دیدار الٰہی

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

دیدار الٰہی

 

ہر انسان اپنے والدین کو دیکھنے کی فطرتاً تمنا رکھتا ہے ۔ اسی طرح ہر انسان میں اپنے خالق و رب کو دیکھنے کی شدید آرزو ہوتی ہے۔ یہ آرزو کب ‘ کہاں ‘ کیسے اور کس کی پوری ہوگی ‘ اس کا علم خالق و رب کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔

آخرت میں دیدار الٰہی

وُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ۝۲۲ۙ اِلٰى رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ۝۲۳ۚ (قیامۃ )(کچھ چہرے اس دن بارونق ہوں گے۔ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ) کے ارشاد الٰہی سے ثابت ہے کہ صرف جنتیوں ہی کو دیدارِ الٰہی نصیب ہوگا۔ اللہ کے رسول ؐ نے دیدارِ الٰہی کو جنت کی سب سے اعلیٰ و عظیم ترین نعمت فرمایا ہے۔

دیدارِ الٰہی سے محروم لوگ

کَلَّا إِنَّہُمْ عَن رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ  (التطفیف) (ہرگز نہیں اس دن وہ اپنے رب سے اوٹ میں رکھے جائیں گے ) کے ارشاد الٰہی سے یہ ثابت ہے کہ دیدارِ الٰہی سے وہ تمام انسان ہمیشہ کے لئے محروم ہی رہیں گے جو جنت میں جانے سے محروم ہوگئے ہوں گے ۔ اسی لئے خصوصی طور پر اہلِ ایمان کو خبردار کیا گیا کہ ایمان کے اقرار کے ذریعہ تم نے اللہ سے ’’قالو ا بلیٰ ‘‘ (بے شک صرف آپ ہی اکیلے وتنہا ہمارے حاجت روا ہیں )  وَاِیَّاکَ نَعْبُدُوْا(ہم صرف آپ ہی کی بندگی کرتے ہیں)وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ  اور (ہم صرف اور صرف آپ ہی سے مدد مانگتے ہیں ) کا جو عہد و پیماں کئے ہو اگر دنیا کی قلیل ‘ ادنیٰ عارضی فائدوں کے لئے ان کو پورا کرنے کی کوشش نہ کرو گے تو آخرت میں تم کو کوئی حصہ نہیں ملے گا اور حشر کے دن اللہ تم سے نہ بات کرے گا نہ تمہاری طرف نظرِ رحم و کرم سے دیکھے گا اور نہ ان تکالیف ‘ مصائب اور نقصانات کو جن سے تم مرتے دم تک دنیا میں دوچار ہوتے رہتے ہو تمہارے گناہوں کا کفارہ بھی  نہ بنائے گا اور (آخرت میں ) تمہارے لئے دردناک عذاب ہوگا۔ جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللہِ وَاَيْـمَانِہِمْ ثَــمَنًا قَلِيْلًا اُولٰۗىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ وَلَا يُكَلِّمُھُمُ اللہُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَلَا يُزَكِّـيْہِمْ۝۰۠ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۷۷ ( اٰل عمران )( جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ اللہ نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا ‘ قیامت کے دن اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ) اس ارشادِ الٰہی سے ثابت ہوجاتا ہے کہ ایمان کے اقرار کے بعد اگر ایمان کے تقاضوں کو زندگی میں پوری کرنے کی کوشش نہ کی جائے گی تو نہ صرف دیدارِ الٰہی سے محرومی ہوگی بلکہ اللہ کی نظرِ رحم و کرم سے بھی محرومی ہی ہوگی۔

دنیا میں دیدار ِالٰہی

قرآن میں جن پیغمبروں کا ان کے نام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ان میں موسٰی ؑہی وہ واحد پیغمبر ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے دنیا ہی میں بات کی ہے ۔ وہ بھی آمنے سامنے ہوکر نہیں بلکہ آڑ سے کی گئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے : فَلَمَّآ اَتٰىہَا نُوْدِيَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَيْمَنِ فِي الْبُقْعَۃِ الْمُبٰرَكَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنْ يّٰمُـوْسٰٓي اِنِّىْٓ اَنَا اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۝۳۰ۙ (القصص) (پھر جب وہ وہاں پہنچا تو وادی کے داہنے کنارے سے برکت والے خطّے میں درخت سے پکارا گیا کہ ’’اے موسٰی ؑمیں ہی اللہ ہوں اور تمام مخلوقات کا میں ہی (تنہا)حاجت روا ہوں ) اور جب کتاب ’’توریت ‘‘دینے کے لئے آپ کو بلایا گیا تو آپ نے عرض کیا : قَالَ رَبِّ اَرِنِیْ اَنْظُرْ اِلَیْکَ ط(کہا اے میرے رب مجھے اپنے آپ کو دکھادے کہ میں تجھ کو دیکھوں ) تو اللہ نے فرمایا : قَالَ لَنْ تَرَانِیْ وَلٰـکِنِ انْـظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَـرَّ مَکَانَہُ فَسَوْفَ تَرَانِیْ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکّاً وَخَرَّ مُوْسٰی صَعِقاً۔ (اعراف:۱۴۳) ( اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے ۔ البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو تم مجھ کو دیکھ سکو گے پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو اس کو ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گرپڑے )    فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ (اعراف:۱۴۳) (پھر جب آپ کو ہوش آیا تو آپ نے فرمایا تو پاک ہے میں تیری طرف توبہ کیا اور میں سب سے پہلے (اس حقیقت پر) ایمان لانے والا ہوں (کہ تجھے دنیا میں کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا ) ۔

