رحمۃ للعٰلمین

واپس فہرست مضامین

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان بار بار رحم کرنے والا ہے

 

رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلِمِیْنَ

معلم انسانیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم

انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ انسان ہی کو دیکھ کر انسان بنتا ہے۔ انسان بننے کے لئے یعنی بندگیٔ رب کا شرف اور خلافتِ ارض کا منصب حاصل کرنے کے لئے ہدایتِ ربانی کے علاوہ انسانوں کو ایک کامل نمونۂ بندگی اور کامل نمونۂ انسانیت کی ضرورت تھی جو اللہ‘ رحمن و رحیم کے تمام بندوں کے لئے ایک عملی نمونہ ہو ایسی مجسّمِ رحمت و نمونۂ شخصیت کا دنیا میں تشریف لانا اور آنے والی نسلوں کے لئے اس کی حیاتِ طیبہ کے نقوش واضح طور سے قیامت تک دنیا میں محفوظ رہنا انسانوں کی ایک فطری ضرورت ہے تاکہ حق کے پیاسے اسی آبِ حیات سے اپنے گلشنِ حیات کو تروتازہ رکھیں۔ خالقِ انسان نے انسانوں ہی میں سے جس برگزیدہ ہستی کو بندگی و انسانیت کا کامل نمونہ بناکر طالبان حق کا رہبر و ہادی بنایا اور انسان کی فطری ضرورت کو پورا کیا وہ آخری رسول محمد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم ہیں۔

سلام اے آتشیں زنجیر باطل توڑنے والے

سلام اے خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے (حفیظؔ)

آپؐ کی رسالت ایک اتنی اٹل حقیقت ثابت ہوچکی ہے کہ دیگر مذاہب کے اہلِ فکر بھی آپؐ کو اللہ تعالیٰ کا رسول تسلیم کرتے ہیں۔ ہندوستان کے مشہور رہبرِ قوم مسٹر گاندھی بھی آپؐ  کی رسالت کے قائل تھے لیکن یہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ آپؐ صرف ایک ملک و قوم کی ہدایت کے لئے مامور تھے۔ بلالحاظِ نسل و قوم تمام انسانوں کے لئے آپؐ  کو اللہ کا آخری رسول اور ہادیٔ برحق تسلیم کرنا ان کی سمجھ میں نہیں آیا حالانکہ اعلانِ حق ہے۔ قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا (سورہ الاعراف) ترجمہ : (کہیے اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔)

آپؐ قیامت تک تمام انسانوں کے لئے ہادیٔ برحق ہیں

خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت فرمادی کہ مجھ سے پہلے ہر نبی ایک خاص قوم کی ہدایت کے لئے بھیجے جاتے رہے اور میں تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ ’’کان النبی یبعث الی قومہ خاصۃ وبعثت الی الناس عامۃ‘‘ (متفق علیہ) ترجمہ: (ہر نبی خاص قوم کے لئے تھے اور میں تمام انسانوں کے لئے ہوں۔) حدیثِ مسلم کے الفاظ یہ ہیں ’’ارسلت الی الخلق کافۃ‘‘ (مسلم) ترجمہ: (میں تمام خلق (قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی ہدایت) کے لئے بھیجا گیا ہوں۔) ان ارشادات کا واضح مطلب یہی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا لحاظِ رنگ و نسل‘ ملک و قوم‘ تمام بنی نوع انسان کے لئے اللہ کے رسول اور ہادیٔ برحق ہیں اسی وجہ سے یہ بھی اعلان کردیا گیا کہ علماً و عملاً اسی ہادیٔ برحق کی اتباع و اطاعت کے بغیر کوئی انسان آخرت میں بامراد  زندگی نہیں پاسکتا۔ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۵۷ۧ (سورہ الاعراف: 157) ترجمہ: (پس جو لوگ اس نبی (موصوف) پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔) اور یہ بھی اعلان کردیا گیا کہ آپ ہی کی پیروی کرنے سے انسان انتشار و پراگندگی و گمراہی کی گھاٹیوں سے نکل کر امن و سلامتی و ہدایت کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَ۝۱۵۸ (سورہ الاعراف:158) ترجمہ: (اور اُسی (نبیؐ) کی اتباع کرو تاکہ ہدایت پاؤ۔) ایک طرف تو یہ اعلاناتِ حق ہیں دوسری طرف حسب ذیل واقعات ہیں۔

۱)جس جماعت نے آپؐ کو اللہ کا رسول تسلیم کر کے آپؐ کی اتباع و اطاعت میں منازل حیات طئے کئے ہیں، اس میں ہر ملک و قوم و نسل کے انسان شامل تھے، عربی بھی تھے اور حبشی بھی‘ رومی وایرانی بھی تھے اور یہودی و نصرانی بھی۔ محمد رسول اللہ کے بعد آپؐ کے ان ہی متبعین اور جانشینوں کے ذریعہ اسلام زمین کے مختلف گوشوں میں پھیلا۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ تقریباً ہر ملک و قوم و نسل کے انسان‘ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے اور انسانیت کا مقام یعنی بندگیٔ رب کا شرف حاصل کیااور مغفرت و جنت کے مستحق ہوئے۔

