عذاب قبر

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

عذاب قبر کی حقیقت قرآن و حدیث کی روشنی میں

 

 

حفاظتِ الہٰی ۔ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۝۹ (سورہ حجر ) ( یقینا ہم ہی اس ( قرآن ) کی حفاظت کرنے والے ہیں) کی بنا پر قرآن نہ صرف الفاظ کی حد تک بلکہ معنوں کے لحاظ سے بھی اپنی اصلی و صحیح شکل میں آج بھی موجود و محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا ۔ جس کی تشریحات و وضاحت اور عملی نمونے ، سنت رسولؐ اور اسوہ صحابہؓ کی شکل میں ہیں۔جن کو محدثین نے جمع کیا ہے۔ ان کو جمع کرنے کی بنیادی وجہ ان جھوٹی احادیث کے گھڑے جانے کو بند کرنا تھا۔ جو دشمنان اسلام مسلمانوں کے عقائد کو بگاڑ کر ان کو رحمتِ الٰہی سے محروم کرنے اور ان میں پھوٹ ڈالنے اور نادان واعظین مسلمانوں میں دوزخ کا خوف اور جنت کا شوق پیدا کرنے کے لئے جھوٹی و غلط باتیں حدیث و آثار کے نام سے عوام میں پھیلا رہے تھے جن میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا۔ چنانچہ ہر محدث نے سب سے پہلے وہ تمام لاکھوں باتیں جو حدیث و آثار کے نام سے عوام میں مشہور ہو گئی تھیں جمع کیا مثلا امام بخاریؒ چھ لاکھ ، امام مسلمؒ چار لاکھ غرض ہر محدث نے لاکھوں احادیث و آثار جمع کئے اور اپنی جمع کردہ احادیث میں سے صرف ان ہی کو اپنی کتابوں میں درج کیا جن کے راویوں کی ثقاہت ان کے اپنے معیار کے مطابق درست پائے۔

دوسرے معدودے چند کے سوا تمام احادیث کے الفاظ وہ نہیں ہیں جو نبی کریمؐ فرمائے تھے بلکہ راویوں نے آپؐ کے ارشادات کے معنی مفہوم کو اپنے الفاظ میں بیان کئے ہیں یعنی احادیث بالالفاظ نہیں بلکہ بالمعنی ہیں۔

تیسرے صحیح بخاری کی سات ہزار سے زیادہ احادیث میں سے صرف (۲۳) احادیث ہی ایسی ہیں جن میں راویوں کی تعداد تین ہیں جن کو ثلاثیات کہا جاتا ہے ۔ اور ما باقی احادیث میں راویوں کی تعداد چار سے لیکر آٹھ تک ہے راویوں کی تعداد زیادہ ہونے سے حدیث میں غلطیوں کے امکانات بڑ ھ جاتے ہیں چونکہ تمام راوی ثقاہت میں یکساں و برابر نہیں تھے جن احادیث کے راویوں کی ثقاہت ٹھیک معلوم ہوئی ان کوصحیح قرار دیا گیا اور جن کے راویوں کی ثقاہت محل نظر ہوئی ان کو ضعیف قرار دیا گیا۔ حالانکہ سورۃ الحجرات آیت (۶) میں ایک مرتبہ اور سورۃ النساء آیت (۹۴) میں دو مرتبہ  فَتَبَـیَّنُوْا  (پس سب سے پہلے خبر کے صحیح ہونے کی تحقیق کر لیا کرو) کا حکم دیا گیا۔ اور رسول اللہ ؐنےاحادیث کو قرآن کی روشنی میں قبول یا رد کرنے کی ہدایت دی ہے۔ (سنین دار قطنی : ۴؍۲۰۹ اور طبرانی کبیر) مشکوۃ میں جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا ’’میرا کلام اللہ کو منسوخ نہیں کر سکتا۔ اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کر دیتا ہے‘‘ (کتاب العلم) گمراہی سے بچنے کے لئے نبی کریمؐ نے ایک بے حد اہم و بنیادی ہدایت یہ دی کہ’’کسی کے جھوٹا ہونے کے لئے صرف یہی ایک بات کافی ہے کہ وہ سنی ہوئی ( لکھی ہوئی) بات کو  ( تحقیق کئے بغیر) بیان کرے‘‘۔( مسلم)

اسی احتیاط کے تحت ہی ’’عمرؓ حدیث کو اسی صورت میں قبول کرتے جبکہ راوی اپنے روایت کی صحت کے لئے گواہ بھی پیش کرے۔ چاہے راوی صحابی ہی کیوں نہ ہو‘‘مندرجہ بالا ہدایت کے مطابق احادیث کے مضامین قرآن اور درایت کے اصولوں کی روشنی میں جانچ کر لکھے جاتے تو صحیح و ضعیف کی بجائے صحیح و غلط سچی و جھوٹی احادیث خود بخود الگ ہو جاتیں ۔ اس طرح جھوٹی احادیث کی آڑ میں الہام، بشارت ، خواب کے نام سے عقائد میں شرک اور دینی اعمال میں بدعت کا فساد پیدا کرنے کا موقع ہی کسی کو نہ ملتا۔

موجودہ احادیث قرآن و درایت کے اصولوں پر جانچ کئے بغیر جمع کی گئی ہیں ۔ اس لئے ان میں صحیح و غلط باتیں ملی ہوئی ہیں دوسرے نزول دین کی تکمیل بتدریج ۲۳ سال میں ہونے سے فقہی مسائل کی احادیث میں تضاد و اختلاف ہو سکتا ہے لیکن عقائد سے متعلق ارشادات رسولؐ میں تضاد و اختلاف ناممکن ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے۔  وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى۝۳ۭ  اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى۝۴ۙ (النجم) (اور وہ ( پیغمبر) نہیں بولتا اپنی خواہش نفس سے مگر وہی بولتا ہے (جس کی اس کو وحی کی جاتی ہے) اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَــقِیْمٍ۝۴۳ (زخرف) اے نبی  ؐ آپ سیدھے راستے پر ہیں) اور سورہ مومنون آیت نمبر (۷۳) سورہ یٰسین آیت نمبر (۴) اور سورہ شوریٰ آیت نمبر (۵۲) میں فرمایا گیا (اے نبی ؐ آپ یقینا لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف بلارہے ہیں ) اور خود نبی کریمؐ  کی زبان سے کہلوایا گیا اے پیغمبر کہہ دو یقینا میرے رب نے مجھ کو سیدھا راستہ بتا دیا ہے۔ جو یقینا مضبوط دین ہے۔ جو ابراھیمؑ حنیف کا طریقہ ہے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔ ’’انعام( ۱۶۱) اور اللہ تعالی نے نبی کریم  ؐ کو وحی کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ( یونس:۱۰۹) اور نبی کریمؐ کی زبان سے بھی کہلوایا گیا کہ ‘‘میں صرف اس بات کی پیروی کرتا ہوں جس بات کی مجھے وحی کی جاتی ہے۔  (یونس:۱۵)۔

