شیطان سے انٹرویو

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

شیطان سے انٹرویو

کمی و بیشی کے ساتھ ماخوذ

شائع کردہ: صفۃ دعوت اصلاح‘ پوسٹ باکس نمبر: ۴‘ گوجرانوالہ

(اگر ابلیس سے انٹرویو ممکن ہوتا تو میرے ہر سوال پر اس کا جواب کچھ اس طرح ہوتا)

 

سوال:  تمہارا نام؟

شیطان کا جواب:       (۱) ابلیس۔ ’جن‘ کی نسل سے ہوں (کہف: ۵۰) جو آگ سے پیدا کی گئی (الحجر:۲۷) جس کو بنی آدم نہیں دیکھ سکتے۔ (اعراف:۲۷) اور نہ اپنے آپ کو کسی طرح سے بھی ان کو دکھا سکتا ہوں اور نہ میں روپ بدل سکتا ہوں اور نہ بھیس اور اپنی آواز بھی ان کو نہیں سنا سکتا غرض ان کو کسی قسم کا بھی جانی یا مالی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا البتہ ان کے سینوں میں صرف وسوسہ ڈالنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ (ابراہیم:۲۲‘ سورہ الناس) پیارے انسان مجھے اور اپنے بچوں کو شیطان کہتے ہیں۔

س:     اس سے پہلے کہ سوالات کا سلسلہ شروع ہوا‘ ایک چھوٹی سی بات! اکثر بہن بھائیوں کو شکایت ہے کہ وہ اعوذ باللہ بھی پڑھتے ہیں مگر تم جاتے نہیں۔

ش:     کمال ہے! تم کہتے ہو میں جاتا نہیں‘ میں کہتا ہوں میں آتا ہی نہیں۔

س:     دیکھو! اانٹرویو سے پہلے تم کہہ رہے تھے کہ تمہارے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت‘ اب خود ہی ہنسی مذاق میں وقت ضائع کررہے ہو۔

ش:     مذاق کرنا تو جاہلوں کا کام ہے‘ شاید تم پوری طرح سمجھ نہیں پائے‘ تم نے کہا اعوذ باللہ پڑھنے سے میں جاتا نہیں‘ میں نے جواب دیا میں آتا نہیں۔ لو سنو! ابھی سمجھائے دیتا ہوں۔ تم نے کسی امیدوار کو انتخابی مہم کے دوران ووٹ مانگتے تو دیکھا ہوگا کہ الیکشن تو تمہارے ہاں ہر روز کا ڈرامہ ہے۔ امیدوار صاحب ٹی پارٹی کے چند ممبروں کو ساتھ لے کر گھر گھر ووٹ مانگتے پھرتے ہیں۔ جونہی ایک ساتھی کسی گھر کی گھنٹی بجانے لگے‘ امیدوار صاحب فوراً چونکے ’’اوں ہوں! گھنٹی نہ بجانا‘ وقت ضائع نہ کرو‘ ادھر جانے کی ضرورت نہیں‘ یہ اپنا ہی آدمی ہے۔‘‘ ’’بھولے بادشاہ ہو! اسی طرح تم بھی اپنے ہی آدمی ہو۔‘‘

س:     پہلا سوال! کیا تم بتانا پسند کرو گے تم مردود کیوں قرار پائے اور ذلت تمہارے حصے کیسے آئی؟ تمہارا پچھلا ریکارڈ دیکھتے ہوئے امید تو نہیں مگر ہوسکے تو پورا واقعہ سچ سنانا۔

ش:     جاؤ! آج تم سے وعدہ کرتا ہوں جو کہوں گا سچ کہوں گا‘ سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا اور یہ جملہ پہلی دفعہ میری زبان سے ادا ہورہا ہے‘ ورنہ عدالتوں میں اکثر میرے ساتھی ہاتھوں میں قرآن پکڑ کر روزانہ اس جملے کا ورد کرتے ہیں۔ مگر تمہاری یہ بات سن کر حیران ہورہا ہوں کہ پورا واقعہ سچ سنانا‘ شکل و صورت سے تم پڑھے لکھے نظر آتے ہو مگر لگتا ہے میری ہی کسی برانچ کے تعلیم یافتہ ہو۔ یہ بتاؤ! کیا اللہ سے بڑھ کر کسی کی بات سچی ہوسکتی ہے؟

