لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدُالرَّسُوْلُ اللہ

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدُالرَّسُوْلُ اللہ 

 

نہیں ہے کوئی معبود (حاجت روا) سوائے اللہ کے محمدؐاللہ کے رسول ہیں

 

اس کلمہ کا سمجھ کر زبان سے اقرار اور دل سے یقین کرنے والا ایمان والا اور پوری زندگی میں اللہ و رسولؐ کے احکام پر مرتے دم تک عمل کرنے کی کوشش کرنے والامسلمان (فرمانبردار) ہے۔اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ ۝۱۹ (آل عمران) ’’بلا شبہ اللہ کے پاس دین صرف اسلام (فرمانبرداری) ہے۔‘‘

اسلام ’’سَلَمْ‘‘جس کے معنی اطاعت و فرمانبرداری کے علاوہ امن و چین کے بھی ہیں، یعنی مسلمان اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے کو ناحق نقصان و تکلیف نہیں پہنچا سکتا اگر کوئی مسلمان اس کی خلاف ورزی کرتا ہو تو وہ اللہ کے پاس مسلمان نہیں ۔ کیونکہ اللہ نے عمل اور اس کی جزا کا جو قانون بنایا ہے وہ بے حد اٹل ہے، اس لئے فرمایا وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۝۰ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۸۵ (آل عمران) ترجمہ ’’اور جو بھی اسلام (رب کے احکام کی فرمانبرداری) کی بجائے کوئی اور طریقہ اختیار کرے گا پس اس کا یہ طریقہ ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا‘‘ یعنی جہنم ابدی ٹھکانا ہوگا۔

غلطی پر توبہ‘ کفّارہ‘ معافی کی التجا اور اصلاح کی کوشش کرتے رہنا ہی ’’حقیقی مسلمانی‘‘ ہے۔ کلمہ کا اقرار کرتے ہی مرنے والا جنّتی ہے ( النساء:۱۱۰)۔ احکام کے خلاف خواہشاتِ نفس پر چلنے والا مشرک ہے، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے،  اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ۝۰ۭ ۝۴۳ۙ (فرقان: ۴۳) ’’کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو معبود بنا رکھا ہے۔‘‘ یہی بات سورہ قصص آیت ۵۰ اور سورہ جاثیہ ۲۳ میں بیان کی گئی ہے۔

نجات کا اٹل قانون

يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا۝۷۱ (احزاب) ترجمہ ’’(اللہ کی نافرمانی کرنے سے بچنے کی کوشش کرنے اور مضبوط بات کہنے سے) اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح کردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتا ہے پس یقینا اس نے بہت بڑی کامیابی پائی۔‘‘  اللہ کی اطاعت کرنے کے معنی یہ ہے کہ اللہ کے احکام پر اللہ کی منشاء کے مطابق عمل کیا جائے، یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اللہ اپنے احکام پر عمل کرنے کا طریقہ بندوں کو نہ بتائے، چونکہ اللہ غیب میں ہے جس کو کوئی بھی بیداری یا خواب میں نہیں دیکھ سکتا،  اس لئے اللہ اپنے احکام پر اپنے منشاء کے مطابق اپنے رسول سے عمل کروا کر رسول کے ذریعہ اپنی اطاعت کا طریقہ بندوں کے لئے فراہم کر دیا، اس لئے فرمایا مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ ۝۸۰ (النساء) ’’جو کوئی رسول کی اطاعت کرے اس نے (یقینا) اللہ کی اطاعت کی‘‘ اور فرمایا  وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ ۝۶۴ (النساء)’’ہم نے ہر رسول کو محض اس لئے ہی بھیجا کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے۔‘‘یہی اللہ کا قانون ہے اور فرمایايیٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ ۝۵۹ۧ (النساء)ترجمہ ’’اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے امیر کی بھی۔‘‘ ملحوظ رہے کہ یہاں ایمان والوں کی اطاعت میں امیر کی بھی اطاعت ہونا لازمی قرار پاتا ہے اور فرمایا وَاَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا۝۰ۚ ۝۹۲(سورہ مائدہ) اور فرمایا کہ تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور ان کی نافرمانی کرنے سے بچو‘‘ اور نافرمانی کا نتیجہ بھی بتا دیا چنانچہ فرمایا يَوْمَىِٕذٍ يَّوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُـسَوّٰى بِہِمُ الْاَرْضُ۝۰ۭ وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللہَ حَدِيْثًا۝۴۲ۧ (النساء) ترجمہ ’’حشر کے دن کافر (لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا انکار کرنے والے) اور رسول کی نافرمانی کرنے والے دِلی آرزو کریں گے کہ کاش انہیں بھی مٹی کے برابر کر دیا جاتا اور وہ اللہ سے اپنی کوئی بات نہ چُھپا سکیں گے‘‘ اور نبی ؐکی بیویوں کو  وَاَطِعْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۭ ۝۳۳ (الاحزاب) ’’اور اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسولؐ کی‘‘ کا حکم دیا گیا۔ سورہ المجادلہ آیت ۸ میں رسول کی نافرمانی کرنے کی غرض سے سرگوشیاں کرنے والوں کے لئے جہنم ہے، فرمایا گیا اور سورہ طلاق ۸میں فرمایا کہ بہت سی ایسی بستیوں کو جو اپنے رب کے احکام اور اس کے رسولوں کے احکام کے خلاف عمل کئے تو ہم نے دنیا میں ان سے سخت حساب لیا اور سخت عذاب دیا۔ سورہ احزاب ۳۶ میں فرمایا  وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۝۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا۝۳۶ۭ ترجمہ ’’اور کسی بھی ایمان والے مرد اور عورت کے جس معاملہ میں بھی اللہ اور اس کے رسول نے جب کوئی فیصلہ کر دیا ہو (کوئی حکم یا ہدایت موجود ہو) تو اس میں پھر ان کو اب کوئی بھی اختیار حاصل نہیں رہتا ۔ (اپنی طرف سے اس میں کوئی بھی ردّ و بدل نہیں کر سکتے) اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے۔ پس وہ یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا ہو گیا) اللہ ورسولؐ کی اطاعت کے قانون کی اہمیت بتانے کے لئے فرمایا گیا:قُلْ اَطِیْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ۝۰ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ۝۳۲  ( آل عمران) کہو اطاعت کرو اللہ کی اور رسولؐ کی پھر اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ پسند نہیں کرتا کافروں کو اور فر مایا : وَاَطِیْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۱۳۲ۚ (آل عمران)اطاعت کرو اللہ کی اور رسولؐ کی تاکہ تم پر رحم کیا جائے) اور یہی بات (سورہ نور آیت ۵۶) میں بھی کہی گئی ہے۔ اور( سورہ انفال آیت : ۱ میں) فرمایا گیا :وَاَطِیْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۱ ( اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اگر تم (واقعی) ایمان والے ہو) (یٰسٓ آیت:۳۰)میں فرمایاگیا یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ۝۰ۚ وَمَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِءُوْنَ۝۳۰ (بڑا ہی افسوس ہے بندوں پر جو رسول بھی ان کے پاس آیا وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے)اور (سورہ الفرقان آیت ۲۷) میں فرمایا گیا اور حشر کے دن ظالم اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا۔ ہائے کاش کہ میں رسول کا طریقہ اختیار کیا ہوتا) اور( سورہ احزاب:۶۶) میں  فرمایا : یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا۝۶۶ (اس دن ان کے چہرے آگ میں اُلٹ پلٹ کئے جائیں گے (حسرت و افسوس سے) وہ کہیں گے کہ کاش ہم اللہ و رسول کی اطاعت کئے ہوتے)۔

شیطان کے وسوسوں پر عمل کرنے والا شیطان کی عبادت کرنے والا ہے۔شیطان کی عبادت سے منع کیا گیا ہے ۔ اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ۝۰ۚ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۶۰ۙ  (یٰسٓ) (اے آدم کی اولاد ! ہم نے تم سے نہ کہہ دیا تھا کہ شیطان کی بندگی نہ کرنا وہ تمہارا کُھلا دشمن ہے)شیطان کے وسوسوں پر چلنا دراصل اس کی عبادت کرنا ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ (البقرہ:۲۰۸)( اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو)۔

ایک نافرمانی سے پچھلے تمام نیک اعمال باطل ہو جاتے ہیں۔  یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ۝۳۳  ( سورہ محمد) (اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو) اورحدیث میں ہے کہ  نافرمانی کرنے والے سے ایمان نکل جاتا ہے ۔ اور توبہ کرنے پر لوٹ آتا ہے۔

توبہ

گناہ کے ساتھ ہی توبہ پر معافی کی بشارت ہے اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰۗىِٕکَ یَتُوْبُ اللہُ عَلَیْھِمْ۝۰ۭ وَکَانَ اللہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْمًا۝۱۷ (النساء) (اللہ انہیں لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو نادانی کی وجہ سے کوئی بُرا فعل کر گزرتے ہیں اور اس کے بعد جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں ایسے لوگوں پر اللہ اپنی نظر عنایت سے پھر متوجہ ہوتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا اور حکمت والا ہے) موت کے وقت کی توبہ قبول نہیں  وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّـیِّاٰتِ۝۰ۚ حَتّٰٓی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْـــٰٔنَ وَلَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَھُمْ کُفَّارٌ۝۰ۭ (النساء:۱۸) ( اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو بُرے کام کرتے رہے یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آموجود ہو تو اس وقت کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا  ہو ں اور نہ ان کی توبہ قبول ہوگی جو حالت کفر ہی میں مر جاتے ہیں ۔)

قرآن عِلم کی کتاب ہے اور علم بھی وہ جو ابدی زندگی کا ہے ارشاد ہے کہ   وَلَقَدْ جِئْنٰہُمْ بِکِتٰبٍ فَصَّلْنٰہُ عَلٰی عِلْمٍ (اعراف : ۵۲)( اور یقینا ہم ان کے پاس ایک کتاب لائے ہیں جس کو ہم نے اپنے علمِ کامل سے بہت ہی واضح کر دیا ہے) اس لئے ہدایت حاصل کرنے کے لئے قرآن کو سمجھ کر پڑھنا بے حد ضروری ہے کیونکہ ایسا کئے بغیر جہل سے چھٹکارہ ناممکن ہے۔

علم حاصل کرنے کے لئے عقل کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عقل ہی سے انسان نفع ونقصان کو پہچانتا ہے۔ اس لئے فرمایا گیا وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ۝۱۰۰ (یونس) (جو عقل سے کام نہیں لیتے ان پر گندگی مسلّط کر دیتا ہے) اور فرمایا: اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ۝۲۲ (الانفال)( یقینا مخلوق میں بدترین وہ ہیں جو بہرے ہیں اور گونگے ہیں اور ذرا بھی عقل سے کام نہیں لیتے)۔

عقل ہی سے کام نہ لینے کی بناء پر انسان دوزخ میں جائے گا جیسا کہ دوزخی اعتراف کریں گے وَقَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۱۰ (الملک) کہیں گے کہ کاش کہ ہم سنتے یا سمجھتے تو ہم اہلِ دوزخ میں شامل نہ ہوتے۔

عقل متضاد اور متخالف باتوں کو تسلیم نہیں کرتی اسلئے پاگل پر شریعت لاگو نہیں ہوتی ۔ قرآن کے خلاف کسی کی بھی بات کو چاہے وہ حدیث کے نام ہی سے کیوں نہ ہو ماننا قرآن کو جھوٹا قرار دینا ہے۔ ایسا کرنے والا سب سے بڑا ظالم ہے۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہ  (انعام:۲۱)  اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان لگائے یا اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے) اللہ تعالی نے نبی کریمؐ کو صرف وحی کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ۝۰ۚ (انعام:۱۰۶) اے محمدؐ ! اس وحی کی پیروی کرو جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ یہی بات (سورہ یونس :۱۸) اور(سورہ احزاب:۲)  میں بھی بیان ہوئی ہے۔ اس حکم الٰہی کی تعمیل میں نبیؐ کا اعلان ہے کہ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ۝۰ۭ (انعام:۵۰، یونس :۱۵) میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔ اس لئے ہر وہ حدیث جو قرآن کے خلاف ہو اور تجربہ و مشاہدہ میں غلط ہو وہ یقینا موضوع (گھڑی ہوئی) ہی ہوگی ۔ کیونکہ نبی کریم ؐ  کا کوئی قول و فعل قرآن کے ہر گز خلاف اور تجربہ اور مشاہدہ میں غلط نہیں ہو سکتا۔

حقیقی بگاڑ

ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّہِمْ(الحج؛۱۹) (یہ دو گروہ ہیں جو اپنے رب کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں)۔

