جماعتوں‘ فرقوں اور گرہوں کی حقیقت قرآن کی روشنی میں

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

جماعتوں‘ فرقوں اور گرہوں کی حقیقت

قرآن کی روشنی میں

 

قَالُوْا بَلٰی(تمام بنی آدم نے کہا کہ آپ ہی ہمارے پرورش کرنے والے ہیں) کے اقرار میں سچے یا جھوٹے ہونے کا امتحان عمل کے ذریعہ لینے کے لئے دنیا کو ایسا اٹل دارالاسباب بنایا گیا جہاں اللہ کے مقرر کردہ قوانین کے تحت مادی و ٹھوس اسباب کو استعمال اور ذرائع کو اختیار کئے بغیر ایک گھونٹ پانی کا ملنا ممکن نہیں۔

دنیا دار العمل میں جو کچھ بھی عمل کیا جائے گا اس کا ابدی بدل جنت و دوزخ میں حشر کے دن فیصلہ الٰہی کے بعد دیا جائے گا۔ فیصلہ الٰہی سے پہلے نہیں۔

آخرت کا معاملہ قطعی غیب کا ہے ۔ اس لئے دوزخ سے بچنے اور مستحق مغفرت و جنت ہونے کا علم کتابوں کے ذریعہ اور احکام الٰہی پر عمل کرنے کے طریقے پر پیغمبروں اور ایمان لانے والوں سے کروا کر سنّتِ رسولؐ اورسبیل المؤمنینؓ کی شکل میں فراہم کئے جاتے رہے۔

آدم ؑسے عیسیؑ تک جتنی بھی ہدایت کی کتابیں نازل ہوئیں ان کی حفاظت کیلئے امتوں ہی کو ذمہ دار گردانا گیا   بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللہِ( مائدہ:۴۴) لیکن پیغمبر کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد لوگ آپس میں اختلافات پیدا کر کے کتاب الٰہی کو مسخ کر دیتے رہے تو اللہ نے اختلافات پیدا کرنے کے دروازہ ہی کو ہمیشہ کیلئے بند کر دینے کیلئے قرآن کو قیامت تک محفوظ رکھنے کا وعدہ کر کے نازل فرمایا۔( الحجر:۹)  اسی بنا پر قرآن قیامت تک کے تمام انسانوں کیلئے ہدایت کی ایسی کتاب ہے جس میں کوئی باطل بات نہ اس  کے آگے سے آسکتی ہے اور نہ اسکے پیچھے سے آسکتی ہے۔  لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ۝۰ۭ (حٰم السجدہ:۴۲)اس طرح آخری محفوظ کتاب (قرآن)  نبی کریمؐ  پر  نازل  ہونے سے آپ  خَاتَم النَّبِیّٖیْنَ (احزاب:۴۰) ہوئے اس لئے آپ کے بعد ہر دعویدار نبوت پرلے درجے کا جھوٹا اور انتہائی خطرناک فریبی ہے جو اپنے ماننے والو ں کو دوزخی بناتا ہے۔

خاتم النبیین پر ایمان لانے والے آخری امت بنے۔ اُمَّۃً وَّسَطًا ( البقرہ:۱۴۳)  خَیْرَ اُمَّۃٍ  (  اٰل عمران:۱۱۰) کہلائے جن کے فرائض ‘حیات و مقصدِ وجود ‘دنیا کے تمام انسانوں تک دوزخ سے بچنے کا واحدطریقہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ  اللہ ( نہیں ہے کوئی معبود ( حاجت روا، مشکل کشا، داتا ، فریادرس) سوائے اللہ کے )کو بتانا ہے۔

