درگاہ اجمیر کے سجادہ نشین صاحب کا بیان ایک جائزہ‘ ایک تبصرہ

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

درگاہ اجمیر کے سجادہ نشین صاحب کا بیان

ایک جائزہ، ایک تبصرہ

 

اسلام میں نمائشی حرکات کیلئے کوئی گنجائش نہیں صوفی کیلئے مادہ پرستی زیبانہیں۔ دیوان جی اجمیر شریف کا بیان:

حیدرآباد ۔ 17/ جنوری(محمدمجیب چودھری) دیوان جی اجمیر شریف سیدزین العابدین علی خان سجادہ نشین گدی نشین درگاہ خواجہ غریب النوازؒ اجمیر شریف نے اپنے پیام میں کہاکہ: میرے لئے تمام سلسلوں کے صوفی اورمشائخین نہایت قابل احترام ہیں۔ ان تمام سے میری گزارش ہے کہ وہ ’’آبابا۔لابابا۔ جابابا‘‘۔ اصول کے خلاف جدوجہد کریں اوردرگاہوں کے غلوں کی آمدنی کوتعلیم اور بے روزگاری کے خاتمے کے لئے خرچ کریں۔ نیزخانقاہوں کے تحت مساجد کوآباد رکھنے اور دینی مدارس کے قیام کے لئے مساعی جاری رکھیں۔ عام مسلمان اپنے مرشد کی قدم بوسی سے احتراز کریں۔ تعویذ، گنڈے وغیرہ ہماری قسمت کونہیں بدل سکتے۔ مسلمان یہ اچھی طرح جان لیں کہ اسلام میں نمائشی حرکات کے لئے گنجائش نہیں۔ آپ کے والدکا اسم گرامی سیدعلیم الدین علی خان تھا وہ 23/اکتوبر 1975ء کوملک کی سب سے بڑی عقیدت گاہ درگاہ معین الدین اجمیری ؒ کی مسند سجادگی پرفائز ہوئے۔ دیوان جی نے تعلیمات خواجہ اجمیریؒ کی روشنی میں ہدایت دی کہ ’’کم کھانا‘ کم سونا اور کم بولنا‘‘ کے عظیم ارشاد پرعمل کریں۔ انہوں نے کہاکہ صوفی اپنی خانقاہ میں ہی اچھالگتاہے کسی صوفی کیلئے یہ مناسب نہیں کہ وہ مادہ پرستی کی راہ پرچل کراپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے ماحول تیار کرے جواپنے قابل احترام اسلاف کورسوا کرنے کی مذموم حرکت ہے اور کہاکہ حقیقت یہ ہے کہ آج کاصوفی’’آبابا۔ لابابا۔ جابابا‘‘۔ پر عمل پیرا ہے۔ وہ ایسی عینک استعمال کرتاہے جس کا فریم ۲۲قیراط سونے کا ہوتا ہے بیش قیمت پوشاک استعمال کرتا ہے۔ کم از کم چارخواتین سے نکاح کرنا ضروری سمجھتا ہے اوربعض تو بے دین خواتین کوبھی اپنے حرم میں رکھے ہوئے ہیں جس کی تحقیق کی جاسکتی ہے۔ کم از کم (۱۰) ہزار روپئے کی گھڑی استعمال کرتاہے۔ دیوان جی سجادہ نشین زین العابدین علی خان کی ولادت ۲۴/ ڈسمبر ۱۹۵۱ ء کواجمیر شریف میں ہوئی۔ ۱۹۷۱ء میںمعینہ اسلامیہ اسکول سے سکنڈ ڈیویژن میں امتحان ہائرسکنڈری پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج اجمیر میںحصول تعلیم کے بعد ۱۹۷۴ء میںراجستھان یونیورسٹی جئے پور سے سکنڈ ڈیویژن میں بی اے کی ڈگری حاصل کی مضامین اردو فارسی اور تاریخ تھے ۔عربی اپنے قابل احترام والدبزرگ سے گھر پرسیکھی۔ دیوان صاحب باوجود کم سنی کے اپنی سنجیدگی ‘ادب ‘اخلاق اوراعلیٰ صلاحیتوں سے اپنے سلسلے میںاس مقام پرفائز ہوچکے تھے کہ آپ کے والد بزرگوار نے آپ کو اپنی حیات ہی میں اپنا نائب وجانشین مقررفرمادیاتھا اوروہ اپنے بزرگوں کے آداب و روایات کے ہرطرح پابندہیں اورنہایت سلیم الطبع اورصالح نوجوان ہیں۔ بحمدللہ اپنے آبائی منصب کے شایان شان ہیں۔ دیوان جی نے کہاکہ عام مسلمان اچھی رہنمائی سے محروم ہیں اوراللہ کے رسول سرورکائنات ؐ کی حیات طیبہ کے خلاف عمل میں مصروف ہیں۔ زبان سےخواجہ غریب النوازؒ اور دیگر اہل اللہ سے عقیدت کادم بھرتے ہیں مگر ان کی تعلیمات کے خلاف عمل کرتے ہوئے نہیں شرماتے۔ دیوان جی نے کہاکہ مساجد کے تقدس کی برقراری اور مساجد میں عقائد کے نام پراختلافات پیدا کرنے والوں سے چوکس رہیں اورکہاکہ مساجد میںویڈیوگرافی، تصویر کشی اورگلپوشی جیسی تقاریب اسلامی تعلیمات کے مغائر ہیں۔ انہوںنے غلطی کومثال بنانے کے عمل میں ناراضگی کااظہار کیا اوردینی اداروں میں سیاسی مداخلت کاری پر افسوس کااظہار کیااورکہاکہ دینی اداروں کوسیاست سے پاک رکھنا چاہیے کیونکہ ملک کی سیاست مکروفریب کی تعلیم پرعمل پیراہے۔ جب کہ اسلامی سیاست فکر وفن کی تعلیم کادرس دیتی ہے۔ دیوان جی نے حیدرآباد کے مسلمانوں کی ترقی اور خوشحالی وامن کے لئے دعاء کی۔

·      تبصرہ

درگاہ شریف خواجہ معین الدین چشتی  ؒکے سجادہ نشین ، گدی نشین دیوان جی جناب سید زین العابدین علی خان کاایک بیان حیدرآباد کے اخبار روزانہ منصف میں ۱۸/ جنوری ۲۰۰۰ء کوشائع ہوا۔ اپنے بیان میں آپ نے درگاہی نظام سے وابستہ افراد کوچندنصیحتیں کیں اور مشورے دیئے ہیں۔  جناب زین العابدین صاحب کی تقریر اس بات کی دلیل ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت کو بگاڑنہیں لیتا تووہ حق بول کرہی رہتی ہے۔ اپنے سے تعلق رکھنے والے گروہ میں غلطیوں اوربگاڑ کااعتراف کرنااخلاق کے اعلیٰ درجہ کامظہر ہے ۔ اس جرأت مندانہ بیان کیلئے ہم دیوان جی صاحب کو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ان کیلئے دعائے خیر کرتے ہیں اور ان کی خدمت میںاس تعلق سے کچھ باتیں پیش کرتے ہیں۔ امیدہے کہ ان باتو ںپر غور وفکر فرمائیں گے۔ آپ نے تمام صوفی اورمشائخین سے گزارش کی ہے کہ وہ ’’آبابا۔ لابابا۔ جابابا‘‘۔ کے اصول کے خلاف جدوجہد کریں۔ موصوف کامشورہ درست ہے مگرمسلمانوں میںشخصیت پرستی کامرض بہت بڑھ گیاہے اوراس کازیادہ تعلق درگاہوں اورتصوف سے ہے درگاہوں اور تصوف کانظام ہی ’’آبابا۔ جابابا۔ لابابا ‘‘کے دروازے کھولتاہے اور ذاتی مفاد کی تکمیل کیلئے ماحول تیارکرتا ہے مزید آپ نے فرمایا مسلمان یہ اچھی طرح جان لیں کہ اسلام میں نمائشی حرکات کیلئے کوئی گنجائش نہیں شاید موصوف کااشارہ اکثر مسلمان نکاح ودیگر تقاریب ہیں جو اسراف کرتے ہیں اس کی طرف ہو۔ مگرساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی ولی کاعرس اور عرس کے تمام مراسم بھی نمائشی ہوتے ہیں اور ان اعراس میںشریک ہونے والے لوگوں کاپیسہ اور وقت برباد ہوتاہے اہم بات یہ ہے کہ کسی ولی کی قبر کی زیارت سے فیوض وبرکات ملنے کاعقیدہ رکھنا توکھلا شرک ہے۔ اس سے ہرحال میںبچنے کی فکر ہونی چاہیے۔اس لئے سالانہ عرس کی اس رسم ہی کوختم کیاجائے آپ نے ایک اور مشورہ دیاکہ’’درگاہوں کے غلوں کی آمدنی کوتعلیم اوربیروزگاری کے خاتمہ کیلئے خرچ کریں‘‘۔ ہم موصوف کے علم میںیہ بات لاناچاہتے ہیں کہ جن لوگوں نے درگاہوں کی آمدنی سے تعلیمی ادارے قائم کئے وہ عام مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے اُلٹادرگاہ سے وابستہ لوگوں ہی کو فائدہ پہنچانے کاباعث بنے ہوئے ہیں ان تعلیمی اداروں سے غریب مسلمانوں کوتعلیم کے مواقع نہیںدیئے جاتے ہیں بلکہ اس میںداخلہ کیلئے معقول رقم الگ سے وصول کی جاتی ہے۔تعجب ہوتاہے کہ مسلمان درگاہ کے غلے میں تورقم ڈالتے ہیں مگر اللہ کے حکم کی تکمیل میںغریبوں مجبوروں کونہیں دیتے۔ اگرشہر شہرگائوں گائوں کے مسلمانوں کی تعلیم کیلئے بیت المال  قائم کئے جائیں اورلوگ بیت المال میںرقم جمع کریںتوان کیلئے ثواب جاریہ کابہترین ذریعہ ہوگا۔ بیت المال کے ذمہ دار ایسے دولت مند ہوں جنہیں خردوبرد کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ زین العابدین صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ تعویذ ، گنڈے وغیرہ ہماری قسمت نہیں بدل سکتے۔ جب تعویذ، گنڈے قسمت نہیں بدل سکتے ہیں تو اولیاء کے وسیلہ سے اور درگاہوں پرحاضری دینے سے قسمت کہاں بدل سکتی ہے؟ یہ دنیادار العمل ہے یہاں عمل کے ذریعہ اپنی قسمت بنانی پڑتی ہے اورانسان کیلئے واحد سہارا اللہ تعالیٰ ہی کاہے۔ مشکلات اورپریشانیوں میںاسی سے راست دعائیں کرنے کی ہدایت دی گئی ہے کام بن گیا تو اللہ کا شکر کرناچاہیے۔ اگرنہ بناتو صبر کرناہے۔ ایمان والوں کے لئے بس یہی ایک راستہ ہے۔ موصوف نے اپنے بیان میںیہ حقیقت بیان کی کہ وہ آج کا صوفی’’ آبابا۔ لابابا۔ جابابا‘‘ پر عمل پیراہے۔ وہ ایسی عینک استعمال کرتاہے جس کا فریم ۲۲ قیراط سونے کا ہوتاہے بیش قیمت پوشاک استعمال کرتاہے۔ کم از کم چارخواتین سے نکاح کرنا ضروری سمجھتا ہے اوربعض بے دین خواتین کوبھی اپنے حرم میں رکھے ہوئے ہے جس کی تحقیق کی جاسکتی ہے۔ کم از کم دس ہزار کی گھڑی استعمال کرتاہے ۔محترم زین العابدین صاحب کااعتراف ‘حقیقت کی صحیح تصویر ہے لیکن نفس پرست لوگوں سے اصلاح کی توقع کرناعبث ہے یہ سب ٹھاٹ بھاٹ عیش وآرام درگاہوں کی آمدنی کانتیجہ ہے ۔ اس لئے اس نظام ہی کوختم کیاجائے جو لوگ اس نظام کے خاتمے کے لئے کوشش کریںگے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس بہت بڑا اجرپائیںگے۔ اپنے بیان میںآپ نے یہ بھی فرمایا’’عام مسلمان اچھی رہنمائی سے محروم ہیں اوراللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے خلاف عمل میں مصروف ہیں۔‘‘ مسلمانوں کی قیادت کے تعلق سے اکثرلوگ یہی شکایت کرتے ہیں۔ لیکن یہ شکایت غلط ہے۔ کیامسلمانوں کی رہنمائی کیلئے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن حکیم موجودنہیں ؟اس کے ساتھ ساتھ اللہ کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کااسوہ حسنہ بھی موجود ہے مگر مسلمان اس طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ مسلمانوں کی اکثریت ایسے لوگوں کواپنا رہنمابناتی ہیں جن کاقرآنی تعلیمات سے دورکابھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے بیانات اور تقاریر میںباربار قرآن اورسیرت رسول کا ذکر کرتے ہیں مگر عملی طورپر اپنے مفاد کے مطابق کام کرتے ہیں۔درگاہوں کی موجودگی نے بھی مسلمانوں کی اکثریت کوقرآن حکیم سے دور کردیالوگوں نے زیارت قبور اور اولیاء کے نام سے نذر ونیاز ہی کو سب کچھ سمجھ لیاہے حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ اسلام کااس سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔ یہ سب بگاڑاور گمراہی کاسبب درگاہی نظام سے ہے جب تک یہ سبب دورنہ کیاجائے اصلاح نہیں ہوسکتی۔

نوٹ:- اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ درگاہی نظام پرتنقیدسے درگاہوں میں مدفون اولیاء کاکوئی تعلق نہیں ہے کسی بھی ولی نے اپنی زندگی میں یہ نہیں کہاکہ لوگو ! ہم تمہارے اوراللہ تعالیٰ کے درمیان وسیلہ ہیں۔ ہماری موت کے بعدبھی ہماری قبر پرآتے رہنا اور عرس منانا۔ جوشخص ایسا کہے وہ اللہ کا ولی ہوہی نہیں سکتا۔ اللہ کا ولی تو وہ ہوتا ہے جواپنی زندگی ہی میں اپنے عجزومحتاجی کااوراللہ تعالیٰ کے قادرمطلق ہونے کاا عتراف کرتاہے۔ جواللہ کے بندوں کواللہ سے جوڑنے کی کوشش میں لگا رہتاہے اللہ کے راستے کی طرف دعوت دیتاہے۔