مندرجہ بالا سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ نبی کریم ؐ  کا نہ کوئی قول قرآن کے خلاف ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی عمل ۔ اس اٹل حقیقت کی روشنی میں صرف ان ہی احادیث کو صحیح قرار دیا جائے جو کہ قرآن کے مطابق ہوں اور جو قرآن کی وضاحت کرتی ہوں اور جو تجربے و مشاہدے میںدرست ثابت ہوں اور ان تمام احادیث کو موضوع ( گھڑی ہوئی) قرار دیا جائے جو قرآن کے خلاف اور تجربے و مشاہدے میں غلط ثابت ہوں اور جس کو عقل سلیم تسلیم کرنے سے انکار کرے۔

ملحوظ رہے کہ موروثی و مروجہ عقائد کا جواز قرآن کی متشابہ آیات ( جن کی صحیح حقیقت اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا) (ال عمران ۔ ۷) سے نکال لینا کچھ مشکل نہیں ۔ لیکن قرآن کی کسی آیت یا لفظ کا ایسا معنی و مطلب لینا جو قرآن کی دوسری آیات کے خلاف ہو قطعی گمراہی ہے۔ کیونکہ قرآن کے متعلق نہ صرف  وَلَمْ يَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا۝۱ۭ۫ (الکہف) ( اس میں ذرا بھی ٹیڑھا پن نہیں )  فرمایا بلکہ  غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ (زمر:۲۸) ( ٹیڑھ پن سے قطعی پاک ہے) کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ اور کوئی باطل بات کسی طرح بھی اس میں داخل نہیں ہو سکتی  (حم السجدہ :۴۲) کا تیقن بھی دیا گیا کیونکہ حق بات کا علم دینے کے لئے ہی قرآن نازل کیا گیا ہے لیکن قرآن ہی سے حق بات معلوم کرنے کی کوشش کی بجائے ذہنی تحفظات کے ساتھ قرآن  پڑھنے سے جماعتیں گروہ بندیاں اور فرقے وجود میں آئے مثلاً عبادات فرض کرنے کا بنیادی مقصد ابدی زندگی کی اہمیت پر دنیا کی فکر غالب نہ ہونے پائے یعنی دنیاوی فائدے کے لئے اللہ کی نافرمانی کرکے آخرت کو نقصان پہنچانے سے بچنے کی فکر و کوشش کرنا ہے اس کو تقویٰ کہا گیا ہے۔ تقویٰ کی بجائے عبادات کی ادائی کے طریقوں کو بنیادی اہمیت دینے سے حنفی ، مالکی، شافعی، حنبلی، اہل حدیث ، جماعت المسلمین اور اہلِ قرآن ( جو حقیقت میں منکر قرآن ہے) وجود میں آئے اور احادیث کے آڑ میں شیعہ ، مہدوی، قادیانی و صدیق دیندار بنے اور سنت رسولؐ اور اسوہ صحابہؓ  کو نظر انداز کر کے تزکیہ نفس اور تطہیر قلب کے لئے چشتیہ ، قادریہ ، سہروردیہ اور نقشبندیہ کے سلوک ( طریقے) ایجاد کئے گئے حالانکہ حصولِ مقصد کے طریقے بھی سنت رسولؐ اور اسوہ صحابہؓ کے مطابق ہونا بنیادی اور لازمی شرط ہے۔ النساء (۱۱۵) بنی اسرائیل (۱۹) قرآن علم کی کتاب ہے اور علم عقل سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ قرآن کی بات جو علم ہی کی بات ہے ( النساء:۱۶۶، اعراف:۵۲، علق:۵ ) ہرگز عقل کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ اللہ کی کسی بات کا ہماری عقل کی گرفت میں نہ آنا ایک الگ بات ہے کیوں کہ ہماری قوتیں محدود ہیں۔ اس لئے جن باتوں کا علم نہیں دیا گیا ان کے پیچھے پڑنے سے تاکیداً منع کیا گیا ہے۔(بنی اسرائیل : ۳۶۔ ۸۵) کیونکہ قرآن میں گزرے ہوئے واقعات اور مستقبل میں ہونے والی باتیں بیان ہوئی ہیں جو بظاہرعجیب ہی نہیں بلکہ بے حد عجیب معلوم ہوتی ہیں جن پر ایمان لا کر ان سے عبرت و نصیحت حاصل کر کے محکم آیات ( یہ کرو یہ مت کرو) پر عمل کرنا ہے اور منکر باتوں سے بچنے کی کوشش کرنا ہے لیکن تدبر و تفکر کرنے نصیحت حاصل کرنے اور عقل سے کام لینے کی ہدایات الٰہی کی آڑ میں ایسی قیاس آرائیاں کر لی گئی ہیں جو محکم آیات اور قوانین الٰہی کے صریحاً خلاف و ضد ہیں۔ حالانکہ ہماری عقل کی گرفت میں صرف وہی بات آ سکتی ہے جو دلیل سے ثابت ہو یا تجربہ یا مشاہدے میں درست نکلے۔

یہ اٹل حقیقت واقعہ ہی ہے کہ قرآن میں تضاد و اختلاف نا ممکن ہے (النساء:۸۲)  البتہ کسی بات کا ایک جگہ اجمالاً یا اشارۃً ذکر کیا گیا ہے تو دوسری جگہ اسکی تفصیل دیدی گئی ہے اسی لئے   یُفَسِّرُ الْقُرْانُ بَعْضُہ‘ بَعْضًا ( قرآن کا ایک حصّہ اس کے دوسرے حصّہ کی تفسیر کرتا ہے) کہا گیا ہے۔

یہ بھی عقل ہی کا بنیادی تقاضہ ہے کہ کسی بات کو جب ہم تسلیم کر لیں یعنی مسلّمات تو پھر اس کے خلاف کوئی بات بھی چاہے وہ کسی کی بھی ہو ہر گز قبول نہیں کی جا سکتی مثلاً قانونِ الٰہی ( حشر کے دن فیصلے کے بعد اعمال کے مطابق عذاب یا ثواب دیاجائے گا) کو جب تسلیم کرلیں تو پھر اس کے خلاف قبریا برزخ میں فیصلے سے پہلے عذاب یا ثواب دیئے جانے کی بات ہر گز تسلیم نہیں کی جاسکتی چنانچہ ایسا کرنے والوں کے متعلق فرمایا گیا کہ دنیا میں ان پر لعنت ہوگی اور آخرت میں عذاب شدید ہوگا۔ شوری (۱۶) سب کا مسلّمہ ہے کہ عقیدہ ( غیب کی باتیں) کی بنیاد صرف قرآن ہی کی آیت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ غیب کا علم تو خالق کائنات ہی کو ہے جس نے اپنے بندوں کو غیب کی باتوں کا علم دینے کے لئے پہلے پیغمبر کو وحی کے ذریعہ غیب کا علم دیا تاکہ وہ اپنی  قوموں کو اس سے واقف کرائیں۔ علمِ غیب اللہ کے سوا کسی کو بھی نہ ہونے کی حقیقت واقعہ کو نبی  کریم ؐکے اقرار و اعتراف کے ذریعہ بیان فرمادیا ہے۔ چنانچہ اعراف (۱۸۸) انعام (۵۰) میں نبی کریمؐ نے اپنے عالم غیب ہونے کی نفی و تردید فرمائی ہے کسی قدر افسوس و ماتم کا مقام ہے کہ قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے والے عذاب قبر یا برزخ کو مانتے ہیں حالانکہ عذاب قبر یا برزخ کو ماننا دراصل قرآن کو غلط و جھوٹ قرار دینے کے ہم معنی ہیں کیوں کہ قرآن میں تو انسانوں کی چار ہی حالتوں ( دو موت اوردو زندگیوں) کا ذکر ہے لیکن عذاب قبر یا برزخ سے تین زندگیاں اوردو موت ثابت ہوتی ہیں )بقرہ: ۲۸، مومن:۱۱)۔