اور دنیا میں دیدار الٰہی کا مطالبہ کرنے کو گستاخی قرار دیا گیا ‘ چنانچہ بنی اسرائیل کے سرداروں نے توریت کو اللہ کی کتاب ماننے کے لئے موسیٰؑسے مطالبہ کیا کہ کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کا تم کو توریت دینا جب تک ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں گے اس وقت تک ہم تمہاری بات کا یقین نہیں کرسکتے ۔  وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللہَ جَہْرَۃً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝۵۵  (البقرہ)(اور جب تم نے کہا اے  موسٰی ؑہم تمہارا یقین نہیں کریں گے جب تک ہم اللہ کو سامنے نہ دیکھ لیں تو تم کو بجلی نے پکڑ لیا اور تم دیکھ رہے تھے)

اور جب اہل کتاب نے نبی کریم ؐ کو اللہ کا رسول ماننے کے لئے یہ مطالبہ کیا کہ ایک لکھی لکھائی کتاب آسمان سے ان پر اتاردیں چونکہ یہ مطالبہ اللہ و رسول اور کتاب کو ماننے کا دعویٰ کرنے والوں کا تھا اس لئے نبی کریم ؐ کو اس پر انتہائی حیرت ہوئی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تو وہ لوگ ہیں جو اپنے قومی پیغمبر موسٰی ؑسے اس سے بھی بڑھ کر بڑا مطالبہ کرچکے ہیں ‘ انھوں نے موسیٰ سے کہا تھا کہ ہمیں اللہ کو بالکل سامنے دکھادو جس پر ان کو بجلی نے آپکڑا جس کا ذکر سورہ النسا ء آیت ۵۳ ۱میں ہے جس سے قطعی ثابت ہے کہ دنیا میں کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار نہیں ہوسکتا۔

دنیا میںدیدارِالٰہی ہونے کی نفی و تردید میں خود اللہ تعالیٰ نے  لَاتُدْرِكُہُ الْاَبْصَارُ۝۰ۡ وَہُوَيُدْرِكُ الْاَبْصَارَ۝۰ۚ وَہُوَاللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ۝۱۰۳ (الانعام) (اس کو نگاہیں نہیں پاسکتیں وہ نگاہوں کو پالیتا ہے وہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے ) کا فیصلہ فرمادیا ہے  ۔ چنانچہ (بی بی )عائشہ ؓ نے اسی آیت کو پیش کرکے معراج میں نبی کریم ؐ کو دیدار الٰہی ہونے کی نفی و تردید فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ان لوگوںکو جنھوں نے لفظ ادراک کے متعلق موشگافیاں کرکے آپ کی بات کو غیر صحیح قرار دینے کی کوشش کی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے خود اپنے تعلق سے  لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ۝۰ۚ وَہُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۝۱۱ (شوریٰ) ( کوئی چیز اس کے مثل نہیں اور وہی سب کی سننے والا اور سب کو دیکھنے والا ہے ) کا علم دیا ہے جس کی رو سے نبی کریم ؐکا معراج میں سر کی آنکھوں سے یا دل کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی باتیں قطعاً غلط و جھوٹ قرار پاتی ہیں۔

رب کو دیکھنے کی آرزو اہلِ ایمان کی سب سے بڑی آرزو ہے اس لئے نبی کریم ؐ  کسی طرح بھی اللہ تعالیٰ کا اگر دیدار کئے ہوتے یا دیدار ہوا ہوتا تو لازماً و یقیناً صحابہ ؓ سے بیان فرماتے اور صحابہ ؓبھی آپ سے ضرور دریافت کرتے ۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو لازماً تمام صحابہ ؓ اس کو روایت کرتے جس کے نتیجہ میں پچاسوں روایات ہم تک پہنچتیں ۔ چونکہ حقیقت واقعہ ایسا نہیں ہے اس لئے معراج میں نبی کریم ؐکو کسی طرح بھی دیدار الٰہی ہونے کی بات محض من گھڑت ہے ۔ ان حقائق کی روشنی جن لوگوںنے خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی باتیں کہی ہیں وہ قطعاً ان کی قیاس و گمان کی باتیں ہیں ۔

