مقامِ شہادت

واپس فہرست مضامین

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان بار بار رحم کرنے والا ہے

 

مقامِ شہادت

 

شہادت کے معنی گواہی دینا ہیں۔ مؤمن جن حقیقتوں پر ایمان رکھتا ہے،یعنی اللہ ہی رب ہیں‘ ہمہ خیر ہیں‘ آخرت کی زندگی ہی اصلی زندگی ہے‘ دنیا امتحان گاہ ہے‘ یومِ حساب حق ہے‘ النار حق ہے‘ الجنۃ حق ہے‘ دنیا کی ہر تکلیف میں آخرت کا خیر ہی خیر ہے۔ یہ تمام حقیقتیں غور و فکر اور اسلام کے بنیادی احکام پر عمل کرتے رہنے سے اتنی واضح ہوجاتی ہیں‘ کہ کالمشاہدہ (دیکھ کر یقین کرنے کی طرح) ہوجاتی ہیں اور بندۂ مومن میں حق کے لئے جان و مال قربان کرنے کا ایک والہانہ جذبہ اُبھر آتا ہے اور وہ دنیا کی ہر تکلیف کو بہ طیبِ خاطر برداشت کرتے ہوئے حق پر قائم رہتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی طرف بلاتارہتا ہے۔ یہی شہادت کا مقام ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ آسمان و زمین کی تمام مخلوق باذنِ الٰہی انسان کی ضرورتیں پوری کرنے میں مصروف ہے۔ اشیاء میں حرکت و تغیر‘ ان کے آثار و خواص‘ انسان میں قوت و فعل و اختیار‘ اشیاء کے مضر اثرات سے حفاظت انسان کی بقاء حیات‘ اس کے نشو نما کا سامان۔ دینِ حق نازل کرنا اور انبیاء علیہم السلام کی بعثت‘ ایمان و عمل کی توفیق یہ سب حق تعالیٰ ہی کی ربوبیت کا فیضان ہے (جو قانونِ الٰہی کے تحت انجام پاتے ہیں بلکہ قانونِ الٰہی کے خلاف نتیجہ ناممکن)۔

اس طرح غور و فکر کرنے سے جب بندۂ مومن پر اپنی محتاجی (مربوبیت) اور حق تعالیٰ کی حاجت روائی (ربوبیت) مستحضر ہوجاتی ہے تو مومن اپنی ذات و کائنات‘ ہر چیز کی حرکت و آثار و خواص میں حق تعالیٰ کی ربوبیت کا فیضان مشاہدہ کرتا ہے۔ اپنی قوت و فعل و اختیار کو بھی اللہ تعالیٰ کی عطا و فضل و رحمت سمجھتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے گرویدگی و شیفتگی اور بڑھ جاتی ہے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رہتی ہے۔ ہر درد و تکلیف‘ ہر مصیبت و پریشانی اور ہر ضرورت و حاجت اپنے رب ہی سے عرض کرتا رہتا ہے اور ہر موقعہ و محل پر مخلوق‘ نفس و شیطان کے شر سے محفوظ رہنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے۔ اس کو یقین ہوجاتا ہے کہ حق تعالیٰ اس کے لے ہمہ خیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ’’بیدہ الخیر‘‘ ہونا بطور مشاہدہ کے ہوجاتا ہے۔ جان و مال کے ہر ضرر میں ہر تکلیف و مصیبت میں وہ خیر ہی کا مشاہدہ کرتا ہے جس کے بعد مصائب برداشت کرنا (صبر) آسان ہوجاتا ہے۔ حق تعالیٰ بندے کے لئے جو خیر چاہتے ہیں وہ ایک تو یہ ہے کہ بندے کے نفس کا تزکیہ اور اُس کے قلب کی تطہیر ہوجائے۔ وَلِـيُمَحِّصَ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ۝۰ۭ (سورہ اٰل عمران: 154) ترجمہ: (اور تاکہ تمہارے دلوں کی صفائی ہوجائے۔) دوسرا خیر ‘ خیر آخرت ہے۔ ’’اَللّٰھُمَّ لَا خیر اِلَّا خیر الاخرۃ‘‘۔ جو لازوال و باقی رہنے والا ہے اس لحاظ سے مسرت و راحت کی وہ لازوال زندگی جس کا نام ’’الجنۃ‘‘ ہے اور تکلیف و اذیّت کی ابدی زندگی جس کا نام ’’الجحیم‘‘ ہے ان ہر دو کا یقین بھی ایسا پختہ ہوجاتا جیسے اپنے مشاہدہ کی ہوئی چیزوں کا یقین، جس کے بعد وہ دنیا کے ہر نقصان کی پروا کئے بغیر اپنی طرز‘ روش و گفتار سے اس حقیقت کی گواہی دیتا رہتا ہے کہ آخرت کی زندگی ہی اصلی زندگی ہے ایمان کے اس درجہ کو درجۂ شہادت اور اس درجے کے انسان کو شہید کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں دوزخ و جنت کے ذکر کے بعد ہی ارشاد ہے۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَہُوَشَہِيْدٌ۝۳۷ (سورہ ق: 37) ترجمہ: (اس میں اس کے لئے نصیحت ہے جو دلی توجہ سے اور کان لگاکر سنتا ہے اور وہ شہید ہے۔) یعنی عالمِ آخرت کے حقائق کو اس طرح مانتا ہے گویا ان کو دیکھ رہا ہے جب حیاتِ آخرت کا یقین مشاہدہ کی طرح ہوجاتا ہے تو اس ابدی پر مسّرت زندگی اور دید و لقائے رب کی ایک تڑپ اور ایک شوق مومن کے دل میں پیدا ہوجاتا ہے اور اعلائے کلمۃ الحق اور دینِ حق کے قیام و اشاعت کے لئے تن من دھن کی بازی لگانے کا جذبہ اُبھر آتا ہے۔ مؤمن کی مجاہدانہ زندگی میں پختگی پیدا ہو جاتی ہے اس جہاد‘ اعلائے کلمۃ الحق کی دو صورتیں ہیں۔ ’’ان المؤمن یجاھد بسیفہٖ ولسانہٖ‘‘ (مشکوٰۃ باب البیان) ترجمہ: (مومن جہاد کرتا ہے تلوار سے اور زبان سے۔) قرآن میں ان ہی دو جہادوں کی تفصیل ہے۔

جہاد بالسیف کا عنوان قرآن میں قتال فی سبیل اللہ ہے اور جہاد باللّسان کا نام جان و مال قربان کرتے ہوئے اشاعتِ حق (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) ہے دونوں کا مقصد علماً و عملاً اعلائے کلمۃ الحق ہے۔ قرآن مجید میں اسی لسانی جہاد کو ’’جہاد کبیرا‘‘ فرمایا گیا ہے۔ ’’وَجَاھِدْ ھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا‘‘ (سورہ الفرقان: 52)ترجمہ: (جہاد کرو اس (قرآن سے) یہی جہاد کبیرا ہے۔) مرتبۂ صالحیّت ہی میں مجاہدۂ نفس سے نفس کی خواہشیں شریعت کے تابع ہوجاتی ہیں، اس لئے جہاد نفس کو جہادِ اکبر نہیں کہا جاسکتا۔

قرآنی علم و عمل سے آراستہ ہو کر حق کی اشاعت‘ تقریر و تحریر سے باطل افکار کی تردید کو جہادِ اکبر قرار دینا حسب مفہوم آیت بالا صحیح ہے کیونکہ حق کی تبلیغ و اشاعت میں بھی نفس کا بڑا مجاہدہ ہے۔ مخالفین کی دلآزار باتیں سننی اور مختلف قسم کی اذیتیں سہنی پڑتی ہیں اور نفس کو پوری طرح قابو میں رکھنا پڑتا ہے۔ اس لئے اعلائے کلمۃ الحق کے سلسلہ میں صبر کی تلقین و تاکید ہے۔ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ۝۰ۥۙ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۝۳ۧ (سورہ العصر) اور بِالْمَرْحَمَۃِ (سورہ بلد: 17) کی بھی ہدایت ہے۔

معلم حکمتﷺ کا ارشاد ہے: ’’من قتل فی سبیل اللہ فھو شھید ومن مات فی سبیل اللہ فھو شھید‘‘ انسان کا قتل تو آلاتِ جنگ ہی کے جہاد میں ہوسکتا ہے اس کے علاوہ فی سبیل اللہ مرنے کی صورت یہی ہے کہ دین کی تبلیغ و اشاعت‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں مال و جان کے نقصان کو خوش دلی و فراخ حوصلگی سے‘ اہل باطل کی اذیّت رسانی اور سختیوں کو ہمّت و استقلال کے ساتھ گوارا کرتے ہوئے جان‘ جانِ آفرین کے سپرد کی جائے۔

یہ مقامِ عزیمت ہے اور ان ہی سلیم القلب‘ قرآنی بصیرت رکھنے والوں کو حاصل ہوتا ہے جو ہر زحمت میں رحمت ہی کا مشاہدہ کرتے ہیں، حق کی راہ میں ہر ضرر و اذیّت برداشت کرتے ہوئے باطل کی گندگیوں سے اپنے آپ کو پوری قوت سے بچائے رکھتے ہیں، یہی عزیمت ہے۔ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ (سورہ اٰل عمران: 186) ترجمہ: (اور اگر تم صبر کرو گے اور پرہیز کرو گے تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔)

امر بالمعروف نہی عن المنکر‘ انسان کا ایک فطری جذبۂ ہمدردی ہے، انسان‘ جس کسی سے قرابت یا دوستی رکھتا ہے، ضرر سے بچنے اور زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کے مشورے اس کو دیتا رہتا ہے اسی طرح آخرت کی زندگی‘ ابدی نفع و ضرر اور وہاں کے درجے جب مشاہدے جیسے ہو جاتے ہیں تو امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ بندۂ حق کا ایک فطری عمل ہوجاتا ہے۔ اس راہ میں اسے جو دکھ اور اذیّت پہنچتی رہتی ہے وہ اس کے ایمان کی لذت و حلاوت میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ عزیمت دراصل حق تعالیٰ سے گرویدگی و شیفتگی پیدا ہوجانے کی ایک یقینی علامت ہے۔ باطل کے غلبہ کے زمانہ میں علم و عمل دونوں سے اسلام کی حقیقی نمائندگی‘ حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کرنے کے لئے جان و مال کے ضرر کا خیال نہ کرنا بلا لحاظِ لومتہ لائم جان و مال کی قربانی‘ اہلِ عزیمت ہی کا کام ہے یہی حق کے حق ہونے اور باطل کے باطل ہونے کی گواہی دیتا ہے۔

صدیاں گذر گئیں کہ شہادت کی یہ قرآنی و نبویؐ تعلیم پسِ پشت ڈال دی گئی ہے۔ عوام ہوں کہ خواص‘ امیر ہوں کہ غریب ان کے قلوب مجاہدانہ جذبات‘ باطلِ شکن عزائم سے خالی ہوگئے ہیں جس کو دیکھئے رخصت ہی کے دامن میں پناہ گیر نظر آتا ہے۔ الّا ماشاء اللہ

شہادت سے مافوق قرب و صدیقیت کا درجہ ہے جو متبع و مطیعِ رسالت کا انتہائی بلند مقام ہے۔