س:     نہیں۔

ش:     جھوٹ بولتے ہو‘ اگر تمہیں یقین ہوتا کہ سب سے اچھی بات اللہ کی ہے تو ایسا سوال کرنے کی جرأت نہ کرتے۔ بے وقوف! اللہ نے آج سے دیڑھ ہزار سال پہلے کائنات کی سب سے سچی زبان‘ زبان محمدؐکے ذریعہ پورا واقعہ حرف بحرف سنا دیا تھا۔ جو تم میں سے ہر گھر میں آج بھی ویسا ہی لکھا ہوا موجود ہے۔ افسوس! آج تک تمہیں فرصت ہی نہ مل سکی کہ تم اس کتاب کو کھول کر دیکھ سکو‘ پھر میرے ہی کہنے کے مطابق تم نے اسے خوبصورت چمکیلے اور معطر غلاف میں لپیٹ کر اتنی اونچی جگہ رکھ دیا کہ جہاں کسی بڑے کا ہاتھ بھی نہیں پہنچتا اور اگر کسی کے گھر اتنی اونچی جگہ نہ ہو اور وہ کسی کی موت پر اسے کھول کر دیکھ ہی لے تو اس بے چارے کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس میں لکھا کیا ہے۔ ماشاء اللہ عقیدت ہو تو ایسی۔ ماتم کرو اپنی حالت پر کہ واقعہ قرآن کا ہے‘ اورسنا ‘میں رہا ہوں۔ گھبراؤ مت! ترجمہ سناؤں گا۔

          اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔ جب میں اسے بنادوں اور اس میں جان ڈال دوں تو سب اس کو سجدہ کرنا۔ سب نے سجدہ کیا سوائے میرے‘ میں نے انکار کردیا‘ اللہ تعالیٰ نے کہا۔ کیوں تو نے سجدہ نہ کیا؟ جب کہ میں نے تجھے حکم دیا۔ میں نے کہا کہ اس سے بہتر ہوں‘ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا۔ نکل جا یہاں سے بے شک تو مردود ہے۔ تب میں نے رب سے دعا کی میرے جرم کی واقعی سزا حشر کے دن تک مجھے نہ دے تو میری دعا قبول کی گئی اور دعا قبول ہوتے ہی میں نے کہا میں بھی بنی آدم کو تیرے سیدھے راستے سے گمراہ کرنے کے لئے ضرور ان کی تاک میں بیٹھوں گا اور انہیں بہکانے کے لئے ان کے پاس آؤں گا‘ ان کے آگے سے پیچھے سے‘ دائیں سے‘ بائیں سے اور تو ان میں سے اکثر کو شکرگزار نہ پائے گا۔ (اعراف: ۱۴ تا ۱۷) اللہ تعالیٰ نے کہا جس کسی نے تیری پیروی کی تو یقینا تم سب سے جہنم کو بھردوں گا۔ (اعراف:۱۸)

یہ تھی اصل صورتحال! اب تمہیں پتہ چل گیا کہ میں مردود کیوں ٹھہرا؟ مجھے لعنتی اور مردود کہنے والو! دوسروں کی آنکھ میں پڑا تنکا تو تمہیں نظر آتا ہے اور اپنی آنکھ میں پڑا شہتیر بھی نظر نہیں آتا۔ کبھی اپنے کرتوتوں پر غور کیا تم نے؟ میں نے تو اللہ کے حکم پر ایک سجدہ نہ کیا تو مجھے شیطان اور لعنتی قرار دے دیا گیا مگر تمہیں تو اللہ ہر روز پانچ مرتبہ سجدے کے لئے بلاتا ہے مگر تم روزانہ پانچوں مرتبہ انکار کردیتے ہو‘ کیا تم مجھ سے بڑے شیطان نہ ہوئے؟ اور بتاؤ! قیامت کے دن تم کتنے بڑے لعنتی قرار پاؤ گے۔

عقل کے اندھو! میں نے اللہ کو چیلنج کیا کہ تمہیں چھوڑوں گا نہیں اور اپنے ساتھ جہنم میں لے کر جاؤں گا‘ یہ قدر کی تم نے اللہ کی کہ اس چیلنج میں میرے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور مجھے سچا ثابت کرنے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہو۔ تمہاری زبان تو گواہی نہیں دیتی مگر تمہاری منافقانہ حرکتیں بتاتی ہیں کہ اس وقت میں حق پر تھا۔ تمہارے ہی متعلق اللہ نے قرآن میں لکھا ہے کہ ’’تم لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ قدر کرنے کا حق تھا۔‘‘ ذرا اپنی شکلیں اور اپنے کرتوت دیکھو! کیا اس طرح کے ہوتے ہیں اللہ کے بندے؟

س:     تم تو دوسروں کو غصہ دلاتے ہو اور آج خود غصے سے کانپ رہے ہو‘ لو پانی پیو‘ ابھی تو بہت سے سوالات باقی ہیں۔ میرا اگلا سوال! ہمارے پیارے پیغمبر جناب محمدؐ کے پاک فرمان کے مطابق رمضان میں تمہیں قید کردیا جاتا ہے۔ میں پوچھنا چاہوں گا‘ کیا تم دوران قید بھی کوئی داؤ چلانے کی کوشش کرتے ہو؟

