شب قدر کی حقیقت

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

شبِ قدر کی حقیقت

 

حٰـمۗ۝۱ۚۛ ( حروف مقطعات)  وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ۝۲  ( ہدایت و گمراہی کی ہر بات کھول کر بیان کرنے والی کتاب کی قسم) اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ۝۳ (بیشک ہم ہی نے اس کو مبارک رات میں نازل کرنا شروع کیا ۔  بیشک ہم ہی ڈرانے والے ہیں۔  ( تم کو تمہارے نقصان سے خبردار کرنا ہمارے ہی ذمہ ہے)  فِيْہَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ۝۴ۙ (دخان) اس (رات میں نہیں بلکہ کتاب) میں حکمت کی ہر بات ہے ( چونکہ قسم کتاب کی کھائی گئی اور کتاب ہی میں بات لکھی ہوتی ہے رات میں نہیں ۔ اس لئے ہا کی ضمیر سے مراد رات نہیں بلکہ کتاب ہی ہونا صحیح ہے۔)

امر حکیم سے مراد اولاد ، رزق ، عمر کے فیصلے نہیں کیونکہ ان باتوں کا فیصلہ پیدائش کے وقت ہی کر دیا جاتا ہے (عبس:۱۹) اس لئے امر حکیم سے مراد اوامر و نواہی ہیں ۔ جن کا ذکر سورہ بنی اسرائیل آیت ۲۲ تا ۳۹ لقمان آیات ۱۲ تا ۱۹ اور سورہ البقرہ آیات ۲۲۱ تا ۲۴۲ ہے۔سورہ مائدہ آیت ۴۴ میں توریت کے لئے بھی ’’ھا ‘‘ کی ضمیر استعمال ہوئی ہے ۔ تفسیرسبحانی میں ’’ھا‘‘سے مراد کتاب ہی لی گئی ہے رات نہیں ۔

لیلۃ مبٰرکۃ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس میں فی الواقعی کوئی برکت ہے؟ یا محض نزول قرآن کا آغاز ہونے کی بناء پر اس کو مبارک کہا گیا ہے چنانچہ ابوالکلا م آزاد لکھتے ہیں ’’پھرآہ  !  تمہاری غفلت کیسی شدید اور تمہاری گمراہی کیسی ماتم انگیز ہے کہ  لیلۃ القدر کو ڈھونڈتے ہو پر اُس کو نہیں ڈھونڈتے جو لیلۃ القدر میں آیاجس کے ورود سے اس رات کی قدر ومنزلت بڑھی، اگر تم اُسے پالوتو تمہارے لئے ہررات لیلۃ القدر ہے ’’ہر شب شبِ قدر است اگر قدر بدانی‘‘۔ ( اخبار دعوت)

’’معلوم ہوا کہ سبب فضیلت اور وجہ فضیلت قرآن ہے دوسرے اعتبار سے بھی قرآن اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے، بر خلاف اس کے رمضان کا مہینہ اور قدر والی رات مخلوق ہے، مخلوق پر غیر مخلوق کو جو کلام ربانی اور صفت رحمانی ہے، فضیلت ہونی چاہئے‘‘. (ماہنامہ البیان) نبوت کے ۱۳ ویں سال مکے میں نازل ہونے والی سورتوں میں سورہ دخان ۷۳ ویں سورۃ ہے اس طرح ثابت ہوا کہ اس سے پہلے بارہ سال تک مبارک رات کے فیض سے صحابہ ؓمحروم ہی رہے۔

سورہ انعام آیت ۹۲ اور آیت ۱۵۵ اور سورہ ص آیت ۲۹ میں قرآن کو اور سورہ ق آیت ۹ میں پانی کو مبارک کہا گیا ہے اور سورہ حم السجدہ آیت ۱۰ میں زمین میں برکت رکھی گئی ہے فرمایا گیاہے۔مندرجہ بالا چیزوں کو جس وجہ سے مبارک کہا گیا ہے وہ محتاج بیان نہیں ۔