ہماری پہلی حالت موت جو دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے کی حالت ہے جس میں اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ (کیا میں تمہارا پروردگار اور حاجت روا نہیں ہوں) کے جواب میں تمام بنی آدم  قَالُوْا بَلیٰ شَہِدْنَا (سب نے کہا بے شک آپ ہی ہمارے بلا شرکت غیرے تنہا حاجت روا ہیں) کا نہ صرف اقرار کئے بلکہ ایک دوسرے کے اقرار کے گواہ بھی بنے ۔ یہ اقرار روحوں سے نہیں بلکہ ذریت آدم ( اولادآدم سے لیا گیا) اور اس اقرار کے متعلق فرمایا گیا کہ حشر کے دن تم اپنے اس اقرار کا انکار نہ کر سکو گے۔(اعراف:۱۷۲)

ہماری دوسری حالت جس کو حیات (زندگی) فرمایا گیا ہے وہ اس دنیا میں پیدا ہونے کے بعد سے مرنے تک کی حالت ہے جس میں اپنے اقرار (قَالُوْبَلیٰ) اور طالب جنت ہونے میں اپنے قول و عمل سے سچے ہونے کا ثبوت دینا ہے یعنی اپنی ہر حاجت اورضرورت ہر مصیبت و تکلیف میں سب سے پہلے اپنے رب ہی سے عرض کرتے ہوئے اس کی پرورش کے قوانین کے مطابق اس کے پیدا کردہ و مقرر کردہ اسباب و ذرائع مرتے دم تک اختیار کرتے رہنا ہے جیسا کہ فرمایاگیا  : الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوۃَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۰ۭ (الملک:۲)(’’وہ(اللہ) ہی ہے جس نے موت و حیات پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون عمل میں زیادہ اچھا ہے) یہی بات سورہ ھود ۷، و کہف ۷ میں بھی فرمائی گئی ہے چنانچہ دنیا میں ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کی ابدی جزا قانونِ الٰہی کے تحت جنت یا دوزخ کی شکل میں ملے گی‘‘۔

دنیا میں ہر ضرورت ، و حاجت ، مشکل و مصیبت ، راحت و تکلیف، تندرستی و بیماری، تنگی و خوشحالی ، شادی و غم، ہم سے  مَنْ رَبُّکَ ( تیرا رب کون ہے)  مَنْ نَبِیُّکُ ( تیرا نبی کون ہے) اور  مَا دِیْنُکَ ( تیرا دین کیا ہے) کے سوالات کر رہے ہیں اگر ہم متذکرہ بالا طریقوں سے ان کی تکمیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ہمارا جواب  اللہ رَبِّیّْ(میرا رب اللہ ہے) اور محمد رسول اللہؐ میرے نبی ہیں اور اسلام میرا دین ہے‘ ہمارے جوابات ہوں گے۔

مندرجہ بالاسے قطعی ثابت ہے کہ دنیا ہمارے لئے امتحان گاہ ہے جہاں مرتے دم تک ہر آن امتحان ہی امتحان دیتے رہنا ہے اور دنیا میں ہماری زندگی دراصل امتحان کی مدت ہے جو موت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے ان اٹل مسلّمات کے باوجود یعنی امتحان گاہ سے نکل جانے اور امتحان کی مدت ختم ہو جانے یعنی مرنے کے بعد قبر میں یا برزخ میں پھر زندہ کر کے منکر نکیر کے سوالات کرنے کی بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے؟

دوسرے اللہ تعالی نے ہمارے لئے تو صرف دو زندگیوں کی بات فرمائی ہے لیکن منکر نکیر والی بات سے دو زندگیوں کی بجائے تین زندگیاں  (دنیا، قبر یا برزخ ، آخرت ) ثابت ہوتی ہیں۔ قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے والا منکر نکیر کی روایت کو کیسے صحیح مان سکتا ہے۔ روایت پرستوں کے لئے لمحہ فکر و موقع اصلاح ہے۔ ہماری تیسری حالت یعنی دوسری حالت موت دنیا میں مرنے کے بعد حشر کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے تک کی ہے۔چونکہ یہ حالت آنے والے زمانے یعنی مستقبل کی ہے یعنی غیب کی ہے اسی کے متعلق شیطان بنی آدم کو غلط و جھوٹ عقائد میں مبتلا کر دیا ہے تاکہ بنی آدم مستحق دوزخ بنیں حالانکہ یہ حالت موت بھی پہلی حالت موت ہی کی طرح ہے اس کی صحیح نوعیت و کیفیت کا علم صرف اللہ تعالی ہی کو ہے۔ اٰل عمران (۷) جس پر ہم سب کو ایمان لانا ہے اس حالت موت میں بھی اعمال کے بدلے میں عذاب و ثواب دئے جانے کی باتیں کہی و مانی جاتی ہیں جو اللہ تعالی کے قانوں جزاء کے خلاف ہے جس کو متعدد جگہ اور مختلف انداز سے دو ٹوک الفاظ میں بیان فرمادیا ہے۔ وہ یہ کہ بندوں کو صرف حشر کے دن ہی ان کو دوبارہ زندہ کر کے ان ہی کے اعمال کے مطابق عذاب یا ثواب دینے کا فیصلہ کیا جائے گا جیسا کہ ارشاد ہے (۱) كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ ۔ (اٰل عمران ۔۱۸۵)ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے اس کے سوا کچھ نہیں کہ تم کو تمہار ے ( اعمال کا بھرپور بدلہ صرف حشر کے دن ہی دیا جائے گا)