ش:     واہ! مزہ آگیا‘ بڑا دلچسپ سوال کیا تم نے‘ اس میں شک نہیں کہ رمضان میں واقعی مجھے قید کردیا جاتا ہے مگر (ہنستے ہوئے) تم لوگ تو قید نہیں ہوتے۔ تم جیسے مہربانوں کے آزاد پھرنے سے رمضان میں بھی میرا کاروبار چلتا رہتا ہے اور اگر بالکل بند بھی ہوجائے تو کوئی پرواہ نہیں‘ بس عید کا چاند نظر آنے کی دیر ہوتی ہے‘ پورے رمضان کی کسر صرف ایک رات میں نکال لیتا ہوں‘ مثال کے طور پر پورا رمضان روزے رکھنے والی‘ نیک پروین‘ جب چاند رات شوخ میک اپ‘ کھلے سینے اور لہراتے ہوئے بالوں کے ساتھ بازار جاکر چوڑی گر (اصل میں وہ چوڑی گر کے دوست ہوتے ہیں جو پورا سال اس موقع کی تاک میں رہتے ہیں) کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتی ہے تو تمہارے گمان میں بھی نہ ہوگا کہ اللہ اس وقت کتنا غصب ناک ہوتا ہے اور میں! میں اس وقت خوشی سے جھوم رہا ہوتا ہوں۔ واہ! کیا عجب سماں ہوتا ہے اس وقت‘ آنکھوں سے زنا‘ ہاتھوں سے زنا‘ کانوں سے زنا‘ زبان سے زنا اور پاس ہی ان عورتوں کے شوہر‘ باپ یا بھائی‘ کھڑے دیکھ رہے ہوتے ہیں‘ عجب الٹی کھوپڑی کے مالک ہو تم لوگ‘ اگر چوڑی گر کے علاوہ کوئی اس طرح بھرے بازار میں تمہاری بہن‘ بیوی یا بیٹی کا ہاتھ پکڑ لے تو فائرنگ شروع‘ بازار بند‘ نعشوں کے ڈھیر‘ ہڑتال۔ مگر اس وقت تمہاری غیرت پتہ نہیں کہاں گئی ہوتی ہے؟

          پھر چاند رات ہر گھر‘ گلی محلے اور بازار میں انڈین گانوں کی گونج‘ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ گلیوں اور بازاروں میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی گہما گہمی دیکھ کر بے اختیار مجھے ہنسی آجاتی ہے کہ دیکھو ان قرآن و حدیث کے جھوٹے دعویداروں کو۔ کیا قرآن نہیں کہتا کہ میں تمہارا کھلم کھلا دشمن ہوں؟ کیا حدیث میں تمہارے نبیؐ کا فرمان نہیں کہ رمضان میں مجھے قید کردیا جاتا ہے؟ پھر چاند رات تمہارا اس طرح جشن منانا۔ احمقو! جب دشمن قید سے آزاد ہوتا ہے تو اس طرح گانے گا کر خوشیاں مناتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تم نے مجھے دشمن سمجھا ہی کب تھا؟ میری رہائی پر تمہاری خوشی اور استقبال‘ یہ سب کچھ ثابت کرتا ہے کہ تم مجھ سے کتنی والہانہ عقیدت رکھتے ہو۔ بہرحال تم لوگوں نے اب تک میرا بہت ساتھ دیا اور اللہ نے چاہا تو ہمارا یہ ساتھ جہنم میں بھی برقرار رہے گا۔

س:     اللہ جانے لوگ تمہاری دوستی پر کیسے یقین کرلیتے ہیں؟ تمہارے تو ایک ایک لفظ سے انسان دشمنی کی بو آرہی ہے۔ جی تو نہیں چاہتا کہ تم سے مزید کوئی سوال کروں مگر … یہ بتاؤ کوئی ایسا واقعہ جہاں تمہیں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور تمارا ہر حربہ ناکام ہوگیا؟