قانون الٰہی کے رو سے سال کے بارہ مہینے ہیں ( سورہ توبہ:۳۶) جن میں سے کوئی بھی مہینہ مبارک ہے اور نہ منحوس بلکہ اپنی نوعیت میں یکساں و برابر ہیں۔ یہ وقت کی اکائیاں ہیں جس طرح روپئے میں سو (۱۰۰) پیسے ہوتے ہیں ان پیسوں میں سے نہ کوئی منحوس ہوتا ہے اور نہ کوئی مبارک ، اسی طرح کسی ماہ یا دن یا رات میں کوئی اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری کر کے بخشش و جنت کا مستحق بنتا ہے اور کوئی اس میں رب کی نافرمانی کر کے عذاب کا مستحق بنتا ہے ۔ اس لئے رات یا دن یا مہینہ میں نحوست و برکت کی بات قرآن کے بالکل خلاف ہے۔

سب سے اہم و بنیادی بات یہ ہے کہ ہر قسم کی برکت و سلامتی کا تنہا مالک صرف اللہ ہی ہے اسی کے ہاتھ میں تمام برکت و سلامتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا : تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِہِ الْمُلْكُ (الملک:۱) بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں پوری کائنات کی مکمل حکومت ہے اور سورہ اعراف میں تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۝۵۴ ۔بہت برکت والا ہے اللہ تمام عالموں کا تنہا پروردگار ۔ یہی بات سورہ مومن ۶۴ اور زخرف ۸۵ میں بھی فرمائی گئی ہے اور سورہ الفرقان آیت ۱، ۱۰ اور ۶۱ میں بھی برکت کا مالک صرف اللہ ہی ہے فرمایا گیا، سورہ مومنون آیت ۱۴ میں فرمایا گیا( پس ! بہت برکت والا ہے اللہ جو بہترین پیدا کرنے والا ہے)برکت کا قانون سورہ مائدہ ۶۶ سورہ اعراف ۹۶ میں فرمایا گیا کہ برکت رات دن و ماہ میں نہیں بلکہ احکام الٰہی پر عمل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃِ الْقَدْرِ۝۱ۚۖ ( بیشک ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے) وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۝۲ۭ ( تم کیا جانو کہ شب قدر کیا چیز ہے)  لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۝۰ۥۙ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۝۳ۭ (قدرکی رات کہ بہتر ہے ہزار مہینے سے)  تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَالرُّوْحُ فِيْہَا بِـاِذْنِ رَبِّہِمْ۝۰ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ۝۴ۙۛ فرشتے اور روح ( جبرائیل علیہ السلام ) اس میں اپنے پرور دگار کے حکم سے ہر امر لے کر اترتے ہیں)    سَلٰمٌ۝۰ۣۛ ہِيَ حَتّٰى مَطْلَــعِ الْفَجْرِ۝۵ۧ ( القدر) (سلامتی ہے وہ طلوع فجر تک) ۔

شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے کایہ مطلب لینا کہ اس رات میں کئے ہوئے عمل کا بدلہ ۸۳ سال چار مہینوں میں کئے ہوئے اعمال کے برابر ملتا ہے قرآن کے خلاف اور محض قیاسی بات ہے اگر یہ قانون ہوتا تو اس رات میں نافرمانی کرنے والوں کو ۸۳ سال چار مہینوں میں نافرمانی کرنے کے برابر عذاب ملنا چاہئے ۔ حالانکہ نافرمانی کرنے کابدل  جَزَاۗءُ سَـيِّئَۃٍ   بِمِثْلِہَا برائی کا بدلہ ماننداسی کے ہے ۔ (یونس:۲۷ ، انعام : ۱۶۰ ) اور بدنی نیکی کے بدلے کا قانون دس گنا ( انعام : ۱۶۰) اور مالی نیکی کے بدلے کا قانون (۷۰۰) گنا سورہ البقرہ :۲۶۱ چنانچہ ہزار مہینوں سے بہتر کے متعلق ابوالاعلی مودودیؒ لکھتے ہیں’’لیکن آیت کے الفاظ یہ نہیں ہے کہ شب قدر میں عمل کرنا ہزار مہینوں میں عمل کرنے سے بہتر ہے بلکہ فرمایا گیا کہ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اور ہزار مہینوں سے مراد بھی گنے ہوئے ۸۳ سال ۴ مہینے نہیں بلکہ عرب کا قاعدہ تھا کہ کثیر تعداد کا تصور دلانے کے لئے وہ ہزار کا لفط بولتے تھے ، اس لئے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک رات میں خیر و بھلائی کا اتنا بڑا کام ہوا کہ کبھی انسانی تاریخ کے کسی طویل زمانے میں بھی ایسا کام نہ ہوا تھا۔ ( تفہیم القرآن ، جلد:۶)

مِنْ کُلِّ اَمْرٍ سے مراد  مِنْ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ۝۴ (دخان) ہے یعنی صرف اوامر و نواہی  مراد ہیں اس سورہ کی آیت ۵ کے  لفظ  سَلٰمٌ کا تعلق رات سے جوڑا گیا ہے جو قرآن کے خلاف ہے کیونکہ قرآن سے ثابت ہے کہ رات نہ تو منحوس ہوتی ہے اور نہ برکت کی اس لئے سَلٰمٌ دراصل من کل امر کی صفت ہے یہ بات تفسیر مظہری میںموجود ہے ۔ ابوالاعلی مودودیؒ لکھتے ہیں ’’اس سورۃ کا مضمون و موضوع انسان کو قرآن کی قدر و قیمت اور اہمیت سے آگاہ کرنا ہے‘‘۔  ( تفہیم القرآن ج:۱)

مندرجہ بالا دونوں سورتوں میں نزولِ قرآن کا آغاز کس طرح ہوا ہے بیان کیا گیا ہے یہ پندرہ سو سال پہلے کے وقت کی باتیں ہیں۔ اس لئے یہ آیات متشابہات ہیں اسی لئے ان آیات کو زمانہ حال پر لاگو کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ آیات متشابہات کا صحیح مطلب اللہ کے سواء کوئی بھی نہیں جانتا اسی لئے ان آیات کا ایسا مطلب لینا جو قوانین قدرت کے خلاف ہے دل کا ٹیڑھا پن ہے فرمایا گیا ہے ( ال عمران:۷) نہایت افسوس و ماتم کا مقام ہے کہ قرآن کے نزول سے یہ رات مبارک و قدر کی کہلائی گئی ۔ لیکن مسلمان اس رات کو اس طرح مناتے ہیں کہ اس رات کی وجہ سے قرآن نازل ہوا ہے۔ چنانچہ شب قدر تلاش کرنے والے قرآن سمجھ کر پڑھنے کی بجائے نوافل ادا کرتے ہیں۔

قانون قدرت یہ ہے کہ گزرا ہوا لمحہ قیامت تک واپس آنا نا ممکن ہے۔ ولو فرض شب قدر اگر ہر سال آتی ہے تو اس میں قرآن کا نازل ہونا بھی ضروری ہے ورنہ اس کو شب قدر کہنا نری سادہ لوحی ہے۔ حالانکہ قرآن جس کی قیامت تک حفاظت کا اللہ نے وعدہ فرمایا ہے ( الحجر:۹) وہ تو موجود ہے ۔ اس لئے مزید اور کسی قرآن کی ضرورت نہیں ہے ۔ البتہ قادیانیوں کو دوسرے قرآن کی ضرورت پڑی۔ وہ ہفتہ، وہ دن وہ تاریخ اور ہر سال وہ مہینہ بھی آتا اور گذر جاتا ہے جس میں ان کی پیدا ئش ہوئی تھی لیکن ان میں یہ پھر پیدا نہیں ہوتے جس سے معلوم ہوا کہ یہ سب کی سب وقت (زمانہ) کی اکائیاں ہیں جو ایک دفعہ گزر جانے کے بعد دوبارہ نہیں آسکتیں۔