حدیث احسان کے الفاظ  فان لم تکن تراہ  (پس اگر تو اللہ کو نہ دیکھ سکے ) سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی فرد و بشر بھی اپنے رب کو دنیا میں نہیں دیکھ سکتا۔

کسی بھی بات کے سمجھانے میں یا اپنے محسوسات بیان کرنے میں حد اعتدال کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ غلو سے بچنے کی تاکید ہے ۔ اس لئے یہ لکھنا ہر لحاظ سے محلِ نظر ہے کہ ’’جس زمانے میں مَیں اپنی کتاب ’’      ‘‘  کے سلسلہ میں فلکیات اور ارضیات کا مطالعہ کررہا تھا مجھے ایسا محسوس ہونے لگا تھا جیسے کہ میں کارخانہ کائنات میں خدا کو بالکل عیاناً دیکھ رہا ہوں ۔ اسی زمانہ کا واقعہ ہے ‘ اعظم گڑھ کے ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا : کیا انسان خدا کو دیکھ سکتا ہے ۔ معاً میری زبان سے نکلا ‘ کیا آپ نے ابھی تک خدا کو نہیں دیکھا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر واقعی معنوں میں ذکر و فکر کرے تو وہ خدا کو دیکھنے لگے اس کا ایمان غیب سے آگے بڑھ کر شہود تک پہنچ جائے۔‘‘ کیوں کہ سورہ  اٰل عمران میں ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق میں عقل والے جب غور و فکر کرتے ہیں تو بے اختیار پکار اٹھتے ہیں اے ہمارے رب ہم کو آگ کے عذاب سے بچالے ‘ ملاحظہ ہو ۔ اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ۝۱۹۰ۚۙ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللہَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا۝۰ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝۱۹۱ ( اٰل عمران) ( آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں (اپنے گناہوں کی بخشش اور معافی کیلئے التجا کرتے ہیں ) اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا تو (عبث کام کرنے سے ) قطعی پاک ہے پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا ) علامہ مشرقی نے اپنا واقعہ نقل کیا ہے جو فلکیات کے ایک عیسائی پروفیسر کے متعلق ہے جو ان کے استاد تھے ۔ ایک دفعہ یہ پروفیسر فلکیات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بے اختیار رو پڑے اور علاّمہ مشرقی کے بھی رونگٹے کھڑے ہوگئے اور  اِنَّمَا یَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۝۰ۭ  (اللہ سے وہی بندے ڈرتے ہیں جو اس کی عظمت کا علم رکھتے ہیں ) کا بھی ذکر کیا ہے۔

ایمان بالغیب کی اہمیت

اللہ تعالیٰ نے جس کو غیب فرمایا اور غیب ہی قرار دیا ہے کیا اس کا شہود ہوسکتا ہے ۔ اگر غیب کسی طرح بھی شہود ہوجائے تو نعوذ باللہ پھر اللہ کی بات جھوٹ قرار پاتی ہے حالانکہ اللہ کی بات سے بڑھ کر کسی کی بھی بات سچ نہیں ہوسکتی ۔

اہل ایمان سے اللہ تعالیٰ کا مطالبہ ہے کہ وہ غیب ( بے دیکھے ) پر ایمان لائیں  یُوْمِنُوْنَ باِلْغَیْبِ  (وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں ) اور  یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ (وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں بغیر دیکھے) اور غیب پر ایمان لانے کا بدلہ ابدی عیش و راحت کی زندگی فرمایا ہے ۔ غیب دنیا ہی میں اگر شہود بن جائے یا بنالیا جائے تو پھر غیب پر ایمان لانے کا بدلہ کیسے مل سکے گا۔

اللہ تعالیٰ نے جیسی ہماری فطرت بنائی ہے ‘ عقل دی ہے اسی کے مطابق ہم دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں ‘ چنانچہ دنیا میں بے گنتی ایسی چیزیں موجود ہیں جن کو سر کی آنکھوں سے دیکھے بغیر ہم مانتے ہیں مثلاً کروڑوں انسان امریکہ اور یوروپ کے وجود کو بے دیکھے مانتے ہیں حتیٰ ایں کہ صرف مجرد خبر یا اطلاع سنتے ہی ( بغیر دیکھے ) ہمارے جذبات موجزن ہوجاتے ہیں حالانکہ اس خبر کے غلط یا جھوٹ ہونے کا امکان بھی ہوتا ہے جس کو ہم نظر انداز کردیتے ہیں ۔ سنکھیا کے زہر ہونے کا یقین علم ہی کی بنا پر کیا جاتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ کتاب نازل کرکے ہی ہم سے غیب پر ایمان لانے کا مطالبہ فرمایا ہے اور علم ہی  کے ذریعہ غیب پر یقین حاصل کرنے کی کوشش کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے ۔ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ۝۵ۭ (تکاثر )(ہرگز نہیں کاش تم اس علم کے ذریعہ (جو اللہ نے اپنی کتاب اور رسول ؐ کے ذریعہ دیا ہے ) یقین کرلیتے ) اور ساتھ ہی رسول ؐ کو جنت و دوزخ کا مشاہدہ کروا کر ان سے وہاں کے واقعات کو بیان کروایا ہے جن کو اللہ کے رسول نے معراج والی حدیث میں بیان کیا ہے اور رسول ؐ کے مشاہدہ کرنے کا ذکر سورہ نجم میں ہے :  مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى۝۱۱ اَفَتُمٰرُوْنَہٗ عَلٰي مَا يَرٰى۝۱۲ (النجم )(اللہ کے رسول ؐ کی آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اس میں دل نے کوئی جھوٹ نہ ملایا ‘ اے لوگو کیا تم رسول ؐ سے ان چیزوں میں جھگڑتے ہو جسے انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے )  مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى۝۱۷ لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّہِ الْكُبْرٰى۝۱۸ (النجم)(نہ نگاہ بہکی اور نہ حد سے بڑھی ‘ یقیناً اس (رسولؐ) نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں) ۔ علم کے ایسے مضبوط ذرائع سے ہم غیب پر اگر یقین نہ کریں تو یہ صریحاً ہماری بے وقوفی ہے ۔

اللہ و رسول کی ہدایت کے مطابق علم کے ذریعہ یقین پیدا کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے غیب کو شہود بنانے کیلئے کشف ایجاد کیا گیا ۔ شائد اس لئے کہ شنیدم کئے بود مانند دیدہ  (سنی ہوئی بات دیکھی ہوئی بات کے برابر نہیں ہوسکتی۔ ) کی بنا پر ایسا کیا گیا ہو اور اس کے لئے ابراہیم ؑ کے اس واقعہ کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا جس میں اطمینان قلب کے لئے مردوں کو دفعتاً زندہ اٹھانے کی درخواست کی گئی تھی۔ ملاحظہ ہو :  وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ۝۰ۭ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ۝۰ۭ قَالَ فَخُـذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰي كُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُہُنَّ يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا۝۰ۭ وَاعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۶۰ۧ (البقرہ) ( اور جب ابراہیم ؑنے کہا اے میرے رب مجھ کو دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح (دفعتاً ) زندہ کرے گا تو اللہ نے کہا کیا تم ایمان نہیں رکھتے ۔ تو ابراہیم ؑ نے کہا بے شک ایمان تو رکھتا ہوں مگر دل کا اطمینان درکار ہے ۔ اللہ نے فرمایا تواچھا چار پرندے لے لو ‘ اور ان کو اپنے سے مانوس کرلو ۔ پھر ان کا ایک ایک جز الگ الگ پہاڑ پر رکھ دو پھر ان کو پکارو تو وہ تمہارے پاس تیزی کے ساتھ اڑتے ہوئے چلے آئیں گے اور خوب جان لو کہ اللہ زبردست اور نہایت حکیم ہے ) کیونکہ ابراہیم ؑ پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو امورِ غیبی دکھادیتا ہے تاکہ وہ انسانوںکے سامنے اپنے چشم دید امور غیبیہ کو پورے یقین کے ساتھ بیان کریں۔ امور غیبیہ کا مشاہدہ کرنا یا مشاہدہ ہونا بالکلیہ پیغمبروں کے ساتھ مخصوص ہے یہ بالکلیہ اللہ کی عطا یعنی وہبی چیز ہے ۔ پیغمبروں کے سوا کسی بھی انسان کا اپنی کوشش و محنت سے امور غیبیہ کا مشاہدہ کرنا ناممکن ہے ۔

