسُلِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ۝۰ۙ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا۝۱۵۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا۝۰ۚ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّہِيْنًا۝۱۵۱ (سورہ النساء) ترجمہ: (بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں میں تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ بعض پر ہم ایمان لاتے ہیں اور بعض پر ایمان نہیں لاتے اور چاہتے ہیں کہ ایک درمیانی راستہ نکالیں ایسے لوگ واقعی کافر ہیں اور کافروں کے لئے ہم نے ذلت آمیز عذاب تیار رکھا ہے۔) ان آیات کے چار جز ہیں۔

۱)اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار

۲)اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولوں کے حکموں میں تفریق

۳)کسی رسول پر ایمان اور کسی کا انکار

۴)اور ایک درمیانی راہ تجویز کرنا۔ جن کا مطلب یہ ہے کہ احکام و ہدایتِ الٰہی‘ رسالت اور احکام رسالتؐ کا انکار کرنے والے‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی وہ ہدایتیں جو لازم و ملزوم ہیں ان میں فرق کرنے والے مثلاً رسولؐ نے جن چیزوں کو حرام فرمادیا ہے ان کو اللہ کی حرام کی ہوئی نہ سمجھنا یا نماز کو فرض سمجھنا مگر پانچ وقت کی نمازوں کو فرض نہ سمجھنا‘ شریعت کے کسی حصہ پر عمل اور کسی حصہ کو ترک کرنے والے‘ دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے والے‘ از ابتدا تا ایں دم تمام انسانوں کے لئے ایک ہی دینِ الٰہی‘ دینِ اسلام کو نہ ماننے والے‘ حق و باطل کا ایک مخلوط مسلک اختیار کرنے والے ایسے تمام لوگ کافر ہیں اور اس قسم کے خیالات کفر ہیں۔ مزید تفصیل کتابوں میں درج ہے۔ یہاں چند ایسی باتیں لکھی جاتی ہیں جن کو عام طور پر کفر نہیں خیال کیا جاتا۔

۱)دین کے احکام کو اپنے لئے مضر یا غیر مفید یا موجب شرم و اہانت سمجھ کر اختیار نہ کرنا کفر ہے۔

۲)اللہ تعالیٰ سے ناامید ہونا کفر ہے۔

۳)اہلِ حق سے تمسخر کرنا اور دین کا مذاق اڑانا کفر ہے۔

۴)گناہ کو گناہ نہ سمجھنا اور گناہ کر کے اُس پر خوش ہونا‘ اترانا اور منہیات کو موجبِ خیر و صلاح سمجھنا کفر ہے۔

دنیا کی محبت کی وجہ سے موت سے دہشت زدہ رہنا اور گھبرانا‘ درِ باطل کے بھکاری بنے رہنا‘ اہلِ باطل کے باطل اغراض و مقاصد میں ان کا معین و مددگار بننا اور ان کی تائید میں اپنی مالی و جسمانی قوّتوں کو صرف کرنا اس نیت سے کہ کچھ دنیا کا نفع حاصل ہوجائے کفر ہی کے اجزاء ہیں۔ اقبال کے ان اشعار میں اسی کافرانہ ذہنیت کی طرف اشارہ ہے۔

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی    :        مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

یہ کافری تو نہیں کافری سے کم بھی نہیں    :        کہ مردِ حق ہو گرفتارِ حاضر و موجود

اپنے رب و مالک کے جاں نثار بندے بن کر انسانوں کی غلامی سے آزاد رہنے کی جدوجہد کرتے رہنے کے بجائے اہلِ باطل کی غلامی و تابعداری کے نشہ میں مخمور و مست ہیں یہ اس بات کی علامت ہے کہ  ؎

قلب میں سوز نہیں روح(نفس) میں احساس نہیں      :        کچھ بھی پیغامِ الٰہی کا تمہیں پاس نہیں

وہ زندگی بخش پیغام جس کی حقیقت یہ ہے کہ انسانوں پر انسانوں کی حکومت انسان کے لئے دارین میں موجبِ خیر و فلاح نہیں بلکہ اللہ کے بندوں کی بھلائی‘ دنیا و آخرت کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرمانبردار رہیں اس پیغام کے وارث ابدی نفع و ضرر کو بھول کر انسانوں پر انسانوں کی حکومت کی ہوا خواہی میں اپنی بھلائی دیکھ رہے ہیں۔ ایک طرفہ تماشہ ہے کہ فسق و باطل کی خدمت بھی اور حق کی پاسبانی کاادعا بھی۔

چو کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی

کفر کا بدل بھی رحمتِ حق سے محرومی اور ابدی نار ہے

اِنَّ اللہَ لَعَنَ الْكٰفِرِيْنَ وَاَعَدَّ لَہُمْ سَعِيْرًا۝۶۴ۙ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝۰ۚ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا۝۶۵ۚ (سورہ الاحزاب) ترجمہ: (اللہ نے بے شک کافروں کو رحمت سے محروم کردیا ہے اور ان کے لئے جہنم تیار کی ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہاں وہ کوئی حامی و مددگار نہیں پائیں گے۔)

نفاق

نفاق‘ صدق و اخلاص کی ضد ہے۔ ایمان میں صدق و اخلاص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کی دعوت جس مقصد کے لئے دی ہے وہی ہمارا مطلوب و مقصود ہو‘ ہر کام میں اسی پر نظر ہو اور وہ آخرت کا ابدی نفع ہے۔ وَاللہُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ (سورہ الانفال: 67) ترجمہ: (اللہ تعالیٰ تو (تمہاری) آخرت کی بھلائی چاہتے ہیں۔) اس لحاظ سے نفاق جو صدق و اخلاص کی ضد ہے یہ ہے کہ ایک طرف اسلام و ایمان کا دعویٰ ہو اور ادھر ہر کام میں بجائے آخرت کے‘ دنیا کا نفع مطلوب رہے‘ نفاق بڑا پوشیدہ مرض ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں وحی سے صدق و نفاق کا فرق معلوم ہوجاتا تھا۔ اب مرض نفاق کا پتہ چلانا ایک مصلح کے لئے بڑی دقتِ نظر کا کام ہے لیکن کتاب و سنت میں اس مرض کی جو علامتیں بیان کی گئی ہیں ان سے اس مرض کا پتہ لگاکر انسان اپنی اور دوسروں کی اصلاح کرسکتا ہے۔ مثلاً

۱)جب اُن کو اللہ و رسولؐ کی اطاعت کے لئے کہا جاتا ہے تو پہلو تہی کرتے ہیں اور اطاعت سے جی چراتے ہیں۔ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰـفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا (سورہ النساء: 61)۔

توضیح:- (اللہ و رسولؐ کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ (کاروبار میں) دنیا کا نفع و ضرر پیشِ نظر نہ ہو بلکہ آخرت کا نفع و ضرر سامنے ہو۔ اللہ و رسول کی اطاعت سے جی چرانے کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ نفع آخرت کے مقابلہ میں نفعِ دنیا کو ترجیح دیتے ہیں، یہ نفاق کی علامت ہے۔)

۲) وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۝۰ۙ (سورہ النساء: 142) ترجمہ: (جب وہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی اور سستی سے کھڑے ہوتے ہیں۔) وَلَا يَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَہُمْ كُسَالٰى وَلَا يُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَہُمْ كٰرِہُوْنَ۝۵۴ (سورہ توبہ) ترجمہ: (اور نماز کے لئے آتے بھی ہیں تو بڑی ہی سستی و کاہلی کے ساتھ اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے مگر بڑی ہی ناگواری کے ساتھ۔) یعنی بے دلی و بے توجہی سے نماز پڑھتے ہیں، وقت گزار کر پڑھتے ہیں اور اس طرح پڑھتے ہیں کہ نہ قیام درست نہ رکوع، سجدہ درست نہ تلاوت۔

۳)یُرَآئُ وْنَ النَّاسَ (سورہ النساء: 142) جو کام بھی کرتے ہیں وہ دکھاوے اور نام و نمود و شہرت کے لئے کرتے ہیں۔

۴)وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْـلًا (النساء: 142) ترجمہ: (اور اللہ کا ذکر (یعنی ذکرِ آخرت) بہت کم کرتے ہیں (یعنی رات دن صرف دنیا اور دنیا ہی کی باتوں میں مصروف رہتے ہیں۔)

۵) مُّذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ۝۰ۤۖ لَآ اِلٰى ہٰٓؤُلَاۗءِ وَلَآ اِلٰى ہٰٓؤُلَاۗءِ۝۰ۭ (النساء : 143) کفر و اسلام کے درمیان معلق‘ نہ ادھر نہ ادھر‘ ہوا کے رخ پر چلنے والے‘ پانی کے دھارے پر بہنے والے‘ باطل کا فروغ دیکھا تو باطل کے ساتھ‘ حق کا فروغ دیکھا تو حق کے ساتھ۔

۶)یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ (سورہ توبہ: 67) کفر و مخالفتِ اسلام کی تعلیم دیتے ہیں۔ اچھی بات یعنی ایمان باللہ و اتباع و اطاعت نبوتؐ سے منع کرتے ہیں۔ یعنی ہر اس کام کی طرف بلاتے ہیں جس میں صرف دنیا ہی کا فائدہ ہو۔

۷) وَيَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَہُمْ۝۰ۭ (سورہ توبہ: 67) اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں۔ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے جی چراتے ہیں اور اگر خرچ بھی کرتے ہیں تو بڑی کراہیّتِ قلبی کے ساتھ۔ ’’وَلَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَھُمْ کٰرِھُوْنَ‘‘ (سورہ توبہ: 54)۔

۸)اِنَّ الْمُنٰـفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (سورہ توبہ: 67) ہمیشہ نافرمانی کرتے رہتے ہیں۔ اور اپنی حالت پر کوئی شرم و ندامت محسوس نہیں کرتے۔

۹)اللہ و رسولؐ کے ساتھ استہزاء کرتے یعنی دین کی باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ بھی نفاق ہی کی علامت ہے۔ قُلْ اَبِاللہِ وَاٰيٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ كُنْتُمْ تَسْتَہْزِءُوْنَ۝۶۵  (سورہ توبہ: 65) یہ خطاب منافقین ہی سے ہے۔ حدیث رسولؐ میں بھی چار علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ ’’وعن عبداللہ بن عمرو قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اربع من کنفیہ کان منافقًا خالصًا ومن کانت فیہ خصلۃ منھن کانت خصلۃ من النفاق حتٰی یدعھا اذا ؤتمن خان واذا حدث کذب واذا عاھد غدر واذا خاصم فجر‘‘ (متفق علیہ) ترجمہ: (عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار باتیں ہیں جس میں وہ چار ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں اس میں سے کوئی ایک بات ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی جاتی ہے۔ جب تک اسے چھوڑ نہ دے (۱)جب امانت سپرد کی جائے خیانت کرے (۲)گفتگو میں جھوٹ بولے (۳)معاہدہ میں بد عہدی کرے (۴)لڑائی میں گالی گلوچ کرے۔) اس حدیث میں نفاق سے بچنے کی تاکید ہے اور یہ تنبیہ بھی ہے کہ ان چاروں خصلتوں سے جب تک توبہ نہ کی جائے مرض نفاق دور نہیں ہوتا۔ مسلم میں ابو ہریرہؓ کی روایت میں اتنا اور اضافہ ہے۔ ’’وان صام و صلی وزعم انہٗ مسلم‘‘ ترجمہ: (اگر چہ روزہ رکھتا ہو‘ نماز پڑھتا ہو اور اپنے کو مسلمان سمجھتا ہو۔) مطلب یہ ہے کہ نماز‘ روزہ سے اس دھوکہ میں نہ رہیں کہ ہم مومن ہیں بلکہ اس مرض قلبی کا پتہ لگا کر اس سے بچتے رہنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ رسول اللہﷺ نے نفاق کی ایک علامت یہ بھی بیان فرمائی ہے۔ ’’وان المنافق اذا مرض ثم اعفی کان کالبعیر عقلہ اھلہ ثم ارسلوا فلم یدرلم عقلوہ ولم ارسلوہ‘‘ (ابوداؤد) ترجمہ: (منافق بیمار ہونے کے بعد اچھا کردیا جاتا ہے وہ اس اونٹ کے جیسا ہوتا ہے جس کو اس کے مالک نے باندھا اور پھر چھوڑ دیا اس کو نہیں معلوم کہ کیوں باندھا تھااور کیوں چھوڑ دیا۔) یعنی یہ غور نہیں کرتا کہ یہ مصیبت کیوں آئی اور کیوں چلی گئی۔ مصیبت کے بعد بھی اپنی اصلاح کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ دنیا میں انسان پر جو مصیبتیں نازل ہوتی رہتی ہیں وہ اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے بھی نازل ہوتی ہیں۔ نافرمانوں پر مصیبت اس لئے نازل کی جاتی ہے کہ وہ چونکیں لہٰذا ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان مصیبتوں میں اولاً اصلاح حال کی طرف متوجہ ہو اور نفاق یہ ہے کہ اس کااحساس بھی نہ ہو بلکہ مصیبت آنے سے چین بجین ہو کر اللہ تعالیٰ کی شکایتیں کرنے لگے۔ نبی معلم حکمت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پُر از حکمت ارشاد میں اسی طرف اشارہ ہے کہ خیانت‘ بد عہدی‘ دروغ بیانی‘ فحش کلامی جیسے گناہوں کا مرتکب اپنے ایمان میں سچا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ مالی نفع اندوزی اور جان و مال کے نقصان سے محفوظ رہنے کا ذریعہ اس نے ان ہی گناہوں کو بنارکھا ہے۔ نفاق کی جزا بھی نار ہے بلکہ جہنم کا سب سے نچلا طبقہ۔ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ۝۰ۚ (النساء: 145) شرک‘ کفر و نفاق بے شک وہ خطرناک امراض ہیں جو شجر ایمان کو گھن کی طرح کھاجاتے ہیں مگر یہ خطرناک امراض جس فاسد مادہ سے پیدا ہوتے ہیں، وہ حبِّ دنیا ہے (یعنی دنیا کے نفع کو آخرت کے نفع پر ترجیح دینا اور انجام سے غافل رہنا دنیا کی محبت ہے۔) ذٰلِكَ بِاَنَّہُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۙ(سورہ النحل: 107) ترجمہ: ((ان لوگوں کے کفر و شرک وغیرہ میں مبتلا ہونے کی) وجہ یہ ہے کہ انہوں نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو پسند کیا۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی فرماتے ہیں کہ ہر چھوٹی بڑی خطاء کی جڑ دنیا کی محبت ہے ’’حب الدنیا رأس کل خَطِیْئَۃٍ‘‘۔