قرآن کی رو سے کسی بھی مہینے کی کسی بھی ایک یا چند یا طاق راتوں کو عبادت کے لئے مخصوص کر لینا ہدایت نہیں سراسر گمراہی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے ہم پر رات میں مغرب ، عشاء اور فجر کے علاوہ کوئی اور نماز فرض نہیں کیا ہے کیونکہ ہم کو عمل کے لئے پیدا کیا ہے رات ہمارے لئے آرام کرنے کے لئے بنائی گئی ہے تاکہ ہم دن میں تلاش معاش کر سکیں ۔ (النبا: ۹، ۱۰، ۱۱) البتہ آخرت میں دوزخ میں بچنے کی فکر رکھنے والے سحر میں اٹھکر اپنے رب سے مغفرت اور دوزخ سے بچانے کی دعا کرتے ہیں ( آل عمران:۱۷، فرقان:۶۴، السجدہ:۱۶، زمر:۹، زاریات:۱۷، ۱۸) چنانچہ اللہ کے رسول نے بھی فرمایا ہے’’کہ نصف رات کے بعد اللہ آسمان دنیا پر نزول  فرما کر  ندا  د لواتا ہے کہ ’’ہے کوئی مانگنے والا،ہے کوئی مغفرت چاہنے والا ‘‘اس ارشاد کے بعد بھی کیا اللہ کے رسول طاق راتوں میں تلاش شب قدر کی بات فرماسکتے ہیں۔ یہ بات محمد رسول اللہ کو اللہ کا رسول ماننے والوں کیلئے لمحہ فکر ہے۔ طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش غلط عقیدہ کی پیدا وار ہے چنانچہ دوزخ کے سات دروازے (الحجر:۶۴) اور دوزخ کے فرشتے ۱۹ ہیں (مدثر:۳۰) یہ طاق ہیں اور کائنات کو چھ دن میں پیدا کیا گیا (یونس:۳، ہود:۷) اور عرش کو اٹھانے والے فرشتے ۸ ہیں ۔ ( الحاقہ:۱۷) یہ جفت ہیں۔ اور قومِ عاد پر سات رات اور آٹھ دن تیز آندھی کا عذاب ہوا جس میں دونوں طاق اور جفت ہیں ۔ ( الحاقہ : ۶ ‘ ۷ )

شب قدر کی حقیقت ، نزول قرآن کی روایات کی روشنی میں

سب کا مسئلہ ہے کہ ماہ رمضان ہی کی ایک رات یعنی لَیْلَۃُ الْقَدْرْ میں سورہ ’’علق‘‘کی ابتدائی پانچ آیات  اِقْرَأْ تا مَالَمْ یَعْلَمْ کے نزول سے وحی الہی کی ابتداء نبی کریمؐ پر غارِ حرا میں ہوئی جس کے فورا ہی بعد آپ گھر آکر اپنی بیوی سے  زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ( مجھے ڈھانپو ، مجھے ڈھانپو) فرمایا (حدیث ۲ کتاب الوحی تفہیم البخاری) آپ اس وقت نماز کیا چیز ہے اس سے لا علم اور بے خبر تھے اس لئے آپ ؐ کا اس رات میں نماز پڑھنے کا کوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتا اس سے قطعی ثابت ہے کہ حقیقت واقعہ میں جو شب  قدر تھی اس میں کوئی بھی عبادت نہیں کی گئی۔

پہلی وحی کے بعد دوسرے سال آپ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی اور یہ سال بھی بغیر تلاش شب قدر کے گزر گیا۔

نبوت کے تیسرے سال دوسری وحی  قُمْ فَاَنْذِرْ ( المدثر:۲) ( اٹھو اور پھر ڈراؤ) یہ سال بھی شب قدر کی تلاش کے بغیر گزر گیا۔

ایک اہم حقیقت واقعہ یہ ہے کہ مکہ میں تیرہ سال تک اور ہجرت کرنے کے اٹھارہ (۱۸) مہینے تک یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ  لیلۃ المبٰرکۃ    یا   لیلۃ القدر کس مہینے کی رات تھی۔

چنانچہ اس مدت میں یعنی نبوت کے ساڑھے چودہ سال تک بھی تلاش شب قدر کا ذرا سا بھی شائبہ نہ سنت رسول سے ملتا ہے اور نہ اسوئہ صحابہؓ سے حالانکہ اس مدت میں ماہ رمضان ہر سال آتا اور جاتا رہا۔ لیکن ان میں ہزار مہینوں سے بہتر رات تلاش نہیں کی گئی۔

ہجرت کے اٹھارہ ماہ بعد جب روزے فرض کئے گئے جیسا کہ ارشاد ہے۔  شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ (البقرہ:۱۸۵) (رمضان ہی کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہونا شروع ہوا ۔ اور قرآن انسانوں کے لئے ہدایت ہے اور ہدایت بھی کھلی کھلی اور حق و باطل بتانے والی) تب معلوم ہوا کہ یہ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ  رمضان کی ایک رات تھی۔

 ۲   ؁ ھ کے رمضان میں بھی تلاش شب قدر کا شائبہ نہیں ہے۔ شب قدر کا ماہ رمضان کی رات ہونے کا علم ہونے کے بعد نبی کریمؐ صرف آٹھ ہی سال زندہ رہے ۔ یعنی آپ کی حیات میں آٹھ مرتبہ ہی رمضان آیا ان آٹھ رمضانوں کا حال ملاحظہ ہو۔

شبِ قدر کی حقیقت غزوات کی روشنی میں

۲ ھ ؁  ماہ رمضان ہی میںجنگ بدر ہوئی مقام بدر مدینہ سے (۸۰) میل کے فاصلے پر ہے اور ناکافی سواریاں ہونے کی وجہ سے ان کو باری باری استعمال کرنا پڑا۔ سفر میں فرض نماز قصر اور فرض روزے قضا کرنے کے احکام الٰہی ہونے کے بعد تلاش شب قدر کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

۶ھ؁ میں غزوہ بنی المصطلق رمضان ہی کے مہینے میں ہوا اسلئے اس رمضان میں بھی تلاش شب قدر کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔

۸ھ؁  ماہ رمضان کی بیس (۲۰) تاریخ کو مکہ فتح ہوا مکے سے مدینہ کا فاصلہ تقریبا تین سو میل ہے۔(حدیث ۲۰۹ کتاب الجہاد : تفہیم البخاری)

۹ھ؁ میں ماہ رمضان سفر تبوک کے دوران آیا اور چلا گیا مدینے سے تبوک کا فاصلہ پانچ سو (۵۰۰) میل سے زائد ہے اس رمضان میں بھی تلاش شب قدر کا ذرا سا بھی شائبہ نہیں ملتا۔

باقی چار رمضان کا حال ملاحظہ ہو:

شب قدر کی حقیقت احادیث اعتکاف کی روشنی میں

سورہ البقرہ ۱۸۷ میں اعتکا ف کا ذکر ہے نبی کریمؐ ابتداََ رمضان کے پہلے عشرہ میں ( پہلی رمضان سے دس (۱۰) رمضان تک) معتکف رہا کرتے تھے۔ ( حدیث ۷۷۳کتاب الاذان تفہیم البخاری حدیث ۱۹۸۶ مشکوٰۃ)۔

نبی کریم ؐ رمضان کے دوسرے عشرہ یعنی ( گیارہ (۱۱) رمضان سے بیس (۲۰) بیس رمضان تک معتکف رہا کرتے تھے ( حدیث ۸۹۱۔۱۸۸۔۱۸۸۲۔۱۸۹۹ کتاب الصیام تفہیم البخاری)۔ ازواج مطہرات کی وجہ سے نبی کریمؐ معتکف ہی نہیں ہوئے (حدیث ۱۹۰۸ کتاب الصیام تفہیم البخاری) نبی  کریم ؐ ایک رمضان میں بوجہ علالت معتکف نہ ہو سکے۔

آپ ؐ ایک سال شوال میں بیس دن کا اعتکاف کئے۔

قولی حدیث کی روشنی میں

(۱)ایک شخص نے شب قدر کے بارے میں پوچھا تو نبی کریمؐ نے جب فرمایا کہ وہ دوسری رمضان ہی کو گزر گئی ‘تو وہ افسردہ ہو جاتا ہے ۔ آپؐ نے فرمایا تو اس کو جس رات میں تلاش کرے گا تو وہ تیرے لئے شب قدر ہے۔ ( مسند احمد)