ش:     بڑا تکلیف دہ سوال ہے! یہ اس وقت کی بات ہے جب ابراہیمؑ کو اللہ تعالی نے خواب میں دکھلایا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو ذبح کررہے ہیں۔ مجھے پہلے ہی وہ بات بڑی چبھتی تھی جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی بیان فرمادی کہ ’’ابراہیم کو جن باتوں میں آزمایا‘ اس نے سب کی سب پوری کرکے دکھائے۔ ایک دن ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے سے کہا۔ بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں‘ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا‘ اے ابا جان! وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے ضرور صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ دونوں باپ بیٹے تڑکے تڑکے گھر سے روانہ ہوگئے۔ بیٹا! اپنی جوانی‘ اپنا حسن‘ اپنی امیدوں اور امنگوں کی دنیا قربان کرنے کے لئے خوشی خوشی جارہا تھا اور باپ اپنی سو سالہ دعاؤں کا پھل‘ اپنے لخت جگر و نورنظر کو قربان کرنے جارہا تھا۔ دونوں بڑے خوش اور بے حد مسرور تھے۔

میں نے سوچا آج تک ابراہیم نے مجھے ہر قدم پر تکلیف پہنچائی۔ اگر آج اس کا بنا بنایا کھیل نہ بگاڑ دوں تو میرا نام ابلیس نہیں۔ میں دوڑتا ہوا ان کے گھر پہنچا‘ بی بی ہاجرہ تشریف فرما تھیں۔ پوچھا میاں جی کہاں ہیں اور ننھا اسماعیل نظر نہیں آرہا۔ بی بی ہاجرہ نے بتایا کہ دونوں باپ بیٹا سیر و تفریح کے لئے گئے ہیں۔ میں نے کہا نہیں! تم دھوکے میں ہو’ ابراہیم آج تیرے بچے کو ذبح کرنے گیا ہے‘ دوڑو اور فوراً اپنے بچے کو بازو سے پکڑ لو ورنہ چند لمحوں بعد تم اس کی لاش پر بین کررہی ہوگی۔ کہنے لگی ’’کبھی باپ بھی اپنے بیٹے کو قتل کرتا ہے اور ابراہیمؑ کو تو اپنے بیٹے سے بڑا پیار ہے۔ تم جھوٹ بک رہے ہو‘ نکلو یہاں سے۔‘‘ میں نے کہا بھولی بنی بیٹھی ہو‘ وہ آج ضرور تیرے بچے کو ذبح کردے گا۔ اس لئے کہ اللہ نے اسے حکم دیا ہے۔ یہ سنتے ہی بی بی ہاجرہ نے کہا ’’اگر اللہ کا حکم ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں‘ یہ تو ایک اسماعیل ہے اگر ہزار اسماعیل ہوں‘ تب بھی اس کے ایک اشارے پر قربان کردوں۔‘‘ ماں کا دل بڑا نرم ہوتا ہے۔ یہاں مجھے اپنی کامیابی کی سو فیصد امید تھی لیکن منہ کی کھائی‘ میں نے ہمت نہ ہاری‘ دوڑتا ہوا اسماعیل کے پاس پہنچا۔ وہاں سے بھی اسی قسم کا جواب ملا۔ ہمت کرکے آخری وار آزمانے کے لئے ابراہیمؑ سے جاکر الجھ پڑا اور کہا اتنے عقلمند ہوکر بچے کو ذبح کرنے چلے ہو‘ یہ کہاں کی ہوشمندی ہے؟ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے اور سینکڑوں طریقے ہیں‘ بڑھاپے میں ایک بچہ ملا‘ وہ بھی اتنا حسین کہ جسے دیکھ کر چاند شرمائے‘ اس کو ذبح کرنے چلے ہو‘ تمہارا تو نام لینے والا کوئی نہیں رہے گا‘ نسل ختم ہوجائے گی‘ خاندان مٹ جائے گا اور یہ جو خواب خواب کی رٹ لگا رکھی ہے‘ یہ شیطانی وسوسہ بھی ہوسکتا ہے‘ اگر اللہ نے یہ حکم دینا ہوتا تو جبرئیلؑ  کو بھیجاہوتا۔ ابراہیم ؑنے زمین سے پتھر اُٹھایا اور مجھے دے مارا۔ تین دفعہ ایسا کیا‘ میری آنکھیں کھل گئیں اور پتہ چل گیا کہ آج اللہ کے کس بندے سے واسطہ پڑا ہے۔

اب اسی واقعہ کو سنّت کے طور پر تم لوگ اتنے مہنگے اور کئی جانور قربان کرتے ہو۔ مگر میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہارا ان قربانیوں کے پیچھے کیا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ پرلے درجے کے ریاکار ہو تم لوگ‘ اگر نہیں‘ تو رشوت لینا گالیاں بکنا‘ جھوٹ بولنا‘ گانے سننا‘ ڈرامے اور فلمیں دیکھنا‘ چغلی کھانا‘ سگریٹ پینا‘ سارا سارا دن تاش اور شطرنج کھیلنا بند کرو اوراعلان کروکہ آج سے تم نے اللہ کی خاطر اپنی یہ عادتیں بھی قربان کیں‘ ایسا نہیں کرتے! اور جانور اس لئے قربان کرتے ہو کہ اس میں پبلسٹی ہوتی ہے۔