اللہ ہی کو تنہا و اکیلا رب ماننے کی بنا پر اصحابِ کہف کو اپنی جان بچانے کیلئے غار میں پناہ لینا پڑا (الکہف:۱۶) ابراہیم ؑ سے اللہ ہی کے تنہا و اکیلے رب ہونے کی بناپر جھگڑا کیا گیا  (البقرہ:۲۵۸) مکّہ میں نبی کریم ؐ تیرہ سال تک یٰٓا اَیُّہَا النَّاسُ قُوْلُوا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ تُفْلِحُوْا ( اے لوگو ! لاالہ الااللہ کہو اور فلاح پاجاؤ) کی دعوت دینے پر آزمائش رہی اور مکہ سے ہجرت کرنا پڑا اور اللہ ہی کو اپنا رب ماننے کی بنا پر صحابہ کرامؓ  کو مکہ سے نکالاگیا جیسا کہ ارشاد ہے الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ۝۰ۭ ( یہ وہ لوگ میں جنہیں ان کے گھروں سے محض اسلئے نکالاگیا کہ انہوں نے کہا کہ صرف اللہ ہی ہمارا رب ہے) (الحج:۴۰)

ہر زمانہ میں اللہ ہی کا اکیلا و تنہا خالق و پروردگار ہونا مانا گیا ہے اس لئے تمام پیغمبروں نے اپنی قوموں کو یہی مُسلّمہ بات یاد دلاتے ہوئے اسی کی روشنی میں اپنے عقائد کے متعلق غور کرنے کی دعوت دی ہے مثلاً:  فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ۝۰ۭ  (اعراف :۵۹) (پس پیغمبرنے کہا اے میری قوم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو کیونکہ اس کے سوا کوئی بھی تمہارا معبود (حاجت روا ، مشکل کشا، داتا) نہیں ہے ۔ یہی بات اسی سورہ کی( آیت : ۶۵، ۷۳، ۸۵) کے علاوہ متعدد جگہوں پر بھی بیان ہوئی ہے۔

ایمان والے جب بھی الٰہی ونبوی  تعلیمات سے ذرا بھی غافل ہوئے تو شیطان ان کو  لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللہ کے خلاف باتوں میں مبتلا کرتا آیا ہے۔ اور ایسا کرنے کا شیطان نے رب کو چیلنج کیا ہے۔ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَیْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِہِمْ۝۰ۭ وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیْنَ۝۱۷ (اعراف) (پھر ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے آؤں گا اور تُو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا) سے ثابت ہے کہ اصلی و حقیقی بگاڑ پرورش ، حاجت روائی ، مشکل کشائی اور فریادرسی میں ہے جس میں مسلمان ( الا ماشاء اللہ) بری طرح مبتلا ہیں ۔ چنانچہ رب کے سوا یا ساتھ مردہ و غائب ہستیوں کو عارضی ، مجازی اور عطائی طور پر ہی سہی حاجت روا، مشکل کُشا ، فریادرس ، گنج بخش، داتا، غوث ، خواجہ غریب نواز ‘ بندہ نواز اور سفارش کرنے والے سمجھتے ہیں حالانکہ کھاتے پیتے تو ہیںاللہ کا دیا ‘مگر سمجھتے ہیں کہ یہ بزرگوں کا فیض و کرم ہے۔

اللہ کے نظامِ پرورش میں دوسرا بگاڑ ، جادو، عمل عملیات ، تعویذ ، گنڈہ، جھاڑ پھونک ، سایہ سپٹ ، دم ، نحوست و برکت ، شگون ، نظر ، ستاروں کے کھیل ، قرآنی آیات و سورتوں کے وِرد کرنے سے یا ختم قرآن یا درود کی مجالس یا آیت کریمہ کے دسترخوان سے برکت ہونے یا مشکل و  مصیبت کے دور ہونے کے عقائد ہیں۔ ان باتوں کو ماننا دراصل دنیا دار الاسباب میں بلا اسباب کے بھی نظام کو ماننا ہے، جس کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے جیسا کہ ارشاد ہے

لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہِ لَیْسَ لَہٗ دَعْوَۃٌ فِی الدُّنْیَا وَلَا فِی الْاٰخِرَۃِ (غافر : ۴۳) (یہ ایک قطعی و یقینی بات ہے کہ جس چیز (شرک) کی طرف تم مجھ کو بُلا رہے ہو اس کا ذرا سا بھی ثبوت نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں) یہ تمام محض شیطان کے پیدا کردہ وہم و گمان ہیں چونکہ ایسے تمام عقائد اللہ کے بے حد اٹل نظامِ پرورش کے صریحاً ضد و خلاف ہیں اور ان عقائد میں مبتلا ہونے سے بنی آدم کو جن نقصانات سے دوچار ہونا پڑے گا ان کو بیان کر دیا گیا۔ مثلاً :  (۱)  اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِیْمًا۝۴۸ (النساء) ( اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ میں سے جس کو چاہے بخش دے۔ اور جس نے اللہ کا شریک مقرر کیا اس نے بہت بڑا بہتان باندھا) (۲) سورہ النساء آیت ۱۱۶ میں شرک کرنے والے کو ( فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا) فرمایا گیا ہے۔  (۳) اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰىہُ النَّارُ۝۰ۭ  ( المائد ہ  :۷۲) جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر جنت کو حرام کر دیگا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ (۴)   وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(الانعام  :  ۸۸)  ( اگر ان لوگوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کا سب کیا کرایا غارت ہو جاتا) ۔  (سورہ الزمر آیت ۶۵)  میں فرمایا گیا کہ (۵)   لَىِٕنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ اے نبی اگر آپؐ  بھی شرک کرتے تو آپؐ کے بھی تمام اعمال حبط کر دئے جاتے۔

شرک کی گندگی سے بچنے کے لئے حسب ذیل حقائق کا علم دیا گیا۔

اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى ( النمل:۸۰) بیشک تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے ۔ یہی بات سورہ الروم(آیت: ۵۲) میں بھی فرمائی گئی ہے۔ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ (فاطر:۲۲) اے پیغمبر آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں ) اس اٹل حقیقت کو سن لینے کے باوجود بعض یہ کہتے ہیں کہ ’’مُردے نہیں سن سکتے ‘‘کی بات قرآن میں کہاں ہے؟ حالانکہ سورہ الفاطر (آیت: ۱۴)میں فرمایا گیا   اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَاۗءَکُمْ۝۰ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ۝۰ۭ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ۝۰ۭ وَلَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ۝۱۴ۧ ( فوت شدہ افراد کو (چاہے وہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو )اگر تم پکارو گے تو وہ تمہاری پکار نہیں سن سکتے۔ ولو فرض سن بھی لیں تو وہ تمہاری بگڑی نہیں بنا سکتے( حالانکہ تم ان کو بگڑی بنانے کے لئے ہی پکارتے ہو) اور حشر کے دن تمہارے شرک کا انکار کریں گے اور تم کو خبر رکھنے والے اللہ کی طرح کوئی بھی نہیں بتا سکتا۔) یہاں پُکارنہ سُننے کی بات کہی گئی ہے کیا یہ حضرات اس کے بعد بھی پُکار نہ سُننے کی بات کو جھوٹ کہہ سکتے ہیں ۔ جو نا ممکن ہے تو ماننا پڑے گا کہ مرنے کے بعد چاہے پیغمبر ہی کیوں نہ ہو دنیا والوں کی پکار نہیں سن سکتے ۔ چنانچہ اس حقیقت واقعہ کو قرآن میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ یعنی پیر، پیغمبر ، زندوں کی پکار، نذر ، نیاز ، فاتحہ ، درود ، سے حشر تک قطعی لا علم  اور  بالکل بے خبر رہتے ہیں۔  فَکَفٰى بِاللہِ شَہِیْدًۢا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغٰفِلِیْنَ۝۲۹  (یونس) ( ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ ہم تمہاری اس عبادت سے غافل تھے) اور یہی بات سورہ( النحل ۸۶ )اور سورہ( مریم ۸۲) میں بھی فرمائی گئی ہے اور سورہ الاحقاف میں فرمایا گیا:  وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵ وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَہُمْ اَعْدَاۗءً وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیْنَ۝۶ اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو پکارتا ہے جو کہ اس کی بگڑی نہیں بنا سکتے اور اُن کی پُکار سے حشر تک بالکل بے خبر رہتے ہیں اور حشر کے دن یہ لوگ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی نذر و نیاز ، فاتحہ و درود سے انکار کریں گے)۔

پیر و پیغمبر کی بے اختیاری، بے بسی اور بے چارگی کے متعلق یہ علم دیا گیا وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ۝۱۳ۭ ( الفاطر) ( اور اس اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی پر کے چھلکے کے برابر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتے) ( اور ثبوت میں یہ فرمایا  لَا یَمْلِکُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِکُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوۃً وَّلَا نُشُوْرًا( الفرقان: ۳)  ( اور خود اپنے لئے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ کسی نفع کا اور نہ کسی کے مرنے کااختیار رکھتے ہیں اورنہ کسی کے جینے کا اورنہ کسی کودوبارہ جلانے کا) تو بھلا موت کے بعد وہ دوسروں کی کیا خاک مدد کر سکتے ہیں)۔

دنیا والوں کی پکار سننے اور ان کی مدد کرنے کے تعلق سے پیر، پیغمبر کے متعلق فرمایا گیا  اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاۗءٍ۝۰ۚ ( مردہ ہیں جن میں جان نہیں) اور    وَمَا یَشْعُرُوْنَ۝۰ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ  (وہ نہیں جانتے کہ وہ خود دو بارہ کب اٹھائے جائیں گے) ( النحل:۲۱) اور یہی بات سورہ  ( النمل:۶۵) میں بھی فرمائی گئی ہے۔

 نِدائے غیرُ اللہ  :-

مُردہ و غائب ہستیوں کو چاہے وہ پیر ہوں یا پیغمبر ہوں کو مدد کے لئے پکارنے سے منع کرتے ہوئے منع کرنے کی وجہ بھی بیان کر دی گئی ہے۔جیسا کہ ارشاد ہے۔ وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ۝۰ۚ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِــمِیْنَ۝۱۰۶  ( یونس)  ( اللہ کو چھوڑ کر کسی کو بھی نہ پکار کیونکہ وہ تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ۔ اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا) مردہ و غائب ہستیوں کو پکارنا محض بے دلیل اور کفر ہے جیسا کہ ارشاد ہے ۔ وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ۝۰ۙ لَا بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ۝۰ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْکٰفِرُوْنَ۝۱۱۷  (المومنون) (جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے جس کے لئے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر مدد کے لئے مردہ اور غائب ہستیوں کو پکارنے والے کافر ہیں جو فلاح نہیں پا سکتے) ۔

سورہ الرعد آیت ۱۴میں فرمایا گیا  وَمَا دُعَاۗءُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ ۔  کافروں کا اللہ کو چھوڑ کر مردہ  غائب ہستیوں کو  پکارنا قطعی رائیگاں ہے۔  یَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا یَضُرُّہٗ وَمَا لَا یَنْفَعُہٗ۝۰ۭ ذٰلِکَ ہُوَالضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ۝۱۲ۚ   ( الحج) یہ اللہ کو چھوڑ کر مردہ و غائب ہستیوں کو پکارتے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع ‘مردہ غائب ہستیوں کو بگڑی بنانے کیلئے پکارنا انتہائی درجہ کی گمراہی ہے)  وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ہُوَالْبَاطِلُ (الحج:۶۲)  ( جس کو بھی اللہ کے سوا ء پکارتے ہیں وہ قطعی باطل ہے) قرار دیا گیا ہے۔

مندرجہ بالا ہدایات الٰہی کے خلاف شیطان نے عقیدت و محبت کے عنوان سے پیر، پیغمبروں کو پکارنے کی  بات سکھائی ہے ۔ اس لئے  پیر‘ پیغمبر وں کو پکارنا دراصل شیطان ہی کو پکارنا ہے جیسا کہ ارشاد ہے۔  اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا۝۰ۚ وَاِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا۝۱۱۷ۙ  ( النساء ) ( یہ لوگ اللہ کے سوا نہیں پکارتے مگر دیویوں کو اور نہیں پکارتے مگر شیطان سرکش کو)۔

ہر ایک سر کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ مردے نہ سن سکتے ہیں اور نہ ہی مدد کر سکتے ہیں بلکہ غسل، کفن، نماز جنازہ، دفن اور دعائے مغفرت میں زندوں کے محتاج محض ہوتے ہیں لیکن شیطان اور اس کے شاگرد‘ زندوں کو مردہ بزرگوں کا  محتاج ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔یاد رکھئے کہ عرس و جاترا ، درگاہ و دیول ، اَستھان وچِھلہ میں ناموں کے سواء کوئی فرق نہیں۔ اس لئے اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے قبور (درگاہوں) سے فیض و برکت حاصل ہونے کا عقیدہ رکھنے والوں پر اللہ لعنت کرتا ہے۔(حدیث)

بنی آدم کو مستحق دوزخ بنانے کے لئے شیطان نے ایک چیالنج تو یہ کیا کہ ان کوناشکرا بنانے کی کوشش کرے گا ۔ ( اعراف : ۱۷ ) اور دوسرا چیالنج  لَاُزَيِّنَنَّ لَہُمْ فِي الْاَرْضِ ( میں قسم کھاتا ہوں کہ ان (بنی آدم) کی نظروں میں (ابدی زندگی کے بجائے) دنیا کی زندگی کو خوشنما بنا دونگا۔  (الحجر:۳۹) اس کے اس فریب سے بچنے کیلئے  قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا۝۱۰۳ۭ اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۝۱۰۴ (الکہف) (کہو کیا میں تم کو بتا دوں کہ اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہوں گے۔ (سب سے زیادہ خسارے میں) وہ لوگ ہوں گے جن کی تمام کوششیں ( آخرت کے نقصان کی پرواہ کئے بغیر) دنیاوی زندگی کی ضروریات (حسبِ خواہش) حاصل کرنے میں گم ہو کر رہ گئیں اور وہ یہی سمجھتے رہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں بہت اچھے کام کر رہے ہیں) جیسا کہ حشر کے دن جن و انس کہیں گے قَالُوْا شَہِدْنَا عَلٰٓي اَنْفُسِـنَا وَغَرَّتْہُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا وَشَہِدُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ اَنَّہُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ۝۱۳۰(انعام) جن و اِنس کہیں گے کہ ہم خود اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں کہ ہم کو دنیا کی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھااور وہ اپنے خلاف خود گواہی دیں گے کہ بیشک ہم( بلا شرکتِ غیرے تنہا و اکیلے اللہ ہی کے رب ہونے کا ) انکار کرتے تھے)۔

دنیا میں ہر شخص سامان و اسباب و ذرائع ہی سے رزق حاصل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے لیکن آخرت کے ابدی گھاٹے سے بچنے کے لئے  ہدایت حاصل کرنے کی غرض سے ہدایت کے سامان و اسباب و ذرائع (قرآن سنت رسولؐ، اسوہ صحابہؓ) سے لا علمی وغفلت کی بنا پر شیطان  نے ایمان والوں کو جن غلط وہموں میں مبتلا کر دیا ہے ان میں سے چند پیش ہیں۔

(۱)     اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ (النساء:۵۱) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب کا ایک حصہ دیا گیا  اور وہ ہیں کہ جبت اور شیطان کو مانتے ہیں) جبت کے اصلی معنی بے حقیقت ، بے اصل  ،  اور بے فائدہ چیز کے ہیں ۔ اسلام کی زبان میں جادو، کہانت (جیوتش) فال گیری ، ٹونے ٹوٹکے ، شگون، مہورت اور تمام دوسری وہمی و خیالی باتوں کو جبت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے۔ جانوروں کی آوازوں اور زمین پر جانوروں کے نشانات قدم سے شگون نکالنا وغیرہ  (تفہیم ج۱: سورہ النساء :۸۱) جھاڑ پھونک کو بے فائدہ کہا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے ۔ وَقِيْلَ مَنْ۝۰۫ رَاقٍ۝۲۷ۙ ( القیامۃ) (اور کہا جاتا ہے کہ ہے کوئی جھاڑنے ، پھونکنے والا بھی) اللہ کے رسولؐ نے تعویذ اور جھاڑ پھونک سے بچنے والوں کو بلا حساب جنت میں داخل ہونے کی بشارت دی ہے ۔(بخاری)

 

 

تعویذ

جادو، عمل عملیات سفلی ہو یا علوی ، عبادتی ہوں یا ساحرانہ کو محض زبان ، الفاظ اور ناموں کی بنا پر ایک کو جائز دوسرے کو ناجائز قرار دینا نری سادہ لوحی ہے۔ کیونکہ ان سب میں ایک ہی تصور کار فرما ہے کہ یہ چیزیں اللہ کے مقررہ نظامِ اسباب کے خلاف و متوازی بلا اسباب ظاہری کے پوشیدہ ، غیبی اور غیر مرئی طور پر اثر کرتی ہیں۔ اس لئے اللہ کے رسولؐ نے  اتمام شرک  (ابوداؤد) ( ہر قسم کا تَعویذ شرک ہے) فرمایا ہے۔ جس سے قرآن کی تعویذ بھی شرک قرار پاتی ہے کیونکہ یہ عقیدہ من گھڑت اور اٹکل پچو ہونے کے علاوہ اس سے بندے کا تعلق رب سے قطعی ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لئے یہ شرک ہے جس سے ثابت ہے کہ بندے اور رب کے راست تعلق میں کمزوری یا خرابی پیدا کرنے والی ہر چیزغلط و جھوٹ ہے چاہے وہ معوذتین کا دم ہی کیوں نہ ہو۔ اور نبی کریمؐ نے فال کھلوانے اور فال کی باتوں کو سچ سمجھنے والوں کا تعلق قرآن سے کٹ جانے کی بات بھی فرمائی ہے۔ (ابو داؤد)  آج تک کوئی ایسا دم ، کڑا، تَعویذ ، چَھلہ دریافت نہ ہو سکا جس سے بلا اسباب کے جان و مال اور بینکوں کی حفاظت ہو سکے یا بغیر کھائے پیئے کہ پیٹ بھر جایا کرے۔

بھانا متی سے بنک میں نوٹ اور ملزمیں کپڑے نہیں جلتے ۔ شہنشاہ جادوگر بغیر ٹکٹ کے اپنا شو نہیں بتاتے۔ اپنی بیماری کا علاج عمل ، عملیات سے کرنے کے بجائے حکیم یا ڈاکٹر ہی سے کرواتے ہیں کوئی بھی قفل کے بجائے تعویذ یا دم سے کام نہیں لیتا۔ ڈاکو تو صرف جان و مال کا نقصان کرتے ہیں لیکن عامل ، چَھلہ و نقش بیچنے والے لوگوں کا ایمان غارت کر کے ابدی گھاٹا پہنچاتے ہیں۔ حالانکہ ابدی گھاٹا پہنچانا تو صرف شیطان ہی کا کام ہے۔

شیطان

شیطان یعنی ’’ جن‘‘  کَانَ مِنَ الْجِنِّ ( الکہف:۵۰) ( وہ جنّات میں سے تھا ) اور جن کو آدمؑ سے پہلے آگ سے پیدا کیا (الحجر:۲۷) اور قرآن سے یہ ثابت ہے کہ جن انسانوں کو جسمانی و مالی نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان نہ شکل بدل سکتا ہے نہ روپ نہ بھیس ، نہ اپنی آواز ہی سنا سکتا ہے نہ اپنے آپ کو دکھا سکتا ہے۔چنانچہ نبی کریمؐ  بھی جنوں کی نہ آواز سن سکے اور نہ ہی ان کو دیکھ سکے۔   وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝۰ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا۝۰ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِيْنَ۝۲۹ ( احقاف ) ( اور جب کہ ہم جنّات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف لے آئے جو قرآن سننے لگے غرض جب وہ لوگ قریب آپہنچے کہنے لگے کہ خاموش رہو پھر جب قرآن پڑھا جا چکا تو وہ لوگ اپنی قوم کے پاس خبر پہنچانے کے واسطے واپس گئے۔  قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّہُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَــبًا۝۱ۙ ( الجن)  ( آپؐ کہئے کہ میرے پاس اس بات کی وحی آئی ہی کہ جنّات میں سے ایک جماعت نے قرآن سنا پھر انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے)۔

ان دونوں آیات سے ثابت ہے کہ جنوں کے قرآن سننے کا علم نبی کریم  ؐ   کو خود نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ نے وحی کے ذریعہ بتایا ہے۔ کیونکہ اس معاملہ میں  اِنَّہٗ یَرٰىکُمْ ہُوَوَقَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَہُمْ۝۰ۭ (اعراف:۲۷) (یقینا وہ (شیطان، جن) اور اس کا کُنبہ ایسی جگہ سے تم کو دیکھ لیتا ہے ۔ تم اس کو نہیں دیکھ سکتے ) یعنی نبی کریم ؐ بھی نہیں دیکھ سکے ۔ البتہ سلیمان ؑ کے متعلق یہ بیان ہوا ہے کہ شیطان اور جن آپ کے حکم کی تعمیل کیا کرتے تھے) ( الانبیاء :۸۲ نمل:۱۷، ص:۳۷)

قرآن کو  وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ ( یوسف:۱۱۱) ’’ہر چیز کی تفصیل ‘‘  فرمایاگیا ہے جس میںجِنوں کی جانب سے انسانوں کو مالی و جانی نقصان و نفع پہنچانے کی بات نہیں ہے چنانچہ قرآن میں بھی یہی بات بتائی گئی ہے کہ شیطان یا جن بنی آدم کے سینوں میں صرف وسوسہ ڈال سکتے ہیں جو سورہ الناس سے ثابت ہے یعنی انسانوں کو نہ جسمانی نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ مالی نہ وہ اپنی آواز سنا سکتے ہیں اور نہ وہ اپنے آپ کو دکھا سکتے ہیں اور نہ کوئی روپ اختیار کر سکتے ہیں اور نہ بھیس بدل سکتے ہیں اور نہ کسی انسان پر وارد ہو سکتے ہیں۔ ان باتوں کی سچائی کے ثبوت میں خود شیطان کا بیان پیش ہے۔  وَقَالَ الشَّيْطٰنُ لَمَّا قُضِيَ الْاَمْرُ اِنَّ اللہَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ۝۰ۭ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِيْ۝۰ۚ فَلَا تَلُوْمُوْنِيْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ۝۰ۭ  (ابراہیم : ۲۲ )( حشر کے دن جب فیصلہ کر دیا جائے گا تو شیطان (انسانوں سے) کہے گا کہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا۔ اور میں نے تم سے جتنے وعدے کئے تھے ‘میں ان سب کے خلاف کیا اور میرا تم پر کوئی بس نہ چلتا تھا مگر یہ کہ میں نے تم کو بلایا تو تم نے میری بات کو مان لیا۔ پس تم مجھ کو الزام نہ دو اور تم اپنے آپ کو ملامت کرو ‘نہ میں تمہیں (اللہ کے عذاب) سے بچا سکتا ہوں اور نہ تم مجھ کو  (اللہ کے عذاب) سے بچا سکتے ہو)۔ اس کے علاوہ حشر کے دن شیطان رب سے کہے گا۔  رَبَّنَا مَآ اَطْغَیْتُہٗ وَلٰکِنْ کَانَ فِیْ ضَلٰلٍم بَعِیْدٍ ( ق: ۲۷) مندرجہ بالا سے قطعی ثابت ہے کہ انسانوں کو رتّی برابر بھی نہ مالی نہ جسمانی نفع و نقصان پہنچانے کا اختیار شیطان و جن کو دیا گیا ہے۔ چونکہ کوئی انسان بھی سوائے سلیمانؑ کے شیطان و جن کو نہیں دیکھ سکتا اور نہ جن و شیاطین اپنے آپ کو دکھا سکتے ہیں تو پھر ان کو اپنا موکل بنانے‘ اپنے قابو میں رکھنے اور قابو میں کرنے اور انکو بوتل میں بند کرنے اور انسانوں پر بالخصوص عورتوں پر وارد ہونے جیسی تمام باتیں کس قدر غلط اور جھوٹ ہیں ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بات ہر عقل والا سمجھ سکتا ہے۔

شیطان کا بنیادی وواحد مقصد اللہ کے نظام پرورش ( ٹھوس و مادی ذرائع و اسباب پر مبنی) کے خلاف جھوٹ و غلط ( مادی و ٹھوس اسباب و ذرائع اختیار و استعمال کئے بغیر بھی نفع و نقصان ہوتا ہے جیسے) وہموں میں بنی آدم کو مبتلا کر کے ان کو مستحق دوزخ بنانا ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے (۱) كُتِبَ عَلَيْہِ اَنَّہٗ مَنْ تَوَلَّاہُ فَاَنَّہٗ يُضِلُّہٗ وَيَہْدِيْہِ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيْرِ۝۴ ( الحج )  ( اس کی نسبت یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ جو اسے دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کر کے رہے گا اور اسے عذاب جہنم کا راستہ دکھائیگا۔ (۲) اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا۝۰ۭ اِنَّمَا يَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِيَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ۝۶ۭ (فاطر) (بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے اس لئے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لئے بلا رہا ہے تاکہ وہ  دوزخیوں میں شامل ہو جائیں۔)

غو ر کیجئے شیطان جس کا بنیادی مقصد بنی آدم کو مستحق دوزخ بنانا ہے تو کیا وہ اس پر وارد ہو کر اس کو مخبوط الحواس بنا کر اس کو دوزخ سے بچانے کا باعث بن سکتا ہے جب شیطان ایسا ہر گز نہیں کر سکتا تو وارِد ہونے اور اتارنے کی تمام باتوں کے غلط اور جھوٹ ہونے کے لئے کیا اب بھی کسی دلیل و ثبوت کی ضرورت ہے؟عموماً کہا جاتا ہے کہ شیطان نے انسانوں کو بھٹکانے کے لئے اللہ سے مہلت مانگی ہے حالانکہ حقیقت واقعہ ایسا نہیں ہے بلکہ آدمؑ کو سجدہ کرنے کے حکمِ الہٰی پر عمل نہ کرنے کا جرم کیا ہے اپنے اس جرم کی حقیقی و واقعی جو سزا ہے اس کو حشر کے دن تک ملتوی کرنے کے لئے اللہ سے دعا کیا ہے جس کو قبول کر لیا گیا۔ (الاعراف:۱۴،۱۵، الحجر:۳۷، ص ٓ: ۷۹، ۸۰)