(۲) فَكَيْفَ اِذَا جَمَعْنٰھُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْہِ۝۰ۣ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝۲۵  (اٰل عمران) پس ان کا کیا حال ہوگا جب ہم ان سب کو اس حشر کے دن جمع کریں گے اور ہر نفس کو اس کے اپنے کئے کا بھر پور بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ یہی بات آل عمران (۱۸۰) بقرہ (۴۸، ۱۲۳، ۲۸۱) سورۃ النساء (۴۱، ۴۲) سورۃ یونس (۴) طہ (۱۵) المومن (۱۶،۱۷) کے علاوہ اور بھی بہت سی جگہ بیان ہوئی ہے کہ حشر کے دن ان کو زندہ کر کے فیصلے کے بعد انکے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔  برزخ یعنی حالت موت میں نہیں۔

عذاب قبر یا برزخ کے ثبوت میں تفتیش کرنے کی بات پیش نہیں کی جا سکتی کیونکہ موت کے وقت غیب کا معاملہ بالکلیہ ختم ہو جاتا ہے جس کو انعام آیت (۹۳) انفال (۵۰:  نحل ۲۸، ۳۲) اور محمد: آیت ۲۷ میں مرتے وقت کی حالت کو بیان کیا گیا ہے جس سے تفتیش کی بات غلط ثابت ہو جاتی ہے۔ سادہ لوحی کا یہ حال ہے کہ مندرجہ بالا آیات عذاب قبر یا برزخ کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہیں حالانکہ ان میں وہ باتیں بیان ہوئی ہیں جن سے مرنے والوں کو دنیا ہی میں سابقہ پڑتا ہے مرنے کے بعد نہیں مثلاً : وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْہِمْ۝۰ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِہٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۝۹۳( سورہ انعام )  ( اور کاش تم دیکھتے کہ یہ ظالم جب موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے۔ (کہیں گے )ہاں اپنی جانوں کو نکالو آج تم کو ذلت کا عذاب دیا جائے گا اس وجہ کہ تم اللہ کے متعلق جھوٹی باتیں کہتے تھے اور تم اللہ کی آیات سے تکبر کرتے تھے)  وَلَوْ تَرٰٓي تا  اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْتک بالکلیہ مرتے وقت کے حالات کا ذکر ہے۔

اَلْیَوْمَ  ( آج) کا لفظ قیامت ، حشر کے دن کے لئے استعمال ہوا ہے مثلا  یٰسن ۵۴، ۵۹،۶۴،۶۵ المعارج  (۴۴)  اور  بھی بہت سی جگہ  اَلْیَوْمَ  کو  یَوْمُ الْحَشْر‘  یَوْمُ الْفَصْل‘ یَوْمُ الْتَغَابُنْ‘  یَوْمُ الْعَظِیْمِ‘   یَوْمُ الْحِسَاب‘ یَوْمُ الدِّیْنِ فرمایا گیا ہے۔ پورے قرآن میں   یَوْمُ الْدِیْنِ  ہی سے ڈرایا گیا ہے مثلاً مریم (۳۹) الانفطار (۱۵،۱۷،۱۹) ان حقائق کی روشنی میں الیوم سے حشر کا دن ہی مراد لیا جا سکتا ہے کیونکہ حشر کے دن ہی فیصلے کے بعد جزاء دئے جانے کا قانون بار بار بیان ہوا ہے اس لئے الیوم سے قبر یا برزخ مراد لینا تاویل نہیں بلکہ تحریف ہے سورہ انفال( آیت :۵۰) میں ہے کہ فرشتے وفات دیتے وقت منھ اور پیٹھ پر مارتے ہوئے کہیں گے چکھو جلانے والا عذاب سورہ النحل( آیت :۲۸) میں ہے کہ وفات پانے والے وفات دینے والے فرشتوں کو اپنے بے گناہ ہونے کی بات کہیں گے اور سورہ النحل (آیت :۳۲) میں ہے کہ فرمانبرداروں کو وفات دیتے وقت فرشتے سلام کریں گے اور جنت میں داخلہ کی بشارت دیں گے سورۃ محمدؐ( آیت ۲۷) میں ہے کہ فرشتے مرنے والوں کے منھ پرپیٹھوںپر مارتے ہوں گے ۔ اور سورہ قیامۃ آیت ۲۹ میں ہے کہ ایک پنڈلی دوسرے پنڈلی سے لپٹ لپٹ جاتی ہے۔

قرآن سے قطعی ثابت ہے کہ حشر کے دن ہاتھ ، پاؤں ، زبان، بصارت وسماعت ، جلد، زمین، اعمال نامے اور علیّن اور سجیّن کے رجسٹرات اور فرشتوں کی گواہی کے بعد ہم کو ہمارے ہی اعمال کا بدلہ قانون الہی کے مطابق دیا جائے گا اس سے پہلے نہیں بلکہ صرف حشر کے دن ہی اچھے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اعراف (۸،۹) المومنون (۱۰۲،۱۰۳) زمر (۶۹، ۷۰) زلزال (۶ تا ۸)۔   

اقبال جرم کے بعد تفتیش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا فیصلے سے پہلے سزا دینا دنیا والوں کے پاس بھی ایک سنگین جرم مانا جاتا ہے۔مگر اس قدر افسوس و ماتم کا مقام ہے کہ عذاب قبر یا برزخ سے یہی الزام اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے جس کی قباحت کا احساس ہونا تو بہت دور کی بات ہے بلکہ اس الزام کو قرآنی آیات کی بعید ترین تاویل کر کے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

عذاب قبر کے دلائل کا جائزہ 

عذاب قبر یا برزخ کی اکثر احادیث میں صرف جسمانی یا بدنی عذاب ہی کا تذکرہ ہے حالانکہ جسم کیڑے وغیرہ کھانے سے مٹی میں مل جاتا ہے یا پرندے یا درندے کھا لیتے ہیں۔ یا جلا کر راکھ پانی میں بہا دی جاتی ہے۔اس لئے بعض احادیث کی بناء پر روح کو عذاب دئے جانے کی بات کہی گئی ہے جو صریحاً قرآن کے خلا ف ہے کیونکہ ایک تو روح کو  مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ( میرے رب کے حکم سے ہے) فرمایا گیا ہے کیا رب کے حکم کو ثواب یا عذاب دئے جانے کی بات کہی جا سکتی ہے دوسرے اس حالت کو حالت موت کہا گیا ہے روحانی حالت نہیں تیسرے حالت موت میں عذاب دئے جانے کی بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے جب کہ بے ہوش انسان آپریشن کرتے وقت کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتا چوتھے اس حالت موت میں بھی انسان زندہ ہی رہتا ہے لیکن اس زندگی کو دنیا والے نہیں سمجھ سکتے کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے البقرہ (۱۵۴) اور ال عمران (۱۶۹) پانچویں موت کے ساتھ ہی انسان جس عالم میں منتقل کر دیا جاتا ہے اس عالم کو دنیا والے نہیں جانتے فرمایا گیا ہے واقعہ (۶۱) چونکہ قرآن تضاد بیانی سے قطعی پاک ہے اس لئے قرآن کی کسی آیت کا ایسا مطلب جو دیگر قرآنی آیات سے ٹکراتا ہو قطعاً غلط و جھوٹ ہی ہے بالخصوص وہ مطلب جو قوانینِ الہٰی کے خلاف ہو اس سے جرم کی سنگینی بہت ہی بڑھ جاتی ہے کیونکہ ایسا کرنا قرآن میں تضاد و اختلاف بیانی کا ثبوت فراہم کرنا ہے ایسا کرنے کو   وَيَبْغُوْنَہَا عِوَجًا۝۰ۚ (اعراف :۴۵) ھود (۱۹) ابراھیم (۳) (اللہ کی کتاب میں ٹیڑھ ( کجی) کی تلاش کرتے ہیں ) اور  یُجَادِلُوْنَ فِیْ آیٰاتِ اللّٰہِ  ( المومن  :  ۵۶،  ۶۹)  ( ہماری آیتوں میں وہ جھگڑا نکالتے ہیں) فرمایا گیا ہے اس لئے ایسا کرنے سے نبی  کریم ؐنے تاکیداََ منع فرمایا ہے’’اللہ کی کتاب کے ایک حصے سے اس کے دوسرے حصہ کے خلاف استدلال کرنے کی وجہ سے ہی تم سے پہلے کے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور حقیقت میں اللہ کی کتاب کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصے کی تصدیق کے لئے نازل کیا گیا ہے اس لئے تم ایک حصہ سے دوسرے حصہ کی تردید نہ کرو اور اللہ کی کتاب کے جس حصہ کو تم سمجھ لو اس کو بیان کرو اور جس کو تم نہ سمجھ سکو تو اس کو اللہ کے سپرد کر دو‘‘۔ (مسند احمد)

