تجدیدِ ایمان

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

(شروع کرتا ہو) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان‘ بار بار رحم کرنے والا ہے

 

تجدید ایمان

 

ارشادِ باری تعالیٰ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۝۱۳۶ (سورہ النساء) ترجمہ: (اے لوگو جو ایمان والے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے رسول( محمدﷺ) پر اور اُس کتاب پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (محمدﷺ) پر نازل کی ہے اور اُن کتابوں پر بھی جو اس (قرآن) سے پہلے بھی نازل کی گئیں تھیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اُس کے ملائکہ و کتابیں و رسولوں کا اور یومِ آخرت کا انکار کرتا ہے تو گویا وہ گمراہی کی انتہا کو پہنچ گیا۔)

مندرجہ بالا آیت پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ رب العالمین جو ہمارا صرف خالق ہی نہیں بلکہ وہ ہمارے ساری خوبیوں و کمزوریوں اور جہل و نادانی سے پوری طرح واقف ہے۔ ہماری صلاح و فلاح کے لئے ایمان والوں کو نصیحت کررہے ہیں کہ پھر ایمان لاؤ سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ ایک ایمان والا بھی خطاء‘ گمراہی‘ بھول چوک و نادانی کا شکار ہی نہیں بلکہ اپنی کمزوری ایمان کی وجہ سے جذبات سے مغلوب ہو کر جلد بازی میں وقتی طور پر گناہ کر گزرتا ہے، اسی لئے حکم ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى۝۱۴ۙ (سورہ اعلیٰ) ترجمہ: (بے شک فلاح پاگیا وہ جس نے اپنا تزکیہ کیا) ایک ایمان والے کے لئے ضروری ہوا کہ ہر وقت اپنا جائزہ لیتا رہے کہ اُس کے ایمان باللہ‘ ایمان بالرسول‘ ایمان بالکتاب اور ایمان بالآخرت میں کہیں سے یا کسی طرح سے ان کو تباہ کرنے والے جراثیم (حُبّ دنیا‘ کفر‘ نفاق یا شرک کی شکل میں) پرورش تو نہیں پارہے ہیں۔ اس سے بچنے کے لئے یاددہانی کی جارہی ہے۔ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ۝۱۱۹ (سورہ توبہ) ترجمہ: (اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔) اس طرح سے تم اگر ان حقائق پر عمل کرتے کہ ایمان لائے ہیں تو ایمان لانے کے بعد اللہ و رسولؐ کی نافرمانی سے بچنے کی کوشش کرتے کیونکہ ایمان لانے کے بعد نافرمانی بڑی سنگین بات ہے۔ وَاللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ يُّرْضُوْہُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ۝۶۲ (سورہ توبہ) ترجمہ: (اللہ اور رسول ہی حقدار ہیں کہ وہ انہیں راضی رکھے‘ اگر وہ واقعی ایمان والے ہوتے۔) اگر ہم صحیح ایمان لاتے ہیں اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ۝۰ۚ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۝۱۷۹ (سورہ اٰل عمران) ترجمہ: (پس اللہ اور رسول پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لے آؤ اور احکاماتِ الٰہی کی خلاف ورزی سے بچتے رہو تو تمہارے لئے اجر عظیم ہے۔)

ہمارا ایمان کس طرح کا ہو، اللہ نے کیا شرائط‘ خالصِ ایمان ہونے کے بیان کئے ہیں، اُس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے، جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَيُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۝۰۠ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَكَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَ۝۱۵۸ (سورہ الاعراف) ترجمہ: (اے رسولﷺ آپ یہ اعلان کردیجئے کہ اے انسانوں! میں اللہ کا رسول ہوں، تم سب کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ اُس کی طرف سے جو آسمانوں اور زمین کا تنہا فرمانروا ہے۔ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی بندگی کے قابل ہے جو زندگی بخشتا ہے اور موت بھی وہی دیتا ہے۔ لہٰذا اللہ ہی کو الٰہ واحد مان لو اور رسول اُمّی کو اُس کا رسول تسلیم کرلو۔ یہ رسول خود بھی اللہ تعالیٰ کو الٰہ واحد مانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تمام باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور اُس رسول کی اتباع کرو تاکہ تم ہدایت پاسکو۔) اس بات کی تردید کردی گئی ہے کہ کثرت مال و اولاد‘ ایمانِ کامل و رضائِ الٰہی ہونے کی دلیل نہیں اور نہ یہ چیزیں تمہارے مقرّب الی اللہ ہونے کی کوئی چیز ہیں بلکہ واضح کردیا گیا ہے کہ انجامِ آخرت کے لحاظ سے جو چیز کامیابی کے لئے مطلوب ہے، اس آیت کریمہ میں بیان کردی گئی ہے۔ وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِيْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓي اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۝۰ۡفَاُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ جَزَاۗءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَہُمْ فِي الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ۝۳۷ (سورہ السباء) ترجمہ: (اور تمہارا مال ہو یا تمہاری اولاد، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ تم کو ہمارا مقرّب بنادے، سوائے اس کے کہ جو (اللہ پر اور اُس کے تمام احکامات پر) ایمان لائے اور صالح اعمال (جس طرح تعلیم و ہدایت دی گئی) کرتا رہے۔ پس انہی کے لئے اُن کے اعمال کا کئی گُنا اجر ملے گا اور وہ جنت کے اعلیٰ ترین منزلوں پر بڑی ہی خاطر جمعی کے ساتھ بیٹھے رہیں گے۔) لہٰذا کچھ تفصیلات کتاب اللہ اور سنّتِ رسول اللہﷺ اور روشِ صحابہؓ سے اس کتابچہ میں بیان کی جارہی ہیں تاکہ قارئین میں تجدید ایمان کا شعور و جذبہ بیدار ہو) اصلاح کی طرف لوٹیں اور مغفرت و جنّت کے حقدار بننے کی اور صحیح تعلیمات کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں۔

ارشادِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ’’جددوا ایمانکم بقول لَآ اِلٰـہَ اِلَّااللّٰہُ‘‘ ترجمہ: ((اے ایمان والو) کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ کے ذریعہ اپنے ایمان کو تازہ کرتے رہو۔) رسول اکرمﷺ کے ایک اور ارشاد سے بھی تجدید ایمان کی اہمیت واضح ہوتی ہے جس میں مومن کے گناہ کرنے پر ایمان کے نکل جانے اور توبہ پر ایمان کے لوٹ آنے کا تذکرہ ہے، اس لئے ہر وہ شخص جو بحیثیت مسلمان زندہ رہنا اور ایمان پر خاتمہ چاہتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ایمان میں کفر و شرک‘ ریاء و نفاق اور اپنے اعمال میں نافرمانی کی جانچ پڑتال کرتا رہے اور کلمہ طیبہ کے ذریعہ اپنے ایمان کو تازہ کرتا رہے۔

ایمان باللہ

سیّدنا و نبیّنا محمد مصطفی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا جو پیام اللہ تعالیٰ کے بندوں کو پہنچایا۔ سب جانتے ہیں کہ وہ لا الہ الا اللہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے سواء کوئی الٰہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی الٰہ واحد ہے۔ ’’اِنَّ اِلٰـھُکُمْ اِلٰـہٌ وَّاحِدٌ‘‘ (بے شک تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے) یہ کلمہ دینِ اسلام (دینِ فطرت) کی بنیاد اوّلین ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا یہ پیام مشرکینِ عرب و اہلِ کتاب یعنی یہود و نصاریٰ سب کو پہنچایا اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ اس کلمہ کا صرف زبان سے کہہ دینا یا دہرا دینا کافی نہیں بلکہ اس کے معنی و مفہوم کو اچھی طرح سمجھ کر اس کا یقین کرنا اور مان لینا ضروری ہے۔ ’’فَاعْلَمْ اِنَّہٗ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ (سورہ محمد) ترجمہ: (پس جان لو کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے) اور یہی ایمان باللہ ہے۔

کلمہ طیبہ میں سب سے پہلے لَا اِلٰـہَ کی تعلیم ہے یعنی انسان جہل و نادانی سے اللہ کے ساتھ یا اللہ کے سواء جن کو الٰہ۱؎ بنالیتا ہے، ان کی کارسازی‘ حاجت روائی و فریادرسی و مشکل کشائی کا انکار کرنا ہے جس کے بعد ہی اِلَّا اللّٰہُ یعنی صرف اللہ ہی کے الٰہ ہونے کا اقرار ہے۔ کلمہ کے ان دونوں جز کو سوچ سمجھ کر دل سے تسلیم کرنے ہی پر ایمان صحیح و درست ہو سکتا ہے۔

اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

اکثر یہ مغالطہ دیا جاتا ہے کہ کافر و مشرک وہ ہیں جو اللہ کے وجود کے قائل نہیں یا اللہ کو ایک نہیں مانتے یا اللہ کے ساتھ کئی خداؤں کو بھی مانتے ہیں۔ ہم چونکہ اللہ کے وجود کے قائل اور اس کو عددًا بھی ایک مانتے ہیں اور اس کو ہر معاملہ میں مالک حقیقی و مختار مطلق سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہم مشرک و کافر نہیں ہوسکتے یا یہ کہنا کہ کافر و مشرک وہ ہے جو اللہ کے سوا یا ساتھ دوسروں (انبیاؑء‘ اولیاء‘ ملائکہ‘ بزرگ اور جنات) کو بھی معبود حقیقی‘ حاجت روائے اصلی‘ مشکل کشائے حقیقی‘ مالک و مختار مطلق اللہ کی طرح یا اللہ کی طرف سے عطائی یا مجازی مانتا ہے۔ یہ بات قرآن کی رو سے بالکل غلط ہے۔ قرآن میں کافر و مشرک کے جو مسلمات بیان ہوئے ہیں۔ ان پر غور کیجئے:- قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ۝۰ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللہُ۝۰ۚ ۝۳۱ (سورہ یونس) ترجمہ: (آپؐ ان مشرکین سے) کہئے کہ (بتلاؤ) وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا (یہ بتلاؤ) وہ کون ہے جو تمہارے کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو جاندار (چیز) کو بے جان (چیز) سے نکالتا ہے اور بے جان چیز کو جاندار سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے تو ضرور وہ جواب دیں گے کہ سب کچھ اللہ ہی کرتا ہے (اور وہی مالک و مختار ہے)) قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۴ سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۝۰ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۸۵ قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ۝۸۶ سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۝۰ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۝۸۷ قُلْ مَنْۢ بِيَدِہٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُوَيُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْہِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۸ سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۝۰ۭ (سورہ المؤمنون) ترجمہ: (آپ ان سے پوچھئے کہ یہ زمین اور اس میں جو کچھ ہے کس کی ملکیت ہیں۔ اگر تم کو کچھ خبر ہے۔ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ہی کے ہیں۔ کہو کہ پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔ آپ یہ بھی پوچھئے آسمانوں کا مالک اور عرشِ عظیم کا پروردگار کون ہے؟ وہ ضرور یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے۔ پوچھئے پھر ڈرتے کیوں نہیں۔ یہ بھی پوچھئے وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں تمام چیزوں کا اختیار ہے اور وہ پناہ دیتا ہے اور اُس کے مقابلہ میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔ اگر تم کو کچھ خبر ہے ضرور یہی کہیں گے کہ یہ اختیار بھی اللہ ہی کو حاصل ہے۔) وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللہُ۝۰ۚ ۝۶۱ (سورہ العنکبوت) ترجمہ: اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ وہ کون ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور جس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے تو وہ لوگ یہی کہیں گے وہ اللہ ہی ہے۔)

الٰہ۱؎:- الٰہ ایسی ہستی کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کو پیدا کرنے کے لئے مادہ یعنی (material) کی ضرورت نہیں جو صرف اپنی قدرت اور حکم کُنْ فَیَکُوْن سے پیدا فرمادیتا ہے اور جو اپنے بندوں کی ہر حاجت و ضرورت سے نہ صرف واقف ہو بلکہ ان کو پورا کرنے کی بھی کامل قدرت و اختیار رکھتی ہو۔ بالفاظِ دیگر انسان مصیبت و مشکل‘ دکھ و تکلیف‘ حاجت و ضرورت میں جس ہستی کی طرف رجوع ہوگا وہ اس کی الٰہ ہوگی۔

قرآن میں بہت سارے مقامات پر ان کافر و مشرکین سےاللہ تعالیٰ‘ رسولؐ کو پوچھنے کے لئے کہہ رہے ہیں تو اُن کا جواب ہر و معاملہ میں جس کے وہ قائل ہیں جواب دیتے ہیں لَيَقُوْلُنَّ اللہُ۝۰ۭ (سورہ العنکبوت: 63‘ لقمان: 25‘ الزمر: 38‘ الزخرف: 9 اور 87)۔ اس اقرار کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کو درست و صحیح قرار نہیں دیا اور ان کو ایمان لانے کی دعوت دی گئی۔

مندرجہ بالار ارشاداتِ الٰہی میں بت پرست و مشرکین عرب اور اہلِ کتاب کے جو مسلمات بیان کئے گئے ہیں، ان کو اجمالاً پیش کیا جاتا ہے تاکہ بات واضح ہوجائے۔ وہ اللہ ہی کو خالقِ ارض و سماء رب العالمین‘ مدبّرِ اعلیٰ‘ موت و حیات‘ صحت و عافیت کا دینے والا‘ بارش کا برسانے والا‘ غلّہ کااُگانے والا سمجھتے تھے۔

مختصر یہ کہ کائنات ارضی و سماوی کا فرمانروائے اصلی و مالک حقیقی‘ مختارِ کُل‘ قادرِ مطلق اللہ ہی کو مانتے تھے۔ ان مسلمات کے باوجود اللہ نے ان کو کافر و مشرک ہی قرار دیا ہے اور آج بھی دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے اللہ تعالیٰ کے متعلق یہی سوالات کئے جائیں تو جوابات وہی ملیں گے جو اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ بھی فرمارہے ہیں کہ وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِكُوْنَ۝۱۰۶ (سورہ یوسف) ترجمہ: (ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان رکھتے بھی ہیں مگر شرک کے ساتھ) یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک ٹھہراتے ہیں۔ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مقرب بندوں کی رائے و مشورے و سفارشات اپنی حکمرانی میں شامل کرتے ہیں۔

پس ثابت ہوا کہ ہر مذہب کا پیرو اپنے زعم میں اللہ ہی کی عبادت کرتا ہے۔ چاہے وہ زمانہ ماضی کا ہو یا حال کا۔ اللہ تعالیٰ کو خالق کائنات‘ معبود حقیقی‘ کارساز اصلی‘ حاجت روائے مستقل‘ مالک و رب ماننے کے ساتھ ساتھ اگر مردہ بزرگوں‘ اولیاء‘ فرشتوں یا جِنّات یا انبیاء کو بھی مشکل کشاء‘ حاجت روا‘ فریادوں کے سننے والے سمجھا جائے( چاہے یہ مشکل کشائی وغیرہ بطور مجازی‘ عارضی اور عطائی ہی کیوں نہ ہو) تو یہ ایمان کا ایسا سنگین بگاڑ ہے جو بلا توجہ (توبہ و اصلاح کے) معاف نہیں ہوسکتا اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے ’ظلمِ عظیم‘ یعنی شرک قرار دیا ہے۔ اعمال کی قبولیت کے لئے لازمی اور سب سے پہلی شرط‘ ایمان کا صحیح و درست ہونا ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:- مَنْ عَمِلَ سَيِّئَۃً فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَہَا۝۰ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ يُرْزَقُوْنَ فِيْہَا بِغَيْرِ حِسَابٍ۝۴۰ (سورہ المومن) ترجمہ: (جو برے کام کرے گا اس کو بدلہ بھی ویسا ہی ملے گا اور جو نیک کام کرے گا‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور اس کا ایمان درست ہو تو ایسے ہی لوگ بہشت میں داخل کئے جائیں گے جہاں ان کو بے شمار رزق ملے گا) وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰى لَہَا سَعْيَہَا وَہُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْيُہُمْ مَّشْكُوْرًا۝۱۹ (سورہ اسریٰ) ترجمہ: (جو شخص آخرت کا طالب ہو اور اس کو حاصل کرنے کے لئے ایسی ہی کوشش کرے جو اس کے حصول کے لئے ضروری ہے اور اس کا ایمان بھی صحیح و درست ہو تو ایسے شخص کی کوئی کوشش و محنت رائیگاں نہ جائے گی بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی) وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَھُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا يُظْلَمُوْنَ نَقِيْرًا۝۱۲۴ (سورہ النساء) ترجمہ: (جو کوئی نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت اگر اس کا ایمان صحیح و درست ہو تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور جن کی رتی برابر حق تلفی نہ ہوگی) اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ایمان کے درست ہونے پر ہی دنیا و آخرت میں صلاح و فلاح نصیب ہوسکتی ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:- مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً۝۰ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۹۷(سورہ النحل) جو کوئی بھی نیک کام کرے گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ اس کا ایمان صحیح و درست ہو۔ پس یقینا ہم اس کو دنیا میں پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور مرنے کے بعد ان کو ان کے اعمال کا بہترین بدلہ عطا کریں گے) اسی بات کو سورہ ابراہیم میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ۝۰ۣۙ وَيَفْعَلُ اللہُ مَا يَشَاۗءُ۝۲۷ۧ ترجمہ: (اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو دنیا میں اور دنیا سے رخصتی (موت تک) ایمان پر ثابت قدم رکھتے ہیں اور ظالمین کو (مشرکین کو) بھٹکنے کی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں) ایمان کا نہ صرف طاغوت کی عبادت سے پاک ہونا ضروری ہے بلکہ کفر باالطاغوت یعنی طاغوت کا انکار بھی لازمی ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:- فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۝۰ۭ ۝۲۵۶ (سورہ بقرہ) ترجمہ: (پس جو کوئی طاغوت۱؎ کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اُس نے ایسی مضبوط رسی تھام لی جو ٹوٹنے والی نہیں) طاغوت کی عبادت سے زندگی کو پاک رکھنے کے لئے ہدایتِ الٰہی وَالَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ يَّعْبُدُوْہَا وَاَنَابُوْٓا اِلَى اللہِ لَہُمُ الْبُشْرٰى۝۰ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ۝۱۷ۙ (سورہ الزمر) ترجمہ: (اور جو لوگ طاغوت کی عبادت سے بچتے ہیں اور ہر معاملہ میں اللہ ہی کی طرف رجوع رہتے ہیں۔ ان ہی کے لئے بشارت ہے۔ پس میرے ایسے بندوں کو بشارت سنا دیجئے) قرآن کے دیگر مقامات پر طاغوت کی نشاندہی کچھ اس طرح کی گئی ہے:- اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ (سورہ النساء) ترجمہ: ((اے نبیؐ) کیا آپ نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا، مگر وہ ہیں کہ جبت و طاغوت (یعنی ٹونے ٹوٹکے‘ شگون و اوہان‘ جن و شیاطین‘ بے اصل‘ بے حقیقت و بے فائدہ چیزیں تعویذ‘ گنڈے‘ جھاڑ پھونک‘ دم اور نحوست و برکت کا تصور جیسی باتوں) پر اعتقاد رکھتے ہیں اور طاغوت شیطان کی اطاعت کرتے ہیں) اور پھر جو لوگ طاغوت کو اپنی زندگی میں اپنائے ہوتے ہیں تو آخرت تباہ و برباد ہوگی ہی دنیا میں بھی بد ترین انجام سے عذاب یا ہلاک کردیا جاتا ہے:- قُلْ ہَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ مَنْ لَّعَنَہُ اللہُ وَغَضِبَ عَلَيْہِ وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَـنَازِيْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ۝۶۰ (سورہ المائدہ: 60) ترجمہ: ((اے رسولﷺ) آپ ان سے کہہ دیجئے (دنیا میں تمہاری شرارتوں کی وجہ سے تم پر کچھ مصیبتیں ضرور آتی ہیں) کیا میں بتاؤں تمہاری ان شرارتوں کا بدل جو اللہ کے پاس ہے۔ اِن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور غضبناک ہوئے اور اُن میں سے کسی کو بندر اور کسی کو سوّر (جیسی صفت کا) بنادیا اور (انہوں نے) شیطان کی پرستش کی۔ ایسے لوگوں کے لئے (آخرت میں) بدترین ٹھکانا ہے اور وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے (اب ان کے راہ یآب پر آنا باقی نہیں))

طاغوت۱؎  :- طاغوت بڑے سرکش کو کہتے ہیں۔ شیطان کو اس لئے طاغوت کہا جاتا ہے کہ نہ صرف خود اس نے اللہ کی نافرمانی کی بلکہ اللہ کے بندوں کو بھی اسی طرح نافرمانی پر ابھارتا ہے۔ اس کے علاوہ مذہب کی آڑ میں جو لوگ گمراہی پھیلاتے ہیں، ان کو بھی طاغوت کہا جاتا ہے۔ طاغوت کا انکار یہ بھی ہے کہ پرورش و مخلوق کی تمام حاجات کی تکمیل کے لئے رب العالمین کے بنائے ہوئے اس مضبوط نظام میں کسی کو بھی کسی حیثیت سے رتّی برابر دخل کا اختیار نہیں کا یقین کامل ہونا اور اللہ کے بنائے ہوئے اس دارالاسباب میں بلا اسباب یا غلط اسباب سے نفع یا نقصان پہنچنے یا پہنچائے جانے‘ کا بھی انکار کرنا شامل ہے۔

مزید براں جب کوئی جذبات و خواہشاتِ نفس کی تکمیل میں اللہ و رسول کی نافرمانی کی پرواہ نہیں کرتا تو کہا جائے گا اس کا نفس طاغوت ہے اور وہ طاغوت کا بندہ ہے۔ یعنی اپنے نفس کی عبادت (اطاعت) کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ عقیدہ بھی طاغوت کی عبادت ہے جس کے تحت یہ سمجھا جاتا ہے کہ مردہ افراد زندہ انسانوں کی پکار سنتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں۔

لہٰذا تاکید کی جارہی ہے بلکہ انجام بد چاہے دنیا کا ہو یا پھر دنیا کے ساتھ آخرت کا ہو‘ بچنے کے لئے اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ ۝۳۶ (سورہ النحل) ترجمہ: (اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرو اور شیطان سے بچتے رہو) یعنی تمام معبودانِ باطل‘ شرک و گمراہی اور ہر وہ معاملہ جو اللہ اور بندے کے درمیان آئے، ان سے ہوشیار رہو‘ کی تاکید کی جارہی ہے۔ غیر اللہ کی طرف بلانے والوں کو شیطان بھی کہا گیا ہے۔

یہاں یہ بات صاف واضح ہوجاتی ہے کہ کسی ضرورت و حاجت‘ مشکل و مصیبت میں کسی مردہ ہستی بزرگ ہوں یا انبیاء علیہم السلام کی طرف رجوع کرنا گویا ان کی عبادت کرنا ہے اور ایسا کرنا طاغوت کی عبادت کرنا ہے۔ نیز طاغوت کے انکار کا مطلب اور اللہ پر ایمان سے کیا مراد ہے، وہ بھی واضح ہوجاتا ہے۔ اس طرح لَا اِلٰـہَ کے ذریعہ ایک مومن بندہ نہ صرف طاغوت کی عبادت ہی سے توبہ کرتا ہے بلکہ طاغوت کا انکار بھی کرتا ہے اور اِلَّا اللّٰہُ کے ذریعہ اللہ ہی کا بندہ غلام مربوب مخلوق و محتاج و فقیر ہونے کا اقرار کرتا ہے یعنی اللہ ہی کو اپنا معبود و رب‘ خالق و حاجت روا اور کارساز‘ حاکم‘ آقا و مالک تسلیم کرلیتا ہے جس کا لازمی و واحد نتیجہ اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:- وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶ (سورہ الذاریات: 56) ترجمہ: (جن و انس کو اسی واسطے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں) عبادت سے مراد ہر وہ کام جس سے ہمارا بندہ پن ظاہر ہو اس طرح عبادت میں اطاعت و فرمانبرداری خود بہ خود آگئی۔ پورے کلامِ الٰہی میں سب سے زیادہ جس چیز سے روکا گیا ہے اورجس کو ناپاکی کہا گیا ہے وہ شرک ہی ہے۔ چند ہی مختصر صورتیں ایسی ہوں گی جن میں مشرکانہ عقیدہ کا رد نہ ہوا ہو۔ انسان کے ذہن و فکر کا شرک کی گندگی سے پاک ہونا وہ اعلیٰ ترین طہارت و پاکیزگی ہے کہ اللہ تعالیٰ جہاں بھی اپنے برگزیدہ و فرمانبردار بندوں کا ذکر فرمائے ہیں وہاں خاص طور پر ان کا اس گندگی سے پاک ہونا ہی بیان فرمایا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا ہے :- وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (سورہ اٰل عمران: 67‘ 95، انعام: 161‘ النحل: 123)  ترجمہ: (وہ مشرکین میں سے نہ تھا) وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۱۲۰ۙ (سورہ النحل) ترجمہ: (وہ کبھی مشرک نہ تھا) خود ان (ابراہیمؑ) پیغمبر کا اپنابیان جو قرآن میں مذکور ہے۔ اس میں بھی انہوں نے اس گندگی سے اپنی برأت کا اعلان کیا ہے۔ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۷۹ۚ (سورہ انعام) ترجمہ: (میں مشرکین میں سے نہیں ہوں) ہم کو اس گندگی سے بچنے کے لئے سورہ یوسف کی حسبِ ذیل آیت مشعلِ راہ ہے جس میں نبی کریم ﷺ کی دعوت اور آپؐ کا متبعین کی بصیرت کو مختصر اور جامع الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :- قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ۝۰ۣؔ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۝۰ۭ وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۱۰۸ (سورہ یوسف) ترجمہ: (اے محمدﷺ آپ ان سے علانیہ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور یہی میرا اپنا راستہ ہے میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور وہ بھی اس واضح راستہ کو دیکھ رہے ہیں جو میری اتباع کرنے والے ہیں اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اللہ کی ذات‘ پاک ہے اور میں شرک کرنے والا نہیں ہوں) دین اسلام کی بنیادی دعوت انابت الی اللہ ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللہِ۝۰ۚ ۝۱۵ (سورہ فاطر) ترجمہ: (اے لوگو! تم سب کے سب اللہ ہی کے محتاج و فقیر ہیں) وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۳ (سورہ حٰم السجدہ) ترجمہ: (اور اس شخص سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیک عمل کرے اور کہے کہ بے شک میں فرمانبرداری کرنے والوں میں سے ہوں) وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَمُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّــۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا۝۰ۭ ۝۱۲۵ (سورہ النساء) ترجمہ: (اور اس شخص سے بہتر کس کا طریقۂ زندگی ہوسکتا ہے جس نے اپنے آپ کو اللہ کا مطیع و فرمانبردار بنائے رکھا اور یہ اطاعت و فرمانبرداری والہانہ کی اور یکسو ہو کر ملّتِ ابراہیمی کی پیروی کی) وَمَنْ يُّسْلِمْ وَجْہَہٗٓ اِلَى اللہِ وَہُوَمُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۭ ۝۲۲ (سورہ لقمان: 22) ترجمہ: (اور جس نے اپنے آپ کو اللہ کا مطیع و فرمانبردار بنالیا اور یہ فرمانبرداری بذوق و شوق کرے تو بے شک اس نے ایک مضبوط کڑا تھام لیا) فَفِرُّوْٓا اِلَى اللہِ۝۰ۭ اِنِّىْ لَكُمْ مِّنْہُ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۝۵۰ۚ وَلَا تَجْعَلُوْا مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ۝۰ۭ اِنِّىْ لَكُمْ مِّنْہُ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۝۵۱ۚ (سورہ الذاریات) ترجمہ: (اے لوگو! اللہ ہی کی طرف دوڑو میں اللہ کی طرف سے تم کو نافرمانی (کے انجام بد) سے کھلے طور پر ڈرانے والا ہوں اور یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود یعنی کارساز و حاجت روا نہ سمجھو) حُنَفَاۗءَ لِلہِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِہٖ۝۰ۭ ۝۳۱ (سورہ الحج) ترجمہ: (سب سے کٹ کر صرف اللہ ہی کے بندے بنو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو) ھٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِكُلِّ اَوَّابٍ حَفِيْظٍ۝۳۲ۚ (سورہ ق) ترجمہ: (یعنی یہ جنت جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ صرف اسی کے لئے ہے جو ہر حرکت و سکون میں اللہ ہی کی طرف رجوع ہوتا تھا اور اس کی حفاظت کرتا تھا) مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاۗءَ بِقَلْبٍ مُّنِيْبِۨ۝۳۳ۙ (سورہ ق) ترجمہ: ((جنت) صرف اس شخص کے لئے ہے جو بلا دیکھے رحمن سے ڈرتا رہا اور ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع ہونے والا دل لے کر آیا) اور ساتھ ہی یہ اہلِ ایمان کو یہ ہدایت فرمادی کہ وہ کیسے شخص کو اپنا رہنما بنائیں۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:- وَّاتَّبِــعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ۝۰ۚ ۝۱۵ (سورہ لقمان) ترجمہ: (اور اسی کی پیروی کر جو ہر معاملہ میں میری طرف رجوع ہوتا ہے) یہ وہ معیار ہیں جس سے رہبر و رہزن کو بآسانی پہچانا جاسکتا ہے۔

