یاد دہانی

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

یاد دہانی

 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ         

اللہ رب العزت نے نہ صرف گناہ بخش دینے کا بلکہ بڑا ثواب بھی دینے کا وعدہ انھیں لوگوں سے فرمایاہے جو’’ایمان لائے‘‘(ابدی عذاب سے بچنے کواپنامقصد زندگی بنالئے ہیں)اور ’’صالح عمل‘‘ (دوزخ سے بچانے والے کام)کئے ہوں گے۔ (مائدہ ۹ ، النساء ۱۲۲:توبہ :۷۱،۷۲،۸۹، احزاب ۳۵) اورایسے ہی ایمان وعمل کودوزخ سے بچنے کاواحد طریقہ قراردیاہے اسی لئے ہم سب دوزخ سے بچنے کیلئے ہی ایمان لائے ہیں( ال عمران ۱۶ ، ۱۹۳، طہٰ ۷۳، مومنون ۱۰۹) اوراللہ تعالیٰ ہم کو جنت ومغفرت اوردارالسلام کی طرف بلارہاہے(بقرہ۲۲۱، یونس۲۵)۔

بندوں کی آزمائش وامتحان کیلئے دنیا کوایسااٹل ’’دارالعمل‘‘ بنادیاگیاہے جہاں ان کی ادنیٰ ترین ضرورت وحاجت(چاہے دنیا کی ہویاآخرت کی)بھی اللہ کے پیدا کردہ مادّی اسباب وذرائع ہی کونہ صرف اختیارکرنابلکہ ان اسباب کواللہ ہی کے مقررکردہ طریقے سے استعمال کرنابھی بے حدلازمی اورنہایت ضروری قراردیاگیاہے مثلاً بھوکے وپیاسے کیلئے ضروری ولازمی ہے کہ وہ محنت و کوشش کرکے نہ صرف غذا اورپانی فراہم کرلے بلکہ اللہ کے مقررکردہ طریقے سے یعنی ان کومنہ اورحلق کے راستے پیٹ میں بھی پہنچائے بالکل اسی طرح مستحقِ مغفرت وجنت ہونے کے لئے بھی وہی کوشش کرناضروری ہے جواس کیلئے مقرر کردی گئی ہے اوریہ کوشش بھی بالکل اسی طریقہ سے کرنا لازمی ہے جس کوبتادیاگیاہے۔(بنی اسرائیل۱۹)اوریہی دراصل ہدایت ہے اس طریقے کے سواء یا ساتھ کوئی اورطریقہ اختیارکرنا کھلی گمراہی ہے اور اپنے اعمال کوحبط کروانا ہے۔ اسی قانون الٰہی کے تحت نبی کریمؐنے فرمایا: ہرچیز کو حاصل کرنے کاایک طریقہ ہے جنت کے حاصل کرنے کاطریقہ’’ علم‘‘ ہے۔ چونکہ یہ علم صرف قرآن ہی میں ہے اس لئے قرآن ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔چنانچہ فرمایاگیا’’اورہم نے ان کے پاس ایک ایسی کتاب(قرآن )پہونچادی ہے جس کوہم نے اپنے علم کامل سے بہت ہی واضح کرکے بیان کردیاہے۔(اعراف ۵۲)جہل کا علم ہی سے دور ہونا قانون الٰہی ہے اس لئے علم کی کتاب ’’القرآن‘‘ (النساء ۱۶۶، علق۵) کونازل کرکے فرمایا گیاہے تاکہ تم لوگوں کو(جہل کی) تاریکیوں سے نکال کر(علم وعمل کی) روشنی میںلائو(ابراہیم ۱، مائدہ :۱۶، حدید۹، طلاق ۱۱) ۔

قرآن کا مضمون ’’انسان‘‘ ہے۔(انبیاء ۱۰)جس کوامتحان و آزمائش کی غرض سے مرتے دم تک عمل کرنے کیلئے دنیا میں پیداکیاگیا ہے۔ (ملک :۲، ھود: ۷، کہف :۷) اورجس قسم کے اعمال سے کامیابی حاصل ہوگی اس کوبھی بتادیاگیاہے۔(ذاریات۵۶)اورنہ صرف باربار بلکہ مختلف پیرائوں میں جزاء کے اٹل قانون کوبیان بھی کردیاگیاہے یعنی ہر شخص اپنے ہی اعمال کابدلہ آخرت میں پائے گا۔(اٰل عمران :۱۸۵) قرآن میں انسانوں کیلئے نہ صرف کھلی کھلی ہدایات ہیں بلکہ حق کیاہے؟ باطل کیاہے؟ بتانے والی کتاب ہے۔(سورہ بقرہ : ۱۸۵)۔

دنیا میں جوبھی تکلیف پہونچتی ہے اورجوبھی نقصان ہوتاہے محض الٰہی قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہوتاہے جس کی تلافی کرلینے کے مواقع مرتے دم تک حاصل رہتے ہیں بالکل اسی طرح آخرت میں جو بھی عذاب ہوگا وہ بھی محض دنیادارالعمل میںقوانین الٰہی کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہی ہوگا جس سے بچنے کاموقع موت ظاہر ہونے سے پہلے توبہ واصلاح کرلینے میں ہے کیونکہ آخرت کودارالجزاء بنایاگیاہے جہاں ہرایک کودنیا میں وہ بھی حالت ہوش وحواس میںاس کے اپنے کئے ہوئے اعمال ہی کا بدلہ ملے گا۔ اس لئے دنیا کوآخرت کی کھیتی فرمایاگیاہے۔

قرآن کو  مُبٰرَكٌ  (برکت دینے والی ، انعام۹۲، ص ٓ: ۲۹)اسی لئے کہاگیاہے کہ قرآن کی ہدایت پر عمل کرکے ہی ہرشخص رحمت الٰہی کامستحق بن سکتا ہے چونکہ اس کے سواء کوئی اورطریقہ ہے ہی نہیں اسی لئے فرمایاگیاہے’’یہ کتاب (قرآن) ہم ہی نے اتاری ہے برکت دینے والی بس اسی کی اتباع (رسول کی سنت کے مطابق عمل )کرو۔ اورنافرمانی کے انجام بدسے ڈرو تاکہ تم پررحم کیاجائے۔ (انعام۱۵۵)قرآن کی اتباع کرنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی نہ صرف حکم(انعام:۱۰۶، یونس ۱۰۹،احزاب ۲) دیاگیابلکہ آپ کی زبان سے’’میں تو صرف وحی الٰہی کی پیروی کرتاہوں‘‘کااعتراف واقرار کروایاگیاہے۔ (انعا م ۵۰،اعراف ۲۰۳،یونس ۱۵)۔

اتباع (پیروی) چونکہ نمونہ عمل ہی کی ہوسکتی ہے اوراطاعت و فرمانبرداری احکام کی چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوسابقہ پیغمبروں کےاسوہ کے مطابق قرآنی احکام پرعمل کرنے کا حکم دیاگیا۔ (انعام۹۰، نحل۱۲۳)۔ اس طرح سنت رسول ؐ  محفوظ کردی گئی، اہل ایمان کوبھی قرآن کی اتباع کرنے کے احکام دیئے گئے ان کاقرآن کی اتباع کرنا دراصل سنت رسول اور اسوہ صحابہؓ  کے مطابق قرآن کے احکام پرعمل کرناہے جیساکہ حکم دیاگیاہے ۔(سورہ النساء ، ۱۱۵، اعراف ۱۵۷: توبہ : ۱۰۰)اس لئے قرآن کی اتباع کرنے کے احکام پیش کرکے سنت رسولؐ اورصحابہؓ کے لزوم واہمیت کی تردید ونفی کرنا نہ صرف خلافِ عقل ہے بلکہ خلاف واقعہ بھی ہے۔

امتحان وآزمائش کی غرض ہی سے دنیا کاانتظام ایسا بنایاگیاہے جہاں قانونِ الٰہی کے مطابق اسباب اختیارکئے بغیر پانی کا ایک گھونٹ کاملنابھی ناممکن ہے اس لئے سامان زندگی فراہم کرنے کی فکر ومصروفیت میں ابدی زندگی سے غفلت اوربھول ہوجاناایک امرواقعہ ہی ہے کیونکہ ابدی زندگی غیب میںہے اسی لئے رب نے بندوں کواس غفلت اوربھول سے بچانے کیلئے قرآن کونازل فرمایاہے۔ (قصص :۸۵)اور تمام پیغمبر بھی ابدی زندگی کی فکر پیدا اوربرقرار رکھنے کے لئے مبعوث کئے گئے۔ (ص ۴۶) سامان زندگی موجودہونے کے باوجود بھی اگران کواستعمال نہ کرکے مرجائے تویہ خودکشی ہوگی جس کا مرنے والاخود ذمہ دارہوگا۔ بالکل اسی طرح قرآن ورسول ؐ کے ذریعہ انسانوں کیلئے مکمل سامان ہدایت فراہم کردیاگیاہے۔ چنانچہ اسی بناء پر حشر کے دن بندو ں کے عذرات کے جواب میں کتاب ورسول ؐ ہی کا حوالہ دیاجائیگا۔ (زمر۵۹، ۷۱مومن۴۹، ۵۰الملک ۸،۹) جس کی اہمیت ووضاحت کیلئے ’’اے نبی ؐ  !  یہ قرآن تمہارے لئے اورتمہاری قوم کیلئے نصیحت ہے عنقریب تم سب پوچھے جائوگے۔‘‘(زخرف۴۴) فرمایاگیا ہے آخرت میںاسی مواخذہ سے بچنے کیلئے لازمی وضروری ہے کہ ہدایت کیلئے قرآن کو خود سمجھ کر پڑھیں  (بقرہ ۱۲۱) اور ہدایت کیلئے رب سے دعاء بھی کی جاتی رہے۔ مغفرت وجنّت کے مستحق ہونے کی شرط قرآن کی باتیں کھول کھول کر کوئی بات چھپائے بغیر لوگوں سے بیان کرتے رہناہے۔(اٰل عمران ۱۸۷) اور قرآن کی باتوں کوچھپانے والوں پرنہ صرف اللہ تعالیٰ بلکہ تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔(بقرہ:۱۵۹)اوردنیا کے فائدے یانقصان دنیا کے اندیشے سے قرآن کی باتوں کوچھپانے والے اپنا پیٹ آگ سے بھررہے ہیں اوران کے لئے دردناک عذاب ہے۔(بقرہ ۱۷۴) فرمایا گیا ہے قرآن کی اسی اہمیت کی بناء پرنبی کریمؐ نے فرمایا: ’’قرآن اللہ کی رسی ہے جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پرہے اور جس نے اس کو ترک کیاوہ غلط راہ پر پڑگیا۔‘‘(مسلم)۔

دنیاو آخرت میں عذاب سے بچنے کاقانون الٰہی تو صرف یہی ہے کہ جو عذاب سے بچنا چاہتا ہے وہ عذاب سے بچنے کونہ صرف اپنا مقصد زندگی بنالے بلکہ اللہ کے دوسرے بندوں کوبھی ابدی زندگی کی تباہی سے خبردار کرتے رہنا ہے ایسا کرنے ہی سے حشر کے دن پکڑے جانے سے بچ سکیں گے اوردوسرے بندے بھی اپنی فکروعمل کی اصلاح کرکے ابدی زندگی کی تباہی کی ہولناکیوں سے بچنے کی کوشش کریں گے، یہی منشاء الٰہی ہے۔(اعراف ۱۶۴) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوخودقرآن پڑھنے۔ (کہف۲۷،نمل۹۲، عنکبوت ۴۵)اورقرآن پڑھ کر سنانے(رعد :۳۰) اورقرآن کے ذریعہ نصیحت(انعام ۱۹، ۷۰، فرقان ۱، ق ۴۵)کرنے کے احکام دیئے ۔قرآن کی اسی نصیحت اورنفع بخشی کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں بہتر وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور دوسروں کو قرآن سیکھائے۔(بخاری)

قرآن کاپڑھنا اور پڑھانا شروع ہی سے جاری وساری ہے انشاء اللہ قیامت تک یہ سلسلہ اضافہ پراضافہ کے ساتھ چلتارہے گا۔ رحمتِ الٰہی سے محرومی کاقانونِ الٰہی چونکہ قرآن سے غفلت وجہل ہے جس کوپیدا کرنے کیلئے مسلمانوں میں یہ بات بہت پھیلائی گئی کہ قرآن کو بِلا سمجھے بھی پڑھنے اورپڑھانے سے ثواب ضرورملتا ہے چنانچہ میّت کیلئے تو خاص طورپر قرآن پر قرآن ختم کئے جاتے ہیں اورکرائے جاتے ہیں ۔عموماً روزانہ صبح دکانوں ، ہوٹلوں اورلاریوں میں قرآن پڑھایا جاتا ہے بالخصوص رمضان میں حفاظ اپنا حفظ تازہ کرنے کیلئے روزانہ قرآن پڑھتے ہیں اور تراویح میں سینکڑوں مسلمانوں کوسناتے ہیں ۔آج کل توسماعت قرآن کے مجالس و محفلیں جگہ جگہ قائم کئے جارہے ہیں اورآئے دن دینی مدارس کی تعداد میں اضافہ ہی ہورہاہے اورہوتا ہی رہے گا جہاں قرآن نہ صرف پڑھایاجاتاہے بلکہ حفظ بھی کرایا جاتاہے ان اٹل واقعات کے باوجود حشر کے دن نبی کریمؐ کا رب سے یہ شکایت کرناکہ’’میری قوم نے قرآن کوچھوڑدیاتھا‘‘۔ (فرقان :۳۰) ثابت کررہاہے کہ ہم قرآن کوہدایت کیلئے سمجھ کر پڑھنے کے بجائے ثواب وبرکت کے چکر میں پڑھ رہے ہیں ۔نبی کریم  ؐ کاشکایت کرناہم کو کس انجام سے دوچار کرے گا محتاج بیان نہیں ہے۔

کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبت یاتکلیف اوربڑے سے بڑے نقصان کی کسی نہ کسی طرح تلافی کرلی جاتی ہے یاہوجاتی ہے ‘بالآخر موت سے توبالکلیہ دنیاکا معاملہ ہی ختم ہوجاتاہے اس کے مقابلہ میں آخرت کامعاملہ ایک توہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہے دوسرے وہاں عمل کرنانہیں بلکہ دنیا میں کئے ہوئے اعمال کابدلہ پانا ہے اس لئے ہرایک کے لئے آج اوّلین اہم ترین اعظم ترین اور نافع ترین کام صرف ابدی زندگی کی تباہی سے بچنے کی کوشش کرناہے اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ روزانہ کم سے کم قرآن کی ایک آیت ہی کیوںنہ ہوہدایت کیلئے سمجھ کر پڑھیئے اوراس کواپنے اوپر لازم کرلیجئے اورساتھ ساتھ رب سے ہدایت کی دعا بھی کیجئے اور کرتے رہیے اوراپنے گھروالوں کوبھی ساتھ لے کرپڑھئے اس طرح ایک تو حکم الٰہی ’’اے ایمان والو اپنے آپ کواوراپنے اہل واعیال کوآگ سے بچائو‘‘(تحریم ۶)کی تعمیل بھی ہوجائے گی اور گھر والے بھی قرآنی تعلیم سے واقف ہوکر خود بھی اور ساتھ ساتھ آپ کوبھی دوزخ سے بچانے کا ذریعہ بنیں گے۔

اگرہم ایسانہ کریں گے تو فیصلہ الٰہی ’’جوکوئی بھی اسلام (اللہ و رسولؐ کی فرمانبرداری) کے سواء کوئی اور طریقہ اختیارکرے گا وہ ہرگز قبول نہ ہوگا اوروہ آخرت میں یقینا گھاٹاپانے والوں میں سے ہوگا‘‘۔(اٰل عمران :۸۵) اوراصلی وحقیقی کامیابی تو آخرت میں آگ سے بچالیاجاکر جنت میں داخل کیاجاناہے۔(آل عمران ۱۸۵)اسی مقصد کے تحت ہم چنداحباب ہراتوار 3:30 بجے دن مکان نمبر 14-1- 497 روبرو گیان باغ سیتارام پیٹ پان منڈی آغاپورہ جمع ہوکر ہدایت کے لئے ترجمہ کے ذریعہ قرآن سمجھ کراس پر عمل کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ابدی زندگی کے تعلق سے فکر وتشویش پیدا ہو اور مسلمان ہونے کے ناطے اللہ کے دوسرے بندوں تک پیام الٰہی پہونچانے کی ممکنہ کوشش کی جاسکے اس طرح اپنے آپ کوخیراُمّت میں شمار کئے جانے کا مستحق بنایا جاسکے۔ (آل عمران :۱۱۰)

آپ سے بھی گزارش ہے کہ ہدایت کیلئے قرآن سمجھ کر خودبھی پڑھیں اوراپنے دوست واحباب کو بھی اسی کی ترغیب دیجئے۔ درس قرآن کی محفلیں گھر، محلے  اورمساجد میں قائم کرنے کی کوشش کیجئے اگر ایسا نہ ہوسکے تو کم ازکم ہمارے ساتھ شریک ہونے کے کوشش کیجئے۔

وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللہِ۝۰ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْہِ اُنِيْبُ(ہود۸۸)

اور مجھے توفیق تو اللہ ہی سے ملے گی ۔ اسی پرمیں نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