س:     چلتے چلتے‘ تم سے ذرا عمر کے بارے میں پوچھتا چلوں؟

ش:     بس بھئی بس! میں جارہا ہوں‘ بابا! مجھے تو ان سے بہت ڈر لگتا ہے۔

س:     ارے! جا کہاں رہے ہو‘ سنو تو سہی‘ کس سے ڈر لگتا ہے؟

ش:     عمر رضی اللہ عنہ سے

س:     پاگل ہوگئے ہو‘ میں تو تمہاری عمر کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔

ش:     اچھا! میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ میں سمجھا شاید عمرؓ کی بات کرنے لگے ہو۔ اللہ کی قسم! مجھے تو ان کے سائے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ یقین کرو جس راستے سے عمرؓ آتے‘ میں وہ راستہ تبدیل کرلیتا‘ اتنی دہشت تھی ان کی۔ آہ! ایک وہ شخصیت تھی کہ جس کے تقویٰ اور قوت ایمانی سے ڈرتے ہوئے میں راستہ بدل لیتا تھا اور ایک تم ہو کہ بے حیائی میں اتنے دور نکل گئے ہو کہ اب تمہیں دیکھ کر میں شرم سے راستہ تبدیل کرلیتا ہوں‘ رہا میری عمر کے متعلق سوال‘ تو کیا تم اور تمہاری بیویاں اپنی مبارک عمر بتاتے ہو جو میں بتاؤں؟ ہاں! عمر کے بارے میں اتنا ضرور کہوں گا کہ مجھے وہ تمام کام پسند ہیں جو تمہیں جوانی میں پسند ہوتے ہیں۔ کوئی اور سوال ہو تو بھائی! ذرا جلدی پوچھ لو۔

س:     زبان کو لگام دو‘ خبردار! جو مجھے بھائی کہا۔

ش:     کیا کوئی غلط بات کہہ دی جو اس طرح آپے سے باہر ہورہے ہو؟ میں نے قرآن کے مطابق بات کی ہے۔ شب معراج اور شب برأت کے موقع پر جب اپنے بچوں کو سینکڑوں کے حساب سے پھلجھڑیاں‘ ہوائیاں اور پٹاخے لاکر دیتے ہو‘ بسنت کے موقع پر ہزاروں کی ڈور اور پتنگیں‘ شادی کے موقع پر بینڈ باجے‘ آتش بازی‘ چراغاں‘ مہندی کی رسم اور ویڈیو فلم وغیرہ۔ جاؤ! جاکر سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۲۷ دیکھ لو اللہ خود تمہیں میرا بھائی قرار دیتا ہے۔ اگر میرے منہ سے نکل گیا تو کونسی آفت آگئی؟

س:     اچھا! یہ بتاؤ کہ تم عام طور پر ملتے کہاں ہو؟

ش:     بڑا سادہ سا اڈریس ہے۔ مسجدوں‘ مدرسوں اور نیک مجالس کے باہر‘ دلیل کے طور پر اپنی مساجد کی حاضری دیکھ لو اور رہا درس قرآن‘ وہ تو ایسے ہی آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے‘ اتفاق سے جہاں ہوتا ہے وہاںاتنے اشتہارات‘ بیانر اور بار بار اعلانات کے باوجود گنتی کے چند بوڑھے افراد میری موجودگی کی دلیل ہیں۔

س:     عجیب بات ہے! تمہیں تو کسی سینما گھر یا تھیٹر کے باہر ہونا چاہئے تھا؟

ش:     تم تو پڑھے لکھے بے وقوف ہو۔ مجھے کیا پاگل کتے نے کاٹا ہے یا میں تمہاری طرح اتنا فارع ہوں کہ سینما گھر کے باہر بیٹھا مکھیاں مارتا رہوں۔ میرا تو صرف اتنا ہی کام ہوتا ہے کہ تمہیں اشارہ کروں کہ فلاں سینما میں بڑے فحش مناظر دکھائے جاتے ہیں‘ ضرور چلنا چاہئے۔ سجنو! تم وہاں مجھ سے پہلے موجود ہوتے ہو‘ پھر پانچ سات سو افراد اندر اور دروازے بند۔ اب بتاؤ! میرا وہاں کیا کام؟

س:     تم سے یہ پوچھنا یاد نہیں رہا کہ تمہاری خوراک کیا ہے‘ یعنی کھاتے کیا ہو؟

ش:     بس تم جیسے دوستوں کی مہربانی ہے۔ مرغ کا گوشت‘ بکرے کا گوشت‘ تلے کباب‘ مچھلی‘ بریانی‘ سری پائے‘ ہریسہ وغیرہ۔ ’’چنگا چوکھا‘‘ کھانے کو مل جاتا ہے۔