جہل و نادانی کی بناء پر غیر اللہ سے جو عقیدت قائم کرلی جاتی ہے اور جو جھوٹی تمنائیں پیدا کرلی جاتی ہیں ان کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تصورات اللہ کے سواء جس کسی سے بھی قائم کرلئے جائیں گے، اس کو الٰہ بنانا ہے چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے کہ اَمْ لَہُمْ اِلٰہٌ غَيْرُ اللہِ۝۰ۭ سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝۴۳ (سورہ الطّور) ترجمہ: (کیا غیر اللہ بھی ان کے الٰہ ہیں۔ اللہ ان کے شرک سے پاک ہے) اَىِٕنَّكُمْ لَتَشْہَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللہِ اٰلِہَۃً اُخْرٰي۝۰ۭ قُلْ لَّآ اَشْہَدُ۝۰ۚ قُلْ اِنَّمَا ہُوَاِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِيْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۝۱۹ۘ (سورہ انعام) ترجمہ: (کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے۔ اے نبیﷺ آپ کہہ دیجئے کہ میں ( اس بات کی) گواہی نہیں دیتا بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ ہی الٰہ واحد ہے اور تم جو شرک کرتے ہو اس سے میں بری ہوں) یہ آیات اس حقیقت کی نقاب کشائی کررہی ہیں کہ جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو الٰہ سمجھتا ہے اس کا یہ فہم یقینا شرک ہے اور اس عقیدت کے تحت جو مراسم عبودیت ادا کئے جائیں گے وہ غیر اللہ کی عبادت ہی ہوگی چاہے ان کو انجام دینے والا اس کو عبادت نہ سمجھے۔

اب قرآن سے ان غلط تصورات اور غلط عقیدت مندیوں کی تفصیل پیش ہے جو غیر اللہ سے قائم کی گئی ہیں اور جس کو اللہ نے کفر و شرک قرار دیا ہے اور وہ امور بھی پیش ہیں جن کے ہوتے ہوئے لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ کا  اقرار نہ صرف مہمل بلکہ لغو ہے۔

عین اللہ:- یہ عقیدہ کہ انبیاؑء‘ بزرگوں اور اولیاء کی شکل میں اللہ ہی ہے یہ کفر ہے:- لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ہُوَالْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ۝۰ۭ (سورہ مائدہ: 17‘ 72) ترجمہ: (بلاشبہ ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ بے شک اللہ تعالیٰ ہی مسیح ابن مریم ہے) غور کیجئے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی شکل میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا تو یقینا کفر ہے لیکن آج حاملانِ قرآن ہر شکل میں اللہ ہی کو دیکھتے ہیں اور غضب بالائے غضب یہ ہے کہ اس کو دینِ اسلام کی اونچی و اعلیٰ تعلیم کہا جاتا ہے اور اس غلط تصور کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ایک تاویل تو یہ کی جاتی ہے کہ اللہ کے وجود کو کسی ایک شکل و روپ میں سمجھنا اللہ کے وجود کو محدود کردینا ہے اس لئے یہ تو یقینا کفر ہے لیکن ہم تو ہر شئے میں اللہ کو دیکھتے ہیں یہی تو کمال توحید ہے۔

ایک دوسری تاویل یہ کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بلا حلول و اتحاد بندہ کو اپنے میں چھپالیا ہے اور کبھی خود بندہ میں چھپ گیا ہے۔ باوجود اس کے کہ اللہ‘ اللہ ہی ہے اور بندہ‘ بندہ ہی ہے۔ اگر اس میں حلول و اتحاد کا تصور آجائے تو یہ کفر ہے۔ چنانچہ مردہ بزرگوں کو حاجت و مصیبت میں پکارنے سے منع کرنے پر اسی باطل عقیدہ کی بنا پر یہ حجت کی جاتی ہے کہ ہم جن حضرات کو پکارتے ہیںوہ غیر اللہ نہیں بلکہ وہ عین اللہ‘ فنافی اللہ ہیں اور باقی باللہ ہیں۔ ان کو پکارنا دراصل اللہ ہی کو پکارنا ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔

ایک اور مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ میں اللہ کو دیکھے بغیر گواہی دی جاتی ہے اس لئے جھوٹی ہے اور علی الاعلان کہا جاتا ہے کہ آؤ ہم اللہ کو دکھاتے ہیں اور یہ علم لَدُنّی یعنی یہ سینہ بہ سینہ اور راز کی بات ہے جو مرید ہوئے بغیر نہیں بتائی جاسکتی وہ راز کی بات یہی ہے کہ میری اپنی شکل میں اللہ ہی ہے۔

یہ سب روپ میرے میں بہروپیہ ہوں

نعوذ باللہ………

غور کیجئے کہ اس غلط عقیدہ کو اگر صحیح مان لیا جائے تو صرف دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت‘ جنّت اور دوزخ بھی ایک دھوکہ و فریب قرار پاتی ہے۔ جھوٹ اور غلط ہونے کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ واقعات و عمل کی دنیا میں یہ صحیح ثابت نہیں ہوسکتا۔ دوسرے یہ کہ اس سے پوری قرآنی تعلیمات کا لغو و غلط ہونالازم آتا ہے۔ علاوہ اس کے دینِ اسلام کی بنیاد ایمان بالغیب ہے۔ اگر تحقیق میں غیب کی بجائے شہود ہوجائے تو اس کا غلط ہونا کسی ثبوت کا محتاج نہیں۔

ذرا سوچئے اس سے بڑھ کر فضول اور لغو بات کیا ہوسکتی ہے کہ جو امور یافت و شہود کے حدود میں ہوں ان کے لئے ایمان بالغیب کا مطالبہ کیا جائے۔ اس طرح ثابت ہوا کہ جو بات بھی ایمان بالغیب کے خلاف ہوگی اس کا غلط و باطل ہونا ایک ایسا یقینی امر واقعہ ہے جس کا ثبوت پورا قرآن ہے۔ غیب پر ایمان لانا انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے جیسی فطرت بنائی گئی ہے ویسا ہی ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے۔

انسان ذرا غور کرے تو یہ معلوم ہوگا کہ غیب پر ایمان لانا اس کی عقل و فطرت کا عین مطالبہ ہے۔ چنانچہ انسان دنیا میں ایمان بالغیب کی بنیاد ہی پر زندگی بسر کررہا ہے۔ کیا یہ ایک امر واقعہ و حقیقت نہیں کہ انسان کے جذبات‘ شادی و غم‘ محض ایک مجرد اطلاع ہی پر حرکت میں آجاتے ہیں۔ یہ ایمان بالغیب ہی کی کارفرمائی ہے کہ ہم ادویات و انجکشن استعمال کرتے ہیں حالانکہ ہم ان کے مضر یا مفید ہونے کی نہ توخود تحقیق کئے اور نہ مشاہدہ محض حکیم یا ڈاکٹر کی مجرد بات پر ایمان لاکر موت کا عظیم خطرہ مول لیتے ہیں۔ گواہی کے سلسلہ میں اللہ نے خود اپنے الٰہ واحد ہونے کی شہادت دی ہے چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- (۱)شَہِدَ اللہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۙ ۝۱۸ۭ (سورہ اٰل عمران) ترجمہ: (اللہ نے خود اس بات کی گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے) (۲)فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (سورہ محمد) ترجمہ: (پس جان رکھو کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے) اور اللہ کے رسولؐ نے بھی یہی بنیادی پیغام بندوں تک پہنچایا ہے اور اس کے علاوہ کائنات کا ذرہ ذرہ بھی اسی حقیقت کی شہادت ہے۔

برگِ درختانِ سبز در نظر ہوشیار

ہر ورق دفزیست معرفت کردگار

اگر اس نظام میں اللہ کے سواء کوئی اور بھی شریک اور دخیل ہوتا تو یہ کائنات کا نظام مدت دراز سے جاری اور قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ اس میں یکسانیت اور تسلسل ہی اپنے آپ ثبوت ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی بلا شرکت غیرے اس کو چلارہا ہے۔

اللہ ہی نے انسان کو یہ علم بخشا کہ موت کے بعد ایک اور زندگی ہے جس کے دو رُخ ہیں۔ ایک سوز و تپش کی زندگی جو کافروں کے لئے ہوگی اور دوسری راحت و شادمانی کی زندگی جو اہلِ ایمان بندوں کو عطا ہوگی۔ ان میں سے جو زندگی بھی بعد حساب و کتاب و فیصلہ حصہ میں آئے گی وہ ابدی اور لازوال ہوگی۔ عقلِ انسانی اس بات سے اِبا (انکار) کرتی ہے کہ انسان اور جانوروں کا انجام ایک ہو، عدل و انصاف کا تقاضہ ہے کہ انسان کو اس کے اپنے کئے کا ضرر و بدل ملے۔ اللہ کے رسولؐ نے ان ہی حقائق پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے اور وہ انسان کے مسلمات ہی ہیں یعنی ہر انسان یہ مانتا ہے کہ اللہ ہی اس کے خالق و رب ہیں:- وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۚ وَالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ ۝۸ (سورہ حدید) ترجمہ: (تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تم کو تمہارے پروردگار ہی پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں) اور یہی انسانی عقل کا مطالبہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسولوں کو امور غیبیہ کا مشاہدہ کروایا ہے ان کے سواء جو کوئی بھی امور غیبیہ کو دیکھ لینے کا دعویٰ کرے تو اس کے ایمان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ بندہ کی اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے خالق و پروردگار کی گواہی پر ان حقائق کو تسلیم کرلے۔ وَاِذَاسَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰٓي اَعْيُنَہُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّ۝۰ۚ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِيْنَ۝۸۳ وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللہِ وَمَا جَاۗءَنَا مِنَ الْحَقِّ۝۰ۙ وَنَطْمَعُ اَنْ يُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِيْنَ۝۸۴ (سورہ المائدہ) ترجمہ: (اور وہ جب اس کلام کو سنتے ہیں جو رسولؐ پر نازل ہوا (تو) تم دیکھتے ہو کہ حق کو پہچان لینے کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے۔ لہٰذا ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں شمار فرمالیجئے۔ اور (کہتے ہیں) جب حق بات ہمارے پاس آچکی تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم ایمان نہ لائیں۔ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالح بندوں کے ساتھ (جنت میں) داخل فرمادے گا)

کسی کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا اور بیٹی قرار دینا کفر ہے

(الف) اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) عزیر اور عیسیٰ علیہم السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:- وَقَالَتِ الْيَہُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ۝۰ۚ يُضَاہِـــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ قٰتَلَہُمُ اللہُ۝۰ۚۡاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۝۳۰ (سورہ توبہ) ترجمہ: (یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح‘ اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کی اپنی من گھڑت باتیں ہیں ان سے پہلے کے کافر بھی اسی طرح کی باتیں کہا کرتے تھے۔ اللہ ان کو غارت کرے یہ کدھر بہکائے جارہے ہیں) وَقَالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَدًا۝۰ۙ سُبْحٰنَہٗ۝۰ۭ ۝۱۱۶ (سورہ بقرہ) ترجمہ: (یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بیٹا بنالیا ہے) لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ثَالِثُ ثَلٰــثَۃٍ۝۰ۘ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۷۳ (سورہ المائدہ) ترجمہ: (بلاشبہ وہ لوگ بھی کافر ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ اللہ تین میں کا ایک ہے حالانکہ اس معبود و یکتا کے سواء کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اگر یہ لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں گے تو ان کو تکلیف دینے والا عذاب پکڑلے گا) ان آیتوں سے واضح ہے کہ کسی کو اللہ کا بیٹا کہنا یا اللہ کے (نعوذ باللہ) تین حصے ہیں اور ان تینوں کے ساتھ ہونے سے اللہ کا وجود تکمیل پاتا ہے، کفر ہے جس کا انجام دردناک عذاب ہے۔ یہ عقیدہ کا وہ بگاڑ ہے جس میں پچھلی اُمّتیں مبتلا ہوئیں۔

انسان بیٹے کی اس لئے خواہش کرتا ہے کہ وہ کاروبار و معاملات میں اس کا ہاتھ بٹائے اور ضعیفی میں کام آئے۔ دنیا میں اس کا نام باقی رہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے سبحان و بے نیاز ہے۔

محبوب شخصیت کا تعلق ایک اعلیٰ ترین ذات سے جوڑنے میں ایک طرف تو دوسروں کے مقابلہ میں اس کی عظمت و وقعت کو ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے تو دوسری طرف اس کو تنقید سے بالاتر قرار دینا بھی یہی نفسیات ہیں جس کی بناء پر اہلِ کتاب عزیر و عیسیٰ علیہم السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں چونکہ اس غلط تصور سے خالق و مخلوق میں ایک نوع کی مساوات و برابری ثابت ہوتی ہے اور خالق کی ذات بھی مخلوق کی طرح ناقص قرار پاتی ہے۔ اس لئے اس کو کفر و شرک قرار دیاگیا ہے اور لَمْ يَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ يُوْلَدْ۝۳ۙ وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ كُفُوًا اَحَدٌ۝۴ۧ (سورہ احد) ترجمہ: (نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے) کے ذریعہ اس کی قطعی تردید کردی گئی ہے۔

(ب) بت پرست و مشرکین‘ ملائکہ و جنّات کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور دیتے ہیں۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:- وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَۃَ الَّذِيْنَ ہُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا۝۰ۭ ۝۱۹ (سورہ الزخرف) ترجمہ: (اور انہوں نے فرشتوں کو جو اللہ کے بندے ہیں اللہ کی بیٹیاں قرار دیا ہے) وَجَعَلُوْا لِلہِ شُرَكَاۗءَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ وَخَرَقُوْا لَہٗ بَنِيْنَ وَبَنٰتٍؚبِغَيْرِ عِلْمٍ۝۰ۭ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَصِفُوْنَ۝۱۰۰ۧ (سورہ انعام) ترجمہ: (اور انہوں نے فرشتوں کو جو اللہ کے بندے ہی ہیں اللہ کی بیٹیاں قرار دیا ہے اور لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک قرار دیا حالانکہ وہ ان کا خالق ہے اور بے جانے بوجھے اس کے لئے بیٹے‘ بیٹیاں تجویز کردیئے حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے، ان باتوں سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں) چونکہ باپ‘ بیٹی کی سفارش نہیں ٹالتا اس لئے جہات و نادانی کی بناء پر ملائکہ اور جنّات کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر اپنے اور اللہ کے درمیان ان کو سفارشی قرار دیتے ہیں اور ان کو خوش و راضی رکھنے کے لئے ان کے نام کی مورتیاں بناتے اور ان کے آگے قربانی کرتے اور ان کی نذر و نیاز کرتے ہیں اور منّت مانتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں اور اُن کی مورتیوں کا طواف کرتے اور ان کو سجدے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدہ و عمل کو نہایت سنگین جرم قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِيْمًا۝۴۰ۧ (سورہ بنی اسرائیل) ترجمہ: (تم بڑی ہی نامعقول بات کہتے ہو) اور بطور معارضہ ان سے پوچھا گیا ہے :- اَشَہِدُوْا خَلْقَہُمْ۝۰ۭ سَـتُكْتَبُ شَہَادَتُہُمْ وَيُسْــَٔــلُوْنَ۝۱۹ (سورہ الزخرف) ترجمہ: (کیا تم ان کی تخلیق و پیدائش کے وقت موجود تھے (کہ جس کی بناء پر تم یہ کہہ رہے ہو کہ فلاں لڑکیاں ہیں) ان کی یہ باتیں لکھی جاتی ہیں اور ان سے پوچھا جائے گا) اللہ کے لئے بیٹا یا بیٹی قرار دینا اللہ تعالیٰ کی ذات میں عیب و نقص ثابت کرنا ہے جس کی بار بار تردید کی گئی ہے۔ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ ہی سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اللہ نے نہ کسی کو بیٹا بنایا اور نہ کوئی اس کی بیٹی ہے اور نہ کسی کو اپنی حکومت و فرمانروائی میں شریک کیا ہے کیونکہ اس کو ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں اور نہ اس کے علم(قدرت و اختیار) میں کوئی نقص و خامی ہے جس کو دور کرنے کے لئے کسی کی مدد‘ رائے یا سفارش کی ضرورت (داعی) ہو اور نہ یہ اللہ کی شان ہے کہ اپنے اختیارات کا کوئی حصہ اپنی کسی مخلوق کے حوالے کرے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- وَقُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّہٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْہُ تَكْبِيْرًا۝۱۱۱ۧ(سورہ اسریٰ) ترجمہ: ((اے محمدؐ) آپ اعلان کردیجئے کہ ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے نہ تو کسی کو اپنا بیٹا بنایا اور نہ اس کی فرمانروائی میں کوئی دخیل و شریک ہے) اور نہ وہ کمزور یا عاجز ہے کہ اس کے لئے کوئی مددگار ہو۔ پس اس کی بڑائی بیان کرو اور کمالِ درجہ کی بڑائی بیان کرو) اور حکم دیا گیا ہے کہ وَلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِہٖٓ اَحَدًا۝۲۶ (سورہ الکہف) ترجمہ: (اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی میں کسی کو بھی شریک نہ کرو) اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝۰ۭ ۝۴۰ (سورہ یوسف) کے ذریعہ یہ حقیقت بھی بیان کردی گئی کہ بندوں کی پرورش‘ کارسازی و فریادرسی کی قدرت و اختیار اللہ کے سواء کسی بھی فرد خلق کو حاصل نہیں اور یہ واضح ہدایت بھی دے دی گئی کہ وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ اٰيٰتِ اللہِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَيْكَ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۸۷ۚ وَلَا تَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ۝۰ۘ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۣ كُلُّ شَيْءٍ ہَالِكٌ اِلَّا وَجْہَہٗ۝۰ۭ لَہُ الْحُكْمُ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۸۸ۧ (سورہ القصص) ترجمہ: ((اے محمدؐ) آپ کو یہ لوگ احکامِ الٰہی کی تعمیل سے جبکہ وہ آپ پر نازل ہوچکے ہیں روک نہ دیں۔ آپ ان کو برابر اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہئے اور ہرگز مشرکین میں سے مت ہوجائیے۔ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو، اس کے سواء کوئی معبود نہیں ہے۔ اس کی ذات کے سواء ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ فرمانروائی صرف اسی کے لئے ہے اور اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے)

مندرجہ بالا آیات کا مطلب اس کے سواء کیا ہوسکتا ہے کہ اے نبی لوگ مُردہ بزرگوں‘ فرشتوں یا جنّوں کی فیض رسانی‘ کارسازی‘ مشکل کشائی و حاجت روائی کے کتنے ہی قصے بیان کریں یہ سب جھوٹ و بے اصل باتیں ہیں کیونکہ اللہ نے قرآن کے ذریعہ ان باطل عقائد کی تردید کردی ہے۔ ان سب کے جواب میں صرف اپنے پروردگار ہی کی طرف بلاتے رہئے۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو فیضِ رسان و حاجت روا مان کر مشرکین میں سے مت ہوجایئے اور مصیبت و مشکل‘ حاجت و ضرورت میں مدد کے لئے اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو کیونکہ اللہ کے سواء کوئی حاجت روا ہے نہ مشکل کشا اور نہ فریادرس۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شئے چاہے وہ نبی ہو کہ بزرگ یا ملائکہ یا جن‘ فنا ہونے والی ہے۔ صرف اللہ ہی کی ذات زندہ و باقی رہنے والی ہے۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو انجامِ بد و غضبِ الٰہی سے بچانے کے لئے جو حکم فرمائے ہیں (1) اللہ کے سواء کسی اور کو (حاجت روا‘ مشکل کشا‘ داتا یا فریادرست سمجھ کر ہرگز مت پکارو‘ جس کا ذکر مختصراً اُوپر بیان کیا گیا ہے یعنی ’’مِنْ دُوْنِ اللّٰہ‘‘ کی وضاحت۔ یہی بات سورہ انعام آیت 56‘ 71‘ اعراف آیت 37‘ 193‘ یونس 106‘ مریم 48‘ الحج 12‘ 73‘ فاطر 40‘ الزمر 38‘ المؤمن 66‘ الاحقاف 4‘ 5 میں بھی فرمائی گئی ہے۔ ظاہر ہے یہاں پر اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف راغب ہونا یا توجہ کرنا جو غائب ہوں یا مردہ، اُن سے مانگنا علانیہ شرک‘ کفر و حرام ہے لیکن مغالطہ یہ ہوتا ہے کہ ہم تو اللہ ہی کو الٰہ واحد مشکل کشا‘ فریادوں کا سننے والا‘ بگڑی کا بنانے والا صرف اور صرف اللہ ہی کو رب العالمین مانتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان مردہ یا زندہ بزرگ ہستیوں یا اعمال صالحہ وغیرہ کا واسطہ و وسیلہ دے کر اللہ سے مانگنے پر اللہ ہماری دعائیں ضرور سنتا ہے یا جلدی مقبول ہوتی ہیں‘ کا تصور بھی شرک‘ کفر اور حرام ہے جن کی وضاحت ذیل کی قرآنی آیات سے ثابت ہے :- قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِہٖ شَـيْــــًٔـا ۝۱۵۱ (سورہ انعام: 151) ترجمہ: (آپؐ کہہ دیجئے آؤ میں تمہیں بتادوں کہ تمہارے رب نے تم پر کن کن چیزوں کو حرام کیا ہے۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے (ساتھ یا سواء) کسی کو شریک نہ بناؤ) (2) ’’مَعَ اللّٰہ‘‘ (سورہ المؤمنون: 117‘ فرقان: 68‘ الشعراء: 213‘ القصص: 88‘ جن: 18) یہ ایک امر واقعہ ہے کہ فرمانروائی صرف اللہ ہی کے لئے ہے اور تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اپنے عقیدہ و عمل کا بدل پانا ہے۔

ندائے غیر اللہ

اللہ کے سوا یا اللہ کے ساتھ مُردہ و غائب بزرگوں و انبیاء علیہم السلام‘ فرشتوں اور جنّات کو اس لئے پکارنا کہ وہ ہمارے کام آئیں‘ ہم کو نفع پہنچائیں یا نقصان سے بچائیں تو اس کا بُرا نتیجہ بتلایا گیا ہے اور اس سے روکا گیا ہے۔ یہ شرک ہے جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز میں فرمائی ہے۔ تمثیلاً ذیل میں چند آیتیں پیش ہیں :- وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ۝۰ۚ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِــمِيْنَ۝۱۰۶ (سورہ یونس) ترجمہ: (اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو نہ پکار کیونکہ اللہ کے سواء جس کو پکارو گے وہ تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوجائے گا) قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا ۝۷۱ۙ (سورہ انعام) ترجمہ: (اے محمد ﷺ ان سے پوچھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو ہم کو نفع پہنچاسکتے ہیں نہ نقصان) قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ فَلَا يَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيْلًا۝۵۶ (سورہ اسریٰ) ترجمہ: (ان سے کہیئے کہ ان ہستیوں کو جن کو تم اللہ کے سواء کارساز و حاجت روا سمجھتے ہو پکارو۔ وہ نہ کسی تکلیف کو تم سے ہٹا سکتے ہیں اور نہ تمہاری حالت بدل سکتے ہیں)

