جادو کی حقیقت قرآن کی روشنی میں

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

جادو کی حقیقت قرآن کی روشنی میں

 

دنیا دار الاسباب میں جادو وغیرہ یعنی بلا مادّی و ٹھوس اسباب و ذرائع کے نفع و نقصان ہونے کی بات کا غلط و جھوٹ ہونا اسی وقت سمجھ میں آسکتا ہے جبکہ چند بنیادی باتیں دل و دماغ میں مستحضر ہوں ورنہ جادو وغیرہ سے یعنی بغیر مادّی ذرائع کے بھی نفع و نقصان پہنچنے کے وہموں سے ذہن کا چھٹکارہ پانا بے حد مشکل ہے۔

عہد میثاق قَالُوْا بَلیٰ شَہِدْنَا (تمام بنی آدم نے کہا بے شک آپ ہی تنہا و اکیلے ہمارے پالن ہار ہیں ہم سب گواہ ہیں) ( سورہ اعراف:۱۷۲) میں سچے ہونے کا اپنے عمل سے ثبوت دینے کے لئے ہم کو دنیا میں عمل کرنے کے لئے پیدا کیا گیا اور دنیا کو ایسا دار الاسباب بنایا جہاں طبعی قوانین کے مطابق اسباب و ذرائع اختیار و استعمال کئے بغیر معمولی سے معمولی ضرورت و حاجت کا بھی پورا ہونا قطعی نا ممکن ہے۔

پرورش کے اس اٹل نظام اسباب و ذرائع کو مختلف انداز سے بار بار نہ صرف بیان کیا گیا بلکہ اسباب و ذرائع کے اس نظام پر غور و فکر کر نیکی تاکید کی گئی ہے اس کے اٹل پن کا یقین دلانے کے لئے فرمایا گیا۔

(1) کیا انسان کو اسکی تمنا ( ضرورت و حاجت ) بغیر اسباب اختیار کئے اور بغیر عمل کئے کے مل جاتی ہے۔ ( پوری ہو جاتی ہے) (النجم:۲۴)

(2) دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا کر کوئی کہتا رہے۔(وظیفہ یامنتر جپنے) اے پانی تو میرے منھ تک آجا ۔( ہر گز نہیں آ سکتا) (رعد:۱۴)

(3) اور اگر ایسا قرآن ( یا منتر کی ایسی کتاب جس کے )پڑھنے سے( یا جپنے سے) پہاڑ چلنے لگتے یا زمین کا فاصلہ آناًفاناً طے ہو جاتا یا مردوں سے بات کرادی جاتی تو بھی یہ ایمان نہ لاتے۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ سب اللہ کی قدرت کے کام ہیں ۔(کیونکہ مادی اسباب و ذرائع کے بغیر کسی بھی بات کا دار الاسباب میں واقع ہونا اللہ کا قانون نہیں ہے۔(رعد:۳۱)

شیطان نے اللہ تعالیٰ کو چیلنج کیا’’میں تیرے بندوںمیں سے ایک حصہ ضرور لوں گا‘‘ (النساء:۱۱۸)  اور بندوں میں سے ایک حصہ کس طرح لے گا اس کو بھی بیان کر دیا۔ ’’ان کو گمراہ کروں گا جھوٹی آرزویں دلاؤنگا اور جانوروں کے کان چیرنے اور اللہ کی تخلیق کو بدلنے کا ان کو حکم دوں گا‘‘۔ (النساء:۱۱۹)

(4) چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی تیری سیدھی راہ پر انسانوں کی گھات میں بیٹھوں گا پھر میں ان کے آگے سے ، ان کے پیچھے سے ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کو گھیرؤں گا۔ اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ (اعراف:۱۷)

(5) کہا شیطان نے اے میرے رب کہ آپ نے مجھے گمراہ کیا ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ ان کی نظر میں دنیا کو مزّین بنادوں گااور ان سب کو گمراہ کروں گا۔( الحجر:۳۹)

رب نے اپنے بندوں کو شیطانی مغالطوںاور وسوسوں میں مبتلا ہونے سے بچنے کیلئے قرآن و رسولؐ کے ذریعہ حقیقت واقعہ کا یہ علم دیا کہ دنیا محض چند روزہ امتحانی زندگی ہے اور آخرت  خیر و ابقیٰ ہے اس لحاظ سے دنیاکی زندگی کی حقیقت آخرت کے مقابلہ میں محض کھیل و تماشہ ہے۔ (حدید:۲۰) اور مخلوق کی پرورش کیلئے جو ٹھوس و مادّی ذرائع پیدا و فراہم کئے گئے ہیں ان کو نہ صرف سر کی آنکھوں سے دیکھنے کی بلکہ اس پر غور و فکر کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے اور خبردار کر دیا کہ جو بھی اس نظام کے خلاف شیطان کے پیدا کردہ وہموں میںمبتلاہوگا اس کوشیطان کے ساتھ دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ (اعراف:۱۸)

قرآن میں اس قدر کھلی وضاحت کے بعد بھی الا ماشآء اللہ کے سوا تمام مسلمان جادو، بھانامتی ، سایہ سپٹ ، نظر بد، تعویذ و دم، گنڈہ، جھاڑ پھونک ، نحوست و برکت، فوت شدہ افراد سے ہی نہیں بلکہ ان کی قبروں درگاہوں، آستانوں چھلوں اورآثار سے بھی نفع و نقصان پہنچنے کو مانتے ہیں چنانچہ بچہ نیند میں چمکتا ہے بدلی کی شکایت ہوتی یا کوئی بیمار ہوتا ہے یا کاروبار میں نقصان ہوتا ہے یا بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ، یا گھر کے باہر بھاگنے لگتا ہے، یا کوئی غیر معمولی حرکت کرتا ہے یا ڈراونے خواب دیکھتا ہے جو حقیقت میں جسمانی، نفسیاتی اور دماغی بیماریاں ہیں جن کے علاج کے لئے ڈاکٹر یا حکیم سے رجوع کرنے کی بجائے فال کھولنے یا حاضرات لگانے والوں سے یا عملیات کرنے والوں سے یا مرشد سے رجوع کیاجاتا ہے ۔ جو اپنے لچھے دار باتوں شعبدہ بازیوں سے ان بیماریوں کو جادو سایہ سپٹ ، بھانا متی، کھندلا ، ستاروں کا چکر بتا کر دھاگے تعویذ دم، فلیتے ، گنڈے ، کڑے، انگوٹھیوں کے ذریعہ عوام کا پیسہ بٹورتے ہیں اور بزرگو ں کے فیض وبرکت کے جھوٹے و من گھڑت قصے سُنا سُنا کر درگاہوں اور آستانوں کے چکر لگانے میں اور چلّے کھینچنے میں لگا دیتے ہیں۔

مندرجہ بالاگندگیوں اور گمراہیوں میں مبتلا ہونے کی ایک اہم وجہ بچپن ہی سے جنوں، پریوں کے من گھرت کہانیاں سننے‘ علی بابا چالیس چور ، علاؤالدین کا چراغ ، کالا جادو جیسے فرضی اور من گھڑت قصے پڑھنے سے ذہن متاثر رہتے ہیں ۔دوسرے انسانوں کی بہت بڑی اکثریت کے دین و مذہب کی بنیاد ہی محض وہم پر ہے یعنی توہم پرستی ان کی گھٹی میں پڑی ہوتی ہے ۔تیسرے وہ لوگ بھی جن کی روزی ان وہموں میں عوام کے مبتلا رہنے سے جڑی ہوئی ہے وہ اپنے ہتھکنڈوں ، شعبدہ بازیوں اور اشتہاروں کے ذریعہ ان وہموں کی حتی المقدور نہ صرف زندہ بلکہ پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔

مسلمانوں کا ان گمراہیوں اور گندگیوں میں مبتلا ہونے کی بنیادی وجہ آخرت سے بے خوفی ہے۔ جو قرآنی تعلیمات سے لاعلمی ، بے خبری ، غفلت اور اندھی روایت پرستی، قرآنی آیات کی وہ تفسیر و تعبیر جو ذہنی تحفظات اور مسموعات کے زیر اثر لکھی گئی ہیں سے پیدا ہوتی ہیں۔

(6) انسان نفسیاتی حیوان ہے جس کا ذہن دیکھنے سے اور سننے سے ضرور متاثر ہوتا ہے اسی لئے ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو اپنی نظریں نیچی رکھ کر اپنی شرمگاہوںکی حفاظت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (سورہ نور: ۳۰،۳۱)

چنانچہ مس انڈیا اور مس ورلڈ کو لاکھوں کروڑوں مرد دیکھتے ہیں اور دیکھنے والے ہی متاثر ہوتے ہیں ان بیچاری مسوں کو چھینک بھی نہیں آتی ۔ عورت کو مرد دیکھنے سے اگر عورت میں واقعی کوئی خرابی پیدا ہوتی تو ان کو پردہ کرنے کا حکم دینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی بلکہ عورتیں خود ہی پردہ کرنے لگتیں اور میک اپ پر خرچ ہونے والے کروڑہا ڈالر بچ جاتے جس سے قطعی ثابت ہو جاتا ہے کہ نظر بد یا نظر لگنے کی بات محض شیطانی وہم کے سوا کچھ نہیں۔

گروہوں میں پھونکنے والیوں کو دیکھ کر یا سن کر یا حسد کئے جانے کی بات سن کر پریشان ہونے کے بجائے ان محض خیالی شر سے بھی بچنے کی قادر مطلق رب سے دعا کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ( فلق:۴،۵) گرہ اور پھونک دونوں سے مراد شیطان کے وسوسہ ہی ہیں۔ ( مسلم کتاب الصلوٰۃ المسافرین) (ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ)۔

(7) سب کا مسلّمہ ہے کہ پوری مخلوق مل کر بھی کوئی چیز نہیں پیدا کر سکتی ( الحج:۷۳) اسی لئے  لآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہَ ( اس کائنات کا نہ صرف پیدا کرنے والا اور اس کو چلانے والا اور تمام مخلوقات کا تنہا و اکیلا پالن ہار حاجت روا صر ف اللہ ہی ہے) کے ذریعہ حقیقت واقعہ کا علم دیا گیا اور یہ بھی مسلمہ ہے کہ جادو سے لاٹھی یا رسی، حقیقت میں سانپ نہیں بن سکتی البتہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے لاٹھی کو سانپ بنا سکتا ہے دنیا کے قوانین طبعی کے خلاف کسی بھی بات کا واقع ہونا صرف رب ہی کے حکم سے ہو سکتا ہے ورنہ ہر گز نہیں مثلاً آگ کا ابراہیم ؑ کیلئے سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہو جانا اللہ ہی کے حکم سے ہوا ہے ۔ (الانبیاء:۶۹) اسی لئے فرمایا گیا پیغمبروں سے تمام معجزے محض اللہ کے حکم سے ہی ظاہر ہوئے ہیں ۔ ( رعد:۳۸) اور کسی  پیغمبر کو بھی خود سے معجزہ پیش کرنے کا رتی برابر بھی اختیار نہیں دیا گیا۔ ( ابراھیم : ۱۱) حواریوں نے پکا پکایا کھانے کا خوان آسمان سے نازل کئے جانے کا مطالبہ کیا تو فرمایا گیا کہ خوان اتارنے کے بعد اگر نافرمانی کی گئی تو اس کو ایسا سخت ترین عذاب دوں گا جو دنیا میں اب تک کسی کو نہیں دیا گیا۔

