دینِ فطرت

واپس فہرست مضامین

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان بار بار رحم کرنے والا ہے

 

دینِ فطرت

 

فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۝۰ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۝۰ۤۙ ۝۳۰ۤۙیہی فطرت ہے اور اسی فطرت پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق میں تغیّر و تبدیلی نہیں ہوتی، یہی دینِ قیّم (دینِ اسلام) ہے۔ (سورہ الروم)

مطلب یہ ہے کہ انسان کی جو فطرت ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیز بدل نہیں سکتی۔ انسانوں کی جو فطرت ہے وہی دینِ قیم ہے۔ دینِ قیم کا مطلب یہ ہے کہ یہ بالکل سیدھا سادہ دین ہے۔ اس میں نہ کوئی اسرار ہیں اور نہ دقیق و مشکل باتیں اس لئے اوّلاً یہ سمجھنا ضروری ہے کہ فطرت کیا ہے تاکہ دین آسانی سے سمجھ میں آجائے اور اس کو قبول کرنے میں کوئی گرانی محسوس نہ ہو۔

فطرت کا تعیّن اور فطری خواہشات

انسان کی وہ حالت جو سب انسانوں میں یکساں پائی جاتی ہے خواہ وہ کسی ملک و قوم اور نسل سے ہوں مثلاً پیدا ہونا‘ مرنا‘ بچپن‘ لڑکپن‘ جوانی‘ بڑھاپے کے دور‘ اعضاء و جوارح سے وہی کام لینا جس کام کے لئے وہ بنائے گئے ہیں۔ ہاتھ سے پکڑنا‘ پاؤں سے چلنا‘ آنکھ سے دیکھنا‘ کان سے سننا وغیرہ، شادی و غم کے احساسات‘ انس و محبت‘ غضب و عداوت‘ خوف و شکر وغیرہ کے جذبات‘ اطاعت و سرافگندگی‘ تقلید و اتباع‘ سعی و عمل کا فطری ملکہ، یہی سب انسانوں کی فطرت ہے۔ زندگی قائم رکھنے کے لئے اکل و شرب‘ لباس‘ راحت‘ امن و عافیّت و زینت کی خواہش‘ جنسِ قوی و صنفِ نازک کا ایک دوسرے کی جانب رحجان‘ سعی و عمل کی جزاء اور حکومت و ابنائے جنس کے مقابلہ میں تفوق و برتری کی خواہش۔ بے خوف و حزن زندگی گزارنے کی تمنّا زر و مال اور اولاد کی طلب وغیرہ، یہ وہ فطری خواہشات ہیں جو تمام انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔ غور کیا جائے تو ان کے علاوہ انسان کی کچھ اور خواہشات بھی ہیں۔ مثلاً ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے اور جوان رہنے اور ہمیشہ شادان و مسرور رہنے کی تمنّا اور عیش و عشرت کی طلب۔ بلا روک ٹوک اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی خواہش‘ خیر و خوبی‘ حسن و جمالِ و کمال کی تمنا جس کو زوال نہ ہو، بقا ہی بقا ہو۔ جاننے اور سمجھنے کی طلب اور اپنے مالک و حاکم‘ رب و مولیٰ سے ملنے اور اس کو دیکھنے کا شوق‘ عارضی و ابدی درد و اذیّت سے محفوظ رہنے کی خواہش۔ یہ خواہشات بھی تمام انسانوں میں پائی جاتی ہیں اور بالکلیہ فطری ہیں۔ فطرت و فطری خواہشات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ ان کے تغیر و تبدّل پر‘ ان کے پیدا کرنے اور فنا کرنے پر انسان کو دسترس نہیں ہے۔ سر زمینِ بود و ماند کے اختلاف سے زبان بدل جائے‘ قومی امتیاز پیدا ہوجائے۔ رسم و رواج اور تمدن و معاشرت کے طور و طریق مختلف ہوجائیں مگر فطرت کی یکسانیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ زمانہ کے انقلابات سے تمدن و معاشرت اور علوم و فنون کے زوال و کمال اور ان کے ارتقاء کی مختلف صورتیں پیدا ہوئیں مگر یہ تمام تغیرات نہ فطرتِ انسانی کو بدل سکے اور نہ فطری خواہشات و جذبات کو‘ یہی نہیں بلکہ ابتدائے کائنات سے اب تک انسانی فطری جذبات و احساسات اور قوائے دماغی و جسمانی کو حرکت میں لانے والے محرکات بھی ایک ہی ہیں مثلاً ہزاروں برس پہلے کا انسان اولاد ہونے سے خوش ہوتا تھا اور اولاد مرجانے سے غمگین‘ تو آج کا ترقی یافتہ انسان بھی اولاد کے پیدا ہونے سے خوش اور مرنے سے غمگین ہوتا ہے۔ ہزاروں برس پہلے کا انسان اپنے چاہنے والے سے محبت کرتا تھا اور اپنے دشمن سے نفرت و عداوت تو آج کا ترقی یافتہ انسان بھی اپنے چاہنے والے سے محبت اور دشمن سے نفرت و عداوت کرتا ہے۔ ہزاروں برس پہلے کا انسان نفع حاصل کرنے اور ضرر سے بچنے کے لئے اپنے اعضاء و جوارح کو حرکت دیتا اور فکر و عمل کو کام میں لاتا تھا، اس زمانے کے انسان کی بھی یہی حالت ہے۔ ہزاروں برس پہلے کے انسان کو حسن و جمال و کمال اگر اپنی طرف کھینچتے تھے تو اس زمانہ کے انسان کو بھی یہ چیزیں اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ نیز یہ کہ انسانی جسم و صورت اور اس کی نشو نما اور ساخت و پرواخت کا ایک ہی نظام ابتدائے کائنات سے جاری و ساری ہے اس کے خلاف نہ کوئی انسان حرکت کرسکتا ہے اور نہ اس کی اتباع و پابندی کے بغیر انسان کی کوئی خواہش پوری ہوسکتی ہے۔ مثلاً بھوک‘ پیاس اور اولاد کی فطری خواہش انہی طریقوں سے پوری ہوسکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمادیئے ہیں یا ہوا‘ دھوپ‘ غذا و پانی کو استعمال کئے بغیر زندہ رہنے کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی۔ نہ صرف یہ بلکہ ہوا‘ دھوپ‘ غذا و پانی استعمال کرنے میں اگر کمی و بیشی کی جائے تو صحتِ جسمانی کا نظام بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ پس ان تمام امور کی یکسانیت اس امر کی واضح دلیل ہے کہ سب انسان ایک ہی اٹل نظامِ رحمت سے وابستہ ہیں اور انسانوں کی یہ فطری حیثیت گواہی دے رہی ہے کہ ایک اعلیٰ‘ قوی‘ قادر‘ رحمن‘ رحیم‘ علیم و حکیم ہستی تمام کائنات اور سب انسانوں کی خالق‘ رب‘ حاجت روا‘ پالنہار‘ مدّبر و فرماں روا ہے اور انسان پر نگران و حاکم ہے اور تمام انسان اسی کے بندے ہیں۔ اسی کے مقررہ نظام میں جکڑے ہوئے اور اسی کے محتاج ہیں۔ یہ ارشادات ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۝۰ۚ (سورہ انعام: 102‘ یونس: 3اور 32‘ فاطر: 13‘الزمر: 6‘ مومن: 62‘ 64) ترجمہ: (یہ اللہ ہی تمہارے حاجت روا ہیں۔) اور يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللہِ۝۰ۚ (سورہ فاطر: 15‘ محمد: 38) ترجمہ: (اے لوگو! تم سب اللہ ہی کے محتاج و بھکاری ہو۔) اور يٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِ۝۱۶ (سورہ الزمر) ترجمہ: (اے میرے بندو! مجھ ہی سے ڈرو۔) جاہل و نادان انسان کو اس کی فطری حیثیت، عہد و رب کے فطری تعلق کی نشان دہی کرتے ہیں اور اس حقیقت کو واضح کررہے ہیں کہ خالق و رب ہی سے وابستہ رہنا انسان کی فطری خواہش ہے اس کے بغیر انسان کو نہ امن و عافیت حاصل ہوسکتی ہے اور نہ اُس کے افکار و اعمال میں خیر و خوبی پیدا ہوسکتی ہے نہ اس کی عارضی و ابدی زندگی خوف و حزن سے محفوظ رہ سکتی ہے اور نہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کی بامراد زندگی پاسکتا ہے۔ انسان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اپنی عارضی و ابدی زندگی کی ان مذکورہ خواہشات کی تکمیل کے لئے اپنے خالق و رب کے مطیع و فرماں بردار اور اسی کے در کا بھکاری بنارہے۔ اسی سے ڈرے اور اسی سے محبت کرے۔ اسی کے نازل کئے ہوئے نورِ علم و ہدایت کی روشنی میں سفر حیات طے کرے۔ منزلِ مقصود کو پہنچنے کی یہی ایک سیدھی فطری راہ ہے۔ فَاعْبُدُوْہُ۝۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ۝۵۱ (سورہ اٰل عمران) ترجمہ: (پس تم اسی کی بندگی کرو، یہی سیدھی راہ ہے۔) اور یہی وہ فطری سیدھا سادہ طریقۂ زندگی ہے عوام کا کیا ذکر اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی جس سے ناواقف ہیں۔ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۴۰ (سورہ یوسف) ترجمہ: (یہی ہے سیدھا طریقۂ زندگی، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔)