(۲)نبی کریمؐ  صحابہ ؓ کو شب قدر بتانے کیلئے باہر تشریف لائے لیکن بھول گئے یا بھلادی گئی، (حدیث ۱۸۸۷ کتاب الصیام تفہیم البخاری) غور کیجئے کہ اگر رات بھلا دی گی یا بھول گئے تو رات بتانے کی دعا کیوں نہیں کی گئی؟ کیا ہزار مہینوں سے بہتر رات کا معاملہ ان باتوں سے بھی معمولی تھا جن کے متعلق سوال کرنے پر جوابات دئے گئے مثلاً اصحاب کہف ، چاند کے گھٹنے و بڑھنے، حرام مہینوں میں جنگ ‘ مدات اور مقدار خرچ وغیرہ غرض رات بتانے کی دعا نہ کرنا ثابت کر دیتا ہے کہ ہزار مہینوں سے بہتر رات کا جو مفہوم لے لیا گیا ہے وہ غیر صحیح ہے کیونکہ معاملہ ایک ماہ یا ایک رات یا چند راتوں کا نہیں بلکہ مرتے دم تک رب کی اطاعت نبی کریمؐ اور صحابہؓ کے طریقہ پر کرنا ہے۔

(۳)ابو ذر غفاریؓ کے دریافت کرنے پر نبی کریمؐ نے شب قدر ہر سال آتے رہنے کی بات فرمائی۔  ( فیض الباری)

(۴)عثمان غنیؓ سے مروی ہے کہ فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہـ  جس شخص نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کر لی تو آدھی رات کے قیام کا ثواب پا لیا اور جس نے صبح کی نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا کر لی تو پوری رات جاگنے اور عبادت کرنے کا ثواب حاصل کر لیا۔ ( مسلم)

آثار و اقوال الرجال کی روشنی میں

بخار ی کی شرح فیض الباری میں شب قدر سے متعلق ۱۴۶ اقوال ہیں اور مسلم کی شرح از امام نؤویؒ  جلد سوم میں ہے کہ ابی بن کعبؓ رمضان کی ستائیسویں شب ہی کو شب قدر سمجھتے تھے اور عبداللہ بن عمرؓ سارے رمضان میں اور عبداللہ بن مسعودؓ ، امام ابوحنیفہؒ ، امام ابویوسفؒ ، امام محمدؒ ، قاضی خان اور ابوبکر رازیؒ اس خیال کے قائل تھے کہ سال کی تمام راتوں میں سے کوئی ایک رات شب قدر ہوتی ہے۔ اس لئے سال کی تمام راتوں میں اس کو تلاش کرنا چاہئے ۔ قاضی عیاض ؒ کے قول رویت شب قدر کی حقیقت ممکن نہیں‘ کو امام نؤویؒ نے غلط کہا ہے اور دلیل میں شب قدر کی روایت "(دیکھنا ) کبائر صالحین سے ثابت ہے جو بکثرت مروی ہیں لکھا ہے ، یہ دلیل نہ صرف محض غلو پر مبنی ہے بلکہ قانون قدرت کے قطعی خلاف ہے۔ چنانچہ ایک قول یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ شب قدر اٹھا لی گئی ہے۔ اب باقی نہیں ہے اس قول کو بھی شاذ اور قول خطا لکھا گیا ہے۔ حالانکہ یہ قول ہی مندرجہ ذیل قانون الہی کے رو سے درست ہے۔

(۱)قانون قدرت گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا۔

(۲)نحوست و برکت کا تعلق انسان کے فکر و عمل سے ساعت و دن سے نہیں ۔

(۳)زمانہ کی تمام اکائیاں ساعت سے لیکر صدی تک کااپنی فطرت و جوہر میں یکساں و مساوی ہیں۔

امام شافعی ؒکا قول’’میرے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح نبی کریمؐ سے پوچھا جاتا تھا، اسی طرح کے آپ جواب دیتے تھے، پوچھنے والا پوچھتا میں فلاں رات میں تلاش کروں تو آپ فرماتے ہاں تلاش کرو، میرے نزدیک ۲۱ویں رات شب قدر ہے‘‘۔ (ترمذی)