مرنے کے بعد کوئی بھی کسی طرح بھی پھر دنیا میں واپس نہیں آسکتا۔  وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَۃٍ اَہْلَكْنٰہَآ اَنَّہُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ۝۹۵ (الانبیاء) ( اور ہم جن بستیوں کو ہلاک کر چکے ہیں ان کے لئے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ پھر لوٹ کر آئیں) یہی بات (سورہ مریم:۹۸ ، یٰسٓ: ۲۶:۳۱) میں بھی فرمائی گئی ہے۔ اس لئے سایہ سپٹ ، وارد ہونا، کھندلہ ، بھوت ، پریت محض یا تو وہمی باتیں ہیں یا دماغی یا نفسیاتی امراض ہیں یا جھوٹ و ڈھونگ ہے۔ امراض کا علاج کروانے کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ دعا بھی کرنا چاہیئے۔

نظرِ بد

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۝۰ۭ (النور:۳۰) اے نبیؐ ! ایمان والے مردوں سے کہو وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں) وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ (النور:۳۱) اور ایمان والی عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں)۔

ان احکام کے علاوہ پردے کے احکام الٰہی (احزاب: ۵۳) سے بھی نظر لگنے کی بات کا غلط و جھوٹ ہونا ثابت ہے۔ لیکن  اَلْعَیْنُ حَقٌّ  (بخاری) سے نظر لگنے کی غلط بات پھیلائی گئی ہے جو قطعا قرآن کے خلاف اور واقعات اور مشاہداتی طور پر جھوٹ و غلط ہے۔ اگر واقعی نظر لگتی تو عورتیں خود بخود و بغیر حکم الٰہی کے پردہ کرتیں اور میک اپ کے لئے بلین ڈالرس خرچ کئے جا رہے ہیں وہ بچ جاتے۔

اَلْعَیْنُ حَقٌّ (بخاری ) نظر حق ہے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے سے دیکھنے والے کا ذہن متاثر ہوتا ہے۔ جس کو دیکھا جاتا ہے اس میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ہرسال منتخبہ حسینہ کو کروڑہا مرد وعورت دیکھتے ہیں لیکن کسی حسینہ میں بھی کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کو دیکھنے والوں کے ذہن کا متاثر ہونا ہر ایک کے تجربے و مشاہدے میں ہے۔ یوسف ؑ کو دیکھنے والیوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے۔ (یوسف:۳۱)

نحوست و برکت

شئے مقام، شخص ، ساعت ، دن ، رات ماہ یا سال کو مبارک یا منحوس سمجھنا شیطان کا پیدا کردہ وہم ہے اس لئے یہ شرک ہے کیونکہ  تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِہِ الْمُلْكُ ( الملک:۱) (تمام برکتوں کے مالک (اللہ) ہی کے ہاتھ میں کائنات کی پوری حکومت ہے) یہی بات متعدد جگہ بیان ہوئی ہے۔ مثلاً (اعراف:۵۴،ا لفرقان: ۱،۱۰،۶۱ )اور برکت حاصل کرنے کا قانونِ الٰہی یہ ہے کہ اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے ( المائدہ:۶۶، الاعراف:۹۶)

سال مہینے دن و رات کے متعلق فرمایا گیا۔ اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِيْ كِتٰبِ اللہِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ۝۰ۥۙ (التوبہ:۳۶)  (بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے پاس کتاب اللہ میں  (صرف) بارہ  (ہی) ہے اس دن سے جب سے آسمان اور زمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار مہینے حرام (ادب کے) ہیں یہی مضبوط دین ہے) اس سے ثابت ہوا کہ ان میں سے نہ کوئی منحوس ہے اور نہ کوئی برکت کا۔ تو لازماً ماہ دن رات و ساعت بھی منحوس و مبارک نہیں ہو سکتے ۔ نحوست و برکت کے غلط عقائد میں شیطان بنی آدم کو مبتلا کر کے گمراہ کرتا آیا ہے اسلئے اس کے فریب سے بچنے کیلئے فرمایا گیا اِنَّمَا النَّسِيْۗءُ زِيَادَۃٌ فِي الْكُفْرِ(التوبہ:۳۷) اس کے سواء کچھ نہیں کہ مہینوں کا آگے پیچھے کر لینا کفر میں زیادتی ہے) یعنی خاص کو عام اور عام کو خاص کر لینا ۔ نبی کریمؐ کی ایک زوجہ مطہرہ ہمیشہ جمعہ ہی کو روزہ رکھا کرتی تھیں تو نبی کریمؐ نے روزہ توڑنے کا حکم دیتے ہوئے تاکید اً فرمایا کہ جمعہ کے دن اور رات کو ہفتہ کے دوسرے دن اور رات پر فضیلت مت دو۔ (بخاری و مسلم)

رمضان کے مہینہ میں کئے ہوئے اعمال کا بدلہ دوسرے مہینوں میں کئے ہوئے اعمال سے زیادہ ملنے کی بات ‘قرآن کے خلاف ہے کیونکہ بیمار و مسافر کو رمضان کے روزوں کی گنتی کو دوسرے مہینوں میں روزہ رکھ کر پوری کرنے کا حکم دیا گیاہے۔ یہ حکم دو مرتبہ دیا ہے۔ (سورہ البقرہ : ۱۸۴، ۱۸۵) اللہ کا اٹل قانون یہی ہے کہ گزرا ہوا وقت قیامت تک واپس نہیں آسکتا ۔ چنانچہ سب ہی مانتے ہیں کہ ان کی تاریخ پیدائش قیامت تک واپس نہیں آ سکتی لیکن جہالت کی انتہا ء یہ ہے کہ شبِ معراج ، شبِ برأت اور شبِ قدر کے ہر سال آنے کو مانتے ہیں روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر جاگتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے بڑا ثواب ملتا ہے۔تیسرے بنی آدم کی آزمائش و امتحان کیلئے کائنات کی ہر چیز کا یکساں ہونا ضروری ہے تاکہ انسان ان کو صحیح یا غلط طریقہ سے استعمال کر کے اپنے لئے مبارک یا منحوس بنائے۔ چوتھے ایک ہی چیز غلط استعمال سے نقصان دہ ہوتی ہے اور وہی چیز صحیح  طریقہ پر استعمال کرنے سے فائدہ مند ہوتی ہے۔پانچویں کسی چیز میں فی الواقع نحوست یا برکت ہوتی تو بارش یا سیلاب وغیرہ کی طرح تمام انسان متاثر ہوتے۔

دعاء

وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ  اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ (مومن:۶۰) اے انسانو !تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ تم مجھے پکارو (مجھ ہی سے دعا کرو) میں ہی تمہاری دعائیں قبول کرتا ہوں اور بیشک جو میری عبادت (میری ہدایت کے مطابق مجھ ہی سے دعا )نہیں کرتے تکبر کرتے ہیں وہ(یقینا) ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل کئے جائیں گے)۔

بندوں کے لئے دعا کرنے کا صحیح طریقہ یہ بتایا گیا کہ وہ راست رب ہی کو پکاریں اور اس سے دعا کریں کیونکہ رب ہی ہماری دعاؤں کو قبول کر سکتا ہے ۔ اس کے سوا کوئی اور نہیں کیونکہ کائنات میں صرف اسی کی فرمانروائی ہے اس کے سوا کسی اور کی نہیں ۔ اس تاکیدی ہدایت کے خلاف جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر یا اللہ کے ساتھ پیر پیغمبر کو پکارتے ہیں یا دعاؤں میں ان کا واسطہ وسیلہ لیتے ہیں ان کے متعلق فرمایا : قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاۗؤُكُمْ۝۰ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَامًا۝۷۷ۧ (الفرقان) اے نبیؐ !کہو کہ میرا رب تمہاری ذرا بھی پرواہ نہیں کرتا اگر تم اس کو ( اس کے بتائے ہوئے طریقے سے) نہ پکاروگے ( یعنی اس کے بتائے ہوئے طریقے سے اس سے دعا نہ کرو گے) پس تم (اس بات کو ) جھٹلاتے ہو (کہ جوپیدا کیا وہی دعا قبول کرتا ہے) تو عنقریب اس کی سزا تم کو چمٹ جانے والی ہوگی) بندہ دعا ہی کے ذریعہ راست اپنے رب سے جڑتا ہے اس لئے اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ( دعاء عبادت کا مغز ہے) اَلدُّعَائُ ہِیَ الْعِبَادَۃِ ( دعاء ہی عبادت کی اصل ہے) اِنَابَتْ اِلَی اللّٰہِ ( اللہ کی طرف رجوع ہونا) ۔رجوع و عبادت کا واحد طریقہ دعا ہی ہے۔ غور کیجئے دنیا میں کوئی بھی دوسرے سے یہ نہیں کہتا کہ میرے لئے نماز پڑھئے ، میرے لئے روزہ رکھئے لیکن میرے لئے دعا کیجئے یا دعاؤں میں یاد رکھئے کہہ کر اپنے دیندار ہونے کا اظہار کرتا ہے ۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا رب اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ (سورہ قٓ:۱۶) ایک بچہ کسی سے بھی یہ نہیں کہتا کہ آپ میرے لئے میری ماں سے کہئے ۔ لیکن دوسروں سے اپنے لئے دعا کرنے کی بات کہنے والا بچہ سے بھی گیا گزرا ہے کیونکہ بچہ یقین رکھتا ہے کہ اس کی ماں اس کی بات ضرور سننے والی ہے لیکن دوسروں سے دعا کروانے والا اپنے رب سے بدگمانی کا شکار ہے کہ دوسروں سے دعا کروائے بغیر اس کا رب اس کی دعا قبول نہیں کرتا۔ دعاؤں میں واسطہ یا وسیلہ کو ثابت کرنے کیلئے قرآنی لفظ  الوسیلۃ  پیش کیا جاتا ہے جو حسب ذیل ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَيْہِ الْوَسِيْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِيْ سَبِيْلِہٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۳۵ (المائدہ) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اللہ تعالی کا قُرب ڈھنڈو اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا کروتا کہ تم کامیاب ہو جاؤ ) عربی لفظ الْوَسِيْلَۃَ کو اُردو زبان کے لفظ وسیلہ کے ہم معنی قرار دینا قطعی غلط ہے۔ چنانچہ قرآنی لفظ الْوَسِيْلَۃَ کے معنی قرب کے ہیں ۔ قرب تلاش کیا جاتا ہے لیا نہیں جاتا۔ یہاں وسیلہ لینا اگر مراد ہوتا تو وَابْتَغُوْٓا (تلاش کرو) کی بجائے خُذُوْا ( پکڑو یا لو) کا حکم ہوتا جس کی تصدیق وَجَاہِدُوْا فِيْ سَبِيْلِہٖ (اس کے راستہ میں جہاد کرو) کے حکم سے ہو جاتی ہے یعنی قرب تلاش کرنے کا واحد طریقہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا ہے۔ چنانچہ تمام پیغمبر عمر بھر یہی کام کرتے رہے۔ قرب سے مراد مکانی و زمانی قرب بھی نہیں بلکہ رحمتِ الہٰی کا زیادہ سے زیادہ مستحق ہونے کی اور اس کے عذاب سے ڈرکر نافرمانی سے بچنے کی کوشش کرنا ہے۔ چنانچہ بگڑی بنانے کیلئے اللہ کو چھوڑ کر پیر پیغمبروں کو پکارنے والوں سے یہ کہا گیا کہ یہ تمہارے پیر پیغمبر خود مرتے دم تک اپنے رب کا قرب ڈھونڈتے رہے کہ ان میں سے کون سب سے زیادہ قریب ہو جائے۔ (رحمت کا زیادہ مستحق ہو جائے) وہ خود مرتے دم تک اپنے رب کی رحمت کے امیدوار اور وہ خود مرتے دم تک اس کے عذاب سے ڈرتے رہے‘‘۔ ( بنی اسرائیل: ۵۶، ۵۷)

ملحوظ رہے کہ دعا کی قبولیت کے لئے کسی پیغمبر نے بھی کبھی اپنے خالص ترین اعمال کا نہ واسطہ دیا نہ وسیلہ لیا کیونکہ کسی بھی بندے کی یہ حیثیت ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ رب کو اپنی دعا قبول کرنے کے لئے اپنے عمل کا واسطہ دے یا وسیلہ لے۔ حصول قرب کے اس طریقے کے سوا دوسرا طریقہ اختیار کرنا نری گمراہی ہے جس کا انجام ابدی جہنّم ہے۔

دنیا میں بلا اسباب و ذرائع کے ایک بھی ضرورت کا پورا ہونا نا ممکن ہے۔ اس قسم کی مثالیں دے کر دعا میں واسطہ ، وسیلہ لینا شیطانی مغالطہ ہے کیونکہ دعا کوئی مادی ضرورت نہیں کہ اس میں اسباب کی ضرورت ہو بلکہ یہ ایک معنوی ضرورت ہے۔ جھوٹی احادیث واقوال سے اس مسئلہ کو گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے حالانکہ اللہ کیلئے مخلوق کی مثال دینے سے منع کر دیا گیا ہے۔ فَلَا تَضْرِبُوْا لِلہِ الْاَمْثَالَ۝۰ۭ (النحل:۷۴) ( پس تم اللہ کے لئے مثالیں مت گھڑو)۔

عبادات میں جب واسطہ و وسیلہ نہیں تو مغزِ عبادت دعا میں واسطہ وسیلہ کی بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے۔ چنانچہ تمام پیغمبر و عباد الرحمن بلا واسطہ و وسیلہ راست اللہ ہی سے دعا کئے ہیں ۔ دعا کی قبولیت کیلئے ایمان کی بھی شرط نہیں ہے۔ تمام انسانوں کی دعائیں بلا واسطہ و وسیلہ اور بغیر درود کے قبول ہو رہی ہیں ۔ غیر مسلم اور اللہ کے وجود ہی کا انکار کرنے والے نہ صرف پرورش پا رہے ہیں بلکہ واسطہ وسیلہ لینے اور درود پڑھنے والوں پر حکومت بھی کر رہے ہیں۔

بچہ کی پرورش کے لئے ماں کو جب کسی واسطہ وسیلہ کی ضرورت نہیں تو ماں باپ سے ستر ( ۷۰ ) گنا زیادہ محبت کرنے والے پروردگار کو واسطہ وسیلہ اور درود کی ضرورت کیسے ہو سکتی ہے؟

 آدمؐ کا اپنی توبہ کی قبولیت کے لئے نبی کریمؐ کا واسطہ دینا یا آپ کا وسیلہ لینے والی حدیث قطعی جھوٹی ہے۔ یہ ’’موضوعات کبیر‘‘ میں موجود ہے۔ اس کتاب میں ملاعلی قاریؒ نے جھوٹی حدیثوں کو جمع کیاہے۔

دوسرے یہ کہ قرآن سے قطعی ثابت ہے کہ آدم ؑاور حواؑکی توبہ جنت ہی میں قبول کر لی گئی تھی۔ چنانچہ سورۃ البقرہ آیت ۳۶ میں  اِھْبِطُوْا ’’نیچے اتر جاؤ‘‘ ا ور  اس کے بعد کی (آیت :۳۷) میں فرمایا گیا فَتَلَـقّٰٓي اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۳۷ (پس آدمؐ نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لئے اور اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ بیشک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے) اس کے بعد کی(آیت ۳۸) میں دوبارہ اِھْبِطُوْا کا  لفظ آیا ہے۔ یہاں صرف کلمات کے سیکھنے کی بات بیان ہوئی ہے اور اس کی تفصیل سورہ( اعراف: ۲۳) میں دی گئی ہے ۔ جو ذیل میں بیان ہوئی ہے۔ ان آیات سے ہر عقل سلیم رکھنے والا یہی کہے گا کہ آدمؑ اور حواؑ کی توبہ جنّت ہی میں قبول کی گئی۔تیسرے آدم ؑ اپنے رب سے جو کلمات سیکھے وہ یہ ہیں ۔  قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا۝۰۫ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۲۳ (اعراف) (دونوں (آدمؑ و حواؑ)نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر بڑا ظلم کر لیا ہے اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم گھاٹا پانے والوں میں سے ہوجائیں گے)اُن کی توبہ قبول کرنا ( اللہ کے قانون توبہ (النساء:۱۷) کے تحت اللہ ہی کے ذمہ ہے۔ چنانچہ اس کے بعد کی(آیت : ۲۴) میں فرمایا  اِھْبِطُوْا ’’نیچے اتر جاؤ ۔‘‘ چوتھی دلیل یہ ہے کہ سورہ طٰہٰ (آیت ۱۲۲ )میں ثُمَّ اجْتَبٰـہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَ ھَدیٰ )پھر اس کے رب نے اس کو منتخب کیا اور اس کی توبہ قبول کی اور راہ دکھائی) ملحوظ رہے کہ اس آیت میں ثُمَّ پھر کا لفظ صاف بتا رہا ہے کہ آپؐ  کی نافرمانی کو بخش دیا گیا اور آپ کی نافرمانی کا لفظ اس سے پہلے کی( آیت ۱۲۱ )میں ہے اور(آیت ۱۲۳) میں اِھْبِطَا ’’تم دونوں اتر جاؤ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ قرآن میں اس قدر صاف صاف وضاحت کے بعد بھی دعا میں واسطہ وسیلہ لینے والے غور کر لیں کہ وہ کیسی سنگین اور فاش غلطی کر رہے ہیں ۔

اللہ نے ہر ایک کی دعا قبول کرنے کی گیارنٹی دی ہے۔  وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ ( البقرہ:۱۸۶) ( اور جب آپؐ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں ( تو آپ ان سے کہدو) تو میں ( ان کے) قریب ہی ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ) اور ثبوت میں شیطان کی دعا قبول کئے جانے کا واقعہ بھی بیان ہوا ہے۔  قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ۝۱۵ (الاعراف) ( اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تجھ کو مہلت دی گئی) ( ص:۸۰، سورہ الحجر:۳۷) ۔

اللہ کے رسول ؐ نے بعینہٖ بالبدل اور ذخیر ہ آخرت کے طریقوں سے دعا قبول ہونے کی بشارت دی ہے اس لئے قبولیت دعا کو وقت ، مقام ، اشخاص ، درود ، واسطہ ، وسیلہ، حرمت و طفیل پر منحصر سمجھنا اللہ و رسولؐ کی باتوں کو غلط و جھوٹ قرار دینا ہے۔

 

 

غلو

پچھلی امتیں اپنے پیر، پیغمبروں کے تعلق سے غلو کر کے گمراہ ہوئی ہیں اس لئے غلو سے بچنے کیلئے اللہ و رسولؐ نے رسولؐ کیلئے دعاکرنے کے الفاظ اور طریقہ تک مقرر و متعین فرمائے ہیں اس لئے ’’درود‘‘ میں اپنی طرف سے کسی لفظ کا اضافہ کرنا اس کو نہ صرف ناکافی قرار دینا ہے بلکہ یہ قطعی غلو ہے ۔ جس سے تاکیداً  منع کیا گیا ہے۔ (النسآء:۱۷۱)۔

اللہ نے غلو سے بچانے کیلئے  غَیْرَ الْحَقِّ ( المائدہ: ۷۷) یعنی خلاف حق بات کہنے سے منع فرمایا ہے۔ اور اِلَّا الْحَقِّ(النساء : ۱۷۱) یعنی صرف حق بات کہنے کی تاکید کے ساتھ ساتھ    وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ( الاعراف : ۳۳)  ( اللہ کے متعلق ایسی بات کہنا جس کا تم کو علم نہیں) حرام کر دیا ہے۔

حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ  ( قابلِ تعریف و بزرگ) ذات کے سامنے مخلوق (پیغمبر) کو خَیْرِخَلْقِہٖ کہنا وہ بھی دعا میں کیسے صحیح و درست ہو سکتا ہے حالانکہ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمِ   ( جیسا کہ رحمت نازل کی تو نے ابراھیمؑ پر ) اور   کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْراھِیْمَ  (جیسا کہ تونے برکت نازل کی ابرہیم ؑپر) کے الفاظ خَیْرِخَلْقِہٖ  کی صریحاً نفی و تردید کر دیتے ہیں۔ پیغمبروں کو ایک دوسرے پر فضیلت دینا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے غور کیجئے نبی کریم  ؐ کو سورہ الانعام کی آیت اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ ہَدَى اللہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہْ۝۰ۭ (۹۰)  ( یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے تو تم بھی ان کی اس راہ ہدایت کی اقتدا کرو)  میں  ۱۸  پیغمبروں کے طریقے کی اور (سورہ النحل) میں ثُمَّ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا۝۰ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۱۲۳ ( پھر ہم نے آپؐ کے پاس وحی بھیجی کہ آپؐ ابراھیمؑ کے طریقہ پر جو کہ بالکل ایک طرف کے ہو رہے تھے چلئے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے) میں ملت ابراہیم ؑ کی پیروی کرنے اور سورہ الاحقاف آیت (۳۵) فَاصْبِرْ كَـمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ( آپ صبر کیجئے جیسے اور ہمت والے پیغمبروں نے صبر کیا تھا) میں اولو العزم رسولوں کی طرح صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ  نے جن کے اسوہ کو اللہ تعالیٰ نے سَبِیْلُ الْمُؤْمِنِیْنَ (النساء : ۱۱۵ ) (ایمان والوں کا طریقہ) قرار دیا ہے ۔ وہ صرف بتائے ہوئے الفاظ و طریقہ ہی سے رسولؐ کے لئے دعاء کئے ہیں۔ دعا ء میں اللہ نے اخلاص و تضرع اختیار کرنے کا حکم دیا  ہے۔  وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ  ( الاعراف : ۲۹، مومن:۶۵) ( پس تم صرف اسی کو  پکارو  دین کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے) اس لئے دعا میں واسطہ وسیلہ لینے اور خیرخلقہ کہنا دعا ء کو غارت کرنا ہے۔

انسانوں کیلئے انسان ہی کو رسول بنانا اٹل قانونِ الٰہی ہے (انعام:۹، بنی اسرائیل:۹۵) کیونکہ بغیر رسول کے ایک حکمِ الٰہی پر بھی عمل کرنا ممکن نہیں ۔ اس لئے بعثت رسول کو احسان فرمایا: لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝۱۶۴ ( اٰل عمران)  (اللہ نے ایمان والوں پر (بڑا) احسان کیا کہ ان میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اللہ کی آیتیں (پڑھ کر) سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ بے شک یہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے)۔

نبی کریم  ؐ  کو  دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا ( احزاب:۴۶) اور اللہ کے حکم کے مطابق اللہ کی طرف بلانے والا اور ایک روشن چراغ) فرما کر بتا دیا کہ قرآن کے احکام پر عمل کرنے کا صحیح طریقہ رسولؐ کی سنّت کی شکل میں ہے کیونکہ بیرونی روشنی کی موجودگی ہی میں بینائی سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ورنہ نہیں ۔ اس لئے آپ ؐ  کی سنّت کو اہلِ ایمان کیلئے فضلِ کبیر فرمایا  ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے :  وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ بِاَنَّ لَہُمْ مِّنَ اللہِ فَضْلًا كَبِيْرًا۝۴۷ (الاحزاب) (اور اے نبیؐ ایمان والوں کو خوشخبری دیدیجئے کیونکہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے ( رسول ؐ  کی سنّت) بہت بڑا فضل ہے) فرمایا ہے۔

نبی کریمؐ کا بشر ہونا اٹل قانونِ الٰہی ہے ۔ چنانچہ آپؐ کے والدین محترم عبداللہ اور محترمہ آمنہ اور دائی حلیمہؓ ہیں۔ آپؐ کو بھوک ، پیاس لگتی تھی، کئی بار بیمار و زخمی بھی ہوئے اور وفات پائے۔ صحابہ کرامؓ نے آپ کو دفن کیا سورۃ الانبیآء میں ہے۔  وَمَا جَعَلْنٰہُمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ۝۸ اور ہم نے پیغمبروں کے جسم ایسے نہیں بنائے کہ وہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے)۔

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ۝۰ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ۝۳ (الانبیاء) (اور اے نبیؐ  تم سے پہلے کسی انسان کو بھی ہمیشہ دنیا میں زندہ رہنے کیلئے نہیں بنایا گیا تم مر گئے تو کیا وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے)۔

عام انسانوں کی طرح ہر رسول کیلئے بھی غذا لازمی تھی اور کوئی رسول بھی ہمیشہ رہنے والے نہیں تھے اور  (سورہ ال عمران: ۱۴۴، الزمر:۳۰) میں بھی آپؐ کے وفات پانے کی بات ہے۔ اس کے علاوہ سیدنا ابوبکرؓ  کا فیصلہ ’’ جو محمد (ﷺ) کی پوجا کرتا تھا وہ جان لے کہ محمدؐ بلا شبہ مر گئے اور جو اللہ کو پوجتا تھا تو اللہ زندہ ہے اور زندہ رہیگا اس کو کبھی موت نہیں ہے۔ (بخاری) حیاۃ النبی ؐ  کی ہربات کوغلط وجھوٹ ثابت کردیتاہے۔

نبی کریم ؐ کا جِنّات کے لئے بھی رسول ہونے کی بات قرآن کے خلاف محض غلو پر مبنی ہے۔ کیونکہ بعثتِ رسول کے قانونِ الٰہی کے خلاف ہے اور قانون الٰہی یہ ہے ۔

(۱)     وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّلَـلَبَسْـنَا عَلَيْہِمْ مَّا يَلْبِسُوْنَ۝۹ (الانعام)  ( اور اگر ہم کسی فرشتہ کو ( ان کیلئے ) رسول بنا کر بھیجتے تو (پہلے) اس کو بھی آدمی بناتے)۔

 (۲)      قُلْ لَوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃُ یَمْشُوْنَ مُطْمَئِنـِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِنَ السَّمَآئِ مَلَکًا رَّسُوْلًا (بنی اسرائیل:۹۵)  (اے نبیؐ  کہو ‘ان سے اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے (آباد) تو ضرور ہم ان پر آسمان سے فرشتہ ہی کو رسول بنا کر بھیجتے) ان دونوں آیات میں اللہ نے بعثت رسول کا قانون بیان فرمایا ہے۔ یعنی جو مخلوق ہوگی اس میں اسی میں کے فرد کو رسول بنایا جائے گا۔ یعنی انسان کیلئے انسان ہی اور جنوں کیلئے جِن ہی رسول بنائے ہیں۔

قرآن کی متعدد آیات سے ثابت ہے کہ نبی کریمؐ  کو انسانوں کیلئے رسول بنایا گیا مثلاً :

(۱)     وَاَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا۝۰ۭ ( النساء: ۷۹)  ( اور ہم نے اے نبی ؐ  تم کو (قیامت تک کے) تمام انسانوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے)۔ 

(۲)     قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا ( اعراف : ۱۵۸)   ( اے پیغمبر کہو  اے لوگو  !  بے شک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف)۔

(۳)     وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۲۸ (السبا ) ( اے پیغمبرہم نے تم کو تمام انسانوں کیلئے خوشخبریاں سنانے والا اور  ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے)  قُلْ يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّمَآ اَنَا لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۝۴۹ۚ (الحج) اے نبیؐ اعلان کر دو کہ اے لوگو میں تم سب کو کھلم کھلا خبردار کرنے والا ہوں) یہاں  اِنَّمَا حصر کا کلمہ ہے جس سے ثابت ہے کہ آپ کا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ہونا ناقابلِ انکار حقیقتِ واقعہ ہے دوسرے آپؐ کا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ہونا صرف انسانوں کیلئے ہے جنوں کیلئے نہیں۔

نبی کریمؐ کا صرف انسانوں کے رسول ہونے کی تائید قرآن کی متعدد آیات سے ہوتی ہیں جن میں چند پیش ہیں (۱) وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ (البقرہ:۱۴۲) ہم نے رسول کو تم ایمان والوں پر گواہ بنایا ہے یہ ہی بات سورہ الحج (آیت ۷۸) میں بھی ہے ۔ سورہ  (بقرہ:۱۵۰) میں  فِیْکُمْ  ( تم ہی میں) اور  مِنْکُمْ  ( تم ہی میں سے) اور سورہ (النساء آیت ۴۱) میں تمام پیغمبروں پر نبی کریم ؐ  کو گواہ بنانے کی بات کہی گئی ہے اور سورہ ( احقاف آیت ۲۹ )اور سورہ (جن آیت :۱) سے ثابت ہے کہ جنوں کا قرآن سننے کی بات کا علم نبی کریمؐ کو وحی الٰہی کے ذریعہ ہی ہوا ہے۔

سب سے اہم بات جنوں کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔ ان کے لئے آپ کیسے رسول ہو سکتے؟ کیونکہ آپ ؐ بشر ہیں اور بشر کو مٹی سے بنایا گیا یہ حقیقت قرآن کو ہدایت حاصل کرنے کی غرض سے سمجھ کر پڑھنے ہی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔

انسان کی چار حالتیں

كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ۝۰ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۸ ( بقرہ) ( اے لوگو! تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کر سکتے ہو جب کہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیاپھر تمہیں موت دیگا پھر تمہیں دوبارہ زندہ کریگا پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے)۔

قَالُوْا رَبَّنَا اَمَتْنَااثْنَتَیْنَ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَہَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ(المؤمن :۱۱) ( دوزخی ) کہیں گے اے ہمارے پروردگار تو نے ہمیں دو ( ۲ ) بار موت دیا اور دو ( ۲ ) بار جلایا ۔ اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں ۔ پس کیا اب کوئی راہ نکلنے کی بھی ہے) یعنی دو موت اور دو زندگیاں ان حالتوں کے عالَم الگ الگ اور ان کے قوانین بھی الگ الگ ہیں۔

سورہ (اعراف : ۱۷۲) میں ہے کہ پہلی حالت موت میں رب سے تمام بنی آدم نے قَالُوْا بَلیٰ شَہِدْنَا  سب نے کہا کیوں نہیں؟ ( آپ ہی ہمارے رب ہیں  …  ہم سب گواہ ہیں) کا اقرار کیا مگر یہ اقرار کیسے کیا یہ نہیں بتایا گیا البتہ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غٰفِلِیْنَ (تاکہ تم حشر کے دن یہ نہ کہہ سکو گے کہ ہم تو اس (اقرار) سے محض بے خبر تھے) فرمایا ہے اور دنیا میں مرنے کے بعد وَنُنْشِـىَٔـكُمْ فِيْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۶۱ (واقعہ) ( اور ہم تم کو ایسی جگہ پیدا کردیں گے جس کو تم نہیں جانتے )  فرمایا گیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ دنیا میں مرنے کے بعد دوسری ایسی جگہ ہم کو منتقل کر دیا جاتا ہے جس کو ہم نہیں جانتے ۔ یہاں ہم حالت موت میں حشر کے دن تک رہیں گے اسی دوسری حالت موت میں بھی ایک زندگی ہے جس کا شعور دنیا والوں کو نہیں ہو سکتا جیسا کہ فرمایا گیا:  وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ۝۰ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۝۱۵۴ (بقرہ ) (اور اے ایمان والو !اُن کو مردہ مت کہو جو اللہ کی راہ میں مارا جاتا ہے بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن وہ کیسے زندہ ہیں تم دنیا میں اس کا ادراک نہیں کر سکتے) اور آل عمران(آیت: ۱۶۹)میں ‘اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو مردہ مت خیال کرو  فرمایا گیا ہے اس دوسری حالتِ موت کو ہم عالَم برزخ کہتے ہیں جن میں حشر تک رہنا ہے۔

ان آیات کی بنا پر یہ کہنا کہ حالت موت میں صرف شہدا ہی زندہ ہیں صحیح نہیں ۔ کیونکہ پہلی حالت میں ایمان لانے والے اور انکار کرنے والے دونوں قَالُوْا بَلیٰ  کا اقرار کئے ہیں دوسرے نبی کریم  ؐاور دوسرے پیغمبر شہید نہیں ہوئے تو کیا ان حضرات کو زندگی سے محروم مانا جاسکتا ہے ہر گز نہیں اس لئے اسی دوسری حالت موت میں پہلی حالت موت کی طرح زندگی ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ  اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِـیًّا۝۰ۚ وَیَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَۃُ۝۰ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ۝۴۶  (المؤمن)  (آگ کے سامنے یہ  (ال فرعون) ہر صبح و شام لائے جاتے ہیں اور جس دن حشر برپا ہوگا (حکم ہوگا) اٰل فرعون کو سخت ترین عذاب میں ڈالو) اس قسم کی آیات کو قبر یا برزخ میں عذاب دئے جانے یا عذاب ہونے کے ثبوت میں پیش کرنا صحیح نہیں کیونکہ ان کے الفاظ کی بنا پر ان سے ایسا مطلب لینا یا نتیجہ اخذ کرنا جو قرآن کی دیگر آیتوں کے خلاف ہے کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ مثلا حشر کے دن فیصلہ کے بعد اعمال کی جزا دینے کی بات نہ صرف بار بار بلکہ متعدد جگہ فرمائی گئی ہے جس کو ہم سب بھی مانتے ہیں مثلاً  کُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۝۰ۭ (اٰل عمران: ۱۸۵) ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور یقینا تم کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا حشر کے دن)دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرآن میں گزرے ہوئے زمانوںاور آنے والے وقتوں کے متعلق جو باتیں فرمائی گئی ہیں وہ آیاتِ متشابہات ہیں جن کا صحیح و واقعی مطلب اللہ کے سو کوئی بھی نہیں جانتا ہے۔ ان پر غیب کی طرح ایمان لانا ہے۔ ان کا مطلب آیاتِ محکمات کے خلاف لینا دل کا ٹیڑھا پن ہے فرمایا گیا۔ (ال عمران:۷) اور دنیا میں کوئی بھی عدالت فیصلہ کرنے سے پہلے ملزم کو سزا نہیں دیتی لیکن فیصلہ سے پہلے عذاب دینے کی صریحاً غلط بات ہم اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں۔

یہ وہی دوسری حالت موت کے بارے میں شیطان ایمان والوں کو جھوٹے عقائد میں مبتلا کر کے مستحق دوزخ بنانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ مثلاًموت کے بعد پھر کوئی زندگی نہیں ‘دنیا ہی کی زندگی سب کچھ ہے ۔ اگر زندگی ہے بھی تو وہ روحانی ہوگی۔ پیر ، پیغمبر دنیا والوں کی پکار سنتے ہیں ان کی بگڑی بناتے ہیں ۔ اللہ کے پاس سفارش کرتے ہیں ۔ قبر میں سوال ہوتا ہے وغیرہ۔

غور کیجئے امتحان ہال میں سوالات کے جواب دینا پڑتا ہے۔ ہال سے نکلنے (موت) کے بعد نہیں ۔ دوسرے امتحان کی مقررہ مدّت میں جوابات دینا یا لکھنا ہے مقررہ مدّت ختم ہونے کے بعد سوال کئے جانے کی بات کیا صحیح ہو سکتی ہے۔ غور کیا جا سکتا ہے۔

دنیا والوں کی پکار سننے ، ان کی بگڑی بنانے اور مدد کرنے کے معاملہ میں پیر، پیغمبر بالکلیہ لاش کی طرح ہیں جو نہ سنتی ، نہ دیکھتی ، نہ کوئی اختیار و علم رکھتی ہے۔ اور ان پیر ، پیغمبر کو زندہ کر کے دوبارہ کب اٹھایا جائے گا نہیں جانتے)  اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاۗءٍ۝۰ۚ وَمَا یَشْعُرُوْنَ۝۰ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۝۲۱ۧ (النحل) (مُردے ہیں زندے نہیں اور ان کو خبر نہیں کہ مردے کب اٹھائے جائیں گے) ۔

اللہ کے رسولؐ  بھی پاک (سبحان) نہیں کیونکہ آپ بشر ہیں ۔  قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا۝۹۳ۧ (بنی اسرائیل)  ( اے پیغمبر تم کہدو کہ میرا پروردگار ہر قسم کے عیب و کمزوری سے قطعی پاک ہے۔ میں تو صرف ایک انسان ہی ہوں جو رسول بنایا گیا ہے) یہی بات( الکہف ۱۱۰ ، حٰم السجدہ:۶) میں بھی کہی گئی ہے۔ آپؐ کے لئے بھی عام اہل ایمان کی طرح غسل ، وضو، تیمم کے ذریعہ طہارت حاصل کرنا فرض تھا۔ آپؐ کا ذکر کثیر توبہ و استغفار تھا جس کا اللہ نے آپؐ  کو حکم دیا ہے۔  وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۝۱۱۸ۧ (المومنون) اور اے نبیؐ  تم کہا کرو‘ اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر اور تو تمام رحم کرنے والوں میں سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔ یہی ہدایت (المومن :۵۵، محمد:۱۹ ، النصر:۳) میں بھی ہے البتہ پیغمبر معصوم ہیں تمام بزرگ غیر معصوم ہیں۔ آخری کتاب ہدایت آپ ؐ پر نازل ہونے سے آپؐ خاتم النبیین ہیں آپ کے بعد ہر دعویدار نبوت چاہے وہ ظلی ہو یا بزوری جھوٹا و فریبی ہے۔ قیامت تک تمام انسانوں کیلئے رحمت الٰہی کا مستحق بننے کی تعلیمات چونکہ آپؐ کے ذریعہ دنیا میں بھیجی گئیں اس لئے آپ ؐ کو رحمۃ اللعالمین فرمایاگیاہے۔آپؐ کا اسوہ حسنہ بندگی رب کا بہترین نمونہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے عبادت ذکر و  یاد، ثواب کے کاموں میں آپؐ کی پیروی (واتباع) کرنے کا اور زندگی کے دیگر امور میں آپ ؐ کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے۔ (آپؐ کی ہدایت پر عمل کرنا) یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعہ ہی رحمت الٰہی کا مستحق بنا جا سکتا ہے۔

بدعت

اتباع و اطاعت کے امور کوگڈ مڈ کرنے سے بدعات جنم لیتی ہیں۔ ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی اچھی، بری نہیں ہو سکتی بلکہ سنگین اور ہلکی ہوتی ہے اس لئے بدعت کو حسنہ و سیئہ میں تقسیم کرنا قطعاً غلط ہے۔ کیونکہ بدعت بعثتِ رسولؐ کی ضرورت کی نفی کرتی ہے۔ سیّدنا عمرؓ کا تراویح باجماعت کو بدعتِ حسنہ کہنے کی بات زہری کی مرسلات میں سے ہے۔ جو جھوٹی ہیں کیونکہ اللہ کے رسولؐ سے ایک یا تین دن نماز تراویح باجماعت ادا کرنا مسلّمہ ہے۔ سنّتِ رسولؐ  کو بدعتِ حسنہ کہنا سیّدنا  عمرؓ  جیسے بصیرت والے صحابی سے ممکن نہیں ۔  یہود و نصاریٰ کا اپنے پیر ،  پیغمبر کو  عَیْنُ اللہ (المائدہ:۱۷، ۷۲) اِبْنُ اللہ (التوبہ:۳۰) اور اپنے عالموں اور مرشدوں کو  اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ (التوبہ:۳۱) ( ان لوگوں (اہل کتاب) نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور درویشوں کو اپنا رب بنایا ہے) اور بت پرست اپنے دیوی دیوتاؤں کو اللہ کے پاس سفارش کرنے والے سمجھتے ہیں  وَیَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ (یونس:۱۸) اور یہ کہتے ہیں کہ یہ( بزرگان دین) اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں)۔

اور قُربِ الٰہی کا ذریعہ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللہِ زُلْفٰى۝۰ۭ ( الزمر:۳) (بزرگانِ دین کو اللہ سمجھ کر عبادت نہیں کرتے بلکہ ) ہم بزرگوں کی عبادت ( نذر ، نیاز، فاتحہ، درود ) صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ کی رحمت کے مستحق بنا دیں اور ان کے جنم دن منانے کو بڑی عبادت اور بڑا کارِ ثواب سمجھتے ہیں اور مسلمان اِلاَّ ماشاء اللہ طریقت ، حقیقت ، معرفت کے عنوان سے وحدۃ الوجود ہر شکل میں اللہ ہے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اس کا نام علم لدنی اور سینہ بہ سینہ رکھ چھوڑا ہے ۔ زندگی میں اللہ و رسولؐ کی فرمانبرداری کرنے کے بجائے عرس ، صندل، پنکھا، جھیلہ، جھنڈے ، قوالی اور درود وظائف ، چلے ، مراقبے و ضربات اور آثار کی زیارت سے برکت حاصل ہونے کو سنّت والجماعت ہونے کی نشانی سمجھ لئے ہیں اور یہی سمجھایا بھی جا رہا ہے حالانکہ سنت و الجماعت تو صرف وہی ہو سکتا ہے جس کے پاس صرف کتاب اللہ، سنت رسول اللہؐ اور اسوہ صحابہؓ معیار و سند ہو اور اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرے۔

 

 

عشقِ الٰہی و حُبِّ رسولؐ

اللہ و رسول سے عقیدت و محبت کے اظہار کا واحد طریقہ رسول ؐ کی پیروی و اطاعت کو قرار دیا گیاہے۔ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۳۱ (اٰل عمران)  ( اے نبیؐ ) کہو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دیگا۔ اللہ بڑا بخشنے والا اور بار  بار  رحم کرنے والا ہے) اور ایمان والوں کی خصوصی صفت اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ اللہ کی محبت میں شدید ہوتے ہیں ( البقرہ: ۱۶۵) بتائی گئی ہے۔

نبی کریمؐ نے فرمایا جس نے میری سنت کو محبوب رکھا وہی مجھ سے محبت کرتا ہے اور جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ میرا امتی نہیں ۔ جس نے میری نافرمانی کی وہ میرا منکر ہے (حدیث)  اللہ اور رسولؐ سے سچی و حقیقی محبت رکھنے والے صحابہ کرامؓ تھے ۔ اس لئے ان کے اسوۂ کو  سَبِیْلُ الْمُؤْمِنِیْنَ  (النساء: ۱۱۵)  ( ایمان والوں کا  راستہ ) اور اٰمِنُوْا کَمَا اٰمَنَ النَّاسِ (البقرہ:۱۳) اس طرح ایمان لاؤ جس طرح اصحاب رسول ایمان لائے) اور  فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا۝۰ۚ (البقرۃ:۱۳۷) پھر اگر وہ اس طرح یمان لائیں جس طرح تم (اصحابِ رسولؐ) ایمان لائے ہوتو بیشک وہ راہ پا جائیں گے اور  وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ۝۰ۙ رَّضِيَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ(توبہ  :۱۰۰)  ( اور ہجرت کرنے  میں) اور مہاجرین کی مدد کرنے میں پہل کرنے والے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے والے اور وہ لوگ بھی جو ان کی لگن کیساتھ پیروی کریں گے اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو جائیں گے) اور نبیؐ  مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ ( میں اور میرے صحابہؓ  جس طریقہ پر ہیں) کو اہلِ سنّت و جماعت فرماکر قیامت تک کے ایمان والوں کے لئے صحابہؓ  کو ایمان و عمل میں معیار و کسوٹی قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود جو اسوۂ صحابہؓ  کو ایمان و عمل میں معیار و کسوٹی نہیں مانتے ان کے لئے لمحہ فکر ہے۔ صحابہ کرامؓ نہ یوم ولادت، نہ یومِ وفات، نہ یادِ فلاں منائے ، نہ میلاد و سیرۃ کے جلسے کئے نہ جلوس نکالے نہ سلام پڑھے نہ درود کی محفلیں جمائے نہ ختمِ قرآن کئے نہ ختم بخاری، نہ ختمِ خواجگان ، نہ آیتِ کریمہ کے دسترخوان بچھائے نہ وظائف نہ اوراد ، نہ چلے ، نہ مراقبے، نہ مروجہ طریقے پر ذکر کئے اور نہ ضربات لگائے اس لئے ہر وہ طریقہ جو اسوۂ صحابہؓ کے خلاف ہو یا سوا ہو اس کا بدعت یعنی گمراہی ہونا یقینی ہے۔ نیک مقصد کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی صحیح ہونا لازمی ہے۔ ورنہ ثواب کے بجائے الٹا پکڑ ہوگی۔ جس کام کے کرنے کا حکم نہیں اس کو نیکی سمجھ کر کرنا دین کو نہ صرف ناقص قرار دینا ہے بلکہ بگاڑ دینا ہے۔     وَمَنْ يُّبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُ فَاِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲۱۱ ( البقرہ)  (اور جو  اللہ کی نعمت  (دین) کو بدل ڈالے جب کہ وہ ان کے پاس آچکا ہے تو یقینا اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ اس لئے   یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَ یَفْعَلُوْنَ مَالَا یُؤْمَرُوْنَ ( جو بات کہتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے اور وہ کام کرتے ہیں جس کا حکم نہیں) کے خلاف اللہ کے رسولؐ نے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے  (مسلم)۔

اُمّتِ محمدؐیہ کے فرائض

آپ ؐ کی امّت میں ہمارا شمار ہونے کے لئے لازمی و ضروری ہے کہ ہم آپؐ  کی لائی ہوئی تعلیمات کو دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔  قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ ۝۰ۣ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۝۰ۭ (یوسف: ۱۰۸) اے نبیؐ  کہو یہ میرا طریقہ (میری سنّت) ہے کہ میں تم کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں سمجھ بوجھ کر اور میری پیروی کرنے والے بھی (یہی کام کریں گے) یہ کام کرنے ہی سے ہم امّت وسط اور خیرِ امّت ہو سکتے ہیں ۔ اس فرض منصبی سے غفلت و لا پروائی کی وجہ سے ہی تو مسلمان اہلِ باطل کے تختہ مشق بنے ہوئے ہیں۔ (البقرہ :۶۱، ا ٰل عمران:۱۱۲) یہ حالت عذاب اس وقت تک نہیں بدل سکتی جب تک ہم اپنا فرض منصبی ادا کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ مسلمانوں کو حیات ابدی کی طلب سے گرمانے کی بجائے اظہارِ عقیدت و محبت و تبلیغ و اصلاح کے من گھڑت طریقے اختیار کرنے میں افراد ، جماعتیں اور حکومتیں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چنانچہ پاکستان میں عید الفطر ، عید الضحٰی سے کہیں زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عید میلاد ‘ عید العیاد (عیدوں کی عید) کے نام سے منائی جاتی ہے۔ زر کثیر تعمیری مقاصد میں خرچ کرنے کے بجائے دین کو بگاڑنے میں خرچ کیا جا رہا ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان تخریبی امور کی انجام دہی کیلئے چندوں کی اپیل کی جاتی ہے اسی طرح مسلمانوں کو ان ہی کے پیسوں سے گمراہ کیا جا رہا ہے۔ عیسٰی ؑصرف بنی اسرائیل کیلئے رسول تھے ان کے ماننے والے تو زمین کے چپہ چپہ میں ہر طریقہ سے عیسائیت کا پرچار کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں اور قرآن کو آخری کتاب اور محمد ؐ کو آخری رسولؐ اور رحمۃ للعالمین ماننے والے صلاۃ التسبیح و معکوس، صلوۃ غوثیہ، ختمِ قرآن و بخاری، ختمِ خواجگان، کلمہ طیبہ کے ختم آیتِ کریمہ کے دسترخوان بچھانے ، برکت کے رات و دن منانے ، درود و سلام کے پڑھنے ، ماتم و مرثیہ خوانی ، زیارت ، دسواں ، چہلم، برسی کے ذریعہ ایصال ثواب کرنے اور قوالی کے ذریعہ تعلق باللہ پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ بارہویں ، گیارہویں اور کنڈوں کے ذریعہ خیر و برکت و ثواب حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں     فَاعْتَبِرُوْا یٰآ اُوْلِی الْاَبْصَارِ

ملحوظ رہے کہ یہ طریقے اگر حصول ثواب کے لئے اختیارکئے جائیں تو قطعاً بدعت ہے اور اگر حصول برکت و نفع اور نقصان سے بچنے کے لئے کئے جائیں تو یہ شرک ہے۔ کیونکہ نفع و نقصان اللہ کے مقررہ قانون کے تحت ہوتا ہے۔ ان تقاریب میں کھانے ، پینے کی چیزیں تبرک نہیں بلکہ  وَمَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ ( البقرہ:۱۷۳، المائدہ:۳، الانعام:۱۴۵، النحل:۱۱۵) ہر وہ چیز جو غیر اللہ کے نامزد کردی گئی ہو یا ان کی خوشنودی کے لئے کی گئی ہو‘کی رو سے حرام ہے۔

کافر

زُيِّنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۘ (البقرہ:۲۱۲) کافر کو دنیا کی زندگی بہت خوشنما معلوم ہوتی ہے اور ابدی زندگی کی فکر کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں) یعنی کافر وہ ہے جو رات دن صرف اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طریقہ سے اس کی دنیا کی خوشحالی میں اضافہ ہوتا رہے چنانچہ یہ ان لوگوں کا مذاق اڑاتا ہے جو آخرت کی ابدی زندگی کے نقصانات کے خوف سے ہر ناجائز طریقہ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور آخرت کے ابدی نقصان سے بچنے کے لئے ہر ناجائز نفع کو ٹھکرا کر دنیا کے نقصان و تکلیف کو بخوشی برداشت کرتے ہیں ۔

 

 

مومن

جو اپنی زندگی کے تمام امور میں آخرت کے ابدی نقصان سے بچنے کی فکر و کوشش میں لگا رہتا ہے اور جب بھی کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے تو فورا ًنادم ہو کر توبہ کرتے ہوئے اصلاح حال کی کوشش کرتا  ہے۔

منافق

زبا ن سے کلمہ کا اقرار لیکن عمل کے وقت اللہ و رسولؐ کی نافرمانی کرتا ہے ۔ بالخصوص نفع دنیا کے لئے یا دنیا کے نقصان سے بچنے کے لئے نافرمانی کرتے ہوئے شرماتا بھی نہیں۔ اللہ و رسولؐ کے ان ہی احکام پر عمل کرتا ہے جس سے اس کے نفع دنیا پر کوئی آنچ نہ آتی ہو۔ جھوٹ ، خیانت، وعدہ خلافی، گالی گلوج، منافق کی خصلتیں ہیں۔دنیا کے نقصانات یا تکلیف کو اپنی غلطی کا نتیجہ سمجھنے کی بجائے دوسروں کواور اللہ تعالیٰ کو اس کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔

فساد

زندگی کے کسی بھی معاملہ میں اللہ و رسولؐ کی نافرمانی کرنے والا فسادی ہے مثلا جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، ملاوٹ ، اسمگلنگ ، ناپ تول میں کمی بیشی کرنا ، رشوت لینا و دینا، دوسروں کو اپنے مقابلہ میں کمتر سمجھنا ۔ حقوق ادا نہ کرنا ، ریا کاری کرناوغیرہ۔ فسادی جنت سے محروم رہے گا۔

خیر امت بننے کے لئے امر بالمعروف نہی عن المنکر ( اچھی بات کا حکم دینا اور بری بات سے منع کرنا) لازمی وضروری ہے۔ پہلا امر اعْبُدُوْا اللّٰہ ( اللہ کی بندگی کرو) پہلی نہی   وَلَا تُشْرِكُوْا بِہٖ شَـيْـــًٔـا ( النساء:۳۶) ( اللہ کے ساتھ کسی کو بھی کسی طرح بھی شریک نہ کرنا) صرف آخرت ہی میں نہیں بلکہ دنیا میں بھی عذاب الٰہی سے بچنے کیلئے امر بالمعروف نہی عن المنکر کرنا ضروری ہے۔  كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۝۰ۭ (المائدہ:۷۹) آپس میں ایک دوسرے کو بُرے کاموں سے ‘جو وہ کرتے تھے نہیں روکتے تھے) اس کے علاوہ سورہ (الانفال آیت ۲۵، الاعراف:۱۶۳ تا ۱۶۷) بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فلیغیرہ بلسانہ فان لم یستطع فلیغیرہ بقلبہ و ذٰلک اضعف الایمان ( تم میں سے جو کوئی منکر بات دیکھے پس اس کو چاہئے کہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے پس جو ایسا نہ کر سکے تو اس کو چاہئے کہ اپنی زبان سے اس کو بدل دے ( اس سے منع کرے) پس جو کوئی ایسا نہ کر سکے تو اس کو چاہئے اس کو اپنے دل سے بدل دے ( شرکت نہ کرے) اور یہی سب سے کمزور ایمان ہے۔ ( مسلم : ۴۹۰۸ باب الامر بالمعروف)

مسلم ہی کی ایک اور حدیث میں اس کو رائی کے دانہ برابر ایمان قرار دیا گیا ہے۔ کسی منکر بات کو دل سے برا سمجھنے والا اس منکر بات میں شریک نہیں ہو سکتا ۔ امر بالمعروف نہی عن المنکر کرنے سے اصلاح و تبلیغ کا کام بھی ہو جاتا ہے۔

 

 

قرآن کا بنیادی مقصد

تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِہٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَا۝۱ۙ ( الفرقان)  (بابرکت ہے وہ ذات جو اپنے بندہ پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام دنیا والوں کو خبردار کردے)  وَاُوْحِيَ اِلَيَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَ۝۰ۭ (الانعام: ۱۹) اور یہ قرآن میرے پاس وحی کے ذریعہ بھیجا گیا ہے۔ ( اس لئے بھیجا گیا ہے) کہ میں اس قرآن کے ذریعہ تم کو خبردار کروں اور جس کو یہ قرآن پہنچے۔(اس کا بھی یہی کام ہے)

نیز ملاحظہ ہو( سورۃ الاعراف : ۱۷۰ ، الفرقان:۵۱، ۵۲) مسلمانوں کے عقائد و اعمال میں جو فساد ہے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے کتاب و سنّت اور اسوۂ صحابہؓ کی روشنی میں اصلاح کی دعوت دینا اور غیر مسلم حضرات کے سامنے ان کے اپنے مسلّمات ، سب کا خالق و رب ایک اور تمام انسانوں کی نسل و اصل ایک اور ان کی ضروریات و خواہشات ایک اس لئے سب کیلئے ایک ہی دین ہونے کی بات پیش کی جائے ۔ اس کی خلاف و رزی کرنے پر ابدی زندگی کا جو نقصان ہوگا اس کو پیش کیا جائے۔

جھوٹ

جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی دینے کو شرک کے برابر گناہ قرار دیا ہے۔  فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ۝۳۰ۙ( الحج) پس اے ایمان والو! بچو ‘بتوں کو (پوجنے) کی گندگی سے ( شرک کرنے سے) اور بچو جھوٹ بولنے سے)۔

وَالَّذِيْنَ لَا يَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ۝۰ۙ ( الفرقان:۷۲) ( اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے) اس کو عباد الرحمن کے صفات قرار دیا گیا ہے۔

وعدہ خلافی

ایک وعدہ خلافی پچھلے تمام نیک اعمال کو برباد کر دیتی ہے۔  وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْكَاثًا۝۰ۭ (النحل:۹۲) ( اور مت ہو جاؤ اس عورت کی طرح جو روئی سے تاگا بناتی ہے پھر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے)۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۲ ( الصف) ( اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کو تم کرتے نہیں ہو) اس سے معلوم ہوا کہ ایک وعدہ خلافی کرنا اپنے تمام نیک اعمال کا باطل کر لینا ہے۔

ریاء

دکھاوے کے کام کرنے والے کے ایمان باللہ و ایمان بالآخرۃ کی نفی کی گئی ہے۔  يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۝۰ۙ كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَا لَہٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ(البقرہ: ۲۶۴) ( اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ستا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کیلئے خرچ کرے ایسا شخص نہ اللہ پرایمان رکھتا ہے اور نہ یومِ آخر پر)۔ ذرا سا بھی دکھاوے کو شرک قرار دیا گیا ہے۔ (حدیث مشکوٰۃ نمبر 5097/17، جلد : 2) دکھاوے کیلئے قیام، رکوع، سجود، دعا کو چند لمحوں کیلئے طول دینا بھی ریاء ہے جو شرک ہے ، اچھا کھانا، اچھا پہننا انسان کے فطری تقاضے ہیں ان مطالبات کی تکمیل لوگوں کو دکھانے کیلئے یا مقابلہ کیلئے نہ کی جائے ورنہ ایسا کرنے والے اللہ کے پاس ریاکار قرار پائیں گے جس سے ان کے تمام نیک اعمال باطل ہو جائیں گے۔

اِسراف

ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیاہے۔ اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ۝۰ۭ (بنی اسرائیل:۲۷) بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں) عباد الرحمن کی ایک صفت میانہ روی قرار دی گئی ہے۔  وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۝۶۷ (الفرقان) ( اور جو خرچ کرنے میں اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل کرتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ خرچ کرتے ہیں) عموماً شادی بیاہ اور دیگر تقاریب میں فضول خرچی کے ساتھ ساتھ ریا کا جذبہ بھی کار فرما ہوتا ہے۔ افسوس ہے ہمارے حال پر کہ ان امور کے گناہ ہونے کا احساس بھی نہیں کر پاتے ۔ الٹا آرزو اور ارمانوں کی باتیں کر کے اپنے ضمیر کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ خود ہمارے خاندان کے بیسیوں افراد معاشی تنگی میں مبتلا ہیں۔ ایسے مواقع پر فضول خرچی کے بجائے ان کی مدد کرنا ایک تو گناہ کرنے سے بچاؤ ہوتا ہے دوسرے اللہ کے پاس کئی گناء اجر پانا ہے۔

جہاد

مستحق جنت ہونے کے بنیادی شرائط میں سے ایمان کے بعد جہاد اہم شرط ہے۔  اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ۝۰ۭ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰى نَصْرُ اللہِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِيْبٌ۝۲۱۴ (البقرہ) ( کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنّت میں (یونہی) داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ حالات گزرے ہی نہیں جو تمہارے اگلوں پر گزرے تھے ان کو سختی اور تکلیف پہنچی وہ ہلا دیئے گئے یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھی ایمان والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئیگی یاد رکھو اللہ کی مدد قریب ہی ہے)  اس کے علاوہ  (اٰل عمران ۱۴۲ ، توبہ ۱۶، ۱۱۱) میں بھی یہی بات فرمائی گئی ہے۔ دنیا میں عذاب الیم سے بچنے کیلئے جہاد شرط ہے۔ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَۃٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ۝۱۰ (الصف) ( اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو کیا میں تمہیں وہ تجارت بتلاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے) جس مسلمان کے دل میں جہاد کا جذبہ بھی نہ ہو ، اللہ تعالیٰ کو اس کی پرواہ نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی۔ (حدیث)

جہاد کی ابتدا یہ ہیکہ قرآنی علم کے ذریعہ باطل و غلط عقائد و اعمال کی نشاندھی کی جائے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے۔  فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا كَبِيْرًا۝۵۲ (الفرقان)  ( پس اے نبیؐ ! کافروں کی بات مت مانو اور قرآن کے ذریعہ ان کے ساتھ جہادِ کبیر کرو) جیسا تمام پیغمبر کئے ہیں۔   يَّتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِنَا۝۰ۚ (القصص : ۵۹ ) ہماری آیات پڑھ کر سناتے ہیں ۔

اجتماعی زندگی

اللہ تعالی نے تمام احکام  یٰآیُّہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ( اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو کہہ کر دیا ہے اور خاص طور پر ایک امیر کے تحت زندگی بسر کرنے کا حکم دیا ہے۔ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۝۵۹ۧ (النساء) ( اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو  اللہ کے رسولؐ  کی اور اس صاحبِ امر کی بھی جو تم ہی میں سے ہو، اگر تم میں اور تمہارے امیر میں کوئی اختلاف ہو جائے تو معاملہ کو اللہ و رسولؐ کے حوالے کر لیا کرو۔ اگر تم اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ طریقہ سب سے بہتر ہے اور اس کا انجام بھی خوب تر ہے) معاملہ کو اللہ و رسولؐ کے حوالے کرنے کے سلسلہ میں فرمایا گیا کہ اگر تم پر ظلم کیا گیا ہو یا تمہاری حق تلفی کی گئی ہو تو تم صبر کرو جس کا تم کو بدلہ ملے گا اور حق تلفی کرنے والے کو اس کے ظلم کا بدلہ ملے گا۔ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے کی جو بات فرمائی گئی ہے وہ ہمارے لئے لمحہ فکر ہے۔ جس کا کوئی امیر ہی نہ ہو اس کے ایمان باللہ اور ایمان بالآخر کی نفی ہوتی ہے۔ جہاد کرنا بھی ایک امیر کے تحت زندگی بسر کرنے ہی سے ممکن ہو سکتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مجھے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے۔ الجماعت، سماعت، اطاعت، ہجرت و جہاد ( مسلم ۔امارت حدیث) .

 تین مسلمان سفر میں ہوں یا کسی جگہ بستے ہوں تو وہ اپنے میں سے ایک کو امیر منتخب کر لیا کریں ( حدیث ترمذی جلد دوّم نمبر31) جس کی گردن میں امیر سے بیعت کی رسّی نہ ہوگی وہ جہالت کی موت مرے گا۔ (حدیث صحیح بخاری جلد سوّم کتابِ احکام نمبر 2014) جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ( کتابِ فتن حدیث صحیح بخاری حدیث نمبر 2008جلد سوّم )  لاَ اِسْلَامَ اِلَّا الْجَمَاعَۃَ لَا جَمَاعَۃُ اِلَّا امیر لاَ امیر اِلَّا طاعۃ (بلا جماعت کے اسلام نہیں ، بغیر امیر کے جماعت نہیں بغیر اطاعت کے امیر نہیں )  صحابہ ؓ پوچھتے ہیں کہ ہمارا اگر کوئی امیر نہ ہو تو کیا کیا جائے تو آپؐ فرماتے ہیں کہ وہ مقام تمہارے رہنے کے قابل نہیں ۔ اپنا ریوڑ لے کر پہاڑکے دامن میں جا بسو۔ (کتابِ طیق ، بخاری حدیث نمبر 1963جلد سوّم )

اجتماعی زندگی بسر کرنے سے ایک ایسی غلام قوم جس کے لڑکے قتل کئے جاتے تھے اور لڑکیاں زندہ چھوڑ دی جاتی تھیں یعنی بنی اسرائیل کو فرعون جیسے ظالم کے ظلم سے نجات ملی ہے۔ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰى وَاَخِيْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُيُوْتَكُمْ قِبْلَۃً وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ۝۰ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۸۷ ( یونس) ( اور ہم نے موسیٰ ؑاور ان کے بھائی ہارون ؑکی طرف وحی کی کہ تم دونوں اپنی قوم کیلئے مصر میں کچھ گھروں کو مقرر کرو اور ان گھروں کو قبلہ بناؤ اور نماز قائم کرو اہل ایمان کو خوشخبری دے دو) ( ایک مرکز کے تحت زندگی بسر کرو)۔

تمام باطل فرقے ایک امیر کے تحت ہی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ خود مسلمان بھی دنیا کے ہر معاملہ میں اجتماعیت اپناتے ہیں ۔ لیکن ابدی زندگی کیلئے ایک امیر کے تحت زندگی بسر کرنے تیار نہیں۔ مندرجہ بالا احکام و ہدایات اور حقائق کے باوجود ہمارا اجتماعیت کیلئے فکر و کوشش نہ کرنا ہمارے دین و ایمان کا وہ خلا وخامی ہے جس کو کوئی نیکی پر نہیں کر سکتی۔

دنیا میں ذلت اور آخرت میں جہنم سے بچاؤ اسی وقت ممکن ہے جب کہ غلط عقائد بدعات اور نافرمانی سے توبہ کر کے ہر معاملہ میں راست اللہ کی طرف رجوع ہوتے رہیں اور لاالہ الااللہ کی دعوت کو دوسروں تک پہنچانے کی بھر پور کوشش کرتے رہیں کیونکہ مستحق جنت بننے کا یہی واحد طریقہ ہے اور اسی طریقہ پر عمل کر کے ـ کُوْنُوْا اَ نْصَارَ اللہ  (اللہ کی مدد کرنے والے بنو) ۔ (الصف:۱۴)  کے حکم الہی پر عمل کرنے والے بن سکتے ہیں۔