یہ وعید محض اسلئے سنائی گئی کہ حواریوں کا مطالبہ دنیا دار الاسباب کے قوانین طبعی کے خلاف تھا یعنی دنیا میں بغیر اٹل و ٹھوس مادی اسباب و ذرائع اختیار کئے کہ محض کسی وظیفہ یا منتر کے جپنے سے کوئی چیز بھی حاصل کرنا قطعی ناممکن ہے ۔ ( مائدہ:۱۱۲ تا ۱۱۵)

(8) بنی آدم کو امتحان کی غرض سے عمل کرنے کے لئے دنیا میں پیدا کیا گیا جہاں ان کی پرورش اور حاجت براری کے لئے مادّی و ٹھوس ذرائع و اسباب کا اس قدر وسیع اور مضبوط نظام بنایا گیا ہے جس کی تفصیلات لکھنے کے لئے چودہ سمندر کی سیاہی (روشنائی) بھی ختم ہو جائے گی مگرتفصیلات پرورش کا لکھنا باقی ہی رہے گا (ابراھیم:۳۴، نحل:۱۸،کہف:۱۰۹، لقمان:۲۷)

قرآن میں کائنات کے نظام پر غور وفکر کرنے کی باربار تاکید سے یہ غلط فہمی پیدا کی جارہی ہے کہ قرآن کی اصلی دعوت کائنات کی تحقیق کرناہے ۔ثبوت میں اہل مغرب کابرق وبھاپ پر قابو پانے کوپیش کیاجاتاہے۔اگر یہ بات صحیح ہوتی تو تمام انبیاء علیہم السلام سائنس داں اور مُوجد ہوتے۔

کائنات کے اسباب اور علل پر غور و فکر اور ان میں تحقیق کرنے سے قرآن میں کہیں بھی ممانعت نہیں کی گئی ہے کیوں کہ اللہ تعالی جانتے ہیں کہ انسان اپنی بڑھتی ہوئی ضروریات کی تکمیل نئی نئی ایجادات سے کرتا رہے گا۔

یہ ایک اٹل حقیقت واقعہ ہی ہے کہ قرآن کے نزول کا بنیادی مقصد ہی نہیں بلکہ پیغمبروں کی بعثت کا بنیادی مقصد بھی بندوں کو آخرت کے ابدی عذاب سے بچنے کی دعوت دیناہی ہے کیوں کہ آخرت کا معاملہ بالکلیہ غیب اور مستقبل کی بات ہے جس کے لئے جوکچھ بھی کرنا ہے وہ دنیا ہی میں کرنا ہے کیوں کہ یہی دار العمل ہے اور آخرت دار الجزاء۔

 

سحر  ( جادو) سے نفع یا نقصان ہونے کو صحیح قرار دینے کیلئے یہ کہا جاتا ہے کہ سحر (جادو) کا ذکر تو خود قرآن میں ہے

یہ بات دراصل قرآن کی حیثیت ( انسانوں کیلئے کھلی کھلی ہدایت اور گمراہی بتانے والی کتاب ) سے محض لاعلمی کا نتیجہ ہے کیوں کہ گمراہیاں کیا ہیں ان کو معلوم کر کے اور ان سے بچے بغیر ہدایت پر قائم رہنا کسی بھی انسان کیلئے ممکن نہیں اور قانون الہی یہ ہے کہ’’ ذرا سی بھی گمراہی سے تمام عبادات اور تمام نیکیاں برباد کردی جاتی ہیں اور انجام ابدی جہنم ہوگا‘‘۔ ( انعام:۸۸، زمر:۶۵)

قرآن میں سحر سے متعلق جو باتیں بیان ہوئی ہیں وہ پیش ہیں

سحر کالفظ قرآن میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ ساٹھ (۶۰) مرتبہ مختلف حیثیت سے آیا ہے جن کے ذریعہ جادو کی حقیقت یہ بتائی گئی ہے کہ جادو صرف اور صرف نظر کو دھوکہ دینے کا فن ہے فرمایا گیا سَحَرُوْآ اَعْیُنَ النَّاسِ( اعراف:۱۱۶) (انسانوں کی آنکھوں کو دھوکہ دئے) اور سحر سکھانا اور سیکھنے کے مشاغل کن کے ہوتے ہیں ان کو بھی بیان کر دیا گیا ہے چنانچہ (بقرہ:۱۰۱) میں فرمایا گیا کہ کتاب الٰہی سے علم حاصل نہ کرنے والوں کا حال محض جاہلوں جیسا ہوتا ہے اور جن کے مشاغل حیات کو بقرہ آیت نمبر ۱۰۲ میں بیان کیا گیا ہے ۔ ملاحظہ ہو: کتاب الٰہی پر ایمان کے دعویدار کتاب کے مطابق عمل کرنے کے بجائے ان باتوں کی پیروی کرنے لگتے ہیں جن کو شیاطین پڑھتے تھے …… اور  سلیمانؑ نے کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین نے کفر کیا وہ لوگوں کو سحر سکھاتے تھے  ……  ایسے مشاغل اختیار کرنے والے اچھی طرح جانتے تھے ( اورجانتے ہیں) کہ آخرت میں ان کا کچھ بھی حصہ نہیں ہوگا۔ (بقرہ:۱۰۲)