(۴)شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور جناب شبیر احمد عثمانیؒ سورۃ القمر کی آیت ۱۹ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’اور یہ نحوست کا دن انہیں کے حق میں تھا یہ نہیں کہ ہمیشہ کو وہ دن منحوس سمجھ لئے جائیں اور اگر وہ دن عذاب آنے کہ وجہ سے ہمیشہ کے لئے منحوس بن گیا ہے تو مبارک دن کونسا رہے گا۔، قرآن کریم میں تصریح ہے کہ وہ عذاب سات رات اور آٹھ دن برابر رہا، بتلایئے اب ہفتے کے دنوں میں کونسا دن نحوست سے خارج رہے گا۔ ’’قرآن میں تین جگہ ( حٰم السجدہ:۱۶، القمر:۱۹، الحاقۃ:۷) منحوس دنوں کے الفاظ ہونے کے باوجود تمام مفسّر و تمام علمائے دین ، رات میں نحوست ہونے کی نفی و انکار کرتے ہیں ، لیکن صرف ایک جگہ لیلہ مبارکہ کے الفاظ ہونے پر مبارک رات کا تصوّر ایصالِ ثواب کی طرح پیدا کر لیا گیا ہے، چنانچہ ایصالِ عذاب کو کوئی بھی نہیں مانتا لیکن ایصالِ ثواب کو سب مانتے ہیں ۔ الاماشاء اللہ …… صحابہؓ ، علماء اور فقہاء کا شب قدر کے معاملے میں ایکدوسرے کی نفی و تردید کرنے والا اختلاف کرنا ثابت کر دیتا ہے کہ شب قدر کی اہمیت و عظمت کے متعلق جو کچھ بھی احادیث میں اور تفاسیر میں ہے وہ غیر صحیح ہے۔

طبعی قوانین کی روشنی میں

(۱)رات و دن زمین کی گردش سے وجود میں آتے ہیں ، اسی لئے خلاء میں ہمیشہ دن ہی رہتا ہے ۔

(۲)ساعت ، دن ، رات ، ماہ، سال صدی زمانہ کی اکائیاں ہیں ( توبہ:۳۶)  جس طرح روپیہ میں سو پیسے یکساں ہوتے ہیں ، اسی طرح گھڑی ، دن رات ماہ وسال اپنی فطرت و جوہر میں یکساں و مساوی ہیں۔

قرآن کی روشنی میں

(۱)حلال مہینوں کوحرام اورحرام مہینوں کو حلال کرنا نسی (آگے پیچھے کرنا) کفر میں زیادتی کرنا قرار دیا گیا ہے۔ ( توبہ:۳۷) اسی لئے الفاظ لیلۃ مبارکہ اور خیر من الف شہر سے جو مفہوم لے لیا گیا ہے وہ کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا، سب کا مسلمہ ہے کہ قرآن میں تضاد و اختلاف بیانی نہیں ہے کسی ایک رات کو لیلۃ مبارکہ کہنے سے سال کی دوسری ۳۶۴ راتیں یا ماہ کی ۲۹ یا ۳۰ راتیں خود بخود لازماً غیر مبارک نہ سہی کم مبارک قرار پاتی ہیں جس پر نسی کا اطلاق ہوتا ہے۔

(۲)انسان کو آزمائش و امتحان کے لئے دنیا میں پیدا کیا گیا ہے جس کے لئے لازمی ہے کہ تمام ساعتیں چاہے دن ہو یا رات ، ماہ و سال اپنی فطرت میں یکساں و مساوی ہوں اگر ان میں سے کوئی مبارک یا منحوس ہو تا امتحان و آزمائش کی بات غلط قرار پاتی ہے۔