مندرجہ بالا آیات سے ثابت ہے کہ غیر اللہ کے ہاتھ میں نفع و ضرر کا اختیار سمجھ کر ان کو دفع مصائب اور حل مشکلات کے لئے پکارنا شرک ہے اور یہ اہلِ باطل کا دین ہے۔ یہاں یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ ہم عقیدت و محبّت کے تحت پکارتے ہیں جو صحیح نہیں۔ عقیدت و محبت کے حدود بھی اللہ و رسولؐ نے متعین فرمادیئے ہیں۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ ۝۳۱ (سورہ اٰل عمران: 31) ترجمہ: (اے نبیؐ لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا) ارشادِ رسول ﷺ :- مَنْ اَحَبَّ سُنَّتِیْ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ (ترمذی) ترجمہ: (جس نے میری سنّت کو محبوب رکھا اس نے مجھ سے محبت کی) ان ارشادات سے ثابت ہوا کہ اللہ و رسولؐ سے محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے۔ اسی طرح بزرگوں سے محبت و عقیدت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی اس تعلیمات پر عمل کیا جائے جو اللہ و رسولؐ کے احکام کے مطابق ہوں اور جن سے ہم میں اللہ و رسولؐ کی اطاعت کا جذبہ پیداہوتا ہے اس کے سواء محبت کا جو بھی تصور ہے وہ درست نہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی مصیبت و مشکل‘ ان من گھڑت مشکل کشاؤں‘ کارسازوں کو پکارنے کے باوجود دور نہیں ہوتی تو بالآخر اللہ ہی کو پکارا جاتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ بطور معاوضہ پوچھ رہے ہیں :- قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللہِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَۃُ اَغَيْرَ اللہِ تَدْعُوْنَ۝۰ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۴۰ بَلْ اِيَّاہُ تَدْعُوْنَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَيْہِ اِنْ شَاۗءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُوْنَ۝۴۱ۧ (سورہ انعام) ترجمہ: (ان سے کہو ذرا غور کر کے بتاؤ اگر کبھی تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آجاتی ہے یا آخری گھڑی آپہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سواء کسی اور کو پکارتے ہو۔ بولو اگر تم سچے ہو اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو۔ پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے۔ ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو) اس سے ثابت ہوا کہ دفع مصائب و حلِ مشکلات کے لئے غیر اللہ کو پکارنا شرک ہے۔

غیر اللہ کی بے اختیاری

حلِ مشکلات و دفع بلیّات کے لئے اللہ کے ساتھ یا اللہ کے سواء جن افراد کو پکارا جاتا ہے۔ ان کی بے اختیاری و عجز کا بیان مندرجہ ذیل آیتوں میں پڑھئے :- وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَہُمْ يَنْصُرُوْنَ۝۱۹۷ (سورہ الاعراف) ترجمہ: (اور جن کو تم اللہ کے سواء پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ خود اپنی ہی مدد کرسکتے ہیں) وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ۝۱۳ۭ اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۝۰ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ۝۰ۭ ۝۱۴ۧ (سورہ فاطر) ترجمہ: (اللہ کے سواء جن کو تم پکارتے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے برابر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ اگر تم ان کو پکارو بھی تو وہ تمہاری پکار کو سُن ہی نہیں سکتے ولوفرض سن بھی لیں تو وہ تمہاری حاجت پوری نہیں کرسکتے) اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ۝۰ۭ وَاِنْ يَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَـيْـــــًٔـا لَّا يَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۝۰ۭ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ۝۷۳ (سورہ الحج) ترجمہ: (بلاشبہ تم اللہ کے سواء جن کو پکارتے ہو وہ تو ایک مکھی کو بھی پیدا نہیں کرسکتے اور اگر وہ سب کے سب بھی جمع ہوجائیں اور ان سے کچھ چھین لے جائے تو اس کو واپس بھی نہیں لے سکتے جیسا پکارنے والا عاجز ہے جس کو پکارا جارہا ہے وہ بھی عاجز ہے) قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۚ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَہُمْ فِيْہِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَہٗ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِيْرٍ۝۲۲ (سورہ السبا) ترجمہ: (آپؐ کہہ دیجئے کہ اللہ کے سواء تم جن کو مشکل کشا و حاجت روا و کارساز سمجھتے ہو ان کو پکار دیکھو حالانکہ وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر چیز کا اختیار نہیں رکھتے۔ نہ نظم کائنات چلانے میں وہ شریک ہیں اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے) وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَۃً لَّا يَخْلُقُوْنَ شَـيْـــــًٔا وَّہُمْ يُخْلَقُوْنَ وَلَا يَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا يَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَيٰوۃً وَّلَا نُشُوْرًا۝۳ (سورہ فرقان) ترجمہ: (لوگ اللہ کے سواء اوروں کو معبود (کارساز‘ حاجت روا‘ مشکل کشا) بنالئے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے اور نہ اپنے نقصان سے بچ سکتے ہیں اور نہ خود اپنے لئے نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں اور نہ جینا اور نہ موت کے بعد دوبارہ اٹھنا ان کے اختیار میں ہے) اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْہُمْ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۱۹۴ (سورہ اعراف) ترجمہ: (بلاشبہ حلِ مشکلات و انجاح حاجات میں جن کو اللہ کے سواء تم پکارتے ہو وہ تو تمہارے ہی جیسے بندے ہیں۔ پس تم ان کو پکارو اگر تم سچے ہو تو وہ تمہاری حاجت پوری کریں)

مندرجہ بالا آیات سے ثابت ہے کہ جن افرادِ خلق کو حاجت روا‘ مشکل کشا‘ کارساز سمجھ کر پکارا جاتا ہے۔ وہ بالکل بے اختیار و عاجز ہیں۔ غیر مسلم اگر اپنے بزرگوں و انبیاء وغیرہ کو پکاریں تو ان کا کافر ہونا قطعی بات ہے اور مسلمان اپنے بزرگوں کو پکاریں تو کیا وہ مسلمان باقی رہ سکتے ہیں؟

ندائے غیر اللہ باطل ہے

ندائے غیر اللہ نہ صرف شرک ہے بلکہ باطل پرستی بھی ہے چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَالْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ہُوَالْبَاطِلُ وَاَنَّ اللہَ ہُوَالْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ۝۶۲ (سورہ الحج) ترجمہ: (یہ اس لئے کہ اللہ ہی کو پکارنا حق ہے اور جن کو یہ اللہ کے سواء پکارتے ہیں وہ بالکل باطل ہے اور اللہ ہی بالا دست و بزرگ ہے)

ندائے غیر اللہ شدید گمراہی ہے

يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَضُرُّہٗ وَمَا لَا يَنْفَعُہٗ۝۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ۝۱۲ۚ (سورہ الحج) ترجمہ: (وہ اللہ کو چھوڑ کر جس کسی کو پکارتے ہیں وہ نہ ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ ایسا کرنا شدید گمراہی ہے)

ندائے غیر اللہ کفر ہے اور بے نتیجہ ہے

اللہ کو چھوڑ کر یا اللہ کے ساتھ حلِ مشکلات‘ دفعِ مصائب کے لئے مردہ افراد کو پکارنا کفر ہے اور ایسا پکارنا قطعی بے فائدہ ہے :- لَہٗ دَعْوَۃُ الْحَقِّ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا يَسْتَجِيْبُوْنَ لَہُمْ بِشَيْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْہِ اِلَى الْمَاۗءِ لِيَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ہُوَبِبَالِغِہٖ۝۰ۭ وَمَا دُعَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ۝۱۴ (سورہ الرعد) ترجمہ: (اللہ کو پکارنا ہی حق ہے اور اللہ کے سواء یہ لوگ جن کو پکارتے ہیں وہ ان کی دعاؤں کو پورا نہیں کرسکتے۔ انہیں پکارنا ایسا ہی ہے جیسے آیا کوئی پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ اس تک پہنچنے والا نہیں اور کافروں کا پکارنا بیکار ہے)

انسان کے لئے موت کا وقت انتہائی کٹھن ہوتا ہے۔ اس وقت اس سے پوچھا جائے گا کہ تو اللہ کے سواء جن کو مشکل کشا‘ حاجت روا اور کارساز سمجھ کر پکارتا تھا آج وہ کہاں ہیں۔ انسان اس وقت اعتراف کرے گا کہ اس کا یہ عقیدہ غلط اور کافرانہ تھا۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَتْہُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَہُمْ۝۰ۙ قَالُوْٓا اَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا وَشَہِدُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ اَنَّہُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ۝۳۷ (سورہ اعراف) ترجمہ: (یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے فرشتے جان نکالنے کے لئے آئیں گے تو ان سے پوچھیں گے کہ جن کو تم اللہ کے سواء پکارتے تھے وہ اب کہاں ہیں؟ وہ جواب میں کہیں گے کہ وہ ہم سے غائب ہوگئے اور اعتراف کریں گے کہ بے شک وہ کافر تھے)

ندائے غیر اللہ اٹکل پچّو باتیں

اَلَآ اِنَّ لِلہِ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ وَمَا يَتَّبِـــعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ شُرَكَاۗءَ۝۰ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ۝۶۶ (سورہ یونس) ترجمہ: (خبردار ہوجاؤ بلاشبہ جو آسمان میں ہیں اور جو زمین میں ہیں وہ سب کے سب اللہ ہی کے بندے‘ مملوک اور محتاج ہیں اور اللہ کے سوائے جو اپنے بنائے ہوئے مشکل کشا اور حاجت روا کو پکارتے ہیں وہ کسی اور چیز کے پیچھے نہیں چلتے صرف گمان کے پیچھے چلتے ہیں۔ محض اٹکلیں دوڑا رہے ہیں)

ندائے غیر اللہ دراصل شیطان کو پکارنا ہے

اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا۝۰ۚ وَاِنْ يَّدْعُوْنَ اِلَّا شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا۝۱۱۷ۙ (سورہ النساء) ترجمہ: (یہ اللہ کو چھوڑ کر جن کو پکارتے ہیں وہ عورتوں (دیویوں) ہی کو پکارتے ہیں اور یہ دراصل شیطان۱؎ سرکش ہی کو پکارتے ہیں) بعض لوگ ندائے غیر اللہ کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے قرآنی دلائل حسب ذیل ہیں۔

(۱)وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۝۰ۭ ۝۴۵ۙ (سورہ بقرہ) ترجمہ: (نماز اور صبر سے مدد لو) اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ صبر اور نماز تو انسان کے افعال ہیں۔ جب ان سے مدد مانگی جاسکتی ہے تو بزرگانِ دین سے مدد مانگنا کیسے ناجائز اور غلط ہوسکتا ہے۔ یہ استدلال ایک تو اس لئے غلط ہے کہ آیت میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ اے نماز میری مدد کر‘ اے صبر میری مدد کر‘ کہا جائے۔

دوسرے یہ کہ قرآن میں ایک جگہ اجمالاً جو باتیں بیان کی گئی ہیں تو دوسری جگہ اس کی تفصیل دی گئی ہے۔ کیونکہ قرآن اپنی تفسیر آپ ہے چنانچہ مندرجہ بالا آیت میں باللہ (اللہ سے) محذوف ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے :- قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِہِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللہِ وَاصْبِرُوْا۝۰ۚ ۝۱۲۸ (سورہ اعراف) ترجمہ: (موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ سے مدد چاہو اور صبرو کرو) تیسرے یہ کہ سورہ بقرہ کی آیت يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۳ (سورہ البقرہ) ترجمہ: (اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) اس آیت میں بھی باللہ محذوف ہے جس کا ثبوت مابعد کی آیت اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ (بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) اگر آیت کا منشاء صبر سے مدد مانگنا ہوتا تو آیت اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ بے معنیٰ قرار پاتی ہے۔

چوتھے مندرجہ بالا آیات میں ’’اسْتَعِيْنُوْا‘‘ صیغہ امر ہے جس کی عملی شکل صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میںہونا لازمی ہے۔ ہر صاحبِ عقل و ہوش مسلمان جانتا ہے کہ خلفائے راشدین میں سے کسی نے بھی نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد مدد کے لئے نبی کریم ﷺ کو نہیں پکارابلکہ کٹھن سے کٹھن موقع پر بھی نماز اور صبر ہی سے مدد لی کیونکہ یہی رسولؐ کا طریقہ و عمل تھا۔ آیت کے کوئی اور معنی لینا تفسیر بالرائے ہے۔

(۲)سورہ القصص کی آیت :- فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِہٖ عَلَي الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّہٖ۝۰ۙ ۝۱۵ (سورہ القصص) ترجمہ: (وہ شخص جو موسیٰؑ کی قوم سے تھا اپنے دشمن کے مقابلہ میں موسیٰؑ سے مدد طلب کی)

 

 

 

 

شیطان۱؎:- مردہ و غائب افراد کا حاجت روا‘ مشکل کشا ہونے کا تصور شیطان کا پیدا کردہ ہے۔ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا شیطان کو پکارنا ہے۔

غیر اللہ سے مدد مانگنا قرآن ہی سے ثابت کرنے کے لئے یہ آیت پیش کی جاتی ہے جو خلط مبحث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ زندہ افراد سے مدد مانگنے کو حرام قرار نہیں دیا ہے بلکہ مردہ افراد سے مدد مانگنا حرام ہے۔ چنانچہ اس آیت میں مدد مانگنے والا اور مدد کرنے والا ایک ہی جگہ پر زندہ موجود تھے۔ یعنی موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا ایک شخص موسیٰؑ کو دیکھ کر دشمن کے مقابلہ میں مدد کرنے کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اسباب کے اختیار کرنے کاحکم دیا ہے اور ان اسباب کو اختیار کر کے ہم اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ تعمیل حکمِ الٰہی میں اسباب کا اختیار کرنا دراصل اللہ تعالیٰ سے استعانت چاہنا ہے۔ اس کو غیر اللہ سے استعانت نہیں کہا جائے گا۔ چنانچہ یہ عام بات ہے کہ انسان کا کسی دوسرے زندہ انسان بلکہ غیر انسان سے بھی مدد طلب کرنا اس زندگی کی ناگزیر ضرورت ہے، ہم اس کے مامور ہیں۔ قرآن و سنّت اس قسم کی استعانت کے بیان سے بھرے پڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح مدد مانگنے کو ضروری قرار دیا ہے۔ بعض اجہل یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس دنیا میں اسباب کااختیار کرنا جائز ہے تو روحانی عالم کے اسباب اختیار کرنا کیسے شرک ہوسکتا ہے۔ یہ بات اس لئے غلط ہے کہ اللہ و رسولؐ کی تعلیمات میں روحانی عالم کا کہیں وجود نہیں بلکہ عالمِ برزخ ہو یا عالم آخرت ہر دو جگہ انسانی زندگی ہی ہے۔ روحانی عالم کا تصور غیر اسلامی اور عجمی تصور ہے۔ جو عالم آخرت میں پہنچ چکے ہیں۔ قوانینِ قدرت کے تحت ان تک ہم اپنی آواز نہیں پہنچا سکتے اور نہ وہ ہماری پکار سُن سکتے ہیں۔ اس لئے ان کو غیبی مدد کے لئے پکارنا شرک قرار دیا گیا ہے اور ان کی بے اختیاری اور بے بسی کو بیان بھی کیا ہے۔ غیر اللہ سے مدد مانگنے کے جوازمیں حسبِ ذیل حدیث بھی پیش کی جاتی ہے۔

’’یَا عِبَاد اللّٰہ اعینونی‘‘ ترجمہ: (اے اللہ کے بندو میری مدد کرو) اس حدیث کی تشریح خود نبی کریمﷺ نے فرمادی ہے وہ یہ کہ اللہ نے راستہ بھٹکے ہوئے لوگوں کی رہبری کے لئے فرشتوں کو مقرر فرمایا ہے۔ ان کا ہماری پکار کا سننا ایسا ہی ہے جیسے کراماً کاتبین ہماری باتیں سنتے اور ہمارے اعمال دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد بھی غیر اللہ کو مدد کے لئے پکارنا جو سنگین جرم ہے۔ اس کے جواز میں یہ حدیث پیش کرنا اہلِ علم کا کام نہیں ہے۔ اس کو تاویل الجاہلین کہیں گے۔

ہر صاحب بصیرت انسان یہ جانتا ہے کہ قرآن میں ندائے غیر اللہ سے بار بار اور مختلف پیرایوں میں منع کیا گیا ہے اور ضرورت‘ مصیبت و مشکلات‘ دکھ و بیماری میں صرف اللہ ہی کو پکارنے کی تاکید فرمائی ہے :- وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِيْنَ۝۶۰ۧ (سورہ مومن) ترجمہ: (تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ تم مجھ ہی سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور جو میری عبادت (بندگی) سے ازراہ تکبر سرتابی کرتے ہیں۔ عنقریب وہ جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوں گے) اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۝۵۵ۚ وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝۰ۭ اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۵۶ (سورہ اعراف) ترجمہ: (اے لوگو! اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔ وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور ملک میں فسادمت پھیلاؤ اور اللہ سے خوف کھاتے ہوئے اور توقع باندھے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہو۔ بلاشبہ اللہ کی رحمت نیکی میں سبقت کرنے والوں سے قریب ہے) اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کا جہاں ذکر فرمایا ہے وہاں خصوصیت سے ان کے اسی وصف کو بیان فرمایا ہے چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کا جہاں بھی ذکر ہے، ان کی اسی صفت حنیفیت کو بیان کیا ہے اور سورہ مریم میں صرف اللہ ہی سے دعا کرنے کا ذکر ہے۔ وَاَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَاَدْعُوْا رَبِّيْ۝۰ۡۖ عَسٰٓى اَلَّآ اَكُوْنَ بِدُعَاۗءِ رَبِّيْ شَقِيًّا۝۴۸ (سورہ مریم: 48) ترجمہ: (ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تم کو اور ان ہستیوں کو جن کو تم اللہ کے سواء پکارتے ہو چھوڑتا ہوں۔ میں اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا۔ پروردگار کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا) اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ مردہ و غائب افراد کو پکارنا دراصل ان کی عبادت کرنا ہے۔ قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّيْ وَلَآ اُشْرِكُ بِہٖٓ اَحَدًا۝۲۰ (سورہ الجن) ترجمہ: (اے نبیؐ کہہ دو کہ میں تو صرف اپنے پروردگار ہی کو پکارتا ہوں اور کسی کواس کا شریک نہیں بناتا) یہاں یہ ثابت ہوا کہ مصیبت و مشکل‘ حاجت و ضرورت میں اللہ کے سواء کسی بھی مردہ و غائب فرد کو پکارنا شرک ہے اور صرف اللہ ہی کو پکارنا ایمان ہے۔

غیر اللہ کو مدد کے لئے پکارنے کے جواز میں مُردوں کی زندگی کو پیش کیا جاتا ہے حالانکہ برزخی حیات کا کس کو انکار ہے۔ کیا برزخی زندگی کو اس زندگی پر قیاس کریں گے؟ یہ عالم دوسرا ہے، وہ عالم دوسرا ہے۔ ایک عالم کے احکام دوسرے عالم پر جاری نہیں ہوتے اور حجّت میں سورہ بقرہ کی آیت وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ۝۰ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۝۱۵۴ (سورہ بقرہ) ترجمہ: (جو اللہ کے راستے میں مارے جاتے ہیں انہیں مُردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اس حیات کو جان ہی نہیں سکتے) کو پیش کیا جاتا ہے۔ آیت بالا میں الفاظ بَلْ اَحْيَاۗءٌ کے بعد وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ا س امر کو بتلانے ہی کے لئے ہے کہ یہ حیات عالمِ برزخ کی ہے اور اس حیات کو جب تک ہم خود برزخ میں نہ پہنچ جائیں سمجھ ہی نہیں سکتے کہ وہ حیات کیسی ہے۔ یہ استدلال اس لئے غلط ہے کہ اس آیت میں اس باطل خیال کی تردید ہے کہ انسان موت کے بعد بالکل فنا ہوجاتا ہے حالانکہ موت اس عالم سے نکل کر دوسرے عالم میں پہنچ جانے کا نام ہے۔

منافقین اور اہلِ باطل شہید ہونے والوں کے متعلق کہتے تھے کہ ان بچاروں نے دنیا میں نہ کھایا نہ پیا مرگئے۔ دنیا کی لذّتوں سے محروم ہوگئے۔ اس آیت میں اسی باطل عقیدہ و خیال کی تردید کی گئی ہے اور یہ یقین دلایا گیا ہے کہ موت کے ساتھ ہی انسان کی زندگی ایک دوسرے عالم میں شروع ہوجاتی ہے جہاں اس کا کھانا‘ پینا ایک بہتر طریقہ پر اور بہتر سامان کے ذریعہ اس کے پروردگار کی طرف سے جاری ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتًا۝۰ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ۝۱۶۹ۙ فَرِحِيْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۝۰ۙ وَيَسْـتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِيْنَ لَمْ يَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ۝۰ۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۱۷۰ۘ (سورہ آل عمران) ترجمہ: (جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) اللہ کے نزدیک ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے جو کچھ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اس میں خوش ہیں اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے اور شہید ہو کر ان سے اب تک نہ مل سکے۔ ان کو شوق دلانے کے لئے خوش خبری سنارہے ہیں کہ جس کو بھی شہادت کی موت نصیب ہوگی (قیامت کے دن) ان کو کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وَالَّذِيْنَ ہَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ثُمَّ قُتِلُوْٓا اَوْ مَاتُوْا لَيَرْزُقَنَّہُمُ اللہُ رِزْقًا حَسَـنًا۝۰ۭ وَاِنَّ اللہَ لَہُوَخَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ۝۵۸ (سورہ الحج) ترجمہ: (جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی پھر مارے گئے ان کو اللہ اچھی روزی دے گا اور بے شک اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے) یعنی شہادت میں رزق و لطف اندوزی سے محرومی نہیں ہے بلکہ یہ دونوں باتیں ہر طریقہ سے ان کو حاصل ہیں۔

حیات شہداء والی آیت کے آخری جز وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ سے بالکل صرف نظر کرلیا گیا ہے۔ حالانکہ اسی جزو کے ذریعہ اس بات سے روکا گیا ہے کہ حیاتِ شہداء کے متعلق تم اپنے طور پر قیاس آرائیاں کر کے غلط عقائد میں مبتلا نہ ہوجاؤ بلکہ صرف اس حقیقت کو مانو کہ مرنے سے انسان فنا نہیں ہوجاتا بلکہ اس کی زندگی ایک دوسرے عالم میں شروع ہوجاتی ہے۔ اس ہدایتِ ربّانی کے خلاف حیات شہداء والی آیت سے یہ استدلال کرنا کہ وہ زندہ ہیں اور وہ سنتے بھی ہیں اور مدد بھی کرتے ہیں،نری جہالت ہے کیونکہ ان مُردہ افراد کے لئے جن کو مصیبت و مشکل میں مدد کے لئے پکارا جاتا ہے قطعی مُردہ فرمایا گیا۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَـيْـــًٔـا وَّہُمْ يُخْلَقُوْنَ۝۲۰ۭ اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ۝۰ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۝۰ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ۝۲۱ۧ (سورہ النحل) ترجمہ: (اور جن کو یہ لوگ اللہ کے سواء پکارتے ہیں وہ کسی چیز کے خالق نہیں ہیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں‘ مردہ ہیں نہ کہ زندہ اور ان کو نہیں معلوم کہ انہیں کب دوبارہ اٹھایا جائے گا) کیا کلامِ الٰہی میں تعرض و تضاد ہے کیونکہ ایک طرف تو سورہ بقرہ والی آیت میں شہیدوں کے لئے زندگی اور متعدد خوش خبریاں بیان کی گئی ہیں تو دوسری طرف مندرجہ بالا آیت میں ان گزرے ہوئے لوگوں کو جن کو مشکل و مصیبت میں پکارا جاتا ہے، قطعی مُردہ کہا گیا ہے۔ ایک مسلمان کلامِ الٰہی میں باہمی تعرض و تضاد کا تصور بھی نہیں کرسکتا‘ چہ جائے کہ اللہ کے ایک حکم کی تردید اللہ ہی کے دوسرے حکم سے کرے۔ مختصراً عرض یہ ہے کہ اس عالم میں انسان کو عمل کے ذریعہ اپنی آخرت بنانے یا بگاڑنے کی جو چھوٹ دی گئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں جو اختیار دیا گیا ہے، اُس مہلت عمل کو ختم کردینا یا چھین لیا جانا، اِس بے اختیاری کو موت کہا گیا ہے۔ روزِ جزاء قیامت کے بعد پھر سے جو زندگی ملے گی وہ زندگی کیونکہ اختیار والی زندگی کا انعام یا بدل کی شکل ہوگی جہاں شعور‘ ادراک‘ لطف و لذّت اور احساس اس دنیاوی زندگی کے عین مطابق ہوں گے۔ صرف اور صرف فرق یہی ہوگا کہ دنیا کی زندگی امتحان و عمل کے لئے ہے اور آخرت کی زندگی اعمال کا بدل پانے کے لئے، عالمِ برزخ دونوں زندگی کے درمیان جو وقفہ ہوگا اُسے قرار دیا گیا ہے۔ كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ۝۰ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۸ (سورہ بقرہ) ترجمہ: (آخر تم کس طرح اللہ تعالیٰ کا انکار کرسکتے ہو۔ حالانکہ تم مردہ تھے۔ پھر زندہ کیا اور پھر وہ (اللہ) تم کو مردہ کردے گا اور پھر وہی تم کو دوبارہ زندہ کرے گا (حساب لینے اور بدلہ دینے کے لئے) تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے) الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوۃَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۰ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ۝۲ۙ(سورہ الملک) ترجمہ: ((اللہ ہی ہے) جس نے موت و حیات دی تاکہ تمہارا امتحان لے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے (جس کا تمہیں بدلہ دے) اور وہ زبردست بخشنے والا بھی ہے)