بار بار غور کیجئے کہ اللہ تعالی نے قرآن کے احکام پر اپنی منشاء کے مطابق نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ سے عمل کروایا اور ان کے عمل کرنے کا طریقہ صرف ایک ہی طریقہ ہو سکتا ہے دو طریقے نہیں اسی لئے فرمایا   مَنْ یُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہ  (النساء:۸۰)(جو رسول کی اطاعت کیا یقیناً اس نے اللہ کی اطاعت کی اور  سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ  (النساء:۱۱۵)( ایمان والوں کا راستہ ) کو  معیار حق قرار دے دیا ۔ اس کی بجائے اگر صرف قرآن نازل کر دیا جاتا تو قرآن کے کسی بھی حکم پر عمل کرنے میں دو حقیقی بھائیوں کا بھی ہم خیال ہونا ممکن نہ تھا ۔ اس اٹل حقیقت واقعہ کے باوجود بعض حَسْبُنَا کِتَابَ اللہ ( ہمارے لئے اللہ کی کتاب ہی کافی ہے) کہتے ہیں جو بظاہر بڑی ہی دلفریب بات ہے مگرا س سے ایسا فتنہ پیدا کیا گیا ہے جو دین اسلام کو مرکز ملت کا دین بنا دیا گیا ہے اپنے منشا کے مطابق قرآن کی نئی لغت بنائی گئی اور دین میں اللہ کی جگہ مرکز ملت کو دے دی گئی ہے۔

ڈرل ماسٹر کے بغیر بچوں کا ڈرل کرنا جب ممکن نہیں تو بغیر سنت رسولؐ اور اسوۂ صحابہؓ کے قرآن کے ایک حکم پر بھی صحیح عمل کرنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ اس لئے رسول کی بعثت کو ایمان والوں پر بہت بڑا احسان فرمایا:  لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ   (اٰل عمران: ۱۶۴) وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ مِّنَ اللہِ فَضْلًا کَبِیْرًا۝۴۷ ( احزاب) اور ایمان والوں کو بشارت دے دو کہ ان کیلئے اللہ کی طرف سے بہت بڑ ا  فضل ہے۔ (یعنی رسول کو مبعوث کرکے) جو ایمان والوں کو احکام الٰہی پر عمل کرنے کے طریقہ خود عمل کر کے بتاتا ہے۔

قرآن کے احکام پر منشاء الٰہی کے مطابق عمل کرنے کیلئے رسول کا ہونا کس قدر ناگزیر ہے اس کو ایمان والوں ہی کی زبان سے بیان کر دیا گیا ہے۔ مثلاً:  فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۴۷ ( القصص) بندے اپنے رب سے کہیں گے اے ہمارے رب تو نے (کتاب کے ساتھ) ہماری طرف (اپنا ) رسول کیوں نہیں بھیجا  (اگر تو بھیجا ہوتا تو) پس تیرے احکام پر تیری منشاء کے مطابق ہم عمل کر کے ایمان لانے والوں میں سے ہو جاتے ۔یہی بات سورہ ابراہیم (آیت ۱۴۴) اور سورہ طٰہٰ( آیت ۱۳۴) میں بھی بیان کی گئی ہے۔

ہر زمانے میں سچے ایمان والے  اُمَّۃً وَّاحِدَۃً   ہی تھے مگر رفتہ رفتہ اختلافات پیدا کر کے اُمَّۃً وَّاحِدَۃً جماعتوں ،فرقوں اور گروہوں میں بٹ جاتی رہی ( یونس:۱۹، البقرہ : ۲۱۳)

قرآن کے ذریعہ نبی کریم ؐکی دعوت پر صحابہ کرامؓ امۃ واحدہ بنے یعنی نبی کریم ؐ  جس طرح نماز ادا کرتے تھے بالکل اسی طرح سے تمام صحابہ ؓبھی نماز ادا کرتے تھے۔ حتیٰ کی حالت بیماری میں نبی کریمؐ ابوبکرؓ کے پیچھے نماز ادا کئے ۔نبی کریمؐ کی وفات کے بعد خلیفہ اول ابوبکرؓ کے پیچھے آپ کی وفات تک یعنی سوا دو سال اور خلیفہ دوم عمر ؓ کے پیچھے آپ کی شہادت تک یعنی ساڑھے دس سال اور خلیفہ سوم عثمان ؓ کے پیچھے آپ کی شہادت یعنی ساڑھے بارہ سال تک اور خلیفہ چہارم علیؓ کے پیچھے آپ کی شہادت یعنی پانچ سال تک اس طرح تقریباً  (۳۰) سال تک ہزاروں اہلِ ایمان ان صحابہؓ کے پیچھے نماز ادا کرتے رہے جس سے ثابت ہوا نماز کی ادائی کا طریقہ ان سب کا صرف ایک ہی تھا اور اس پورے عرصہ میں اُمت مسلمہ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ہی تھی۔

خلیفہ سوم عثمانؓ کی شہادت کے بعد امۃ واحدہ سیاسی اعتبار سے دو گروہوں (شیعان علیؓ اور شیعان معاویہؓ) میں بٹی جو رفتہ رفتہ مذہبی فرقے بن گئے ۔ اگر یہ دونوں فرقے قرآن ‘سنت رسول اور سبیل المومنین کی روشنی میں اپنے اختلافات کو دور کرنے کی کوشش نہ کریں گے تو حشر کے دن اللہ ان کے اختلافات کا قرآن کی روشنی میں فیصلہ کر کے ہٹ دھرمی کرنے والوں کو سخت عذاب دے گا۔

نبی کریم ؐکے بعد سے حال حال تک پیغمبر ہونے کے دعویدار پیدا ہوئے اور امت محمدیہ کے افراد ہی نے ان کو مانا اور فرقے بنائے مثلاً بہائی، قادیانی ، صدیق دیندار وغیرہ۔

   ۱۰۰ ھ؁ کے بعد فقہی مسائل میں قرآن کے بجائے راویوں کو اہمیت دینے سے یہ امۃ واحدہ  مالکی ؒ، حنفیؒ، شافعی ؒاور حنبلی ؒوغیرہ مسلکوں میں بٹ گئی ۔ ان میں سے چار آج بھی موجود ہیں اور ان کے مساجد بھی الگ الگ ہیں۔۲۰۰ ھ؁ کے بعد موضوع (جھوٹی) احادیث گھڑنے کا دروازہ بند کرنے کے لئے وہ تمام باتیں جو حدیث کے نام سے مشہور تھیں ان کو محدثین نے جمع کیا اور ان میں سے اپنے اپنے معیار کے مطابق احادیث کو منتخب کر کے ان کو کتابی شکل دے دی ۔ مثلاً صحیح بخاری، صحیح مسلم اور موطا امام مالک ؒوغیرہ ان کتابوں کو اہمیت دینے سے رفتہ رفتہ اہلحدیث کی جماعت وجود میں آئی جو فقہی مسائل میں احادیث ہی کو بنیادی اہمیت دیتی ہے۔ اور اہلحدیث میں سے حال ہی میں ایک اور جماعت ، جماعت المسلمین کے نام سے جنم لی ہے اور ان میں سے بعض نے جماعت المسلمین کی بجائے تنظیم المسلمین کا نام رکھ لیا ہے جو محض خودفریبی ہے۔بہت سے امام و مہدی ہونے کے دعویدار بھی پیدا ہوئے اور ان کے ماننے والے بھی امت محمدیہ ہی کے افراد تھے جو اپنا الگ نام رکھ کر فرقے بنے مثلاً مہدویہ جو محمد جونپوری کو مہدی آخر الزماں مانتے ہیں۔

دین کی تبلیغ اور اصلاح کے لئے بھی بہت سی تحریکیں اٹھیں اور بہت سی جماعتیں بنیں اور بکھر گئیں ۔ موجودہ دور میں سنی ، وہابی، اخوان المسلمین ، جماعت اسلامی ، تبلیغی جماعت، سلفی جماعت یا اہلحدیث اور اصلاح معاشرے کا کام کرنے والی جماعتیں اس کی مثا ل ہیں۔

منشاء الہٰی تو یہی ہے کہ ایمان والے ہمیشہ امۃ واحدہ ہی بنے رہیں تاکہ دنیا کے تمام انسانوں تک پیغام الٰہی پہنچایا جاتا رہے اور امۃ واحدہ بنے رہنے کے لئے  وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا  ’’اور اللہ کی رسی (قرآن )کو سب کے سب مضبوط پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ مت کرو ‘‘کا حکم دیا اور آپس میں تفرقہ پیدا کرنے سے بچنے کے لئے اپنی اس نعمت کو یاد دلایا جس کی وجہ سے وہ آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچنے کے قابل ہوئے اور ایک دوسرے کے جانی دشمن (اوس و خزرج) آپس میں بھائی بھائی بن گئے جیسا کہ فرمایا گیا : وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا۝۰ۭ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ۝۱۰۳ ( ال عمران )اہلِ ایمان کو تاکیدی حکم دیا گیا کہ تم میں ایک ایسی جماعت ہونا لازمی و ضروری ہے جو اہل ایمان کو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ پر قائم رکھنے کے علاوہ دوسرے انسانوں تک  لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا پیغام پہنچانے کا کام کرتی رہے۔ فرمایا گیا  وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِۭ وَاُولٰۗىِٕکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۴  ( آل عمران) غور کیجئے ایسا کرنے والے ہی فلاح پائیں گے فرمایا گیا ہے اس کے باوجود مسلمان  اپنی اس  ذمہ داری سے قطعی غافل ہیں ۔ حالانکہ نبی کریم ؐ نے بھی  جَاھِدُوْا الْمُشْرِکِیْنَ بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ وَ اَلْسِنَتَکُمْ  (ابو داؤد ، احمد ، نسائی ، ابن حبان)’’مشرکین کے خلاف اپنے مالوں سے اپنی جانوں سے اور اپنی زبانوں سے جہاد کرتے رہو ‘‘ (جہاد کرو نہیں بلکہ کرتے رہو فرمایا گیا ) کا تاکیدی حکم دیا ہے۔

اہلِ ایمان کو آپس میں اختلافات پیدا کرنے سے تاکیدا ً  منع کیا گیاہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے  وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ(سورہ شوریٰ:۱۳)

اللہ و رسول کی اطاعت کا تاکیدی حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا  وَاَطِیْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۝۴۶ۚ (الانفال) آپس میں جھگڑنے سے منع کیا اور خبردار کر دیا کہ اگر تم آپس میں جھگڑا کرو گے تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر کرو اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

پچھلی امتیں محض آپس کے اختلافات پیدا کر کے ہی گمراہ ہوئیں ۔ اس لئے ایمان والوں کو تاکید کی گئی کہ وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَیِّنٰتُ۰ۭ وَاُولٰۗىِٕکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۝۱۰۵ۙ  (اٰل عمران) اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور آپس میںاختلاف کئے جب کہ ان کے پاس کھلے کھلے دلائل آچکے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔

اہل ایمان کو تاکید کی گئی کہ  مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَاتَّقُوْہُ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۝۳۱ۙ (الروم) ’’تم اپنے ہر معاملے میں اپنے رب ہی سے رجوع کرنے والے بنو ۔ رب کی نافرمانی کرنے سے بچو اور نماز قائم کرو (اجتماعی زندگی بسر کرو)۔‘‘  (النساء: ۵۹) اور مشرکین کی طرح مت ہو جاؤ۔

بنی آدم کیلئے اللہ نے ایک ہی دین ‘دین اسلام مقرر فرمایا (اٰل عمران :۱۹) اور پیغمبروں کے ذریعہ دین اسلام ہی اپنے بندوں تک پہنچایا ہے تو لازماً ان حضرات کی تعلیمات بھی ایک ہی تھیں اس لئے یہ تمام حضرات امۃ واحدہ ہی تھے۔ (الانبیاء : ۹۲، مومنون : ۵۲) ان پر ایمان لانے والے بھی ابتدء میں امۃ واحدہ ہی تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ آپس میں اختلافات پیدا کر کے گروہ ، فرقہ اور جماعتیں بنیں ۔ اور ہر ایک اس غلط فہمی میں مبتلا تھا اور آج بھی مبتلا ہے کہ حق صرف اسی کے پاس ہے۔  (الانبیاء :۹۳، المومنون:۵۳، روم:۳۲)

دنیا میں ہر شخص قانون الٰہی کے مطابق سامان رزق ہی سے رزق حاصل کرسکتا ہے ورنہ رزق کا حاصل ہونا یا کرنا ناممکن ہے۔ بالکل اسی طرح ہدایت کا معاملہ بھی ہے یعنی سامان ہدایت سے ہی ہدایت حاصل کی جا سکتی  ہے ۔ ورنہ کسی اور ذریعہ سے ممکن نہیں چنانچہ فرمایا :  اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدٰى۝۱۲ۡۖ (سورہ اللیل)  ’’بیشک (بندوں کیلئے )سامان ہدیت فراہم کرنا ہمارے ہی ذمہ ہے۔‘‘ چنانچہ قرآن‘ سنت رسولؐ اور سبیل المومنینؓ کی صورت میں سامان ہدایت فراہم کر دیا گیا ہے۔ یہ بندوں کا فرض ہے کہ ان سے ہدایت حاصل کریں۔

سورہ النحل میں  وَعَلَی اللہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْہَا جَاۗىِٕرٌ۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ لَہَدٰىکُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۹  ہدایت کا بتانا اللہ ہی کے ذمہ ہے۔ کیونکہ دنیا میں اور بھی دوسرے راستے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا۔ یہی بات سورہ انعام(آیت:۱۴۹) میں بھی فرمائی گئی ہے۔  فَلَوْ شَاۗءَ لَہَدٰىکُمْ اَجْمَعِیْنَ ۔سورہ ہود( آیت :۱۱۸) میں فرمایا :  وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۔ اور اگر تیرا رب چاہتا تو تمام انسانوں کواُمتِ واحدہ بنادیتا،سورۃ نحل میں فرمایا : وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰکِنْ یُّضِلُّ مَنْ یَّشَاۗءُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَلَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۹۳ ’’اوراگر اللہ چاہتا تو یقیناً تم کو ایک ہی امت بنادیتا اور لیکن (اللہ) گمراہ کرتاہے جس کو وہ چاہتا ہے اورہدایت کرتاہے جس کو وہ چاہتا ہے اور یقینا تم ضرور پوچھے جائو گے اُن اعمال کے متعلق جوتم کرتے تھے۔‘‘

خط کشیدہ لفظ (عمّا) سے وہ اعمال مراد ہیں جو امۃ واحدہ بننے کے لئے کئے گئے یا نہیں کئے گئے یا ایک اور دوسری جماعت بنا کر امۃ واحدہ کے پھوٹ میں اضافہ کئے۔

وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ عَمَّا جَاۗءَکَ مِنَ الْحَقِّ۝۰ۭ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰىکُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ۝۰ۭ اِلَى اللہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝۴۸ۙ ( المائدہ) ’’اور ہم نے تم پر کتاب حق کے ساتھ اتار دی ہے ۔ جو پچھلی تمام کتابوں کی (تعلیمات ) کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی ( تعلیمات کی) محافظ ہے۔ پس (اے نبیؐ) تم ان کے درمیان اسی کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے اتارا ہے اورجو حق (قرآن) تمہارے پاس آیا ہے اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک ہی شریعت (قانون) اور ایک ہی منہاج (طریقہ) مقرر کیا (یعنی اسلام ) ور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر اللہ  (تمہارا امتحان لینا) چاہتا ہے کہ وہ قرآن جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے( حکم کی تعمیل میں ایک امت بنتے ہو یا نہیں) پس بھلائیاں حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ آخر کار تم سب کو پلٹ کر اللہ ہی کی طرف ( اپنے کئے ہوئے اعمال کا پورا پورا بدلہ پانے کے لئے ) آنا ہے۔ پھر وہ تم کو بتادے گا جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے۔‘‘  اہل کتاب کے درمیان قرآنی احکام کے مطابق فیصلہ کرنے کا نبی کریمؐ  کو حکم دیا جانا ثابت کر دیتا ہے کہ ہر زمانہ میں بندوں کیلئے الٰہی احکام ایک ہی تھے ، کیونکہ سب کیلئے ایک ہی دین ، دین اسلام مقرر کیا گیا ہے ۔( ال عمران:۱۹)

 اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کا بار بار حکم دیا گیا ہے۔ خو د نبی کریم ؐ کو فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِلَیْکَ۝۰ۚ (الزخرف:۴۴) ’’پس اے نبی ؐ اس چیز ( قرآن) کو مضبوط پکڑے رہو ۔ جو آپؐ  کی طرف اُتاری گئی ہے‘‘ کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ گمراہی سے بچے رہنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ اللہ کی کتاب کے بجائے دوسری باتوں کو اہم بنا لینے سے امت کا فرقوں میں بٹ جانا اٹل قانون الٰہی ہے۔جیساکہ فرمایاگیا: وَقَطَّعْنٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا۝۰ۚ (الاعراف:۱۶۸)  ’’اور ہم نے ان کو زمین میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ‘‘اور سورہ انعام آیت : ۶۵ میں فرمایا کہ ’’ اللہ اس بات پر پوری طرح قادر ہے کہ اوپر سے یا نیچے سے تم کوعذاب دے یا تم کو گروہ گروہ کر کے ایک دوسرے سے مزہ چکھائے‘‘ جیسا کہ آج ہر سال شیعہ اور سنی کے درمیان ہو رہا ہے۔

غور کیجئے دنیاوی مقصد کے لئے جماعت بنانا ایک حقیقت واقعہ ہی ہے جس کے افراد ہر لحاظ سے نہ صرف مختلف بلکہ ضدین ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ کس قدر ماتم کا مقام ہے کہ ایک امت بننے کے لئے جتنے بھی عوامل درکار ہیں وہ سب کے سب قرآن کے ماننے والوں کے پاس موجود ہیں ۔ مثلاً اللہ ایک قرآن ایک ، رسول ایک ، قبلہ ایک ، نماز ، روزہ حج ایک ہونے کے باوجود امت مسلمہ فرقوں، گروہوں مسلکوں اور جماعتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ حالانکہ فرقوں اور جماعتوں میں بٹ جانے والوں کا تعلق اللہ کے رسول سے قطعی کٹ جاتا ہے۔جیسا کہ فرمایا گیا:  اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْءٍ۝۰ۭ (انعام:۱۵۹)  ’’بیشک جو اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر لئے اور فرقہ فرقہ بن گئے ۔ اے نبیؐ  آپ کا ان سے کچھ تعلق نہیں ہے۔‘‘

اس قانون الٰہی کی رو سے فرقے، گروہ اور جماعتیں قطعی بے دین قرار پاتے ہیں تو پھر ان سب کا انجام آخرت کیا ہوگا محتاج بیان نہیں ہے۔

اللہ نے قرآن میں اصلاح و تبلیغ کا طریقہ بھی بتا دیا ہے مثلاً   وَالَّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بِالْکِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ۝۰ۭ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ۝۱۷۰ (اعراف) ’’اور جو لوگ کتاب (قرآن) کو مضبوط تھامے رہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ( اور امیر کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں) یقیناً اس طرح اصلاح کرنے والوں کا اجر ہم (ہر گز) ضائع نہیں کریں گے۔‘‘

نبی کریمؐ  کو حکم دیا گیا:  فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ۝۴۵ۧ ( سورہ قٓ) ’’پس اے نبیؐ آپ قرآن ہی کے ذریعہ نصیحت کرتے رہیئے۔ جو میرے عذاب سے ڈرتا ہے۔‘‘ اور وَاَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ( مریم:۳۹) اور ’’اے پیغمبر آپ ان کو حسرت کے دن سے خبردار کیجئے ۔ جب کہ تمام امور کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔‘‘ سورہ الفرقان میں فرمایا : تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا۝۱ (فرقان) ’’تمام برکتوں کی مالک ذات نے اپنے بندے پر فرقان (حق و باطل بتانے والی ) نازل کیا تاکہ وہ تمام دنیا والوں کو خبردار کرے۔‘‘ اور نبی کریمؐ کے ماننے والوں پر فرض ہے کہ وہ بھی سنت رسول کے مطابق دنیا کے تمام انسانوں تک قرآن کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں جیسا کہ فرمایا گیا۔

ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَلِیُنْذَرُوْا بِہٖ وَلِیَعْلَمُوْٓا اَنَّمَا ہُوَاِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّلِیَذَّکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۵۲ۧ (ابراہیم) ’’ یہ ہی پہنچانا ہے۔ (تمام) انسانوں تک تاکہ اس کے ذریعہ وہ ڈرائے جائیں اور تاکہ وہ جان لیں کہ وہ ایک ہی سب کا معبود ہے اور تاکہ عقل سے کام لینے والے نصیحت حاصل کریں۔‘‘ اور سورہ الاحقاف آیت ۳۵ میں  بَلٰغٌ  ( یہ ہی) پہنچانا ہے) فرمایا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں کو تاکیدی حکم دیا ہے۔   یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۝۵۹ۧ (النساء) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے میں سے صاحب امر (امیر) کی اطاعت کرو پھر تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہو جائے تو اس کو اللہ و رسول کی طرف لوٹاؤ اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ ایسا کرنا ہر لحاظ سے اچھا ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہے) غور کیجئے اس حکم الٰہی کے خلاف جس کسی کی بھی زندگی اپنے صاحب امر کی اطاعت سے خالی ہوگی تو نہ اس کا ایمان باللہ صحیح ہے اور نہ ایمان بالآخرت یہ وہ خلا ہے جس کو کوئی نیکی پر نہیں کر سکتی ۔ اس قدر اہم و بنیادی حکم الہی پر مسلمان عمل کرنے کے بجائے صدیوں سے پیری مریدی میں نجات سمجھے ہوئے ہیں ۔ جس سے یہ مزید سلسلوں میں بٹ گئے ہیں مثلاً قادری ، چشتی ، نقشبندی ، سہروردی وغیرہ۔

تیرہ (۱۳) سال تک نبی کریمؐ مکہ میں یٰآیُّـہَا النَّاسُ قُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ  تُفْلحُوْا     ’’اے لوگو  !  نہیں ہے کوئی معبود (حاجت روا، مشکل کشا ، فریاد رس ، داتا  اللہ کے سوا) کہو اور فلاح پاجاؤ۔‘‘ ہی کی دعوت دیتے رہے اور اسی بات کی دعوت تمام پیغمبر دیتے تھے ۔ غور کیجئے (۳۶۰)معبودوں کو پوجنے والے آپ کی آواز ہی کو بند کرنے کی کوشش کئے تو آپ مدینہ آگئے۔

سب سے اہم بات اللہ ہی کی ہے جو ہمارا سب سے بڑا خیر خواہ ہے۔ وہ ہم کو سب سے پہلے لاالٰہ (نہیں ہے کوئی معبود) کے ذریعہ نقصان دینے والی باتوں سے خبردار کیا ہے۔

 اصلاح و تبلیغ کیلئے اللہ و رسول کے بتائے ہوئے طریقے جو بھی اختیار کریں گے وہی اللہ کے پاس اجر کے مستحق ہوں گے۔ہدایت وہی جس کو اللہ ہدایت قرار دے چنانچہ فرمایا :  قُلْ اِنَّ ھُدَی اللہ ھُوَ الْھُدٰی (البقرہ : ۱۲۰)( اے نبیؐ  کہدو کہ اللہ کی ہدایت ہی دراصل ہدایت ہے)  یہی بات (ال عمران ۷۳  انعام:۷۱، ۸۸) میں فرمائی گئی ہے۔

ایمان کیلئے اصلاح و تبلیغ کا معاملہ رگ دل کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے فرمایا : قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ۝۰ۭ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَاَہْدٰى سَبِیْلًا۝۸۴ۧ  (بنی اسرائیل )  ’’اے نبیؐ  کہہ دو کہ ہر شخص اپنے طریقہ پر عمل کر رہا ہے جو ہدایت کے راستہ پر  ہیں ان کو تمہارا رب اچھی طرح جانتا ہے۔‘‘  تبلیغ و اصلاح کے معاملہ میں اللہ کے رسول نے خبردار کر دیا  چنانچہ  فرمایا  :  اِنَّ اَخْوَفَ مَا اَخَافُ عَلَیْکُمْ الْاَئِمَّۃُ الْمُضِلُّوْنَ  (مسند احمد ۶؍۴۴۱) میں اہل ایمان کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے رہنما ہیں۔ دوسری روایت میں علیکم کے بجائے علیٰ امتی ( میری امت کے بارے میں ) کے الفاظ ہیں۔

جو جماعتیں دین کی تبلیغ اور مسلمانوں کی اصلاح کے نام پر کام کر رہی ہیں وہ اپنے طریقہ کو الٰہی ونبوی طریقہ کے مطابق بنا لیں کیونکہ ان کا طریقہ اگر الٰہی و نبوی طریقے کے مطابق نہ ہو تو پھر ان کی کوشش کا انجام کیا ہوگا؟ معاملہ بے حد اہم ہے۔ اس لئے ہر ایک کو اس پر غور کر کے اپنے طریقہ کو الٰہی و نبوی طریقے کے مطابق بنا لینا چاہیئے تاکہ تمام جماعتیں خود بخود ایک ہی جماعت بن جائیں گے۔

اللہ تعالیٰ سے التجاء ہے کہ حق کو حق کی شکل میں ہمیں دکھا اور اس پر چلنے کی ہمیں توفیق عطا فرما اور باطل کو باطل کی شکل میں ہمیں دکھا اور اس سے بچنے کی ہمیں ہمت عطا فرما ۔ آمین ثم آمین