۲)آپؐ کی رسالت سے پہلے تمام دنیا کی تاریخ بتلاتی ہے کہ ہر ملک و قوم میں ۱۰۰‘ ۲۰۰‘ ۴۰۰‘ ۵۰۰ سال کے بعد اللہ کی طرف سے رسول‘ نبی جن کو ہندو اپنی زبان میں اوتار کہتے ہیں پیدا ہوتے گئے مگر رسالتِ محمدیہؐ کے بعد سے دنیا کے کسی ملک و قوم میں کوئی رسول نہیں آیا۔

۳)محمد رسول اللہﷺ سے پہلے دنیا میں جتنے بھی انبیاء علیہم السلام پیدا ہوتے رہے آج دنیا کے سامنے نہ اُن کی لائی ہوئی خالص الٰہی تعلیم ہے اور نہ دنیا کے سامنے ان کی زندگیوں کا کوئی نمونہ ہے۔ اس کے برخلاف محمد رسول اللہﷺ پر نازل کی ہوئی الٰہی کتاب آج تک لفظاً و معناً اپنی اصلی زبان و اصلی حالت میں ہے۔ ساڑھے تیرہ سو برس سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ زبان ایک زندہ اور کاروباری زبان ہے اور اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک گوشہ بھی بطور اسوۂ حسنہ محفوظ ہے۔

۴)آج دنیا کے گوشہ گوشہ میں ہر ملک و نسل و قوم میں آپؐ کے نام لیوا‘ آپؐ کے متبعین پھیلے ہوئے ہیں اور دن میں ۵ مرتبہ آپؐ کے رسول اللہ ہونے تمام انسانوں کے لئے ہادیٔ برحق ہونے اور آپؐ کی تعلیم تمام انسانوں کے لئے مؤجبِ صلاح و فلاح ہونے کا اعلان کرتے رہتے ہیں اگر چہ کہنے والوں کی آواز میں وہ ایمانی قوت نہیں ہے۔ مگر دنیا آپؐ کے حقیقی متبعین سے خالی بھی نہیں۔

۵)اس کامل نمونۂ بندگی و انسانیت سے جو لوگ فیض یاب ہوئے انہوں نے دنیا سے گندگی و بہیمیت دور کر کے دنیا کو انسانیت کا جو سبق دیا، دنیا اس کو فراموش نہیں کرسکتی۔ آج اقوام عالم میں انسانیت کے جو کچھ مٹے ہوئے ظاہری آثار پائے جاتے ہیں وہ ان ہی صحابہ کرامؓ کے نقوشِ پا ہیں۔ اگر اقوام عالم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر غور کریں تو اپنے کو ان ہی صحابہ کرامؓ کے احسانات سے گرانبار پائیں گی۔ ان متبعینِ رسالت اور ان کے شاگرد جن کا سلسلہ قرناً بعد قرنِ صدہا برس سے جاری ہے ان کی زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جو پاکیزگی و صالحیت ان کی زندگیوں میں نظر آتی ہے وہ کسی اور غیر اسلامی نظامِ زندگی کی اتباع کرنے والوں میں نظر نہیں آتی آج بھی مسلمان اگر چہ بڑی حد تک علماً و عملاً اتباع و اطاعتِ رسالت کی سعادت سے محروم ہیں لیکن جس حد تک بھی متبع رسالت ہیں اس کا یہ فیض و برکت ہے کہ دیگر اقوام کے افراد کے مقابلہ میں ظلم و حق تلفی‘ سنگ دلی‘ بے رحمی ان میں بہت کم ہے۔ یہ ایک آنہ ظلم و حق تلفی کرتے ہیں تو دیگر اقوام کے افراد سولہ آنے ظلم و بے رحمی پر کمربستہ ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان و حیدرآباد کا حالیہ انقلاب اس حقیقت کا ایک تازہ ثبوت ہے اگر چہ یہ ایک آنہ ظلم و زیادتی و بے رحمی بھی اسلام کے ماننے والوں کے دامن پرایک نہایت ہی بدنما داغ ہے۔

۶)اسلامی دورِ حکومت جس کی مدت ایک ہزار برس سے زیادہ ہے (خلفائے راشدین سے لے کر مغلیہ دورِ حکومت تک) اگر چہ خلفائے راشدین کے دورِ حکومت کی آب و تاب بعد کے زمانہ میں نہیں تھی لیکن اصولاً نظامِ حکومت بڑی حد تک وہی تھا۔ اس کا غور سے مطالبہ کیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ زندگی کے جو مسائل آج کی ترقی یافتہ دنیا کو پریشان کئے ہوئے ہیں مثلاً بے روزگاری‘ معاشی حیرانی و پریشانی‘ مزدور و سرمایہ دار کی کشمکش‘ کساد بازاری‘ نفع اندوزی‘ قحط‘ غلہ کی قلت‘ مساواتِ مرد و زن کا غیر فطری نظریہ‘ جنسی بے روک تعلقات کی معاشرتی تباہ کاریاں‘ ملکی و نسلی طبقہ واری نزاعات‘ جرائم اور انفرادی جھگڑوں کی کثرت وغیرہ جیسے فتنہ و فساد کا اُس دور حکومت میں شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ نیز عرب سے ہسپانیہ تک اور چین و ہندوستان سے افریقہ تک اس سازگارِ فطرت کی فضاء سے زمین معمور دکھائی دیتی ہے جس میں ہر ملک و قوم کے انسان ایک ہی آستانۂ حق پر سرافگندہ پائے جاتے ہیں، ایک ہی رشتۂ اخوت و محبت میں منسلک نظر آتے ہیں، ان میں نہ قومی و ملکی و نسلی امتیازات تھے اور نہ جغرافیائی حدود کی تفریق۔ ایک ہی ہادیٔ برحق کی اتباع و اطاعت کا یہ اثر و فیضِ عام تھا۔

۷)محمد رسول اللہﷺ کو رسول بناکر بھیجنے کا جو مقصد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے وہ ملاحظہ ہو۔

ایک مقصد تو یہ ہے کہ بندوں کو علم و حکمت اور عقل و دانش مندی سکھائی جائے تاکہ بندے اصلی و ابدی خیر و شر کو سمجھیں اور نفس کی شرارتوں سے محفوظ رہ کر پاکیزہ زندگی بسر کریں اور اصلی و ابدی‘ آخرت کی خیر و ابقیٰ زندگی کے مستحق ہوجائیں۔ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۝۰ۭ ۝۱۲۹ۧ (سورہ بقرہ) ترجمہ: (ان کو کتاب اور فہم کی باتیں بتلاتے ہیں اور ان کو پاکیزہ بناتے ہیں۔) اور دوسرا مقصد انسان کو یہ تعلیم دینا کہ کون سے کام اور کون سی چیزیں انسان کی صحت و اخلاق و کردار کے لئے مفید (حلال) ہیں اور کون سے کام اور کون سی چیزیں انسان کی صحت و اخلاق کے لئے مضر (حرام) ہیں اور یہ کہ بادشاہی و مذہبی اقتدار کے نام سے انسانوں نے دوسرے انسانوں کی گردن میں جو غلامی کا طوق ڈال رکھا ہے اس کو نکال کر انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلائی جائے تاکہ ہر انسان اپنی فطری قابلیتوں سے کام لینے کے قابل بنے۔ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ ۝۱۵۷ۧ (سورہ الاعراف) ترجمہ: (اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال بتلاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔) ان اصلاحی مقاصد کو سامنے رکھ کر فطرت انسانی کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ فطرتاً ہر انسان علم و حکمت کا پیاسا ہے اور عقل و دانشمندی کے ساتھ اس دنیا میں پاکیزہ زندگی اور بالآخر ایک ابدی‘ بامراد زندگی کا تمنائی و دلدادہ ہے اور فطرتاً ہر انسان ان ہی چیزوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی عارضی اور ابدی زندگی کے لئے نفع بخش (حلال) ہیں اور ان چیزوں کو ناپسند کرتا ہے جو اس کی عارضی و ابدی زندگی کے لئے مضرت رساں (یعنی حرام) ہیں اور فطرتاً کوئی انسان کسی انسان کی غلامی پسند نہیں کرتا اس سے ظاہر ہے کہ تمام انسانوں کی وہی فطری خواہشات ہیں جو آپؐ کی بعثت تمام انسانوں کے لئے ہادی بناکر بھیجنے کا مقصد ہے۔

۸)نیز آج وہ کس ملک کے لوگ اور وہ کون سی قوم ہے جو غیر فطری راہوں پر چل کر بڑی بڑی ٹھوکریں کھانے کے بعد آپ ہی کی لائی ہوئی تعلیم کو کیا اختیار نہیں کررہی ہے؟ مثلاً

الف:    انسانی مساوات کا پرچار

ب:      دولت کی منصفانہ تقسیم کی تجویزیں

ج:      عورتوں کے لئے وراثت و طلاق کا حق

د:       انسدادِ مسکورات (عورتوں) کے مساعی

ہ:       عقد بیوگان کا جواز

و:       بت پرستی کے خلاف آریہ سماجی جدوجہد

ز:      مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کے قوانین کا نفاذ وغیرہ وغیرہ

کیا یہ سب آپؐ ہی کے لائے ہوئے علم و حکمت کی خوشہ چینی نہیں ہے اور کیا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ آج دنیا میں صرف آپؐ ہی کی لائی ہوئی تعلیم زندہ اور انسان کی صلاح و فلاح کا واحد ذریعہ ہے اور ہر اُس شخص کو جو ابدی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے اس عالم میں ایک پاکیزہ زندگی چاہتا ہے حیاتِ طیبہ کی دعوت دے رہی ہے۔

یہ تمام واقعات اور مذکورہ اعلانِ حق اس بات کے حق ہونے کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپؐ کی لائی ہوئی تعلیم ہر ملک‘ قوم و نسل کے انسان کے لئے یکساں قابلِ قبول ہے اور آپؐ تمام انسانوں کے لئے اللہ کے آخری رسول‘ آخری ہادیٔ برحق ہیں۔ تعصب‘ جہل اور ہٹ دھرمی کے پردوں کو چاک کر کے غور کیا جائے تو اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں۔

’’ھادی‘‘ کا مطلب ہے ’’صراطِ مستقیم‘‘ سیدھی راہ کی نشان دہی کرنے والا اور اس راہ پر لے چلنے والا۔ ’’صراطِ مستقیم‘‘ سیدھی راہ۔ یہ لفظ ہی بتارہا ہے کہ ایک منزل ہے جس پر پہنچنے کی یہ راہِ راست ہے اور وہ منزلِ مقصود وہی ہے جو انسان کی اصلی باطنی خواہش ہے۔ ’’الجنۃ‘‘ ابدی خیر و ابقیٰ زندگی، اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے دعوت دی ہے۔ ’’وَاللّٰہُ یَدْعُوْآ اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ ج‘‘ (سورہ البقرہ:221، یونس:25) ترجمہ: (اللہ تعالیٰ تم کو جنت و مغفرت کی طرف بلاتے ہیں اپنے حکم سے (اور اللہ تعالیٰ تم کو سلامتی کے گھر کی دعوت دیتا ہے))

اہلِ کتاب کے لئے بھی آپؐ کی اتباع و اطاعت لازمی ہے

مسلمانوں میں بھی بعض دینی بصیرت نہ رکھنے والے لوگ یہ فتنہ پھیلا رہے ہیں کہ اہلِ کتاب‘ یہود و نصاریٰ جو ایک نبی کو مانتے ہیں ان کو اپنی صلاح و فلاح کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت ضروری نہیں ہے اور اپنی اس کافرانہ ذہنیت کو قرآن ہی سے ثابت کرنے کی کوش کرتے ہیں شائد قرآن مجید کی ایسی ہی تاویلات کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’تاویل الجاہلین‘‘ فرمایا ہے حالانکہ قرآن مجید میں اہلِ کتاب کو متنبہ کردیا گیا ہے کہ رضائے حق (فلاح آخرت) کے طالب کو نورِ رسالت ہی کے ذریعہ ظلم و جہل کی گھاٹیوں سے نکال کر علم و ہدایت کی روشنی بخشی جائے گی۔ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُـبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۝۰ۥۭ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ۝۱۵ۙ يَّہْدِيْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَيُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِہٖ وَيَہْدِيْہِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝۱۶ (سورہ المائدہ) ترجمہ: (اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارے یہ رسول آئے ہیں کتاب میں سے جن امور کا تم اخفا کرتے ہو ان میں سے بہت سی باتوں کو تمہارے سامنے صاف بیان کردیتے ہیں اور بہت سے امور کو درگذر کردیتے ہیں پس تمہارے پاس رب کی طرف سے ایک روشنی اور واضح کتاب آئی ہے اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو رضائے حق (مغفرت و جنت) کے طالب ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں اور ان کو اپنی توفیق سے (کفر و معصیت کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و اطاعت کے) نور کی طرف لے آتے ہیں اور ان کو (ہمیشہ) راہِ راست پر قائم رکھتے ہیں۔) نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمادیا کہ ’’وَلَوْ کَانَ مُوْسٰی حیًاما وسعہ الا اتباعی‘‘ (احمد و بیہقی) ترجمہ: (اب اگر موسیٰؑ بھی ہوتے تو میری اتباع کرتے۔) تو اس کے بعد ایسے باطل خیالات جہل مرکب نہیں تو اور کیا ہیں۔ کاش یہ لوگ صحیح دانش و بینش حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایمان بالرسالت‘ اتباع و اطاعت رسالتِ محمدیہؐ  ایمان باللہ کا ایک ایسا ضروری جز ہے کہ اس کے بغیر ایمان باللہ ایک لایعنی بات ہے اور ایمان باللہ کا ادعا ایک فریب نفس!

ختم نبوت

بعض دنیا پرست نام نہاد مذبی پیشوا ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں اور ظلی و بروزی (نبی کی اجازت سے نبی بننا) نبوت کے نام سے اپنے نبی ہونے کا اعلان کر کے لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا جو قرآنی اعلان ہے اس کی تشریح خود رسول اللہﷺ ہی نے فرمادی ہے کہ سلسلہ نبوت مجھ پر ختم کردیا گیا۔ ’’ختم بی النبیون‘‘ (مسلم)۔ اور اپنا ایک نامِ مبارک ’’العاقب‘‘ فرماکر یہ وضاحت کردی کہ ’’والعاقب الذی لیس بعدہ نبی‘‘ (متفق علیہ)۔ اور یہ بھی خبر دے دی کہ آپؐ کے بعد نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہوں گے۔ ’’وانہٗ سیکون فی امّتی کذّابون ثلٰثون کلّھم یزعم انہٗ نبی اللہ واناخٓتم النّبیّن لا نبی بعدی‘‘ (الی آخرہ) (ابی داؤد و ترمذی) ترجمہ: (اور قریب ہے کہ میری امت میں تیس (۳۰) جھوٹے نبوت کے دعویدار پیدا ہوں گے اور حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔) ان مسلمانوں کی دینی ناواقفیت اور بے سمجھی پر افسوس ہوتا ہے جو ایسے دجّال و کاذب مدعیان نبوت کا ساتھ دے رہے ہیں اور قصبۂ قادیان کو مثل مدینہ منورہ سمجھتے ہیں۔

ایمان بالرسالت دینِ فطرت کا بنیادی عقیدہ ہے

محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لانا دین کا ایک بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ اہلِ باطل ہوں‘ کہ حق کے پیاسے‘ سب کے سامنے اولاً یہی صداقت پیش کی جائے گی۔ باطل اپنی پوری مخالفانہ قوت یہیں صرف کرے گا۔ حق و باطل کا یہ اوّلین معرکہ ہے اور معرکۂ حق و باطل کا یہی پہلا مورچہ ہے۔ حق کا کامیاب قدم اسی مورچہ سے آگے بڑھتا ہے اور آگے ہی بڑھتا چلاجاتا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ افہام و تفہیم کا انداز کلامی نہ ہو بلکہ قرآنی فطری ہو اس طرح جب رسالتِ محمدیہؐ  کی صداقت سمجھ میں آجاتی اور تسلیم کرلی جاتی ہے یعنی یہ مان لینے کے بعد کہ محمد رسول اللہﷺ، اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ  کو اپنے تمام بندوں کی صلاح و فلاح کے لئے مامور فرمایا ہے اور مامور من اللہ کی جو بصیرت‘ ہدایت و نصیحت و روش ہوتی ہے وہ چونکہ اللہ علیم و خبیر کی طرف سے ہوتی ہے اس لئے بحث و حجت‘ شک و ریب‘ چون و چرا کے تمام دروازے بند ہوجاتے ہیں اور بہ ذوق و شوق ’’سمعنا واطعنا‘‘ کا جذبہ ابھر آتا ہے۔ یہ سمع و اطاعت جوں جوں صحیح ہوتی جاتی ہے ایمان و یقین بھی پختہ ہوتا جاتا ہے۔ جزائے اعمال کے متعلق جو امور غیبیہ ہیں وہ کالمشاہدہ ہوتے جاتے ہیں اور یہ حقیقت سمجھ میں آجانے کے بعد کہ انسان کی اصلی زندگی بعد الموت کی زندگی ہے اور وہیں کا نفع اصلی نفع اور وہیں کا ضرر اصلی ضرر ہے۔ خشیتِ الٰہی و حبِّ الٰہی بڑھتی جاتی ہے۔ نفس کا تزکیہ اور طمانیتِ نفس کا مقام عطا کیا جاتا ہے۔ حق تعالیٰ کی رحمانیت و ربوبیت کھلتی جاتی ہے۔ بندگی کے منازل طے کرائے جاتے ہیں۔ خلافتِ ارضی کی قابلیت اجاگر کی جاتی ہے۔ آیاتِ قرآنی کے صحیح مطالب پر آگاہی بخشی جاتی ہے اور کلامِ الٰہی سے منشاء (مرادِ) الٰہی روشناس ہوتا ہے۔ وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۝۰ۭ ۝۶۹ۧ (العنکبوت) ترجمہ: (جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کو اپنی راہیں دکھلاتے ہیں۔)

ایمان بالرسالت کا مفہوم

غرض یہ کہ ایمان بالرسالت کا مفہوم جتنا صحیح ہوگا دین و ایمان اتنا ہی قوی اور مستحکم ہوگا۔ آپؐ ہی کے ارشاد سے ظاہر ہے کہ ایمان بالرسالت کے تین اجزاء ہیں۔ (۱) ’’لا یؤمن احدکم حتّٰی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ‘‘ (حدیث شرح السنتہ) ترجمہ: (تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہشات نفس میری شریعت کے تابع نہ ہوجائیں۔) یعنی ایک جزء تو یہ ہے کہ ایمان بالرسالت صحیح نہ ہوگا جب تک خواہشاتِ نفسانی آپ کی شریعت کے تابع نہ ہوجائیں۔ (۲) ’’لا یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من ولدہٖ ووالدہٖ والناس اجمعین‘‘ (متفق علیہ) ترجمہ: (تم میں کوئی مؤمن نہیں ہوتا جب تک میں اس کے باپ اور اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔) دوسرا جزء یہ ہے کہ آپؐ جان و مال‘ آل و اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہوجائیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جان و مال‘ آل و اولاد کی محبت بہرحال اور بہرصورت‘ اتباع و اطاعتِ رسالت سے نہ روکے۔ (۳) ’’من رغب عن سنتی فلیس مِنّی‘‘ ترجمہ: (جو میری سنت سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں۔) تیسرا جزء یہ ہے کہ ہدایت کے مدارج حاصل کرنے کے تمام طریقے سنت کے مطابق ہوں کوئی عمل غیر مسنون نہ ہو۔ سورہ اعراف کی آیت ذیل سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ جان و مال سے آپؐ کی حمایت و نصرت پر آمادہ رہنا اور آپؐ کی تعلیم‘ آپؐ کی سنت پر کماحقہٗ عمل کرنا ایمان بالرسالت کے لازمی اجزاء ہیں۔ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۵۷ۧ (سورہ الاعراف) ترجمہ: (پس جو لوگ ان (نبی موصوف) پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور اُن کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔) ایمان بالرسالت سے اگر اپنے علم و عمل کی اصلاح اسوۂ حسنہ کی پیروی‘ اپنے حلقۂ اثر اور اپنے حدود امکانی میں اللہ اور رسولؐ کے احکام اور ہدایت کو جاری کرنے کا والہانہ و ہمدردانہ جذبہ پیدا نہیں ہوا ہے تو جان لینا چاہئے کہ محض زبان سے آپؐ کے رسول اللہ ہونے کا اقرار کرلینا اور دانش و بینش و روش کی اصلاح نہ کرنا‘ من مانی زندگی بسر کرنا غیر اقوام کے غیر فطری افکار و روش کی اتباع کرنا اور پھر یہ سمجھ رکھنا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں‘ ایمان نہیں نفاق ہے۔ وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۝۰ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ۝۴۷ (سورہ النور) ترجمہ: (اور یہ (منافق) لوگ (زبان سے) دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لے آئے اور (اللہ و رسول کا) حکم (دل سے) مانا پھر اس کے بعد (موقع ظہور صدق دعویٰ پر) ان میں کا ایک گروہ سرتابی کرتا ہے اور یہ لوگ (دل میں) اصلاً ایمان نہیں رکھتے۔) یہ آیت اگر چہ منافقین سے متعلق ہے مگر ایمان کو پرکھنے کی اچھی کسوٹی ہے۔ الحاصل رسالت محمدیہؐ پر سمجھ کر ایمان لائے بغیر اور کماحقہٗ آپ کے اسوۂ حسنہ کی اتباع و اطاعت کئے بغیر انسان جو محتاجِ رحمت ہے وہ رحمتِ حق کا مستحق نہیں بن سکتا۔ محتاجِ رحمت کو مستحقِ رحمت بننے ہی کے لئے آپؐ کو ’’رَحْمَۃً لِّـلْعٰلَمِیْنَ‘‘ بناکر بھیجا گیا۔ ’’وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّـلْعٰـلَمِیْنَ‘‘ (الانبیاء:107)۔ ترجمہ: (اے نبیؐ، ہم نے تو آپؐ کو تمام دنیا والوں (قیامت تک آنے والے تمام انسانوں) کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے) اس عالم میں حق تعالیٰ کی رحمتِ خاصّہ یہ ہے کہ انسان جو اللہ کا بندہ ہے اس کی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام و ہدایات کے مطابق بسر ہو کیونکہ اسی اطاعت و فرمانبرداری کا بدل وہ خیر و ابقیٰ زندگی اور اس کے مدارج ہیں جس کا قرآنی نام ’’الجنۃ‘‘ ہے اور جو انسان کی ایک اصلی باطنی فطری خواہش ہے۔ آج دنیا اس حقیقت سے گریز و اعراض کرنے کا نتیجہ بھگت رہی ہے جو ایک ادنیٰ نمونہ ہے۔ اس ابدی عذابِ آخرت کا جس سے خبردار کردیا گیا ہے۔ اِنَّ اللہَ لَعَنَ الْكٰفِرِيْنَ وَاَعَدَّ لَہُمْ سَعِيْرًا۝۶۴ۙ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝۰ۚ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا۝۶۵ۚ (سورہ الاحزاب) ترجمہ: (حق تعالیٰ نے حقیقت سے انکار کرنے والوں کو اپنی رحمت سے محروم فرمادیا ہے ان کے لئے جہنم تیار کیا ہے۔ اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور نہ کوئی حامی ہوگا اور نہ کسی طرح سے مدد کئے جائیں گے۔) ایک طرف تو یہ نادانی و جہالت اور غفلت و لاپرواہی دوسری طرف اتنا غلو کہ آپؐ کو عینُ اللہ سمجھنے کا عقیدہ امت میں پیدا کردیا گیا۔ بطور نمونہ ملاحظہ ہو۔

۱)باتیں ہیں باطل یہ دو احمد بے میم کو      غیرِ خدا جانا عینِ بشر دیکھتا

احمدؐ بے میم کا مطلب یہ کہ رسول اللہؐ احد یعنی اللہ ہیں۔

۲)حق محمدؐ ہے اور محمدؐ حق        دیکھو قرآن میں یہ بیان آیا

۳)اسم پاک اُس کا محمدؐ  مصطفیٰ رکھا بشوق                  اور مسمیٰ اس کا بے ریب و گمان تو ہی تو تھا

۴)ظاہر میں محمدؐ ہے تو باطن میں خدا ہے

۵)ظاہر میں دیکھ بندہ باطن میں جان اللہ

تمام وحدۃ الوجود کے مروجہ افکار کی غلط کاریاں ہیں۔ ایسی باتیں حسبِ ارشاد پیغمبر علیہ السلام ’’تحریف الغالین‘‘ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دین میں غلو کرنے والے حقیقت کو بدل دیتے ہیں۔ جیسا کہ نصاریٰ نے حضرت عیسیٰؑ کے متعلق عقیدہ پیدا کرلیا تھا اور یہ کلمہ کفر کہتے تھے۔ اِنَّ اللہَ ہُوَالْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ۝۰ۭ ۝۱۷ (سورہ مائدہ) ترجمہ: (اللہ ہی عیسیٰؑ ابن مریم ہیں۔) عام طریقۂ ولادت کے خلاف عیسیٰؑ کی پیدائش اور احیاء موتیٰ اور مٹی کے پرندے بناکر ان میں جان ڈالنا وغیرہ جیسے معجزات دیکھ کر نصاریٰ عیسیٰؑ کے متعلق مذکورہ بد اعتقادی میں مبتلا ہوگئے تھے، حالانکہ عیسیٰؑ اپنی امت کو ایسی گمراہی سے بچانے کے لئے یہ احتیاط فرماتے تھے کہ جب کبھی آپؑ سے معجزہ کا ظہور ہوتا تو فوراً فرمادیتے ’’انی عبداللہ و رسولہ‘‘ ترجمہ: (میں اللہ ہی کا بندہ اور رسول ہوں)۔ ہمارے رسولؐ نے بھی یہ تاکید فرمادی کہ مجھے حد سے آگے نہ بڑھادو جیسے نصاریٰ‘ عیسیٰؑ کو بڑھاکر گمراہ ہوئے (زرین کتاب المدح عن ابن عباسؓ)۔ چونکہ پچھلی امتیں اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں الوہیّت ثابت کر کے یعنی ان کو عین اللہ اور ابن اللہ سمجھ کر گمراہ ہوچکی تھیں اس لئے محمدﷺ کے ’’عبداللہ‘‘ ہونے کی تصدیق داخل ایمان کردی گئی۔ (اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ) مگر وائے برحالِ ماکہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں ہی کو نہیں بلکہ ہر فردِ خلق کو عین اللہ کہہ کر یعنی ہر صورتِ خلق میں اللہ تعالیٰ کو موجود و ظاہر ثابت کر کے گمراہی کا دروازہ کھول دیا۔ تیسری طرف یہ گستاخی کہ آپؐ کو اپنے ہی جیسا ایک انسان سمجھ کر آدابِ نبوت‘ وقار نبوت اور حُبّ و اتباعِ نبوت سے رو گرداں ہیں۔

قرآنی بصیرت یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے ہیں، بشر ہیں قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۝۱۱۰ۧ (سورہ الکہف) ترجمہ: ((اے محمدؐ) کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا۔) چونکہ سنتِ الٰہی یہی ہے کہ انسانوں کی تعلیم و تربیت انسانوں ہی کے ذریعہ کی جاتی ہے اس لئے تمام انسانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے انسانوں ہی میں سے رسولوں کو منتخب فرمایا۔ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ ۝۱۶۴ (سورہ اٰل عمران)۔ آپؐ تمام انسانوں کے لئے ’’ دَاعِيًا اِلَى اللہِ ‘‘ و ’’ سِرَاجًا مُّنِيْرًا ‘‘ ہیں۔ وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِـاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا۝۴۶ (سورہ الاحزاب) جس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ کے لائے ہوئے نورِ ہدایت اور آپؐ کے اسوۂ حسنہ کی روشنی سے اپنی شمع حیات کو روشن کئے بغیر کوئی شخص اپنی زندگی اور دل و دماغ کے تاریک گوشوں کو نورانی نہیں بناسکتا اور مغفرتِ الٰہی ’’الجنۃ‘‘ کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ تمام انبیاء علیہم السلام ایک ایک قوم کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمائے گئے ہیں، اس لئے آپؐ رحمت اللعلمین ہیں۔ وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّـلْعٰـلَمِیْنَ (سورہ النساء: 79-80، الانبیاء: 107، السبا: 28) ترجمہ: (اور ہم نے آپ کو تمام جہاں والوں کے لئے ہی رحمت بناکر بھیجا ہے۔) جیسا کہ ابن عباسؓ کی روایت سے ثابت ہے کہ ’’قالوا وما فضلہ علی الانبیاء قال: قال اللہ تعالیٰ وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لھم فیضَ اللہ من یشاء الایۃ وقال اللہ تعالیٰ لمحمد صلی اللہ علیہ وسلم وما ارسلنک الاکافۃ للناس فارسلہ الی الانس‘‘ (الدرامی) لوگوں نے عباسؓ سے پوچھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں پر کیا فضیلت ہے تو ابن عباس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے پہلے جو رسول بھیجے وہ اسی قوم کی زبان میں تاکہ وہ اسی قوم کو ہدایت (کھول کر بیان) کرے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ کا قرآن میں ارشاد ہے کہ ہم نے آپؐ کو تمام لوگوں کے لئے نبی بناکر بھیجا تو آپ سب انسانوں کے لئے (قیامت تک) نبی اور آخری رسول ہیں۔ آپ کے قلب مبارک میں تمام انسانوں کی حقیقی خیر خواہی و ہمدردی کا جذبہ مؤجزن تھا۔ ’’حریصٗ علیکم‘‘ یعنی آپؐ چاہتے تھے کہ تمام انسان آستانۂ حق پر سرافگندہ ہوجائیں تاکہ دنیا میں ان کو حیاتِ طیبہ اور آخرت میں خیر و ابقیٰ زندگی عطا ہو۔ آپؐ اپنی امّت‘ اہلِ ایمان کے لئے ’’رؤف و رحیم‘‘ تھے، ’’بالمؤمنین رؤف رحیم‘‘ رؤفیت و رحیمیت ملاحظہ ہو، امت کی تسکین و اطمینان کے لئے دنیا کی وہ کون سی تکلیف ہے جو بطیبِ خاطر برداشت نہیں فرمائی، فقر و فاقہ کیا، اپنے اور غیروں کے طعن و طنز سنے، تحقیر و تذلل گوارا کی، چہیتی بیوی و اولاد اور دوستوں کی جدائی پر صبر کیا، جسمانی آزار برداشت کئے، فقیرانہ زندگی پسند کی، کیا یہ سب اسی لئے نہیں کیا کہ امت کے افراد اپنے ہر دکھ و درد کا درماں حکمت خانۂ رسالت سے پاکر تسکین اور صبر و رضا کا مقام حاصل کریں۔ رؤفیّت و رحیمیت کا دوسرا رخ یہ ہے کہ آپؐ کی تمنا یہی تھی کہ آپ کی امت عذابِ آخرت سے محفوظ رہے اور زیادہ سے زیادہ جنت و درجاتِ جنت حاصل کرے۔ ہر موقع و محل پر اپنی زاہدانہ و مجاہدانہ زندگی سے آپؐ یہی سبق دیتے تھے۔ امت کیوں نہ اس ذاتِ گرامی پر اپنا سب کچھ قربان کرے جس ذاتِ اقدس نے امت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔

اَللّٰھُمَّ صلی علٰی مُحمّدٍ بِعدد جمیعِ خلقِکَ

ظاہراً و باطناً آپ کی اتباع و اطاعت کا والہانہ جذبہ آپ کی محبت‘ عظمت و توقیر اور آپ سے وابستگی پر عزّ و ناز و مسرت جس دل میں نہ ہو وہ دل ایمان سے خالی، آپؐ کا ذکرِ جمیل جس مجلس میں نہ ہو وہاں خیر و برکت بھی نہیں ہے، آپؐ کے اسوۂ حسنہ کی جھلک جس فکر و عمل میں نہ ہو وہ مقبولِ حق نہیں۔

حُبِّ نبیؐ اور صحابہ کرامؓ کی روش

حُبِّ نبیؐ، حُبِّ الٰہی کا لازمی نتیجہ ہے اور بڑی نعمت الٰہی ہے۔ بقول حفیظؔ جالندھری

محمدؐ کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے   اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

اس کے بغیر نہ ایمان میں لذت ہے نہ کیف و سرور‘ یہ نہ ہو تو دین و ایمان جسدِ بے جان۔ وہ بندۂ حق نہیں جو شمعِ نبوتؐ کا پروانہ نہیں۔ یہ وہ شراب ہے جس میں نشہ نہیں، بیداری ہے جس میں ہوش و حواس گم نہیں ہوتے بلکہ تیز ہوجاتے ہیں۔ اس شرابِ محبت کے متوالے‘ صحابہ کرامؓ تھے، پی اور خوب پی اور ہم کو بھی پینے کا طریقہ بتلاگئے۔ جہاں آپؐ کا پسینہ ٹپکا وہاں اپنا خون بہادیا۔ آپؐ کے اشاروں پر اٹھنا‘ بیٹھنا‘ جینا‘ مرنا جس سے آپؐ ناراض اس سے وہ بھی ناراض، جس سے آپؐ خوش اس ے وہ بھی خوش، جس کو آپؐ کا مخالف دیکھنا اس کے دشمن ہوجانا، آپؐؐ کی سیرتِ طیبہ کے سانچہ میں اپنی سیرت کو ڈھالنا، آپؐ کی طرح حق کی بقاء و اشاعت میں بطیبِ خاطر‘ بہ ذوق و شوق جان و مال کا نقصان برداشت کرتے رہنا آپؐ کی سنتوں پر بلا لحاظ لومۃ لائم سختی سے عمل کرنا‘ بھائی‘ بیٹا‘ عزیز‘ دوست اگر خلافِ سنت عمل کرتے تو ان سے ناراض ہوجانا، ان اصحابؓ نے میلاد مبارک و آثار مبارک کے نام سے آپؐ کے یادگاری جلسے منعقد کر کے اور آپؐ کی مدح سرائی کے نغمے گاگا کر آپؐ کی یاد کبھی نہیں منائی وہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ آپؐ کے نقشِ قدم پر چلنا ہی آپؐ  کی یاد منانا ہے وہ آپؐ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کے سوا کسی اور کام کو کار ثواب نہیں سمجھتے تھے۔ اپنے ظاہر و باطن میں آپؐ کی کماحقہٗ اتباع و اطاعت وہ اپنے لئے موجبِ عزّ و ناز سمجھتے تھے اور صرف آپؐ کی اتباع و اطاعت ہی کو عنداللہ وسیلہ (قربِ الٰہی) جانتے تھے۔ اس کے سوا وسیلے کا اور کوئی ایسا مفہوم نہیں رکھتے تھے۔ جیسا کہ بالعموم آج امت میں رائج ہے۔ آپؐ کے نقش قدم کو وہ جنت کا واحد نشان سمجھتے تھے۔ جیسا کہ غالبؔ نے کہا:

جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں        خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

ان اصحابؓ کے حقیقی مؤمن ہونے کی علامت یہی تھی کہ وہ ارم ’’الجنۃ‘‘ آخرت کی ’’خیر و ابقیٰ‘‘ اعلیٰ و لازوال زندگی کے طالب و حریص تھے، ان کی مجاہدانہ زندگیوں میں یہ طلب و حرص نمایاں نظر آتی ہے۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًا۝۲۱ۭ (سورہ الاحزاب) ترجمہ: (بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تمہارے لئے ایک بہترین نمونے ہے ( کہ کس طرح اللہ کے رسولؐ اللہ کی راہ میں جان و مال کی بازی لگانے کے لئے ہر وقت کمربستہ رہتے ہیں) ہر اُس شخص کے لئے (نمونہ ہیں) جو اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر کئے جانے اور قیامت کے دن کا یقین کرتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔) نیز ان کا جذبۂ حُبِّ نبیؐ اس ارشاد کے تابع تھا۔ ’’من احب سنتی فقد احبنی‘‘ (حدیث) ترجمہ: (جس نے میری سنت کو دوست رکھا اس نے مجھ کو دوست رکھا۔)

اس طرح حُبِّ نبیؐ سے سرشار ہوکر وہ صحابہ کرامؓ  شہادتِ حق ادا کرتے تھے۔ یعنی یہ اعلان کرتے تھے کہ محمد رسول اللہﷺ تمام انسانوں کے لئے ہادیٔ برحق ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح دانش و بینش اور تمام (جمیع) صحابہ کرامؓ کی طرح یہ شرابِ مطہرّہ پینا پلانا نصیب کرے۔ آمین ثم آمین