مختصر یہ کہ غیب کو کشف کے ذریعہ شہود بنانے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجہ میں ’’سلوک ِ انبیائی ‘‘ کے متوازی ’’سلوکِ اولیائی ‘‘ وجود میں آئے ۔ جس میں ذکر و یاد ‘ وظائف و اوراد ‘ مراقبے ‘ چلے ‘ نفس کشی (نفس کے جائز مطالبات کی عدم تکمیل ) ترک دنیا ‘ صحرا نوردی جیسے غیر مطلوب و غیر فطری طریقے اختیار کئے گئے اور علم لَدُنّی ‘ علم سینہ ‘ علم باطن اور راز کی تعلیم کے نام سے وحدۃ الوجود ‘ وحدۃ الشہود جیسے غیر اسلامی افکار دین کا کمال قرار دے لئے گئے ۔ ستم ظریفی ملاحظ ہو کہ ان افکار کو اعلیٰ ترین توحید قرار دیا گیا ہے اور سلوک کے مدارج کا نام طریقت ‘ حقیقت ‘ معرفت رکھ لئے گئے ۔ یافت و شہود باقی باللہ ‘ سیرالی اللہ اور فانی فی اللہ کے مقامات طے کرنے کو مقصد زندگی بنالیا گیا۔

ہر انسان کے لئے بالخصوص ہر ایمان والے کے لئے دنیا ہی میں دیدار الٰہی کا ہونا لازمی و ضروری ثابت کرنے کے لئے وَمَنْ كَانَ فِيْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰى فَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا۝۷۲ (بنی اسرائیل) ( اور جو کوئی اس (دنیا) میں اندھا بنا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا اور وہی (سیدھے ) راستہ سے بالکل بھٹکا ہوا ہے ) کے قانون الٰہی کو پیش کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ جو دنیا میں دیدار ِ الٰہی سے محروم رہے گا وہ آخرت میں بھی دیدار الٰہی سے محروم رہے گا‘ جو قطعاً غلط ہے ۔ کیونکہ یہاں جس اندھے پن کا ذکر ہے اس کا تعلق دیدار الٰہی سے نہیں ہے بلکہ اللہ و رسولؐ  کی تعلیمات سے اندھے بنے رہنے سے ہے ۔ یہاں آنکھ کا اندھا پن مراد نہیں بلکہ دل کا اندھا پن مراد ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِہَآ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ۝۴۶ (الحج) ( سو کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں جس سے ان کے دل ایسے ہوجاتے کہ وہ ان سے سمجھتے یا ان کے کان ایسے ہوجاتے کہ وہ ان سے سنتے ‘ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ (نصیحت و عبرت حاصل کرنے کے لئے ) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں ) اس کی مزید وضاحت ان آیات سے ہوتی ہے : وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۝۱۲۴  قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا۝۱۲۵  قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَہَا۝۰ۚ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى۝۱۲۶ (طٰہ) ( اور جو شخص میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کے لئے تنگی کا جینا ہوگا اور قیامت کے دن ہم اس کو اندھا اٹھائیں گے وہ کہے گا کہ اے میرے رب تو نے مجھ کو اندھا کیوں اٹھایا میں تو (دنیا میں) آنکھوں والا تھا ‘ ارشاد ہوگا کہ جس طرح تیرے پاس ہماری نشانیاں آئیں تو تو نے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی اور ان کو بھلائے رکھا ( جس کے نتیجہ میں ) آج تیرا کچھ خیال نہیں کیا جائے گا ) چنانچہ اس کی اور وضاحت  وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰـىہُمْ اَنْفُسَہُمْ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۱۹ (الحشر) (اور (اے ایمان والو ) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو جو اللہ کو بھلائے بیٹھے ہیں تو اللہ نے ان کو خود ان کی جانوں سے غافل کردیا یہی لوگ فاسق (نافرمان) ہیں ) سے ہوتی ہے ۔ یہی بات سورہ اعراف کی آیت ۵۱ میں بھی کہی گئی ہے جس سے ثابت ہے کہ انسان کا دنیا میں اندھا پن دراصل آخرت کی ابدی زندگی سے لاپرواہی ‘ غفلت اور بھول میں مبتلا ہونا ہے جس کا تعلق آنکھوں سے نہیں بلکہ دل سے ہے۔

یہ یاد رکھئے کہ اللہ آنکھوں سے دیکھنے اور ہاتھوں سے چھونے کی چیز نہیں بلکہ آنکھیں کائنات اور نفس میں اس کی کاریگری ‘ قدرت ‘علم و حکمت ‘ کرم و فضل کے جلوے دیکھ سکتی ہیں ‘ کان ان کے قہر و غضب ‘ رحم و کرم کے واقعات سن سکتے ہیں ۔ عقل سے اس کی عظمت و کبریائی ‘ جلال و جبروت کا ایک حد تک اندازہ ہوجاتا ہے جس سے دل خود بخود رب کے آگے جھکنے لگتا ہے جس کا اظہار اعمال سے ہوتا ہے۔

سلوکِ اولیائی میں اللہ کی ذات اور صفات میں تقسیم کیا گیا ہے جو قرآن کے قطعاً خلاف ہے ۔ قرآن و حدیث میں صرف اسماء الٰہی کا ذکر ہے صفات کا نہیں اس لئے صفت اور موصو ف کی تقسیم غلط ہے ۔ سلوکِ اولیا کی تائید میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے ذریعہ انسان کے نفس کا تزکیہ اور اس کے قلب کی تطہیر ہوتی ہے ۔ حالانکہ اس میں تو ماحول اور موقع ‘ عمل سے فراری ‘ اوراد ‘ وظیفے جپنا ہے ۔ اس کے بر خلاف خالقِ انسان کا فیصلہ ہے کہ انسان کے نفس کا تزکیہ اس کے قلب کی تطہیر پوری زندگی میں صرف رب کے احکام پر عمل کرنے ہی سے ہوسکتی ہے جیسا کہ ارشاد ہے :  وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ ذٰلِكَ يُوْعَظُ بِہٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَاَطْہَرُ۝۰ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۲۳۲ (البقرہ)  (ا ور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو ان کو نہ روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کرلیں جبکہ وہ دستور کے موافق آپس میں راضی ہوجائیں ۔ یہ نصیحت اس شخص کو کی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ‘ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ اور ستھرا طریقہ ہے اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے )   فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْہَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْہَا حَتّٰى يُؤْذَنَ لَكُمْ۝۰ۚ وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ہُوَاَزْكٰى لَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۝۲۸ (النور)  (پھر اگر وہاں کسی کو نہ پائو تو اس میں داخل نہ ہونا جب تک کہ تم کو اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس ہوجائو تو تم لوٹ جائو ۔ یہ تمہارے لئے پاکیزہ ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو )  قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۝۰ۭ ذٰلِکَ اَزْکٰى لَہُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ۝۳۰  (النور) (ایمان والے مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے پاکیزہ ہے بے شک اللہ ہر اس چیز سے باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں ) ملحوظ رہے کہ آیت (۳۱) میں وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیْعاً أَیُّہَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ (اے ایمان والو ! تم سب مل کر اپنے خطائوں سے توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی طرف رجوع ہوجائو تاکہ تم فلاح پاسکو) جس سے نفس کے تزکیہ اور قلب کی تطہیر کی اہمیت واضح ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں سورۃ النساء آیت ۴۹ ‘ سورۃ النور آیت ۲۱ ‘ سورۃ الاحزاب آیت ۳۳ ‘ ۵۳ ‘ سورہ نجم ۳۲ ملاحظہ ہو ۔

قرآن کی حسب ذیل آیتوں کے الفاظ اور آیتوں کے جز وحدۃ الوجود ‘ وحدۃ الشہود کے جواز میں پیش کئے جاتے ہیں ۔

(۱) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۝۱۳۶ (النساء) ( اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ۔ ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول ‘اس کی کتاب پر جو اس کے رسول پر نازل کی گئی اور اس کتاب پر بھی جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہیں اور جو کوئی کفر کرے اللہ کے ساتھ ‘ اس کے فرشتوں کے ساتھ ‘ اس کی کتابوں کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ اور یومِ آخرت کے ساتھ پس یقیناً ایسا شخص بہت سنگین گمراہ ہے۔)

خط کشیدہ لفظ  اٰمنو سے سینہ بہ سینہ کی تعلیم مراد لی جاتی ہے جو قطعاً غلط ہے کیونکہ خطاب یٰآاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواسے کیا گیا ہے یعنی تمام صحابہ کرامؓ  مخاطب ہیں جن سے  اٰمِنُوْا کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ کسی ایک صحابی سے نہیں اس لئے سلسلہ کی بات غلط قرار پاتی ہے ۔ دوسرے یہاں لفظ  اٰمِنُوْا یقین کرو کے مفہوم میں آیا ہے جس کی وضاحت سورۃ الحجرات آیت ۱۵ میں ثُمَّ لَمْ یَرْ تَا بُوْا (پھر وہ اللہ و رسول کی ہدایت میں شک و شبہ نہیں کئے ) سے ہوجاتی ہے ۔

(۲) ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ۝۰ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۳ (الحدید) (وہی سب سے پہلے ہے اور وہی سب سے پیچھے بھی اور وہی ظاہر بھی اور وہی باطن بھی اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔ ) خط کشیدہ الفاظ وحدۃ الوجود کی صحت میں پیش کئے جاتے ہیں جو قطعاً غلط ہے کیونکہ نبی کریم ؐ نے والظاہر اور والباطن کی تفسیر انت الظاہر فلیس فوقک شیء ٌ و انت الباطن فلیس دونک شیء ٌ ( تو ظاہر (غالب ) ہے  پس کوئی چیز تجھ سے اوپر نہیں اور تو باطن ہے پس کوئی چیز تجھ سے چھپی ہوئی نہیں ) (مسند احمد ) کی ہے ۔ امام بخاری نے کتاب التفسیر میں الظاہر و الباطن کے معنی الظاہر علی کل شی ئٍ علماً و الباطن علیٰ کل شی ء علما   نقل کئے ہیں۔ آیت کا آخری جز  وَہُوَ بِکُلِّ شَیْ ءِ عَلِیْمٌ ( اور وہی ہر چیز کا علم رکھتا ہے ) کے ذریعہ دراصل اللہ کے وسعتِ علم کو بتایا گیا ہے اور خط کشیدہ الفاظ اس کے وسعتِ علمی کی تفصیل ہے ۔

(۳) ہُوَالَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْـتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ۝۰ۭ يَعْلَمُ مَا يَـلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْــرُجُ مِنْہَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْہَا۝۰ۭ وَہُوَمَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۴ (الحدید)  (وہی  ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر متمکن ہوا وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس میں سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں چڑھتی ہے جہاں کہیں بھی  تم ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو وہ سب کچھ دیکھتا ہے ) ۔

(۴)  لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝۵  يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَيُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ۝۰ۭ وَہُوَعَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۶ (الحدید) ( آسمانوں اور زمین کی فرمانروائی صرف اللہ ہی کے لئے ہے اور سارے معاملات اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اور اللہ ہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور وہ دلوں کے بھیدوں کا جاننے والا ہے)

(۵)  اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَرَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ہُوَسَادِسُہُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا ہُوَمَعَہُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا۝۰ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۷ (المجادلہ)( کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ کوئی سرگوشی تین آدمیوں میں نہیں ہوتی جس میں چوتھا اللہ نہ ہو اور نہ پانچ کی ہوتی ہے جس میں چھٹا اللہ نہ ہو اور نہ اس سے کم کی یا زیادہ کی مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں پھر وہ ان کو ان کے کئے سے آگاہ کرے گا قیامت کے دن ‘ بے شک اللہ ہر بات کا علم رکھنے والا ہے ۔) قرآن کے کسی لفظ یا جز یا آیت کا ایسا مفہوم ہرگز نہیں لیا جاسکتا جو سیاق و سباق اور دین کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہو اور نہ اپنے کسی عقیدہ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے آیات متشابہات پیش کرنا صحیح ہوگا ۔ اس لئے لفظ معکم و معھم سے یہ مطلب لینا کہ اللہ وجوداً یا صفاتاً ہمارے ساتھ ہے یا ہمارے صفات اللہ کے صفات کے پرتو ہیں یا جہاں صفات ہیں وہاں موصوف ہونے کی بات کسی طرح بھی صحیح نہیں ہوسکتی ۔ کیونکہ صفات ‘ موصوف کی ذاتی چیز ہے جو موصوف سے علیٰحدہ نہیں ہوسکتے اس لئے جہاں موصوف ہوگا وہیں صفات ہوں گے ۔ ہم مخلوق ہیں اور ہمارے صفات بھی مخلوق ہیں۔  فَجَعَلْنٰہٗ سَمِیْعاً بَصِیْراً  (الدھر:۲)  (ہم نے انسان کو سننے والا ‘ دیکھنے والا بنایا ہے) ہماری صفات محدود ہیں ‘ ذرائع و آلات کے محتاج ہیں۔ محض الفاظ کی یکسانیت و مشابہت کی بنا پر ہمارے صفات کو اللہ کے صفات کے ’پرتو ‘کہنا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ صانع ‘ صنعت میں اپنی کوئی چیز نہ ڈالتا ہے اور نہ پھونکتا ہے بلکہ صنعت سے صانع کی مہارت ‘ قدرت ‘ علم و حکمت کا علم حاصل ہوتا ہے۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اللہ ہماری ہر حرکت و سکون کا پہلے ہی سے علم رکھتا ہے اور ہم جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں وہ نہ صرف سنتا بلکہ دیکھتا بھی ہے جیسے کوئی ساتھ رہ کر دیکھتا اور سنتا ہے ۔ یہاں تک فرمایا کہ وہ دلوں کے بھیدوں کا علم بھی رکھتا ہے۔