اللہ کی ہر بات انسان کی فلاح و بہبود کے لئے ہے یعنی اس کے کسی نہ کسی فکر و عمل کی اصلاح ہی اس سے مقصود ہوتی ہے۔ استعانت و استمداد کے لئے مُردہ بزرگوں کو پکارنے کی قطعی ممانعت کے ساتھ بتلادیا گیا ہے کہ وہ مرچکے ہیں اور نہ صرف ان کی موت کا تذکرہ کیا گیا ہے بلکہ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍیعنی ان میں زندگی کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہے فرمایا گیا ہے۔ برزخی زندگی پر اس زندگی کے احکام منطبق نہیں کئے جاسکتے۔ برزخی زندگی کی بعض باتوں کو اس زندگی میں رائج الفاظ سے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان الفاظ کی حقیقت ہماری ادراک سے بالاتر ہے۔

یہاں اس زندگی کا انکار نہیں جو مرنے والے انسان کو دوسرے عالم میں دی جاتی ہے بلکہ اس حیات کی تردید کی گئی ہے جو دنیا والوں کی مدد کرنے کے لئے درکار ہے۔ اموات غَيْرُ اَحْيَاۗءٍسے یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ برزخی حیات سے تمہاری پکار سننے اور مدد کرنے کے وہ اہل نہیں ہوجاتے۔ سننا اور مدد کرنے کے تعلق سے وہ بے جان لاش ہیں اور ان میں زندگی کا کوئی رمق بھی نہیں ہے تو پھر ان کی مدد کرنے کی توقع لغو‘ مہمل اور باطل ہے۔ ’’وما یشعرون ایان یبعثون‘‘ میں بتلایا گیا کہ مُردہ افراد اس قدر بے بس و محتاج ہیں کہ حشر میں جو حیات دی جائے گی اس کے متلق بھی یہ نہیں جانتے کہ خود ان کو وہ حیات کب دی جائے گی۔

اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان گزرے ہوئے لوگوں کے مردہ ہونے کا علم بخشا بلکہ ساتھ ہی صرف اپنے ہی زندہ ہونے کا علم بھی بخشا تاکہ اس سلسلہ میں کسی قسم کی گمراہی میں مبتلا نہ ہو۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- ہُوَالْـحَيُّ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَفَادْعُوْہُ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۭ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۶۵ (سورہ المومن) ترجمہ: (وہی اللہ زندہ ہے اس کے سواء کوئی الٰہ نہیں۔ مدد کے لئے اخلاص اور جذبۂ اطاعت گزاری کے ساتھ اسی کو پکارو کیونکہ بلا کسی کی سعی و سفارش اور بلا کسی کی رائے و مشورہ کے اور اپنا اختیار کسی کو تفویض کئے بغیر سب کی حاجت روائی کررہا ہے۔ اس لئے ساری تعریف اسی کے لئے ہے) یہاں مخلصین سے مراد ہے۔ شرک سے پاک ہونا یعنی اللہ کو نہ کسی کا واسطہ دیا جائے نہ وسیلہ‘ نہ طفیل بلکہ خالص اللہ ہی سے عرض و معروض ہو۔ اللہ تعالیٰ کے سواء کسی اور سے مدد چاہنے کا تصور بھی ہمارے ذہن میں نہ آنے کے لئے یہ علم دیا گیا کہ وَتَوَكَّلْ عَلَي الْـحَيِّ الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ ۝۵۸ۚۙۛ (سورہ فرقان) ترجمہ: (بھروسہ کر اس ذات پر جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور جس کو کبھی بھی موت نہیں) یہاں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جس قدر بھی کوشش کرنا ہمارے اختیار میں ہے‘ کی جائے۔ حسبٔ مرضی نتیجہ کے لئے اللہ ہی سے توقع قائم کریں اور جن سامان و اسباب کا اختیار کرنا ہمارے اختیار میں نہیں اسی ذات پر بھروسہ کر کے ان کا خیال بھی چھوڑ دیں کیونکہ اللہ زندہ ہے‘ اس کو کبھی موت نہیں اور وہی قیوم بھی ہے اگر وہ چاہے تو ناکافی اسباب کے باوجود ہمارا کام بنادے گا۔ اس آیت میں اسمِ حسن ’’الحی‘‘ اس لئے نہیں کہ نعوذ باللہ مخاطبینِ قرآن‘ اللہ کو مردہ سمجھتے تھے بلکہ اسی باطل عقیدہ کی تردید ہے جس میں مردہ افراد کو زندہ تصور کر کے مدد کے لئے پکارا جارہا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہماری دعاؤں کو سنتے ہیں اور اللہ کے پاس سفارش کر کے ہمارے کام بناتے ہیں۔ اسم حسن ’الحی‘ کے ذریعہ یہ علم بخشا گیا کہ اللہ کے سواء بندوں کی نہ کوئی پکار سن سکتا ہے اور نہ مدد کرسکتا ہے۔ بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی بندوں کی پکار سنتا ہے اور مدد کرتا ہے لیکن افسوس ہے کہ آج قرآن فہمی و قرآن دانی کے مدعی اسی باطل عقیدہ میں مبتلا ہیں۔

یہ مسئلہ نہایت ہی اہم ہے اسی اہمیت کی بناء پر مزید وضاحت ضروری ہے۔ اس لئے عرض ہے کہ جو انسان بھی مرجاتا ہے اس کو برزخ میں زندگی ملتی ہے۔ چاہے زندگی کافر و مشرک کی ہو یا اہلِ ایمان کی اس کا انکار نہیں بلکہ اس عالمِ برزخ کے بعد کے عالمِ حیات پر جتنا یقین ہوگا اتنا ہی ہم اپنے اعمال کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں گے۔ مگر وہ زندگی ’’الحَیُّ‘‘ جو ہماری دعاؤں کو سننے اور مدد کرنے کے لئے ضروری ہے، وہ اللہ کے سواء کسی مردہ فرد کو نصیب نہیں۔ یہ زندگی تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی برزخی زندگی امّت سے اعلیٰ ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ برزخی سب سے برتر ہے۔ اس حیات کے ثبوت سے یہ کہتے ہیں کہ وہ ہماری دعائیں سنتے ہیں اور مدد کرتے ہیں بالکل غلط ہے جبکہ سیدنا صدیق اکبرؓ نے نبی کریم ﷺ کی وفات کے وقت ہی آیت کریمہ اِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ: آپ کو مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے اور وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۝۰ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ۝۰ۭ ۝۱۴۴ (سورہ اٰل عمران) ترجمہ: (محمد نرے (صرف) رسول ہی تو ہیں۔ آپ سے پہلے اور بھی رسول گذر چکے ہیں۔ سو اگر آپ کاانتقال ہوجائے یا آپ شہید ہوجائیں تو کیا تم لوگ اُلٹے پاؤں پھر جاؤں گے) تلاوت کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حیات النبیﷺ کے مسئلہ کا فیصلہ فرمادیا۔ وہ فیصلہ یہ ہے کہ ’’یا ایھا الناس من کان یعبد محمدًا قد مات ومن کان یعبد اللہ فان اللہ وحیٌ لا یموت‘‘ ترجمہ: (اے لوگو! اگر تم محمد کو پوجتے تھے تو جان لو کہ وہ مرچکے ہیں اور جو اللہ کو پوجتا ہے اللہ زندہ ہے‘ زندہ رہے گا اور اس کو کبھی موت نہیں) اس کے بعد بھی بعنوان عقیدت و محبّتِ حیات النبیﷺ کا مسئلہ اٹھانا مسلمانوں کی دینی ناواقفیت سے فائدہ اٹھاکر اپنا بازار گرم کرنا ہے۔

حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں قدرت کی زنجیریں

سمع موتیٰ

ندائے غیر اللہ کے جواز میں ’’سمع موتٰی‘‘ مُردوں کے سننے کا مسئلہ کھڑا کیا گیا، حجت میں اہلِ قبر کی سماعت والی حدیث بالخصوص مقتولان بدر کی حدیث پیش کی جاتی ہے۔ یہ حجت حسبِ ذیل وجوہ کی بناء پر قطعی غلط ہے۔

سمع موتٰی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کاتعلق عقیدہ سے ہے اور عقیدہ کی بنیاد کتاب اللہ ہونا ضروری ہے۔ ایسی روایت جس کی تصدیق قرآن سے نہ ہو عقیدہ کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ قرآن سے سمع موتٰی کی بالکل نفی ہوتی ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- اِنَّ اللہَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ۝۲۲ (سورہ فاطر) ترجمہ: (بلاشبہ اللہ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں) فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِـــعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ۝۵۲ (سورہ الروم) ترجمہ: (پس تحقیق کہ آپ مردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر چل دیں) اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِـــعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ۝۸۰ (سورہ النمل) ترجمہ: (تحقیق کہ آپ مردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چل دیں) صاف طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ بھی اپنی بات مردوں کو نہیں سنا سکے چہ جائیکہ ہمہ وشما اپنی بات مردوں کو سنا سکیں۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ چاہے تو مردے سن سکتے ہیں تو عرض کرنا یہ ہے کہ اللہ کی مشیّت اور قدرت کا سوال یہاں زیر بحث نہیں بلکہ اللہ نے جو قوانین قدرت مقرر فرمائے ہیں۔ ان کے تحت مردے زندوں کی پکار سنتے ہیں یا نہیں جس کی یہاں کلی طور پر نفی کردی گئی ہے۔ اللہ کی قدرت کا سوال اٹھانا خلط بحث کرنا ہے جس ذات نے اپنے حکم ’کُنْ‘ سے کائنات پیدا فرمائی۔ اس کی قدرت بھی کیا زیر بحث لائی جاسکتی ہے ۔یہاں ایک نکتہ یہ پیدا کیا جاتا ہے کہ ان آیتوں میں جن کو مردہ کہا گیا ہے وہ دراصل مردے نہیں ہے بلکہ تعلیمات الٰہی کو قبول نہ کرنے کی بناء پر مردہ کہا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ آپ ہم تشبیہ و تمثیل دیتے ہیں تو ایک اٹل حقیقت ہی کی دیتے ہیں۔ مثلاً زید شیر کی طرح بہادر ہے۔ شیر کی بہادری ایک حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو تمثیل دی ہے وہ بھلا حقیقت کے خلاف کیسے ہوسکتی ہے جس کی تصدیق حسبِ ذیل آیات سے ہوتی ہے۔ اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۝۰ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ۝۰ۭ ۝۱۴ۧ (سورہ فاطر) ترجمہ: (اگر تم ان کو پکارو بھی تو وہ تمہاری پکار کو نہیں سنیں گے اور اگر سن بھی لیں تو تمہارا کہنا نہیں کرسکیں گے) یہ شرطیہ جملے ہیں۔ یہاں بھی یہی فرمایا گیا کہ اللہ نے جو قوانین قدرت مقرر فرمائے ہیں۔ ان کے تحت مردے زندوں کی پکار کو نہیں سن سکتے اور اگر اپنے مقررہ قانون کے خلاف مردوں کو سنا بھی دیں تو وہ زندوں کی ہر گز مدد نہیں کرسکتے۔ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَہٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵ (سورہ الاحقاف) ترجمہ: (اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ کے سواء ایسوں کو پکارے جو قیامت تک بھی اس کی دعا قبول نہیں کرسکتے اور جن کو اس کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو) اگر مردے زندوں کی پکار سن سکتے ہیں تو پھر یہ کیوں فرمایا گیا وہ پکار سے ہی بے خبر ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مردہ بزرگ دنیا والوں کی نہ باتیں ہی سن سکتے ہیں‘ نہ ان کو دیکھ ہی سکتے ہیں نہ ان کی کوئی مدد ہی کرسکتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے بھی یہی بات بیان فرمائی ہے:- اِذْ قَالَ لِاَبِيْہِ يٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَـيْــــــًٔــا۝۴۲(سورہ مریم) ترجمہ: (جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے کہا کہ اے میرے باپ کہ تم ایسی ہستیوں کو کیوں پوجتے ہو جو نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ تمہارے کچھ کام آسکتے ہیں) سمع موتٰی والی احادیث میں جس حقیقت کو ذہن نشین کرایا گیا ہے وہ صرف یہی ہے کہ انسان موت کے بعد فنا نہیں بلکہ اس کی زندگی ایک دوسرے عالم میں شروع ہوجاتی ہے۔ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت ’’احیاء‘‘ کا بھی یہی مطلب ہے اور اللہ نے اپنے رسولؐ کے ذریعہ جن حقائق کا علم دیا ہے، اس کا موت کے بعد انسان کو مشاہدہ اور تجربہ ہوجاتا ہے اور یہ بات درست ہی ہے کہ یہ احادیث ان آیات کے نزول سے پہلے کی ہیں جن میں مُردوں کے سننے کی نفی کی گئی ہے۔ چنانچہ نیشا پوری نے سورہ فاطر اور نمل کی آیات ۸۰‘ ۲۲۰ کے شانِ نزول کے سلسلہ میں یہ بات بیان کی ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے بھی آیت ’’وَمَا اَنْتَ بمسمع امن فی القبور‘‘ سے سمع موتٰی کی کُلّی تردید فرمائی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر مردہ افراد کو پکارنے والے کو مردود فرمایا ہے۔ جو الغرائب فی تحقیق المذاہب میں مذکور ہے۔ احکامِ الٰہی کے خلاف احادیث سے حجّت کرنا گمراہی ہے۔ اسی روش نے مسلمانوں میں گمراہ فرقوں کو جنم دیا ہے۔

واسطہ و وسیلہ

اپنے اور اللہ کے درمیان انبیاء علیہم السلام‘ بزرگانِ دین‘ ملائکہ اور جنّات کو واسطہ و وسیلہ قرار دینا یا یہ دعا کرنا کہ اے اللہ میری دعا کو فلاں نبی یا بزرگ وغیرہ کے طفیل یا صدقہ میں قبول فرما وغیرہ جیسے امور کی دینِ اسلام میں قطعی ممانت ہے لیکن وائے برحال ما‘ اپنے اور اللہ کے درمیان افرادِ خلق کو واسطہ و وسیلہ قرار دینا جائز ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیت ’’وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ‘‘ کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح واسطہ و وسیلہ اختیار کرنے کو اللہ کا حکم بتایا جاتا ہے جو تفسیر بالرائے ہے۔ مندرجہ بالا آیت سیاق و سباق کے ساتھ حسبِ ذیل ہے :- يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَيْہِ الْوَسِيْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِيْ سَبِيْلِہٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۳۵  (سورہ المائدہ) ترجمہ: (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اس کے راستہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ)

مندرجہ بالا ارشاد میں اہلِ ایمان کو سب سے پہلے تو اللہ سے ڈرنے کی تاکید کی گئی۔ اس کے بعد اللہ کا قرب تلاش کرنے کی نصیحت کی جارہی ہے اور ساتھ ہی قرب حاصل کرنے کا جو ذریعہ ہے اس کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ یعنی اللہ کے راستہ میں جہاد کرو یعنی صرف یہی وہ ذریعہ و طریقہ ہے جس کے اختیار کرنے پر ہی فلاح نصیب ہوسکتی ہے۔ یہاں نہ رسول کو نہ بزرگانِ دین کو واسطہ بنانے کی تعلیم ہے اور نہ وسیلہ قرار دینے کی۔ ’’ وَابْتَغُوْ ‘‘ صیغہ امر ہے جس کی عملی شکل کا صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں ہونا ضروری ہے جیسا کہ ہر صاحب سمجھ مسلمان جانتا ہے کہ اللہ کے راستہ میں جدوجہد کی جو تڑپ و لگن صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں نظر آتی ہے۔ اس کا عشر عشیر بھی ہمارے مذہبی پیشواؤں اور دینی رہنماؤں کی زندگیوں میں نہیں (الا ماشاء اللہ)۔ یہ بھی ثابت ہے کہ صحابہؓ، نبی کریم ﷺ کے انتقال کے بعد کبھی بھی اپنے اور اللہ کے درمیان رسول اکرمﷺ کو نہ واسطہ بنایا نہ وسیلہ قرار دیا بلکہ راست اللہ ہی سے اپنا تعلق قائم رکھتے تھے اور ایسا ہونا لازمی و ضروری بھی تھا کیونکہ اللہ کی تعلیم بھی یہی ہے اور رسولؐ کی ہدایت بھی اور سنت بھی یہی اور یہی دینِ اسلام کی بنیاد ہے جس کا کھلا ثبوت عمرؓ کا بارش کے لئے دعا فرمانا ہے۔ اگر ’’ وَابْتَغُوْٓا اِلَيْہِ الْوَسِيْلَۃَ ‘‘ کا مطلب اپنے اور اللہ کے درمیان بزرگوں کو واسطہ بنانا و وسیلہ قرار دینا ہے تو آیت کا پہلا جز ’’ اتَّقُوا اللہَ ‘‘ (اللہ سے ڈرو) اور تیسرا جز ’’وَجَاہِدُوْا فِيْ سَبِيْلِہٖ ‘‘ (اس کے راستہ میں جہاد کرو) فضول قرار پاتے ہیں۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ دوسرے یہ کہ مردہ بزرگ یا نبی کو واسطہ و وسیلہ بنانے ہی سے فلاح نصیب ہوسکتی ہے تو پورا قرآن جس میں زندگی کے ہر شعبہ کے لئے ہدایت ہے غیر ضروری قرار پاتا ہے۔

واسطہ و وسیلہ کے لئے اذان کے بعد کی دعا کے الفاظ ’’اٰتِ محمد نِ الوسیلۃ‘‘ (اے اللہ محمد کو وسیلہ عطا کر) سے بھی حجت کی جاتی ہے۔ یہ تحریف معنوی کا کھلا ثبوت ہے کیونکہ یہاں محمدﷺ کا وسیلہ نہیں مانگا جارہا ہے بلکہ محمدﷺ کو وسیلہ عطا کرنے کے لئے دعا کی جارہی ہے۔ یہاں وسیلہ سے مراد رتبہ و مقام ہے جس کو قرآن میں ’’مقام محمود‘‘ فرمایا گیا ہے۔

اس سلسلہ میں ایک اور حدیث بھی پیش کی جاتی ہے جس میں بنی اسرائیل کے ۳ اشخاص کا حال بیان ہوا ہے جو ایک غار میں پناہ لینے داخل ہوئے تھے کہ غار کا منہ ایک بڑی چٹان گرنے سے بالکل بند ہوگیا۔ وہ باہر نکلنے کی کوئی صورت نہ پاکر ہر ایک نے اللہ سے اپنے اپنے بہترین اعمال کا وسیلہ دے کر اس چٹان کے ہٹ جانے کی دعا کی جس کے بعد ان کو اس مصیبت سے نجات ملی اور باہر نکل آئے۔ اس حدیث سے یہ حجت کی جاتی ہے کہ جب انسان اپنے اعمال کا واسطہ دے کر مصیبت و مشکل سے نجات پاسکتا تو بزرگانِ دین کا واسطہ و وسیلہ لینا بدرجہا اولیٰ صحیح و درست ہے۔ اس حدیث میں ایک واقعہ کو بیان کیا گیا ہے اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اُمت کو بھی اس طرح عمل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ دوسرے یہ کہ حدیث بواسطہ صحابہؓ ہم تک پہنچی لیکن انہوں نے اس سے یہ مطلب نہیں لیا جو آج ہم لے رہے ہیں۔ صحابہؓ سے بڑھ کر منشاء رسولﷺ کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ اس لئے ثابت ہوا کہ یہ صرف حجت ہی حجت ہے جو قرآن‘ سنّتِ رسولﷺ اور روش صحابہ کرامؓ کے خلاف ہے۔ لفظ وسیلہ قرآن میں ایک اور جگہ بھی آیا ہے جو پیش ہے :- قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ فَلَا يَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيْلًا۝۵۶ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّہِمُ الْوَسِـيْلَۃَ اَيُّہُمْ اَقْرَبُ وَيَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ۝۰ۭ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا۝۵۷ (سورہ اسریٰ) ترجمہ: (ان سے کہو کہ پکار دیکھو ان ہستیوں کو جن کو تم اللہ کے سواء اپنا کارساز سمجھتے ہو وہ کسی تکلیف کو نہ ہٹا سکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب کے حضور قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہتے ہیں کہ ان میں سب سے زیادہ کون اللہ سے قریب ہوجاتا ہے اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرے پروردگار کا عذاب ہی ڈرنے کے لائق ہے) لفظ الْوَسِيْلَۃَ کے معنی ’’قربِ الٰہی‘‘ کے سواء کچھ اور نہیں جو خود قرآن سے متعین ہوجاتے ہیں۔ اس کے خلاف ایسے معنی و مطلب لینا جس سے دینِ اسلام کی بنیادی بات پر ضرب پڑے کسی طرح صحیح و درست نہیں بلکہ ایسا کرنا اللہ کے احکام کا مذاق اڑانا ہے جس کا انجام دنیا میں ذلّت اور مرنے کے بعد آگ ہے۔

سعی و سفارش

جب انسان اس جہالت و گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ نہ صرف دنیا میں خیر و برکت‘ دفعِ مصائب‘ حل مشکلات بلکہ آخرت کی نجات بھی اللہ کے مقرب بندوں کی سعی و سفارش‘ واسطہ اور وسیلہ‘ طفیل اور صدقہ میں حاصل ہوجائے گی تو اس کے نتیجہ میں محاسبۂ اعمال‘ حشر و قیامت کا خوف دل سے نکل جاتا ہے۔ کیونکہ دنیا و آخرت کا مدار سفارشوں پر ٹھہرا تو حشر‘ قیامت‘ محاسبۂ اعمال سے ڈرنا ایک فضول بات قرار پاتی ہے۔ چنانچہ محاسبۂ اعمال سے ڈرانے والوں کو کہا جاتا ہے کہ ’’افتراء علی اللہ الکذب‘‘ یعنی قیامت و محاسبۂ اعمال سے ڈرنے والے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل کہا جاتا ہے کہ یہ شدّت ہے یا فتنہ پیدا کرنا ہے۔

قلوب سے اللہ و رسولﷺ کی نافرمانی کے انجام بد کا ڈر نکل جانے سے نافرمانی زندگی کے جلی عنوانات بن جاتے ہیں جس کا کھلا ثبوت ہماری زندگیاں ہیں۔ یہ بگاڑ بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ دنیا میں جو خوش حالی ان کو حاصل ہے۔ وہ ان ہی مقرب بندوں کے واسطے‘ وسیلے یا نسبت کی وجہ سے ہے جو دراصل اس بات کی علامت بھی ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہے، ہم کو آخرت میں اس تعلق سے عذاب نہ ہوگا اور ہمارا انجامِ آخرت اچھا ہی ہوگا۔ چنانچہ ان کا یہ قول قرآن میں بیان کیا گیا ہے :- نَحْنُ اَكْثَرُ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا۝۰ۙ وَّمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ۝۳۵ (سورہ سبا) ترجمہ: (ہمارے ہاں مال اولاد کی کثرت ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہیں اس لئے ہم کو عذاب نہ ہوگا)

مندرجہ بالا آیت سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ دنیا کی خوش حالی و بدحالی کا تعلق اللہ کی خوشی و ناخوشی سے نہیں بلکہ اللہ کے علم و حکمت کے تحت یہ نظام ہے یعنی اہلِ ایمان کے ساتھ خوش حالی و بدحالی کا بنیادی منشاء آزمائش و امتحان ہے اور اہلِ باطل کے ساتھ معاملہ بطور مہلت و استدراج کے ہے۔ انسان خوش حالی و بدحالی میں اس لئے مبتلا کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف رجوع ہو۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- ذٰلِكَ۝۰ۡوَبَلَوْنٰہُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّـيِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۱۶۸ (سورہ الاعراف) ترجمہ: (ہم ان کو خوشحالی و بدحالی سے آزماتے ہیں تاکہ وہ اپنے پروردگار کی طرف رجوع ہوں) لوگ آخرت کے تعلق سے من مانی عقائد میں مبتلا تھے اور ہیں۔ کوئی حشر نشر اور محاسبۂ اعمال ہی کے قائل نہ تھے اور بعض کا خیال ہے کہ جنت و دوزخ صرف کیفیات کا نام ہے جو اسی دنیا کی زندگی میں انسان کو خوشی و رنج کی شکل میں حاصل ہوجاتی ہیں اور بعض یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف الفاظ ہی الفاظ ہیں جو ترغیب و ترہیب کے لئے بیان کئے گئے اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور جو قائل تھے ان کا تصور یہ تھا کہ موت کے بعد جب انسان اللہ کے حضور میں پیش ہوتا ہے تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ یہ آپ کے فلاں مقرب بندہ کا عقیدت مند یا مرید ہے اور وہ حضرت اس سے راضی و خوش تھے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے عقیدہ و عمل کے متعلق پوچھتا نہیں۔ بلکہ اس کی نجات کاحکم صادر فرمادیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں جس کے متعلق یہ عرض کیا جاتا ہے کہ اس کو آپ کے مقرب بندوں سے نہ کوئی عقیدت تھی اور نہ یہ کسی کا مرید ہوا تو اسے جہنم میں داخل کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔

دینِ ایمان میں ایک بگاڑ یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملائکہ پرستی و بزرگ پرستی کو خدا پرستی کا بہترین بدل سمجھا جانے لگتا ہے چنانچہ مشرکین کا ملائکہ اور مقرب بندوں کے متعلق یہی عقیدہ تھا۔ ان کو خدائی میں شریک قرار دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے عبودیت‘ استعانت کی بجائے ان ہی کی مورتیوں اور قبروں کے سامنے اپنے حاجت و مصیبت کا اظہار کرتے۔ ان ہی کی نذر و منت مانتے ان ہی کے نام پر قربانی کرتے اور چڑھاوے چڑھاتے تھے اور آج حاملانِ قرآن بھی اسی باطل خیال میں مبتلا ہیں اور تعلق باللہ قائم کرنے کے لئے عرس و قوالی کو بہترین ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ ان کو خدا نہیں سمجھتے تھے بلکہ اللہ کے پاس اپنا شفیع سمجھتے تھے اور ان کی محبت و عقیدت کو اللہ تعالیٰ کے قرب و رحمت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ ارشاد ہورہا ہے :- مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللہِ زُلْفٰى۝۰ۭ ۝۳ (سورہ الزمر) ترجمہ: (کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے البتہ ان سے اس لئے عقیدت رکھتے ہیں کہ وہ ہم کو اللہ سے زیادہ قریب کردیں یعنی اپنی سفارش سے رحمتِ الٰہی کا زیادہ مستحق بنادیں گے) ان کا یہ کہنا کہ یہ اعمال عبادت نہیں ہیں یہ تو عقیدت کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ اس لئے مَا نَعْبُدُہُمْ کہا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو عبادت ہی قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے :- وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللہَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝۱۸ (سورہ یونس) ترجمہ: (اللہ کے سواء ان لوگوں کی عبادت کرتے ہیں جن کے اختیار میں نہ نفع ہے نہ ضرر اور کہتے ہیں کہ یہ بزرگ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔ آپ (اے پیغمبرؐ) پوچھئے ان لوگوں سے کہ یہ جو تم کہہ رہے ہو تو کیا اللہ تعالیٰ ہی کو ایک ایسی نئی بات کی خبر دے رہے ہو کہ جس کا وجود نہ زمین میں ہے اور نہ آسمانوں میں حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کی شرک سے پاک ہیں) اور اہلِ کتاب سے پوچھا جارہا ہے :- قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۝۰ۭ وَاللہُ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۷۶ (سورہ مائدہ) ترجمہ: (اے محمدﷺ اہلِ کتاب سے پوچھئے کہ تم کتاب رکھتے ہوئے اللہ کے سواء ایسوں کی عبادت کرتے ہو جو نہ تم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی سننے والا اور جاننے والا ہے اور اللہ کے سواء کوئی بھی سننے والا نہیں اور نہ جاننے والا ہے)

مندرجہ بالا آیت سے یہ ثابت ہوگیا کہ غیر اللہ کے ساتھ خصوصاً مردہ بزرگوں کے تعلق سے یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ زندوں کو فیض پہنچاتے ہیں ان سے برکت حاصل کی جاسکتی ہے اس کو اللہ تعالیٰ عبادت قرار دے رہے ہیں اور اسی کو شرک فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ اللہ کی عبادت خالص ہو کر کی جائے۔ خالص اللہ کی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اور اللہ کے درمیان کوئی واسطہ ہو نہ وسیلہ اور نہ طفیل صرف اللہ تعالیٰ ہی کو کارساز و حاجت روا مانا جائے۔ اللہ کے مقرب بندوں کی سعی و سفارش کو بھی شامل سمجھنا اخلاص کی منافی ہے اور یہی شرک ہے۔ فَاعْبُدِ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَ۝۲ۭ اَلَا لِلہِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللہِ زُلْفٰى۝۰ۭ ۝۳ (سورہ الزمر) پس اللہ کی عبادت کرو خالص ہو کر کیونکہ بندگی کا حق اللہ ہی کا ہے۔ خبردار دین خالص اللہ ہی کے لئے ہے مگر یہ لوگ اللہ کے سوا دوسروں کو بھی کارساز و مددگار سمجھ رہے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے البتہ ان سے اس لئے عقیدت رکھتے ہیں کہ وہ ہم کو اللہ سے زیادہ قریب کردیں گے۔ یعنی اپنی سفارش سے رحمتِ الٰہی کا زیادہ مستحق بنادیں گے) ان لوگوں سے جو ملائکہ و مقرب بندوں کو اللہ کے پاس اپنا شفیع سمجھتے تھے کہا گیا وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ لَا تُغْـنِيْ شَفَاعَتُہُمْ شَـيْــــًٔــا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ يَّاْذَنَ اللہُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَرْضٰى۝۲۶ (سورہ النجم) ترجمہ: (اللہ کے پاس صرف وہی فرشتے نہیں ہیں جن کو تم اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر اپنا سفارشی سمجھ رہے ہیں بلکہ ایسے کتنے ہی فرشتے آسمانوں میں ہیں جو بہت زیادہ مقرب بھی ہیں مگر سفارش کرنے کا کوئی اختیار ان کو نہیں ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ بارگاہِ الٰہی میں زبان کھولے۔ البتہ اللہ اجازت دینے پر عرض کرسکیں گے اور انہی کی سفارش کریں گے جن کے متعلق اللہ کی مرضی ہوگی اور ان ہی کی سفارش کریں گے جو اپنے عقیدہ و عمل کے لحاظ سے اللہ کے پاس پسندیدہ ہوں گے) او ر اس عقیدہ کا جو انجام ہونے والا ہے اس کو بھی بیان کردیا گیا ہے۔ چنانچہ قیامت میں اپنے انجام بد کو دیکھیں گے تو کہیں گے :- فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِيْنَ۝۱۰۰ۙ (سورہ الشعراء) ترجمہ: (ہمارے لئے کوئی سفارش کرنے والے نظر نہیں آتے) فَہَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَاۗءَ فَيَشْفَعُوْا لَنَآ ۝۵۳ۧ (سورہ الاعراف) ترجمہ: ((بروز قیامت مشرکین کہیں گے) کیا ہمارے لئے کوئی شفاعت کرنے والے (شرکاء) ہیں جو ہمارے لئے اللہ کے پاس سفارش کریں (یعنی وہ بزرگ جن کے متعلق ہمارا عقیدہ تھا کہ ہم ان کی سفارش سے بخشے جائیں گے) بروز قیامت حق تعالیٰ مشرکین سے پوچھیں گے :- وَمَا نَرٰي مَعَكُمْ شُفَعَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّہُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰۗؤُا۝۰ۭ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۝۹۴ۧ (سورہ انعام) ترجمہ: (اور ہم (آج) تمہارے اُن شفاعت کرنے والوں کو نہیں دیکھتے ہیں جن کو تم بزغم خود اپنے معاملات میں اللہ کا شریک قرار دیتے تھے۔ آج تمہارے‘ ان کے درمیان عقیدت کا رشتہ ٹوٹ گیا اور جس زعم میں تم مبتلا تھے اسے بھول گئے) وَيَوْمَ يُنَادِيْہِمْ اَيْنَ شُرَكَاۗءِيْ۝۰ۙ قَالُوْٓا اٰذَنّٰكَ۝۰ۙ مَا مِنَّا مِنْ شَہِيْدٍ۝۴۷ۚ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَدْعُوْنَ مِنْ قَبْلُ وَظَنُّوْا مَا لَہُمْ مِّنْ مَّحِيْصٍ۝۴۸ (حٰم السجدہ) ترجمہ: (اور جس روز (یعنی میدان حشر میں) ان سے پوچھا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں تم نے میرا شریک قرار دیا تھا تو وہ جواب میں کہیں گے ہم نے تو آپ کے سامنے یہ اعلان کردیا ہے کہ ہم اس مشرکانہ عقیدے کے قائل نہیں رہے اور جب ان کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کے عذاب سے ان کو بچانے والا کوئی نہیں تو پھر وہ ان لوگوں کو بھول گئے جن کو وہ حاجت روا‘ مشکل کشا‘ شفارش کرنے والے سمجھ کر پکارتے تھے) یہ لوگ جب عذابِ الٰہی کو دیکھیں گے تو اپنے اس غلط عقیدہ کی خود ہی تردید کردیں گے اور کہیں گے کہ واقعی بندوں کی حاجت براری‘ مشکل کشائی‘ فریادرسی میں غیر اللہ کو رتی برابر بھی اختیارنہیں۔ اس حقیقت کا اعلان کریں گے کہ واقعی اللہ تعالیٰ تنہا پرورش کرنے والے حاجت براری اور مشکل کشائی کرنے والے ہیں:- فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللہِ وَحْدَہٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِہٖ مُشْرِكِيْنَ۝۸۴ (سورہ المومن) ترجمہ: (پس جب انہوں نے (مشرکین) ہمارے عذاب کو دیکھا تو تسلیم کرلیا کہ اللہ تعالیٰ ہی الٰہ واحد ہیں اور اپنے مشرکانہ عقائد کے منکر ہوگئے یعنی غیر اللہ کو بھی وہ الٰہ سمجھتے تھے اس عقیدہ سے منحرف ہوگئے) اور خود یہ لوگ جب ان کو دیکھیں گے جن کو وہ مشکل و مصیبت میں پکارتے تھے تو پکار اُٹھیں گے کہ اے پروردگار یہی وہ لوگ ہیں جن کو مصیبت و مشکل میں ہم پکارا کرتے تھے :- وَاِذَا رَاَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا شُرَكَاۗءَہُمْ قَالُوْا رَبَّنَا ہٰٓؤُلَاۗءِ شُرَكَاۗؤُنَا الَّذِيْنَ كُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِكَ۝۰ۚ فَاَلْقَوْا اِلَيْہِمُ الْقَوْلَ اِنَّكُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۸۶ۚ (سورہ النحل) ترجمہ: (اور جب مشرکین (میدان حشر میں) اپنے (خود ساختہ) شرکاء کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے ہمارے رب یہی ہیں وہ لوگ جن کو (ہم نے تیرا شریک قرار دیا تھا اور دنیا و آخرت کی مشکلات و مصائب دور کرنے کے لئے) تیرے سواء پکارتے تھے وہ لوگ ان کی اس بات کو ان ہی کی طرف پلٹا دیں گے اور کہیں گے یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں یعنی کہیں گے کہ ہم کو نہیں پکارتے تھے) شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی حسبِ ذیل تشریح فرمائی ہے :- ’’جو لوگ پوجتے ہیں بزرگوں کو وہ بزرگ بے گناہ ہیں۔ ایک شیطان اپنا وہی نام رکھ کر اپنے آپ کو پُجواتا ہے اس لئے وہ بزرگ جواب میں کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو‘ تم ہم کو مدد کے لئے نہیں پکارتے تھے۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ جب شیطان بزرگوں کے نام سے جس کسی پر اپنا وار کرتا ہے تو وہ بزرگوں کے فیض و برکت کے پندار میں عجیب عجیب بھول بھلیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ عجیب عجیب تخیلات اس کے دماغ پر مسلط ہوجاتے ہیں‘ کبھی اس کو ایسا نظر آتا ہے بیت اللہ‘ بزرگوں کے استقبال کے لئے اپنے مقام سے ہٹ گیا ہے اور کبھی مرشد یا مرشد کے قبر کا تصور آتے ہی تعظیم کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے‘ مرشد کی قدم بوسی کو ایک مہمان کے استقبال کی طرح معمولی بات سمجھتا ہے اور اس کا دماغ اتنا ماؤف ہوجاتا ہے کہ قبلہ ظاہر کے علاوہ وہ اپنا ایک اور قبلہ ’’قبلہ باطن‘‘ بنالیتا ہے جس کی عظمت و عقیدت اس کے دل میں اس قدر راسخ ہوجاتی ہے کہ مرشد تو مرشد‘ مرشد کی اولاد بھی قابل تعظیم ہوجاتی ہے اور وہ ’’پیر مابس است گرچہ خس است‘‘ کی سی فریب خوردگی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس عقیدہ کو شرک سمجھنے کی بجائے ’’وَالْاَدْمِیٌّ مُّکَرَّمٌ شَرْعًا وَّاِنْ کَانَ کَاِفرا‘‘ کی دلیل کے تحت اس کو عام اکرام خیال کر کے اپنے ضمیر کو مطمئن کرلیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے لئے دنیا کے بادشاہوں کی مثال دینا

جہل کی بناء پر اللہ تعالیٰ کی حکومت و فرمانروائی کو بھی دنیوی حکومتوں کی طرح تصور کرلیا گیا۔ دنیا کی ہر حکومت اپنی مملکت کے متعدد حصے کر کے ہر ایک پر بااختیار عہدیدار اور حکومت کے ہر شعبہ کے لئے بااختیار وزیر مقرر کرتی ہے جو اپنے اپنے علاقہ و شعبہ کا انتظام کرتے ہیں۔ یہ عہدیدار اپنی رائے و مشورہ کے ساتھ رعایا کے حالات حکومت تک پہنچاتے رہتے ہیں جس کی بناء پر حکومت کی طرف سے آخری فیصلے صادر کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے بندوں میں سے فرشتوں رسولوں اور برگزیدہ بندوں میں سے بعض کو موت و حیات کا ‘ بعض کو رزق کا بعض کو اولاد کا بعض کو صحت و عافیت کا بعض کو حل مشکلات اور دفع مصائب وغیرہ کا اختیار دے کر دنیا کے مختلف حصوں پر مقرر فرمایا ہے اور اس طرح اپنی فرمانروائی کررہا ہے۔ اس باطل عقیدہ کی تردید میں کہیں تو انفس و آفاق کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی اور اکثر جگہ ان کے مسلمات کو بیان کرتے ہوئے پوچھا گیا اَىِٕنَّكُمْ لَتَشْہَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللہِ اٰلِہَۃً اُخْرٰي۝۰ۭ ۝۱۹ۘ (سورہ انعام) ترجمہ: (کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود (حاجت روا) ہیں) ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۝۰ۭ ۝۶۰ۭ (سورہ النمل) ترجمہ: (کیا اللہ کے ساتھ اور بھی معبود (حاجت روا) ہیں) اور اس سے منع کیا گیا اور حکم دیا گیا کہ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰـہَيْنِ اثْـنَيْنِ۝۰ۚ ۝۵۱ (سورہ النحل) ترجمہ: (دو معبود (حاجت روا) نہ بناؤ) توحید کی دعوت یعنی صرف تنہا اللہ کے حاجت روا ہونے کو ایک عجیب سی بات سمجھے اور ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا :- اَجَعَلَ الْاٰلِـہَۃَ اِلٰــہًا وَّاحِدًا۝۰ۚۖ اِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ۝۵ (سورہ ص) ترجمہ: (اللہ ہی الٰہ 1؎واحد ہے یہ بڑی عجیب بات ہے) یعنی ان لوازم شاہی کے بغیر اللہ کا تنہا اس نظم کائنات کو چلانا ان کی سمجھ میں نہ آسکا اور حیرت کے ساتھ یہ بھی کہا مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِي الْمِلَّۃِ الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚۖ ۝۷ۖۚ (سورہ ص) ترجمہ: (ہم نے تو یہ بات دوسرے مذاہب کے لوگوں سے نہیں سنی!) اسی باطل عقیدہ کی تردید میں ’’اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ‘‘ (بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے) فرمایا گیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کسی سے مدد لئے بغیر‘ کسی سے رائے و مشورہ لئے بغیر کسی کو اختیارات سپرد کئے بغیر تن تنہا اس نظم کائنات کو چلانے پر قادر ہیں اور چلا رہے ہیں۔ ان کے اس ذہنی بگاڑ پر ان کو تنبیہ کی گئی۔ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللہَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۲۲ وَذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِيْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۲۳ (سورہ حٰم السجدہ) ترجمہ: (بلکہ تم یہ خیال کرتے تھے کہ اللہ کو تمہارے بہت سے اعمال کی خبر نہیں ہوتی اسی تصور نے تم کو ہلاک کردیا اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہوگئے) تمہارا یہ خیال کہ تمہارے کرتوتوں کی اللہ کو اس وقت تک خبر نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ کے کارندے تمہارے اعمال (احوال) سے اللہ کو باخبر نہ کریں گویا تم اللہ کو ایک دنیاوی بادشاہ کی طرح سمجھتے تھے۔ تمہارے اس عقیدے نے تم کو تباہ کردیا۔ حقیقت حال کو مندرجہ بالا آیتوں میں بیان فرمایا۔ وَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ۝۱۶۳ۧ (سورہ بقرہ) ترجمہ: (تمہارا معبود (حاجت روا) ایک ہی ہے اس کے سواء کوئی اور معبود (حاجت روا) نہیں ہے اور وہی رحمن بھی ہے اور رحیم بھی) مطلب: تمہارا ایک ہی معبود ہے اس کی فرمانروائی میں کسی فردِ خلق کی مدد و رائے مشورہ اور سفارش کو دخل نہیں ہے۔ وہ اللہ جس کے ساتھ کوئی الٰہ نہیں ہے وہ رحمن بھی ہے اور رحیم بھی اور اس کی دلیل حسبِ ذیل آیات میں بیان کی گئی ہے :- اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ۝۰۠ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝۱۶۴ (سورہ بقرہ) ترجمہ: (یقینا زمین اور آسمان کی تخلیق میں رات دن کے آنے جانے میں اور کشتیوں کے چلنے میں جو سمندروں میں لوگوں کی نفع اندوزی کے لئے چلتی ہیں اور آسمانوں سے حق تعالیٰ پانی کی ایک معین مقدار جو کھیتی کے لئے مکتفی ہو برساتے ہیں تو مردہ زمین لہلہاتی کھیتی بن جاتی ہے اور زمین میں ہر قسم کے جاندار پیدا کرتے ہیں اور نفع بخش ہواؤں کے چلانے میں اور زمین و آسمان کے درمیان بادل چھائے رہنے میں سمجھدار لوگوں کے لئے کافی نشانیاں ہیں) وہ کہ بندوں کی حاجت براری کا مذکورہ بالا نظام قائم و جاری رکھنے میں اللہ اور بندوں کے درمیان نہ کوئی واسطہ ہے اور نہ وسیلہ اور نہ اس میں کسی کی رائے و مشورہ اور سفارش کو دخل ہے کیونکہ یہ نظام زمین کے ہر گوشہ میں ہے اور وہاں بھی ہے جہاں کے لوگ اللہ تعالیٰ کو مانتے ہی نہیں اور ہر مخلوق چرند و پرند اور حیوانات کے لئے بھی ہے کیا ان کے لئے بھی واسطے اور وسیلے ہیں اور کیا ان کے بھی سفارشی ہیں ابتدائے آفرنیش سے آج تک اس نظام کا ایک ہی طریقہ پر جاری و ساری رہنا اللہ کے الٰہ واحد ہونے کا ایسا ثبوت ہے جو کسی دلیل کا محتاج نہیں۔

دنیا کے بادشاہوں کو وزیروں‘ مشیروں اور کارکنوں کی ضرورت اس لئے ہوتی ہے کہ ان کا علم ان کی قدرت و طاقت‘ سماعت و بصارت سب زمان و مکان کے تابع اور محدود ہوتے ہیں لیکن اللہ کی ذات تو ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک ہے وہ واسع العلم‘ الخبیر‘ البصیر اور علیم بذات الصدور ہے جو ذات اپنے بندوں کے پوشیدہ سے پوشیدہ احوال حتیٰ کہ وسوسوں سے تک واقف ہو اور جس کی قدرت یہ ہو کہ اپنے حکم ’’کُنّ‘‘ سے کائنات پیدا کردے اس کو اپنی مخلوق کی پرورش اور حاجت براری کے لئے کسی مددگار یا کارکن کی ضرورت کیسے لاحق ہوسکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کو تنہا کائنات کا نظم چلانے پر قادر نہ سمجھنا کفر ہے اور دعویدارانِ توحید کا یہ عقیدہ کیا باطل و کفر نہیں جس کے تحت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں سے خوش ہو کر اپنے اختیارات بطور انعام و سرفراری کے عطا کرتے ہیں اور یہ برگزیدہ بندے عطائی عارضی و مجازی حاجت روا‘ مشکل کشا اور فریادرس ہیں۔ کلامِ الٰہی میں اکثر جگہ کلمۂ طیبہ کے ساتھ اسم حسن ’’الحکیم‘‘ بھی ہے۔ مثلاً لَا اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (اللہ کے سواء کوئی الٰہ نہیں کیونکہ اللہ زبردست حکیم ہیں) اللہ تعالیٰ جو زبردست حکیم ہیں کارسازی انہی کے لئے سزاوار ہے ایسا زبردست حکیم اپنی مخلوق کو چاہے انبیاء ہوں یا بزگانِ دین جن کا غیر حکم ہونا یقینی ہے۔ کیسے اپنے اختیارات دے سکتا ہے یا ان سے رائے مشورہ و مدد و سفارش کیسے لے سکتا ہے چاہے مجازا ًیا اعزازاً ہی کیوں نہ ہو یہ نری نادانی‘ جہالت اور بے عقلی کی بات ہے اس لئے ایسے لوگوں کو ’’جَاھِدُوْنَ لَایَعْقِلُوْنَ اور لَایَفْقَھُوْنَ‘‘ فرمایا گیا ہے بلکہ ایک دو مقام پر تو کَالْاَنْعَامِ یعنی جانور بلکہ ان سے بھی بدتر ’’بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْـلًا‘‘ فرمایا گیا ہے۔ اپنے باطل عقیدے کو صحیح ثابت کرنے کے لئے بزرگوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ خود انہوں نے ایسی تعلیم دی کہ ان کا واسطہ وسیلہ لیا جائے اور ان کو حل مشکلات کے لئے پکارا جائے۔ کلامِ الٰہی کی رو سے کوئی اللہ والا ایسی تعلیم نہیں دے سکتا۔ چنانچہ ارشاد ہے :- وَلَا يَاْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰۗىِٕكَۃَ وَالنَّبِيّٖنَ اَرْبَابًا۝۰ۭ اَيَاْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۸۰ۧ (سورہ اٰل عمران) ترجمہ: (اللہ کے بندے ہر گز تم کو یہ تعلیم نہیں دے سکتے کہ تم ملائکہ اور انبیاؑء کو رب قرار دو۔ کیا کوئی اللہ کا بندہ تم کو حکم دے گا کہ تم مسلمان ہونے کے بعد کافر ہوجاؤ) اللہ والوں سے ایسی تعلیم کو منسوب کرنا دراصل نام نہاد مذہبی پیشواؤں کی کارستانی ہے۔ اللہ و رسولﷺ کی تعلیمات کے خلاف ایسی غلط تعلیم کو قبول کرلینا مذہبی پیشواؤں کو رب ماننا ہے اور یہ بھی شرک ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ۝۰ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا۝۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝۳۱ (سورہ توبہ) ترجمہ: (انہوں نے اپنے علماء و مشائخ اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سواء اپنا رب بنالیا۔ حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کے سواء کسی کی عبادت نہ کریں کیونکہ اس کے سواء کوئی معبود نہیں اور وہ ان کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے)

ایک مغالطہ

اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ بتوں کو پکارنا ان کی نذر و منت کرنا ان کے لئے قربانی کرنا شرک ہے اور بزرگانِ؎1دین کے تعلق سے ان اعمال کا انجام دینا شرک نہیں۔ یہ دراصل ایک مغالطہ و دھوکہ ہے کیونکہ جو بُت بھی پوجے جاتے ہیں وہ دراصل کسی نہ کسی مقربِ الٰہی ہی کا مظہر ہوتے ہیں یا ان سے نسبت ہوتی ہے ورنہ ایک بے وقوف سے بے وقوف شخص بھی محض پتھر کو نفع پہنچانے والانہیں سمجھ سکتا بلکہ وہ بُت جس مقربِ الٰہی کا مظہر ہوتا ہے یا نسبت ہوتی ہے اسی کو نافع و ضار سمجھا جاتا ہے جس کو خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے :- اَفَحَسِبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ يَّــتَّخِذُوْا عِبَادِيْ مِنْ دُوْنِيْٓ اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۭ ۝۱۰۲ (سورہ الکہف) ترجمہ: (کیا منکرینِ حق یہ خیال کرتے ہیں کہ میرے سوائے میرے بندوں کو بھی کارساز بنالیں) اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اہلِ باطل اللہ کے پاس جن کو سفارشی سمجھتے اور جن کو نظامِ الٰہی میں شریک و دخیل سمجھ کر ان کو اپنا کارساز بنائے ہوئے تھے اور امداد کے لئے ان کو پکارتے تھے اور وہ گائے و بیل‘ شجر و حجریا بے جان مورتیں نہیں تھیں بلکہ وہ اللہ کے بندے ہی تھے از قسم ملائکہ‘ جنّات‘ انبیاء علیہم السلام یا قوم کے دیگر بزرگ ہستیاں۔

یاد رکھئے از آں دم تا ایں دم جب بھی خدا پرستی میں بگاڑ آیا تو بزرگ پرستی وجود میں آئی جس کی انتہائی بگڑی ہوئی شکل بت پرستی ہے۔ مندروں دیویوں اور دیگر مذاہب کے عبادت خانوں میں پتھر کی بے جان مورتیاں اور تصاویر ہی نظر آئیں گی مگر حقیقتاً تمناؤں کا ملجا و ماویٰ‘ اللہ کے وہ مقرب بندے ہی ہیں جن کی یہ مورتیاں ہیں اور وہ ان ہی کی قوم کے افراد تھے جن کو کرشن‘ رام‘ سیتا‘ لچھمن‘ ہنومان وغیرہ نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ان ہی کو یہ لوگ دیوتا‘ دیوی‘ مہادیو‘ ایشور‘ بھگوان‘ اوتار مانتے ہیں۔