(۳)اللہ و رسول کی اطاعت و فرمانبرداری پوری زندگی میں کرنا لازمی و ضروری ہے۔ (البقرہ:۲۰۸) اس کے باوجود سال میں ایک یا چند راتیں عبادت کے لئے مخصوص کر لینا گمراہ اقوام کا طریقہ ہے ۔ ایک نافرمانی تمام نیکیوں کو باطل کردیتی ہے ۔ (محمد:۳۳) توبہ کرنے پر پھر بحال کر دی جاتی ہیں۔ توبہ سے اللہ ، بندے کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے ( النساء:۱۱۰) بخشش کا تعلق توبہ سے ہے نہ کہ رات سے ۔ اعمال کی قبولیت کی لازمی شرائط میں پہلی شرط وَھُوَ مُؤْمِنٌ  کی ہے یعنی جس کا ایمان شرک کے اجزاء سے پاک ہوگا اسی کا عمل قبول ہوگا۔ ( النساء:۱۲۴، انعام۸۲) عقیدے میں شرک ہوگا تو اعمال حبط کر دیئے جائیں گے، ( انعام:۸۸، الزمر:۶۵) صرف اسی کا عمل قبول ہوتا ہے جو بوقت عمل حالت اطاعت میں ہو۔  ( المائدہ:۲۷) ۔ عبادت کا مقصد تقویٰ ، تقوے کا بدلہ و ثواب ملتا ہے عبادات کا نہیں ، ساعت ، دن ، رات ، ماہ ، مقام ، چیز اور افراد میں فی نفسہ کوئی برکت ہوتی ہے اور نہ نحوست بلکہ نحوست و برکت کا دارومدار بالکلیہ قانون الٰہی کی رو سے انسان کی فکر عمل سے ہے۔(الاعراف:۱۳۱، النمل:۴۷، یٰسین ۱۸ تا ۱۹) مثلاً ماہ رمضان میں جو بھی اللہ و رسول کی نافرمانی کرے گا۔ وہ قطعی نقصان میں رہے گا، اور دوسرے ماہ میں قضاء روزے رکھنے والا نقصان سے بچ جائے گا۔شب قدر کی اگر واقعی کچھ بھی اہمیت ہوتی تو رحمت الہی کا عین تقاضہ تو یہ تھا کہ اس رات کے آنے سے پہلے ہی اس کی اہمیت کا علم دیا جاتا ، اس کی بجائے رات گزر جانے کے بعد گزری ہوئی رات کو شب قدر کہنا ثابت کر دیتا ہے کہ شب قدر کے متعلق جو عقائد پیدا کر لئے گئے ہیں وہ غیر صحیح ہیں۔سب کا مسلمہ ہے کہ ۲۳ سال تک حسب موقع و حسب ضرورت رمضان ہو یا غیر رمضان دن اور رات کی مختلف ساعتوں میں قرآن نازل ہوتا رہا ہے لیکن یہ تمام ساعتیں نزول وحی کہ وجہ سے نہ مبارک اور نہ قدر کی بن سکیں۔

قرآن کی روشنی میں فی نفسہ اس رات میں کوئی فضیلت و برکت نہ پہلے تھی اور نہ ہی نزول قرآن سے پیدا ہوئی یہ محض ایک نام کی حیثیت ہے جس میں قرآن نازل ہونا شروع ہوا ہے جیسے  :  یوم الحج الاکبر ( التوبہ:۳)( بڑے حج کے دن ) اس دن کا نام رکھا گیا ہے جس میں مشرکین قبائل کو ان سے کئے ہوئے معاہدوں کے منسوخ ہونے ایک اعلان کیا گیا۔

قرآن میں تمام رات جاگنے کا حکم نہیں ہے، یہ حکم کیسے ہو سکتا ہے جبکہ رات محض اس لئے بنائی گئی ہے کہ اس میں آرام لے کر دن میں حصولِ رزق کی جدوجہد کی جائے۔ بعض نے پچھلی امتوں کے افراد اور امت محمدیہ کے افراد کی عمروں کے فرق و تفاوات کی پا بجائی کیلئے ہزار مہینوں سے بہتر رات بنانے کی بات کہی ہے جو صریحا ًاللہ کی قدرت ، علم و حکمت سے جہل کا نتیجہ ہے جب کہ انسان کمپیوٹر کے ذریعہ غیر معمولی و انتہائی عجیب کام لے رہا ہے تو کیا اس کے خالق کو عمروں کے تفاوُت کو دور کرنے کے لئے ہزار مہینوں سے بہتر رات بنانا پڑا ۔ یہ بات محل غور ہے۔