دینِ فطرت کی پہچان

واپس فہرست مضامین

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان بار بار رحم کرنے والا ہے

 

دینِ فطرت کی پہچان

 

آج کل کے مذہبی پیشواؤں و رہنماؤں کی یہ غلط تحریک کہ تمام مختلف مذاہب حق ہیں، کسی کو کسی پر فوقیت و برتری نہیں۔ محض اس وجہ سے پھیلتی جارہی ہے کیونکہ کہنے والے اور سننے والے‘ انسان کی فطرت سے بالکل واقف نہیں ہیں۔ افسوس کہ ان ناواقفوں میں مسلمان بھی ہیں۔ انسان کی یہ ناواقفیت اس کی عارضی و ابدی تباہی کا سبب توبن سکتی ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ انسانیت ایک ہی ہے، تمام انسانوں کے فطری جذبات و خواہشات ایک ہی ہیں اور سب انسان ایک ہی اللہ کے بندے ہیں۔ اس لئے سب انسانوں کا ایک ہی دین ہونا عقل و فطرت کا تقاضہ ہے۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہر ذرّہ‘ اللہ تعالیٰ کا مطیع و منقاد ہے اور اسی اطاعت و انقیاد کی وجہ سے تمام کائنات کے نظم میں یکسانیت پائی جاتی ہے، جس میں کوئی خلل نہیں ہے۔ نظامِ کائنات کی اس یکسانیت سے انسان کی بقاء و صحتِ جسمانی میں اعتدال و توازن قائم ہے اور اس کی وہ تمام خواہشات‘ بقاء حیات سے جن کا تعلق ہے پوری ہورہی ہیں۔ انسان کی ایک فطری خواہش یہ بھی ہے کہ اس کی زندگی میں اعتدال و توازن قائم رہے یعنی فتنہ و فساد‘ ظلم (حق تلفی) و زیادتی سے محفوظ ہو اور اس کو ایک ابدی اعلیٰ و لازوال زندگی حاصل ہو یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ تمام انسانوں کا ایک ہی دین‘ دین الٰہی (اسلام) ہو۔

دینِ فطرت ‘ فطرت انسانی کا آئینہ ہے اس وجہ سے مشکل نہیں سہل ہے اور سکون بخش بھی۔ اس کے قبول کرنے میں قلبِ انسانی کوئی تنگی اور گرانی محسوس نہیں کرتا نہ اس کے احکام و ہدایات انسانی غیرت و خود داری کے خلاف ہیں اور نہ ایک انسان کو دوسرے انسان کی  غلامی اختیار کرنے پر اور نہ دوسرے انسان کا فقیر و محتاج بن کر رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ دینِ فطرت میں انسان کو اس کی فطری خواہشات کی نشان دہی کی گئی ہے اور صحیح طریقہ سے تمام خواہشات کو پورا کرنے کی تعلیم ہے۔ یہی دینِ فطرت‘ دینِ اسلام‘ دینِ الٰہی کی پہچان ہے۔

انسان میں اُنس و محبت کا جذبہ بھی ہے اور بغض و عداوت کا بھی‘ اطاعت و انقیاد کا جذبہ بھی ہے اور حکومت و فرماں روائی کا بھی‘ اس میں غم و غصّہ بھی ہے اور رحم و کرم بھی‘ حرص بھی ہے اور قناعت بھی دینِ فطرت میں ان سب جذبات کی تربیت ہے تاکہ جذبات کے استعمال کا محل صحیح ہوجائے۔ جس دین میں فنائے جذبات کی تعلیم ہو وہ دینِ فطرت نہیں ہے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ انسان اس دنیا میں ایک بے خوف و حزن‘ امن و سلامتی کی زندگی چاہتا ہے لیکن بہت کم لوگ انسان کی اس چھپی ہوئی خواہش سے واقف ہیں کہ وہ ایک ابدی غیر فانی پُر مسرت زندگی بھی چاہتا ہے اور اس سے بھی ناواقف ہیں کہ انسان میں اپنے خالق و رب سے ملنے اور اس کو دیکھنے کی خواہش بھی ہے۔ دینِ فطرت میں انسان کو ان پوشیدہ فطری خواہشات سے بھی باخبر کیا گیا ہے۔ دینِ فطرت کو قبول کرنے کے بعد جب انسان کے فطری جذبات کی تربیت ہوجاتی ہے تو انسان کی زندگی میں اعتدال و توازن قائم ہوجاتا ہے اور انسان صالح و نیک بنتا جاتا ہے۔ انسان کی یہی صالحیت انسان کے مذکورہ باطنی فطری خواہشات (یعنی ایک ابدی غیر فانی پُر مسرت زندگی اور دیدٔ و لقائے رب) کی تکمیل کا الٰہی ذریعہ ہے جس کے ضمن میں اس دنیاوی زندگی میں بھی امن و سلامتی نصیب ہوتی ہے اور اس زندگی کے کاروبار عدل و احسان کی بنیادوں پر انجام پاتے ہیں اور اس کا جذبۂ حکمرانی نفس کی شرارتوں سے محفوظ ہوجاتا ہے جس کے بعد فتنہ و فساد کا کوئی شائبہ باقی نہیں رہتا۔

دین فطرت میں اس خیال کی گنجائش ہی نہیں کہ دنیا علیحدہ ہے اور دین علیحدہ۔ کیونکہ کھانے‘ پینے‘ رہنے‘  سہنے کی خواہشات‘ جنسی میلانات اور زندگی کے تمام کاروبار‘ تجارت‘ زراعت‘ معاشرت‘ سیاست وغیرہ کو احکام و ہدایات رب کے تحت انجام دینا ہی ’’دین اسلام‘‘ ہے اور اس طرح احکام و ہدایاتِ ربّانی کے مطابق زندگی بسر کرنا ہی اللہ کی عبادت کرنا ہے یعنی اپنی فطری حیثیت‘ بندگیٔ رب پر قائم ہوجانا ہے تاکہ فلاحِ دارین حاصل ہو گویا عبادت‘ راعی اور رعّیت کے تعلق کی طرح بندہ اور اللہ کا ایک دستوری تعلق نہیں ہے بلکہ فطری و حبّی تعلق ہے جس کے قائم ہوجانے کے بعد انسان کی زندگی سرتاپا بندگیٔ رب کی تعریف میں داخل ہوجاتی ہے۔ عبادت کے اس جامع وسیع مفہوم سے ناواقف ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ عبادت کو چند مخصوص اعمال کی حد تک محدود سمجھتے ہیں۔

نیز بندگی کے متعلق یہ سمجھنا کہ وہ بے بسی اور بے چارگی کا نام ہے لغو بات ہے۔ اللہ سے بندگی کا تعلق تو وہ بلند و اعلیٰ نسبت ہے جو انسان کو تمام مخلوق کی غلامی سے آزاد کراکے اس کو ایک بہادر و باہمّت انسان بنادیتی ہے اور یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ دین ایک ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ نے بندوں پر عائد کی ہے، بلکہ دینِ حق‘ دینِ فطرت‘ دینِ اسلام‘ انسانی فطرت کا تقاضہ تھا جس کو اللہ جل شانہ نے اپنے فضل و رحمت سے پورا فرماکر انسان کی حاجت روائی فرمائی اور اس فضل و رحمت پر مسرور و شاداں رہنے کا حکم دیا۔ قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا۝۰ۭ ۝۵۸ (سورہ یونس) ترجمہ: (آپ کہہ دیجئے کہ یہ اللہ کا فضل و رحمت ہے پس لوگوں کو اس پر مسرور ہوجانا چاہئے۔)

دینِ فطرت میں انسان کو عقل و دانش سکھائی گئی ہے۔ انسان کو اس کی اصلاح کے لئے علم و حکمت کی تعلیم دی گئی ہے جو علم برائے عمل ہو، اصلاح عمل کے لئے ہو وہ محض کتابیں پڑھنے سے مفید نہیں ہوتا جب تک اس کو کسی ماہر سے حاصل نہ کیا جائے۔ اسی طرح دینِ فطرت کو سمجھ کر اس پر گامزن ہونے کے لئے بھی کسی دین کے ماہر کی صحبت میں رہ کر تعلیم و تربیت حاصل کرنا ضروری ہے اس کے بغیر قرآنی بصیرت کماحقہ پیدا نہیں ہوتی۔ دین کے ماہر وہی ہوتے ہیں جو قرب و صدیقیت کے مقام پر فائز کئے جاتے ہیں۔ (قرب و صدیقیت کی تشریح کتاب کے آخری حصہ میں ملاحظہ ہو)۔

اس انداز سے سوچنا اور سمجھنا کہ دینِ فطرت‘ دینِ اسلام میں زندگی کے پیچیدہ مسائل کا کیا حل ہے درپردہ اس نقص و خامی کا اظہار ہے کہ سونچنے والوں کے پیش نظر اسی دنیا کا نفع و ضرر ہے جو لوگ اسی طرح سونچتے اور سمجھتے ہیں ان کا طریقۂ دعوت کماحقہ‘ منہاجِ نبوۃ نہیں ہوتا۔ دنیا پرست لوگ‘ دنیاوی اقتدار حاصل کرنے کے لئے جن اشتہاری طریقوں کو ایجاد و اختیار کر کے اپنی تحریکات کو مقبولِ عام بنانے کی کوشش کرتے ہیں یہ لوگ بھی ویسی ہی روش اختیار کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی انقلاب بھی اسی طریقہ سے برپا کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اسی نوعیت کے اخبارات و رسائل کا اجراء‘ افسانہ نویسی‘ تمثیل نگاری‘ ادبی جلسے وغیرہ حالانکہ دینِ فطرت کو سمجھنے اور سمجھانے کا صحیح اندازِ فکر یہ ہے کہ انسانی زندگی کا کیا حقیقی تصور اور انسان کا کیا حقیقی نفع و ضرر‘ دینِ فطرت میں پیش کیا گیا ہے اور ضرر سے بچنے اور زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کے کیا فطری ذرائع بیان کئے گئے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونے کا کیا طریقہ بتلایا گیا ہے جس کو اختیار کئے بغیر کوئی شخص منزل مقصود کو نہیں پہنچ سکتا۔ اسی سلسلہ میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند ضروری باتیں عرض کردوں۔

لفظِ دین جو کتاب و سنت کا لفظ ہے اس کو بدل کر لفظِ تحریک استعمال کرنا اور اس عمل کو جائز قرار دینے کے لئے یہ دلیل پیش کرنا کہ ’’دین کا لفظ اتنا پرانا ہوگیا ہے کہ تعلیم یافتہ افراد اس لفظ کو سن کر اسلام کی طرف متوجہ نہیں ہوتے‘‘ صحیح استدلال نہیں ہے، بگڑی ہوئی ذہنیتوں کی اتباع ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ امتدادِ زمانہ سے کتاب و سنت کے الفاظ کے اصلی مفہوم پر جو پردے پڑجاتے ہیں ان کو چاک کر کے ان الفاظ کا قرآنی مفہوم واضح کیا جائے نہ یہ کہ کتاب و سنت کے الفاظ ہی بدل دیئے جائیں۔ لفظِ دین میں اطاعت و فرمانبرداری اور ابدی جزائے اعمال اور یومِ قیامت کا جو قرآنی مفہوم ہے وہ کسی طرح لفظِ تحریک سے واضح نہیں ہوتا غالباً یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تقریر و تحریر میں اخروی زندگی کو نمایاں کر کے پیش نہیں کیا جاتا اور نہ ابدی نقصان سے ڈرایا جاتا ہے اور نہ اس انداز سے تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ دینِ اسلام کو بگڑی ہوئی ذہنیتوں کے مطابق بناکر پیش کرنا ’’حکمت‘‘ ہے حالانکہ انبیائی قرآنی طریقۂ دعوت یہ ہے کہ بگڑی ہوئی ذہنیتوں کو دینِ فطرت کے مطابق بنانے کی جدوجہد کی جائے۔

تبلیغی و اصلاحی جدوجہد کرنے والوں کا طریقۂ کار مذکورۂ بالا لغزشوں سے بالکل پاک ہونا چاہئے جو لوگ تبلیغی و اصلاحی کام کررہے ہیں دعا ہے کہ ان کی جدوجہد کے کسی پہلو میں کوئی خامی و نقص نہ رہے اور تعلیم و تربیت و دعوت بالکلیہ بطریقِ نبویؐ ہوجائے۔

یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ ایک معلّم فطرت اور کامل نمونۂ بندگی کو سامنے رکھے بغیر طالبِ حق‘ دینِ فطرت کو اختیار کر کے نہ بندگیٔ رب کا شرف حاصل کر سکتا ہے نہ مدارجِ بندگی پر فائز ہوسکتا ہے۔