عرس

کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں کسی نہ کسی بزرگ کے عرس کی خبر نہ شائع ہوتی ہو۔ اسلام اور عرس گویا حق و باطل یا آگ و پانی کا جیسا معاملہ ہے۔ عامۃ المسلمین سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ نذر و نیاز‘ منّت مراد‘ رزق اور اولاد‘ صحت‘ حل مشکلات‘ دفع بلیّات‘ مردہ بزرگوں سے مانگنا اور ان مقاصد کے لئے ان کی درگاہوں پر جانا حرام ہے۔ یہ مدفون کچھ بھی نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود زندوں کی دعا کے محتاج ہیں تو جواب دیا جاتا ہے کہ پھر ہماری منّتیں‘ مرادیں کیسی پوری ہوتی ہیں۔ اس پر ان سے پوچھا جائے بھلا بتاؤ بتوں اور دیویوں وغیرہ سے مانگنے والوں کی منّتیں و مرادیں کون پوری کرتا تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو اللہ ہی پورا کرتا ہے۔ مسلمان درگاہوں کے فیوض و برکات کے اس درجہ قائل ہیں کہ کسی طرح بھی اللہ کے فضل و کرم کو تسلیم نہیں کرتے اور بغرضِ محال تسلیم کرتے بھی ہیں تو یہ کہہ کر کہ ان بزرگوں کے واسطے‘ وسیلہ‘ طفیل اور صدقہ میں ان کی منّتیں و مرادیں پوری ہوجاتی ہیں۔ اس پر ان سے کہا جائے کہ اس طرح غیر مسلم کی منّت و مراد بھی ان کے اپنے بزرگوں کے واسطے و وسیلے سے ہوتی ہیں تو فوراً جواب دیا جاتا ہے کہ یہ تو شیطانی باتیں ہیں کہاں ہمارے بزرگ اور اولیاء اور کہاں یہ پتھر کے بُت اور مٹی کے ڈھیر بھلا یہ دونوں کیسے یکساں ہوسکتے ہیں۔

ذرا بھی غور کیا جائے اور ولو فرض مان بھی لیا جائے تو یہ حقیقت تسلیم کئے بغیر چارہ ہی نہیں کہ ہماری درگاہوں و مردہ بزرگوں کے فیوض و برکات کے مقابلہ میں جنوبی ہند کی ایک دیول کے فیوض و برکات کئی گناہ زیادہ نظر آتے ہیں۔ چنانچہ اس دیول کی آمدنی سے یونیورسٹی‘ دواخانے اور مسافر خانے قائم و جاری ہیں۔ ہماری درگاہوں کی آمدنی تو خود سجادے و مجاور کے لئے ناکافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دیول ہو یا درگاہ دونوں جگہ منّت و مراد صرف اللہ تعالیٰ ہی پوری کرتا ہے۔ حتیٰ اینکہ ان لوگوں کی آرزوئیں اور تمنائیں بھی پوری ہوتی ہیں جو نہ دیول جاتے ہیں اور نہ درگاہ لیکن شیطان اور اس کے چیلے یہ یقین دلاتے ہیں کہ یہ دیوتاؤں اور بزرگوں کے واسطے اور وسیلے سے پوری ہوتی ہیں۔

دیول ہو یا درگاہ سے منّت و مراد پوری ہوتی ہوئی معلوم ہونا دراصل ہمارے ایمان اور سمجھ بوجھ کا امتحان ہے۔ آیا عقل و سمجھ‘ بصارت اور سماعت رکھنے والا اپنا تعلق ایک زندہ اور قادرِ مطلق ہستی سے قائم کرتا ہے یا مُردہ بے اختیار اور اپنی ہی جیسی مخلوق سے اپنا ناطہ جوڑتا ہے۔ اپنے خالق و رب کو چھوڑ کر اپنی ہی جیسی مخلوق سے بھیک مانگنا نہ صرف عقل و فطرت کے خلاف ہے بلکہ اپنے ہاتھوں اپنی تذلیل و توہین کرنا ہے۔

ریاء

جس نیک کام میں بھی شہرت و عزّت کا خیال آجائے اس میں ریاء کا دخل ہوجاتا ہے۔ اس کو شرک خفی اور شرک اصغر بھی فرمایا گیا ہے۔ اللہ رب العزّت اہلِ ایمان کو اپنے نیک اعمال کی انجام دہی کے ہر مرحلہ پر نیتوں کا جائزہ لیتے رہنے اور اس کی اصلاح کرنے کی تاکید فرمائی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف وہی نیک اعمال قبول فرمائے گا جو حصولِ تقویٰ و تزکیہ کے لئے انجام دیئے گئے ہوں۔

قبولیتِ اعمال کے سلسلہ میں ’’وَھُوَ مُؤْمِنٌ‘‘ کے بعد نیت کا صحیح و درست ہونا دوسری لازمی شرط ہے۔ چنانچہ اہلِ ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنے صدقات کو ریاء سے ملوث کر کے برباد مت کرو اور ریاء کے تعلق سے فرمایا گیا کہ وہ نہ صرف اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ آخرت پر يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۝۰ۙ كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَا لَہٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ۝۲۶۴ (سورہ البقرہ) ترجمہ: (اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان رکھ کر اور تکلیف دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کرلو جو لوگوں کے دکھاوے کے لئے مال خرچ کرتا ہے اور وہ اللہ و روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا) وَالَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ وَمَنْ يَّكُنِ الشَّيْطٰنُ لَہٗ قَرِيْنًا فَسَاۗءَ قَرِيْنًا۝۳۸ (سورہ النساء) ترجمہ: (جو لوگ اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں وہ دراصل نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت پر ایسے لوگوں کا ساتھی شیطان ہوا اس کا بُرا ساتھی ہونے میں ذرا برابر بھی شک نہیں) ریاء کو نفاق کی علامت بھی فرمایا گیا ہے جواس کو قابل نفرت گرداننے کے لئے کافی ہے جس کا ذکر سورہ النساء کی آیت ۱۴۲ میں موجود ہے۔ ریاء کے تعلق سے احادیث نبویﷺ پیش ہیں :- ’’یَسِیْرُ الرِّیَائِ شِرْکٌ‘‘ ترجمہ: (ذرا سا دکھاوا (ریاء) بھی شرک ہے) ’’من صلی یرائی فقد اشرک ومن صام یرائی فقد اشرک ومن تصدق یرائی فقد اشرک‘‘ ترجمہ: (جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے دکھاوے کے لئے روزے رکھے اس نے شرک کیا جس نے دکھاوے کے لئے صدقہ دیا اس نے شرک کیا) ’’اَنَّ اخَوف مَا اَخَافَ عَلَیْکُمْ الشرک الاصغر قالواا یَا رَسُوْلَ اللّٰہَ مَا الشِرْکُ الْاَصْغَرُ قَالَ الرِّیَائُ‘‘ ترجمہ: (تمہارے متعلق مجھے جس بات کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ شرکِ اصغر ہے۔ (صحابہ کرامؓ) نے پوچھا شرکِ اصغر کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا دکھاوے کے لئے عمل کرنا)

مندرجہ بالا ارشادات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا ہر عمل جس میں ریاء ہو بے نتیجہ ہوجاتا ہے اور ایمان کام نہیں دیتا۔ اس لئے ہر اس شخص کو جو آخرت میں مغفرت و جنّت کا طلب گار ہے۔ ہر وقت اپنے فکر و نیت کا جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت ہے ورنہ کراکرایا اکارت ہوجائے گا۔

خواہشاتِ نفس کی پیروی

شرک کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان اپنی زندگی اللہ و رسولؐ کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر اپنی خواہشاتِ نفس کے تحت بسر کرے خواہ اس کا تعلق تزکیہ و تطہیر سے ہو یا ذکر و عبادت سے یا کسی اور شعبۂ حیات سے زندگی کا اپنے آپ کو مالک و مختار سمجھنا دراصل خالق و مخلوق کو برابر قرار دینا ہے۔ یہ تصور شرک ہے جو لوگ علم و ہداتِ الٰہی سے بے نیاز ہو کر من مانی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ دراصل اپنے نفس و ہوا کو مبعود بنائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ الفرقان آیت ۴۳‘ القصص آیت ۵۰ اور الجاثیہ آیت ۲۳ میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اَرَئَ یْتَ مَنِ التَّخَذَا اِلٰـھَہٗ ھَوٰہُ‘‘ ترجمہ: (کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنے خواہشِ نفس کو مبعود بنا رکھا ہے) قارون نے اپنی دولت اور عزّت کو اپنی عقل و تدبیر کا نتیجہ سمجھا قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِيْتُہٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ۝۰ۭ ۝۷۸ (سورہ القصص) ترجمہ: (قارون نے کہا کہ مجھے یہ دولت و عزّت اپنے عقل و تدبیر کی بناء پر حاصل ہوئی ہے)

نفاق

یہ قلب کی وہ بیماری اور ایمان کا وہ بگاڑ ہے جس کا انجامِ آخرت دوزخ کا سب سے نچلا طبقہ ہے :- اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ۝۰ۚ ۝۱۴۵ۙ (سورہ النساء) ترجمہ: (بلاشبہ منافقین دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے) اور دنیا میں ذلّت و خواری ہے۔ دراصل نفاق صدق فی الایمان و اخلاص کی ضد ہے۔ زبان سے ایمان و اسلام کا اقرار و دعویٰ ہو مگر عمل کے موقع پر احکام اللہ و رسول ﷺ کی خلاف ورزی کرنا نفاق ہے۔ آخرت کی بجائے دنیا کا نفع مطلوب بنانا یعنی عارضی و معمولی نفع دنیا کے لئے بڑے سے بڑا نقصانِ آخرت گوارا کرنا اور معمولی نقصان دنیا سے بچنے کے لئے بڑے سے بڑا نفعِ آخرت ٹھکرا دینا جہالت و بے وقوفی ہے۔ اللہ و رسولﷺ نے مرضِ نفاق کی جو علامتیں بیان فرمائی ہیں ان میں سے چند پیش ہیں :-

(۱)جب ان کو اللہ و رسولﷺ کی اطاعت کے لئے کہا جاتا ہے تو پہلو تہی کرتے ہیں اور اطاعت سے جی چراتے ہیں :- وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنٰفِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا۝۶۱ۚ (سورہ النساء) ترجمہ: (جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے اتارا یہ اور جو کچھ رسول نے ہدایت فرمائی ہے اس کی طرف آؤ تو آپ منافقین کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کی طرف آنے سے اعراض کرتے اور رُکے جاتے ہیں۔)

(۲)وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۝۰ۙ ۝۱۴۲ۡۙ (سورہ النساءجز) ترجمہ: (جب وہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو کاہلی اور سستی سے کھڑے ہوتے ہیں۔)

(۳)وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۱۴۲ۡۙ (سورہ النساءجز) ترجمہ: (اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر تھوڑا) یعنی رات دن صرف دنیا اور دنیا ہی کی باتوں میں مصروف رہتے ہیں اور صرف مصلی کی حد تک اللہ کی یاد اور بقیہ زندگی میں من مانی کرتے ہیں :- يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ ۝۶۷ (سورہ توبہ) ترجمہ: (کفر و مخالفت اسلام کی تعلیم دیتے ہیں۔ اچھی بات یعنی ایمان باللہ و اتباع و اطاعتِ نبوت سے منع کرتے ہیں) یعنی ہر اس کام کی طرف بلاتے ہیں جس میں صرف دنیا ہی کا فائدہ ہو‘ چاہے اس میں اللہ و رسولﷺ کی کتنی ہی نافرمانی ہوتی ہو۔ وَيَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَہُمْ۝۰ۭ ۝۶۷ (سورہ توبہ) ترجمہ: (اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں) یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے جی چراتے ہیں اور اگر خرچ بھی کرتے ہیں تو بڑی ہی کراہیتِ قلبی کے ساتھ زکوٰۃ کو جرمانہ سمجھتے ہیں :- وَلَا يُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَہُمْ كٰرِہُوْنَ۝۵۴ (سورہ توبہ) ترجمہ:(اللہ کے راستہ میں خرچ بھی کرتے ہیں تو کراہیتِ قلبی کے ساتھ) اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۶۷ (توبہ) ترجمہ: (بلاشبہ منافقین نافرمان ہیں) ہمیشہ نافرمانی کرتے رہتے ہیں اور اپنی حالت پر کوئی شرم و ندامت محسوس نہیں کرتے۔ اللہ و رسولﷺ کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں۔ یعنی دین کی باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ بھی نفاق ہی کی علامت ہے :- قُلْ اَبِاللہِ وَاٰيٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ كُنْتُمْ تَسْتَہْزِءُوْنَ۝۶۵ (سورہ توبہ) ترجمہ: (کہو کیا تم اللہ اور اس کے احکام اور اس کے رسول ﷺ سے مذاق کرتے ہو) حدیث شریف میں بھی چار علامتیں بیان کی گئی ہیں :- وعن عبداللہ ابن عمر وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کافت فیہ خصلۃ منھن کانت خصلۃ من النفاق حتی یدعھا اذا وتمن خان واذ احدث کذب واذ اعاھد غد رواناخاصم فجر (متفق علیہ) ترجمہ: (عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میں یہ چار باتیں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں اس میں سے کوئی ایک بات ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی جاتی ہے جب تک کہ اسے چھوڑ نہ دے۔ (۱)جب امانت سپرد کی جائے خیانت کرے (۲)گفتگو میں جھوٹ بولے (۳)معاہدہ میں بد عہدی کرے (۴)لڑائی میں گالی گلوج کرے) اس حدیث میں نفاق سے بچنے کی تاکید کے ساتھ یہ تنبیہ بھی ہے کہ ان خصلتوں سے توبہ کر کے جب تک ان کو ترک نہ کیا جائے مرض نفاق دور نہیں ہوتا۔ مسلم میں ابو ہریرہؓ کی روایت میں اتنا اور اضافہ ہے :- ’’وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمْ اَنَّـہٗ مُسْلِمٌ‘‘ ترجمہ: (اگر چہ وہ روزہ رکھتا ہو‘ نماز پڑھتا ہو اور اپنے کو مسلمان سمجھتا ہو) مطلب یہ ہے کہ نماز روزہ سے اس دھوکہ میں نہ رہیں کہ ہم مومن ہیں بلکہ اس مرضِ قلبی کا پتہ لگاکر اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ رسول اکرمﷺ نے نفاق کی ایک علامت یہ بھی بیان فرمائی ہے :- ’’وان لمنافق اذا مرض ثم اعفی کان کالبعیر عقلہ اھلہ ثم ارسلوا فلم یذرھم عقلوہ ولم ارسلوہ‘‘ ترجمہ: (منافق بیمار ہونے کے بعد اچھا کردیا جاتا ہے۔ وہ اس اونٹ کے جیساہوتا ہے جس کو اس کے مالک نے باندھا اور پھر چھوڑ دیا۔ اس کو نہیں معلوم کہ کیوں باندھا تھا اور کیوں چھوڑ دیا) یعنی یہ غور نہیں کرتا کہ یہ مصیبت کیوں آئی اور کیوں چلی گئی۔ مصیبت کے بعد بھی اپنی اصلاح کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ دنیا میں انسان پر مصیبتیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔ وہ اس کے بُرے اعمال کی وجہ سے بھی نازل ہوتی ہیں۔ نافرمانوں پر مصیبت اس لئے نازل کی جاتی ہے کہ وہ چونکیں لہٰذا ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان مصیبتوں میں پہلے اصلاحِ حال کی طرف متوجہ ہو اور نفاق یہ ہے کہ اس کا احساس بھی نہ ہو بلکہ مصیبت آنے سے چیں بہ جبیں ہو کر اللہ تعالیٰ کی شکایتیں کرنے لگے۔

اہلِ ایمان کی بجائے اہلِ باطل سے دوستی بھی نفاق کی ایک بڑی علامت ہے۔ صفِ اوّل کے صحابہؓ کو ہر وقت یہی فکر لگی رہتی تھی کہ کہیں وہ نفاق کا شکار تو نہیں ہوگئے۔

حبِ دنیا

دنیا کی محبت کو تمام برائیوں کی جڑ فرمایا گیا ہے۔ ’’حب الدنیا راس کل خطیۃ‘‘ (حدیث)۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری نافرمانی کی اصل وجہ اسی حبّ دنیا کو قرار دیا ہے :- اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا بِالْاٰخِرَۃِ۝۰ۡ ۝۸۶ۧ (سورہ بقرہ) ترجمہ: (یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کو خرید لئے ہیں) ذٰلِكَ بِاَنَّہُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۙ وَاَنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۝۱۰۷ (سورہ النحل) ترجمہ: (یہ اس لئے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے معاملہ میں عزیز رکھا اس لئے اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا) بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۝۱۶ۡۖ (سورہ الاعلیٰ) ترجمہ: (حقیقت یہ ہے کہ تم دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو) وَاٰثَرَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۝۳۸ۙ (سورہ النزعٰت) ترجمہ: (دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھا) سورہ الاعراف آیت ۱۷۶ میں طالب دنیا کے حال کو کتّے کی حالت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ رسول اکرمﷺ کا ارشاد ’’الدنیا جبیفۃ وطالبھا کلاب‘‘ ترجمہ: (دنیا مردار ہے اور اس کو چاہنے والا (مقصدِ زندگی بنانے والا) کتا ہے) اس سلسلہ میںایک غلط فہمی یہ پیدا کی جاتی ہے کہ رزق کے لئے جدوجہد کرنا حبّ دنیا ہے جو بالکل غلط ہے۔ بعضوں نے اس بگاڑ کا علاج ترکِ دنیا‘ گوشہ نشینی‘ ترک تعلقات‘ نفس کشی وغیرہ جیسے غیر مسنون اعمال کو قرار دیا ہے جو صحیح نہیں۔

اللہ و رسولﷺ کے مندرجہ بالا ارشادات کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایک مسلمان اپنے ہر کام میں صرف دنیا ہی کے نفع و نقصان کو پیش نظر نہ رکھے بلکہ اس کے ہر فعل کی بنیاد نفع و نقصان آخرت ہو۔ دنیا کی محبت یہ ہے کہ دنیا کے نفع کے لئے آخرت کے بڑے سے بڑے نقصان کو نظر انداز کردیا جائے اور نقصان دنیا سے بچنے کے لئے بڑے سے بڑے نفعِ آخرت کو ٹھکرا دیا جائے۔ اللہ و رسولﷺ کی نافرمانی سے بچتے ہوئے دنیاوی زندگی کی سہولتوں سے استفادہ کرنا عین تقاضائے دین ہے۔ البتہ ان سہولتوں کے حصول کے لئے اللہ و رسولﷺ کی نافرمانی کرنا ہی دراصل حبِّ دنیا ہے۔

اسباب کا اختیار کرنا

انسان کی حاجتیں اور ضرورتیں اتنی کثیر ہیں کہ یہ پورا نظام ارضی و سماوی اسی کی حاجت روائی کے لئے بنایا گیا ہے۔ چونکہ اس کی ضرورتیں اسباب کے ذریعہ پوری ہوتی نظر آتی ہیں، اس لئے اس کی نگاہ میں یہی اسباب و ذرائع اہم بن جاتے ہیں اور خالقِ کائنات رب العالمین کا حاجت روا ہونا اس کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اسی لئے ہر حاجت و ضرورت میں سب سے پہلے ان ہی اسباب کی طرف انسان کا ذہن منتقل ہوتا ہے جو شرک ہے۔ حالانکہ عقل و فطرت یعنی ایمان باللہ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے خالق و رب کی طرف اس کی نگاہ اٹھنا چاہئے کیونکہ وہ نہ صرف اس کا خالق و رب ہے بلکہ اسباب کا بھی وہی فراہم کرنے والا اور اسباب سے مطلوبہ نتائج پیدا کرنے والا بھی ہے اور یہ قطعی ناممکن ہے کہ خالق اپنی مخلوق سے‘ رب اپنے مربوب سے بے خبر اور غافل ہوجائے۔ چونکہ رب العالمین انسان کی نظر سے پوشیدہ ہے، اس لئے اس کو یہ علم دیا گیا کہ فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ۝۱۹ۧ (سورہ محمد) ترجمہ: (پس جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے سواء کوئی معبود نہیں) یعنی کہ بندہ ہر وقت اور ہر معاملہ میں اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھے کہ صرف اللہ ہی اس کے حاجت روا اور مشکل کشا‘ فریادرس‘ آقا و مالک ہیں اور کوئی دوسرا نہیں۔

توکل

اسباب اس لئے اختیار کرنا ہے کہ اسباب کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ذہن میں یہ بات رہے کہ ہوگا وہی جو اللہ چاہیں گے۔ کیونکہ معبود کے پیشِ نظر بندے کی فلاح ہی رہتی ہے۔ یہی دراصل صحیح توکل ہے۔ میسر اسباب اختیار نہ کر کے مطلوبہ نتائج کی امید رکھنا توکل نہیں جہالت ہے۔

قلب میں شکایت پیدا ہونا

اسباب کے اختیار کرنے کے باوجود مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوں تو قلب میں کوئی اعتراض نہ آنا چاہئے۔ مثلاً ایسا کیوں ہوا یا ایسا ہوتا تو اچھا تھا‘ یا مصیبت بھگتنے کے لئے ہم ہی ملے وغیرہ۔ کیونکہ مصائب‘ مشکلات‘ دکھ‘ درد‘ بیماری یا آفت میں قلب میں اعتراض یا شکایت کی پرورش کرنا بقول عبدالقادر جیلانیؒ : ایمان‘ اخلاص و توحید کی موت ہے۔‘‘ شکایت کا پیدا ہونا ہماری نادانی ہے۔ اگر شکایت ہو بھی تو اپنے پروردگار سے بیان کی جائے نہ کہ مخلوق سے خالق و رب کے خلاف شکایت کی پرورش کرنا شیطان کا ایک اہم حربہ ہے جس کے ذریعہ بندہ کو اللہ کی رحمت سے دور کردیتا ہے۔

دعا

بندگی یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کی جائے اور بار بار اپنے رب ہی سے عرض و معروض ہوتی رہے کیونکہ بندے کی کوئی دعا بیکار نہیں جاتی یا تو بعینہٖ یا بالبدل قبول کرلی جاتی ہے یا ذخیرہ آخرت کرلی جاتی ہے۔

توبہ و استغفار

توبہ بندہ مومن کا وظیفہ حیات ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کا جو امتیازی شعار بیان فرماتے ہیں وہ توبہ ہی ہے۔ مثلاً يَذْكُرُوْنَ اللہَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ ۝۱۹۱(سورہ اٰل عمران) ترجمہ: (وہ اللہ کو کھڑے بیٹھے لیٹے یاد کرتے ہیں) وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ۝۰۠ وَمَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللہُ۝۰ۣ۠ ۝۱۳۵(سورہ اٰل عمران) ترجمہ: (اور یہ جب کوئی گناہ کربیٹھتے ہیں یا اپنے حق میں کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سواء گناہ معاف کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے) ذکر اللہ کا مطلب توبہ ہی ہے۔ رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں کہ قابل مبارکباد ہے وہ شخص جس کے نامۂ اعمال میں توبہ کی کثرت ہو‘ رسول اکرمﷺ کا ہر فرض نماز کے اختتام پر استغفراللہ فرمانا ہمارے لئے قابل غور ہے کیونکہ نماز تو کوئی گناہ کی بات نہیں تھی جس کے فوری بعد مغفرت کی دعا کی جائے بلکہ نماز جیسی ادا ہونا چاہئے نہ ہوسکی اس لئے اللہ سے معافی کی درخواست کی گئی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ دن میں ۷۰‘ ۷۰مرتبہ استغفار کرتے تھے اور دوسری روایت میں ہے کہ ۱۰۰‘ ۱۰۰مرتبہ استغفار کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ کا حال تو یہ تھا کہ وہ نیکی پر نیکی کئے جاتے تھے مگران کے قلوب اس خیال سے دہلے جاتے تھے کہ ان کو اللہ کے حضور میں پیش ہونا ہے۔ نہیں معلوم یہ عبادت و اعمال قبول ہوتے بھی ہیں یا نہیں اگر اُلٹا موجب عتاب ہوں تو کیسے گزرے گی۔ اس تعلق سے ہم کو اپنی حالت پر غور کرنا لازمی ہے کہ گناہ پر گناہ کئے جارہے ہیں مگر ہمارے قلوب محاسبہ کے خوف سے بالکل خالی بلکہ نڈر و بے خوف ہیں۔

اللہ کو الٰہ واحد ماننے کے تقاضے

عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اللہ کو الٰہ واحد ماننے کے معنی وجود و عدد کے لحاظ سے ایک ماننا ہے اور بعض یہ سمجھتے ہیں کہ شرک و بدعات ترک کردینا ہی اللہ کو الٰہ واحد ماننا ہے حالانکہ اللہ کو الٰہ واحد ماننے کا مطلب اس کے سواء کچھ نہیں کہ اب وہ اپنی زندگی میں مختار نہیں بلکہ ہر حرکت و سکون میں اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری ہو۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- فَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا۝۰ۭ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ۝۳۴ۙ (سورہ الحج) ترجمہ: (پس تمہارا معبود ایک ہی ہے لہٰذا اسی کے فرمانبردار ہوجاؤ اور گردن جھکادینے والوں کو خوشخبری سنادو) قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِيْمُوْٓا اِلَيْہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ۝۰ۭ وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ۝۶ۙ (سورہ حٰم السجدہ) ترجمہ: (آپ کہدیجئے کہ میں بھی آدمی ہوں جیسے تم ہو‘ ہاں مجھ پر وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود‘ اللہ واحد ہے لہٰذا اسی کی طرف رجوع ہو اور اسی سے مغفرت مانگو اور مشرکوں کے لئے تباہی ہے) فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللہِ وَاَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۴ (سورہ ہود) ترجمہ: (پس جانو کہ قرآن اللہ کے علم سے اُترا ہے اور یہ کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں لہٰذا اب تم فرمانبرداری کرنے والے ہوجاؤ) قُلْ اِنَّمَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّـمَآ اِلٰــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۰۸ (سورہ الانبیاء) ترجمہ: (مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ سب کا معبود‘ اللہ واحد ہے لہٰذا کیا تم سر اطاعت جھکاتے ہو) اللہ کو الٰہ واحد ماننے والوں کو مزید تاکید یہ کی گئی :- يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۝۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۲۰۸ فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْكُمُ الْبَيِّنٰتُ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۲۰۹ (سورہ البقرہ) ترجمہ: (اے ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو‘ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔ پھر اگر تم کھلے احکام پہنچ جانے کے بعد لڑ کھڑا جاؤ تو جان رکھو کہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے) رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں کہ مومن کا حال کیا ہی اچھا ہے کہ جب مصیبت آتی ہے تو صبر کرتا ہے‘ راحت ملتی ہے تو شکر کرتا ہے اور اللہ کی بشارت یہ ہے :- اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰ نَحْنُ اَوْلِيٰۗــؤُكُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَشْتَہِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَدَّعُوْنَ۝۳۱ۭ(سورہ حٰم السجدہ) ترجمہ: (بلاشبہ جن لوگوں نے اللہ کو اپنا پروردگار مان لیا اور اس پر ثابت قدم بھی رہے تو ان پر فرشتے بھی اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ اندیشہ کرو اور نہ رنج اور تمہارے لئے جنت کی بشارت ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ دنیا کی زندگی میں جس طرح ہم تمہارے رفیق تھے آخرت میں بھی رہیں گے جہاں تمہارا دل جو چاہے گا ملے گا اور تم جو طلب کرو گے عطا کیا جائے گا (من مانی زندگی عطا ہوگی)) جو لوگ اللہ کو حاجت روا مانتے ہیں اور اس پر قائم رہنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں یعنی زندگی کے ہر معاملہ میں چاہے وہ معمولی سے معمولی یا اہم سے اہم کیوں نہ ہو۔ سب سے پہلے وہ اپنے پروردگار ہی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس سلسلہ میں اللہ و رسولﷺ نے جو طریقہ کار متعین فرمادیا ہے اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں جو بندگیٔ رب پر قائم رہنے میں ان کی مدد کرتے ہیں اور مرنے کے بعد جنت کی بشارت بھی دیتے ہیں یعنی دم آخر دنیا کے چھوٹنے کا غم نہیں ہوتا جسں کا تجربہ وقت آنے پر ہی ہوسکتا ہے۔

ہمارا تعلق اپنے پروردگار سے اس چھوٹے بچے کی طرح ہونا ضروری ہے جو ہر معاملہ میں چاہے وہ خورد و نوش کا ہو یا خوف کی بات ہو یا خوشی کا موقع وہ اپنے ماں باپ ہی کی طرف رجوع ہوتا ہے۔

یاد رکھئے کہ دنیا میں ہر حاجت و ضرورت ہم سے سوال کررہی ہے ’’مَنْ رَبُّکَ‘‘( تیرا پروردگار کون ہے)۔ وہی شخص صحیح جواب ’’اَللّٰہُ رَبِّیْ‘‘ (اللہ میرا پروردگار ہے) دے رہا ہے جو ایمان والا ہے، جو دنیا میں اپنا ہر معاملہ اپنے پروردگار سے رجوع کیا کرتا ہے چونکہ یہ معاملہ نہایت اہم ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم پوری توجہ اور فکر کے ساتھ اس کو درست کرنے اورٹھیک رکھنے میں لگے رہیں۔ اگر اس میں بھول چوک یا غلطی ہوجائے تو فوری توبہ کی جائے اور شیطان کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے پروردگار سے التجا بھی ہو۔

حُبِّ الٰہی

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ (البقرہ) مطلب: (اہلِ ایمان کو اللہ ہی سے محبت و عقیدت ہوتی ہے ایسی شدید محبت کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کو مٹا نہیں سکتی) یعنی جس کا ایمان صحیح ہوتا ہے ان کو دنیا کا کوئی لالچ اور نقصان اللہ کی نافرمانی پر مائل نہیں کرسکتا۔ ان لوگوں کو ہر وقت یہ فکر لگی رہتی ہے کہ اللہ ناراض نہ ہو‘ چاہے دنیا ناراض ہوجائے اس کی پرواہ نہیں۔

اللہ کو الٰہ واحد ماننے کے نتائج

امن و ہدایت

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۸۲ۧ (سورہ انعام) ترجمہ: (جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو شرک کے اجزاء سے پاک کرلیا ان ہی کے لئے امن ہے وہی ہدایت یافتہ ہیں) جس کا ایمان شرک کے اجزاء سے پاک ہوگا اسی کو دنیا میں امن کی بشارت دی گئی ہے اور اسی کو ہدایت یافتہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ اس ارشاد کی روشنی میں ہم مدعیان ایمان کو غور کرنا چاہئے۔ کیا ہم ایمان کے ان ثمرات سے مستفید ہورہے ہیں یا نہیں، یہ تلخ حقیقت ہی ہے کہ آج ہم ایمان کے ان ثمرات سے محروم ہیں۔ تب ہی تو ہماری جان‘ مال و آبرو سب سے زیادہ سستی ہوگئی ہے جس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ہمارا ایمان شرک کے اجزاء سے پاک نہیں ہے۔ ورنہ کیا بات ہے کہ ہم مدعیانِ ایمان کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود ان ثمرات سے محروم ہی ہیں۔ اللہ کا وعدہ تو غلط و جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ یقینا ہمارے ایمان ہی میں شرک کے اجزاء ہیں جس کا ثبوت اہلِ ایمان کا رعب اہلِ باطل کے قلوب سے نکل جانا ہے۔ غور کیجئے کہ ہمارا رعب اہلِ باطل کے قلوب سے نہ صرف نکل گیا بلکہ اُلٹا ان کا رعب ہمارے قلوب میں بیٹھ گیا جس سے ہمارے ایمان کے بگاڑ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

ہمارے رہنماؤں کا کام تو یہ تھا کہ ہمارے ایمان کی اصلاح کرتے اُلٹا شرک و بدعت کے نئے نئے طریقے ایجاد کر کے ہم کو اللہ کے غضب میں مبتلا کررہے ہیں۔ پہلے ہی سے قبر پرستی‘ عرس‘ صندل مالی‘ جھیلا و پنکھا و جھنڈا وغیرہ ہی کیا کم تھے کہ اب قبروں کے غلاف‘ یاد فلاں‘ یوم فلاں یا بارہ وفات کو عید میلاد النبیؐ (عید العیاد) کے جدید عنوانات سے گمراہی میں اور پختہ کیا جارہا ہے۔ شرک کو جزِ ایمان اور بدعات کو عین دین قرار دیا جارہا ہے۔ اگر کسی نے ان کے خلاف آواز اٹھائی تو اسے غیر مقلد یا وہابی کا لیبل لگادیا جاتا ہے۔ کوئی فتنہ ہے کہہ دیتے ہیں اور کوئی اختلافی مسائل ہیں کہہ کر اس کی سنگینیت کو گھٹا دیتے ہیں اور کوئی شدت ہے کہہ کر اپنا دامن بچا لیتے ہیں حالانکہ حق بات کا کہنا اور شرک و بدعات سے منع کرنا فتنہ نہیں ہے بلکہ فتنہ‘ حق کے ساتھ باطل کو ملانا اور باطل کو بھی حق کہنا ہے۔ دین و ایمان کے بگاڑ کو اختلافی مسائل کہنا نادانی ہے کیونکہ اختلافی مسائل کا تعلق صرف دینی احکام کی فروعات سے ہے۔

دین و ایمان میں اختلافی مسائل کا سوال پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ حق بات کا کہنا شدت کیسے ہوسکتا ہے۔ نجات و عذاب کا انحصار جن امور پر ہے، ان کو بیان کرنا ہی دراصل انبیائی طریقۂ دعوت ہے۔ مختصر یہ کہ ایمان کے ان ثمرات سے مستفید ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارا تعلق اپنے پروردگار سے ویسا ہی مضبوط اور گہرا ہو جیسا کہ صحابہ کرامؓ کا تھا جنہوں نے والہانہ اللہ و رسولﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی اور دنیا کاہر نقصان و ہر تکلیف بذوق و شوق گوارہ کیا‘ اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت کرنے میں جو بھی مانع و مراحم ہوا اس سے قطع تعلق کرلیا۔

ایمان کے صحیح و درست ہونے کی علامت

خوفِ خدا

وَّاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ۝۸۸ (سورہ المائدہ) ترجمہ: (اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۰۲(سورہ آل عمران) ترجمہ: (اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے۔ وہ حق یہ ہے کہ جس حال میں بھی موت آئے وہ حالت اطاعت و فرمانبرداری ہی کی ہو) يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۝۰ۚ (سورہ الحشر) ترجمہ: (اے ایمان والو اللہ سے ڈرو ہر شخص کو چاہئے کہ ہر موقع عمل پر اس بات کی جانچ پڑتال کرلے کہ اس کا کل کیا بدل ملنے والا ہے) کلامِ الٰہی میں سب سے زیادہ اللہ کی نافرمانی کے انجامِ بد سے ڈرنے ہی کا حکم دیا گیا ہے۔

کلمۂ طیبہ کا غلط استعمال

کلمۂ طیبہ کے ذریعہ جاہل انسانوں کو علم کی روشنی عطا کی گئی تاکہ ان کے افکار و کردار منور ہوجائیں لیکن آج یہی کلمہ ذکر و شغل اوراد  و  مراقبہ کے لئے رہ گیا یا اس کو علمِ کلام کا ایک ایسا مسئلہ بنادیا گیا جو اپنے اندر نہ کوئی قوت محرکہ رکھتا ہے اور نہ جس کے اندر انسانی دل و دماغ کی توانائی کا کوئی سامان ہے یا پھر اس کلمہ کی نورانیت پر ’’لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہ یا لَا مَشْھُوْدَ اِلاَّ اللّٰہ‘‘ کے پردے ڈال دیئے گئے اور بڑے ہی عالمانہ اور عارفانہ انداز سے لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ کا یہ مطلب بیان کیا جانے لگا کہ اللہ کے سواء کوئی موجود ہے ہی نہیں۔ اس طرح غیر اللہ کو عین اللہ قرار دے لیا گیا۔ دعوتی کلمہ کا ایسا مطلب تفسیر بالرائے ہے۔

ایک اور المیہ بھی بیان کردینا ضروری ہے کہ اہلِ کلام نے وجود باری تعالیٰ کو ثابت کرنے کے لئے وہ تمام آیتیں پیش کردیں جن میں اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد ہونے کو بیان کیا گیا ہے اور جن میں اوروں کے حاجت روا‘ فریادرس‘ مشکل کشا ہونے کی نفی کی گئی ہے۔ وجود باری تعالیٰ کے اثبات میں ان آیات کو پیش کرنا اس وقت صحیح ہوتا جبکہ ان کے نزول کے وقت نزاعی مسئلہ اللہ کا وجود یا عدم وجود ہوتا۔ واقعہ یہ ہے کہ تمام آیتیں غیر اللہ کے الٰہ ہونے کی تردید میں ہیں اور اللہ ہی کے الٰہ واحد ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔

اہلِ کلام نے مخلوق کے وجود کو خالق کے وجود پر بطور دلیل پیش کیا حالانکہ خالق کا وجود دلیل ہے۔ مخلوق کے وجود پر اگر طریقہ استدلال یہ ہو کہ خالق کے وجود کو مخلوق کے وجود پر بطور دلیل بیان کیا جائے تو وجود باری تعالیٰ کے متعلق فلاسفہ باطلہ کا اعتراض باقی ہی نہ رہتا۔

مسلمانوں میں غلط فلسفہ تصوف نے نہ صرف جمود و تعطل پیدا کیا بلکہ ان کے قلوب میں قرآن کی جو عظمت و اہمیت تھی ان کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت کی بنیاد (جس میں نیکی اور بدی کا قانون بھی شامل ہے) جن قوانین پر رکھی ہیں وہ مبنی برعین علم و حکمت‘ عدل و انصاف رحمت و شفقت ہیں لیکن بُرا ہو جہالت و نادانی کا اس دین کو طریقت‘ حقیقت اور معرفت اور علم باطن یعنی علم سینہ بہ سینہ کے عنوان سے دھوکہ اور فریب قرار دے دیا گیا۔ اس جھوٹ اور باطلِ حق کے پردے میں اس قدر پھیلایا گیا کہ یہی حق سمجھا جانے لگا۔ اس کو غلط اور باطل کہنے والوں کی بات غلط معلوم ہونے لگی۔

حاسدانِ اسلام نے جب یہ محسوس کرلیا کہ مسلمانوں کا تعلق جب تک سادہ و فطری دینِ اسلام سے نہ کاٹا جائے اس وقت تک دنیا کی کوئی طاقت بھی مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی جس کے نتیجہ میں پوری دنیا اسلام کی حلقہ بگوش ہو کر رہ جائے گی۔ انہوں نے اپنا پورا زور اسی محاذ پر جھونک دیا۔ لاکھوں احادیث وضع کی گئیں۔ سازشوں کے ذریعہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا گیا۔ فلسفہ و کلام کے ذریعہ دین میں مختلف موشگافیاں کی گئیں اور احادیث کو بنیاد بناکر مسلمانوں میں فرقہ بندی و جھتّہ (تفرقہ) بندی کی گئی چنانچہ آج اہلِ سنت و جماعت کے سواء جس قدر بھی فرقے ہیں وہ سب اسی کا نتیجہ ہیں۔

دینِ اسلام کی تعلیمات کو ظاہر و باطن میں تقسیم کیا گیا‘ شریعت کا تعلق علمِ ظاہر سے قرار دیا گیا اور علمِ باطن کے نام سے طریقت‘ حقیقت اور معرفت ایجاد کئے گئے۔ اس طرح دینِ اسلام کے سادہ اور فطری تعلیمات کو ایک چیستاں (معمّہ و پہلی) بنادیا گیا۔

علمِ دین کی یہ تقسیم اللہ اور اس کے رسولﷺ پر صریح بہتان ہے کیونکہ اللہ نے اپنی تعلیمات جس کتاب یعنی قرآن کے ذریعہ بندوں تک پہنچائی ہے اس کی بنیادی صفت ’’تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْئٍ‘‘ (ہر چیز کو صاف اور کھول کر بیان کرنے والی) اور ’’ھُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ (تمام انسانوں کے لئے ہدایت) اور ’’اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘ (یہ قرآن تمام جہاں والوں کے لئے نصیحت ہے) بیان فرمائی ہے اور جن کو رسول بنایا ان کی صفت ’’حریصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤفٌ الرَّحِیْم‘‘(رسول‘ اہلِ ایمان کو فائدہ پہنچانے میں انتہائی حریص اور ان کے لئے مشفق بھی اور رحیم بھی) اور ’’سِرَاجًا مُّنِیْرًا‘‘ (روشن چراغ) بیان فرمائی ہے۔ خود قرآن میں رسولؐ کو یہ حکم دیا گیا ہے :- يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ۝۰ۭ ۝۶۷ (سورہ المائدہ) ترجمہ: (اے رسول پہنچاؤ (میرے بندوں تک) جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا ہے (یعنی قرآن) اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو پھر آپ اللہ تعالیٰ کا ایک پیغام بھی نہیں پہنچایا) فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ۝۹۴ (سورہ الحجر) ترجمہ: (آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس کو صاف صاف سنادیجئے) اور بھی کئی مقامات ہیں جن میں اسی حکم کو دہرایا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ نصیحت بھی موجود ہے :- وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ۝۴۴ۙ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِ۝۴۵ۙ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ۝۴۶ۡۖ (سورہ الحاقہ) ترجمہ: (اور اگر یہ ہمارے ذمہ کچھ (جھوٹی) باتیں لگادیتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑتے پھر ہم ان کی رگ دل کاٹ ڈالتے) کیا کوئی مسلمان رسول اکرمﷺ سے جن کی خاص صفت رحمۃ للعالمین (تمام جہان والوں کے لئے رحمت ہے) یہ توقع کرسکتا ہے کہ آپ نے اللہ کی اعلیٰ تعلیم کو عوام سے راز میں رکھے ہوں گے اور صرف ایک یا دو صحابہ کرامؓ کو اس کی تعلیم دیئے ہوں گے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ آج یہ اعلیٰ تعلیم ہر اس شخص کو دی جارہی ہے جو مرید ہوجاتا ہے۔ اس غلط تعلیمات کو اس طرح پھیلایا گیا کہ مسلمان اس کو صحیح سمجھنے لگے جس کے نتیجہ میں ان کے قلوب سے صحیح و سادہ و فطری تعلیمات کی وقعت گھٹتی چلی گئی اور دن بدن اسلام سے ان کا تعلق کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا۔ اللہ کا رسول بندوں کو ایسی تعلیم نہیں دے سکتا جس کا ثبوت بزبان عیسیٰ علیہ السلام :- مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ۝۰ۤ بِحَقٍّ۝۰ۭ۬ ۝۱۱۶ (سورہ المائدہ) ترجمہ: (مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں) اور مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِيْ بِہٖٓ ۝۱۱۷ (سورہ المائدہ) ترجمہ: (میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے کہ جس کا تو نے مجھے حکم دیا) ہم پورے یقین کے ساتھ یہ عرض کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے اللہ کی تعلیمات کو من و عن بلا تفریق ظاہر و باطن اللہ کے بندوں تک پہنچائی جس کی تصدیق میں حجۃ الوداع کا وہ واقعہ ہے جس میں ایک لاکھ سے زیادہ اہلِ ایمان نے اسی بات کا اقرار کیا ہے۔

مسلمانوں میں الٰہی و نبویؐ تعلیم اور حالاتِ صحابہ کرامؓ کی بجائے تذکرہ اولیاؒ کا اس قدر چرچا کیا گیا کہ اسی کو دین کا ماحاصل سمجھا جانے لگا۔ تذکرہ اولیاء کا چرچا اس لئے بھی کیا گیا کہ انہی تذکروں سے اس غلط فلسفہ کے حق ہونے کا ثبوت دیا جاسکتا تھا اسی میں جذبہ عمل کی بجائے عقیدہ و محبت کو انگیز کیا گیا۔

مختصر یہ کہ لاموجود الا اللہ کے فلسفہ کو درست ثابت کرنے کے لئے لا فاعی الا اللہ (فاعل حقیقی) کی تفہیم ضروری تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فاعل حقیقی ہونے کی غلط تفہیم نے مسلمانوں کے قلوب سے ان رکاوٹوں کو دور کردیا جو ارتکاب گناہ میں مانع ہوسکتی تھیں اور طرفہ کمال یہ ہوا کہ ’’خیرہ و شرہ من اللہ تعالیٰ‘‘ کا غلط مطلب لے کر گناہ کے ارتکاب پر عذاب سے دوچار ہونے کا یقین مسلمانوں کے قلوب سے محو کردیا گیا اللہ کے فاعل حقیقی ہونے کا یہ مطلب لینا کہ گناہ بھی اللہ ہی کے حکم سے ہوتے ہیں‘ غلط ہے اور اللہ پر بہتان ہے کیونکہ اللہ خود فرماچکے ہیں :- قُلْ اِنَّ اللہَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ۝۰ۭ ۝۲۸ (سورہ الاعراف) ترجمہ: (بلاشبہ اللہ فحش بات کا حکم نہیں دیتا) سلسلہ کلام یہ ہے کہ مشرکین عرب سے کہا گیا کہ برہنے بیت اللہ کا طواف بے حیائی ہے تو جواب یہ دیا گیا کہ وَاللہُ اَمَرَنَا بِہَا۝۰ۭ ۝۲۸ (سورہ اعراف) (اللہ نے ہم کو ایسا کرنے کا حککم دیا ہے جس پر فرمایا گیا اللہ ہر گز فحش کام کا حکم نہیں دیتا) اور سورہ النحل میں وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۝۹۰ ترجمہ: (اللہ تم کو منع کرتا ہے بے حیائی سے اور ظلم و زیادتی سے) الفاظ خیر و شر‘ قرآن میں نیکی و بدی کے معنوں میں کم اور خوشحالی اور بدحالی‘ آرام و تکلیف‘ راحت و مصیبت‘ نفع و نقصان کے معنوں میں زیادہ استعمال ہوئے ہیں۔ خیر و شر کے وہ معنی لینا جس سے اللہ کی شانِ سبحانیت پر حُرف آتا ہو کسی طرح بھی درست نہیں۔ اگر خیر و شر کے معنی نیکی و بدی کے بجائے خوش حالی و بدحالی کے لئے لیئے جائیں تو اعتراض ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لفظ خیر تو قرآن میں بیسیوں مقامات پر مال و متاع میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً :- وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ۝۸ۭ (سورہ العٰدیت) ترجمہ: (انسان مال کی محبت میںبہت شدید ہے) اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا۝۲۰ۙ وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَيْرُ مَنُوْعًا۝۲۱ۙ (سورہ معارج) ترجمہ: (جب انسان بد حالی میں مبتلا ہوتا ہے تو بے چین ہوجاتا ہے اور جب خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے) وَاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ كَانَ يَـــــُٔوْسًا۝۸۳ (اسریٰ) ترجمہ: (اورجب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے) یہاں خیر و شر کے معنی نیکی و بدی کے لینے سے نہ صرف اللہ پر حرف آتا ہے بلکہ قرآن‘ جنّت‘ دوزخ‘ حساب و کتاب لغو و مہمل قرار پاتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نیکی و بدی کے تعلق سے واضح اور کھلی ہوئی نصیحت فرمادی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے :- اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا۝۳ (سورہ الدھر) ترجمہ: (بلاشبہ ہم نے انسان کو دو راستے بتادیئے ہیں چاہے وہ شکر کی راہ اختیار کرے چاہے کفر کی راہ اختیار کرے) فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝۸۠ۙ (سورہ الشمس) ترجمہ: (پس اس کو الہام کردیا گیا۔ فجور کیا ہے اور تقویٰ کیا ہے) وَہَدَيْنٰہُ النَّجْدَيْنِ۝۱۰ۚ (سورہ البلد) ترجمہ: (ہم نے اس کو دونوں راستے بتادیئے) ان آیات کے ہوتے ہوئے بھی یہ کہنا بدی اللہ ہی کے حکم سے ہوتی ہے یا اللہ ہی کراتے ہیں بالکل غلط ہے۔ اسی طرح ہدایت و گمراہی کے تعلق سے مسلمانوں کے ذہنوں کو متاثر کیا گیا جن آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت و گمراہی کے متعلق اپنے اختیار و اقتدار کو بیان فرمایا ہے ان کی اس طرح تفہیم کی گئی کہ مسلمان مجہول ہوکر رہ گئے حالانکہ ان آیات سے بندوں میں ہدایت کی تڑپ اور گمراہی سے بچنے کی کوشش پیدا کرنا مقصود ہے۔ فَاِنَّ اللہَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۡۖ ۝۸ (سورہ فاطر) ترجمہ: (پس تحقیق اللہ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے) ان آیات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جو ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اللہ اس کو زبردستی یا بلاوجہ گمراہی میں مبتلا کر دیتے ہیں اور جو ہدایت قبول نہ کر کے گمراہی میں مبتلا رہنا چاہتا ہے اللہ اس کو زبردستی ہدایت دیتے ہیں۔ اگر واقعی ہدایت و گمراہی کا معاملہ زبردستی و جبر کا ہو تو پھر گمراہی میں مبتلا ہونے والے کا کیا قصور کہ اس کو عذاب دیا جائے اور ہدایت یافتہ کا کیا کمال کہ وہ مستحق انعام ٹھہرے۔ انسان جس الزام کو اپنے لئے تسلیم کرنے تیار نہیں اسی بات کا بلا خوف و تردد اللہ کو ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ مثلاً کوئی اپنے ملازم یا ماتحت کوکسی طریقہ سے بھی ایک غلط اور بُرا کام کرنے پر آمادہ کرے اور اس کی انجام دہی پر اس کو سزاء دے تو کیا یہ عدل و انصاف کی بات ہوگی یا ایک صریح ظلم یا دیوانہ پن ہوگا۔

انسان جاہل پیدا ہوتا ہے اور جب تک علم حاصل نہیں کرتا جاہل ہی رہتا ہے۔ جہل کا نتیجہ گمراہی ہے اگر ہدایت حاصل نہ کی جائے تو دن بدن گمراہی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

مندرجہ بالا ارشادِ الٰہی کا مطلب یہی ہے کہ بندوں کے لئے ہدایت کیا ہے‘ گمراہی کیا ہے‘ متعین کرنے کا حق صرف اللہ ہی کو ہے۔ ان آیات میں اللہ نے اپنے اسی اختیار کو بیان فرمایا ہے۔ اس میں کسی کو رائے دینے کا اختیار اور نہ کسی کی مجال ہے کہ ان امور میں کسی قسم کی مداخلت کرسکے۔ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ۝۱۳ (سورہ الشوری) ترجمہ: (جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اُسے ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے) وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَابَ۝۲۷ۖۚ (سورہ الرعد) ترجمہ: (جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے (ہدایت کا راستہ) دکھاتا ہے) ان دونوں آیتوں میں قانونِ ہدایت بیان کیا گیا ہے :- وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَى اللہُ وَمِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْہِ الضَّلٰلَۃُ۝۰ۭ ۝۳۶ (سورہ النحل) ترجمہ: (اور یقینا ہم نے ہر اُمّت میں رسول بھیجے اور یہ پیغام پہنچایا کہ اللہ ہی کی عبادت کریں اور طاغوت سے بچتے رہیں۔ ان میں بعض ایسے ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوگئی) اس آیت میں ہدایت کیا ہے بیان کرتے ہوئے ہدایت کے اسباب و ذرائع یعنی رسول اور قرآن کی نشاندہی کردی گئی ہے اور یہ بتلادیا گیا ہے کہ ہدایت کس طرح حاصل کی جاسکتی ہے اگر کوئی ان اسباب کے ذریعہ ہدایت اختیار نہ کرے گا تو اس کا گمراہی میں مبتلا رہنا یقینا ہے۔ خط کشیدہ الفاظ قابلِ غور ہیں جن سے بندہ ہی کو گمراہی کا بالکلیہ ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ ان عقائد و اعمال کو بھی بتلادیا گیا ہے جس میں مبتلا رہنے پر ہدایت سے محرومی رہے گی۔ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۲۵۸ۚ (سورہ بقرہ) ترجمہ: (بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا ظالموں کو) ’’کَافِرِیْنَ‘‘ (سورہ توبہ: 37) (کافر قوم کو) ’’فَاسِقِیْنَ‘‘ (نافرمان قوم کو) اللہ نے اپنی قدرت و اختیار کو اس لئے بیان فرمایا کہ جو بندہ گمراہی سے نکلنا اور ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اپنے ربّ اعلیٰ و عظیم سے ہدایت دینے کی درخواست بھی کرے اور اس کے لئے کوشش بھی کیونکہ یہ اسباب و ذرائع اس لئے ہی فراہم کئے گئے ہیں کہ ان کو اختیار کئے بغیر نہ کوئی ہدایت پاسکتا ہے اور نہ گمراہی سے نکل سکتا ہے۔

