استعاذہ اور کلمہ استعانت

واپس - فہرست مضامین

استعاذہ اور کلمہ استعانت

 

استعاذہ

اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

میں پناہ پکڑتا ہوں اللہ کی شیطان مردود کے شر سے

 

الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ ۝۱۸۵ (البقرہ) ترجمہ ’’قرآن انسانوں کے لئے ہدایت اور وہ بھی کھلی کھلی ہدایت حق و باطل بتانے والی کتاب‘‘ سے قطعی ثابت ہے کہ انسانوں کی ہدایت کا واحد ذریعہ و سامان دنیا میں صرف قرآن ہی ہے اس لئے فرمایا وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ۝۲۳ (الزمر‘ الرعد:۳۳) ترجمہ ’’اور جن کو اللہ گمراہ کردیتا ہے پھر اس کو کوئی ہدایت دینے والانہیں‘‘ جس طرح سامان و ذرائع رزق سے رزق حاصل نہیں ہوسکتا ‘بالکل اسی طرح کتاب ہدایت سے ہدایت حاصل نہ کی جائے تو پھر کہیں سے بھی ہدایت نہیں مل سکتی۔

بنی آدم کو ضرور مستحق دوزخ بنانے کا شیطان نے رب کو چیلنج کیا ہے (سورہ اعراف:۱۷)۔ شیطان کے اس مقصد کا ذکر بنی اسرائیل آیت ۶۲‘ ۵۳‘ الحج۴‘ فاطر۶‘ فرقان۲۹ میں بھی کیا گیا ہے تاکہ بنی آدم شیطان کے فریب سے بچنے کی کوشش کریں۔

شیطان اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے قرآن پڑھنے والوں پر اپنے پورے حربے استعمال کرتا ہے تاکہ قرآن پڑھنے والوں کے دل و دماغ میں سب سے اہم و بنیادی بات دوزخ سے بچنے کی بجائے سعی و سفارش سے نجات ہوجانے کا وسوسہ پیدا ہوجائے یعنی نجات کی بجائے دیگر باتوں کے اہم ہونے کے وسوسے پیدا کردیتا ہے۔ قرآن کے بارے میں شیطان کے شر سے بچنے کے لئے ہی  فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۝۹۸ (النحل) ترجمہ ’’پس (اے نبیؐ) جب بھی آپؐ  قرآن پڑھنا چاہیں تو (پہلے) شیطان مردود (کے شر) سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں‘‘کی دعا کرنے کا حکم دیا۔ یعنی قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کے معاملہ میں شیطان کے شر سے بچانے کی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔یہ دعا کرنے کا حکم نبی کریمؐ کو دیا گیا ہے جس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کے معاملہ میں شیطان کا شر سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس خطرناک شر سے بچنے کے لئے جو قانون بنایا گیا ہے۔ اس کو اسی سورہ کی اگلی آیت میں بیان کیا ہے  اِنَّہٗ لَيْسَ لَہٗ سُلْطٰنٌ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۝۹۹ (النحل) ترجمہ ’’یقینا اس شیطان کا زور ان لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘ یہاں الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سے مراد وہ لوگ ہیں جو گناہ بخشوانے اور دوزخ سے بچنے کو اپنا مقصد زندگی بنالئے ہیں اور عَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَسے مراد وہ لوگ ہیں جو گناہ بخشوانے اور دوزخ سے بچنے کے وہی طریقے اختیار کرتے ہیں جو رب نے اس کے لئے مقرر کردیا ہے جیسا کہ  وَسَعٰى لَہَا سَعْيَہَا (بنی اسرائیل:۱۹) ’’اور وہ کوشش کیا جیسی کوشش اس کے لئے کرنا ہے‘‘ فرمایا گیا۔یعنی قرآن سے ہدایت حاصل کرنے میں شیطان کے شر سے وہی لوگ بچتے ہیں جو گناہ بخشوانے اور دوزخ سے بچنے کے طریقے ‘قرآن سے معلوم کرکے ان پر سنت رسولؐ اور اسوہ صحابہؓ (سبیل المومنین) کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

 

کلمۂ استعانت

اللہ سے مدد مانگنے کے الفاظ

 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

(شروع کرتا ہوں ) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان‘  بار بار رحم کرنے والا ہے۔

اللہ: اسم ذات ہے جس کا نام مختلف زبانوں میں مختلف رہا ہے اور اسی کو ہر زمانے میں تمام مخلوقات کا تنہا و اکیلا خالق و پروردگار‘ موت و حیات کا مالک ‘حاجت روا ‘ قادرِ مطلق اور مختار کل مانا گیا ہے۔

الرحمن اور الرحیم ‘ دونوں رحم سے مشتق ہیںاور یہی دو اسماء الٰہی کے تحت دنیا و آخرت کا پورا نظام چل رہا ہے( فاتحہ: ۲‘ البقرہ: ۱۶۳)۔

الرحمن : بنی آدم کا عمل کے ذریعہ امتحان لینے کی غرض سے رحمانیت کے تحت ہی دنیا کو مادی ٹھوس اسباب کے ذریعہ دارالاسباب بنایا گیا ہے ۔ جہاں ان اسباب کے بغیر ایک گھونٹ پانی کا ملنا بھی ممکن نہیں ۔ اس لئے بلا اسباب کے بھی نفع و نقصان ہونے کے وسوسے پیدا کرنے اور اس میں مبتلا ہونے والوں کو الرحمن کا نافرمان کہا گیا ہے (مریم : ۴۴) اور بلا اسباب کے بھی نفع و نقصان پہنچنے کی بات ماننے والوں کو رحمانیت کا انکار کرنے والا قرار دیا گیا ہے (رعد : ۳۰)۔ مختصر یہ کہ اشیاء کو پیدا کرنا اور اس میں تاثیر رکھنا رحمانیت ہے ۔ اور صحیح و غلط اطاعت و نافرمانی کا پورا پورا بدلہ دینا رحمانیت ہی ہے۔

قابل غور اور قابل اصلاح بات یہ ہے کہ پرورش و حاجت براری کے اس ٹھوس و مادی نظام الٰہی کے خلاف وسوسے پیدا کرکے بنی آدم کی اکثریت کو ر ب کا ناشکرا بنانے کا شیطان نے چیالنج کیا ہے ۔ ( اعراف : ۱۷)

مندرجہ بالا کی روشنی میں دنیا دارالاسباب میں عمل کرنے کی بجائے جپنے کی تمام باتیں جادو‘ نحوست‘ برکت‘ سایہ سپٹ‘ تعویذ‘ گنڈا‘ جھاڑ پھونک‘ دم اور نظر بد وغیرہ محض وسوسے ہیں جو محض شیطان کے پیدا کردہ ہیں۔

الرحیم : (بار بار رحم کرنے والا) گناہ پر فوری سزا نہ دینا اور توبہ کرنے سے گناہ معاف کردینا رحیمیت ہی ہے اوروَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا۝۴۳ (احزاب) ترجمہ ’’اور وہ ایمان لانے والوں پر بہت ہی رحم کرتا ہے۔‘‘ یعنی اہل ایمان پر خصوصی طور پر رحیم ہونے کی بات فرمائی گئی ہے۔ جس کی تصدیق کے لئے انسانی تاریخ کے ان واقعات کو بیان کیا گیا ہے جس میں دعوت الی اللہ کی آواز کو بند کرنے کے لئے داعی ہی کو مار ڈالنے کی سازش کی گئی۔ تو سازش کرنے والوں کو ہلاک کرکے داعی اور اس کا ساتھ دینے والوں کو بچالینے کی بات سورہ الشعراء آیت ۹‘ ۶۸‘ ۱۰۴‘ ۱۷۵‘ ۱۹۱ میں بھی بیان کی گئی ہے۔

ایک مقررہ دن سب کو زندہ کرکے ان کے اعمال کے لحاظ سے ان کو جزا دینا بھی رحیمیت کا عین تقاضہ ہے ( انعام: ۱۲)۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: سورہ نمل آیت ۳۰ کا ایک مستقل جز ہے ۔ سلیمانؑ  ملکہ سبا کے نام جو خط بھیجے اس کی ابتدا  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ سے کی گئی تھی۔ سورہ توبہ کے سوا اس کا قرآن کی ہر سورۃ کی پہلی آیت ہونے اور نہ ہونے میں اختلاف ہے ۔

ہر کام بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ سے شروع کرنا بظاہر معمولی سا عمل نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں ان الفاظ کے ذریعہ بندہ یہ اعتراف کررہا ہوتا ہے کہ میں اپنے بل بوتے پر اس کام کو نہ صحیح طریقہ سے کرسکتا ہوں اور نہ تو اس کو صحیح طریقہ سے مکمل کرسکتا ہوں۔

رب کا نام لینے سے ہر کام کے اچھے یا برے ہونے کا خود بخود احساس ہوجاتا ہے جس سے بہت سے برے کام کرنے سے انسان بچ جاتا ہے یا بچنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اگر کسی وجہ سے کوئی بھی نافرمانی کرلیتا ہے یا ہوجاتی ہے تو فوری اس کا احساس خود بخود ہوجاتا ہے اور اس کے برے انجام سے بچنے کے لئے توبہ اور اصلاح کا خیال ضرور آتا ہے اور ایسا کرنے کی رب ہی نے ہدایت دی ہے ۔    وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۝۰ۚ (الحشر:۱۸) ہر نفس  ہر عمل کرنے سے پہلےدیکھ بھال لے کہ وہ آخرت کے لئے اب تک کیا ذخیرہ بھیج چکا ہے اور اب کیا بھیجنے جارہا ہے۔

شیطان کے بہکاوے‘ نفس کی خواہشات اور ماحول کی ترغیبات سے آزمائش اور امتحانی زندگی میں بنی آدم کا اپنے طورپر کامیاب ہونا قطعی ناممکن تھا اور ہے، اسی لئے پروردگار نے ان کو ایسے طریقے بتلائے جن پر عمل کرنے سے امتحان میں کامیاب ہونا آسان ہوجائے ان ہی طریقوں میں سب سے پہلے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ کے کلمات سے اپنے ہر کام کی ابتدا کرنے کا طریقہ پیغمبر کے ذریعہ بتایا ۔( نمل : ۳۰)

ملحوظ رہے کہ زمانہ دراز سے بِسْمِ اللہِ کے بجائے ’’۷۸۶‘‘ یا با سمہ تعالیٰ لکھا جارہا ہے، اس طرح اللہ الرحمن الرحیم کی طرف صحیح طور پر رجوع ہونے سے اپنے آپ کو محروم کرنا ہے جو قابل اصلاح ہے ۔