کسی شخص کو یہ معلوم ہوجائے کہ حکومت کی خفیہ پولیس اس کی نقل و حرکت کی نگرانی کررہی ہے تو وہ اپنی نقل و حرکت میں کس قدر محتاط ہوجاتا ہے وہ محتاج بیان نہیں ۔ اسی لئے اللہ کی معیَّت کی بات کہی گئی ہے ۔ ان آیات میں انسان کے افکار و اعمال ‘ قول و عمل اور اس کے دلی بھیدوں سے باخبر ہونے کی بات دلائل کے ساتھ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ اس معاملہ میں کوئی شک و شبہ پیدا ہی نہ ہوسکے اور بندہ خلاف ورزی کرنے سے بچے اور اگر احیاناً کچھ ہو بھی جائے تو اللہ کے علیم و خبیر ‘ سمیع و بصیر ہونے کی حقیقت واقعہ کی بنا پر فوری توبہ و استغفار کریں ۔ اس کے بجائے ان آیات کو وحدۃ الوجود ‘ وحدۃ الشہود کے ثبوت میں پیش کرنا تحریف معنوی اور تفسیر بالرائے ہے۔

اپنے بندو ں سے بے انتہا محبت رکھنے والا خالق و رب  وَہُوَالْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ۝۱۴ۙ (البروج) (اور وہی بڑا بخشنے والا اور بڑی محبت کرنے والا ہے ) اپنے بندوں کو ہر قسم کے غیر ضروری اور غلط افکار و اعمال سے بچنے کے لئے  وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا۝۳۶  ( بنی اسرائیل) ( اور کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو ‘ یقیناً آنکھ ‘ کان ‘ دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے) کی بنیادی ہدایت دی ہے اور جس کی وضاحت (۱)   وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ اِلَّا الْحَقَّ۝۰ۭ  (النساء :۱۷۱)(اللہ کے متعلق حق کے سوا کوئی اور بات مت کہو)  (۲)  قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ (المائدہ:۷۷) (اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق کا مبالغہ مت کرو )  (۳)  اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِہٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۝۹۳ (الانعام) (آج (حشر کے دن ) تم کو ذلّت کا عذاب اس وجہ سے دیا جائے گا کہ تم اللہ کے متعلق حق بات کے خلاف باتیں کہتے تھے ) میں کردی گئی ہے۔ اور اس کی سنگینیت بتانے کے لئے فرمایا گیا کہ تم سے شیطان اللہ کے متعلق ایسی باتیں کہلواتا ہے جن کو تم نہیں جانتے ۔ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۱۶۹ (البقرہ) (شیطان تم سے اللہ کی طرف وہ باتیں منسوب کرواتا ہے جن کا تم کو کوئی علم نہیں ) اور ایسا کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو سورۃ الاعراف  آیت ۳۳  ۔ ایسی باتیں کرنے والوں کا دنیا اور آخرت میں جو انجام ہونے والا ہے اس کو بھی بیان کردیا گیا ہے ۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِہٖ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۱(الانعام) ( اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اللہ کے متعلق جھوٹی باتیں باندھا یا  اللہ کی باتوں کو جھٹلایا ‘ بے شک ایسے ظالم فلاح پانے والے نہیں ۔) ان تاکیدی ہدایات اور اس سنگین وعید کے باوجود محتاجِ محض انسان جس کی ہر چیز مخلوق و محدود و عارضی ہے وہ اپنے خالق و رب جس کی ہر چیز لامحدود ‘ ذاتی و ابدی ہے ‘ کی پیمائش کرنے میں لگ گیا ہے حالانکہ اللہ نے اس کا کوئی حکم نہیں دیا ۔ بلکہ اس قسم کی باتوں سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ غور کیجئے کہ شیطان ہم کو علم و عرفان کے نام سے کس قدر سنگین گمراہی میں مبتلا کردیا ہے ۔

مختصر یہ کہ سلوکِ اولیائی میں غیر مسنون اعمال کی افادیت کا تصور بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس سے منصب رسالت فضول قرار پاتا ہے اور الٰہی و نبوی تعلیمات کو علم ظاہر و منقولات کا نام دے کر ان کی قدر و قیمت ‘ اہمیت و لزوم ذہنوں سے نکال دی گئی ۔ جس کے نتیجہ میں دوزخ سے بچنے کی فکراور مستحق جنت بننے کی تڑپ و لگن سے عامۃ المسلمین کے ہی نہیں بلکہ خواص کے قلوب بھی خالی ہوگئے اور مسلمان اپنا مقصد ِوجود (اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کرنا )بھلا بیٹھے جس کی پاداش میں مسلمان اہلِ باطل کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں جس سے چھٹکارا صرف اسی وقت مل سکتا ہے جبکہ ہم صحیح معنوں میں مسلمان ( اللہ کے فرمانبردار ) بننے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچانے کی  کوشش کرنے لگیں گے ۔

 

 

وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللہِ۝۰ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْہِ اُنِيْبُ(ھود۔۸۸)

میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں ‘ جہاں تک ہوسکے اور مجھے توفیق تو اللہ ہی سے ملے گی اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