انسان کی جہالت اور عجز و قفر کا جائزہ

واپس فہرست مضامین

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان بار بار رحم کرنے والا ہے

اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ۝۲ۙ (العصر)

ترجمہ: (یقینا انسان خسارہ میں ہے)

 

انسان کی جہالت اور عجز و فقر کا جائزہ

 

انسان اگر اپنی حالت پر غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ وہ خود اپنے لئے کوئی راہ متعین نہیں کرسکتا بلکہ ماحول اور نفس کی خواہشات اور لذّات کی طلب اس کو جس راہ پر ڈال دیتی ہے اسی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے۔ ہرفانی قوت کے آگے اس طرح جھک جاتا ہے کہ اچھی عادتوں کو ترک کردیتا ہے۔ مشکلات و مصائب میں اس قدر مایوس‘ سراسیمہ و حیران ہوجاتا ہے کہ غیرت و خود داری سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا منکر اور اللہ تعالیٰ سے نا اُمید ہوجاتا ہے۔ اتنا محتاج و عاجز ہے کہ کسی سرپرست‘ معاون و رہبر کے بغیر بچپن و شباب کے منازل طئے نہیں کرسکتا اور زندگی کی کسی مشکل کو حل نہیں کرسکتا۔ آرام و اطمینان چاہتا ہے مگر فکر و آلام میں مبتلا رہتا ہے۔ امن و راحت چاہتا ہے مگر خوف و حزن دامنگیر رہتے ہیں۔ حزن و غم سے جتنا بھاگتا ہے اتنا ہی ان سے دوچار ہوتا ہے۔ فراغت و خوش حالی اگر نصیب ہوتی ہے تو اپنے ہی مقرر کردہ قوانین و فرائض کو ترک کردیتا ہے اور اپنے ذاتی اغراض کے مقابلہ میں دوسروں کے حقوق پامال کردیتا ہے۔ مدنی ومنزلی زندگی کے ضابطے بناتا ہے تو تمدن و معاشرت کا اعتدال بگڑ جاتا ہے۔ اخلاق و کردار کی درستی کے آئین (قوانین) مقرر کرتا ہے تو بداعمالیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اخلاقی پستی بڑھ جاتی ہے۔ حفظانِ صحت کے اصول بناتا ہے تو نئے نئے امراض پھوٹ پڑتے ہیں۔ صیانتِ حقوق کے لئے قوانین وضع کرتا ہے تو ظلم و حق تلفی بڑھ جاتی ہے۔ تعزیری احکام نافذ کرتا ہے تو جرائم میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ امن و سلامتی کے بین الاقوامی معاہدے مرتب کرتا ہے تو جنگ و جدال کی نت نئی صورتیں نکل آتی ہیں۔ غرض امن کی ہر کوش سے جنگ‘ صلح کی ہر تجویز سے فساد  رُو نما ہوتا ہے۔ بناؤ سنوار کی ہر کوشش بگاڑ کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ راحت و آسائش کے لئے جو چیز ایجاد کی جاتی ہے وہ تباہی و بربادی کا سامان بن جاتی ہے۔ یہ محض خیالات نہیں، واقعات ہیں اور یہ واقعات اس حقیقت کو ظاہر کررہے ہیں کہ انسان اپنے حقیقی نفع و ضرر کو متعین نہیں کرسکتا اور یہ کہ نفع حاصل کرنے اور ضرر سے بچنے کی تدابیر اور اپنی صلاح و فلاح کی تجاویز مرتب کرنے کی قابلیت انسان میں نہیں ہے۔ ان ہی معنی میں وہ اپنی زندگی کا مالک و مختار نہیں۔ بلکہ ایک اعلیٰ و عظیم فرماں روا جو انسان اور تمام کائنات کا خالق و رب ہے وہی انسان کا مالک و مختار ہے۔ یہی اعلانِ حق ہے۔

وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ وَيَخْتَارُ۝۰ۭ مَا كَانَ لَہُمُ الْخِيَرَۃُ۝۰ۭ ۝۶۸ (القصص) ترجمہ: (اور آپ کا رب جس چیز کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور مختار کل ہے۔ ان لوگوں کو تجویز (احکام) کا حق نہیں ہے (یعنی وہ تجویز احکام کی قابلیت نہیں رکھتے۔) اور یہ حقیقت بھی ثابت ہورہی ہے کہ انسان اپنے خالق کا محکوم و مملوک (بندہ) ہے اور اپنی صلاح و فلاح میں اپنے رب کے احکام و ہدایات و علم کا محتاج ہے جیسا کہ آیت ذیل سے ثابت ہے يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللہِ۝۰ۚ ۝۱۵ (الفاطر) ترجمہ: (اے لوگو تم سب اللہ ہی کے محتاج ہو۔)

انسان اس عالم میں کیوں پیدا کیا گیا؟ خالق اور دوسری مخلوق سے اس کا فطری تعلق کیا ہے ہر ایک کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟ انجامِ حیات کیا ہے؟ یہ وہ مسائل ہیں جن سے انسان کو جہل ہی جہل ہے۔ جاہل‘  محتاجِ علم ہوتا ہے انسان کو پیدا کرنے والا جو انسان کی ہر حاجت پوری کررہا ہے۔ وہی علم کی احتیاج کو بھی پوری کرے گا۔ اس کے سواء انسان کو کوئی اور صحیح علم و ہدایت نہیں دے سکتا۔ اسی لئے خالق انسان نے ایک دستورِ رحمت نازل فرماکر انسان کو علم و ہدایت کی روشنی بخشی اور وہ تمام احکام نازل فرمائے جو ایک غلام و بندہ کی صلاح و فلاح کے لئے ضروری ہیں اور اس طرح تمام انسانوں کو بندگیٔ رب کا حکم دیا۔ يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۲۱ۙ(البقرہ) ترجمہ: (اے لوگو! اپنے رب کی بندگی کرو جو تمہارا بھی خالق ہے اور جو تم سے پہلے گزرے ہیں ان کا بھی خالق ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔) تاکہ انسان خالق و مخلوق دونوں کے حقوق ادا کرنے کے قابل ہوجائے اور انسان کی زندگی فاسد عناصر سے پاک اور افراط و تفریط سے محفوظ رہے اور انسان اپنے فطری جذبۂ حکومت (اختیار) کا صحیح استعمال کر کے امن و سلامتی اور عدل و احسان کی دنیا آباد کرے اور نتیجتاً حیات بعد الموت کو بہتر سے بہتر بنالے۔ یعنی منزلِ مقصود کو پالے یہ تمام امور ’’ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ‘‘ کے مفہوم میں داخل ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’انسان اپنی صلاح و فلاح میں الٰہی تعلیم کا محتاج نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لئے کوئی ہدایت نامہ نازل نہیں فرمایا۔‘‘ یہ محض جہالت کی باتیں ہیں ان لوگوں نے انسان اور خالقِ انسان کے فطری تعلق کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

ان حالات پر غور کرنے کے بعد یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ فطری طور پر انسان جس ربِّ اعلیٰ و عظیم کا محتاج ہے اسی سے برگشتہ (بھٹکا ہوا) ہے جس کی وجہ سے فتنہ و فساد اور خون خرابہ میں مبتلا ہے۔ حاکم و محکوم اقوام دونوں کے دل و دماغ پر آج جو غیر فطری افکار و خیالات مسلّط ہیں دونوں میں جو انسانیت سوز اعمال پائے جاتے ہیں ادنیٰ و متوسط طبقہ جن معاشی مشکلات میں مبتلا ہے اور سرمایہ داروں کے خلاف مزدور و غریب طبقہ جو بغاوت و جارحانہ اقدام پر آمادہ ہے یہ سب اپنے رب و مولیٰ سے احتیاج و غلامی کی نسبت منقطع کرنے کا نتیجہ اور اپنے رب و مولیٰ کی تعلیم سے روگرداں ہونے کا قدرتی ردّ عمل ہے۔ فرد ہو کہ جماعت کسی کو سکون و چین نصیب نہیں۔ انسان‘ انسان سے خائف ہے اور اس عارضی زندگی کا یہ نقصان ابدی زندگی کے ابدی نقصان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