حیاتِ انسانی کا اوّل و آخر

انسان میں عارضی و ابدی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی جو فطری خواہشات ہیں خالقِ فطرت نے بشانِ رحمانیت و رحیمیّت انسان کی ان فطری خواہشات کے لحاظ سے اس کی رہائش‘ بود و باش‘ رہنے سہنے کے لئے دو عالم بنائے دنیا و آخرت اور انسان کو دنیا و آخرت کے متعلق یہ علم و آگہی بخشی کہ تمہارے رہنے کا ایک مقام ’’دنیا‘‘ عارضی و چند روزہ ہے۔ وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُّسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۝۳۶ (سورہ البقرہ) ترجمہ: (تمہارے لئے زمین پر رہنا اور چند روز زندگی گزارنا ہے۔) دنیا کی زندگی عارضی و چند روزہ ہے یہ تو سب ہی جانتے ہیں، اس آیت کریمہ میں یہ تعلیم بھی ہے کہ اس چند روزہ زندگی میں انقلابات و حوادث سے ہر وقت پالا پڑتا رہتا ہے۔ یہاں کسی چیز کو قرار و ثبات نہیں، مال و اولاد، زن و زمین‘ راحت و شادمانی‘ فراغت و عافیّت بھی آنی جانی ہے۔ ان کے چلے جانے سے دل برداشتہ نہ ہونا چاہئے۔ اسی طرح مشکلات‘ مصیبتیں‘ حیرانی و پریشانی‘ دکھ بیماری‘ حزن و غم‘ فقر و فاقہ بھی آنی جانی ہے۔ ان کے آنے سے دل گرفتہ نہ رہے۔ ان فانی چیزوں سے دل نہ لگائے اور نہ ان کے ہاتھ آنے سے فخر و غرور پیدا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندے، جن کے فرائضِ حیات‘ بندگی و خلافت ہیں اگر ان کا دل دنیا کی دلچسپیوں‘ زینت و آرائش‘ عیش و عشرت‘ روپیہ‘ پیسہ میں اٹکا رہے گا یا دنیا کے حوادث و انقلابات میں وہ حیران و پریشان رہیں گے۔ تو اپنے فرائضِ حیات سے غافل ہوجائیں گے اور حیاتِ ابدی کے فطری مطالبہ کو بھول کر دنیا کے چند روزہ زندگی کو مطلوب و مقصود بنالیں گے اوران فطری حقوق و ذمہ داریوں کو بھول جائیں گے جس کا احساس انسان کی فطرت میں ہے اور جو فطری تعلقات کی بناء پر ایک دوسرے پر عائد ہوتے ہیں۔ مثلاً والدین پر اولاد کے اور اولاد پر والدین کے حقوق‘ زن و شوہر کے ایک دوسرے پر حقوق‘ دوست احباب‘ ہمسایہ‘ خادم‘ مزدور کے حقوق‘ حاکم و محکوم کے حقوق وغیرہ وغیرہ۔ ان ہی فطری تعلقات اور فطری حقوق کا احساس انسان کو صیانتِ حقوق اور تعزیری قوانین کی پابندی پر آمادہ کرتا ہے۔ فطری تعلقات و حقوق کی یہی بندشیں اس حقیقت کا پتہ دے رہی ہیں کہ حیات و موت کی یہ چند روزہ زندگی انسان کے لئے ایک امتحان اور آزمائش کا دور ہے۔ عشرت گاہ نہیں‘ امتحان گاہ ہے۔ سعی و عمل کا مقام ہے یہ ارشاد اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔  الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوۃَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۰ۭ ۝۲ۙ (سورہ الملک) ترجمہ: ((اللہ) جس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔) اور یہ کہ اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۷ (سورہ الکہف) ترجمہ: (ہم نے زمین پر کی چیزوں کو اس کے لئے باعثِ رونق بنایا تاکہ ہم آزمائیں کہ لوگوں میں کون اچھا عمل کرتا ہے۔) انسان کو چونکایا جارہا ہے کہ یہ چند روزہ زندگی اور یہاں کا سامانِ زیب و زینت تمہاری آزمائش و امتحان کے لئے ہے، تاکہ تم خالق و مخلوق کے حقوق و فرائض کو بہ حسن و خوبی ادا کر کے اپنے کردار کا بہترین نمونہ پیش کرو، یہ سامانِ زندگی ضرورتاً دل بہلانے کے لئے ہے دل لگانے کے لئے نہیں ہے۔ انسان جو اللہ کا بندہ ہے اس کو چاہئے کہ ان اسبابِ زینت سے دل بہلاتا رہے اور فرائض حیات (بندگیٔ رب و خلافتِ ارض) سے دل لگائے رکھے، بندگیٔ رب و خلافت کے فرائض ادا کرنے کو ’’القراٰن‘‘ صحیفۂ فطرت میں حسنِ عمل و عملِ صالح کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی واضح فرمائی گئی کہ زندگی گزارنے‘ دل بہلانے کا یہ چند روزہ سامانِ زینت و آرائش انسان کی سعیٔ و جدوجہد کا بدل نہیں ہے کیونکہ جو چیز امتحان و آزمائش کے لئے دی جائے (چاہے حکومت و اقتدار ہی کیوں نہ ہو) وہ امتحان میں کامیاب ہونے کا بدل نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اپنے رب کے پاس اس حسنِ عمل کے امتحان میں کامیاب ہونے کا جو اعلیٰ و لازوال بدل مقرر ہے۔ وہی سزا وارِ تمنا ہے انسان کی فطرت اسی کی خواستگار ہے۔ اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ اَمَلًا۝۴۶ (سورہ الکہف) ترجمہ: (مال و اولاد دنیا کی زندگی کی رونق ہیں (دھن پوت جیتے جی کا سنگار ہیں) اور باقی رہنے والا نیکیوں کا بدلہ تیرے رب کے پاس بہتر ہے اسی کی تمنا بہتر تمنا ہے۔) یہ ارشاد کہ نیکیوں (افکار و اعمالِ صالحہ) کا باقی رہنے والا بدل‘ اللہ جل شانہٗ کے پاس ہے۔ انسان کی بود و باش کے اُس عالم کی طرف نشان دہی کررہا ہے جو جزائے اعمال کا عالم ہے۔ انسان دوام و بقا چاہتا ہے۔ اسی لئے جزائے اعمال کا عالم دوامی‘ ابدی ہے ’’خلدین فیھا ابدا‘‘ (جس میں انسان ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔) وہی عالمِ جزاء انسان کا آخری ٹھکانہ ہے۔ جہاں حیات ہی حیات ہے اور وہی زندگی اصلی زندگی ہے۔ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ۝۰ۘ ۝۶۴ (سورہ العنکبوت) ترجمہ: (بے شک دار آخرت ہی حقیقی زندگی ہے۔) ’’ان العیش عیش الاٰخرۃ‘‘(حدیث) ترجمہ: (بے شک زندگی‘ آخرت ہی کی زندگی ہے۔) اس چند روزہ عالم میں اگر ہر چیز کو فنا و زوال ہے تو اُس ابدی عالم میں ہر چیز کو ثبات و بقا ہے۔  وَّاِنَّ الْاٰخِرَۃَ ہِىَ دَارُ الْقَرَارِ۝۳۹ (سورہ المؤمن) ترجمہ: (اور بے شک آخرت دار البقاء ہے۔) جہاں اللہ تعالیٰ کا قانونِ جزاء یہ ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ جیسے پُن ویسے ہی پاپ اور پُن۔ مَنْ عَمِلَ سَيِّئَۃً فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَہَا۝۰ۚ ۝۴۰(سورہ المؤمن) ترجمہ: (جو شخص برا کام یعنی خدا کی نافرمانی کرتا ہے تو اس کو برابر سرابر ہی بدلہ ملتا ہے۔) اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتا ہے۔ ان کے احکام و ہدایتوں کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے وہ وہاں ایک مسّرت بھری زندگی ’’الجنۃ‘‘ اور بے حد و حساب رزق پاتا ہے مَنْ عَمِلَ سَيِّئَۃً فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَہَا۝۰ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ يُرْزَقُوْنَ فِيْہَا بِغَيْرِ حِسَابٍ۝۴۰ (سورہ المؤمن) ترجمہ: (اور جو نیک کام کرتا ہے مرد ہو کہ عورت بشرطیکہ مومن ہو ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور وہاں ان کو بے حساب رزق ملے گا۔) یعنی انسان کے افکار و اعمال کی جزاء کے لحاظ سے حیاتِ بعد الموت کے دو جداگانہ عالم ہیں۔ ایک عالم دکھ و درد سے بھرا ہوا ہے۔ سَاۗءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا۝۶۶ (الفرقان) جہاں کی تکلیفیں غیر فانی و شدید ہیں۔) وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَاَبْقٰي۝۱۲۷ (سورہ طٰہٰ) اس نہ ختم ہونے والے عذابِ شدید کا نام عذاب النار ہے جس کی بڑی تفصیل ہے چند باتیں سنیئے یقین ہو تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں اور قلب تھرّا جائے۔

لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَــلٌ۝۰ۭ ۝۱۶ (سورہ الزمر) ترجمہ: وہ (ایک سوز و تپش کا عالم ہے جہاں کا اوڑھنا بچھونا آگ ہی آگ ہے۔) مُّقَرَّنِيْنَ فِي الْاَصْفَادِ۝۴۹ۚ (سورہ ابراہیم) ترجمہ: (جہاں کے رہنے والے بھاری بھاری زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔) سَرَابِيْلُہُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ ۝۵۰ۙ (سورہ ابراہیم) ترجمہ: (اُن کا لباس بھی آتش گیر مادّہ کا ہوگا۔ )  وُجُوْہُہُمْ مُّسْوَدَّۃٌ۝۰ۭ (سورہ الزمر: 60) ترجمہ: (ان کے چہرے نہایت سیاہ ہوں گے۔) وَوُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍ عَلَيْہَا غَبَرَۃٌ۝۴۰ۙ تَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ۝۴۱ۭ (سورہ عبس) ترجمہ: (ان پر ظلمت و غم کی کدورت چھائی ہوئی ہوگی۔) حَمِیْمًا وَّغَسَّاقًا (سورہ النبا: 25) ترجمہ: (گرم کھولتاہوا پانی اور پیپ۔) مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ (سورہ واقعہ: 52‘ صافات: 62‘ دخان‘ 43) ترجمہ: (اور ایک خاردار قسم کے پھل (جیسے چپل سینڈھ)) فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْھِیْمِ (سورہ واقعہ: 55) ترجمہ: (ان کا کھانا پینا ہوگا جس کو وہ بھوکے پیاسے اونٹوں کی طرح گر پڑ کے کھائیں گے۔) لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَایَحْیٰی (سورہ الاعلیٰ: 13) ترجمہ: (اس سوز و تپش کی زندگی سے نکلنا چاہیں گے تو نکل نہ سکیں گے اور مرنا چاہیں گے تو مر نہ سکیں گے۔)

اللھم انی اعوذ بک من النار

ترجمہ: (اے میرے اللہ میں پناہ چاہتا ہوں (دوزخ کی) آگ سے)

حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا (سورہ الفرقان: 76) ترجمہ: (اس کے برعکس فطری راہ ’’صراط مستقیم‘‘ پر چلنے والوں کی جزاء کا جو عالم ہے وہ کمال حسن و انتہائی خوبی کا مقام ہے۔) وَمَا عِنْدَ اللہِ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى۝۰ۭ (سورہ القصص: 60) ترجمہ: (وہاں کی تمام راحتیں اور نعمتیں، پورا سامانِ زندگی اعلیٰ و باقی رہنے والا ہے۔) فَہُوَفِيْ عِيْشَۃٍ رَّاضِيَۃٍ۝۷ۭ (سورہ القارعہ) ترجمہ: (جہاں کی زندگی انسان کی مرضی کے مطابق ہوگی یعنی وہاں کا عیش بھی دائمی، شباب بھی دائمی۔) لَا يَمَسُّہُمْ فِيْہَا نَصَبٌ وَّمَا ہُمْ مِّنْہَا بِمُخْرَجِيْنَ۝۴۸ (سورہ الحجر) ترجمہ: (جہاں نہ کوئی تکلیف ہوگی نہ اذیت اور نہ وہ (جنت سے) نکالے جائیں گے۔) لَا يَرَوْنَ فِيْہَا شَمْسًا وَّلَا زَمْہَرِيْرًا۝۱۳ۚ (سورہ دہر) ترجمہ: (وہاں کا موسم ہمیشہ راحت افزاء ہوگا نہ گرمی تکلیف دہ ہوگی نہ جاڑا۔) وَلَقّٰىہُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًا۝۱۱ۚ (سورہ دہر) ترجمہ: (ان کے چہروں پر غیر معمولی فرحت و شادمانی رہے گی۔) اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ الْيَوْمَ فِيْ شُغُلٍ فٰكِــہُوْنَ۝۵۵ۚ (سورہ یٰسٓ) ترجمہ: (وہ طرح طرح کی خوش فعلیوں میں مشغول رہیں گے۔) وَلَہُمْ فِيْہَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ (سورہ محمد: 15) ترجمہ: (ان کے خورد و نوش (کھانے و پینے) کے لئے ہمہ قسم کے بہترین پھل۔) فِيْہَآ اَنْہٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ۝۰ۚ (سورہ محمد: 15) ترجمہ: (اور خوش ذائقہ پانی کی نہریں۔) وَاَنْہٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ (سورہ محمد: 15) ترجمہ: (اور دودھ کی نہریں۔)وَاَنْہٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ۝۰ۥۚ (سورہ محمد: 15) ترجمہ: (لذیذ و بے ضرر شراب کی نہریں۔) وَاَنْہٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى۝۰ۭ (سورہ محمد: 15) ترجمہ: (اور مصفیٰ شہد کی نہریں ہوں گی۔) وَّكَوَاعِبَ اَتْرَابًا۝۳۳ۙ (سورہ النبا) ترجمہ: (اور ان کی بی بیاں نوعمر و نو خاستہ ہوں گی۔) كَاَنَّہُنَّ الْيَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ۝۵۸ۚ (سورہ الرحمن) ترجمہ: (ان کی صورت و رنگت اور ان کا بدن روشن و تاباں‘ سرخ و سپید ہوگا۔) جنت جو نیک اور شائستہ انسانوں کی بود و باش کا ایک اعلیٰ و پاکیزہ مقام ہے وہاں کھانے پینے اور جنسی خواہشات کی تکمیل کا سامان موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انسانوں میں کھانے پینے وغیرہ کی جو خواہشات ہیں وہ بہیمانہ، حیوانی نہیں، انسانی خواہشات ہیں۔ ان کو بہیمانہ صفات سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ وہ ایک شاہانہ زندگی ہوگی جو دنیا کے بڑے بڑے شہنشاہوں کو بھی نصیب نہیں۔ لَہُمْ مَّا يَشَاۗءُوْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۭ (سورہ الزمر: 34) اپنے رب کے پاس جو چاہیں گے وہ اُن کو ملے گا۔) ان تمام نعمتوں‘ راحتوں‘ شادمانیوں کے علاوہ سب سے زیادہ جان پرور‘ جانفزا‘ نعمت‘ دیدارِ الٰہی کی نعمت ہوگی۔ اِلٰى رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ۝۲۳ۚ (سورہ القیامہ)۔ جس طرح اس عالم میں دولت و حکومت کے لحاظ سے ایک کو دوسرے پر برتری و فوقیت ہے اسی طرح عالمِ آخرت کی خیر و ابقیٰ زندگی میں بھی سب اہلِ ایمان ایک درجے پر نہ ہوں گے وہاں بھی علم و عمل کے درجوں کے لحاظ سے فرق ہوگا۔ وَلَلْاٰخِرَۃُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَكْبَرُ تَفْضِيْلًا۝۲۱ (سورہ اسریٰ) ترجمہ: (آخرت کی یہ خیر و ابقیٰ زندگی اور اس کے درجات ان ہی بندگان حق کو عطا کئے جائیں گے جنہوں نے اس زندگی کا آزمائشی دور کامیابی کے ساتھ ختم کیا۔) فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (سورہ البقرہ: 132‘ اٰل عمران: 102) ترجمہ: (لہٰذا تم مرتے دم تک (اللہ اور اُس کے رسولؐ کے) مسلمان (مطیع و فرمانبردار) رہنا۔)

نعمائے جنّت و عقوباتِ نار مثالی نہیں

اس طرح عالمِ آخرت‘ ارتقاء انسانی کی آخری منزل ہے انسان سے دکھ یا سکھ کبھی جدا نہیں ہوسکتا۔ اس ارتقائی منزل میں سکھ بھی درجۂ کمال پر ہوگا اور دکھ بھی درجۂ کمال پر۔ دکھ‘ عذابِ نار کی وہی صورتیں بیان فرمائی گئی ہیں جن سے انسان فطرتاً فراری ہے اور جنت کی راحتیں اور نعمتیں بھی وہی گنائی گئی ہیں، انسان جن کا فطرتاً طالب ہے۔ ان میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو سمجھ میں نہیں آسکتی یا فطرت کے خلاف ہو‘ ان کو من و عن تسلیم نہ کر کے ان کی تاویل کرنا‘ بطور مثال سمجھنا‘ سمجھ کا قصور ہے۔ اسی طرح عالمِ آخرت کو روحانی عالم کہنا بھی کج فہمی کی علامت ہے۔ روحانی عالم‘ ایک ایسا نام ہے جس سے انسان کی بود و باش کا کوئی متعین نقشہ سامنے نہیں آتا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے عالمِ آخرت کی جو تفصیل بیان فرمائی ہے اس کو پڑھنے سے انسانی زندگی‘ پُر مسرت زندگی اور درد  و  اذیت کی زندگی کا پورا پورا نقشہ پیشِ نظر ہوجاتا ہے اور دل میں ابدی پُر مسرت زندگی کی آرزو اور درد  و  اذیت کی زندگی کا خوف دونوں پیدا ہوجاتے ہیں۔ دل اندر سے بے اختیار پکار اٹھتا ہے وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِـیْـلًا(سورہ النساء: 87، 122) ترجمہ: (اللہ سے بڑھ کر کس کی بات سچ اور واقعی ہوسکتی ہے۔) انسان کی زندگی کے یہی دو رخ‘ اول و آخر‘ (دنیا و آخرت)‘ انسان کے سامنے رکھے گئے اور اس کو اختیار دیا گیا کہ اگر وہ اپنے اعمال کا بدلہ اس چند روزہ دنیا ہی میں چاہتا ہے اور اسی عارضی زندگی کے بناؤ سنگار اور اس کے اسباب عیش و راحت کو مطلوب و مقصود قرار دیتا ہے تو اس کو اسی عالم میں اس کے نیک اعمال کا بدلہ دے دیا جائے گا۔ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَيْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِيْہَا وَہُمْ فِيْہَا لَا يُبْخَسُوْنَ۝۱۵ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ۝۰ۡۖ ۝۱۶ (سورہ ہود) ترجمہ: (جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کو مقصود بنالیتا ہے اس کی (نیکیوں) کا بدلہ ہم اسی دنیا میں پورا پورا دیتے ہیں ان کے لئے اس میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی (مگر) ان لوگوں کے لئے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔) وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا  فِیْھَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (سورہ ہود: 16) ترجمہ: ( اور دنیا میں وہ جو کچھ کئے تھے آخرت میں ناکارہ اور باطل ثابت ہوگا۔) یعنی دنیا ہی میں ان کو ان کی نیکیوں کا بدلہ شہرت‘ فراخیٔ عیش‘ مال و اولاد کی کثرت‘ جاہ و حشم کی صورت میں عطا کردیا جاتا ہے مگر یہ یاد رکھیں کہ ان کی آخرت کی ابدی زندگی درد و اذیت‘ سوز و تپش کی ہوگی، کرۂ نار ان کا ٹھکانا ہوگا۔

خالقِ فطرت و فطرت کو سمجھنے اور نہ سمجھنے، انسانیت کا مذہب‘ دینِ حق اختیار کرنے اور نہ کرنے کے یہ قدرتی اور ابدی نتیجہ ہیں اور ایسے ہی اٹل ہیں جیسے پانی میں پیاس بجھانے کی اور آگ میں جلانے کی خاصیّت ہے۔ یہ خاصیّت اللہ ہی نے پیدا کی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بدل نہیں سکتا۔ اسی طرح دینِ حق کو قبول یا رد کرنے کے جو نتیجہ ہیں خواہ عارضی ہوں یا ابدی ان کو بدلنے کا اختیار بھی کسی مخلوق کو نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ جل شانہٗ نے دینِ حق کو دینِ واصب فرمایا ہے وَلَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَہُ الدِّيْنُ وَاصِبًا۝۰ۭ (سورہ النحل: 52) ترجمہ: (آسمان و زمین کی سب چیزیں اسی کی مطیع ہیں اور لازمی طور پر اطاعت اسی کا حق ہے۔) مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں جو انسان کے سلسلۂ حیات جاری رکھنے کے لئے باذنِ الٰہی اپنا اپنا کام کررہی ہیں۔ ان کے افعال و آثار و خواص اور ان میں سے ہر ایک کے ظہور کا وقت جو اللہ جل شانہٗ نے مقرر کردیا ہے وہ اتنا لازمی و اٹل ہے کہ بجز اسی کے کوئی ان کو نہ آگے پیچھے کرسکتا ہے اور نہ بدل سکتا ہے۔ انسان بھی اللہ ہی کا مملوک و بندہ ہے اس لئے اس کو بھی اپنی فلاح و خیر کے لئے اللہ ہی کے مقرر کئے ہوئے ضابطۂ حیات کی پابندی ضروری ہے ورنہ خلاف ورزی پر اس کو عارضی و ابدی نتیجے بھگتنے پڑیں گے۔ ’’وَاصِبًا‘‘ کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ اس دین کے تعزیری قوانین کو نفس کی خباثت و شرارت دور کرنے میں وہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے قانون سے خباثت و شرارت دور نہیں ہوسکتی۔ نیز فطری جذبات کی تربیت کے لئے ’’دینِ حق‘‘ مزاجِ انسانی سے بالکل مطابق ہے، جس کی کما حقّہٗ اتباع کے بغیر انسان‘ اوصافِ انسانیت سے متصف نہیں ہوسکتا اور نہ اس کے سوا کسی اور طریقۂ تعلیم و تربیت کو مزاجِ انسانی قبول کرسکتا ہے۔ دینِ حق کی پیروی کے بغیر نہ انسان کی اصلاح ہوگی اور نہ اس کے نفس کا تزکیہ اور نہ وہ تزکیۂ نفس کی ابدی جزاء پاسکے گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرمادیا۔ وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۝۰ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۸۵ (سورہ اٰل عمران) ترجمہ: (جو شخص خدا کی فرمانبرداری کے سوا کسی اور طریقۂ زندگی کو اختیار کرے گا تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ بلحاظ آخرت نقصان میں رہے گا۔)

دینِ اسلام کے معنی

دینِ اسلام کے معنی ہیں انسان کا وہ طریقۂ زندگی جس میں اللہ تعالیٰ کے حسبِ ہدایت‘ از سر تاپا اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی ہے اور یہ اطاعت و بندگی ہر شعبۂ زندگی میں پورے انسانی تعلقات میں ہے‘ چاہے وہ تعلقات گھریلو زندگی کے ہوں‘ چاہے اجتماعی زندگی کے‘ چاہے وہ تعلقات راعی و رعیّت کے ہوں یا ایک رعیّت سے دوسری رعیّت کے‘ باہمی تعلقات ہوں۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں اپنی زندگی بسر نہ کرے یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم و ہدایت کی پابندی کر کے اپنی زندگی کو پاکیزہ نہ بنائے تو ابدی زندگی کا (نقصان) خسران یقینی ہے۔ یعنی سوز و تپش اس کا اخری ٹھکانہ ہے۔ خسرانِ آخرت کا یہی مطلب ہے قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ اَلَا ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۝۱۵ لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَــلٌ۝۰ۭ ۝۱۶ (سورہ الزمر:) ترجمہ: (کہہ دیجئے کہ پورے گھاٹے میں وہی لوگ ہیں جو معہ متعلقین قیامت کے روز گھاٹے میں رہے یاد رکھو یہی صریح نقصان ہے، ان کے لئے اوپر سے بھی آگ کے شعلے ہوں گے اور نیچے سے بھی آگ کے شعلے۔) وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ (سورہ المائدہ: 3) ترجمہ: (یہی وہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا طریقۂ زندگی و بندگی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایا ہے۔) اپنے خود ساختہ طریقوں سے خدا کی بندگی کر کے یہ سمجھنا کہ خدا ان سب سے راضی ہے، نری جہالت کی باتیں ہیں۔

زندگی کا نصب العین(مقصدِ حیات)

انسانی زندگی کا انجام، عالمِ آخرت ہے۔ انبیاء علیہم السلام نے اسی یقینی و واقعی ابدی زندگی پر بہت زیادہ توجہ دلائی ہے۔ انسانی زندگی کا یہی قرآنی نصب العین، مقصودِ حیات ہے۔ اس پر یقین کئے بغیر انسان نہ بندۂ حق ہوسکتا ہے، نہ بندگی کے مقام پر فائز ہوسکتا ہے۔ بندگیٔ رب جس کا نام قرآنِ مجید میں صراطِ مستقیم، سیدھی راہ ہے اس میں اسی طرف اشارہ ہے کہ ایک منزلِ مقصود ہے جس کو پانے کی یہی سیدھی راہ ’’بندگیٔ رب‘‘ ہے۔ قرآن مجید کو غور و تدبر سے پڑھنے کی جو یہ ہدایت ہے كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۲۹ (سورہ ص) ترجمہ: (کتاب کو آپؐ  کی طرف ہم نے نازل کیا جو برکت والی ہے تاکہ سمجھدار اس کی آیتوں میں غور کریں اور اس سے نصیحت حاصل کریں۔) حیاتِ بعد الموت کو سمجھنے اور ’’الجنۃ‘‘ ہی کو منزلِ مقصود بنانے کے لئے ہے۔ قرآن مجید غور سے پڑھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام خود بھی ابدی زندگی کو ہر وقت پیش نظر رکھتے تھے اور لوگوں کو بھی اسی طرف راغب کرتے تھے۔ اخروی زندگی کے ضرر سے خود بھی ڈرتے تھے اور لوگوں کے دلوں میں بھی یہی ڈر بٹھاتے تھے۔

آخرت کا نقصان‘ ابدی نقصان کا خوف ہی دراصل خدا کا خوف ہے، خوفِ آخرت اور خوفِ الٰہی کو جدا جدا سمجھنا کج فہمی ہے۔ حق تعالیٰ عذابِ آخرت ہی کے تعلق سے اپنا خوف بٹھاتے ہیں کیونکہ عذابِ اخروی ہی غضبِ الٰہی کی صورت ہے۔ يُخَــوِّفُ اللہُ بِہٖ عِبَادَہٗ۝۰ۭ يٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِ۝۱۶ (سورہ الزمر) ترجمہ: (یہ وہ انجام ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں (تو) اے میرے بندو مجھ ہی سے ڈرو (یعنی) میرے غضب سے بچو۔) غرض اخروی زندگی کے یہ دو عالم ’’الجنۃ‘‘ و ’’الجحیم‘‘ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا بنیادی جزو ہیں مگر انسان اس دنیا کی زندگی میں ایسا منہمک ہوا کہ انجامِ آخرت کو بھلا بیٹھا گویا وہ کوئی پیش آنے والی حقیقت ہی نہیں ہے۔ آج سے ۹۰۰ (نوسو) برس پہلے مفکرِّاسلام‘ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ جب امت کی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کو امت میں آخرت ہی کی تعلیم کا فقدان نظر آتا ہے۔ ’’فاما علم طریق الاخرۃ مادرج علیہ الّلف الصّالح مما سماہ اللہ سبحانہ فی کتابہ فقھاً وحکمۃ وعلمًا وضیاء ونوراً وھدایۃ ورشداً فقدا صبح من بین الخلق مطویا وصار نسیًا منسیًا‘‘ ترجمہ: (طریق آخرت کا علم جس پر سلف صالح گزرے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فقہ‘ حکمت‘ علم‘ روشنی‘ نور‘ ہدایت اور راہ یابی نام رکھا ہے وہ مخلوق سے اٹھالیا گیا ہے اور بالکل بھولی بسری بات ہوچکی ہے۔) حضرت مجدّد الف ثانیؒ فرماتے ہیں: ’’و اگر از علماء آخرت پیدا شودچہ سعادت کہ صبحتِ او کبریت احمر است‘‘ مطلب: (آخرت کی طرف بلانے والے کی صبحت کبریتِ احمر ہے) واقعہ یہ ہے کہ انسانوں نے جب کبھی اپنے خالق و رب سے روگردانی کی، اس کا ایک اہم سبب یہی تھا کہ انہوں نے اپنی فطری حیثیت بندگی کو بھلادیا اور اس کے بعد انسانی حیات کا انجامِ آخرت ’’نسیًا منسیًا‘‘ ہوگیا یا اخروی زندگی کے متعلق غلط تصورات ان میں جاری و ساری ہوگئے۔ قرآن مجید رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہونے کے علاوہ انسان کے سنوار و بگاڑ کی ایک مکمل و مستند تاریخ بھی ہے۔ اس میں انسانی برادری کے بگاڑ کی حقیقی علّت عقیدۂ آخرت کے فساد ہی کو قرار دیا گیا ہے۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا بھی اسی جہل و نادانی میں مبتلا ہے اور اسی تاریکی میں ٹھوکریں کھاتی ہوئی ہلاکت و بربادی کی طرف جارہی ہے۔یہ غلط تصور جاگزیں ہے کہ اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ انسانی زندگی کا نہ کوئی مقصد و مدعا ہے اور نہ آخری انجام‘ زندگی کا یہ نظام عبث و باطل ہے ۔گویا انسان ایک شترِ بے مہار ہے جس کا کوئی مالک نہیں جس طرح چاہے زندگی گزارے اور مرجائے۔ ایسے لوگ حق سے رو گرداں ہیں‘ اپنی فطرت ہی سے اندھے بنے ہوئے ہیں‘ اپنے فطری مطالبات کو سمجھنے سے قاصر ہیں‘ ان کی نظر تو اس دنیا کے محدود دائرے سے آگے جاہی نہیں سکتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہے دنیا ہی دنیا ہے اس کے بعد نہ جینا ہے اور نہ جینے کے لوازم۔ وَقَالُوْٓا اِنْ ھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِـیْنَ (سورہ الانعام: 29) ترجمہ: (اور انہوں نے کہا اس دنیا کی زندگی کے سوا کوئی زندگی ہے اور نہ ہم پھر اٹھائے جائیں گے۔)

 

 

حیاتِ بعد الموت کے قرآنی و فطری دلائل

انسان کی فطرت اور اس کی فطری خواہشات سے ظاہر ہے کہ انسان مخلوق ہے، محکوم ہے اور اس کا مخلوق و محکوم ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اس کا ایک خالق اور حاکم حقیقی ہے بہ الفاظِ دیگر ایک اعلیٰ و عظیم ہستی کا خالق‘ رب و حاکم ہونا انسان کے مخلوق اور محتاج و محکوم ہونے کی دلیل ہے۔ اللہ اعلیٰ و عظیم کے متعلق یہ تصور ہی نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی حاکمیت انسان کی موت کے بعد ختم ہوجائے گی اس کی فرماں روائی حقیقی ہے فَتَعٰلَى اللہُ الْمَلِكُ الْحَقُّ۝۰ۚ (سورہ المؤمنون: 116) ترجمہ: (پس اعلیٰ و عظیم اللہ ہی حقیقی فرماں روا ہے۔) حقیقی فرماں روائی کا مطلب ہے لازوال و باقی رہنے والی حالت میں (زندگی)۔ انسان جو اللہ کا بندہ ہے مرنے کے بعد بھی اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ دنیا کے سعی و عمل کو قائم رکھنے والے فرمانروا کی شانِ عدل و رحمت سے بعید ہے کہ وہ بندوں کے اعمال کا صلہ اور بدلہ دینے پر قادر نہ ہو بلکہ شانِ رحمت یہی ہے کہ ایک یومِ حساب قائم ہو اور ایک عالمِ جزاء آباد ہو۔ كَتَبَ عَلٰي نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ۝۰ۭ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ لَا رَيْبَ فِيْہِ۝۰ۭ (سورہ الانعام: 12) ترجمہ: (رحمت ہی اللہ کی شان ہے تم کو ضرور قیامت کے دن اکٹھا کرے گا اس میں کوئی شک نہیں ہے۔) مطلب ظاہر ہے کہ یومِ حساب قائم کرنا اور عالمِ جزاء آباد کرنا رحمت ہی رحمت ہے۔ نیک و بدکار کا ایک ہی انجام‘ عدل و رحمت دونوں کے منافی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ۝۰ۡاَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ۝۲۸ (سورہ ص: 28) ترجمہ: (کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ان کے برابر کردیں گے جو فساد کرتے ہیں زمین میں یا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر کردیں گے۔) ایک غیر محدود رحمت والے فرمانروا کی لازوال حکومت کے لئے واقعی و یقینی ہے کہ اپنے مخلص و جاں نثار بندوں کو ان کے اعمال کا ’’خیر وابقیٰ‘‘ صلہ عطا کرے اور نافرمان و سرکش بندوں کو ان کے اعمالِ بد کا بدلہ ’’لعذاب الاخرۃ اشد و ابقیٰ‘‘ کی صورت میں دے۔

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ ارشاد ہے کہ یہ دنیا جو انسان کے تصرّف و اختیار‘ سعی و جدوجہد کی دنیا ہے اس کو بنانے والے نے باطل و بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ (سورہ الاحقاف: 3) ترجمہ: (اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان میں ہیں حکمت سے اور ایک میعاد معین کے لئے پیدا کیا ہے۔) سورہ جاثیہ کے تیسرے رکوع میں بالحق ۱؎حکمت سے بنانے کی وضاحت فرمادی۔ وَخَلَقَ اللہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍؚبِمَا كَسَبَتْ وَہُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝۲۲ (سورہ جاثیہ) ترجمہ: (اور اللہ نے آسمانوں و زمین کو حکمت سے پیدا کیا تاکہ ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔)

بالحق ۱؎:- افسوس ہوتا ہے کہ دین میں غلو کرنے والے لوگ ’’بالحق‘‘ کا ترجمہ بوجودِ حق کر کے وحدۃ الوجود جیسے غیر قرآنی مسئلہ کو قرآنی ثابت کرنے کی جسارت (ہمت و کوشش) کرتے ہیں۔ قرآن کی ایسی بے تکی تفسیر کو حدیث میں ’’تحریف الغالین‘‘ فرمایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ دینِ میں غلو کرنا شجر ممنوعہ (حرام) ہے۔ لَا تَغْلُوْ فِیْ دِیْنُکُمْ (النساء: 171‘ المائدہ: 77) ترجمہ: (اپنے دین میں غلو نہ کرو) سورہ النساء میں اِلَّا الْحَقِّاور سورہ المائدہ میں غَیْرُ الْحَقِّآیا ہے۔

 

جزاء و حساب کا مطلب یہ ہے کہ انسان بے لگام نہیں چھوڑا گیا کہ وہ دنیا میں من مانی زندگی بسر کرے اور فتنہ و فساد پھیلاتا رہے بلکہ اس کے آغاز حیات کا ایک انجام یقینی ہے جو اللہ جل شانہٗ کی قدرتِ کاملہ سے بعید نہیں جس نے ایک بے جان چیز سے جاندار بنایا وہ اس پر بھی قادر ہے کہ بے جان کر کے پھر جاندار بنائے اور جزائے اعمال کے لئے اپنے تمام بندوں کو اپنی حقیقی عدل و انصاف کی عدالت میں حاضر کرے۔ كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ۝۰ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۸ (سورہ البقرہ) ترجمہ: (تم کیسے اللہ کا انکار کرتے ہو (جس کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ) تم بے جان تھے تم کو زندہ کیا پھر تم کو موت دے گا اور پھر تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹو گے۔) عقل و فطرت کا یہی فیصلہ ہے، یہی اعلانِ حق ہے۔ قرآن مجید‘ کلامِ الٰہی جس میں جاہل و نادان انسان کو علم و دانشمندی سکھائی گئی ہے۔ وہ حیاتِ بعد الموت کے یقین آفرین دلائل سے بھرا ہوا ہے کیونکہ اس کے نزول کا مقصد یہی ہے کہ انسان‘ جاہل انسان علم و عقل سیکھے۔ اپنی اصلی زندگی کو سمجھے‘ اپنے افکار و اعمال کی اصلاح کرے اور اس کے صلے میں ابدی و اعلیٰ زندگی پائے۔ غرض سعیٔ و جدوجہد‘ امتحان و آزمائش کا یہ ہنگامہ اپنے پیچھے ایک عالمِ جزا کی نشان دہی کررہا ہے اور جیسا کہ عرض کیا گیا ہے‘ انسان فطرتاً حیاتِ ابدی کا طالب ہے اس لئے انسان کی کامیابی یہی ہے کہ وہ ابدی عذاب نار (آگ کے عذاب) سے محفوظ رہے اور ابدی اعلیٰ و غیر فانی زندگی اور اس کے درجات حاصل کرے۔ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ۝۰ۭ (سورہ اٰل عمران: 185) ترجمہ: (جو دوزخ سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہوگیا۔) صرف کامیابی ہی نہیں بلکہ بہت بڑی کامیابی ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمَ (سورہ التوبہ: 72، 111‘ یونس: 64‘ دخان: 57‘ الحدید: 12)۔ اللہ تعالیٰ جو بندوں کے لئے ہمہ خیر ہیں اور بندوں کے لئے ابدی بہتری کو پسند کرتے ہیں انہوں نے بندوں کو بندگیٔ رب کی دعوت اسی لئے دی ہے کہ بندے ابدی شاندار و عظیم کامیابی‘ مغفرتِ الٰہی اور الجنۃ حاصل کریں۔ وَاللہُ يَدْعُوْٓا اِلَى الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِـاِذْنِہٖ۝۰ۚ (سورہ البقرہ: 221)۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف اس ابدی و اعلیٰ و لازوال زندگی کی طرف بلاتے ہیں بلکہ اس زندگی کے لئے مسابقت کی ترغیت دیتے ہیں۔ سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۙ (سورہ الحدید: 21) دوڑو (ایک دوسرے سے سبقت لے جاؤ) اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کے برابر ہے۔) اور یہی نہیں بلکہ یہ ترغیب بھی دیتے ہیں کہ جلد از جلد اس زندگی کی تیاری کرو۔ وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ (سورہ اٰل عمران: 133) ترجمہ: (جلدی کرو (دوڑو) اپنے رب کی مغفرت و جنت کی طرف۔) اور یہ کہ حرص کرنے والوں کو اسی زندگی کی حرص کرنی چاہئے۔ وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ (سورہ المطففین: 26)۔

دنیا میں فتنہ و فساد کی وجہ

آج ترقی یافتہ دنیا کا ترقی یافتہ انسان روشن خیالی کے زعم میں حیات بعد الموت کو قابلِ مضحکہ (مذاق) اور تعجب خیز (انہونی) بات سمجھتا ہے حالانکہ یہ سراسر تاریک خیالی اور جہل ہے۔ ہر زمانہ میں یہی ہوتا رہا کہ انجامِ آخرت کو بھولے ہوئے انسانوں کے سامنے‘ ابدی حیاتِ بعد الموت کا فطری و حقیقی نظریہ پیش کیا گیا تو انہوں نے تعجب ہی کیا یعنی اس کو انہونی سمجھا اور پیش کرنے والوں کو جادو گر کہہ دیا اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَــبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۭؔ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ۝۲ (سورہ یونس) ترجمہ: (کیا لوگوں کو تعجب ہے کہ ہم نے اُن میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیجی کہ سب انسانوں کو (اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ابدی بُرے انجام سے) ڈراؤ اور جو ایمان لے آئیں ان کو خوش خبری سناؤ کہ (مرنے کے بعد) اُن کے رب کے پاس اُن کے لئے سچائی کا بدلہ و درجہ ہے تو کافروں نے کہا کہ یہ تو بلاشبہ جادو گر ہے۔) واقعہ تو یہ ہے کہ ابدی حیات بعد الموت کا فطری مطالبہ رکھ کر بھی اس سے انکار کرنا تعجب خیز ہے۔ وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُہُمْ ءَ اِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَ اِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ۝۰ۥۭ (سورہ الرعد: 5) ترجمہ: (اور اگر آپؐ کو تعجب ہو تو واقعی ان کا یہ قول تعجب ہی کے قابل ہے کہ جب ہم مرکر مٹی ہوجائیں گے تو کیا ازسر نو پیدا کئے جائیں گے۔) عقل کا اندھا پن اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ جو بات عقل و فطرت کے مطابق ہے اس کو انسان خلافِ عقل سمجھے، دنیا کے گوشہ گوشہ میں فتنہ و فساد کی جو آگ بھڑک اٹھی ہے اور انسان کی خوں ریزیوں کی جو تیاریاں کی جارہی ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ حیاتِ بعد الموت کی اصلی زندگی کو بالکل بھلادیا گیا ہے اور صرف دنیا ہی مطلوب و مقصود بنی ہوئی ہے۔ اس بگاڑ کو سنوارنے کا انبیائی طریقہ یہی ہے کہ سب سے پہلے آخرت سے غافل انسانوں کو حیاتِ آخرہ کا یقین دلایا جائے۔ یقینِ آخرت ہی ہدایتِ رب سے سرفراز ہونے کی پہلی شرط ہے۔

زوال امت کا سبب

زوالِ امت کا بھی اصلی سبب یہی ہے کہ بعد الموت کی حقیقی زندگی نہ عوام کے سامنے ہے نہ کماحقہٗ خواص کے سامنے۔ حیات بعد الموت کی قرآنی و نبویؐ  تعلیم سے عام غفلت پیدا ہوگئی ہے۔ ایک ایسی روشنی جس سے ہر ظلمت کافور ہوجاتی ہے۔ ’’القرآن‘‘ اس کو ہاتھوں میں رکھ کر ہم ظلمت کی گھاٹیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ ہماری حالت ’’کورِ  مادر  زاد  و  نورِ  آفتاب‘‘ سے کچھ کم نہیں۔ قرآن مجید میں اللہ جلّ شانہٗ کسی اور طرف بلاتے ہیں اور اہلِ علم و اہلِ کشف کسی اور طرف جارہے ہیں، جس قرآن کی غرض و غایت یہ ہے کہ طالبِ حق‘ بندۂ مخلص و جاں نثار‘ زاہد‘ مجاہد‘ خلیفۃ الارض بنارہے اور مرنے کے بعد اس مجاہدانہ زندگی کے صلہ میں خیر و ابقیٰ زندگی ’’الجنۃ‘‘ پائے۔ وہ قرآن آج بے سمجھے حافظ و قاری بنانے یا بہت سے بہت زاہد گوشہ نشین بنانے کے لئے یا ایصالِ ثواب اور گنڈے‘ تعویذوں کے لئے رہ گیا۔ دنیا پرستی کی تُند و تیز آندھیاں چل رہی ہیں اور اہلِ حق ہیں کہ ان کی گردِ راہ بنے ہوئے ہیں۔ اپنے علم و دانش پر اتنا غرّہ (غرور) ہے کہ اس تباہ حالی کے جواز کے فتوے بھی صادر کئے جاتے ہیں کیونکہ دنیا کا فائدہ اسی میں نظر آرہا ہے۔ حالانکہ لِّـیَتَفَقَّہٗ فِی الدِّیْنِ (توبہ: 122) دین کی سمجھ یہ ہے کہ آخرت کی زندگی کا اصلی نفع و ضرر ایسا ذہن نشین ہو کہ دنیا میں جو کام بھی کیا جائے اسی نفع و ضرر کو سامنے رکھ کر کیا جائے۔

دینِ اسلام کو خالق انسان نے اسی لئے نازل فرمایا ہے کہ بندے اس دینِ حق کو اختیار کر کے صالح و پاکیزہ زندگی بسر کریں اور دنیا میں اسی دین کو قائم کرنے کی علماً و عملاً جدوجہد کرتے رہیں۔ ابدی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کا یہی واحد الٰہی طریقہ ہے۔ ابدی زندگی چونکہ پیشِ نظر نہیں رہی اور دنیا پرست قوموں کی اتباع میں صرف دنیا ہی مطلوب و مقصود ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ امت کی حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ اس تباہی کی پوری ذمّہ داری ان اہلِ علم پر ہے جو دنیا کے فائدوں کی خاطر باطل نظام ہائے زندگی کے خلاف جدوجہد کرنے کے بجائے اس کی ہوا خواہی کررہے ہیں۔