مقصدِ کتاب

واپس فہرست مضامین

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان بار بار رحم کرنے والا ہے

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ الْاِنْسَانَ وَعَلَّمَہُ الْاَسْمَآئَ وَالْبَیَان

(تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے انسان کی تخلیق فرمائی

اور اسماء کا علم (چیزوں کی صفات) اور اُن کو  برتنا سکھایا)

 

مقصدِ کتاب

 

دین و اسلام! یہ دونوں عربی لفظ ہیں، قرآن مجید کے ترجموں میں بھی یہی الفاظ لکھ دیئے جاتے ہیں۔ ان کا ترجمہ نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے اکثر مسلمان اور دوسری قومیں بھی دینِ اسلام کے حقیقی مفہوم سے بے خبر ہوگئی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صدیوں سے مسلمانوں کی اکثریت دینِ اسلام کی غلط نمائندگی کررہی ہے۔ ان کے علم و عمل‘ فکر و نظر اور ان کی زندگی کو دیکھ کر غیر مسلم قومیں دیگر مذہبوں کی طرح دینِ اسلام کو بھی ایک مذہب اور ایک طبقہ کا دین سمجھتی ہیں۔ دین اسلام کے متعلق یہ غلط تصور اتنا جڑ پکڑ گیا ہے کہ اگر یہ حقیقت بیان کی جائے کہ دین اسلام صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ پورے انسانوں کا دین ہے، جو اس دین کا پیرو ہے وہ مسلمان ہے (خواہ اس کا تعلق کسی قوم و نسل سے ہو‘ چاہے وہ ہندی ہو‘ حبشی ہو‘ افریقی ہو‘ روسی ہو‘ یا امریکن ہو غرض کسی ملک کا باشندہ ہو) اور جس کی فکر و عمل قرآنی و نبویؐ نہیں وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں خواہ اس کا قومی نام مسلمانوں جیسا ہی کیوں نہ ہو۔ تو سننے والوں کو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے۔

الحاصل مسلمانوں کے دینی افکار و اعمال کی حالت اتنی خراب ہوگئی ہے کہ جن باتوں کا کوئی تعلق یا نسبت دین سے نہیں اس کو نہ صرف مسلمان دینی اعمال اور اسلامی تقاریب سمجھ کر انجام دے رہے ہیں بلکہ غیر مسلم بھی مسلمانوں کے ان اعمال کو دیکھ کر ان کو اسلامی اعمال اور اسلامی تقاریب سمجھتے ہیں۔ اس طرح دین اسلام مسلمانوں ہی کے ہاتھوں بدنام ہوتا جارہا ہے۔ ان تمام خرابیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ دیندار طبقہ کے لئے دین ایک نشہ یا خواب بن کر رہ گیا ہے اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی اکثریت دینِ اسلام کو ’’اساطیر الاوّلین‘‘ پرانی کہانیاں سمجھتی ہے یا اپنے استادانِ مغرب کے غلط نظریات سے مرعوب ہوکر یہ سمجھتی ہے کہ دینِ اسلام دوسرے خود ساختہ ادیان (مذہبوں) کی طرح اللہ اور بندہ کے ایک خاص قسم کے تعلق کا نام ہے جس کو زندگی کے کاروبار میں کوئی دخل نہیں۔

دینِ اسلام کی صحیح تعلیم سے ناواقف ہونے کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ انسان جتنا تعلیم یافتہ‘ ترقی یافتہ ہوتا جارہا ہے اتنا ہی جہل و پستی میں مبتلا ہورہا ہے۔ علم و فن‘ تحقیق و ترقی کا ادعاء کرنے کے باوجود یہ نہیں جانتا کہ زندگی کا حقیقی تصور‘ اصلی فطری نظریۂ حیات کیا ہے؟ اپنے اندر ایک حیاتِ ابدی کا مطالبہ رکھ کر بھی ابدی حیات بعد الموت کے متعلق یا تو غلط علم رکھتا ہے یا پھر اس زندگی کے متعلق شک و تردّد میں مبتلا ہے، یا اس کی طرف سے بالکل اندھا بنا ہوا ہے، جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۣ بَلْ ہُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْہَا۝۰ۣۡ بَلْ ہُمْ مِّنْہَا عَمُوْنَ۝۶۶ۧ (سورہ النمل) ترجمہ: (بلکہ آخرت کے متعلق ان کا علم نسیاً منسیاً ہوگیا، بلکہ وہ اس کے متعلق شک میں ہیں بلکہ اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں۔)

یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم‘ رفیقِ اعلیٰ سے جا ملے تو صحابہ کرامؓ کا دور شروع ہوا۔ یہ صحابہ کرامؓ، نبی معلمِ کتاب صلی اللہ علیہ وسلم کے براہِ راست شاگرد تھے، سب سے زیادہ دعوتِ حق‘ مرضیٔ رب‘ منشائِ رسالت اور مزاجِ اسلامی کو سمجھتے تھے، اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھے ہوئے تھے کہ انسان کو اس دنیا کی عارضی زندگی اور ساز و سامانِ زندگی‘ سعی و عمل‘ جدوجہد کے لئے عطا کیا گیا ہے اور یہ کہ انسان کی اصلی زندگی موت کے بعد کی زندگی ہے جو مستقل اور غیر فانی ہے جہاں انسان اپنی چند روزہ سعی و عمل کا ابدی بدل پائے گا۔ وہ اصحاب زندگی بعد الموت کے نفع کو اصلی نفع اور ضرر کو اصلی ضرر سمجھتے تھے اور اسی سمجھ سے وہ زندگی کے تمام کاروبار انجام دیتے تھے۔ کتاب و سنتؐ سے ان کی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ کتابِ الٰہی میں صریح اور واضح حکم موجود ہو تو اس کے خلاف کوئی حدیث کے نام پر کوئی بات تک قبول نہیں کرتے تھے اور منشائِ رسالت‘ اسوہ حسنہ کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے مصلحتِ وقت کو بہانہ بناکر کبھی کسی حکم و ہدایت کے خلاف عمل نہیں کیا۔ ان کے ایمان و یقین کا سرچشمہ صرف اللہ و رسولؐ کے ارشادات تھے جو فطرتِ انسانی کا آئینہ ہیں۔ ان ارشادات کی بناء پر جن امور و حقائق پر وہ ایمان لائے تھے ان پر اپنے مشاہدہ کی طرح یقین رکھتے تھے اور اسی نور سے اپنی ذات اور کائنات میں آیاتِ الٰہی کا مشاہدہ کرتے تھے۔ اسی لئے ان کے قلوب میں کشف و کرامت کا کوئی مطالبہ پیدا ہوا اور نہ کبھی کسی حکم‘ مصلحت یا کسی غیبی حقیقت کو اپنی ذاتی رائے و عقل سے جانچنے اور معلوم کرنے کی کوشش  کی۔ علم و ہدایاتِ الٰہی اور طریقۂ نبویؐ ہی کو وہ صحابہ کرامؓ عقل کی روشنی اور عقل کا رہبر سمجھتے تھے۔ ان صحابہ کرامؓ اور ان کے تلامذہ‘ شاگردانِ رشید نے یکے بعد دیگرے وراثتِ نبوتؐ‘ خلافتِ ارض کے فرائض انجام دیئے اور دنیا کو انسانیت یعنی دینِ اسلام سے روشناس کرایا، فطرت سے غافل انسانوں کو فطرت سے باخبر کر کے خالق فطرت کے آستانے پر سرنگوں کیا۔ دنیا پرستوں کو حیاتِ بعد الموت کی ابدی زندگی ’’الجنۃ‘‘ کا طالب و حریص بنایا۔ جب خیر القرون کا یہ مبارک دور ختم ہوگیا تو ایک طرف دنیا شمع نبوتؐ کے پروانوں سے خالی ہوتی گئی اور دوسری طرف عجمی قومیں اپنے غلط مذہبی تصورات اور خیالات کو لے کر اسلام میں داخل ہوتی گئیں۔ رفتہ رفتہ کتاب و سنتؐ سے تعلق کمزور ہوتا گیا اور بصیرتِ قرآنی کی خدا داد نعمت سے محرومی بڑھتی گئی جس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں گمراہ‘ راہِ نجات سے ہٹے ہوئے فرقے پیدا ہوتے گئے اور دوسری خرابی یہ ہوئی کہ حق و باطل کو جانچنے کا معیار کتاب و سنتؐ اور روش صحابہؓ کے بجائے صرف عقل یا بزرگوں کا کشف قرار پایا۔ گہرے رنج و افسوس کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ اس وقت دین و کمالِ دین کی جو تعلیم مسلمانوں میں رائج ہے، رشد و ہدایت کے مراکز اور اصلاحی و تبلیغی جماعتوں میں جاری ہے اس میں عجمی‘ غیر قرآنی افکار کی بہت آمیزش ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دینِ اسلام کی حقانیت و نورانیت پر ایک پردہ سا پڑا ہوا ہے اور پوری دنیائے انسانیت گمراہی کو ہدایت و سلامتی کی راہ سمجھ کر بے راہ روی میں مبتلا ہے، غیر قرآنی اور باطل افکار کے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔

(۱)انسان اس دنیا میں مالک و مختار ہے، صرف اپنی عقل و تدبیر سے اپنے حقیقی نفع و ضرر کو متعین اور اپنی زندگی کے مسائل کو حل کرسکتا ہے وہ کسی بالاتر ہستی کا محتاج و بندہ و تابع نہیں ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کی صلاح و فلاح کے لئے کوئی حکم و ہدایت نازل نہیں فرمائی۔

(۲)بندگی بے چارگی و بے بسی کا نام ہے۔

(۳)دنیا علیحدہ ہے اور دین علیحدہ اور یہ کہ دین و سیاست علیحدہ ہے۔

(۴)دین ایک ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ نے بندوں پر عائد کی ہے اور یہ کہ دین مشکل ہے۔

(۵)بادشاہ اور رعیّت کے تعلق کی طرح عبد اور رب کا تعلق بھی ایک قانونی تعلق ہے۔

(۶)دن اور رات کے مخصوص اوقات میں مخصوص طریقوں سے خدا کو یاد کرنا اور خدا کا نام جپتے رہنے کا نام عبادت ہے اور سب سے بڑی عبادت خدمتِ خلق ہے۔

(۷)مغفرت اور جنت کا مستحق ہونے کے لئے بے سمجھے بوجھے لا اللہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا اقرار کرنا اور کسی کا مرید ہوجانا یا کسی اہل اللہ سے عقیدت قائم کر کے اس کی خدمت کرتے رہنا کافی ہے جس کے بعد ہویٰ و ہوس کی اتباع کرنے کے باوجود مغفرت و نجاتِ آخرت سے محرومی نہیں رہتی۔

(۸)آخرت ایک روحانی عالم ہے جسمانی عالم نہیں ہے وہاں کی راحت و مسرت‘ درد و اذیت خیالی ہوگی‘ کھانے پینے‘ رہنے سہنے اور جنسی میلانات اور اس کی لذتوں سے وہ عالم منزّہ ہے۔ قرآن میں عالم آخرت کے متعلق سامانِ عیش و راحت اور دکھ و اذیت کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں وہ بطورِ مثال ہیں۔

(۹)ولایت یہ ہے کہ اللہ کی یاد میں اس قدر گم رہیں کہ دنیا اور مافیہا کی خبر نہ رہے‘ غیبی چیزیں نظر آئیں‘ پوشیدہ باتوں پر اطلاع ہوجائے‘ بیماریوں کو توجہ سے دفع کردیں اور اپنی ہمت و تصرف سے لوگوں کے کام بنادیا کریں اور اپنی توجہ سے بگڑے ہوؤں کی دنیا و دین درست کردیا کریں وغیرہ وغیرہ۔

(۱۰)بزرگانِ دین سے غلطی نہیں ہوتی۔ شیخ و مرشد کی ہر بات وحی کی طرح صحیح ہوتی ہے۔ ان سے اختلاف سوئِ ادبی ہے جس سے نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں۔

(۱۱)کتاب و سنت کے علاوہ اور طریقوں سے بھی وہی تعلق باللہ قائم ہوسکتا ہے جو کتاب و سنت کی اتباع و اطاعت سے صحابہ کرامؓ کو حاصل تھا اور یہ کہ بزرگانِ دین نے تعلق باللہ قائم ہونے کے لئے جو مختلف اشغال اور مراقبے ایجاد و جاری کئے ہیں ان کو اختیار کئے بغیر دین و ایمان کی تکمیل اور مقامِ احسان کی تحصیل نہیں ہوسکتی اور مروّجہ اشغال ہی صحبتِ نبویؐ کا بدل ہیں۔

(۱۲)عالمِ قرآن وہی ہیں جو عربی زبان کے صرف ونحو‘ معانی وبیان اور کلام و منطق و فلسفہ کے ماہر ہیں اور ایسے ہی لوگ کلامِ الٰہی کے مطالب کو خوب سمجھ سکتے ہیں۔

(۱۳)بزرگانِ دین‘ مفکرینِ اسلام کی کتابیں پڑھ لینے سے دینی بصیرت حاصل ہوجاتی ہے۔

(۱۴)شریعت الگ ہے اور عشق و محبت الگ۔

(۱۵)معاشی اصلاح کے بغیر دین و ایمان کی اصلاح ممکن نہیں۔ دنیا مقدم ہے اور آخرت مؤخر۔

(۱۶)اسلامی تعلیمات کو موجودہ ذہنیتوں کے مطابق کر کے پیش کرنا حکمت ہے۔

(۱۷)انسان میں غصہ‘ عداوت اور محبت کے جو جذبے اور قوتیں ہیں اور کھانے‘ پینے پہننے کی جو خواہشیں اور جنسی میلانات ہیں وہ بہیمانہ صفتیں ہیں۔ نیز یہ کہ دینی تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ انسان فرشتہ خصلت بن جائے۔

(۱۸)اسلام‘ یہودیت‘ عیسائیت‘ مجوسّیت‘ ہندومت یہ تمام مذاہب برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہر مذہب میں خدا کی عبادت کے جو طریقے ہیں، خدا ان سے راضی ہے اور وہ اس کے پسندیدہ ہیں اور یہ کہ وید‘ ژند‘ توریت‘ انجیل اور قرآن یہ تمام الہامی کتابیں ہیں۔

(۱۹)مسلمانوں میں جو فرقے ہیں مثلاً شیعہ‘ خارجی‘ قادیانی‘ مہدوی‘ بہائی وغیرہ یہ سب اسلام ہی کے فرقے ہیں۔ ان کے جو افکار و اعمال ہیں وہ سب اسلامی ہیں اور اپنی اپنی جگہ پر سب نجات پانے والے ہیں۔

(۲۰)تکمیلِ دین الگ ہے اور اتمامِ نعمت الگ۔ اتمامِ نعمت وہ اسرار ہیں جن کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام طور پر نہیں دی بلکہ مخصوص صحابہؓ کو دی اور یہی علومِ سینہ ہیں جو بواسطۂ علیؓ دنیا میں پھیلے۔

(۲۱)وحدت الوجود کی مروجہ تعلیم جس کا ماحصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ ہی مخلوقات کی صورت میں موجود و ظاہر ہیں جس کا ثمرہ یافت و شہودِ حق بیان کیا جاتا ہے اور یہی قرب و صدیقیت‘ کمالِ دین و ایمان و مقامِ احسان کی قرآنی و نبویؐ تعلیم ہے وغیرہ وغیرہ۔

المختصر کتاب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جہل و ظلمت کے تمام پردے چاک ہوجائیں اور دینِ اسلام کا صحیح اجمالی نقشہ دنیا کے سامنے آجائے اور تمام انسانوں پر یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ دینِ اسلام ہی پوری انسانیت‘ تمام بنی آدم کا فطری نظامِ حیات ہے۔ یہی دینِ فطرت ہے، دینِ حق ہے۔ اس کے سواء جو کچھ ہے وہ باطل و گمراہی ہے تاکہ اپنے خالق و رب سے اپنے انجام آخرت سے غافل انسان اپنی حقیقی و ابدی زندگی بعد الموت کے نفع و ضرر کو سمجھ کر‘ خیر و ابقیٰ زندگی ’’الجنۃ‘‘ اور اس کے درجات و مراتب کو مقصود بناکر راہِ ہدایت پر گامزن ہوجائیں، بالفاظ دیگر بندگیٔ رب کا شرف حاصل کر کے اپنے رب و مولیٰ کی عارضی و ابدی رحمتوں کے مستحق ہوجائیں۔

بندگانِ حق ہی وہ اعلیٰ ترین انسان ہیں جن کے متعلق حق تعالیٰ فرماتے ہیں اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ (سورہ النساء) جن کو اللہ تعالیٰ نے انعامات خاصہ سے سرفراز کیا ہے اور اخروی زندگی کے درجات و فضائل کے لحاظ سے ان کے مدارج بندگی کی بھی صراحت فرمادی وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ۝۰ۚ ۝۶۹ۭ (النساء) ترجمہ: (اور جو اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرے گا تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے (کامل) انعام فرمایا، یعنی انبیاء علیہم السلام اور صدیقین و شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوں گے۔) ان میں سب سے اشرف و اعلیٰ انبیاء علیہم السلام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت اور صلاح و فلاح کے لئے مامور فرمایا ان کے بعد ان کی اتباع و اطاعت کرنے والوں میں پہلا بلند درجہ صدّیقین کا ہے، ان کے بعد شہداء و صالحین کا درجہ ہے۔ اس کتاب میں صالحیت و شہادت اور صدّیقیت کی خالص قرآنی و نبویؐ تعلیم بالفاظِ دیگر دینِ فطرت‘ دینِ الٰہی‘ دینِ اسلام کا اجمالی تعارف ہے۔

ذہن نشین رہے کہ محض کتاب پڑھنے سے انسان کے افکار و اعمال کی اصلاح نہیں ہوسکتی جس طرح امراضِ جسمانی کی کتابیں اور نسخے پڑھ کر کوئی مریض اپنا علاج نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ کسی حکیم کے پاس رجوع ہوکر اس کی ہدایتوں پر عمل نہ کرے اسی طرح امراضِ قلبی کا بیمار بھی صرف کتابیں پڑھ کر اپنا علاج نہیں کرسکتا۔ امراضِ قلبی کے مریض کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ قلبی امراض کے ماہر و حکیم کے پاس رجوع ہو کر اس کے حسبِ ہدایت نسخۂ شفا استعمال کرے۔ یہی سنتِ الٰہی ہے ورنہ

درد رہ جائے گا کہیں نہ کہیں!

یہ بات بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ قلبی امراض جس فاسد مادہ سے پیدا ہوتے ہیں وہ حبِ دنیا اور بعد الموت کی اصلی و ابدی زندگی سے غفلت و بے خبری ہے۔ امراض قلبی کا حکیم وہی ہے جو اس فاسد مادہ کو پہچانتا ہے اور اس کو اولاً قلب سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاآنکہ بعد الموت کی ابدی زندگی کا اس طرح یقین ہوجائے کہ وہی اصلی زندگی ہے۔ انسانی جذبات و خواہشات کی زندگی ہے۔ غرض وہاں کا نفع و ضرر اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔ ورنہ جب تک یہ مادۂ فاسد قلب میں چھپا رہے گا کوئی دوا اور کوئی پرہیز مفید نہ ہوگا۔ ایسے حکیم کی ایک بڑی علامت یہ بھی ہے کہ وہ کسی صلہ و ستائش کا طالب نہیں رہتا اور وہی دوا و پرہیز بتلاتا ہے جو کتاب و سنت میں متعین ہے۔

بہ توفیقِ الٰہی انسانی اور دینی برادری کی اصلاحِ حال کی یہ ایک مقدور بھر کوشش ہے۔ بفضلہٖ تعالیٰ نہ ستائش کی تمنّا نہ صلہ کی پروا۔

وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہَ