مسلمان اور ماہ محرم میں خرافات

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

مسلمان اور ماہ محرم میں خرافات

 

گھر بلا کر  آپ  کاٹیں  اپنے  مولا کا گلا

اور آپ ہی پھر بیٹھ کر احباب میں ماتم کریں

حضرات! جہاں اور قوموں میں سال کی ابتداء جشن وجلوس سے ہوتی ہے وہاں مسلمانو ں کے سال کی ابتداء ماہ محرم میں عبادات سے ہوتی ہے۔ کچھ مسلمان خصوصاً محرم کے مہینہ کو غم کا مہینہ اور کوئی خوشی اور نیا کام نہ کرنیکا مہینہ سمجھتے ہیں‘ اور بعض روایات کے مطابق سیدہ فاطمہ ؓ  کی شادی بھی اسی ماہ محر م میں فرمائی ہے (دیکھئے جلاء العیون اردو جلد(۱) صفحہ ( ۶۶ ۱۱) از ملاّ باقر علی مجلسی ) نبی کریم ؐنےتاکیداً فرمایا کہ’جوشخص جس قوم کی مشابہت اختیار کریگا وہ اسی میں شمار کیا جائیگا‘‘    اہل سنّت والجماعت ماہ محرم میں سیّد نا حسینؓ کی شہادت پر رافضیوں اور شیعوں کی طرح نوحہ ‘ ماتم‘ گریہ وزاری ومرثیہ خوانی کرتے‘ تعزیہ داری ‘ علم بٹھانا اور اس پر چڑھاوے چڑھانا‘ بانس اور لکڑی کے پنجوں کو سیّدناامام حسینؓ و قاسمؓ وعلیؓ اکبر‘ علی اصغر کا نام دے کر ان پنجروں اور پنجوں سے مرادیں مانگتے ہیں۔حضرات غور فرمائیں کہ ان مشرکا نہ اعمال کا اسلام سے کیا تعلق‘ شہداء کے بارے میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں (اور تم ان لوگوں کو جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں۔ مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم ان کی زندگی کی کیفیت نہیں سمجھتے۔ (بقرہ : ۱۵۴) یہ کیا جہالت ہے کہ ہر سال سیدنا حسینؓ کو دفن کیا جاتا ہے اور اس کے بعد زیارت ‘ دسواں ، بیسواںاور چالیسواں کیا جاتا ہے کیا غزوات شہدا‘بالخصوص سیدنا حمزہؓ کے لئے کیا یہ ماتم کیا گیا؟ یا اس کا حکم دیا گیا‘ ونیز سیدنا علی ؓ کو مسجد میں حملہ کرکے شہید کیا گیا‘ کیا ایسا کوئی ثبوت ملتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ  اور تابعین نے آپ کے لئے ایسا ماتم کیا ہے؟ سینہ کو بی کی ہے ؟ آپ خود فیصلہ کیجئے کہ ہم اہلِ سنّت والجماعت دور نبوت اور دور صحابہ ؓکو چھوڑ کر کہاں نمونہ تلاش کریں؟ اگر کسی کے وصال پر ماتم کرنا جائز ہوتا تو رسول اکر مؐ خود اپنے فرزند ابراہیم وزوجہ محترمہ سیدہ خدیجہؓ اور نواسی اور اپنے چاچا سیدنا حمزہؓ نیز اور صحابہ ؓبھی اپنے مرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کا ضرور ماتم مناتے ‘ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اپنی کتاب غنیتہ الطالبین میں فرماتے ہیں کہ اگر حسینؓ  کی شہادت کے دن کو یومِ غم اور یومِ مصیبت شما رکیا جاتا ہے تو یوم دوشنبہ اس سے زیادہ اندوہناک تاریخ ہے کہ اس میں نبی کریم  ؐوسید نا صدیق اکبرؓ نے وفات پائی ہے۔ نبی کریمؐ کے وصال پر علیؓ فرماتے ہیں کہ (اے اللہ کے رسولؐ اگر آپ نےہم کو صبر کی تعلیم دے کر رونے چلانے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو آج ہم آپ کے وفات پر اتنا روتے اور ماتم کرتے کہ بدن کی رطوبت خشک ہوجاتی ۔(نہج البلاغہ طبع قدیم ۱۹۳)آپ نے دیکھا اس سانحہ عظیمہ پر حُبِّ صادق رکھنے والی جماعت صحابہ اور اہل قرابت نے صبر سے کام لیا اور وہی کیا جسکی تعلیم نبی کریم  ؐنے دی تھی تو پھر شہدائے کربلا کے لئے یہ بین ‘ ماتم نوحہ‘ سوز خوانیاں ‘ مجالس دس روزہ‘ بارہ روزہ کیا شریعت اسلامیہ سے انحراف اوربدعت وضلالت نہیں ہے؟

تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہود ہمیشہ ہی سے اسلام کے دشمن رہے‘ عبداللہ بن سبانامی یہودی نے یہ تحریک چلائی اورکامیاب رہا‘ سیدنا فاروق ؓ کو شہید کیاگیا‘ سیدنا عثمانؓ کو ۸۴ سال کی عمر میں لگاتار شدید محاصرہ کرکے (۳۱) دن بھوک پیاسا تڑپا تڑپا کرشہید کیا گیا۔ سیدنا علیؓ اور بی بی عائشہؓ میں جنگ کروائی‘ اپنے بچائو کیلئے سیدنا علی ؓ کی آڑ لی مگر جب آپ بھی ان کے حسبِ مرضی کام نہ آسکے تو انہیں بھی شہید کردیا ان کے بعد سیدنا حسنؓ کو مذلّ المومنین کہا انہیں زخمی کیا اور ان کو شہید کرنے پر تل گئے مگر وہ بچ کر مدینہ پہونچنے کے بعد واصل بحق ہوگئے‘ سیدنا حسینؓ کو گھیر گھار کر مکّہ سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے ‘ جب سیدنا حسینؓ کوفہ سے تین منزل کے فاصلہ پر پہونچے تو انہیں بھی معلوم ہوگیا کہ میرا بھی وہی حشر کرنے والے ہیں جو اس سے پہلے میرے بھائی اور باپ کا کرچکے ہیں وہ اسی مقام سے خلیفہ تک پہونچنے کیلئے دمشق روانہ ہوئے مگر جب وہ کربلا کے مقام پر پہونچے تو انہیں بھی شہیدکردیا گیا‘ حسینؓ کو شہید کرنے والے کوفی تھے اور کوفی شیعہ تھے۔ عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: اہلِ عراق مکھی قتل کرنے کے متعلق پوچھ رہے تھے حالانکہ انہوں نے رسول اللہ ؐکے نواسے کو شہید کردیا۔(حدیث بخاری)

زین العابدین جو اس واقعہ کربلا کے عینی شاہد ہیں جب ا نہوں نے دیکھا کہ کوفہ کی عورتیں ماتم کررہی ہیںاور مرد بھی ان کے ساتھ رورہے ہیں تو فرمایا: کہ یہ لوگ ہم پر رورہے ہیں مگر ہم کو ان کے سوائے کس نے قتل کیا‘ آپ نے کربلا کا دردناک واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا مگر زندگی بھر میں ایک بار بھی نہ واقعہ کربلا کی روایت بیان کی اور نہ غم حسین ؓ میں کوئی رسم جاری کی بلکہ جب مختارنے اہل بیت سے متعلق رسومات جاری کیں تو آپ نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور باب کعبہ پر کھڑے ہوکر مختار پر لعنت بھیجی (طبقات جلد۵) واقعات کربلا کے ایک سوسال بعد کتاب کی شکل میں غالی شیعہ ابومخنف بہ عنوان مقتل حسین لکھا جو جھوٹی روایات پر مشتمل ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ‘ یہی جھوٹی تاریخ جو جذبات کو اُبھارکر پھوٹ ونفرت پید ا کرتی ہے‘ افسوس کہ اسی تاریخ کو ہم صحیح واقعات کربلا سمجھ بیٹھے ‘ دشمنان اسلام نے نہ صرف جھوٹی تاریخ لکھی بلکہ غلط روایتوں کو دل سے گھڑکر حدیث کا نام دیا جس کو آج بھی کچھ اہل سنّت والجماعت ان گھڑی ہوئی روایتوں کو صحیح سمجھ بیٹھے ہیں‘ تاریخ شاہد ہے کہ سیّدنا حسینؓ کو مکہ سے گھیر کر کربلا لانے والے کوفی ہی تھے اور وہی کوفی ہیں جنہوں نے قافلہ حسینؓ پر حملہ کیا‘ ریاض الشہاد تین میں ذکر ہے کہ علیؓ کی اولاد یعنی حسینؓ کے سوتیلے بھائیوں میں سے جو کربلا میں قافلہ حسینی میں شامل تھے ان میں ابوبکر بن علیؓ کا قاتل عبداللہ ‘ عمربن علی ؓ کا قاتل یزیدالبطحی اور عثمان بن علی ؓ کا قاتل خوصی تھا۔ سب کوفی شیعہ تھے ‘ کربلا کے شہداء میں ابوبکر بن علیؓ ‘ عمر بن علی ؓ ‘ عثمان بن علیؓ  کا اس لئے تذکرہ نہیں ہوتا کہ یہ نام خلفائے ثلاثہ کے ہیں اور شیعوں کو خلفائے ثلاثہ سے بغض ہے ‘ واقعہ کربلا  ۶۱ھ؁میں ہوا اس کے انیس(۱۹) برس بعد  ۸۰ھ؁ میں امام اعظم ابوحنیفہؒ پیدا ہوئے اور  ۱۵۰ھ؁ میں انتقال فرمایا لیکن اپنی ستر(۷۰) سال کی عمر میں کسی بھی محرم میں نہ آپ تعزیہ داری کئے ہیں اور نہ اس کا حکم دئیے ہیں نہ ہی واقعات کربلا کاذکر اس طرح کرتے ہیں جیسا آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ واقعہ کربلا سے ۳۵۲ھ؁ تک نہ کسی نے غم منایا نہ تعزیہ بٹھایا‘ سب سے پہلے معزالدولہ جو غالی شیعہ تھا اس نے دس محرم کو حسینؓ کی شہادت کے غم میں دوکانوں کو بند کرنے اور خرید وفروخت کو بالکل موقوف کرنے کا حکم دیا اور علانیہ نوحہ کرنے اور عورتوں کو اپنے بال کھول کر بین کرنے کپڑے پھاڑنے، سڑکوں اور بازاروں میں مرثیہ پڑھتی‘ منہ نوچتی ‘ چھاتیاں پیٹتی ہوئی نکلنے کا حکم دیا جس پر سنّی شیعہ فسادہوا۔

اور اسی نے ۱۰ ؍محرم کو ماتم حسینؓ کا دن مقرر کیا‘ مشہور مورخ جسٹس امیر علی فرماتے ہیں کہ ماتم حسینؓ  کا بانی مبانی معزالدولہ ہے لیکن حکومت شیعوں کی تھی اس لئے یہ عمل جاری رہا اور ہندوستان میں تیمورلنگ نے جو شیعہ رسم تعزیہ داری شروع کی‘ ہمایوں بادشاہ نے بیرم خان کو بھیج کر ۴۶تولے کے زمرد میں تعزیہ ہندوستان منگوایا‘ یہ پہلا تعزیہ ہے جو ہندوستان آیا اور آصف الدولہ نے ۱۲۱۳ھ؁ میں لکھنو میں امام باڑہ بنایا دکن کے سلاطین جو شیعہ تھے امام باڑے اور عاشورخانے تعمیر کروائے اور سرکاری طور پر نوحہ خوانی، مرثیہ خوانی، تعزیہ داری وغیرہ کا انتظام کروایا اور جاگیرعطاکیں اور یہ شیعہ بدعت آج اہلسنّت والجماعت میں گھس آئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں مفتیان اہلِ سنّت والجماعت حسینؓ کی شہادت پر ماتم کرنے‘ تعزیہ بٹھانے‘ مجالس وغیرہ مقررکرنے وغیرہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

احکام قرآن و حدیث اور فتوے

·                    اے ایمان والوں! ان لوگوںکو دوست نہ بنائو جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں۔ (سورہ مائدہ:۵۸)۔

·        رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گربیان چاک کرنے والی عورت‘ منہ نوچنے والی‘ واویلا کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ (ابن ماجہ)۔

·        عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو غم میں اپنے رخساروں پر طمانچے مارے اور گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی سی باتیں کرے یعنی واویلا کرے۔ (صحیح بخاری‘ مسلم‘ترمذی ‘ ابن ماجہ)۔

حسینؓ کو جب معلوم ہوا کہ وہ شہید کردئیے جائیں گے تو انہوں نے کہا کہ میری شہادت کے بعد نہ تو نوحہ وماتم کرنااور نہ گریبان پھاڑنا بلکہ صبر کرنا۔ (امارۃ البصائر جلد۲ صفحہ ۲۹۷‘ ابن خلدون‘ طبری وابن اثیر)۔

فتوے

(۱)ہر سال حسینؓ  کا ماتم کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ (محدث علاّ مہ محمد طاہرؒ)

(۲)خبردار! خبردار !عاشورے کے دن رافضیوں میں ہرگز مشغول نہ ہوجانا‘ جیسا کہ مرثیہ خوانی ‘ چلانا ماتم کرنا یہ سب کام مسلمانوں کے نہیں ہیں ۔(محدث علامہ ابن حجر مکی‘ صواعق محرقہ ۱۱۲)۔

(۳)اہلِ سنّت کا طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ روافض کی لائی ہوئی بدعتیں جیسے مرثیہ خوانی، ماتم اور نوحہ وغیرہ سے بچتا رہے۔ یہ سب کام مسلمانوں کے نہیں ہیں۔ (شرخ سفر السعادت صفحہ ۵۴۳محدث شاہ محمد عبدالحق  ؒ)۔

(۴)محرم میں تعزیہ بنانا اور بناوٹی قبریں بنانا‘ علموں پرمنت چڑھانا وغیرہ شرک ہے۔ (شاہ عبدالعزیزؒ محدث دہلوی ‘ فتاویٰ عزیز یہ جلد اوّل صفحہ ۱۴۷)۔

(۵)تعزیہ بنانا‘ اس پر پھول چڑھانا وغیرہ سب کام ناجائز وحرام ہیں۔  (مولاناعرفان علی صاحب بریلوی‘ عرفان ہدایت ۹)

(۶)تعزیہ کو جائزجاننے والے کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے‘ واجب الاعادہ ہوتی ہے۔ (مولانا عرفان علی‘عرفان ہدایت ۱۰۷۹)

(۷)عَلم تعزیہ ‘ ابریک مہندی جیسے طریقے جاری کرنا بدعت ہےـ‘ بدعت سے اسلام کی شان بڑھتی نہیں ہے‘ تعزیہ کو حاجت پوری کرنے والاماننا جہالت پر جہالت ہے‘ اسکی منّت ماننا بیوقوفی اور نہ کرنے میں نقصان ماننا’’زنانہ‘‘ وہم ہے‘ مسلمانوں کو ایسی حرکت سے بچنا چاہئے ۔       (احمد رضاخاں بریلوی‘ رسالہ محرم وتعزیہ داری صفحہ ۵۹)

(۸)عَلم تعزیہ بنانے اور پیک بنے محرم میں بچوں کو فقیر بنانے اور بدھی بنانے اور مرثیہ کی مجلس کرنے اور تعزیہ پر نیاز دلوانے وغیرہ کی خرافات جو رافضی اور تعزیہ دار لوگ کرتے ہیں، اسکی منّت سخت جہالت ہے ایسی منّت نہ ماننی چاہئے۔   (بہارشریعت حصہ ۹صفحہ ۳۵‘ منّت کا بیان)

(۹)محرم میں کالے اور ہرے رنگ کے کپڑے پہننا غم کی نشانی ہے اور غم حرام ہے ۔ (احکام شریعت حصہ اوّل ۹۰)

(۱۰)رافضیوں کی مجلس میں جانا اور مرثیہ سننا وا جب لعنت اور حرام ہے۔ تعزیہ جس طرح رائج ہے متعدد معاصی اور منکرات کا مجموعہ گناہ‘ ناجائز وبدعت شیعہ وباعث عذاب الہیٰ اور طریقہ روافض ہے اس کے جواز کا قائل صرف بے علم‘احکام شریعت سے نابلد شخص ہی ہوگا۔ تعزیہ بنانے والا‘ سیکھنے والا‘اس کی کسی طرح بھی مدد کرنے والا‘ اس پر شیرینی چڑھانے والاسب گنہگار مستحق عذابِ نار ہے‘ مسلمانوں کو چاہئے کہ اس بدعت شیعہ سے بچیں اور دور رہیں اور کسی طرح بھی اس میں شرکت نہ کریں۔ (مولانا حکیم حشمت علی‘ مجمع المسائل جلد اوّل ۱۹۹)۔

اہلِ سنّت والجماعت کو چاہئے کہ قرآن وسنّت کے احکام پر عمل کریں اور صحابہ کرامؓ کے اعمال حسنۂ کو اپنااسوۂ حسنۂ بنائیں تا کہ کل حشر کے دن اللہ کے عذاب سے بچالئیے جائیں۔ اللہ سے التجاء ہے کہ اپنی رحمت سے ہم سب کو ان بدعات سے محفوظ رکھے ۔ (آمین ثم آمین)