مندرجہ بالا آیات سے ثابت ہوا کہ جادو سکھانا شیطانوں کا کام ہے اور جادو کرنا عمل عملیات جھاڑ پھونک ، تعویذ و دم کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے پیدا و مقرر کردہ مادّی و ٹھوس اسباب و ذرائع کے اٹل پن کی تردید و نفی کرنا ہے۔ اور ایسا کرنا کس کا کام ہو سکتا ہے غور کر لیا جا سکتا ہے۔

سحر کے معنی دھوکہ دینے کے فن کے ہیں اور یہ دھوکہ صرف نظر کو دیا جا سکتا ہے۔ (اعراف:۱۱۶) نظر دھوکا کھانے سے ذہن میں خیالات پیدا ہوتے ہیں ( طہ: ۶۶، ۶۷)

قرآن سے ثابت ہے کہ ہر زمانے میں لا الہ الا اللہ بلا شرکت غیرے تنہا و اکیلے تمام مخلوقات کے پالن ہار، حاجت روا ، فریادرس اور مشکل کشا اللہ ہی ہونے اور ہر نفس کو اسکے اپنے ہی کئے ہوئے اعمال کی جزا ء دینے کے لئے موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کی باتوں کو کائنات کی نشانیوں عقل و فطرت کے تقاضوں کے تحت ، اللہ ہی کے تنہا کار ساز ہونے کی حقیقت واقعہ کا انکار کرنے کی جب کوئی گنجائش ہی نہ ہوتی تو مندرجہ بالا باتوں کو سحر (نظر کا دھوکا) کہہ دیتے اور ان باتوں کو بیان کرنے والوں کو (پیغمبروں ) کو ساحر ( نظر کا دھوکا دینے والا) کہتے ( ذاریات:۳۹، ۵۲، طہ:۶۳) اور جب ان کے وہ مطالبات جو قوانین طبعی کے خلاف ہوتے تو ان کو اللہ اپنی قدرت سے معجزہ کے ذریعے پوری کر دیتا تو ان کو سحر ہی نہیں بلکہ سحر مبین ( نظر کا کھلا دھوکا) قرار دیتے تھے۔ چنانچہ مائدہ( آیت ۱۱۰، صف:۶) میںعیسیٰ  ؑ کے معجزوں کو سورہ یونس( آیت : ۷۶، نمل آیت :  ۱۳) میں موسیٰ  ؑ کے معجزوں کو سورہ انعام آیت ۷ میں قرآن کو اور ھود( آیت :  ۷)  میں (السباء: ۴۳، صٰفٰت آیت: ۱۵، احقاف آیت:۷)میں موت کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور آخرت کی ابدی زندگی کی باتوں کو سحر مبین (نظر کا کھلا دھوکا) کہے ہیں مندرجہ بالا سے قطعی ثابت ہے کہ کافر بھی سحر کو محض نظر کا دھوکا ہی سمجھتے تھے۔ مزید تصدیق کے لئے ملاحظہ ہو ’’ اور اگر ہم ان کیلئے آسمان میں کوئی دروازہ بھی کھول دیں پھر یہ دن کے وقت اس میں چڑھ بھی جائیں تب بھی یہی کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے۔ بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے‘‘۔ ( الحجر:۱۴،۱۵) اور خود قرآن میں بھی محض نظر کے دھوکا کھانے کو سحر کہا گیا ہے ۔ ملاحظہ ہو یہی تو وہ آگ ہے جس کو تم (دنیا میں ) جھٹلایا کرتے تھے کیا یہ بھی نظر کا دھوکا ہے یا تم کو دکھائی نہیں دے رہا ہے۔‘‘ (طور:۱۴،۱۵)

عموماً جادو سے نفع و نقصان ہونے کے ثبوت میں جادو سے میاں بیوی میں جدائی ہونے کی بات کہی جاتی ہے جس کا ذکر بقرہ ۱۰۲ میں ہے جو حسب ذیل ہے ۔ اور جو اتارا گیا دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر بابل میں  …  وہ دونوں اس وقت تک کسی کو بھی نہیں سکھاتے جب تک کہ سیکھنے آنے والوں کو خبردار نہ کر دیتے تھے یہ کہ ہم محض آزمائش ہیں پس تم کفر مت کرو ( اس کے بعد بھی) پس سیکھنے والے ان دونوں سے وہ چیز سیکھتے تھے ( جس کا نام)’’میاں بیوی میں جدائی ڈالنے والا‘‘   تھا  اور اس کے ذریعہ وہ کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے مگر اللہ کے اذن سے۔ یہ لوگ وہ سیکھتے تھے جو سراسر نقصان پہنچانے والا ہے اور کسی قسم کا بھی نفع پہنچانے والا نہیں اور اچھی طرح جانتے تھے کہ ایسا کام کرنے والے کا آخرت میں کچھ بھی حصہ نہیں ہے اور یقیناً ان کے لئے یہ کس قدر نقصان دہ ہے جس کے پیچھے یہ اپنی جانیں کھپا رہے ہیں۔کاش وہ اس گھاٹے کو جانتے ہوتے ۔اس آیت میں باذن اللہ کے الفاظ بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔

چنانچہ باذن اللہ کے معنی حکم الٰہی کے معنی لئے جائیں تو کھلا مطلب یہ ہوگا یہ عمل کرنے والوں میں سے صرف اسی کے عمل میں اثر ہوگا ( میاں بیوی میں جدائی پڑے گی جس کے عمل کو اثر کرنے کا اللہ حکم دیں گے) اس لحاظ سے سب سے بڑا عمل کرنے والا یعنی جادو میں اثر ہونے کا حکم دینے والا کون قرار پاتا ہے۔غور کر لیا جا سکتا ہے۔

باذن اللہ کے معنی قانون الہی کے اگر لئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ میاں بیوی میں جدائی قانون الٰہی ( طلاق ، خلع ‘کسی کی موت ) ہی سے ہو سکتی ہے اسلئے عمل عملیات سے تعویذ گنڈے سے میاں بیوی میں جدائی نہیں ڈالی جا سکتی ۔ بقرہ:۱۰۲ کے ابتدائی الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی کتاب سے لا علمی و غفلت سے کتاب پر ایمان کے دعویدار اخلاق کی اس پستی تک پہنچ جاتے ہیں جس کے بعد کوئی پستی نہیں ہے ۔ اس آیت کا منشاء الہی یہ ہے کہ قرآن پر ایمان لانے والے قرآن سے لا علم نہ رہیں اور نہ غفلت برتیں ورنہ ان کا بھی وہی حال ہوگا جس کو النساء آیت ۵۱ میں بیان کیا گیاہے’’ کیا تو ان کو نہیں دیکھا جن کو کتاب کا ایک حصہ دیا گیا اور وہ  جبت اور طاغوت پر ایمان لاتے ہیں‘‘ جبت کے اصلی معنی بے حقیقت و بے اصل اور بے فائدہ چیز کے ہیں اسلام کی زبان میں جادو ، کہانت ، جوتشی ، فال گری ، ٹونے ٹوٹکے ، شگون، مہورت اور تمام دوسری وہمی و خیالی باتوں کو جبت سے تعبیر کیا گیا ہے جسے ہم اردو زبان میں اوہام کہتے ہیں (تفہیم جلد ۱ ۔سورہ النساء ۔نوٹ نمبر۔ ۸۱)

دین عقل والوںکیلئے ہے اور عقل والوں کیلئے جادو کی حقیقت سمجھنے کیلئے حسب ذیل واقعات جو قرآن میں بیان کئے گئے پیش ہیں:

(1) مقابلہ میں جادو گروں کو اپنے کرتب پہلے دکھانے کی جیسے ہی موسیٰؑنے اجازت دی وہ اپنی رسیاں اور لاٹھیاں اپنے کرتب سے اس طرح پھینکے کہ لوگوں کے نظروں کو دھوکا دیدیا اور نظروں کو بڑا دھوکا دیکر لوگوں کو ڈرادیا (اعراف آیت:۱۱۶)

(2) جیسے ہے موسیٰ  ؑ نے پہلے اپنے کرتب دکھانے کی جادو گروں کو اجازت دی پس جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں اپنے کرتب سے اس طرح ڈالے کہ موسیٰؑ  کو وہ حرکت کرتی ہوئی نظر آئیں۔  ( طہ: آیت ۶۶)

مندرجہ بالا آیات سے قطعی ثابت ہے کہ جادو گر صرف اپنے فن، ہاتھ کی صفائی اورذہن کی چالاکی سے اپنے کرتب کے ذریعہ لوگوں کو دھوکا دئے نہ کہ منتر سے ‘جبکہ نظر کا دھوکا کھانے سے ذہن کا متاثر ہونا نہ صرف قانون الہی ہے بلکہ ہر ایک کے تجربہ و مشاہدہ میں ہے۔

دوسرا حقیقت واقعہ جو ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جادوگروں کے کرتب سے صرف وہی لوگ متاثر ہوتے جو ان کے کرتب کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور جو نہیں دیکھ رہے ہوتے ان کی نظریں دھوکا نہیں کھاتیں۔

ملحوظ رہے کہ نبی کریمؐ پر جادو آپ کے سامنے نہیں کیا گیا اسلئے آپ کا جادو سے متاثر ہونے کی روایت جھوٹی قرار پاتی ہے مزید وضاحت کے لئے تفہیم القرآن جلد ۴ سورہ زخرف نوٹ نمبر ۴۴ پیش ہے’’ایک جادوگر زیادہ سے زیادہ جو کچھ کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک محدود رقبہ میں جو لوگ اس کے سامنے موجود ہوں ان کے ذہن پرایسا اثر ڈالے جس سے وہ یہ محسوس کرنے لگے کہ پانی خون بن گیا ہے …… اس محدود د رقبہ کے اندر بھی کوئی پانی حقیقت میں خون نہ بن جائے گا بلکہ دائرہ سے نکلتے ہی پانی کا پانی رہ جائے گا …   رہی بات کہ پورے ملک میں قحط برپا ہو جائے یا تمام ملک کی نہریں اور چشمے اور کنویں خون سے بھر جائیں  …… یہ کام آج تک نہ کوئی جادو گر کر سکا ہے نہ جادو کے زور سے کبھی یہ ہو سکتا ہے ایسے جادو گر کسی بادشاہ کے پاس ہوتے تو اسے فوج رکھنے اور جنگ کی مصیبتیں جھیلنے کی کیا ضرورت تھی جادو کے زور سے وہ ساری دنیا کو مسخر کر سکتا تھا۔ بلکہ جادو گروں کے پاس یہ طاقت ہوتی تو وہ بادشاہوں کی ملازمت ہی کیوں کرتے؟ خود بادشاہ نہ بن بیٹھتے؟ …  اور صریحاً یہ نظر آتا ہے کہ اس ( فرعون) کے نزدیک جادو جھوٹی چیز تھی جس کا الزام موسیٰ  ؑ پر رکھ کر وہ آپ کو جھوٹا مدعی نبوت قرار دیتا تھا۔

مندرجہ بالا تشریح میں ’’ذہن پر ایسا اثر ڈالنے‘‘کی بات غیر صحیح ہے۔ کیوں کہ جادوگر اپنے جادو سے ذہن کو متاثر نہیں کر سکتا بلکہ نظر کو دھوکا دیتا ہے اور نظر دھوکا کھانے سے ذہن کا متاثر ہونا قانون الٰہی ہے۔یہ مسلمات میں سے ہے کہ کسی بھی معاملہ میں اس کے ماہرین کی جماعت کی جماعت اپنے قول و عمل سے جس چیز کا ثبوت دیدیں تو اس کے غلط ہونے کاامکان باقی نہیں رہتا اسی لئے جادو سے نفع و نقصان پہنچنے کے عقیدہ کو جھوٹ و غلط ثابت کرنے کے لئے ماہر جادوگروں کی جماعت کے قول و عمل کو قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔

ملاحظہ ہو (۱)’’ اور جب جادوگروں کی (پور ی جماعت) فرعون کے پاس حاضر ہوئی تو وہ فرعون سے کہنے لگے کہ اگر ہم غالب آگئے تو ضرور ہم کو بڑا صلہ ملے گا‘‘۔ (اعراف:۱۱۳) یہی بات شعراء آیت نمبر ۴۱ میں بھی بیان ہوئی ہے۔

یہ واقعہ اسی لئے ہی تو بیان کیا گیا ہے کہ ایک جادو گر ہی نہیں بلکہ جادوگروں کی پوری جماعت بھی اپنے جادو سے خود اپنی ذات کے لئے کوئی نفع بھی حاصل نہیں کر سکتے تو بھلا وہ اپنے جادو سے دوسروں کو کیسے نفع پہنچا سکتے ہیں۔

جادو میں اگر واقعی اثر ہوتا تو وہ فرعون سے انعام کی بھیک مانگنے کی ذلت کی بجائے فرعون کے خزانہ کو اپنے جادو سے حاصل کر سکتے تھے۔ یہ ماہر جادوگر موسیٰ  ؑسے مقابلہ میں ہار جاتے ہیں تو بے اختیار سجدہ میں گر کر رب اللعالمین پر ایمان لانے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے کرتب لاٹھیوں ، رسیوں کے ذریعہ لوگوں کی نظروں کو دھوکا دینے کی جرم کی بخشش مانگتے ہیں جس پر فرعون جادوگروں کے ہاتھ اور پیر کو مخالف سمتوں سے کاٹنے اور بالآخر سولی دینے کا حکم دیتا ہے تو فرعون کی سزا سے یہ ماہر جادو گر اپنے جادو کے ذریعہ نہ بچ سکے بلکہ فرعون کی سزا کو برداشت کرنے کیلئے صبر کے فیضان کی رب سے التجاء کرتے ہیں ۔ اعراف، ۱۲۲ تا ۱۲۶ طہ:۷۱ تا ۷۳ ، شعراء:۴۶ تا ۵۱) مندرجہ بالا واقعہ سے ثابت ہے کہ جادو گر خود اپنے جادو کے ذریعہ اپنی ذات کو نقصان سے نہیں بچا سکے تو پھر بھلا دوسروں کو اپنے جادو سے کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

وَلَا يُفْلِحُ السّٰحِرُوْنَ۝۷۷ (یونس) (اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوا کرتے) وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ اَتٰى۝۶۹ (طٰہٰ) (اور جادوگر کہیں بھی جاؤے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا) مندرجہ بالا دونوں آیتوں میں لَا یُفْلِحُ سے مراد یہ ہے کہ جادو گر اپنی زندگی کی ادنیٰ ترین ضرورت بھی اپنے جادو سے پوری نہیں کر سکتا۔

جادو کی حقیقت سمجھنے کیلئے ایک اور اہم بات لفظ صَنَعُوْا( وہ بنائے یا وہ کئے ) ( ھود: ۱۶،  رعد:۳۱) وَاصَنَعَ (ھود:۳۷)(اور بنا)یَصْنَعُوْنَ(وہ بناتےہیںکرتےہیں) (مائدہ:۱۴، ۶۳، نور: ۳۰) ۔

مندرجہ بالا لفظ صُنْعَ  سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ جادو گر صرف اپنے فن ( ٹرکس Tricks) ہی سے تماشائیوں کی آنکھوں کو دھوکا دیتے ہیں نہ کہ کوئی منتر جپ کر نہ کوئی پھونک مار کر۔جادو کی حقیقت سمجھنے کے لئے دوسری اہم بات طٰہٰ آیت ۶۹ ’’مَکَرٌ‘‘ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی پوشیدہ طور پر تدبیر کرنا ہے اور تدبیر کا تعلق عمل سے ہے جپنے یا پھونکنے سے نہیں ۔

جادو کی حقیقت سمجھنے کے لئے تیسری اہم بات یہ ہے کہ سورہ  طـٰہٰ ( آیت :۶۴) میں جادوگروں کے جادو کو  ’’ کَیْدَکُمْ ‘‘ (اپنی تدبیریں کرو) (آیت: ۶۰) میں کیدہ ( اس کا مکر ) کے الفاظ ہیں کید کا تعلق بھی عمل سے ہے جپنے یا پھونکنے سے نہیں ہے۔

نبی کریمؐ کا جادو سے متاثر ہونے کی حقیقت

نبی کریم ؐکی دعوت  لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ  ( پیدا کرنے والا ، پالنے والا، موت و حیات کا مالک ، جنت و دوزخ میں ڈالنے کا اختیار رکھنے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں ) کائنات کی اٹل حقیقت واقعہ ہونے کی بنا پر آہستہ آہستہ لوگ اس کو قبول کر رہے تھے تو قوم کے سرداروں نے اس دعوت کو قبول کرنے سے روکنے کیلئے عوام سے کہتے تھے ۔’’تم ایسے شخص کی پیروی کر رہے ہو جس پر جادو کر دیا گیا ہے۔‘‘ (اسریٰ:۴۷، فرقان:۸)۔اور نبی کریمؐ  کو جادوزدہ ( سحر زدہ) کہنے والوں کے بارے میں فیصلہ الٰہی ’’پس وہ گمراہ ہو گئے ہیں پس وہ راہ نہیں پا سکتے‘‘۔(اسریٰ: ۴۸، فرقان: ۹)

مندرجہ بالا ارشادات الٰہی کے باوجود محض (گھڑی ہوئی) روایت کی بناء پر نبی کریمؐ کا جادو سے متاثر ہونا مانا جاتا ہے جس سے قرآن کی بات غلط قرار پاتی ہے۔

سب کا مسلمہ ہے کہ جادو سے نبی کریمؐ میں تعطل دماغ کی شکایت پیدا ہوئی لیکن سادہ لوحی سے زخمی ہونے اور بیمار ہونے کی مثال دیکر آپ کی رسالت کو جادو سے غیر متاثر ہونے کی بات کہی جاتی ہے۔ جو قطعی متضاد اور ناقابل یقین بات ہے اور نادانی کا عالم یہ ہیکہ معوذتین کا نزول نبی کریمؐ سے جادو کے اثرات دور کرنے کیلئے کہا جاتا ہے حالانکہ سب کا مسلمہ ہے کہ نبی کریمؐ پر جادو مدینہ میں کیا گیا اورمعوذتین مکہ ہی میں نازل ہو چکی تھیں۔ چنانچہ نزول کے لحاظ سے (سورۃ الفلق: ۲۰)  ویں  اور  ( سورۃ الناس ۲۱)  ویں ہے۔

اور نبی  کریم ؐ  کو جادو کئے جانے کا علم حالت نیند میں فرشتوں کے ذریعہ ہوا آپؐ کے سامنے جب جادو نہیں کیا گیا تو آپ جادو سے کیسے متاثر ہو سکتے ہیں۔سب نے جادو سے نبی کریمؐ کے متاثر ہونے کی نفی محض انبیاء کی صفت ’’عصمت‘‘ہونے کی بناء پر کیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خیال میں غیر نبی ( عام آدمی) جادو سے ضرور ہی متاثر ہوتا ہے جو بالکل غلط ہے کیوں کہ قرآن میں جادو سے صرف نظر کو دھوکا دینے کی بات بیان ہوئی ہے۔

دنیا کی قلیل و ادنیٰ و عارضی زندگی کے معاملات میں ہر ایک عقل ہی سے کام لے کر نقصان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے لیکن دین کے معاملہ میں عقیدت سے زیادہ اور عقل سے بہت ہی کم کام لیا جاتا ہے حالانکہ ابدی زندگی کے معاملات میں دنیا سے کہیں زیادہ عقل سے کام لینا ضروری ہے ورنہ ابدی گھاٹے سے بچنا ممکن ہی نہیں۔

نبی  کریم ؐپر جادو دنیا ہی میں کیا گیا ہے اس سے ثابت ہے کہ جادو کا تعلق صرف دنیوی زندگی سے ہے اس لئے راقم الحروف کو جادو سے نقصان پہنچا کر اپنے عقیدہ کی صحت کا  ثبوت دیجئے ۔ راقم الحروف عاصی کو جب جادو سے نقصان نہیں پہنچا سکتے تو نبی کریمؐ کا جادو سے متاثر ہونے کی بات کس قدر جھوٹ و غلط ہے غور کیا جا سکتا ہے۔

اس سے قطعی ثابت ہے کہ جادو سے یا عمل عملیات تعویذ و دم سے جسمانی یا مالی نفع و نقصان پہنچنے کی تمام باتیں قطعی غلط و جھوٹ ہیں کیوں کہ یہ شیطان کی پیدا کردہ محض وہم ہی وہم ہیں جن میں مبتلا کر کے بنی آدم کو مستحق دوزخ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

دوسرے دار العمل و دار الاسباب میں اسباب اختیار کئے بغیر اور ان پر عمل کئے بغیر نفع و نقصان پہنچنے کی بات قطعی غلط و جھوٹ ہے جادو کے محض وہم ہونے کو شہنشاہ جادوگر مسٹر پی سی سرکار جونیر نے بھی بیان کیا ہے جس کو روزنامہ خون ناب مورخہ ۲۵/ جون ۱۹۷۹؁ء روزنامہ منصف،مورخہ ۲۰/ جون ۱۹۷۹؁ء روزنامہ سیاست۔ مورخہ ۸؍ جولائی ۱۹۷۹؁ء اور ہفتہ روزہ نشیمن مورخہ ۲۱ /ڈسمبر ۱۹۸۶؁ء شائع ہوا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ میں بار بار اس چیز کو دہراتا آیا ہوں اور لوگوں کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ مجھ میں کوئی مافوق البشری طاقت نہیں ہے میرا فن سائنس ، آرٹ اور نفسیات پر مبنی ہوتا ہے۔ میں چند ٹیکنیکی صلاحیتوں کا سہارا لے کر عوام کو بیوقوف نہیں بناتا ہوں بلکہ میرا مقصد تماشائیوں کے لئے بہترین تفریح فراہم کرنا ہے میں عوام کو توہمات کے چنگل سے آزاد کروانا چاہتا ہوں‘‘۔

جادو تعویذ عمل عملیات سفلی ہوں یا علوی ، عبادتی ہوں یا ساحرانہ‘ ان کو محض زبان ‘الفاظ اور ناموں کی بناء پر ایک کو جائز دوسرے کو ناجائز قرار دینا نری سادہ لوحی ہے کیونکہ ان سب میں ایک ہی تصور عقیدہ کار فرما ہے کہ یہ چیزیں اللہ کے مقرر کردہ مادّی نظام اسباب کے خلاف و متوازی بلامادّی و ظاہری اسباب و ذرائع کے بھی پوشیدہ ، غیبی غیر محسوس طور پر اثر کرتی ہیں۔

اس لئے اللہ کے رسولؐ نے اتمائم شرک (ابوداؤد) ( ہر قسم کی تعویذ شرک ہے) فرمایا ہے جس سے آیت الکرسی یا قرآن کی تعویذ بھی شرک قرار پاتی ہے۔ کیوں کہ ا س سے  بندے کا تعلق اس کے رب سے کٹ جاتا ہے۔جس سے ثابت ہوا کہ بندہ و رب کے راست تعلق میں کمزوری یا خرابی پیدا کرنے والی ہر چیز غلط و جھوٹ ہے چاہے وہ معوذتین کا دم ہی کیوں نہ ہو اورفال کھلوانے اور فال کی باتوں کو صحیح سمجھنے والوں کا تعلق قرآن سے کٹ جانے کی بات اللہ کے رسولؐ نے فرمائی ہے (ابوداؤد) اور اللہ کے رسولؐ نے تعویذ ، جھاڑ پھونک اور داغ لینے سے بچنے والوں کو بلا حساب جنت میں داخل کئے جانے کی بشارت دی ہے۔(بخاری)

آج تک کوئی ایسا جادو یا دم یا کڑا یا چھلہ یا دھاگہ یا گنڈہ یا تعویذ دریافت نہ ہو سکا جس سے بلا مادّی وظاہری اسباب کے جان و مال ، گھروں، بنکوں کی حفاظت ہو سکے یا بغیر کھائے پیئے کے پیٹ بھر جایا کرے۔

بھانا متی سے بنک میں نوٹ اور ملز میں کپڑے نہیں جل سکتے شہنشاہ جادوگر بغیر ٹکٹ کے اپناشو نہیں بتاتے اور اپنی بیماری کا علاج اپنے جادو یا عمل عملیات سے کرنے کی بجائے حکیم یا ڈاکٹر ہی سے کرواتے ہیں کوئی بھی قفل کی بجائے جادو یا آیۃ الکرسی یا کوئی اور تعویذ یا دم سے کام نہیں لیتا تاریخ انسانی گواہ ہے کہ کوئی جادوگر اپنے جادو سے یا کوئی عامل اپنے عملیات سے کبھی بھی نہ بادشاہ بن سکا نہ کوئی ملک کا صدر نہ کوئی الیکشن ہی جیت سکا اور نہ کوئی اپنے موکلوں کے ذریعہ بنک کے نوٹ حاصل کر سکا نہ کسی ملز کے کپڑے کے تھان؟

الغرض شیطان نے اللہ تعالی ہی کے بلا شرکت غیرے تنہا و اکیلے تمام مخلوقات کے پروردگار حاجت روا اور مشکل کشا و داتا ہونے کی حقیقت کے خلاف جھوٹے و غلط عقائد پھیلایا اور آج بھی پھیلائے جارہا ہے جس کے خلاف قرآن کے ذریعہ کوشش کرنا ہر اس شخص پر فرض ہے جو اللہ تعالی کو الٰہ واحد مانتا ہے چنانچہ فرمایا گیا اللہ کو رب ماننے اور اس پر قائم رہنے کی کوششیں کرنے والوں کو خوف اور غم سے محفوظ ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔ (احقاف ۱۳)

چور و ڈاکو تو صرف جان و مال کو نقصان پہنچاتے ہیں لیکن قبروں درگاہوں ، آستانوں، چھلوں اور آثار سے فیض و برکت حاصل ہونے کی باتیں پھیلانے والے فال کھولنے اور حاضرات لگانے والے تعویذ و دم عمل عملیات کرنے والے چھلے و نقوش بیچنے والے عوام کو ابدی گھاٹے میں مبتلا کر  رہے ہیں حالانکہ ابدی گھاٹے میں مبتلا کرناصرف شیطان ہی کا کام ہے۔

ملحوظ رہے کہ دنیا کے ہر گھاٹے کی تلافی کسی نہ کسی طرح کر لی جا سکتی ہے اور موت تو قطعی طور پر اس کی تلافی کر دیتی ہے لیکن ابدی گھاٹے کی تلافی ناممکن ہے اور ابدی گھاٹے سے بچنے کی کوشش موت سے پہلے دنیا ہی میں کرنا ہے اس لئے رب سے دعا کرتے ہوئے قرآن ، سنّت رسولؐ اور اسوۂ صحابہؓ  کی روشنی میں اپنے عقائد و اعمال کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے کیوں کہ ایسی کوشش کئے بغیر ابدی گھاٹے سے بچنا ناممکن ہے اللہ تعالی سے التجاء ہے کہ ہم سب کو قرآن کی روشنی میں عقائد و اعمال کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرما آمین ثم آمین۔