ایسا تو ہر گز نہیں ہوسکتا کہ ہدایت کے ان ذرائع کو اختیار بھی کیا جائے اور ہدایت سے محرومی بھی رہے۔ اللہ کسی کو زبردستی نہ ہدایت دیتے ہیں اور نہ کسی کو زبردستی گمراہ کرتے ہیں۔ منشائے الٰہی تو یہی ہے کہ اس کے تمام بندے گمراہی سے نکلیں اور ہدایت سے سرفراز ہوں، جب ہی تو اسباب و ذرائع فراہم کئے گئے اور ہدایت حاصل کرنے کے طریقے بتلادیئے گئے اور تفصیل کے ساتھ بتلادیئے گئے اور ان امور کو بھی بیان کردیا گیا جن کو اختیار کرنے سے انسان ہدایت سے محروم ہو کر گمراہ ہوجاتا ہے۔

کلامِ الٰہی میں شیطان اور غلط رہنماؤں اور خود انسان کو گمراہ کرنے اور گمراہ ہونے کا بالکلیہ اور قطعی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اللہ کسی کو گمراہ نہیں کرتے۔ خود انسان ہدایت قبول نہ کر کے گمراہی میں مبتلا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہ‘ مستحق عذاب اور ہدایت یافتہ‘ مستحق انعام قرار دیا گیا ہے۔ انسان کو سمجھ بوجھ عطا کر کے گمراہی سے نکلنے و بچنے کے طریقے اور ہدایت حاصل کرنے کے اسباب و ذرائع فراہم کردیئے ہیں۔ یہ انسان کی اپنی ضرورت و حاجت ہے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ سمجھ بوجھ سے کام لے کر عارضی قلیل و ادنیٰ نفع کی بجائے لازوال نفع حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ ادنیٰ‘ عارضی و قلیل نقصان کی پرواہ نہ کر کے ابدی و شدید نقصان سے بچنے کی کوشش کرے جیسا کہ وہ رات دن دنیا کے معاملات میں کرتا ہی ہے۔

اسی قسم کا غلط مفہوم ’’یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ‘‘ وغیرہ کا بھی لیا گیا ہے یعنی اللہ جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب لینا کہ جو مرتے دم تک مستحق مغفرت ہونے کی کوشش کرتا رہا اس کو بلاوجہ عذاب میں مبتلا کردیا جائے گا اور جو ساری زندگی سرکشی اور نافرمانی میں بسر کی اس کو بخش دیا جائے گا۔ قطعی غلط ہے کیونکہ اللہ کی ذات تو ہر قسم کے نقص و عیب جبر و ظلم و زیادتی سے نہ صرف پاک ہے بلکہ ہر قسم کے حسن و خوبی اللہ ہی کے لئے ہے۔ مغفرت و عذاب کا معاملہ نہ اندھے کی لاٹھی ہے اور نہ کسی پاگل کا فعل بلکہ وہ عدل و انصاف رحم و کرم کے اصول پر مبنی ہے جس میں سراسر بندوں ہی کا فائدہ ہے۔ اس ارشادِ الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کن عقائد و اعمال کی بناء پر مستحق مغفرت ہوگا اور کن عقائد و اعمال کی بناء پر مستحق عذاب۔ اس بات کے متعین کرنے کا حق و اختیار صرف اللہ ہی کو ہے۔ اللہ کے قانونِ مغفرت کے تحت جو مستحق مغفرت ہوگا‘ پوری مخلوق بھی اس کو اس سے محروم نہیں کرسکتی اور جو اللہ کے قانون عذاب کے تحت مستحق عذاب ہوگا‘ پوری مخلوق بھی اس کو اس عذاب سے نہیں بچاسکتی۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ۝۱۲۸ لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ۝۱۲۸ (سورہ اٰل عمران) ترجمہ: (اے محمد بندوں کو عذاب دینے اور ان پر رحم کرنے کے معاملہ میں آپ کو کچھ کہنے اور سننے کا اختیار بالکل نہیں یہ حق اللہ ہی کو ہے کہ وہ اپنے بندوں کے حال پر مہربانی کرے یا انہیں عذاب دے۔ پس وہ ظالم ہیں۔ اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ اللہ ہی کا ہے۔ وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے) اگر اللہ قانونِ مغفرت و عذاب کو بیان بھی نہ فرماتے تو کوئی ان سے پوچھنے والا نہ تھا کیونکہ اللہ کی شان تو ’’وَھو علی کل شیء قدیر لایسئل عما یفعل‘‘ (اللہ جو کچھ کرتا ہے کوئی اس سے باز پرس نہیں کرسکتا) چنانچہ ان قوانین کو بیان کرتے ہوئے اپنے اسی اختیار کو بیان فرمایا ہے :- وَيَفْعَلُ اللہُ مَا يَشَاۗءُ۝۲۷ۧ (سورہ ابراہیم) ترجمہ: (اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے) وَلٰكِنَّ اللہَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ۝۲۵۳ۧ (سورہ بقرہ) ترجمہ: (اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے) کمالِ مہربانی و انصاف کے تحت اللہ نے صاف اور کھلے الفاظ میں اپنا قانونِ مغفرت بھی بیان فرمادیا ہے۔

قانونِ مغفرت

وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰى۝۸۲ (سورہ طٰہٰ) ترجمہ: (اور بلاشبہ میں بخشنے والا ہوں اس کو جو توبہ کرے ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے اور پھر اسی سیدھے راستے پر چلتا رہے) ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْۗءَ بِجَــہَالَۃٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْٓا۝۰ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِہَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۱۹ۧ (سورہ النحل) ترجمہ: (پھر جن لوگوں نے جہالت (نادانی) سے بُرے کام کئے اور پھر اس کے بعد توبہ کرلی اور نیکوکار ہوگئے تو تمہارا پروردگار ان کو توبہ کرنے اور اپنی اصلاح کرلینے کے بعد بخشنے اور رحمت کرنے والا ہے) ان قوانین کے بیان کردیئے جانے کے بعد تو انسان کے لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ عذاب سے بچائے جانے اور مغفرت کے مستحق ہونے کے لئے اللہ ہی سے رجوع ہوں اور اللہ کے قانونِ مغفرت کو اپنائے اور ان امور کو ترک کرے جن کے ارتکاب پر عذاب کی وعید ہے جس طرح کسی تقرر طلب جائیداد کا اعلان کرنے میں حکومت کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ خواہش مند درخواست دیں اور جائیداد پر تقرر کے لئے جس معیار قابلیت کی ضرورت ہے، اس کا تعین کرنے کا حق صرف حکومت ہی کو حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح مندرجہ بالا آیات کا مطلب بھی یہ ہے کہ ہدایت و گمراہی‘ مغفرت و عذاب کے قوانین مقرر کرنے کا حق اللہ ہی کو ہے اور بندوں کا فیصلہ کرنے کا حق کسی اور کو حاصل نہیں ۔نہ کوئی اللہ سے ان معاملات میں کچھ کہہ سن سکتا ہے نہ کسی قسم کی مداخلت کرسکتا ہے۔ کیونکہ یہ قوانین کائنات کے مالک و حاکم‘ قادرِ مطلق‘ خلاق العلیم‘ عزیز الحکیم‘ السمیع‘ البصیر و الخبیر نے مقرر کئے ہیں جو اپنے بندوں پر نہایت شفیق کریم و رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ منصف بھی ہے۔ ان قوانین کے ذریعہ بندوں پر نہ شمہ (رتّی) برابر ظلم ہی کیا گیا ہے اور نہ جبر۔

ان قوانین کو نہ صرف عام فہم اور سیدھے و سادہ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے بلکہ بار بار مختلف پیرایوں میں ان کو دہرایا بھی گیا ہے تاکہ بندے ہدایت یافتہ ہو کر مستحق مغفرت ہوں اور گمراہی سے بچنے کی کوشش کریں تاکہ مستحق عذاب نہ ہو۔ اللہ کی چاہت صرف اور صرف بندہ کی ہدایت و مغفرت ہی سے متعلق ہوتی ہے۔ گمراہی و عذاب سے ہرگز نہیں کیونکہ اللہ کی شان ’’بِیَدِکَ الْخَیْرُ اور رَئُوْفٌ بِالْعِبَادْ‘‘ ہے۔

فضل‘ ہدایت اور توفیق

اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ فضلِ ہدایت و توفیق اللہ کی طرف سے ہونی چاہئے حالانکہ اللہ و رسولﷺ نے بتلادیا ہے کہ ان کی عطا طلب پر موقوف ہے اور ساتھ ہی ان اعمال کو بھی اختیار کرنا لازمی ہے جو ان رحمتوں کا مستحق بناتے ہیں۔

توفیق کے سلسلہ میں شعیب علیہ السلام کا واقعہ قرآن میں مذکور ہے کہ آپ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے ہوئے فرمایا ’’وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ یعنی جن باتوں کی تم کو نصیحت کررہا ہوں‘ ان پر میں عامل بھی ہوں اور یہ دراصل اللہ کی توفیق کی وجہ سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بندہ کوئی نیکی کر کے اس غرور و گھمنڈ میں مبتلا نہ ہوجائے کہ وہ خود اپنے بل بوتے پر پارسا ہوگیا ہے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرے کہ اے اللہ تیری توفیق و تائید سے اس کو انجام دے سکا۔

رسول اکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ کی جو دعائیں ہیں۔ ان میں اللہ کے فضل و ہدایت و توفیق ہی کی درخواست کی گئی ہے۔ مثلاً مسجد میں داخل ہونے کی دعا اور مسجد سے نکلنے کی دعا‘ سواری پر سوار ہونے کی دعا وغیرہ۔

خلاصۂ کلام

(۱)اگر کسی کا عقیدہ یہ ہو کہ مخلوق کی شکل میں اللہ ہی موجود و ظاہر ہیں یا پیر و مرشد کی شکل میں اللہ ہی کو جلوہ گر سمجھا جائے تو یہ کفر ہے اور مرشد کو الٰہ قرار دینا ہے۔ اگر چہ کہ یہ تصور بلا حلول و اتحاد ہی کا کیوں نہ ہو۔

(۲)اللہ کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ اللہ کے بیٹے و بیٹیاں ہیں تو یہ کفر ہے۔

(۳)یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں سے رائے و مشورہ لے کر کائنات کا نظم چلارہے ہیں تو یہ ان مقرب بندوں کو بھی الٰہ قرار دینا ہے جو کفر ہے۔

(الف) اللہ تعالیٰ کو نظم کائنات چلانے پر تنہا بلا شرکت غیرے قادر نہ سمجھنا کفر ہے۔

(ب) یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اختیارات اپنے بندوں کو بطور سرفرازی و خوشنودی کے عطا کردیئے ہیں‘ شرک ہے۔

(۴)کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ اور بندہ کے درمیان مقرب بندے اسی طرح واسطہ و وسیلہ و سفارشی ہیں جس طرح بادشاہ و رعایا کے درمیان حکومت کے کارکن واسطہ و وسیلہ ہوتے ہیں اور ان واسطوں و وسیلوں کو اختیار کئے بغیر اور ان سے عقیدت و محبت پیدا کئے بغیر دنیا و آخرت کے کام نہیں بن سکتے‘ رحمتِ الٰہی کے مستحق نہیں ہوسکتے‘ غضبِ الٰہی سے بچ نہیں سکتے‘ شر و آفات سے محفوظ نہیں رہ سکتے اور نہ ہی اللہ کے پاس ہماری شنوائی ہوسکتی ہے تو وہ ان مقرب بندوں کو بھی اللہ کے ساتھ الٰہ قرار دیتا ہے چاہے وہ ملائکہ ہوں یا انبیاء علیہم السلام یا سیدنا علی یا سیدنا حسین یا بزرگانِ دین اور یہ شرک ہے۔

مذکورہ عقائد کی بناء پر اللہ کے مقرب بندوں کو اپنے سے راضی رکھنے کے لئے ان کی نذر و منّت اور نیاز کرنا ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرنا یا کوئی اور خیر خیرات کرنا‘ ان کی مزاروں پر یا ان کی تصویروں کے آگے دست بستہ کھڑا ہونا‘ ان کے طواف کرنا‘ ان کے آگے سرجھکانا یا سجدہ کرنا یا قبروں پر چڑھاوے چڑھانا‘ مدد کے لئے ان کو پکارنا‘ ان کے نام کے جھنڈے لگانا یہ تمام اعمال غیر اللہ کی عبادت ہی ہیں۔ اگر چیکہ ان کو انجام دینے والا اپنے خیال میں ان کو عبادت نہ سمجھے۔ عقیدت و محبت کے اظہار کا طریقہ ہی سمجھے، یہ تمام اعمال مشرکانہ ہیں اور ان کا انجامِ آخرت جہنم ہے۔

(۵)اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اپنی زندگی کا مالک و مختار سمجھے اور اللہ و رسولؐ کے خلاف من مانی زندگی بسر کرے تو وہ اپنی خواہش و مرضی کو الٰہ بناتا ہے۔ اگر کوئی شخص زندگی کے کسی بھی معاملہ میں اللہ و رسولؐ کے قطعی احکام رکھتے ہوئے ان کی خلاف ورزی کرتا رہے تو یہ گمراہی ہے۔ لَا اِلٰـہَ کے ذریعہ مذکورہ بالا تمام باطل عقائد و اعمال کی تردید کی گئی ہے اور اِلَّا اللّٰہ سے اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تنہا بلا شرکت غیرے کائنات ارضی و سماوی دنیا و آخرت کے فرمانروا ہیں اور ان ہی کے حکم سے یہ نظام جاری و ساری ہے۔ تمام مخلوقات کے ملجا و ماوٰی اللہ ہی ہیں۔ شرور و آفات سے وہی بچاتے ہیں وہی قلوب کو (اپنے قانون کے تحت) جس طرف چاہے پھیرنے والے ہیں۔

علم و ہدایت میں بندہ بالکلیہ اللہ کا محتاج و فقیر ہے اگر اس سے بے رخی کرے گا تو دنیا میں ذلّت و خواری و مسکینی مسلط ہو جائے گی چنانچہ متنبہ کردیا گیا ہے :- لَا تَجْعَلْ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا۝۲۲ۧ (سورہ اسریٰ) ترجمہ: (اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ ورنہ ذلیل و بے یارو مددگار و بدحال ہوکر بیٹھ رہے گا) اور آخرت میں اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:- وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتُلْقٰى فِيْ جَہَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا۝۳۹ (سورہ اسریٰ) ترجمہ: (اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ ورنہ ملامت زدہ اور ذلیل و خوار ہوکر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا) اور دینِ اسلام کا اوّلین حکم ’’اِعْبُدُاللّٰہَ‘‘ ہے اور پہلی نہی ’’وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا‘‘ہے۔ اس کلمہ کی صحیح تعلیم ہی سے وہ فراست و جرأت ایمانی و جہاد فی سبیل اللہ کے والہانہ عزائم و جذبات پیدا ہوسکتے ہیں جو صحابہ کرامؓ میں پیدا ہوئے۔ یاد رکھئے کہ مغفرت و جنّت صرف مردانِ مجاد کا حصہ ہے۔ اللہ عزیز و حکیم کی یہی اٹل تجویز ہے۔

مختصر یہ کہ پورے قرآن میں لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ کو سمجھایا گیا ہے۔ اگر یہ تقاضے پورے نہ ہوں تو سمجھنا چاہئے کہ ہمارے ایمان میں نقص ہے۔ اس طرح کلمہ کا صحیح مفہوم ذہن نشین ہوجانے کے بعد حسبِ ذیل تقاضوں کا پورا کرنا ضروری ہے۔

(۱)مطلوب و مقصود میں تبدیلی یعنی رزق و ضروریاتِ زندگی کے لئے ایسے اسباب و ذرائع سے پرہیز کیا جائے جس سے نقصانِ آخرت کا اندیشہ ہو۔

(۲)دنیا کی عیش و راحت کی حرص و طلب کی بجائے مغفرت و جنّت کی تڑپ‘ طلب و حرص پیدا ہوجائے۔

(۳)بندگی میں اتباع و اطاعت کا تعلق اللہ اور اس کے رسولﷺ سے قائم ہوجائے۔

(۴)توبہ یعنی اعترافِ قصور و ندامت و طلب عفو وظیفہ حیات ہوجائے۔

(۵)اعتماد و بھروسہ اللہ ہی پر ہو۔

(۶)اللہ و رسولﷺ کی عقیدت و محبت تمام عقیدتوں اور محبتوں پر غالب آجائے۔

(۷)نعمتوں میں شکر اور مصیبتوں میں صبر

(۸)اللہ کا خوف اُسی سے اُمید ہو۔

(۹)ہر حرکت و سکون میں اللہ ہی سے انابت ہو۔

مندرجہ بالا فطری جذبات کا تعلق تمام باطل مراکز سے ٹوٹ کر اللہ جل شانہ سے قائم ہوجائے تو بندہ اپنے ربّ اعلیٰ و عظیم کے زیر تربیت ہوجاتا ہے چنانچہ ایمان صحیح و درست ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی ہدایت‘ ولایت و معیت مومن کو نصیب ہوجاتی ہے۔ (۱) ’’اِنَّ اللّٰہَ لَھَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ (سورہ الحج: 54) ترجمہ: (اور یقینا اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کی ہدایت فرماتے ہیں) (۲) ’’اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ (سورہ بقرہ: 257) ترجمہ: (اللہ‘ اہلِ ایمان کے کارساز ہیں) (۳) ’’وَاِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ (سورہ انفال: 19) ترجمہ: (اور یقینا اللہ تعالیٰ مؤمنین کے ساتھ ہیں) آج ہم کلمۂ طیبّہ کا صرف زبان سے اقرار کرلینا ہی کافی سمجھ لئے ہیں۔ یہ غور نہیں کرتے کہ اس اقرار کا کیا مطلب ہے اور اس اقرار کے کیا تقاضے ہیں۔ کلمۂ طیبہ کے ذریعہ اللہ سے یہ اقرار کیا جاتا ہے کہ اے پروردگار تو ہی ہمارا معبود ہے۔ ہم تیری ہی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی بسر کریں گے تو ہماری خطاؤں اور گناہوں کو معاف کردے، دوزخ سے بچا اور جنّت عطا فرما۔ چنانچہ ایمان لاتے ہی سب سے پہلے اسی تڑپ کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ سنّت الٰہی یہ ہے کہ اقرار ایمان کے بعد نقصان و تکلیف دنیا کے ذریعہ امتحان بھی لیا جاتا ہے اور آزمائش بھی کی جاتی ہے کہ واقعی بندہ اپنے اقرار میں سچا ہے یا جھوٹا۔ جب یہ امتحان میں کامیاب اور آزمائش میں پورا اتر جاتا ہے تو پھر اللہ کی نصرت و تائید اُس سے متعلق ہوجاتی ہے۔ پوری دنیا بھی مل کر اس کو ایمان سے نہیں پھیر سکتی۔ جب بندہ‘ اللہ کی بندگی و اطاعت میں سرگرم ہوجاتا ہے تو اس میں یہ والہانہ جذبہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو بھی اس کی دعوت دے اور اس سلسلہ میں دنیا کا ہر نقصان برداشت کرنے کا عزم و حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے جس کے ساتھ ہی اللہ کی نصرت متعلق ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۴۷ (سورہ الروم)ترجمہ: (اور اہلِ ایمان کی مدد کرنا ہم پر لازم ہے۔ اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْہَادُ۝۵۱ۙ (سورہ المؤمن) ترجمہ: (یقینا ہم اپنے رسولوں اور اہلِ ایمان کی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی مدد کرتے ہیں) جب اہلِ دنیا اس داعیٔ حق کو ضرر پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے خلاف اللہ کا غضب حرکت میں آتا ہے اور اہلِ حق کے لئے اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور اہلِ حق کو مامون و محفوظ رکھا جاتا ہے چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :- حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۰۳ۧ (سورہ یونس) ترجمہ: (اہلِ ایمان کو بچانا ہمارے ذمہ ہے) اہلِ حق کی نظروں میں غیر اسلامی دنیا صنم خانہ ہوجاتی ہے اور اپنے کو فرزند خلیل سمجھ کر باطل شکنی کے لئے بذوق و شوق آمادہ ہوجاتا ہے۔

آخرت کا طالب و حریص بن کر مردِ مجاہد بن جاتا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں انابت الی اللہ ہو۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی والہاہ و سرفروشانہ اطاعت اس کا شعار ہوجاتا ہے۔ اس کے پیش نظر اپنے ربّ اعلیٰ و عظیم کو بہر صورت و بہر قیمت راضی رکھنا ہوتا ہے کیونکہ اس کے بغیر مغفرت و جنت و درجاتِ جنت کی نعمت عظمیٰ حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کی اصل تمنا و کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اور اس کی اولاد امام المتقین ہوجائے اور ان تمام اوصاف حمیدہ کے باوجود محاسبہ اعمال کے خیال سے وہ خائف ہی رہتا ہے اور بنی آدم کے ساتھ اس کے تمام تعلقات‘ کاروبار‘ معاملات عدل و احسان کی بنیادوں پر قائم رہتے ہیں۔

پیامِ الٰہی کے دوسرے جز محمد الرسول اللہ کا مطلب و مفہوم یہ ہے کہ رسول اکرمﷺ آخری رسول ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں۔ آپ کے بعد ظلی و بروزی نبی کا تصور بھی ایمان بالرسالت کے منافی ہے اور یہ عقیدہ کہ جس نے آپ کو دیکھا اس نے اللہ کو دیکھا یا یہ کہ آپ احمد بے میم ہیں۔ یہ سب ایمان بالرسالت کا بگاڑ ہے۔ نیز یہ کہ تمام دینی امور‘ نیکی و ثواب کے کام‘ تزکیہ و تطہیر کے طریقے‘ ذکر و یاد اگر آپ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق نہ ہو تو وہ عنداللہ ہرگز‘ ہرگز قبول نہیں چاہے اصلاحِ نفس ہو یا اصلاح امت کی جدوجہد ہی کیوں نہ ہو اور آپ کے اسوہ کے خلاف زندگی گذارنا ایمان بالرسالت نہیں بلکہ انکار رسالت ہے نیز غیر مسنون اعمال میں افادیت کا تصور بھی ایمان بالرسالت کا ایک اہم نقص و بگاڑ ہے۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ ۝۶۴ (سورہ النساء) ترجمہ: (ہم کسی رسول کو نہیں بھیجتے مگر اس لئے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور یہ اللہ کا حکم ہے) مغفرت و نجات کے لئے اتباع و اطاعتِ رسالت لازمی و ضروری ہے۔ یہ اللہ کا اٹل فیصلہ ہے ۔اپنی زندگی میں اسوۂ حسنہ کی رنگ و بو پیدا کرنا حبِّ نبویؐ اور حبِّ الٰہی کی علامت ہے جو قلب حُبِّ نبویؐ سے خالی ہو وہ قلب حُبِّ الٰہی سے یقینا خالی ہے۔ حیات النبی اور آپ کے نوری یا مافوق البشر ہونے کے مروجہ عقائد و تصورات الٰہی و نبویؐ تعلیم کے منافی ہیں۔ رسول اکرمﷺ کو مافوق البشر یا نوری سمجھنا اللہ پر بڑا بہتان باندھنا ہے۔ ہم خاکی بندوں سے مافوق البشر یا نوری ذات کی اتباع و اطاعت کا مطالبہ مبنی برعدل و انصاف اور رحمت و شفقت نہیں ہوسکتا۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کی طرح پوری زندگی الٰہی و نبویؐ تعلیم کے مطابق بسر ہونی چاہئے۔ خواہ دنیا کا کتنا ہی نقصان ہو۔ ورنہ ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کا صرف اِدعا ہی اِدعا ہوگا۔

کلمۂ طیبہ کی مذکورہ صحیح تعلیم سے غافل و بے خبر ہونے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ اُمّت میں گروہ بندی پیدا ہوگئی اور ہوتی چلی جارہی ہے۔ شیعیت‘ خارجیت‘ مہدویت‘ بہائیت‘ قادیانیت اور صدیق دین دار اور اہلِ قرآن وغیرہ جیسے تمام فرقے و گروہ صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں اور جہنم کی طرف جارہے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو صراط مستقیم پر لوٹادے۔ کلمۂ طیبہ کا صحیح مفہوم اور اس کے مذکورہ ثمرات کتاب و سنّت کی صحیح تعلیم ہی سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس لئے اُمّت کا فریضہ ہے کہ اپنے لئے ایسے امام و رہنما تلاش کرے جو کتاب اللہ کی صحیح تعلیم معلمِ کتاب و حکمتؐ اور روشِ صحابہ کرامؓ کی اتباع و اطاعت میں دے اور یہی اصلاح کا پہلا قدم ہے۔ مگر جہاں اُمّت دین کے دیگر اہم فرائض سے غافل ہے، وہاں اس اہم فریضہ کو بھی بھول گئی اور اس کا جو نقصان ہے اس کا احساس بھی نہیں رہا۔ بقول کسے  ؎

دائے ناکای کہ میر کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اقبالؔمرحوم نے بھی امت کو اسی جانب توجہ دلائی ہے :-

زکارِ بے نظام اوچہ می پُرسی

تومی دانی کہ امت بے امام است

 

وَمَا توفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہَ