اعمال کی قبولیت کے شرائطِ الٰہی

واپس فہرست مضامین

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان بار بار رحم کرنے والا ہے

 

اعما ل کی قبولیت کے شرائطِ الٰہی

 

آخر ت میں دوزخ سے بچنے کے لئے اللہ کے بندوں کودنیامیں جوکام کرناہے وہی دین اسلام ہے (سورہ اٰل عمران: 19) یعنی زندگی کے ہر معاملہ میںاپنے پیدا کرنے اور پرورش کرنے والے کے احکام وہدایات کی اطاعت وفرمانبرداری کرناہے۔ اسی لئے اللہ نے بندوں کے اعمال کوقبول کرنے کے لئے اپنے حسب ذیل شرائط مقرر فرمایا ہے۔ اعمال قبول کئے جانے کے شرائط الہٰی بتانے کی بجائے اعمال کے فضائل بتانا کس تعریف میں آتاہے۔ غور کرلیاجائے۔

۱)مقصدصحیح ہونا

نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ‘ حج‘ قربانی ان عبادات سے ابدی زندگی کی تباہی کاخوف پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ کااٹل قانون یہ ہے کہ زندگی میںاگر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی جائے توابدی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ اسی ابدی تباہی سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے بچنے کی کوشش کرناہی دراصل تقویٰ ہے (سورہ البقرہ: 21،183‘ الحج: 37) ۔ تقویٰ کا انعام جنت ہے چنانچہ ارشاد الہٰی ہے، جنت  صرف  متقیوں ہی کے لئے ہے (سورہ محمد: 15‘ الذرایات: 15‘ الطور: 17‘ القلم: 34‘ النباء: 31)۔ یہ اعمال یعنی روزہ ‘نماز‘ حج ‘ قربانی وحصولِ تقویٰ کے بجائے اگر ثواب کے لئے کئے جائیں تو مقصدغلط ہونے کی وجہ سے قبول نہیں ہوںگے چنانچہ (نیک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے) فرمایا گیا: (حدیث)

۲)ہُوَمُؤْمِنْ(وہ ایمان والا ہو) (النساء: 124‘ النحل: 97‘ اسریٰ: 19‘ طٰہٰ: 112‘ انبیاء: 94اور المؤمن: 48) :-

 یعنی لاالہ الااللہ کانہ صرف زبان سے اقرار کرنے والا بلکہ اپنے ایمان کو شرک کے اجزاء سے بچانے کی بھی کوشش کرنے والا ہو (سورہ انعام: 82‘ الزمر: 17) ورنہ شرک سے تمام نیک اعما ل بربادکردیئے جائیں گے (سورہ انعام: 88‘ الزمر: 65)۔

۳)ریاء سے پاک

لوگوں کودکھانے کے لئے نہیں بلکہ آخرت میں کامیابی کے لئے عمل کیا جائے جو لوگوں کو دکھانے کے لئے نیک عمل کرتاہے یا اپنا مال خرچ کرتاہے، دراصل وہ نہ اللہ پر ایمان رکھتاہے نہ آخرت کے دن پر (البقرہ: 264)۔ رِیّا  کی ضد اخلاص ہے۔ ذرا سا بھی دکھاوا شرک ہے (حدیث)۔

۴)عبادت‘ ذکرویاد‘  اوراد  و  وظائف‘ ثواب کے کام‘ تزکیہ نفس اور تطہیر قلب کے تمام طریقے سنّتِ رسولؐ اوراسوۂ صحابہ ؓ کے مطابق ہونا لازمی ہے (سورہ النساء: 115‘ احزاب: 21) ’’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ‘‘ا گر یہ اعمال سنّتِ رسولؐ اور اسوۂ صحابہؓ کے مطابق نہ ہوںتو قطعی بدعت ہے گمراہی ہے اس لئے ان کو شَرُّالْاُمُوْرِ مُحْدِثَاتُہَا (مندرجہ بالا اعمال سنّتِ رسولؐ اور اسوۂ صحابہؓ کے مطابق نہ ہوں تو یہ بدترین کام ہیں) فرمایا گیا ہے گمراہی حسنہ وسیہ نہیں ہوسکتی بلکہ ہلکی یا سنگین ہوسکتی ہے۔ اس لئے بدعت حسنہ وسیہ کی تقسیم غلط ہے۔

۵)صرف وہی عمل قبول ہوگا جو حالت اطاعت و فرمانبرداری میں کیا گیا ہو یتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (المائدہ: 27) ترجمہ: (اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کی نیاز قبول فرماتے ہیں) حالت نافرمانی میں کیا ہوا عمل ہرگز قبول نہیں ہوگا (التوبہ: 53، 54، 61) اسی لئے ہر وقت توبہ کرتے رہنا اور اپنی غلطیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہنا ضروری ہے۔

۶)عمل کو قبول کرنے کی التجاء امید و خوف کے ساتھ کی جائے (سورہ اعراف: 56، 57، البقرہ: 127) کیونکہ عمل میں کیا غلطیاں ہیں اورکتنی خرابیاں ہیں اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ ابراہیمؑ دعا میں دعاء کو قبول کرنے کے لئے دعاء کئے ہیں (سورہ ابراہیم: 40)۔

۷)عمل کرتے وقت دل کی حالت

نیکی پرنیکی کرنے والوں کے دل، حساب دینے کے لئے رب کے سامنے کھڑے ہونے کے تصور ہی سے خوف کھاتے ہیں (سورہ المؤمنون: 60-61)۔ نیک اعمال کرکے ان کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا نہ کرنا پیغمبروں کے طریقہ کے خلاف کرنا ہے۔وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ۝۰ۭ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۱۲۷ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّكَ۝۰۠ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا۝۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۱۲۸ (سورہ البقرہ) ترجمہ: (اور جس وقت ابراہیمؑ اور اسماعیل ؑ اس گھر کی (تعمیر کررہے تھے یعنی) دیواریں بلند کررہے تھے (ان کی دعائیں یہ تھیں) اے ہمارے رب ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بے شک آپ ہی (دعاؤں کو) سننے والے اور ہر چیز جاننے والے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ہم کو اپنا اطاعت گزار بندہ بنادیجئے، نہ صرف ہم کو بلکہ ہماری نسلوں کو بھی ایسی امّت بنایئے جو آپ کی فرمانبردار ہو اور ہم کو اس گھر کی زیارت کے آداب (مناسکِ حج) بتادیجئے اور ہمارے حال پر ہمیشہ توجہ فرماتے رہیے۔ بے شک آپ بڑے ہی معاف کرنے والے اور بار بار رحم کرنے والے ہیں) اور آگے بھی دعا کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں ہم کو اہم ترین سبق یہ بھی مل رہا ہے کہ انبیاء علیہم السلام بھی خود سے عبادات کے طریقے تجویز نہیں کرلیئے بلکہ تمام انبیاء کرام طریقۂ عبادت کے لئے اپنے رب کے حکم کے محتاج تھے بلکہ یہ جانتے تھے کہ اپنے طور سے عبادت کرنے میں رب کی ناراضگی اور پکڑ ہوگی۔