المدد  یَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

المدد  یَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ

ترجمہ  (تمام جہانوں کے پالنہار میری مددکر)

اللہ ہی سے مددمانگنالازمی وضروری ہے کیونکہ وہی ہماراخالق ہے۔ ماں باپ سے سَتّر (۷۰)گنا زیادہ ہم سے محبت کرتاہے چنانچہ ہماری پرورش اورحاجت برآری کیلئے کائنات بناکرہرآن وہی ہماری حاجت  برآری کررہاہے۔(الرحمن :۲۹)۔ ہمارے وسوسوں کو تک جانتا ہے اوررگِ جاں سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے۔ (قٓ  : ۱۶)۔ وہی ہر ایک کی حالت سے ہروقت باخبر رہتا ہے اوراس کو دیکھتاہے۔ ہرایک کی سُنتا ہے’’وہ ہرچیزپرپوری قدرت رکھتاہے اس لئے ہرایک کی دعا وپکار چاہے وہ کسی زبان میں ہو اورکہیں بھی ہو اور کسی بھی وقت ہونہ صرف سُنتابلکہ قبول کرتاہے کیونکہ زمین وآسمانوں کے خزانے سب اسی کے ہیں اپنے ہربندے کی دعاپکار کو قبول کرنے کی طمانیت (گیارنٹی) دیاہے‘‘۔ (البقرہ:۱۸۶)۔اور رب ہی سے دعا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے قبول کرنے کی طمانیت دی ہے۔ (المومن:۶۰)۔شیطان لعنتی بننے کے بعددعاء کیا توقبول فرمایا۔ (الاعراف : ۱۵) ۔تمام پیغمبر وصالحین صرف اللہ ہی سے راست دعا کئے ہیں اور نبی کریم  ؐنے تاکید فرمائی کہ ہرچیزاللہ ہی سے مانگو نمک کاکنکر ہویاجوتے کا تسمہ (حدیث)پیغمبر بھی مُردوں کویاقبرمیں جودفن ہے ان کو اپنی آوازنہیں سُناسکتے۔ (النمل:۸۰ ، روم ۵۲، فاطر۲۲)۔مرنے کے بعد پیغمبر بھی دنیاوالوں کی دعا  ، نذرونیاز، فاتحہ ، درود سے قیامت تک قطعی بے خبر ولاعلم رہتے ہیں۔ (یونس ۲۸، ۲۹)(النحل،۸۶)( مریم ۸۲) (فاطر۱۴) (الاحقاف۵ ‘ ۶ ) ۔ مُردہ وغائب ہستیوں کومدد کیلئے پکارنا شیطان کی نکالی ہوئی بات ہے۔ (النساء ۱۱۷/۱۱۸)مرنے کے بعدکوئی بھی زندوں کی آوازنہیں سُن سکتااس لئے مُردہ غائب ہستیوں کوپکارنے سے منع کیاگیاہے اورپکارنے والے کومشرک فرمایا ہے۔(یونس : ۱۸ ) کوئی پیغمبر بھی نہ اپنے کونہ اپنے اہل وعیال کوموت سے بچاسکاتو یہ دوسروں کی بِگڑی کیسے بناسکتے ہیں۔(الفرقان : ۳) ہرمرنیوالا حشر کے دِن ہی زندہ اٹھایاجائیگا ۔ موت کی حالت میںبھی ایسی زندگی ہے جس کا دنیا والوں کوشعور نہیں ہوسکتا۔  فرمایاگیا ہے  :’’بیشک پہلی حالت موت میں تمام انسان  قَالُوْابَلیٰ  کا  اقرار (بیشک آپ ہی ہمارے پروردگار ہیں)کہہ چکے ہیںجس کی وضاحت نہ پیغمبر کئے اور نہ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیاکیونکہ ایسی آیات کی حقیقت واقعہ کواللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔ اِن ہی آیات کو متشابہات فرمایاگیاہے۔‘‘ (آل عمران:۷) اس لیئے  یَارَسَوُلَ اللہ۔  یَاعلی مدد ۔  یاغوث المدد وغیرہ جیسے نعرے نہ صرف قرآن کے اور سُنتِ رسول کریم  ؐاور اسوئہ صحابہ ؓ کے خلاف ہیں بلکہ عقل کے بھی خلاف ہیں کیونکہ مُردہ افراد سے زندوںکو رتّی برابر بھی فیض پہنچ سکتاتو درگاہوں پرفقیر بھی موجودنہ ہوتا۔ درگاہوں پرفقیروں کی کثرت قطعی ثابت کردیتی ہے کہ مُردے زِندوں کے محتاج ہوتے ہیں۔

قبروں کا نشاں عَرش سے اونچا دیکھا

زندوں کو بھی بدست مُردہ دیکھا

ایک طرف قبروں پہ سجدے دوسری جانب نماز

درگاہوں پر رکوع و سجدہ دیکھا

مُردہ در دست زندہ سُنتے تھے مگر

مدعی توحید سے اور شِرک سے ہے سازباز

یا اللہ مدد

 

ہمارے معاشرے میں’’یااللہ مدد‘‘ کی بجائے دوسروں سے استغاثے کے کلمات کے نعرے رواج پاگئے ہیں ۔ یعنی سب میں اللہ کو چھوڑکر غیر اللہ سے مدد طلب کی جاتی ہے جوسراسر مشرکانہ قول ہے۔اِس کی ایک وجہ تو عوام کی جہالت ہے۔ وہ جانتے نہیں کہ دین کیااوراس کی حقیقت کیاہے؟ توحید کیاہے اور اس کے تقاضے کیاہیں؟ شِرک کیااورکِن کِن باتوں میں شِرک کی آمیزش ہے؟ اوراِن کے ارتکاب سے دِل مشرک ہوجاتاہے۔ دوسری وجہ ان کے علماء کے وہ مغالطے ہیں جن کے ذریعے سے انہوںنے عوام کو مختلف عنوانات سے شرکیہ عقائد و اعمال میں مبتلاکیاہے، کبھی  ’’عشقِ رسول ؐ  ‘‘  اور  ’’  محبت اولیاء ؒ  ‘‘  کاعنوان دیاجاتاہے یاکبھی کسی اور عنوان سے اس کا جواز مہیاکردیاجاتاہے اورکبھی یہ کہہ دیاجاتاہے کہ مسلمان سے شرک کاارتکاب ہوہی نہیں سکتا۔ بقول حالیؔ  یوںکہاجاسکتاہے    ؎

نبیؐ کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں

نہ اِسلام بگڑے نہ ایمان جائے

اِماموں کارتبہ نبیؐ سے بڑھائیں

نہ توحید میں کچھ خلل اِس سے آئے

گویا مسلمانوں کاایمان اتنا پختہ ہے کہ چاہے اِن کے عقائد واعمال کتنے ہی مشرکانہ ہوں پھر بھی وہ مسلمان کے مسلمان اورموحِد کے موحِد ہی ہیں۔ افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت بھی مشرکین عرب کی طرح توحید وربوبیت کی قائل ہے، لیکن توحید والوہیت کی منکر ہے اس لئے وہ مافوق الاسباب طریقے سے غیراللہ سے بھی امیدیں وابستہ کرتی ہیں۔ غیراللہ کے نام کی نذر ونیاز بھی دیتی ہے۔ غیراللہ سے استمداد و استغاثہ کرتی ہے۔ قبروںکاطواف کرتی ہے کیونکہ وہ غیر اللہ میں بھی اللہ والی صفات تسلیم کرتی ہے حالانکہ یہ شرک ہے۔ بقول علامہ اقبالؔ سے معذرت کے ساتھ    ؎

مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

مُردوں سے تجھ کو امید، خداسے ناامیدی

ہرعمل کی وضاحت علماء کا منصبی فریضہ ہے ۔ جو عمل یاعقیدہ جیسا ہے اِس کی وضاحت کریں۔ اِس پرتاویلات کاپردہ نہ ڈالیں اورنہ مصلحت کانقاب۔ وہ حلال ہے یاحرام، سُنت ہے یا بدعت ،  شِرک ہے یا توحید ؟ تاکہ لوگ حلال کواختیارکریں۔ حرام سے بچیں ۔ قرآن وسنت پر عمل کریں۔ بدعت سے گریز کریں اور شرک سے بچیں اورتوحید کاراستہ اپنائیں۔