ایمان باللہ

سطور بالا میں شرک کی جو مختصر تشریح کی گئی ہے اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ انسان جہل کی وجہ سے اپنا عارضی و ابدی نفع و ضرر‘ مخلوق کے اختیار میں سمجھ کر خوشی سے ان کے آگے سرنگوں‘ سربسجدہ ہوجاتا ہے ان کو خوش و راضی رکھنے کے لئے ان کی مرضی و ہدایت کی اتباع کرتا ہے۔ ان میں حاجت روائی‘ مشکل کشائی‘ کارسازی کا اختیار ثابت کر کے مشکلات و حاجات میں ان ہی کی طرف رجوع کرتا ہے اور ہر حیرانی و پریشانی میں مدد کے لئے پکارتا ہے‘ ان ہی کی نذر و منت کرتا ہے‘ ان کے نام کی کچھ علامتیں بناکر (جیسے پتھر کی مورتی یا عَلَم یا جھنڈے) ان کی تعظیم کرتا ہے یا ان کی قبور پر سجدے اور ان کا طواف کرتا ہے۔ اس طرح ان سے اپنی عقیدت اور اپنی نیاز مندی کا اظہار کرتا ہے اور ان کی ناراضگی سے ڈرتا ہے چاہے وہ ملائکہ ہوں یا اجنّہ‘ انبیاء علیہم السلام ہوں یا اولیاء کرام یا ملوک و سلاطین یا احبار و رہبان (مذہبی پیشوا) ہوں اور یہ کہ اپنی زندگی کا خود کو مالک و مختار سمجھ کر ہوا و ہوس‘ نفسانی خواہشات کی من مانی پیروی کرتا ہے اور اپنی زندگی کے آئین و قوانین خود مرتب کرتا ہے۔ یہ سب غیر اللہ کو اور اپنی ہویٰ کو الٰہ بنانا ہے‘ غیر اللہ کی پرستش اور اپنی خواہشات کی بندگی و اتباع ہے، یہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے، اللہ تعالیٰ کو خالق و رب مان کر اللہ تعالیٰ کا انکار ہے اور اللہ تعالیٰ کی عارضی و ابدی رحمتوں سے دور کردینے والی گمراہی ’’ضللـًا بعیدا‘‘ ہے۔ کلمۂ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کے ذریعہ جاہل و نادان انسان کو یہ علم و آگہی بخشی گئی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا  زمین و آسمان میں کوئی فردِ خلق الٰہ نہیں ہے اور نہ انسان اپنی زندگی کا مالک و مختار ہے بلکہ انسان اور انسان کے تمام خود ساختہ الٰہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں انسان کی عارضی و ابدی زندگی کا نفع و ضرر کسی فردِ خلق کے اختیار میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ مخلوقات میں نفع و ضرر‘ منع و عطاء‘ ذلت و عزت‘ ہدایت و ضلالت وغیرہ کی جو قابلیتیں بظاہر نظر آتی ہیں اور خود انسان میں سننے‘ دیکھنے‘ سمجھنے‘ کام کاج کرنے کی جو قوتیں ہیں اور تصرّف و اختیار کی جو قابلیت ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطا ہیں جو اللہ تعالیٰ کے توجہ و ارادہ سے ہر آن جاری و ساری ہے۔ اللہ جل شانہٗ جس قوت و قابلیت کو جس وقت چاہیں چھین لیں۔ اللہ تعالیٰ ضرر پہنچانا چاہیں تو اللہ ہی کے سوا کوئی اس کو دفع نہیں کرسکتا اور اللہ تعالیٰ نفع پہنچانا چاہیں تو کوئی روک نہیں سکتا۔ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِہٖ۝۰ۭ (سورہ یونس: 107) ترجمہ: (اگر تم کو اللہ تعالیٰ تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تم کوئی راحت پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔) اور یہ کہ جس طرح انسان کی بقائِ حیات‘ رہنے سہنے‘ کھانے پینے‘ سونے جاگنے وغیرہ کی فطری خواہشات‘ اللہ جل شانہٗ خالقِ فطرت کے مقررہ نظامِ حیات کی کما حقہٗ اتباع سے پوری ہورہی ہیں۔ اسی طرح انسان کی یہ جو فطری خواہش ہے کہ اس کو اس زندگی میں خوف و حزن دامنگیر نہ رہے اس کے افکار و اعمال میں حسن و خوبی‘ صالحیت و پاکیزگی پیدا ہو، تاکہ وہ اپنے فطری تعلقات کو اچھی طرح‘ لڑائی جھگڑے کے بغیر قائم رکھ سکے۔ ہر ایک کے حقوق‘ عدل و احسان کے ساتھ ادا کرسکے اور اس کو ایک لازوال‘ اعلیٰ‘ حسن و کمال‘ راحت و شادمانی کی زندگی حاصل ہو تو یہ فطری خواہشات بھی اسی وقت پوری ہوسکتی ہیں جبکہ انسان اللہ تعالیٰ کی مرضی و ہدایت کی پوری پوری اتباع کرے یعنی انسان کی عارضی و ابدی زندگی میں خیر و خوبی‘ حسن و کمال اور اس کو بقاء و دوام بھی اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کے فیضان ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی و اطاعت کے بعد اللہ تعالیٰ کی توجہ سے یہ فیضانِ حق انسان میں جاری ہوجاتی ہے (جیسا کہ قانونِ رحمانیت و قانونِ رحیمیت کے ساتھ ساتھ قدرتِ الٰہی کے ظہور و مشاہدات بھی شامل ہیں) پس اللہ تعالیٰ ہی الٰہ واحد ہیں۔ معبود و مستان ہیں۔ اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝۸ (سورہ طٰہٰ) انسان کو زندگی اور زندگی گزارنے کا پورا پورا سامانِ حیات‘ اللہ تعالیٰ ہی نے عطا کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہی انسان کو صحیح و فطری راہ عمل کی تعلیم دینے والے اور فطری و غیر فطری‘ صحیح و غلط افکار و اعمال کی ابدی جزاء دینے کے لئے انسان کو مرنے کے بعد زندہ کر کے اپنے روبرو حاضر کرنے والے ہیں۔ اس لئے دنیا و آخرت میں حمد ہے تو ان ہی کے لئے ہے اور اصلی و حقیقی حکومت ہے تو ان ہی کی حکومت ہے۔ ایسی حکومت جس میں انسان ہی کی حاجت روائی و کارسازی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ہی الٰہ واحد ہیں۔ وَہُوَاللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ لَہُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۡوَلَہُ الْحُكْمُ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۷۰ (سورہ القصص) اور یہ کہ ہر چھپی‘ ڈھکی اور کھلی چیز‘ خلوت و جلوت کی اور دل میں چھپی ہوئی ہر بات اور انسان کے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ بخوبی جانتے ہیں اور جاہل انسان کو ہر وہ علم عطا کرتے ہیں جس کا تعلق جزائے اعمال کے ابدی عالمِ غیب سے ہے یا سعی و عمل کے عالم شہادت سے ہے اور انسان کو اس کی محنتوں کا بدل‘ پورا بدل دیتے ہیں۔ (رحمانیت) اور محنت سے زیادہ بدل دیتے ہیں اور انسان کی خطاؤں کو وہی معاف کرنے والے ہیں اور ہر قسم کے شرور و آفات سے حفاظت کرتے اور ہر مشکل میں مدد کرتے ہیں (رحیمیت)۔ انسان جو محتاج رحمت ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا ہر حکم و ہدایت ایک رحمت ہے۔ انسان‘ اللہ کی ہدایتوں پر عمل کر کے ہی اللہ تعالیٰ کی عارضی و ابدی رحمتوں کا مستحق ہوسکتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ معبود و مستعان ہیں۔ ہُوَاللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ۝۰ۚ ہُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ۝۲۲ (سورہ الحشر) اللہ تعالیٰ ہی گناہوں پر پردہ ڈالنے اور گناہوں کو بخشنے والے ہیں وہی گناہگار کی توبہ قبول کرتے ہیں اور وہی سخت عذاب دینے والے بہت بڑی قوت والے بھی ہیں اس لئے وہی معبود و مستعان ہیں۔ غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيْدِ الْعِقَابِ۝۰ۙ ذِي الطَّوْلِ۝۰ۭ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ (سورہ المؤمن: 3) کامل غلبہ و اقتدار اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جس کے تحت کائنات کا ہر ذرہ ہر آن حرکت میں ہے اور ہر حرکت‘ حکمتوں سے معمور ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایتوں میں انسان کے لئے عقل و دانائی کا سبق ہے تاکہ وہ اپنے اصلی نفع و ضرر کو سمجھے اور اسی سمجھ سے دنیا کے کاروبار انجام دے اور ابدی خیر و ابقیٰ منافع حاصل کرے۔ اس لئے وہی معبود و مستعان ہیں۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (سورہ اٰل عمران: 6) انسان کی دنیا و آخرت کی بھلائی اسی میں ہے کہ اللہ جل شانہٗ کے آگے سر تسلیم و اطاعت جھکا دے اور ہر مشکل و مصیبت‘ حیرانی و پریشانی میں ان ہی سے مدد مانگتا رہے ان کے ہر حکم و ہدایت پر چلے۔ فَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا۝۰ۭ (سورہ الحج: 34) اس زندگی بخش تعلیم میں انسان کو بندہ بننے پر مجبور نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کو افرادِ خلق‘ تمام انسانوں اور نفس و شیطان کی بندگی کے جنجال سے چھڑا کر بندگیٔ رب کا شرف عطا کیا جارہا ہے جو انسان کی فطری حیثیت ہے یہ بصیرت افروز حقیقت جب طالب حق سمجھ لیتا ہے اور قبول کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و توجہ سے اس کی دانش و بینش میں ایک بڑی تبدیلی یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ تمام خود ساختہ معبود ’’غیر اللہ‘‘ نظروں سے گرجاتے ہیں اور اپنی حاکمیت و خود مختاری کا پندار فنا ہوجاتا ہے اور اس کے بجائے اللہ جل شانہٗ کی عظمت و جلالت و کبریائی‘ فرمانروائی و حاجت روائی (ربوبیت) اور اپنی حیثیت محتاجی و بندگیٔ رب واضح ہوجاتی ہے اور وہ بہ ذـوق و شوق لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کا اعلان کردیتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی الوہیّتِ واحدہ اور اپنی بندگیٔ رب کا دلی اقرار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے اور زندگی کی ہر حرکت و سکون میں اللہ تعالیٰ ہی کے حکم و ہدایت پر عمل کرنے کا قلبی عہد و پیمان ہے۔ محمد رسول اللہﷺ کی تصدیق میں علماً و عملاً‘ سیرتاً و صورتاً اتباع و اطاعتِ رسالتؐ کا یہ اقرار واثق بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے استعانت‘ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے جو طور و طریق رسول کریمﷺ نے بتادیئے ہیں وہی قابلِ اتباع و اطاعت ہیں۔ اس کے بعد اگر اللہ و رسولؐ کی اطاعت و اتباع سے گریز کیا جائے تو وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ (سورہ بقرہ: 8) ترجمہ: (وہ ایمان نہیں لائے) کا اطلاق ہوگا۔

توضیح: اسوہ حسنہ کی پوری پوری اتباع و اطاعت ہی تزکیۂ نفس اور تطہیر قلب اور صحیح بصیرتِ قرآنی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ غیر مسنون اشغال و مراقبات سے انسان زاہد گو شہ نشین تو ہو سکتا ہے مگر مجاہد فی سبیل اللہ اور خلیفۃ الارض نہیں بن سکتا اور نہ اسے بصیرت قرآنی عطا کی جاتی ہے۔

دوسری تبدیلی مطلوب و مقصود کی تبدیلی ہے۔ دنیا کا تنعم و تعیش‘ لذات و شہوات کی فکر و طلب و حرص کے بجائے تکالیفِ آخرت سے محفوظ رہنے کی فکر اور مغفرتِ الٰہی و جنت کی طلب و حرص پیدا ہوجاتی ہے اور (۱)خوف و رجا (۲)حمد و شکر (۳)صبر و استقامت (۴)لگن و محبت (۵)ذکر و یاد (۶)توکل (اعتماد و بھروسہ) (۷)دعا و طلب امداد (۸)بندگی اور اتباع و اطاعت (۹)توبہ (اعترافِ قصور و ندامت و طلبِ عفو) ان فطری جذبات کاتعلق تمام باطل مراکز سے ٹوٹ کر حقیقی‘ اعلیٰ و عظیم مرکز‘ اللہ جل شانہٗ سے قائم ہوجاتا ہے اور صالح و پاکیزہ زندگی کی ابتداء ہوجاتی ہے جو حیاتِ ایمانی کی پہلی منزل (صدق و اخلاص‘ ہدایت اور بندگیٔ رب) کا بنیادی مقام ہے جس کے بعد حق سبحانہ تعالیٰ کی رحمت‘ ہدایت اور معیّت بندۂ مومن سے متعلق ہوجاتی ہے۔ رحمت‘ ہدایت و معیّتِ حق ہی مومن کی قوتِ ایمانی کا سرچشمہ ہے۔

ولایت‘ ہدایت و معیّت

ولایت(رحمتِ الٰہی):- یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے آغوشِ رحمت سے مومن کی پرورش کرتے ہیں۔ دین و ایمان میں توانائی و پختگی پیدا کرتے جاتے ہیں اور دل‘ دماغ و زندگی کے ایک ایک تاریک گوشہ کو نورانی بناتے جاتے ہیں۔ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا (سورہ الاحزاب: 43) ترجمہ: (اور وہ مؤمنوں پر بڑے ہی رحیم ہیں۔) اور اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ (سورہ البقرہ: 257‘ اٰل عمران: 68‘ النساء: 45اور الحج: 40) ترجمہ: (اللہ اہلِ ایمان کے ولی ہوجاتے ہیں ان کو ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لاتے ہیں۔) جہل و تاریکی کتنی ہی پھیل جائے، مومن کو علم کی روشنی عطا کرتے رہتے ہیں۔ اور سورہ الاعراف امیں اِنَّ وَلِيِّ اللہُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ۝۰ۡۖ وَہُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ۝۱۹۶ترجمہ: (بے شک اللہ بندوں کے ولی ہیں جو کتاب نازل فرمایا اور وہی اللہ صالحین کا حامی و مددگار ہے۔) غور طلب بات یہ فرمائی گئی کہ بندوں پر کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمانا، اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے ولی ہیں۔ اس کے بعد دوسری شکل یہ ہے کہ بندے‘ اللہ تعالیٰ کے دوست (ولی) ہوتے ہیں۔ اَلَآاِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفـٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (سورہ یونس: 62) ترجمہ: (خبردار! بے شک جو لوگ اللہ کے ولی (دوست) ہیں اُن پر کسی قسم کا خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔)

ہدایت: یہ ہے کہ ہر موقعہ و محل پر صحیح عمل کی توفیق عطا فرماتے ہیں ہر قسم کی مخالفتوں میں صحیح روش پر قائم رکھتے ہیں۔ وَاِنَّ اللّٰہَ لَھَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (سورہ الحج: 54) بے شک اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو راہ راست پر چلاتے ہیں۔

معیت: اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللہِ وَاَخْلَصُوْا دِيْنَھُمْ لِلہِ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۰ۭ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللہُ الْمُؤْمِنِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا۝۱۴۶ (سورہ النساء) ترجمہ: (ہاں جنہوں نے (کافرانہ و منافقانہ روش سے) توبہ کی اور اپنی حالت سنواری (اصلاح کی) اپنے آپ کو خوبیوں سے آراستہ کیا اور اللہ تعالی کے احکام پر مضبوطی سے جمے رہے اور انہوں نے اپنے دین کو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کرلیا۔ لہذا ایسے تمام لوگ اہلِ ایمان کے ساتھ شمار کئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ عنقریب مؤمنوں کو اجر عظیم دیں گے۔) اس وضاحت کے بعد ربّ العالمین ان مؤمنین کے مختلف کردار و اوصاف بیان کرتے ہوئے اُن کے ساتھ ہونے کی طمانیت دیتے ہیں، جو حسب ذیل قرآنی آیات میں بیان فرمائی ہیں۔ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۰ۭ (سورہ النساء: 146) مَعَ الرّٰكِعِيْنَ (سورہ البقرہ: 43‘ اٰل عمران: 43) مَعَ الصّٰبِرِيْنَ (سورہ البقرہ: 153،249‘ الانفال: 66) مَعَ الْمُتَّقِيْنَ (سورہ البقرہ: 194‘ التوبہ: 36، 123) مَعَ الشّٰہِدِيْنَ(سورہ اٰل عمران: 53‘ المائدہ: 83) مَعَ الْاَبْرَارِ (اٰل عمران: 193)  مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ (سورہ النساء: 69) مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ (سورہ النحل: 128) لَمَعَ الْمُحْسِـنِيْنَ (العنکبوت: 69)۔ ’’ مَعَ ‘‘(ساتھ) ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مخالف ماحول میں اہلِ ایمان کی مدد کرتے ہیں۔ یعنی دشمنوں کے قلوب میں اہلِ ایمان کا رعب بٹھادیتے ہیں۔ کمی تعداد و کمی سامان کے باوجود اہلِ ایمان کو کامیابی و غلبہ عطا کرتے ہیں، اہلِ باطل کی قوتوں کو پاش پاش کردیتے ہیں۔ اِنَّ اللہَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۭ (سورہ الحج: 38) ترجمہ: (بے شک اللہ تعالیٰ مؤمنین کی طرف سے (دشمنانِ دین کے حملوں کی) مدافعت کرتے ہیں) مؤمن کو ہر مشکل میں ثابت قدم رکھتے ہیں راہِ حق میں جان دے دیناآسان کردیتے ہیں۔ ہر باطل قوت سے بے خوف کردیتے ہیں اور اہلِ باطل کے کیدو مکر سے ان کی شرارتوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔

تقدیر

تقدیرِ الٰہی پر ایمان لانا ایمان باللہ کااہم جزو ہے مگر غلط تعبیرات کی وجہ سے اس کا مفہوم اتنا بگڑ گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بے خوفی و بے نیازی پیدا ہوگئی اور دینی جمود و تعطل پیدا ہوگیا حالانکہ ایمان باللہ میں بہ تعلق نفع و ضرر‘ منع و عطا‘ خیر و شر تمام مخلوق سے بے خوفی‘ ناامیدی اور بے نیازی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی سے پوری پوری نیازمندی ہے۔ تقدیر جو ایمان باللہ ہی کا جزو ہے اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ بہ تعلقِ نفع و ضرر وغیرہ مخلوق سے خوف و امید باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ ہی سے خوف و امید پیدا ہوکر انسان آستانۂ حق پر سرافگندہ ہوجائے اور اللہ جل شانہٗ کے در کا فقیر بنا رہے اور مخلوق سے بے خوف رہ کر سرگرم عمل رہے۔ اس کے سوا جو کچھ سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے وہ شیطانی وسوسے ہیں۔ نیز سِرِّتقدیر کے نام سے جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ کشف کی بات ہے کتاب و سنت کی بات نہیں۔ نیز ایمان بالآخرت‘ ایمان بالرسالت‘ ایمان بالکتاب اور ایمان بالملائکہ یہ سب ایمان باللہ کے لازم و ملزوم اجزاء ہیں۔ ایمان باللہ کا مطلب یہ ہے کہ ملائکہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ نظمِ عالم کی مختلف خدمات ان کے تفویض ہیں جن کو ملائکہ حکمِ الٰہی کے مطابق انجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی کارسازی و کارفرمائی میں وہ دخیل و شریک نہیں ہیں نہ وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہیں۔ دوسرے معنیٰ میں دراصل علمِ الٰہی کا دوسرا نام ہی تقدیر ہے۔ اللہ کا علم ہرگز بدل نہیں سکتا، لیکن بندوں کو جو اختیار دیا گیا ہے جس کا وہ اپنے کئے کا بدل پائیں گے۔

فطری جذبات کی تشریح

۱)خوف و رجا

انسان اسی سے خوف کرتا ہے جس سے اس کو اپنی جان و مال‘ اولاد و عزت وغیرہ کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ کلمۂ طیبہ لا الہ الااللہ کے ماننے سے جب یہ یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن (قانونِ الٰہی) کے بغیر مخلوق میں سے کوئی نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ ضرر۔ ذلت‘ عزت‘ منع و عطاء عارضی و ابدی زندگی کا سنوار و بگاڑ صرف اللہ بزرگ و برتر ہی کے اختیار میں ہے تو دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے اور مخلوق کا خوف باقی نہیں رہتا اور تمام امیدیں اللہ تعالیٰ ہی سے وابستہ ہوجاتی ہیں۔ خوفِ الٰہی کے معنی ہیں اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کے سخت و شدید ابدی نتائج‘ یعنی آخرت کا خوف۔ انسان اگر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی توجہ و رحمت سے محروم رہ کر دنیا و آخرت کے خسارے میں مبتلا ہونا یقینی ہے، دنیا میں یہ نقصان کہ سکون و راحتِ قلبی نصیب نہیں ہوتی اور آخرت کایہ نقصان کہ جہنم اس کا ٹھکانہ ہوگا۔ اللہ کا یہ خوف جس قدر زیادہ ہوگا اسی قدر باطل قوتوں سے بے خوفی اور عبادت و اطاعت حق میں پختگی ہوگی۔ دین کی حفاظت و اشاعت کا حوصلہ اس میں پیدا ہوتا جائے گا۔ نفس و شیطان کی مخالفت پر ہمہ وقت آمادہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا یہ پہلا اثر ہے کہ دل میں مخلوق کا خوف نہ رہے اللہ ہی کا خوف رہے۔ فَـلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (سورہ اٰل عمران: 175) ترجمہ: (پس تم ان سے مت ڈرو، صرف مجھ ہی سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو۔) ایک خوف وہ ہے جو مظلوم کو ظالم سے ہوتا ہے۔یہ خوف تو ظالم سے دور رکھتا ہے اور اللہ کا خوف‘ اللہ کی رحمت سے قریب کرتا ہے۔ یعنی جب یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے انسان‘ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق نہیں رہتا بلکہ غضب الٰہی کا سزا وار ہوکر دنیا و آخرت کانقصان اس کو برداشت کرنا لازمی ہوجاتا ہے تو خدا کایہ خوف انسان کو اپنی اصلاح پر آمادہ کرتا ہے اور بہ ذوق و شوق ان اعمال پر ابھارتا ہے جس پر عمل کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق و امیدوار ہوسکتا ہے۔

غرض اللہ جل شانہٗ سے خائف رہنے کا مطلب یہی ہے کہ دل میں مخلوق کا خوف نہ رہے اور انسان ان تمام نفسانی خواہشات کی پیروی سے اجتناب کرے جو دنیا و آخرت میں اس کے لئے سخت مضر ہیں۔ ورنہ خوفِ الٰہی ‘ خوفِ آخرت کا اِدّعا‘ فریبِ نفس ہے۔ شیطانی چال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نافرمانی کی علت یہ بیان فرماتے ہیں۔ بَلْ لَّایَخَافُوْنَ الْاٰخِرَۃَ (سورہ المدثر: 53) بلکہ ان کے دل میں انجامِ آخرت کا ڈر نہیں۔) بلاشبہ ایمان باللہ کا پہلا اثر خوفِ الٰہی ہے۔

۲)حمد و شکر

یہ جذبہ اللہ تعالیٰ کے انعامات میں غور و فکر سے اور ان کی یاد سے پیدا ہوتا ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ حق تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اس کی زندگی باقی رکھنے کے لئے زندگی کا تمام سامان پیدا کیا۔ان سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے دل و دماغ‘ دیکھنے سننے کی قوت عطا فرمائی۔ سب سے بڑا انعام یہ کہ ایمان عطا کیا اور دین کا صحیح فہم۔ یہ تمام اللہ جل شانہٗ کے احسانات ہیں۔ اس لئے وہی مستحقِ شکر ہیں کیونکہ جو نعمت بھی انسان کے پاس ہے حق تعالیٰ کی عطا کی ہوئی ہے۔ وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ (النحل: 53) ترجمہ: (جونعمت بھی تمہارے پاس ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے۔) تمام ظاہری و باطنی نعمتیں عطا فرماکر اتمامِ نعمت فرمایا۔ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّبَاطِنَۃً۝۰ۭ (سورہ لقمان: 20) اور تم پر ظاہری و باطنی نعمتیں پوری کررکھی ہیں۔) اس لئے حکم یہی ہے کہ وَّاشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاہُ تَعْبُدُوْنَ۝۱۱۴ (سورہ النحل: 114) ترجمہ: (اور اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرو اگر تم اللہ ہی کے بندے ہو۔) شکر تین باتوں سے پورا ہوتا ہے (۱)ہر نعمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھنا (۲)نعمت کو اسی مقصد کے لئے استعمال کرنا جس مقصد کے لئے نعمت دی گئی ہے (۳)منعم کی حمد و ثناء کرتے رہنا۔

زندگی گزارنے کے سامان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استعمال نہ کیا جائے تو یہ کفرانِ نعمت ہے۔ غور کیا جائے تو زندگی کی ہر سانس‘ ہر حرکت‘ ہر سکون ایک نعمت ہے۔ ان بے حد و حساب نعمتوں کا شمار نہیں ہوسکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان‘ کیا شکر ادا کرسکتا ہے۔ حق تعالیٰ کابڑا فضل و احسان ہے کہ اس اعترافِ عجز ہی کو وہ شکر قرار دیتے ہیں۔ اپنے کاروبار میں مؤمن حق تعالیٰ کی نعمتوں کو جس قدر ملحوظ رکھے گا‘ اسی قدر وہ اللہ جل شانہٗ کا شکر ادا کرتا رہے گا۔ دین کے حکموں پر پورا پورا عمل کرنا‘ دین کی نعمت کاشکر ادا کرنا ہے۔ نعمت‘ انسان کی نظر میں جتنی اہم ہوگی اتنی ہی اس کی مسرت اور قدر زیادہ ہوگی اور منعم کا شکر بھی زیادہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ دین و ایمان کی نعمت پر جس قدر شکر کیا جاتا ہے اسی قدر دین و ایمان میں پختگی و استحکام ہوتا ہے۔ آیت ذیل میں خصوصیت سے اسی سنتِ الٰہی کی طرف اشارہ ہے۔ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (سورہ ابراہیم: 7) ترجمہ: (اگر تم شکر کرو تو ہم ضرور (ایمان) زیادہ کریں گے۔) اس بشارت میں سب سے زیادہ مسرت کی بات یہ ہے کہ نعمت بڑھانے کے وعدہ کے بعد نعمت زائل ہونے کا احتمال نہیں رہتا۔ اس طرح خاتمہ بالخیر ہونے کے بارے میں قلب کو اطمینان حاصل رہتا ہے۔ شکر سے حق تعالیٰ خوش ہوتے ہیں ’’وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ ط‘‘ (سورہ الزمر: 7) دینِ حق نازل فرماکر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بڑا احسان فرمایا ہے۔ لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝۱۶۴ (سورہ اٰل عمران) ترجمہ: (بے شک اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر بڑا ہی احسان کیا ہے جب کہ اُن میں اُن ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہیں اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن کا تزکیۂ نفس کرتے ہیں، اُن کے غلط عقائد کی اصلاح کرتے ہیں اور انہیں کتاب اللہ کی تعلیم دیتے اور دانائی سکھاتے ہیں اور وہ رسول کے آنے سے قبل سراسر گمراہی میں تھے۔) اس لئے شکر و احسان کے جذبہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ہدایتوں پر عمل ہوگا تو دین و ایمان میں شوق و لذت محسوس ہوگی ورنہ دین ایک بوجھ معلوم ہوگا۔ انسان کی زندگی دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا راحت یا مصیبت‘ اب دین و ایمان کی سلامتی اور ترقی اسی میں ہے کہ راحت کا زمانہ شکر میں اور مصیبت کا زمانہ صبر میں گزارا جائے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے ’’الایمان نصفان نصف شکر و نصف صبر‘‘ (حدیث) ایمان کے دو حصہ ہیں نصف شکر کرنے میں ہے اور نصف صبر کرنے میں۔) گویا شکر و صبر کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ انسان کی فطرت کمال کی طالب ہے اور اللہ جل شانہٗ کی یہی مرضی ہے کہ بندۂ مؤمن کامل الایمان ہوجائے۔ اس لئے راحت و مصیبت کی ساعتیں اس پر گزرتی رہتی ہیں تاکہ بندہ کمال ایمان کا مقام حاصل کرے۔

۳)صبر و رضاء بالقضاء

دین پر قائم رہنے اور اس کی اشاعت کی جدوجہد میں جو تکلیفیں پہنچتی ہیں ان کو برداشت کرنا‘ ان پر ثابت قدم رہنا صبر ہے۔ نیز حق تعالیٰ کی جن نعمتوں میں ہم پرورش پارہے ہیں جن سے ہم استفادہ کررہے ہیں کبھی وہ نعمتیں امتحان کے لئے اور کبھی آخرت سے جو غفلت ہوجاتی ہے اس کو دور کرنے کے لئے یا ہمارے گناہوں کی وجہ سے وہ نعمتیں ہم سے چھین لی جاتی ہیں۔ یہ بھی مصیبت ہے اس کو باذنِ الٰہی (امتحان و آزمائش) سمجھ کر برداشت کرنا صبر ہے۔ اس زندگی میں حق تعالیٰ کوئی نعمت چھین لیتے ہیں تو آخرت کی زندگی میں اس کا بے حساب بدل عطا فرماتے ہیں۔ اس بدل پر جب ہماری نظر ہو تو صبر آسان ہوجاتا ہے۔ صبر میں بھی تین باتیں ضروری ہیں۔ (۱)ایمان والوں کی آزمائش کے لئے جو مصیبت (نقصان ہو) تو اس کو من اللہ سمجھنا‘ خواہ وہ کسی صورت سے پہنچے (۲)یہ سمجھ کر کہ اس میں میرے لئے کوئی بھلائی ہوگی جسے میں سمجھ نہیں سکتا، شکوہ و شکایت نہ کرنا (۳)مصیبت کو اپنے لئے موجب خیر سمجھ کر برداشت کرنا۔

توضیح: مصیبت دفع ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا اور اُس کو دور ہونے کی شرعی تدبیر کرنا صبر کے منافی نہیں ہے۔ البتہ مصیبت سے حیرانی و بدحواسی نہ ہو اس کے دور کرنے کے لئے ناجائز طریقہ نہ اختیار کئے جائیں، جائز تدبیریں نہ بن پڑ سکیں تو قلب میں شکایت و اعتراض نہ ہو، دعا و تدبیر کرنے میں تو اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہی پر عمل رہے۔ اس لئے یہ عبادت کی تعریف میں داخل ہے جس کا اجر آخرت میں ملنا یقینی ہے۔ (انشاء اللہ عزّ و جل)

ایمان لانے کے بعد بسا اوقات مصیبت ضرور نازل ہوتی ہے۔ بشرطیکہ ایمان حقیقی ہو اور سمجھ کر اختیار کیا گیا ہو۔ یہ مصیبت امتحان کے لئے ہوتی ہے۔ اللہ بزرگ و برتر کو رب تسلیم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہمارے لئے ہمہ خیر ہیں۔ رب اسی کو کہتے ہیں جس کے پیش نظر مربوب کی صلاح و خیر ہو اور حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیش نظر اپنے بندوں کی خیر و فلاح ہی ہے۔ یہ ایمانی کیفیت قلب میں کس حد تک راسخ ہوئی ہے، اس کو حق تعالیٰ جانتے ہیں مگر انسان نہیں جانتا۔ نیز ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی محبت دل سے نکل جائے اس لئے دنیا کی محبوب چیزوں کو چھین لینے سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ہم میں کس حد تک حُبِّدنیا کے مہلک امراض کا ازالہ ہوا ہے اور کس حد تک نہیں ہوا۔ یعنی انسان کو اس کے قلب کی کمزوری سے مطلع کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ مصائب نازل فرماتے ہیں تاکہ مومن اپنی کمزوری سے آگاہ ہو کر اصلاحِ حال کی طرف توجہ کرے۔ انسان کی کمزوری یہی ہے کہ اللہ جل شانہٗ کو رب تسلیم کرنے اور آخرت کی زندگی کو مقصود بنانے کے باوجود جب زندگی کے واقعات انسان کی مرضی کے خلاف پیش آتے ہیں تو وہ ان پر معترض ہوتا ہے‘ چیں بہ جبیں ہوتا ہے‘ شکوہ و شکایت کرتا ہے کہ ’’ایسا کیوں ہوا‘ یہ نہ ہونا چاہئے تھا‘ یوں ہوتا تو بہتر ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ ایسے خیالات و اعتراضات‘ اقرارِ ربوبیت کے منافی ہیں، اس لئے قلب کی اس باطنی کمزوری کو دور کرنے کے لئے جان‘ مال‘ بھوک‘ پیاس اور دیگر نقصانات سے اللہ جل شانہٗ آزماتے ہیں۔ اس امتحان کے موقع پر ہر مومن کو چاہئے کہ ان مصائب کو برداشت کرے یعنی صبر کرے۔ ان کو من اللہ سمجھے‘ اپنے لئے خیر سمجھے‘ ان کے نازل ہونے اور دفع نہ ہونے پر نہ معترض ہو نہ حیران و پریشان اور نہ شکوہ و شکایت کرے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے۔ خصوصاً اہلِ باطل کی جانب سے اشاعتِ حق کے سلسلہ میں اہلِ حق کو جان و مال کی تکالیف پہنچتی رہتی ہیں۔ یہ بھی دراصل اللہ جل شانہٗ ہی کی طرف سے ایک امتحان ہے اس امتحانی دور میں اگر مومن کی زندگی ختم ہوجائے تو اس کو شہادت کا درجہ عطا کیا جاتا ہے اور اگر یہ دور کامیابی سے گزر جائے تو بندۂ مومن دنیا و آخرت میں عام و خاص رحمتوں کا مستحق ہوجاتا ہے اور اس کو ہدایت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے کی بشارت دی جاتی ہے۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۵ۙ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ۝۰ۣ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُہْتَدُوْنَ۝۱۵۷ (سورہ البقرہ) ترجمہ: (اور ہم ضرور تمہارا امتحان لیں گے کسی قدر خوف سے اور فاقہ سے اور مال اور جان اور پھلوں کی کمی سے اور آپؐ ایسے صابرین کو بشارت سنادیجئے جن پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس جانے والے ہیں (ان لوگوں پر ان کے رب کی طرف سے خاص رحمت بھی ہوگی اور عام رحمت بھی۔) یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔) کیا فضل و کرم ہے کہ صبر کے ساتھ جان دے دی تو شہادت کا درجہ پایا اور صبر کے ساتھ زندہ رہے تو ہدایت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے اور خاص و عام رحمت کا مستحق ہونے کی بشارت ملی۔ وَقِیْلَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (سورہ الزمر: 75)۔ مؤمن کے لئے صبر کے مختلف مواقع ہیں مثلاً

(۱)اہل باطل پر بالعموم دنیا کشادہ نظر آتی ہے جسے دیکھ کر مومن کے دل میں گرانی پیدا ہوتی ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ ہم تو اللہ جل شانہٗ کو اپنا رب و الٰہ واحد مانتے ہیں۔ اپنی وسعت کی حد تک ان کی بندگی کرتے ہیں مگر دنیا ہم پر کشادہ نہیں ہے یہاں صبر کا پہلو یہ ہے کہ اسلام لانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہم نے آخرت کے نفع کو دنیا کے نفع پر ترجیح دی ہے۔ ہمارا مطلوب آخرت ہے دنیا نہیں ہے۔ اب اگر دنیا تنگ ہے تو یقینا دنیاکشادہ ہونے میں ہماری آخرت کا ضرر ہے۔ یہ حکمتِ الٰہی واضح ہونے کے بعد اہلِ باطل کو اپنے مقابلہ میں خوش حال دیکھ کر قلب میں حزن و ملال پیدا نہ ہوگا اور صبر آسان تر ہوجائے گا۔ چونکہ اس ادراک سے ایمان میں قوت پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے مصیبت میں بھی شکر پیدا ہوجائے گا۔ اور الحمد للہ علی کل حال کا مقام حاصل ہوگا۔

(۲)دین و ایمان کی حفاظت اور حق کی اشاعت کے سلسلہ میں لوگوں کی بدگوئی و بد اخلاقی‘ ترش روئی‘ لعن و طعن کو بہ طیبِ خاطر برداشت کرے اور اپنا فرض انجام دیتا رہے۔  

(۳)دین و ایمان کی حفاظت یا حق کی اشاعت کے سلسلہ میں اگر ترک وطن پر مجبور ہو تو سفر وغیرہ کی تمام تکلیفوں کو خوشی خوشی گورا کرے۔

ہدایت کی بلند منزلیں طے کرنے کے لئے شکر و صبر دو راہیں ہیں اور ایمان کا بلند درجہ یہ ہے کہ ہر تکلیف میں صبر کا پہلو نکال کر شکر میں مشغول رہے۔

صبر کے فائدے

۱)اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کی مدد فرماتے ہیں۔ ’’ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ‘‘ یعنی مشکلیں آسان کردی جاتی ہیں۔

۲)صبر کرنے والے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتے ہیں۔ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَمطلب یہ ہے کہ خوف و حزن میں مبتلا نہیں رکھتے، مصیبت میں بھی سکون و طمانیت عطا کرتے ہیں یا مصیبت دفع ہونے کے سامان پیدا فرمادیتے ہیں۔ ان آیات میں یہ اشارہ بھی ہے کہ مؤمن پر مصیبتوں کا آنا اس کے محبوبِ حق ہونے کی خاص علامت ہے جیسا کہ ارشاد نبویؐ ہے: ’’وان اللہ عزو جل اذا احب قومًا ابتلاھم‘‘ (ترمذی‘ ابن ماجہ) ترجمہ: (اللہ تعالیٰ جس کسی گروہ کو دوست رکھتا ہے تو اس کو آزماتا ہے۔)

۳)صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر عطا فرماتے ہیں۔ اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ (سورہ الزمر: 10) اس ارشاد میں یہ بشارت ہے کہ راہ حق میں مصیبت برداشت کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔

صبر کے علاوہ ایک اور مقام رضا بالقضا ہے وہ یہ ہے کہ رزق و عافیّت‘ مال و اولاد وغیرہ کی کمی‘ تنگی اور جان و مال کا نقصان جو اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کے تحت مقرر ہے اس سے ناراض نہ رہنا‘ عافیّت و صحت سے رہنے کی دعا و کوشش کے بعد اللہ تعالیٰ جس حال میں رکھیں خوش رہنا‘ طبعی طور پر تکلیف سے بے چین ہونا‘ آہ و اُف کرنا منافی رضا نہیں۔ جیسے کڑوی دوا پیتے وقت تکلیف ہوتی ہے مگر دل حکیم سے راضی رہتا ہے۔

۴)محبت

جہل کے باعث خود ساختہ معبودوں سے عقیدت و محبت رہتی ہے اور علمِ حق‘ ایمان باللہ کے بعد اللہ تعالیٰ سے گہری عقیدت و محبت قائم ہوجاتی ہے۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۝۰ۭ (سورہ البقرہ: 165) ترجمہ: (اور ایک آدمی وہ بھی ہیں جو خدا تعالیٰ کے سوا دوسروں کو بھی شریک خدائی قرار دیتے ہیں اور ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی اللہ سے اور جو مومن ہیں ان کو صرف اللہ سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔) نیز انسان کو فطرتاً اپنی جان سے محبت ہوتی ہے اس لئے ان تمام چیزوں کو محبوب رکھتا ہے جن پر اس کی زندگی کا دارومدار ہے۔ جیسے مال و دولت‘ بیوی بچے وغیرہ، ایمان کے بعد جب یہ حقیقت ذہن نشین ہوجاتی ہے کہ جانِ عزیز اور اس کے تعلق سے تمام محبوب و مرغوب چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کی ہوئی نعمتیں ہیں تو عطا کرنے والے سے محبت پیدا ہوجاتی ہے اور محبت کے باطل رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جان وہ مال و اولاد سے محبت باقی نہیں رہتی بلکہ اللہ سے شدید محبت رکھنے کا یہ اثر ہوتا ہے کہ مخلوق کی محبت اللہ تعالیٰ کے حکم و ہدایت کی بجا آوری میں رکاوٹ نہیں پیدا کرتی۔ اس کے بعد مال و اولاد وغیرہ کی محبت اور ان کی خدمت و حفاظت اس وجہ سے صحیح ہوجاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتیں ہیں) نفس کا ذاتی لگاؤ باقی نہیں رہتا۔

انسان فطرتاً اسی سے محبت کرتا ہے جو انسان کو بہت زیادہ چاہتا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ حق تعالیٰ اپنی مخلوقات میں انسان کو سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔ جس کی ایک علامت تو یہ ہے کہ تمام مخلوقات میں سب سے اچھی صورت انسان ہی کی بنائی۔ وَصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ۝۰ۚ (سورہ تعابن: 3)۔ دوسری علامت سب سے زیادہ چاہنے کی یہ ہے کہ انسان کے کھانے پینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان غذاؤں کا انتخاب فرمایا جو ذائقہ و بُو و فائدہ کے لحاظ سے سب سے بہتر ہیں۔ عمدہ قسم کے جانور‘ عمدہ قسم کے میوہ جات‘ عمدہ قسم کے نباتات‘ عمدہ قسم کے مشروبات وغیرہ بجز ان کے جو انسان کی صحت و اخلاق کے لئے مضر ہیں۔ فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰۠ (سورہ النحل: 114 اور المائدہ: 88) ترجمہ: (اللہ تعالیٰ نے تم کو جو رزق دیا ہے حلال و پاکیزہ اس سے تم کھاؤ۔) خود فطرتِ انسانی میں یہ لطافت ودیعت ہے کہ ناقص‘ خراب‘ بدذائقہ‘ بدبودار اور گھانس فضَہ کے قسم کی کوئی چیز انسان کو پسند نہیں ہے نیز انسان کو تمام مخلوق کے مقابلہ میں مکرم و صاحبِ عزت بنایا۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ (اسریٰ: 70) جس کی واضح علامت یہ ہے کہ تمام مخلوق انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۝۰ۤ (سورہ بقرہ: 29)۔ اور تمام مخلوق انسان کے لئے مستخر کردی گئی ہے اور انسان کو ان پر تصرف عطا کیا گیا ہے۔ اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ (سورہ لقمان: 20)۔ انسان ہی کو حکومت و سیاست کی قابلیت عطا فرمائی گئی ہے جو کسی مخلوق کو نہیں عطا کی گئی یعنی زمین کا خلیفہ جو تمام مخلوقات‘ اشیاء ہوں یا جانور پر فوقیت دی۔ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۝۰ۭ (سورہ بقرہ: 30) اور مکرم بنایاوَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا۝۷۰ۧ (سورہ اسریٰ) ترجمہ: (اور ہم نے بنی آدم کو عزّت بخشی اور اُن کو خشکی اور تری میں سواری عطا کی اور پاکیزہ روزی عنایت کی اور اپنی مخلوقات میں سے بہتوں پر اُن کو فضیلت دی۔) ان تمام خصوصی عنایتوں پر غور و فکر کرنے سے اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی جاتی ہے۔ (محبت کی مزید تشریح قرب و صدیقیت میں کی گئی ہے)

اللہ جل شانہٗ سے شدید محبت پیدا ہوجانے کا لازمی اثر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب رسول کریمﷺ سے بھی سب سے زیادہ محبت پیدا ہو۔ نیز رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی امت سے بہت محبت تھی۔ امت ہی کی خاطر دنیا کی ہر تکلیف آپؐ نے اپنے لئے گوارا فرمائی۔ (ملاحظہ ہو تمہیدی باب ’’معلمِ انسانیت) غرض سب سے زیادہ اللہ و رسولؐ سے محبت کئے بغیر دین و ایمان میں کوئی رنگ پیدا (نہیں ہوتا وہ رنگ‘ قرآن مجید میں جس کا نام صِبْغَۃُ اللّٰہِ (سورہ بقرہ: 138) ترجمہ: (ہم نے تو اللہ کا رنگ اختیار کرلیا ہے) اور نہ دین و ایمان میں کوئی لذت پیدا ہوتی ہے۔ ثلث من کن فیہ وجدبھن حلاوۃ الایمان من کان اللہ ورسولہٗ احب الیہ مما سوا ھما (الخ) ‘‘ (متفق علیہ) تین خصلتیں ہیں جن میں یہ ہوں اس نے ایمان کی لذّت پائی ایک یہ کہ اللہ و رسولؐ اس کے نزدیک جب تک دنیا ومافیہا سے زیادہ محبوب ہوجائیں۔) بعض لوگوں میں یہ غلط خیال پیدا ہوگیا ہے کہ شریعت الگ ہے اور محبت الگ ہے۔ جو کماحقہٗ دینی بصیرت نہ ہونے کی علامت ہے۔ حالانکہ محبت‘ شریعت ہی کا ایک ایسا جزو ہے کہ بقولِ اقبال ’’عشق (محبت) نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات‘‘ اور حافظ شیرازی کہتے ہیں کہ اگر اللہ و رسولؐ کی محبت نہ ہو تو دل مرضِ نفاق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

ہر کہ عاشق وش نباشد در نفاق افتادہ بود

۵)ذکر (یاد  و  توجہ)

اس کا تعلق دل سے ہے زبان و عمل سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ دل کی غفلت سے جو ذکر ہو وہ نہ حقیقت میں ذکر ہے او رنہ اس سے ذکر کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ جس سے اس کو محبت ہوتی ہے دل میں اسی کی یاد رہتی ہے۔ زبان پر اسی کا نام رہتا ہے اور اٹھتے بیٹھتے اسی کا ذکر کرتا رہتا ہے۔ حدیث شریف میں بھی انسان کی اس فطرت کو بتلایا گیا ہے۔ ’’من احب شیئًا اکثر ذکرہٗ‘‘ اس لئے اہلِ ایمان کو توجہ دلائی جارہی ہے کہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرو يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللہَ ذِكْرًا كَثِيْرًا۝۴۱ۙ (سورہ الاحزاب) ترجمہ: (اے ایمان والو کثرت سے اللہ کا ذکر کرو۔) کثرت سے ذکر کرنے کی توضیح یہ ہے کہ اٹھتے بیٹھتے‘ سوتے جاگتے اللہ ہی کی یاد (فکرِ آخرت) رہے۔ فَاذْكُرُوا اللہَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِكُمْ۝۰ۚ (سورہ النساء: 103) ترجمہ: (پس اللہ کا ذکر کرو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے بھی۔) ان ہدایتوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ’’بیٹھے رہو تصوّرِ جاناں کئے ہوئے‘‘ یہ باہم انسانی محبت کے اثرات ہیں۔ یعنی انسان کو کسی انسان سے محبت ہوجاتی ہے تو پھر کسی کام کاج میں اس کا جی نہیں لگتا اور وہ چاہتا ہے کہ میں محبوب کے تصور میں ہر وقت بیٹھا رہوں۔ اللہ اور بندے کی محبت ایسی نہیں ہوتی اللہ جل شانہٗ کی محبت میں گُم صُم رہنا نہیں ہے بلکہ ایک حرکت و بیداری ہے۔ ہر مشکل و حاجت میں اللہ کی طرف رجوع کرنا اور ہر موقع و محل کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا جو حکم و ہدایت ہے اس پر عمل کرنا‘ اللہ کو یاد رکھنا ہے۔ کتاب و سنتؐ میں ذکر الٰہی کی ایک جامع و متعین صورت نماز ہے فریضۂ نماز کی پابندی کی تاکید اس لئے ہے کہ بندگی کے فرائض سے غفلت نہ ہو بندہ سراپا دعا و سراپا اطاعت بنارہے وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ  (میری یاد قائم رہنے کے لئے نماز قائم کرو) میں ذکر کا یہی مطلب ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں اور بغور قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے تو ’’ذکر اللہ‘‘ کا یہی مفہوم واضح ہوتا ہے مختصر تشریح یہ ہے۔

ذکرِ الٰہی کا قرآنی مفہوم

ابدی حیاتِ بعد الموت کو ہر وقت پیشِ نظر رکھنا اور عذابِ نار سے محفوظ رہنے کی ممکنہ فکر کرنا‘ ابدی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی دھن‘ خوف آخرت و خشیتِ الٰہی‘ شکر و حمد الٰہی‘ مصائب میں ثابت قدمی‘ معاملات میں توکل‘ شبانہ روز خاص اوقات میں مسنون طریقہ پر بصورتِ نماز درِ ربّ پر جبیں سائی‘ بہرحال و بہر صورت بہ طیبِ خاطر مرضیٔ رب کی اتباع‘ جس میں حقوقِ نفس و حقوق والدین و اہل و عیال‘ ہمسایہ‘ دوست‘ احباب‘ یتیم‘ بیوہ‘ نادار‘ معذور‘ ضعیف‘ کمزور انسانوں کے حقوق کی پوری حفاظت ہے عام انسانوں کے ساتھ ہمدردی‘ تواضع و انکساری ہے۔ (دشمنانِ حق سے عناد ہے۔ جبر و استبداد‘ ظلم و زیادتی‘ بغض و حسد و کینہ‘ حبِ زر و مال کا استیصال ہے‘ اہل باطل سے حریفانہ کش مکش) علماً و عملاً دینِ حق کی بقاء و اشاعت‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ اعلائے کلمۃ الحق‘ بذوق و شوق جانی و مالی قربانی‘ یہ سب کچھ ذکرِ الٰہی کی تعریف میں داخل ہے۔ صحابہ کرام کی زندگیوں کو دیکھئے، خلوت‘ جلوت‘ گھر میں‘بازار میں‘ دوست احباب کی مجلسوں میں‘ راحتوں میں‘ مصیبتوں میں‘ مسجدوں میں‘ میدانِ جدال و قتال میں‘ کاروبار و معاملات میں‘ انہی صورتوں سے ذکرِ الٰہی جاری و ساری تھا۔ ان اصحاب کی زندگیوں میں ذکر الٰہی کے مروّجہ طور و طریق نظر نہیں آتے جو صدیوں سے دنیائے اسلام میں رائج ہیں۔

ایک بڑی غلط فہمی جس میں عوام و خواص دونوں مبتلا ہیں یہ ہے کہ اللہ و رسولؐ کی تعلیم کا مقصد یہ بتلایا جاتا ہے کہ انسان ہر وقت اللہ کی یاد میں محو رہے جو بالکل غلط ہے اور غیر اسلامی‘ غیر مذہبی اقوام کا نظریہ ہے۔ اسلام میں ذکرِ الٰہی بھی قرآنی و نبویؐ تعلیم کا جزو ہے اور قرآنی تعلیم اس لئے ہے کہ انسان فلاحِ دارین حاصل کرے۔ چنانچہ ذکر کے سلسلہ میں بھی اسی مقصد کو بیان کیا گیا ہے۔ وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۱۰ (سورہ جمعہ) ترجمہ: (اور تم کثرت سے اللہ کا ذکر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اصل مقصد فلاح دارین حاصل کرنا ہے اور دیگر ہدایتوں کی طرح ذکر کی ہدایت بھی اسی مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ مختصر یہ کہ حق تعالیٰ کے فضل و رحمت اور اللہ و رسول کی ہدایتوں کو اٹھتے‘ بیٹھتے‘ سوتے جاگتے‘ کھاتے پیتے ملحوظ رکھنا ہی ذکر اللہ ہے۔

ذکر کا فائدہ

فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ (سورہ البقرہ: 152) ترجمہ: (تم مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا۔) مطلب یہ کہ تم اپنے کاروبار میں جتنا میری طرف رجوع رہو گے، میرے فضل و رحمت کو ملحوظ رکھو گے، میرے حکم و ہدایتوں پر کاربند رہو گے اتنا ہی میں تمہاری مدد کرتا رہوں گا اور تمہارے عیوب پر تم کو مطلع کروں گا اور تم کو ان کے اصلاح کی توفیق دوں گا۔ اس طرح تم کو اصلاح کے بلند ترین مقام پر فائز کیا جائے گا۔

۶)توکل (اعتماد و بھروسہ)

اللہ تعالیٰ کی ہدایت و حکم کو دنیا و آخرت میں اپنے لئے موجبِ صلاح و خیر سمجھ کر بہرحال و بہرصورت ان کی پابندی کرنا توکل ہے۔ وَاتَّبِعْ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۝۲ۙ وَّتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ ۝۳ (سورہ احزاب) ترجمہ: (تمہارے رب کی طرف سے جو وحی کی گئی ہے اس کی پیروی کرو بے شک اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے باخبر ہے اور اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرو۔) یعنی ترک اسباب توکل نہیں ہے۔ بلکہ اسبابِ ظاہری و اختیاری کو احکامِ الٰہی کے مطابق کام میں لانا توکل ہے۔ جب کوئی حاجت یا ضرورت یا مشکل پیش آتی ہے تو اس وقت انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو اس کے پاس کماحقہٗ اسباب رہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اسباب نہیں رہتے۔ پہلی صورت میں شریعت کے حکم کے مطابق اسبابِ اختیاری سے کام لینا اور اس کے نتائج کو اللہ کے سپرد کردینا توکل ہے۔ دوسری صورت میں جبکہ اسباب ظاہری پورے نہ ہوں تو جتنے اسباب اختیار میں ہوں ان کو کام میں لائے اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد اور اپنی حالت اللہ کے سامنے پیش کردے اور حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ (سورہ اٰل عمران: 173) ترجمہ: (اللہ ہی ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بڑا ہی کارساز ہے) کہہ کر مطمئن ہوجائے۔ یہ نکتہ کبھی نہ بھولنا چاہئے کہ مقصود اصلی اخروی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانا ہے اور دینی اعمال اس کو بہتر بنانے کے ذرائع ہیں خواہ اس عالم میں نتائج‘ انسان کی مرضی کے مطابق ہوں یا اس کے خلاف ہوں۔ جزائے اخرت تو قطعی و یقینی ہے اس لئے اس عالم کے نتائج کے خیال سے قلبِ مومن میں کوئی حیرانی و پریشانی پیدا نہیں ہوتی۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی محافظ و نگہبان ہیں‘ کارساز و کارفرما ہیں‘ مشکلات کو وہی آسان کرنے والے ہیں‘ انسان صرف سعی و عمل کرتا ہے۔ اس کے نتائج حق تعالیٰ پیدا کرتے ہیں۔ پس نتائج جو کچھ پیدا ہوتے ہیں عارضی ہوں کہ ابدی وہ صرف سعی و تدبیر سے نہیں پیداہوتے بلکہ محنت و عمل کے بعد اللہ تعالیٰ نتائج پیدا کرتے ہیں پس اعتماد و بھروسہ کے قابل اللہ تعالیٰ ہی ہیں نہ کہ سعی و تدبیر یا اور اسباب اس لئے اہل ایمان کا وصف ہے وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنِوْنَ (سورہ اٰل عمران: 160) ترجمہ: (مؤمنین اللہ ہی پر توکل کرتے ہیں۔) یعنی ان کو اللہ تعالیٰ پر اتنا اعتماد ہوتا ہے کہ وہ ہر موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل اور اللہ کی مرضی کی اتباع و اطاعت کرنے ہی میں اپنی بھلائی دیکھتے ہیں۔ توکل کے بعد حق تعالیٰ کافی ہوجاتے ہیں۔ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ‘‘ (سورہ اطلاق: 3)۔ کافی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ اپنے فضل سے مشکل آسان کردیں گے۔ حاجت و ضرورت پوری ہونے کا انتظام فرمادیں گے۔ یا ضرورت و حاجت پوری نہ ہو تو قلبِ مؤمن کو حزن و غم میں مبتلا نہ ہونے دیں گے اور اگر نتائج منشاء کے مطابق برآمد ہوں گے تو شکر کی توفیق عطا فرمائیں گے‘ توکل صحیح ہونے کی علامت یہ ہے کہ کوئی تدبیر یا دعا کرتے وقت یہ حقیقت ملحوظ رہے کہ ہوگا تو وہی جو اللہ تعالیٰ چاہیں گے اور جو اللہ چاہیں گے وہی ہمارے لئے خیر ہے اور نتائج کی طرف سے تردد دامنگیر نہ رہے۔

۷)دعا‘ طلب امداد

دعا کے معنی ہیں اپنے مشکل کشا و حاجت روا کو مدد کے لئے پکارنا‘ اپنے حاجت روا سے اپنی حاجت و مشکل کو نہایت ادب و عاجزی و قلبی اضطراب کے ساتھ عرض کرنا‘ اس سے اپنا مطلوب و مقصود طلب کرنا جو عبد و رب کے قلبی و حُبّی تعلق کی علامت ہے۔ اقرارِ ربوبیت ہی کی ایک عملی شکل ہے جو عینِ عبادت ہے۔ رسول کریمﷺ کاارشاد ہے۔ ’’الدعا ھوا العبادۃ‘‘ (دعا ہی عبادت ہے)۔ ایک اور ارشاد ہے۔ ’’الدعاء مخ العبادۃ‘‘ (دعا مغز عبادت ہے۔)یعنی بندگی یہی ہے کہ بندہ سراپا دعا بنا رہے۔ دعا‘ بندگی و محتاجی کا شعور بیدار رکھنے کا ایک موثر طریقہ ہے۔ مخلوق کا بے فیض و بے اثر ہونا جس قدر واضح ہوتا جائے گا اس قدر اللہ تعالیٰ سے مانگ و سوال کا تعلق گہرا ہوگا۔ شرور و آفات سے محفوظ رہنے کے لئے دعا ہی مؤمن کابہترین حربہ ہے۔ اس لئے رسول کریمﷺ فرماتے ہیں۔ ’’الدعا سلاح المؤمن‘‘ (دعا مومن کا ہتھیار ہے۔) کائنات میں جو حرکت و تغیر ہے اور حرکت و تغیر کے بعد جو آـثار و خواص ظاہر ہوتے ہیں وہ سب اذن و ارادۂ الٰہی سے ہوتے ہیں۔ اس لئے استعمال اسباب کے بعد مدد کے لئے حق تعالیٰ سے دعا کرنا نہ صرف شعارِ بندگی ہے بلکہ ایک ایسا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بندے کو باعزت بناتا ہے۔ ’’وما من شیٔ اکرم علی اللہ من الدعاء‘‘ (حدیث ادب المفرد۔ بخاری و ترمذی) ترجمہ: (اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیز دعا سے زیادہ عزت والی نہیں۔) اسی طرح حصول مغفرت کے جو الٰہی ذرائع ہیں (ایمان و عمل صالح) ان کو اختیار کرنے کے بعد دعائے مغفرت ضروری ہے۔ کیونکہ بندے کا کوئی عمل نقص و خامی سے پاک نہیں ہوسکتا‘ انسان کے ساتھ خطا و نسیان لگے ہوئے ہیں۔ اس لئے ایمان و عمل‘ قبول ہونے کے لئے دعا کرنا لازمی ہے صرف ایمان و عمل پر بھروسہ نہ کرنا چاہئے۔ یہی شیوۂ بندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں سیدنا ابراہیمؑ اور اسماعیل ؑ کا اسوۂ بیان فرمائے ہیں وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ۝۰ۭ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۱۲۷ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّكَ۝۰۠ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا۝۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۱۲۸ (سورہ البقرہ) ترجمہ: (اور جس وقت ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اس گھر کی (تعمیر کررہے تھے) دیواریں بلند کررہے تھے (ان کی دعا یہ تھی) اے ہمارے رب ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بے شک آپ ہی (دعاؤں کے) سننے والے (اور ہماری دلی تمناؤں کو) جاننے والے ہیں۔ اے ہمارے رب (پیدا کرنے والے) پروردگار ہم کو اپنا اطاعت گزار بندے بنا لیجئے۔ نہ صرف ہم کو بلکہ ہماری نسلوں کو بھی ایسی امت بنایئے جو آپ ہی کی فرمانبردار ہو اور ہم کو اس گھر کی زیارت کے آداب (یعنی مناسکِ حج و عبادات کے طریقے) بتادیجئے اور ہمارے حال پر ہمیشہ توجہ فرماتے رہیئے۔ بے شک آپ بڑے ہی معاف کرنے والے اور بڑے ہی توبہ قبول کرنے والے رحیم ہیں۔) دعا کے قرآنی آداب یہ ہیں۔

(۱)وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝۰ۭ (سورہ الاعراف: 56) ترجمہ: (اور اس سے دعا کرو ڈرتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے۔) ڈر یہ کہ کہیں یہ معروضہ‘ مرضیٔ رب کے خلاف تو نہیں‘ کوئی گستاخی تو نہیں اور امید یہ کہ حق تعالیٰ دعا یقینی قبول کرتے ہیں۔ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۝۰ۭ (سورہ المؤمن: 60) ترجمہ: (مجھ سے دعا کرو میں قبول کرتا ہوں۔)

(۲)اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً۝۰ۭ (سورہ الاعراف: 55) ترجمہ: (اپنے رب سے دعا کرو عاجزی سے اور آہستہ۔) یعنی دعا میں تضرع زاری ہو عاجزی و مِنت ہو۔ اجابتِ دعا (مقبولیتِ دعا) کے متعلق ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم جو دعا کریں، جو مانگیں وہی مل جائے حالانکہ حق تعالیٰ حکیم و علیم ہیں اور بندہ نہیں جانتا کہ کس چیز میں اس کا حقیقی نفع و ضرر ہے۔ ضروریات و خواہشات سے مجبور ہوکر بندہ دعا کرتا ہے۔ اللہ علیم و حکیم‘ بندہ کے نفع و ضرر کے لحاظ سے اس کو فوری یا بدیر قبول کرتے ہیں۔ لہٰذا اجابتِ دعا (مقبولیتِ دعا) کے معنی یہ ہیں کہ اگر دعا میں دنیوی یا دینی ضرر نہ ہو تو بعینہٖ فوری یا بدیر قبول کی جائے گی اس معنی میں بندۂ مومن کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ خصوصاً مغفرت اور نفعِ آخرت کی ہر دعا فوراً قبول ہوجاتی ہے۔ غرض کاروبار و معاملات زندگی میں دعا کی توفیق اور اجابتِ دعا (رب سے جڑنا) کا صحیح مفہوم ایک خاص نعمتِ الٰہی ہے جو ہر مانگنے والے کو عطا کی جاتی ہے۔