س:     عجیب بات ہے کہاں سے خریدتے ہو یہ سب کچھ؟

ش:     تمہارے ہوتے مجھے کیا پڑی کہ پیسے ضائع کروں۔ جب تم سامنے پڑے مختلف قسم کے کھانے بغیر بسم اللہ پڑھے کھاتے ہو تو ایک ایک لقمہ میرے پیٹ میں جارہا ہوتا ہے۔

س:     اس بات کی کوئی دلیل؟

ش:     شرم آنا چاہئے تمہیں! اپنے بنیؐ کے فرمان کے بعد بھی دلیل مانگتے ہو‘ پھر بھی تسلی نہ ہو تو ابھی سمجھائے دیتا ہوں۔ اتنی مرغن غذائیں کھانے کے باوجود تمہارے جسموں میں رتی بھر طاقت نہیں‘ اگر تم خود کھاتے تو تم میں ہمت ہوتی؟

س:     ایسا گناہ جس کے بارے میں تمہاری شدید خواہش ہو کہ بہت زیادہ لوگ ملوث ہوں؟

ش:     گناہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ البتہ شرک ایک ایسا گناہ ہے جس کے بعد میں اس شخص سے مطمئن ہوجاتا ہوں کہ اب میری محنت ضائع جانے کا کوئی امکان نہیں۔ کیوں کہ باقی گناہوں پر محنت رائیگاں جانے کا اندیشہ ہوتا ہے کہ اللہ جس کے چاہے جتنے چاہے گناہ معاف کردے‘ مگر شرک ایک ایسا گناہ ہے جو معاف نہیں ہوگا اور یہی تو میری اصل کمائی ہے۔ ایک دلچسپ بات بتاؤں! شرک تو بہت بڑی بات ہے۔ جب تمہارے بچے اسکول میں کورس کی شکل میں پڑھتے ہیں‘ سن ڈے‘ مون ڈے‘ ٹیوز ڈے‘ یا مئی‘ جون‘ جولائی۔ میرا کلیجہ تو اس سے ہی ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔

س:     اس میں خوشی کی کونسی بات ہے؟ یہ تو عام دنوں اور مہینوں کے نام ہیں۔

ش:     جی ہاں! دنوں اور مہینوں کے نام ہیں مگر وضاحت سنو گے تو میری خوشی کی وجہ سمجھ جاؤ گے۔ دھیان سے سننا اور اگر ہوکے تو اپنے بچوں کو بتا دینا۔ سن ڈے (سورج دیوتا کا دن)‘ مون ڈے (چاند دیوتا کا دن)‘ ٹیوز ڈے (جنگ کے دیوتا کا دن)‘ تھارس ڈے (بادلوں کی گرج کے دیوتا کا دن)‘ فرائی ڈے (محبت کی دیوی فرائیگا کا دن) یا جیسے مئی (رومن دیوتا مٹیا)‘ جون (شادی کی دیوی جونو)‘ جولائی (رومی شہنشاہ جولیس) یہ تمام دنوں اور مہینوں کے نام دیوی اور دیوتاؤں کے نام پر ہیں اور یہ وہ دن اور مہینے ہیں کہ جن میں ان کی پوجا ہوتی تھی۔ اب بتاؤ! میرے لئے خوشی کا مقام ہے یا نہیں۔

س:     آج کل کمرشیل ازم کا دور ہے اور ہر کوئی اپنے کام میں نت نئی تبدیلیاں لاتا ہے‘ کیا تم بھی اپنے کام میں کوئی جدت پیدا کرتے ہو؟

ش:     بڑے ہوشیار بنتے ہو‘ آہستہ آہستہ میرے سارے داؤ پیچ جاننا چاہتے ہو‘ بعض باتیں بتانے سے کاروبار مندا پڑجاتا ہے لیکن تمہیں اللہ اور اس کے رسولؐ نے میرے بہت سے حربوں سے آگاہ کیا اور تم اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے اب میرے بتانے سے اپنا کیا بچاؤ کرو گے؟ تم بڑے مزے سے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھے ہو اور میں ہمہ تن مصروف ہوں کہ کوئی جانے نہ پائے۔ وقت کم ہے صرف ایک ہی طریقہ واردات کا ذکر کروں گا۔

          پہلے لوگ قالینوں یا میز کرسیوں پر بیٹھ کر تاش کھیلتے تھے‘ مگر بعض نادان دوستوں نے بازاروں میں بیٹھ کر کھیلنا شروع کردیا۔ جسے ہر کوئی معیوب سمجھنے لگا اور عام آدمی میرے قابو سے باہر ہونے لگا۔ اب میں نے بہت جدید محفوظ طریقہ استعمال کیا ہے۔ جناب! یہ کیا ہورہا ہے؟ جی یہ کرکٹ میاچ ہورہا ہے‘ ایک لاکھ کے قریب مجمع اور شاید ہی کوئی ’’بے وقوف‘‘ ایسا ہو جس نے جوئے پر رقم نہ لگا رکھی ہو‘ دیکھ لو‘ ایک تیر سے کتنے شکار کرتا ہوں۔ پہلے ڈش سے میں بدکاری‘ فحاشی اور بے پردگی جیسے کام لیتا تھا‘ مگر اب جوئے میں بہت کام دے رہی ہے۔ میاچ انگلینڈ میں اور جوا پاکستان کے گلی محلوں میں ہورہا ہوتا ہے اور اگر پاکستان اور شارجہ میں ہو تو موجیں ہی موجیں‘ پھر جوئے کے علاوہ تقریباً ایک لاکھ افراد کو نماز جمعہ سے روکے رکھتا ہوں۔ عصر بھی گئی‘ مغرب اسٹیڈیم سے باہر نکلتے ہوئے‘ عشاء تھکاوٹ کی وجہ سے ضائع ہوگئی اور فجر کی نماز کے لئے جاگ نہ سکے۔ بڑے پکے نمازی میاچ کی وجہ سے میرے قابو میں آجاتے ہیں۔ یقین کرو مجھے اس وقت بہت ڈر لگتا ہے کہ اسٹیڈیم پر کہیں آگ نہ برسنی شروع ہوجائے کہ ادھر خطبہ جمعہ ہورہا ہے اور ادھر ایک لاکھ کے قریب ’’کٹر مسلمانوں‘‘ کا جم غفیر گانے‘ نعرے‘ چھن چھن اور شور شرابے میں مصروف ہے۔

س:     بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہے ہو‘ خیر تو ہے؟

ش:     تم نے راڈو پہنی ہوئی ہے لوگوں کو دکھانے کے لئے جبکہ گھڑی کا صحیح استعمال تو میں کرتا ہوں‘ میرا ایک ایک سکنڈ قیمتی ہوتا ہے‘ تمہارا کیا ہے تم جہاں مداری لگی دیکھتے ہو گھنٹوں وہیں کھڑے رہتے ہیں۔

س:     بس آخری سوال! کونسے ایسے مواقع ہیں جہاں تم سے بچنا انتہائی مشکل ہوتا ہے؟

ش:     ویسے تو ہر جگہ یکساں محنت کرتا ہوں مگر چند مواقع ایسے ہیں‘ کوئی کوئی مائی کا لال بچتا ہے۔

٭       جب کوئی غیرمحرم مرد اور عورت اکیلے ہوں تو اس وقت تیسرا میں ہوتا ہوں‘ اس وقت میرے شکنجے سے بچنا انتہائی مشکل ہوتا ہے‘ پہلے ایسے مواقع پیدا کرنے کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی تھی مگر اب ماشاء اللہ۔

٭       جب کوئی غصہ میں ہوتو اس کی رگوں میں خون کی جگہ میں دوڑ رہا ہوتا ہوں۔ پانچ دس روپئے کی خاطر قتل جیسا گھناؤنا جرم کروادیتا ہوں۔ غصہ دلانے کے لئے بھی پہلے بہت محنت کرنی پڑتی تھی‘ لوگ ٹھنڈے تھے مگر اب جسے دیکھو کاٹنے کو دوڑتا ہے اور جو جتنا زیادہ گرم ہو‘ اتنا ہی زیادہ‘ پہنچا ہوا‘ مشہور ہوتا ہے۔ اس گناہ میں بڑے بڑے صاحب علم میرے قابو میں آجاتے ہیں۔ جن پر لوگ تنقید کرنے کی بجائے ہنس کر کہہ دیتے ہیں‘ دراصل علم بڑا گرم ہوتا ہے۔ پھر تم میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو غصے میں پاگل ہونے کی بجائے ’’سیانے‘‘ ہوجاتے ہیں۔ انہیں جب بھی غصہ آتا ہے کمزورہی پر پل پڑتا ہے۔

٭       جب کوئی اللہ کی راہ میں دینے لگے تو پیار سے کہتا ہوں کہ اچھے بھلے سیانے آدمی ہو‘ تمہیں خود پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔ کاروبار سے پیسے نکالوگے تو کاروبار کے پلے کیا رہ جائے؟ پہلے ہی کام ٹھپ ہیں‘ انہی پیسوں سے بیوی کے لئے کوئی لاکٹ خرید کر لے جاؤ‘ خوش ہوجائے گی‘ رنگین ٹی وی‘ وی سی آر‘ ڈش‘ پہلے گھر کے یہ لوازمات تو پورے کرلو‘ دوسروں کے بچے گاڑیوں میں اسکول جاتے ہیں اور تمہارے سیکل پر‘ پھر بھی اگر باز نہ آئے تو میں کہتا ہوں‘ اچھا! نماز ختم ہوگی تو سب کے سامنے امام صاحب کو دینا۔

٭       جونہی کسی نے جہاد پر جانے کا ارادہ کیا‘ میں فوراً افسوس کرنے پہنچ جاتا ہوں‘ نیکیاں تو تو تم پہلے بھی کرتے ہو‘ اتنا مشکل ثواب حاصل کرنے کی کیا ضرورت کہ جان چلی جائے؟ اتنا وسیع کاروبار کون سنبھالے گا‘ بیوی بیوہ ہوجائے گی‘ بچے یتیم ہوجائیں گے‘ گرمی بہت ہے‘ سردی بہت ہے‘ کاروباری سیزن ہے‘ ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے؟

٭       جب کوئی داڑھی رکھنے کی نیت کرے تو فوراً ہمدردی جتانے پہنچ جاتا ہوں۔ یہ کیا! بھلا کوئی عمر ہے داڑھی رکھنے کی‘ کیا شادی کا موڈ نہیں؟ تمہیں تو کوئی لڑکی دینا پسند نہیں کرے گا‘ ان وسوسوں سے اگر بچ جائے تو پھر گھر والوں کے ذریعہ زور ڈالتا ہوں کہ میں تیرا باپ نہیں یا میں تیری ماں نہیں اگر تو شیو نہ کرائے۔ یہ تو تھا کنوارے نوجوان کا معاملہ‘ رہا شادی شدہ‘ تو اسے بڑے پیار سے سمجھاتا ہوں کہ اللہ کے بندے عجیب کام کرنے لگے ہو‘ کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری بیوی جوان نظر آئے اور تم بوڑھے‘ بال کالے ہوتے تو چلو ٹھیک تھا‘ مگر اب تو کافی سفید ہوگئے ہیں۔ بابا لگو گے بابا‘ خاندان کی نوجوان لڑکیاں چاچاجی کہنا شروع کردیں گی‘ شکل و صورت کے تم پہلے ہی پورے ہو‘ خوبصورتی میں فرق پڑ جاے گا اور یہ بات چاہے جوان ہو یا بوڑھا‘ دونوں کہتے ہیں کہ داڑھی رکھنے کو جی تو بہت چاہتا ہے مگر اس سے خوبصورتی میں فرق پڑجاتا ہے‘ بندہ خوبصورت نہیں لگتا۔ دیکھو! میں نے تمہارے ہر سوال کا جواب دیا ہے اب ایک بات کا جواب تم بھی دو۔ یہ بتاؤ کہ کائنات کی سب سے خوبصورت ترین ہستی کون سی ہے؟

س:     نبی مکرم ؐ

ش:     افسوس ہے تمہارے دو نمبر اُمتی ہونے پر‘ ایمانداری سے بتانا! کیا ان کی داڑھی نہیں تھی؟

          اجازت چاہنے سے پہلے اگر برا محسوس نہ کرو تو ایک بات پوچھ لوں۔ تمہارا مجھ سے انٹرویو لینے کا مقصد میری سمجھ میں نہیں آسکا۔ اگر تمہارا مقصد یہ ہے کہ تم اسے چھپوا کر گھر گھر تقسیم کرو‘ تاکہ لوگ میرے حملوں سے بچ سکیں تو یاد رکھنا اگر ایسا کیا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ کم از کم تمہیں نہیں چھوڑوں گا اور ایسا جال بنوں گا کہ نکلنا مشکل ہوجائے گا۔

س:     اے دشمن جان و ایمان! ایک سکنڈ سے پہلے اپنے ناپاک وجود سے خالی کردو یہ کمرہ اور جاؤ! جتنا جی چاہے زور لگالو‘ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اب میں پورا دھیان رکھوں گا۔

ش:     دھیان کیسے رکھو گے‘ تم کونسا مجھے دیکھ سکتے ہو؟

س:     اگر میں تم کو نہیں دیکھ سکتا تو تم بھی کان کھول کر سن لو‘ میں بھی اپنے آپ کو اس ذات کے سپرد کرتا ہوں‘ جس کو تم نہیں دیکھ سکتے۔

رَبِّ اعوذُ بک من ھمزت الشیطن و اعوذ بک رب ان یحضرون (المومنون:۹۷‘۹۸)