اللہ جل شانہٗ کو حاجت روا‘ کارساز و مستعان تسلیم کرنے کے بعد ممکن نہیں کہ مومن اللہ کے سوا کسی اور کے آگے اپنی حاجتیں پیش کرے‘ مشکلات میں‘ مصائب میں مدد کے لئے کسی اور کو پکارے‘ کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلائے‘ عاجزی و ذلّت کااظہار کرے، بزرگانِ دین نے بھی جس سے منع کیا، اس کے برخلاف بزرگوں کو مشکل کشا و کارساز سمجھ کر ان کو مدد کے لئے پکارنا ان سے محبت نہیں دشمنی ہے۔ ان کا احترام نہیں‘ ان کی تعلیم کی تحقیر ہے جو اللہ کا ولی ہے وہ ہرگز ایسی مشرکانہ تعلیم نہیں دے سکتا۔ اللہ جل شانہٗ اس آیت کریمہ: وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ (سورہ بقرہ: 186) ترجمہ: (جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (کہہ دیجئے) کہ میں قریب ہوں اور دعا کرنے والے کی دعا سنتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کریں۔) میں اللہ تعالیٰ اپنے قریب ہونے کا علم اس لئے دے رہے ہیں کہ ان کے حاجت مند بندے اپنی حاجتوں میں ان ہی سے مدد مانگیں مگر افسوس کہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا علم دینے کی غرض و غایت کو بھول کر لوگ اس چکر میں پھنس گئے کہ اللہ تعالیٰ کیسے قریب ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر در کو درِ جاناں سمجھ کر اسی پر سر رکھ دیا۔ معلمِ حکمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے کہ ’’جب تم سوال کرو تو اللہ ہی سے سوال کرو اور جب مدد مانگو تو اللہ ہی سے مدد مانگو۔‘‘

۸)اطاعتِ حق

خوف و رجا‘ شکر‘ صبر و رضا‘ محبت‘ ذکر‘ توکل‘ دعا (تعلق باللہ) کا لازمی قدرتی اثر اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ باطل شکن اطاعت ہے اسی سے ایمان باللہ‘ تعلق باللہ میں پختگی پیدا ہوتی ہے اس لئے حکم دیا گیا۔ وَاَطِیْعُوااللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (سورہ الانفال: 1) ترجمہ: (اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔) یہی وہ اسلام ہے جو عنداللہ مقبول ہے جس کے بعد ذلت نہیں عزت ہے‘ پستی نہیں سربلندی ہے‘ حیرانی و پریشانی نہیں سکون و اطمینان ہے۔ دینِ اسلام اختیار کرنے کی غرض یہی ہے کہ زندگی سراپا بندگی ہوجائے اور مغفرت و جنت پاسکیں۔ اگر ماحول اس کے خلاف ہو تو قلب‘ ماحول سے راضی نہ رہے اور حتی المقدور ماحول کے خلاف قولاً و فعلاً جدوجہد جاری رہے اگر باطل ماحول سے چاہے وہ گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو‘ کراہیّت اور قلبی مخالفت نہ ہو تو یہ ایمان کا ایسا نقص ہے جو خطرہ سے خالی نہیں، صحتِ ایمانی کے بعد زندگی سرتاپا بندگی ہوجانے کے لئے دینِ فطرت میں چار بنیادی عمل ہیں۔ نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ‘ حج مگر شعورِ بندگی قائم رکھنے کے لئے ان تمام اعمال میں نماز ہی ایک ایسا عمل ہے جو امیر و غریب‘ مرد و عورت‘ غلام و آزاد سب کے لئے یکساں طور پر ضروری ہے۔ زکوٰۃ‘ روزہ‘ حج کی طرح نماز دولت یا مخصوص مہینے و حالات پر مشروط نہیں ہے بلکہ کلمۂ طیبہ کے ذریعہ بندگی کاجو علم بخشا گیا ہے، نماز اس کی عملی مشق ہے۔ اسی لئے رسول اللہﷺنے خاص طور پر اس کی تعلیم دی ہے اور اس کے خیر و برکت بیان فرمائے۔ صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں یہی عمل نمایاں نظر آتا ہے۔ یہی وہ ذکر ہے‘ یہی وہ عمل ہے جس سے تزکیۂ نفس بھی ہوتا ہے اور تطہیر قلب بھی‘ عبد و رب کا تعلق نماز ہی کے ذریعہ قائم رہ سکتا ہے، تزکیۂ نفس کے لئے نماز کے بجائے دوسرے اشغال اور طریقوں کو اختیار کرنے کے معنی یہ ہیں کہ رسول اکرمﷺ اور صحابہؓ نے جو اہمیت نماز کو دی ہے اس کی کوئی وقعت ہماری نظر میں نہیں۔ معلم کتاب صلی اللہ علیہ وسلم یہ تعلیم دے رہے ہیں۔ ’’واعلموا ان خیر اعمالکم الصلوٰۃ‘‘ (احمد‘ ابن ماجہ) ترجمہ: (یقین رکھو کہ تمہارے اعمال میں بہتر عمل نماز ہی ہے۔) ’’الصلوٰۃ نور‘‘ (مسلم) ترجمہ: (نماز نور ہے) ’’الصلوٰۃ معراج المؤمنین‘‘ (نماز ایمان والوں کی معراج ہے۔) اس مسنون عمل کے بجائے دوسرے غیر مسنون اعمال و اشغال کو اہمیت دینا عیاذاً باللہ‘ رسالت کو ناقص سمجھنا ہے۔ ان چار بنیادی اعمال کو زندگی کی تعمیر سے جو ربط و مناسبت ہے وہ مختصراً عرض ہے۔

i) نماز

پاک و صاف ہو کر نیت صحیح کی جاتی ہے اور پختہ عزم کے ساتھ اپنے رب کے حضور میں فقیرانہ و عاجزانہ طریقہ سے حاضر ہوکر بندگی کا اقرار کیا جاتا ہے۔ پیمانِ عبدیت کی تجدید کی جاتی ہے۔ عرض کرتے ہیں کہ ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں۔ بغیر کسی توسط و ذریعہ کے آپ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اپنی ہر قسم کی فلاح میں آپ ہی کی توجہ و دستگیری کے محتاج ہیں۔ استدعا کرتے ہیں کہ اس صراط مستقیم پر ہم کو چلایئے۔ جس کی منزل‘ فردوس بریں ہے۔ وہی آپ کی ابدی خوشنودی و رضا کا مقام ہے۔ اپنے ان بندوں کی اتباع و تقلید کی توفیق دیجئے، جن کو آپ نے خاص انعاموں سے سرفراز فرمایا ہے۔ دین و ایمان پر استقامت ایمان میں صدق‘ قرآنی بصیرت‘ ایمانی جرأت و فراست‘ اللہ تعالیٰ و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت‘ ان کی اطاعت و فرمانبرداری‘ اہلِ حق سے محبت‘ حق کے مخالفین سے بغض‘ نیکیوں کی رغبت‘ برائیوں سے نفرت‘ حق پر قائم رہنے اور دینِ حق قائم کرنے کے لئے دنیا کا ہر نقصان گوارا کرنے کی ہمت‘ نیکیوں کی اشاعت اور برائیوں کو مٹانے کا عزم و حوصلہ‘ مصیبتوں میں صبر و رضاء‘ مرضی کے مطابق باتوں میں شکر‘ کاروبار میں توکل‘ ہر مشکل و حاجت میں اللہ تعالیٰ ہی سے دعا و استعانت‘ گناہ و لغزش میں توبہ وہ انابت‘ مخلوق سے بے خوفی و ناامیدی اور آپ ہی سے خوف و امید‘ ہر حرکت و سکون میں آپ ہی کے فضل و رحمت پر نظر‘ اس عالم میں یہی آپ کے خصوصی انعام ہیں۔ التجا ہے کہ اس خصوصی انعام سے ہم کو بھی سرفراز فرمایئے اور اس طرح سرفراز فرمایئے جیسا کہ وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ۝۰ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا۝۶۹ۭ (سورہ النساء: 69) ترجمہ: (جو لوگ اللہ اور رسول کی تعلیم و ہدایت کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں وہ قیامت کے دن اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا (وہ فضل و انعام پانے والے) نبیٖین‘ صدیقین اور شہداء و صالحین میں سے ہوں گے اور کیا ہی اچھا ہے اُن اصحاب کی رفاقت اور کیسے اچھے ہیں اُن کے رفیق)کہ پھر ہم آپ کے غضب کے مورد نہ ہوں اور نہ گمراہ‘ سرافگندہ ہو کر عبدیت و بندگی کا والہانہ اظہار کرتے ہیں اور اپنے معروضہ کی مقبولیت کا پروانہ لے کر ہی اٹھنے کی امید رکھتے ہیں۔ بندگیٔ رب کے دو اجزاء ہیں رب ہی سے استعانت اور رب ہی کی عبادت‘ نماز میں دونوں کی مشق ہے۔

نماز‘ بارگاہِ رب العزت میں حاضر ہو کر صلاح و خیر و فلاح کی ایک مودبانہ درخواست و استدعاء ہے‘ رحمن و رحیم سے رحمت عام و خاص کی طلب ہے۔ مالکِ یوم الدین سے نجات و مغفرت کی استدعا ہے‘ ہدایت دینے والے سے بندگی کے عہد و پیمان پر قائم اور سرکشی و گمراہی سے محفوظ رکھنے کا معروضہ ہے ایک فقیر بے نوا اپنے داتا کے سامنے سرنگوں ہوکر بھیک مانگتا ہے۔ اس ادراک و دانش سے جو نماز پڑھی جائے گی اس میں خشوع بھی ہوگا حضور قلب بھی۔ ایسی ہی نماز سے فکر و عمل کی گندگی دور ہوتی ہے۔ بندگی کا شعور قائم رہتا ہے اور بندگی کے اعلیٰ مدارج حاصل کرنے کی قابلیت پیدا ہوتی ہے۔ نماز میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا استحضار ہے، اپنی محتاجی و بندگی اور انجامِ آخرت پیشِ نظر ہے۔ ان ہی باتوں سے نفس کا تزکیہ ہوتا ہے اور زندگی کے تمام تعلقات میں اللہ او رسول کی اطاعت کا والہانہ جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

ii) زکوٰۃ

روپے پیسے سے انسان کی اکثر ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ روپیہ عموماً انسان کے گاڑے پسینے کی کمائی ہوتی ہے۔ اس لئے اس کی محبت انسان کے دل و دماغ پر غالب رہتی ہے۔ اس کاہاتھ سے نکلنا گوارہ نہیں ہوتا۔ اس کی محبت‘ حقوق ادا کرنے سے روکتی ہے لیکن کوئی بہتر اور نہایت نفع بخش مطلوب و مقصود اس کے بدلے میں اگر حاصل ہوتا ہو تو انسان اس متاعِ عزیز کو بھی خوش دلی سے خرچ کردیتا ہے چونکہ مومن کا مقصود آخرت کی ابدی بھلائی اور آخرت کے درجے ہوتے ہیں، اس لئے اس کو زر و مال کا ایک مقررہ شرعی حصہ خرچ کرنے میں ذرا دریغ نہیں ہوتا۔ یہ حقیقتاً خرچ نہیں نفع کے ساتھ جمع ہے۔ زکوٰۃ سے حبِ مال‘ نمود و شہرت‘ دوسروں پر احسان جتانا‘ جیسے مہلک جراثیم سے قلب پاک ہوجاتا ہے۔ دیگر نفل صدقات کا منشاء بھی یہی ہے۔ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی (سورہ اللیل: 18) ترجمہ: (وہ جس نے اپنا مال تزکیۂ نفس (گناہوں سے پاک ہونے) کے لئے دیا)

اگر چہ زکوٰۃ و صدقات کا اسلامی‘ فطری نظام ہی بے روزگاری اور مزدور و سرمایہ دار کی کش مکش کا واحد قدرتی علاج ہے لیکن خرچ کرنے والوں کی نیت صرف اپنے نفس کا تزکیہ ہو۔

iii) روزہ

نفس پر قابو رکھنے کی خاص مشق کا نام ہے جس میں کھانے پینے کے اوقات میں تبدیلی ہوتی ہے۔ دن کے بجائے‘ کھانے پینے کے لئے رات کا وقت شریعت اللہ کے حم اور سنتِّ رسولؐ کی طرف سے مقرر ہے۔ جائز خواہشات پر قابو پانے کی سالانہ مشق سے انسان ناجائز خواہشات پر قابو پانے کے قابل بن جاتا ہے۔

آخرت کے نقصان سے محفوظ رہنے کی یہی صورت ہے کہ ناجائز خواہشات سے بندہ رُکا رہے۔ نیز مومن‘ مردِ مجاہد ہوتا ہے۔ حق کی راہ میں اسے بھوک و پیاس کی تکلیف برداشت کرنے کی عادت نہ ہو تو معرکۂ حق و باطل کا وہ مرد مجاہد نہیں بن سکتا۔ دین و ایمان کی حفاظت و بقاء اور دین کی اشاعت کے سلسلہ میں بسا اوقات فقر و فاقہ کی بھی نوبت آجاتی ہے اگر مومن کو اس کی عادت نہ ہو تو وہ جہاد فی سبیل اللہ سے گریز کرتا رہے گا جس میں ضررِ آخرت ہے۔ تقویٰ یہی ہے کہ انسان ضررِ آخرت سے بچتا رہے اور آخرت کا نفع حاصل کرنے میں پیش پیش رہے۔ روزہ کایہی مقصد ہے۔ ارشاد ہے۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (سورہ البقرہ: 183) ترجمہ: تاکہ تم پرہیز گار بنو۔)

روزہ میں آخرت کے نفع کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ بھوک و پیاس کی حالت میں انسان میں عاجزی و مسکینی‘ الحاح و زاری پیدا ہوتی ہے اور نادار انسانوں کے فقر و فاقے کی تکلیف کا احساس اور ان سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ بندہ کے یہ اوصاف حق تعالیٰ کو بہت پسند ہیں اور بندہ کو زیادہ سے زیادہ رحمتِ حق کا مستحق بناتے ہیں۔ ’’للصائم فرحتان فرحۃ عند فطرۃ وفرحۃ عند لقاء ربہ‘‘ ترجمہ: (روزہ دار کو دو خوشیاں ہوتی ہیں ایک افطار کے وقت دوسرے رب سے ملاقات کے وقت۔) روزہ بڑی پُر لطف عبادت ہے‘ کھانا بھی عبادت‘ اور نہ کھانا بھی عبادت‘ دن کے اوقات میں نہ کھانا عبادت‘ غروب آفتاب کے بعد کھانا پینا عبادت۔

iv) حج

یہ عبادت بھی اہلِ ثروت سے مخصوص ہے، جن کی زندگی فارغ البالی اور راحت و آرام میں گزرتی ہے وہ محنت و مشقت کے خوگر نہیں ہوتے۔ مومن جو مرد مجاہد بھی ہوتا ہے آرام طلبی کا مرض اس کے لئے ضرر رساں ہے۔ حج اس مرض کا علاج ہے، گھر بار‘ اہل و عیال‘ دوست و احباب کے تمام تعلقات سے منہ موڑ کر ایک مخصوص مہینہ میں سفر کی تمام کلفتوں (تکالیف) کو برداشت کر کے ایک خاص مقام پر حاضری اور جن عبادتوں کی عادت ہوگئی ہے ان سے زائد عبادتوں مثلاً طواف و سعی کی مصروفیت وغیرہ اللہ و رسولؐ کی محبت کے اظہار کا والہانہ طریقہ ہے۔ عمر بھر میں ایک بار اس کی فرضیّت ‘ اللہ اور رسول کی محبت کے جانچنے کی ایک ایسی کسوٹی ہے جس سے کھرا کھوٹا پہچانا جاتا ہے۔ مالدار جب تک اس معیار پر پورے نہ اتریں ان کا ایمان مقبول نہیں ہوسکتا۔

دنیا کے مختلف گوشوں میں بسنے والے‘ ایک ہی اللہ کے پرستار‘ ایک ہی دامنِ رحمت سے وابستہ‘ ایک ہی شمع کے پروانے‘ ایک ہی در کے بھکاری‘ ایک ہی جمالِ حق کے مشتاق‘ کشاں کشاں ایک ہی مقام پر‘ ایک ہی لباس‘ ایک ہی وضع قطع سے حاضر ہو کر ایک ہی رشتہ اخوت و محبت میں پروئے ہوئے دُرہائے آبدار ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ سبحان اللہ کیا اچھی عبادت ہے۔

اس فریضہ کی ادائی میں گھر سے نکل کر گھر واپس ہونے تک قدم قدم پر کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ مجنون ہوئے بغیر اس پُر خاروادی سے انسان نہیں گزرسکتا۔ شوقِ کعبہ کے بغیر راستے کے کانٹوں کی خلش بطیبِ خاطر گوارا نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے معلم حکمت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاجی اور مجاہد کا ذکر ایک ساتھ فرمایا۔ (حدیث ملاحظہ ہو مشکوٰۃ شریف کتاب مناسک)

۹)توبہ و استغفار

جب انسان سے کوئی قصور ہوجاتا ہے تو وہ نادم ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے۔ آئندہ غلطی نہ کرنے کا عزم کرتا ہے اس غلطی کی تلافی کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے قصور کی معافی چاہتا ہے۔ اس فطری جذبے کا نام قرآن میں توبہ و استغفار ہے۔ کوئی ایمان والا سوچ سمجھ کر غلطی نہیں کرتا‘ غلطی عمداً نہیں ہوتی‘ سہو و نادانی سے ہوتی ہے۔ کسی خوف یا فوری رغبت کے جذبے سے ہوجاتی ہے۔ ایسی غلطی کا نام معصیّت و گناہ ہے۔ اگر کوئی بُرا کام دنیا کا فائدہ کمانے کے لئے آخرت کے نقصان سے بے پروا ہوکر کیا جائے تو یہ اکتسابِ معصیّت ہے جو اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہونے کی علامت ہے‘ سرکشی ہے اور سنگینی میں کفر و شرک کے قریب ہے‘ نفاق ہے‘ سوچ سمجھ کر شوق و رغبت سے کسی معصیّت کو کرتے رہنا اس کو چھوڑنے کا عزم نہ کرنا ایمان کے بالکل خلاف ہے۔ سہواً‘ جہالت سے کبھی کبھی گناہ ہوجائے تو یہ ایمان اور اقرارِ عبدیّت کے منافی نہیں ہے۔ البتہ اکتسابِ معصیّت‘ اقرارِ عبدیّت کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہی لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے جو گناہ ہوجانے یا گناہ پر مطلع ہوجانے کے بعد فوراً ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَي اللہِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ فَاُولٰۗىِٕكَ يَتُوْبُ اللہُ عَلَيْھِمْ۝۰ۭ (سورہ النساء: 17) توبہ جس کا قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی شان ہے وہ تو ان ہی لوگوں کی توبہ ہے جو جہالت سے کوئی گناہ کر بیٹھتے ہیں اور جلدی توبہ کرلیتے ہیں۔ پس ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ توجہ فرماتے ہیں (یعنی اُنکو اصلاح کی توفیق عطا فرماتے ہیں۔) اگر چہ توبہ کی مہلت‘ موت تک ہے مگر قبولیتِ توبہ کا وعدہ فوری توبہ سے متعلق ہے۔ توبہ کے چار اجزاء ہیں (۱) قصور کااعتراف (۲) ندامت و پچھتاوا (۳) گناہ کو ترک کر کے اس کے آئندہ نہ کرنے کا عزم (۴) عفو و مغفرت کی دعاء۔ ہر چند اطاعت و تسلیم‘ بندگی کا شیوہ ہے مگر یہ بھی بندگی کا شیوہ ہے کہ قصور ہوتے ہی توبہ کی جائے۔

توبہ دراصل اپنی عاجزی اور غلطی کااظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں سے عاجزی اور غلطی کے اعتراف کو بہت پسند فرماتے ہیں۔ بندے سے گناہ ہوتے ہی اس کے دل میں خوف پیدا ہوتا ہے۔ بندہ نادم ہو کر اپنے آپ پر ملامت کرتا ہے۔ حق تعالیٰ سے معافی مانگتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا میرے گناہ معاف کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ بندہ کا یہ عمل چونکہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم و ہدایت کے مطابق ہے اس لئے اللہ تعالیٰ بندہ پر رحم کرتے ہیں اور گناہ سے جو ظلمت پیدا ہوتی ہے اسے دور کردیتے ہیں۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ (اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں) اس ارشاد کا یہی مطلب ہے اور اگر گناہ کے بعد دل میں خوفِ الٰہی نہ پیدا ہو تو یہ گناہ نہیں، سرکشی ہے۔

محض زبان سے توبہ توبہ‘ استغفراللہ کہہ دینا توبہ نہیں جب تک دل سے قصور کا اعتراف نہ ہو دل میں ندامت نہ ہو۔ زندگی کے تمام کاروبار کا تعلق دل سے ہے بغیر دلی توجہ کے کوئی کام ٹھیک نہیں ہوتا۔ دینی کاموں کا بھی یہی حال ہے، دلی لگاؤ کے بغیر ذکر و عبادت میں کوئی ذوق نہیں، توبہ کے بعدگناہ سے کنارہ کشی یعنی عمل کی اصلاح ضروری ہے ورنہ وہ توبہ نہیں۔ اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْٓئً ا بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہٖ وَاَصْلَحَ فَاَنَّـہٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورہ الانعام: 54) ترجمہ: (جو شخص تم میں سے بُرا کام جہالت سے کر بیٹھے پھر وہ اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح بھی‘ تو اللہ مغفرت کرنے والے اور بڑی رحمت والے ہیں۔) توبہ کے بعد گناہ کو نہ چھوڑنا نفس کا فریب ہے توبہ کے بعد پھر کسی وقت گناہ ہوجائے تو یہ توبہ کے خلاف نہیں پھر توبہ کرلی جائے۔

اللہ تعالیٰ کے غفور و رحیم ہونے کا مطلب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان کے بعد غیر اسلامی زندگی گزار کر بھی وہ رحمت و مغفرتِ الٰہی کے مستحق ہوسکتے ہیں، ایسا خیال صحیح نہیں۔ جس طرح رزق ملنے کا اللہ نے ایک نظام مقرر فرمادیا ہے جس پر چلے بغیر انسان کو رزق نہیں ملتا۔ مثلاً زمین کی ہمواری‘ وقت پر تخم ریزی‘ آب پاشی وغیرہ کے بغیر کاشتکار رزق (غلہ) نہیں حاصل کرسکتا، اسی طرح مغفرت حاصل کرنے کا بھی اللہ تعالیٰ نے ایک نظام بنادیا ہے جس پر عمل پیرا ہوئے بغیر انسان‘ حق تعالیٰ کی مغفرت و رحمت کامستحق نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ قانون اس آیت میں بیان فرمایا ہے۔

۱۰)قانون مغفرت

وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صٰلِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی (سورہ طٰہٰ: 82) ترجمہ: (بے شک میں بڑا بخشنے والاہوں اس کو جو توبہ کرتا ہے اور ایمان لاتا ہے اور شائستہ عمل کرتا ہے پھر اسی سیدھی راہ پر قائم رہتا ہے۔) اس آیت سے ثابت ہے کہ مغفرت کے لئے چار باتیں اہم اور ضروری ہیں۔ (۱) شرک‘ کفر‘ نفاق سے توبہ اور آئندہ ان میں مبتلا نہ ہونے کا عزم (۲) ایمان باللہ حسبِ صراحتِ صدر (۳) عملِ صالح (۴) ایمان و عمل صالح پر استقامت۔

استقامت یہ ہے کہ مخالفِ اسلام ماحول میں ہم الٰہی و نبوی تعلیم پر جمے رہیں چاہے، دنیا کاکتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ  ثُمَّ اسْتَقَامُوْا (سورہ حٰم السجدہ: 30‘ احقاف: 13) ترجمہ: (یقینا جن لوگوں نے یہ تسلیم کرلیا کہ اللہ تعالیٰ ہی (بلا شرکت غیرے) ہمارا رب ہے، پھر مضبوطی سے جمے رہے۔)

اس قانونِ مغفرت پر کماحقہٗ عمل کئے بغیر نجات کی امید محض جہل و نادانی ہے۔ اس پر عمل کرنے کے بعد اگر کوئی لغزش ہوجائے اور گناہ سرزد ہوجائے اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہے تو اللہ تعالیٰ نے یقین دلایا ہے کہ وہ اس کی طرف رجوع کرنے والے نیک بندوں کے لئے یقینا غفور اور رحیم ہیں۔’اِنْ تَکُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ  فَاِنَّہٗ کَانَ لِلْاَوَّا بِیْنَ غَفُوْرًا(سورہ اسریٰ: 25) ترجمہ: (تمہارے اعمال اگر شائستہ ہیں تو وہ (گناہ سے) توبہ کرنے والوں کی خطائیں معاف کرتا ہے۔) حق تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کے اس قانون کو پسِ پشت ڈال کر دنیا ہی کو مقصود و مطلوب بناکر اللہ تعالیٰ کے غفار ہونے کا غلط مطلب سمجھ کر جو لوگ گناہوں میں مبتلا ہیں وہ سخت شیطانی فریب میں گرفتار ہیں۔

صالح ہونے کے بعد بھی بندہ‘ خالق و مخلوق کا پورا پورا حق ادا نہیں کرسکتا۔ حق تعالیٰ کی مرضی کے خلاف دانستہ یا نادانستہ غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ اس لئے اکثر اوقات بندہ کو اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہئے اور اصلاح بھی کرلینا شرط ہے۔ کتاب و سنتؐ میں بندہ کے جو اشغال مقرر ہیں ان میں استغفار بھی ایک شغل بندگی ہے۔ استغفار کو جو شخص حضور قلب سے اپنے پر لازم کرلیتا ہے دین و دنیا کی برکتیں اس پر نازل فرمائی جاتی ہیں۔ لیکن ملحوظ رہے کہ اصلی چیز مغفرت و جنت کا حصول رہے۔ ’’من لزم استغفارا جعل اللہ لہ من کل ضیق مخرجاً ومن کل ھم فرجًا من حیث لایحتسب‘‘ (ابوداؤد‘ احمد‘ ابن ماجہ) جو ہمیشہ استغفار کیا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو ہر تنگی سے نکالے گا اور ہر فکر سے نجات عطا فرمائے گا اور جہاں اس کا خیال بھی نہ ہوگا وہاں سے رزق دے گا۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو خوش خبری دی ہے جس کے نامۂ اعمال میں کثرت سے استغفار ہو۔ ’’طبیٰ ملن وجد فی صحیفتہٗ استغفارًا کثیرًا‘‘۔

خالقِ فطرت کی یہی وہ بنیادی تعلیم ہے جس کو اختیار کر کے طالبِ حق صالح بنتا ہے۔ اس کی زندگی شائستہ ہوجاتی ہے اس کے تخیّل میں بلندی و خوبی اور کردار میں پاکیزگی پیدا کردی جاتی ہے جس کی علامت یہ ہے کہ انسان کا فطری جذبۂ حکمرانی‘ کتاب و سنت کے تابع ہوجائے ایسی ہی زندگی کا نام ’’حیات طیبہ‘‘ ہے۔ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً۝۰ۚ (سورہ النحل: 97) ترجمہ: (مومن مرد و عورت جو بھی نیک کام کرے گا ہم اس کی زندگی پاکیزہ بنادیں گے۔) مرنے کے بعد خیر و ابقیٰ‘ مرضی کے مطابق زندگی اسی ایمان و عملِ صالح (حیاتِ طیبہ) کا یقینی بدل ہے۔ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ جَنّٰتُ النَّعِيْمِ۝۸ۙ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝۰ۭ وَعْدَ اللہِ حَقًّا۝۰ۭ ۝۹ (سورہ لقمان: 8-9) ترجمہ: (بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ان کے لئے نعمتوں کے باغ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔) آخرت کے انجام کے لحاظ سے صالحین کا دوسرا نام اصحٰب الیمین ہے جس میں صالحین و شہداء دونوں داخل ہیں۔ بالعموم امر بالمعروف و نہی عن المنکر صالحین کا فریضہ نہیں سمجھا جاتا حالانکہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ یہ بھی صالحین کی صفت ہے۔ ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ  وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ ہ اُولٰٓـئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ (سورہ البلد: 17-18) ترجمہ: (پھر ان میں سے ہوگیا جو ایمان لائے اور صبر و مرحمت کے ساتھ نصیحت کرتے رہے۔ یہی لوگ اصحاب الیمین ہیں۔ ہر مومن کا فرض ہے کہ اپنی ذات کے علاوہ ان لوگوں کو بھی جو اس کے زیرِ اثر ہوں اُن اعمال سے دور رکھنے کی کوشش کرے جن سے آخرت کی ابدی زندگی ناری ہوجاتی ہے۔ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا (سورہ التحریم: 6) ترجمہ: (مؤمنو! اپنے کو اور اپنے متعلقین کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔) انسان کی فطرت اور خالقِ فطرت کی ہدایتوں کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد ہر طالبِ حق کی عقل کا یہی فیصلہ ہوگا کہ دینِ اسلام جس میں انسان کو انسانیت سکھائی گئی ہے، وہی دینِ فطرت ہے، دینِ حق ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے گمراہی ہے‘ یہی اعلانِ حق ہے۔ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ۝۰ۚۖ(سورہ یونس: 32) ترجمہ: (پھر حق آجانے کے بعد کیا رہ گیا سوائے گمراہی کے۔)

۱۱)فسق و بدعت

ایمان و عملِ صالح کے بعد بے راہ روی کی دو صورتیں اور ہیں (۱) فسق (۲)بدعت

i)فسق

بنیادی احکام (۱) ایمان باللہ (۲) نماز (۳) زکوٰۃ (۴) روزہ اور (۵) حج وغیرہ کی پابندی کرتے ہوئے کوئی گناہ کا کام کرتے رہنا، مثلاً شراب پینا‘ سود کھانا‘ جھوٹ بولتے رہنا‘ غیبت کرتے رہنا‘ ڈارھی منڈانا وغیرہ فسق ہے۔ فسق کی یہ تعریف قرآن ہی سے ماخوذ ہے۔ سورہ بقرہ کے ۳۹ رکوع میں کاتب و گواہ کو ضرر پہنچانے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہ تنبیہ ہے۔ وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ۝۰ۭ (سورہ البقرہ: 282) ترجمہ: (اگر تم ایسا کرو گے تو یہ تمہارے لیء فسق ہے) اور سورہ الحجرات میں مسخرہ پن‘ بُرے نام سے پکانے‘ لعن و طعن سے منع کیا گیا ہے اور اس کو فسق قرار دیا ہے۔ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ (سورہ الحجرات: 11) ترجمہ: (ایمان کے بعد فسق کا نام بھی بُرا ہے) ان دونوں مقامات پر مخاطب‘ اہل ایمان ہیں جو اسلام کے بنیادی احکام کی پابندی کرتے تھے۔ اس لحاظ سے اسلام کے بنیادی احکام کی پابندی کرتے ہوئے کسی بُرے کام میں مبتلا رہنا فسق ہے کیونکہ سرے سے بنیادی احکام ہی کی پابندی نہ کرنا منافیٔ ایمان ہے۔ فاسق سے اللہ تعالیٰ کا وعدۂ مغفرت نہیں۔ غرض فاسق انجام کے لحاظ سے خطرہ میں رہتا ہے اگر مرنے سے پہلے توبہ و اصلاح کرلے گا تو صالحین میں شمار ہوجائے گا۔

صالح و فاسق کا فرق

گناہ صالح سے بھی سرزد ہوجاتے ہیں۔ مگر صالح کے پاس گناہ کرنے کا عزم (ارادہ) نہیں رہتا بلکہ گناہ نہ کرنے کا عزم رہتا ہے اور گناہ سرزد ہوجائے تو فوراً توبہ کرلیتا ہے۔ اس کے برخلاف فاسق کے پاس گناہ کرنے کا عزم رہتا ہے۔ وہ گناہ کرتا رہتا ہے نہ توبہ کرتا ہے نہ نادم ہوتا ہے صالح و فاسق میں یہی فرق ہے۔

ii)بدعت

بدعت کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ ثواب و خیر و برکت و تزکیۂ نفس کے لئے ایسے کام تجویز کرنا اور ایسے عقیدے پیدا کرلینا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کی تعلیم نہیں دی اور نہ وہ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل اور صحابہؓ کی روش سے ثابت ہوں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسے تمام امور جو میریؐ اور خلفاء راشدین کی سنت نہ ہوں وہ بدعت ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ بدعت گمراہی ہے۔ ’’ونانہ من یعش منکم بعدی فسیری اختلافًا کثیرًا فعلیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدین تمسکوا علیھا وعضوا علیھا بالنواجذوایاکمومحدثات الامور فان کل حدثۃٍوکل بدعۃ ضلالۃ‘‘ (احمد‘ ابوداؤد‘ ابن ماجہ‘ ترمذی) ترجمہ: (واقعہ یہ ہے کہ جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بکثرت مختلف باتیں پائے گا۔ (تم ان اختلافی باتوں پر نہ جاؤ) بلکہ تم میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ نیکوکار خلفاء کی روش (طریقوں) پر جمے رہو اس پر مضبوطی سے قائم رہو اپنے دانتوں سے مضبوط پکڑے رہو اور بچو تم نئی باتوں سے‘ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔) اور گمراہی کا انجامِ آخرت نار ہے۔ ’’کل ضلالۃ فی النار‘‘۔

 

 

بدعات کی تفصیل

صدیوں سے مسلمانوں میں دانستہ یا نادانستہ بدعات کا رواج ہوگیا ہے۔ مثلاً محرم کے مہینہ کو غم و ماتم کا مہینہ سمجھنا‘ اہل بیت کا ماتم کرنا‘ محرم کے علم وغیرہ اور محرم کے دیگر رسوم‘ ماہِ صفر کے منحوس ہونے کا عقیدہ‘ اسی ماہ کی تیرہ تاریخ کو صدقہ کالزوم‘ آخری چہارشنبہ منانا‘ ماہ ربیع الاول‘ ربیع الآخر کی بارہویں و گیارہویں کے نام سے مجلسیں و فاتحہ خوانی‘ میلاد مبارک و آثار مبارک اور رجب میں معراج کے جلسے‘ رجب کے کونڈے‘ شعبان میں روحوں کے آنے کا عقیدہ‘ اس مہینہ میں ان کے لئے ایصالِ ثواب کی خصوصیت‘ شبِ برأت کی اجتماعی شب بیداری‘ رمضان میں شبینے‘ ماہ ذی الحجہ کی ۹ تاریخ کو عرفہ کی تقریب‘ موت کی تمام رسمیں‘ مثلاً پھول یا پھول کی چادر‘ میت کے سینہ پر کلمہ طیبہ لکھنا‘ قبر میں توشہ و بیعت کے شجرے رکھنا‘ فاتحہ سوم‘ دہم‘ چہلم و برسی‘ شادی کی تمام وہ رسمیں جن کو باعثِ برکت سمجھا جاتا ہو‘ حیرانی و پریشانی اور مصائب میں بزرگانِ دین کو پکارنا‘ ان کی نذر و منت‘ ان کی مزاروں پر چادر چڑھانا‘ صندل مالی‘ سجدۂ و طواف‘ سماع و قوالی کو ایمان کے بڑھنے اور بڑھانے کا ذریعہ سمجھنا‘ ذکرِ الٰہی ۱؎ کے مروجہ طریقہ‘ اشغال و مراقبات‘ وحدۃ الوجود۲؎‘ فنا و بقاء کی تعلیم کو رضاء و قرب کا ذریعہ سمجھنا‘ یافت و شہود اور انائے واحد‘ وجود واحد وغیرہ کی مشق وغیرہ وغیرہ۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مولانا اسمٰعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’ایضاح الحق الصریح فی احکام المیّت والضریح‘‘) رسالہ الحق کی تیسری جلد میں اس کا ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔ فسق و بدعت میں مبتلا رہنے والے کو اصلاحِ حال کی توفیق نہیں ہوتی۔ الّا ماشاء اللہ اور صالحیت جو ہدایت کا ابتدائی مقام ہے وہ بھی حاصل نہیں ہوتا۔

خصوصاً بدعت‘ فسق سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ بدعتی اپنے غیر اسلامی اور غیر مسنون افکار و اعمال و اشغال کو اسلامی اور مسنون سمجھ کر اس جہل مرکب میں مبتلا رہتا ہے کہ بڑے ثواب کے کام کررہا ہے جس کی وجہ سے اس کو توبہ کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔

ذکرِ الٰہی ۱؎:- اگر بزرگوں نے اس کو بدعت نہیں سمجھا تو یہ اجتہادی غلطی ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس قابل معافی ہوسکتی ہے۔

وحدۃ الوجود۲؎:- مجدد الف ثانی شاہ ولی اللہ‘ جناب اشرف علی تھانوی علیہم الرحمۃ کی بھی یہی رائے ہے کہ وحدۃ الوجود کی تعلیم قرآنی و اسلامی تعلیم نہیں ہے۔

جاہل اقوام کے متعلق سنتِ الٰہی

حُبِ دنیا‘ شرک‘ کفر و نفاق یہ سب جہالت کا نتیجہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے گمراہ قوموں کو ’’قوم لایعقلون‘‘ (نادان قوم) فرمایا ہے۔ دنیا کی کوئی قوم‘ جسم و صورت کی پرورش‘ تزئین و آسائش و آرائش کے لئے اختراع و ایجاد میں کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو۔ اگر وہ مذکورہ بالا غیر فطری افکار میں مبتلا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں جاہل اور جانوروں سے بدتر ہے خواہ دنیا میں اس کو کتنا ہی اقتدار و غلبہ حاصل ہو۔ یہ اقتدار دراصل قدرت کی طرف سے ان کے قلب و نظر پر غفلت کا پردہ ہوتا ہے۔ نیز اللہ رحیم و حلیم کی طرف سے مہلت بھی ہوتی ہے۔ یہ جاہل قومیں اس زعم میں مست رہتی ہیں کہ غیر فطری افکار و اعمال میں مبتلا ہونے کے باوجود ان کو دنیا میں جو اقتدار و حکومت حاصل ہے وہ ان پر اللہ تعالیٰ کی عنایت و مہربانی ہے۔حالانکہ یہ اقتدار و مہلت یعنی ان سے اس عالم میں پکڑ اور عذاب نہ ہونا اس بات کی علامت نہیں ہے کہ حق تعالیٰ ان پر مہربان ہیں بلکہ قدرت کی طرف سے ڈھیل اس لئے ہے کہ وہ اپنے باطل زعم میں مبتلا رہیں اور زندگی کے اوراق کو زیادہ سے زیادہ سیاہ کرتی رہیں۔ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ خَيْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ۝۰ۭ اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْٓا اِثْمًا۝۰ۚ (سورہ اٰل عمران: 178) ترجمہ: (کافر یہ خیال ہر گز نہ کریں کہ ہم نے ان کو جو مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے۔ ہم ان کو صرف اس لئے مہلت دے رہے ہیں (داروگیر نہیں کررہے ہیں) کہ وہ گناہوں میں اضافہ کرتے رہیں۔) تاکہ اسی طغیان‘ سرکشی و کفر کی حالت میں ان کو موت آئے۔ تَزْھَقَ اَنْفُسُھُمْ وَھُمْ کٰفِرُوْنَ (سورہ توبہ: 85)۔

مسلم کی دانش و بینش

ان جاہل بااقتدار قوموں کے متعلق ایک مسلم کی یہی دانش ہونی چاہئے کیونکہ مسلم وہی ہے جو اپنے دل و دماغ کو صرف علمِ حق کے نور سے منور رکھتا ہے اور جاہل اقوام کے غیر حقیقی‘ غیر فطری افکار و خیالات سے اور ان کی تہذیب و تمدن سے نہ متاثر ہوتا ہے نہ مرعوب‘ چاہے وہ کتنے ہی بلند و خوش نما کیوں نہ معلوم ہوتے ہوں۔ زمانہ کتنی ہی کروٹیں بدلے۔ دنیا کے حوادث و انقلابات نت نئی صورتیں اختیار کریں۔ زندگی کے نئے نئے نظریہ اور مقاصد سامنے آئیں مگر مسلم کا نظریہ و مقصدِ حیات وہی ہوتا ہے جو حیات آفریں (قرآن) نے مقرر کردیا ہے۔ یعنی ’’مغفرتِ الٰہی اور الجنۃ‘‘ اور اس مقصد کے پانے کے لئے اس کے وہی فرائض زندگی ہوتے ہیں جو زندگی عطا کرنے والے نے متعین کردیئے ہیں۔ اس کے خلاف جو روش و مسلک اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ کتنے ہی دباؤ‘ قوت سے پیش کیا جائے۔ مؤمن اس کو ٹھکرادیتا ہے۔ غرض ان جاہل قوموں کی وقعت اس کی نظروں میں مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں ہوتی۔ خواہ وہ مشرق و مغرب کے اہلِ حل و عقد ہی کیوں نہ ہو۔ مگر افسوس کہ مسلمان ان پڑھ ہوں کہ تعلیم یافتہ‘ ان کے قلوب کا جائزہ لیجئے تو دین کی صحیح تعلیم نہ ہونے سے ان جاہل اقوام کی طرح ان کے قلوب میں بھی دنیا مرجح ہے اور آخرت مؤخر یعنی حبِ دنیا کا فاسد مادہ اور شرک و کفر و نفاق کی مہلک بیماریاں کم و بیش پرورش پاتی نظر آتی ہیں۔ جن لوگوں کی نظر ان بیماریوں پر ہے وہ مسلمانوں کو اسلام و ایمان کی طرف بلاتے ہیں اور ان کو حقیقی مسلمان بننے کی دعوت دیتے ہیں‘ دین و ایمان کی صحت و سلامتی کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور جن لوگوں کی نظر مسلمانوں کے موروثی دین‘ قولی ایمان و اسلام پر ہے۔ وہ ان بیماروں کو (صحتمند) مسلم و مومن ہونے کی سند اور مغفرت کا پروانہ عطا کرتے ہیں۔

موروثی اسلام و حقیقی اسلام کا فرق اور جہاد فی سبیل اللہ

واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلام سے جو لگاؤ ہے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہ لگاؤ اس بناء پر ہے کہ دینِ اسلام ان کا موروثی دین ہے یہی وجہ ہے کہ دینی اعمال جن کی غرض و غایت نفس کا تزکیہ اور قلب کی تطہیر ہے تاکہ مومن مجاہد فی سبیل اللہ بنا رہے۔ وہ دینی اعمال صرف رسمی ہوکر رہ گئے کیونکہ دینی اعمال بجالانے کے باوجود نفس کی شرارتیں اور قلب کی گندگی جوں کی توں ہے۔ فکرِ آخرت کے بجائے فکرِ دنیا میں غلطاں و پیچاں۔ ہر وقت کھانے پینے لباس اور تزئین و آرئش کی ہوس‘ دینداری بھی ہے تو برائے دنیا۔ گھر میں اور گھر سے باہر دین قائم کرنے کی جدوجہد یعنی جہاد فی سبیل اللہ‘ تو گویا نہ کوئی امر دینی ہے اور نہ کوئی نیک کام۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا پرست قوموں اور معاشی جانوروں کی طرح مسلمانوں کی زبانوں پر بھی معاش معاش کی پکار ہے اور یہ غلط تصور قائم ہوگیا ہے کہ معاشی بے فکری کے بعد دینی اصلاح بآسانی ہوجائے گی۔ دنیا‘ معاش مقدم ہے اور مفادِ آخرت مؤخر‘ صحیح دانش یہ ہے کہ جو خیر و ابقیٰ ہے وہ مقدم رہے۔ بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۝۱۶ۡۖ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى۝۱۷ۭ (سورہ الاعلیٰ) ترجمہ: (تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت جو خیر و ابقیٰ ہے (قابل ترجیح ہے)۔

فکرِ معاش بے شک ضروری ہے بلکہ محمود! مگر وہ فکرِ معاش محمود ہے جس سے آخرت کی زندگی بگڑے نہیں بلکہ اور سنور جائے۔ جس فکرِ معاش سے آخرت برباد اور خدا سے غفلت ہوجائے وہ فکرِ معاش دین و ایمان کی موت ہے۔

عصرِ حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے:کھینچ لی روح (جان) تیری دیکے تجھے فکرِ معاش

اگر دین اسلام کو موروثی دین نہیں بلکہ دینِ الٰہی سمجھ کر اختیار کیا جائے تو یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ اصلاح حال فرمائیں۔ فکر دنیا کے بجائے فکرِ آخرت غالب رہے ، نفع دنیا کے بجائے نفع آخرت مرجح اور ضررِ آخرت سے بچنے کے لئے ضرر دنیا گوارا ہوجائے۔ فکر و عمل کی اصلاح یعنی تزکیۂ نفس و تطہیر قلب کی ہمہ وقت دھن رہے اور جان و مال سے جہاد فی سبیل اللہ کی ہمت پیدا ہوجائے اور مسلمان اس زعم میں مست نہ رہے کہ صرف نماز روزہ کی پابندی سے مغفرت حاصل ہوجاتی ہے۔ بلکہ اس میں یہ قرآنی بصیرت پیدا ہوجائے کہ ’’الٰہی و نبوی تعلیم‘ اصلاحِ حال اور مردِ مجاہد بننے کے لئے ہے اور مغفرت و جنت و درجاتِ جنت‘ دراصل اشاعتِ حق کی باطل شکن کوشش‘ غیر قرآنی و غیر مسنون افکار و اعمال کے خلاف جدوجہد کرنے کا غیر فانی بدل ہے۔ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللہُ الَّذِيْنَ جٰہَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۴۲ (سورہ اٰل عمران) ترجمہ: (کیا تم نے خیال کرلیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤگے حالانکہ ہنوز اللہ تعالیٰ نے تم میں ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے جہاد کیا اور ثابت قدم رہے۔) مطلب یہ ہے کہ جہاد و صبر کی منزل سے گزرے بغیر کوئی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا وہ مؤمن ہی نہیں جو مردِ مجاہد نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ’’مجاہدانہ عزائم و کردار کے بغیر دین‘‘ موت ہے یا خواب۔

دنیائے باطل‘ صنم کدہ ہے اور مومن سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کا جانشین‘ لا الہ الا اللہ کی تعلیم میں یہی نکتہ پوشیدہ ہے۔ عموماً اکابرِ امت جس کو فراموش کرچکے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ وہ خلاء (کمی) ہے جس کو کوئی نیکی پُر نہیں کرسکتی اور یہ بھی یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ دین و ایمان کی سلامتی و ترقی کے ساتھ معاشی سہولتیں بھی بہم پہنچادیتے ہیں۔

صالحیت جو اخلاص کا بنیادی مقام ہے اس سے مافوق (آگے) شہادت کا درجہ ہے جو بندہ مخلص ہوتا ہے وہی بندۂ جاں نثار (شہید) بنایا جاتا ہے۔