جن آیات سے عذابِ قبر ثابت کیا جاتا ہے وہ پیش ہیں  :

(۱)مِمَّا خَطِيْۗـــٰٔــتِہِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا۝۰ۥۙ فَلَمْ يَجِدُوْا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اَنْصَارًا۝۲۵ (سورہ نوح) ( وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے غرق کئے گئے پھر آگ میں ڈالے گئے اور اللہ کے سوا انہوں نے اپنے لئے اور کوئی مددگار نہیں پایا)  فاُدخلُوا ( پس داخل کئے گئے) ماضی کا صیغہ ہونے کی بناء پر آگ میں ڈالے گئے کا مفہوم لیا گیا ہے حالانکہ قرآن میں صیغہ ماضی متعدد جگہ مستقبل کی بات کے اٹل ویقینی ہونے کو بتانے کے لئے آیا ہے ۔ مثلاً  (۱)  اتیٰ امرُ اللّٰہِ (نحل:۱) آیا اللہ کا حکم (۲) حاق َّ ( ہود:۸) ( گھیر لیا)  سبَّحَ ( پاکی بیان کیا)  حد ید  (۱)    حشر (۱)  صف (۱) سب نے صیغہ ماضی کا مطلب حال و مستقبل کا لیا ہے اس لئے صیغہ ماضی عذاب قبر کی دلیل نہیں بن سکتا اور اگر ان کا مفہوم ماضی کا لیا جائے تو نہ صرف یہ آیات بلکہ وہ آیات بھی جن میں حشر کے دن فیصلے کے بعد جزا دیئے جانے کی بات بیان ہوئی ہے غلط قرار پاتی ہیں۔آیت زیر بحث میں صیغہ ماضی ( داخل کئے گئے ) کی بجائے مستقبل ( داخل کئے جائیں گے) کے معنی لینے سے قرآن میں تضاد پیدا نہیں ہوتا چنانچہ تدبّرِ قرآن اس دنیا میں وہ پانی میں ڈوبے اور آخرت میں دوزخ کی آگ میں پڑیں گے" لکھا گیا ہے۔فاُدخُلو ا کے حرف’’ف‘‘کی بلاغت کو قطعی نظر انداز کر دیا گیا ہے حالانکہ قرآن میں حرف  ’’ف‘‘طویل کلام اور تکرار کو حذف کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ مثلا مُرسلات آیت (۵۰) جاثیہ (آیت -۶) میں حرف ’’ف ‘‘حشر کے دن فیصلہ کے بعد کے الفاظ کی بجائے لایا گیا ہے کیونکہ حشر کے دن فیصلہ کے بعد جزا دینے کا قانون اس قدر معروف ہے کہ اس کو دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔

غور کیجئے قرآن سے تو ثابت ہے کہ ایک آواز کے ساتھ ہی تمام بنی نوع انسان زمین سے نکل کر میدان حشر میں جمع کئے جائیں گے۔ روم (۳۵) زیر بحث آیت میں آگ میں داخل کئے گئے کہ معنی لینے سے ماننا پڑے گا کہ حساب و کتاب کیلئے آگ سے نکال کر حشر کے میدان میں لائے جائیں گے جو قرآن کے خلاف ہے دوسرے فیصلہ سے پہلے آگ میں ڈالے جانے کی بات سے اللہ پر ظلم کا الزام عائد ہوتا ہے نعوذ باللہ من ذلک۔

قوم نوح اور اٰل فرعون دونوں کو دنیا میں ایک ہی قسم کا عذاب دیئے جانے کی وجہ ان دونوں کے جرم کی یکسانیت ہی ہو سکتی ہے اس کی بنا پر ان دونوں کو مرنے کے بعد بھی یعنی عالم برزخ میں یکسان عذاب دیا جانا عدل و انصاف اور رحمت کا عین تقاضہ تھااور تقاضہ ہے بھی۔ اس کے برخلاف قوم نوح کو آگ میں داخل کر دینا اور ال فرعون کو قوم نوح کی طرح آگ میں داخل کرنے کی بجائے صبح و شام صرف آگ کے سامنے لایا جانا کیا کھلی نا انصافی اور صریح ظلم نہیں ہے؟ حالانکہ اللہ تعالی ایسے ظلم سے قطعی پاک ہے یہاں اللہ کی قدرت کی بات بھی نہیں کہی جا سکتی کیونکہ اپنی قدرت کا اظہار اللہ اپنے ہی مقرر کردہ قوانین کے ذریعہ کرتا ہے جو تمام بندوں کیلئے یکساں ہیں۔

فاُدخلُوا نارا کے معنی آگ میں داخل کئے گئے لینے کی وجہ سے قوم نوح کو برزخی زندگی سے بھی محروم ماننا پڑے گا جس سے اللہ کی بات ( دوسری حالت موت) غلط قرار پاتی ہے۔ عذاب قبر یا برزخ کو ماننے سے یہ بھی ماننا لازم آتا ہے کہ قیامت کے قریب مرنے والوں کو بمقابلے قوم نوح و ال فرعون سے بہت ہی کم مدت کا عذاب ہو گا جو سرا سر ظلم ہے جس سے اللہ تعالیٰ حقیقتاًپاک ہے۔

مندرجہ بالا میں یہ حقیقت بتائی گئی ہے کہ قوم نوح ؑ کو غرق کرنے کے بعد ہی آگ میں داخل نہیں کیا گیا بلکہ حشر کے دن حساب و کتاب کے بعد داخل کیا جائے گا۔ جس کا اٹل وٹھوس ثبوت نوحؑ کی بیوی کا آگ میں داخلہ صرف حشر کے دن فیصلے کے بعد ہی ہوگا جو قرآن سے ثابت ہے جیسا کہ فرمایا گیا ان دونوں عورتوں ( نوحؐ کی بیوی اور لوط ؐ کی بیوی) کو حکم ہوگا کہ آگ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی داخل ہو جاؤ ۔ تحریم (۱۰) اسلئے فاُدخِلو ناراََ سے آگ میں داخل کئے گئے کے معنی لینا غلط ہے اورداخل کئے جائیں گے لینا صحیح و درست ہے۔

(۲)فَوَقٰىہُ اللہُ سَیِّاٰتِ مَا مَکَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْۗءُ الْعَذَابِ۝۴۵ۚ  (المومن) ( پس اللہ نے اس (مرد مومن) کو فرعونیوں کے مکر و فریب سے بچا لیا اور ال فرعون کو سخت عذاب نے گھیر لیا)  اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِـیًّا۝۰ۚ وَیَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَۃُ۝۰ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ۝۴۶   (المومن) ( وہ اٰل فرعون) صبح و شام آگ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور حشر کے دن حکم ہوگا کہ ال فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو)۔

آگ میں ڈالنا اور آگ کے سامنے پیش کیا جانا دونوں کسی طرح بھی یکساں و مساوی حالتیں نہیں ہو سکتیں  چنانچہ ہر ایک آگ میں ڈالے جانے کو  عذاب ہی کہے گا لیکن آگ کے سامنے لائے جانے کو ہر گز عذاب نہیں کہہ سکتا فیصلہ کے بعد ہی اشدُّ العذاب میں داخل کئے جائے کی بات بیان ہوئی ہے۔ اشدُّ العذاب کی بنا پر آگ کے سامنے لائے جانے کو ہلکا عذاب  ( عذاب قبر) قیاس کر لیا گیا ہے جو ارشاد الٰہی اٰل عمران (۷،۸) کی روشنی میں دل و دماغ کا  ٹیڑھ پن ہے کیونکہ عذاب قبر و برزخ کا معاملہ دوسری حالت موت کا ہے یعنی دنیاوی زندگی کے بعد پیش آنے والا ہے یعنی مستقبل کی بات ہے یعنی متشابہ بات ہے جس کی واقعی حقیقت صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔  پیغمبر بھی نہیں ۔  جیسے تمام بنی آدم اپنی پہلی موت کے حالت میں قَالُوا بَلیٰ شَہِدناَ ( سب نے کہا بے شک آپ ہی ہمارے پالنہار ہیں ہم سب اس بات پر گواہ ہیں) کا اقرار کئے جس کی کیفیت و نوعیت نہ نبی کریمؐ نے بیان فرمائی اور نہ صحابہؓ  کرام نے اس کے متعلق آپؐ سے دریافت کیا ان پر غیب کی باتوں پر ایمان لانے کی طرح ایمان لائیں اور ہمارے لئے سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ ہم ایمان لا لیں۔ اسلئے آیت زیر بحث کا ہر وہ مطلب و مفہوم جو دیگر آیات قرآنی کے خلاف ہو ہر لحاظ سے غلط و جھوٹ ہی ہوگا۔ بالخصوص قانون الٰہی ( مرنے والوں کو حشر کے دن فیصلے کے بعد ہی پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اٰل عمران  (۱۸۵)  کے خلاف قبر یا برزخ میں بھی عذاب دئے جانے کی بات کی سنگینی بے حد بڑھ جاتی ہے چنانچہ ایسا کرنے والوں کو سورہ انعام (آیت ۲۱) میں ظالم سورہ اعراف (آیت ۳۷) اور سورہ زمر( آیت ۳۲) میں کافر اور سورہ یونس (آیت ۱۷)میں مجرم قرار دیا گیا ہے۔

آگ کے سامنے لایا جانا اگر واقعی عذاب ہوتا تو عذاب اصغر یا عذاب خفیف یا عذاب ادنیٰ کے الفاظ کے ذریعہ ضرور وضاحت کر دی جاتی۔

مکرر عرض ہے آگ کے سامنے پیش کئے جانے کو اللہ نے جب عذاب نہیں فرمایا تو ہمارا اس کو عذاب قبر یا برزخ قرار دینا گویا قرآن کی کمی کو پورا کرنا ہے ۔ نعوذ باللہ      

غور کیجئے عدالت میں چالان پیش ہونے کے بعد عدالت ملزم کو فیصلہ تک جیل ہی میں رکھتی ہے اس مدت کو نہ ملزم اپنے جرم کی سزا سمجھتا ہے اور نہ عدالت ہی اس مدت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جرم کی سزا میں کوئی رعایت کرتی ہے جس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ فیصلہ تک قید کی یہ مدت ایک عبوری حیثیت رکھتی ہے لیکن ہمارے دینی رہنما اس عبوری مدت کو بھی جرم کی سزا ثابت کر رہے ہیں یعنی فیصلہ سے پہلے عذاب دینے کا وہ الزام اللہ پر عائد کر رہے ہیں جس سے دنیا کی تمام عدالتیں بری ہیں۔

غرق کر دئے جانے سے آل فرعون کے اجسام گل سڑ کر یا مچھلیاں کھانے سے ختم ہو چکے اور فرعون کے حنوط کی ہوئی لاش عجائب خانے میں آج بھی موجود ہے لیکن صبح و شام قیامت تک آگ کے سامنے آل فرعون کو لانے کی بات بیان ہوئی ہے اور آل فرعون کا اطلاق جسم و جان کے مرکب پر ہی ہو سکتا ہے۔ صرف روح پر نہیں دوسرے   رُوحُ مِن امرِ ربی ( میرے رب کے حکم سے) ثابت ہے کہ روح امرِ رب کو عذاب دیئے جانے کی بات صریحاََ  قرآن کے خلاف ہے اس لئے روح پر عذاب کی بات قطعاً غلط ہے۔ آیت زیر بحث کی وضاحت حسب ذیل ارشاد رسولؐ سے ہو جاتی ہے ’’جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی ابدی قیام گاہ اُسے صبح و شام دکھائی جاتی ہے۔ خواہ  وہ جنتی ہو یا دوزخی ۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ تمہاری ہونے والی ابدی قیام گاہ ہے جبکہ ( تمہیں)  اللہ تعالی حشر کے دن دوبارہ اٹھائے گا ( تفہیم البخاری حدیث نمبر ۱۲۸۹  اور یہی حدیث صحیح مسلم جلد ۶ میں بھی ہے)

سورہ  یٰسٓ آیت ۵۱، ۵۲ میں ہے کہ’’جیسے ہی دوسری بار صور پھونکا جائے گا یکایک تمام مُردے اپنی اپنی قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف یہ کہتے ہوئے دوڑیںگے کہ ہائے ہماری شامت کہ ہم کو ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا‘‘اس ارشاد الٰہی کی موجودگی میں کیا کوئی عذاب قبر کی بات کہہ سکتا ہے کیونکہ قبر میں اگر عذاب ہوتا تو وہ افسوس کرنے کے بجائے خوش ہوتے کہ قبر کے عذاب سے تو چھٹکارہ ملا۔

(۳)سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ(توبہ:۱۰۱) ( جلد ہی ہم ان کو دہری سزا دیں گے پھر وہ بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے) خط کشیدہ مرتین ( دو مرتبہ یا دوہرا) مرتین سے مفسّرین کی غالب اکثریت دنیا ہی میں عذاب پر عذاب یا عذاب کے بعد عذاب میں اضافہ یا جسمانی معذوری یا سماعت یا بینائی سے محرومی یا بیماری یا آئے دن ایمان لانے والوں میں اضافہ سے جو قلبی و ذہنی اذیت منافقین کو ہو رہی تھی وہ مراد لئے ہیں چونکہ یہ قرآن کے مطابق ہے اور جنہوں نے مرتین ( دو مرتبہ) سے دنیا میں اور قبر کا عذاب مراد لئے ہیں وہ الہی قانون جزاء کے خلاف ہے یعنی حشر کے دن فیصلہ سے پہلے عذاب دئے جانے کی بات ہے جو قرآن کے خلاف ہے۔

(۴)وَاِنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۴۷  (طور) ( اور ان ظالموں کے لئے قبل اس ( جو آخرت میں دیا جائے گا) کے بھی (دنیا میں) عذاب ہے لیکن ان میں اکثر کو معلوم نہیں) لفظ عذاباً سے دنیا ہی میں عذاب دئے جانے پر تمام مفسرین متفق ہیں اور ذلِک  کا اشارہ دنیا کے عذاب کی طرف ہے دُونَ کا اشارہ آخرت کی طرف ہے جس کی وضاحت  وَلَنُذِيْـقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۲۱ ۔ (السجدہ) ( اور آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں کسی نہ کسی چھوٹے عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے تاکہ یہ اپنی روش سے باز آ جائیں) سے ہو جاتی ہے۔

یہاں لفظ عذاب سے عذاب قبر ہر گز مراد نہیں لیا جا سکتا کیونکہ عذاب چکنے پر اپنی روش سے باز آنے کی بات کہی گئی ہے اور روش سے باز آنے کا معاملہ دنیاوی زندگی ہی میں ہو سکتا ہے اور مرنے کے بعد روش سے باز آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور عذابِ اکبر سے عذابِ دوزخ ہی مراد ہو سکتا ہے۔

(۵)يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ۝۰ۣۙ وَيَفْعَلُ اللہُ مَا يَشَاۗءُ۝۲۷ۧ (ابراھیم)  ایمان والوں کو ان کے اقرار ایمان اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بناء پر اللہ تعالی ان کو دنیا و آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے اور اللہ گمراہ کرتا ہے ظلم (حق تلفی بالخصوص شرک) کرنے والوں کو اللہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے) ہدایت و گمراہی کا قانون بنانا اور اس کے مطابق بدلہ دینا اللہ ہی کے اختیار و قدرت میں ہے چنانچہ جو اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کئے ہیں ان کو دوزخ کی بھنک سننے سے بھی محفوظ رکھنے کی بات فرمائی گئی ہے۔ (سورہ الانبیآء :۱۰۲، ۱۰۳ )

اس آیت کے الفاظ بالقول  الثابت سے مراد  کلمہ طیّبہ ہے جس کو سورہ ابراہیم کی آیت ۲۴ میں کلمہ طیّبہ ( پاک بات) فرمایا گیا ہے آیت زیر بحث میں دنیا و آخرت میں صرف دو مقامات ہی میں ثابت قدمی عطا کرنے کی بات بیان ہوئی ہے اس سے برزخ میں ثابت قدمی کیسے مراد لی جا سکتی ہے۔

دنیا و آخرت میں حالت زندگی ہے جبکہ برزخ میں حالت موت ہے حالت موت میں ثابت قدمی کی بات کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔

دنیا میں ثابت قدمی یہ ہے کہ جو بھی لآ اِلٰہ الّا اللہُ ( نہیں ہے کوئی معبود، حاجت روا فریادرس ، داتا مشکل کشا سوائے اللہ کے ) کا نہ صرف زبان سے اقرار بلکہ سونچ سمجھ کر دل و دماغ سے قبول کرنے والا بلا اندیشہ جانی و مالی نقصان و تکلیف کے اپنی پوری زندگی میں پروردگار ہی کی فرمانبرداری اُس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقہ پر کرنے کی کوشش کرنے والاغلطی اور خلاف ورزی پر توبہ و استغفار کرنے والا کفارہ دینے والا اور اصلاح حال کی کوشش اس خیال سے کرنے والا کہ آخرت کا نقصان نہ صرف شدید ہے بلکہ ابدی ہے دنیا کا ہر نقصان و تکلیف عارضی و قلیل ہے ایسے لوگ ہی دنیا میں ثابت قدم ہونے کا تمغہ پائیں گے۔

آخرت میں ثابت قدمی یہ ہے کہ جو لوگ کلمہ کے اقرار کے مطابق زندگی بسر کریں گے آخرت میں اللہ کے وعدوں کو اپنے قیاس و گمان سے کہیں زیادہ سچا پائیں گے اور اپنے رب کا شکر ادا کرتے رہیں گے۔

مندرجہ بالا سے ثابت ہے کہ عالم برزخ میں ثابت قد می کی بات قطعی غلط ہے ۔

(۶)قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ۝۰ۭ قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ۝۲۶ۙ  (یسٰ) کہا گیا اس کو داخل ہو جا  جنّت میں اس نے کہا اے کاش کہ میری قوم جانتی) اُدخُلُ صیغہ امر ہے جیسا مرنے والوں کو ان کے انجام کے لحاظ سے مغفرت و جنّت کی بشارت یا دوزخ کی وعید سنائی جاتی ہے۔ انعام (۹۳) انفال (۵۰) نحل (۲۲،۲۸،۳۲) حم السجدہ (۳۰) محمدؐ (۲۷) قِیلَ ادخُلِ الجنّۃ کے معنی حشر کے دن جنت میں داخل کئے جانے کا حکم ہوگا ورنہ حشر کے دن جنت سے اس کو نکال کر میدان حشر میں حساب و کتاب کے لئے لانا بھی ماننا پڑے گا جو جنتی کے لئے عذاب سے کم نہیں جہنم یا جنت عالم برزخ کا نہیں بلکہ عالمِ آخرت کا حصہ ہے اس لئے عذاب قبر یا برزخ کی تائید میں ایسی آیتوں کو پیش کرنا جن میں مرنے کے بعد عذاب و رحمت ملنے کا ذکر ہے نہ صرف صحیح نہیں بلکہ قرآن کی آیتوں کو ایک دوسرے سے ٹکرانا ہے اور قرآن میں تضاد بیانی ہونے کا ثبوت فراہم کرنا ہے۔ المومن (۳۵)

عذاب قبر کی بات صحیح بتانے کے لئے عذاب قبر والی احادیث کی کثرت کو پیش کیا جاتا ہے جو صحیح نہیں کیونکہ سایہ، سپٹ، جادو، تعویذ، جھاڑ پھونک، دم، نظر بد، نحوست و برکت کی باتیں تو ہزارہا سال سے ہر زمانے میں عذاب قبر سے بھی کہیں زیادہ کثرت تواتر کے ساتھ نہ صرف بیان ہوتی چلی آرہی ہیں بلکہ الا ماشآء اللہ کے سوا تمام مسلمان ان ہی گمراہیوں میں کم و بیش مبتلا ہیں جب ان کو صحیح و درست اسی لئے ہی تونہیں مانا جاسکتا کہ یہ سب باتوں کی حقیقت و اصلیت محض وہم وسوسہ کہ سوا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ دنیادار الاسباب میں اسباب و ذرائع کے بغیر ایک تنکہ بھی حرکت نہیں کر سکتا اسلئے محض تعداد کی کثرت کی بناء پر عذاب قبر کی بات کیسے صحیح مانی جا سکتی ہے جبکہ اس کا قرآن کے خلاف ہونا ایک امر واقعہ ہی ہے۔

عذاب قبر والی احادیث مع جائزہ کے پیش ہیں  :

(I) ایک دفعہ نبی کریمؐ کا گزر دو قبروں پر ہوا آپؐ ایک ٹہنی کے دو ٹکڑے کر کے لگاتے ہوئے فرمایا کہ ان قبروالوں میں سے ایک چغلی کی وجہ اور دوسرے پر پیشاب سے عدم احتیاط کی بناء پر عذاب ہو  رہاہے جب تک یہ ٹہنیاں ہری رہیں گی اللہ کی تسبیح کرتی رہیں گی جس کی وجہ سے قبر والوں کے عذاب میں کمی رہے گی۔

جائزہ  :

 (۱)ٹہنیاں جب تک ہری رہیں گی تسبیح کرتی رہیں گی کی بات قرآن کے قطعی خلاف ہے کیونکہ قرآن میں تو کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالی کی تسبیح ، تعریف و پاکی بیان کرنے میں ہر آن لگا ہوا ہے بیان ہوا ہے ۔ بنی اسرائیل (۴۴) النور (۴۱) حدید (۱) سے قطعی ثابت ہے کہ قبر کی مٹی کے لاکھوں ذرّات بھی ہر وقت تسبیح کر رہے ہیں ۔ اس لئے ہری ٹہنی والی بات نبی کریمؐ ہر گز نہیں فرما سکتے۔

(۲)اللہ تعالی جس کو عذاب دینا چاہیں اس کے عذاب میں پوری مخلوق مل کر بھی کچھ کمی نہیں کر سکتی عذاب الہی میں اس طرح کمی ہونے کی بات اللہ کے قادر مطلق ہونے پر حرف لانے والی ہے۔  ( الزمر:۱۹، الانعام:۱۷)

(۳)  عذاب قبر کا معاملہ غیب کا ہے اور غیب کا علم بغیر وحی کے ذاتی طور ر رسول کو بھی نہیں ہو سکتا چنانچہ اللہ کے رسولؐ کا عالم غیب ہونے کی قطعی نفی و تردید خود آپ کی زبان سے قرآن میں موجود ہے ۔ اعراف آیت ۱۸۸ ، انعام آیت ۵۰۔

(۴)پیشاب سے عدم احتیاط کی بناء پر عذاب دیئے جانے کی بات محل غور ہی نہیں بلکہ محل نظر بھی ہے۔

(۵)چغلی پر عذاب دیئے جانے کی بات تو خود قرآن میں موجود ہے جو حشر کے دن فیصلے کے بعد آخرت ہی میںدیا جائے گا سورہ الہمزہ ۔ قبر یا برزخ میں نہیں۔ یہ دو قبریں کس کی تھیں آیا مسلمانوں کی یا کافروں کی صراحت نہیں ہے۔

مندرجہ بالا کی رو سے حدیث گھڑی ہوئی ثابت ہوجاتی ہے۔

(II) اللہ کے رسولؐ خچر پر سوار ایک باغ سے گزرے جس میں چند قبریں تھیں تو آپ کی سواری کا خچر بدک گیا جس پر آپؐ نے فرمایا ان قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔

جائزہ  :

غور کیجئے عذاب قبر کا معاملہ غیب کا ہے اور غیب کا علم نبی کریمؐ سے پہلے خچر کو ہونا کیا اللہ کے رسولؐ کی تعریف ہے یا توہین؟ قبروں میں عذاب ہونے کا علم جانوروں کو ہوتا تو قبرستان میں جانور چرتے پھرتے نظر نہ آتے جس سے ثابت ہوا کہ یہ حدیث بھی گھڑی ہوئی ہے۔

(III) نبی کریمؐ نے فرمایا:جتنے بھی ہولناک منظر میں نے دیکھے ہیں قبر ان سب سے ہولناک ہے‘‘۔قرآن میں تو سب سے زیادہ ہولناک دوزخ کے عذاب کو فرمایا گیا ہے۔ مثلاً عذاب عظیم‘   عذاب الیم ‘ عذاب شدید ‘عذاب اکبراسلئے یہ حدیث بھی گھڑی ہوئی ثابت ہو جاتی ہے۔

(IV)’’قبر میں مردے کو فرشتے گُرز سے مارتے ہیں قرآن میں گرز سے مارنے کی بات تو صرف دوزخ کے لئے مخصوص ہے سورہ الحج آیت ۲۱۔

قرآن میں تمام انسان ، دنیا میں مرنے کے بعد صرف حشر کے دن ہی دوبارہ زندہ کئے جانے کی بات بیان فرمائی گئی چنانچہ مومنون( ۱۵،۱۶) روم(۴۰) یٰسٓ (۵۱ تا۵۳) انعام (۱۲۸) السجدہ(۱۲) میں ہے کہ حشر کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے پر جب عذاب کو دیکھیں گے تو دوبارہ دنیا میں بھیجنے کی التجاء کریں گے یہ بات قرآن میں اور بھی متعدد جگہ بیان ہوئی ہے اگر قبر یا برزخ میں بھی عذاب ہو تا تو ضرور حشر کی طرح دوبار ہ دنیا میں بھیجنے کی التجاء قبر یا برزخ میں بھی کی گئی ہوتی۔حشر کے دن کی حالتِ زندگی ہے اور برزخ میں حالتِ موت اسلئے عذاب قبر یعنی حالتِ موت میں عذاب کی بات غلط ہے۔

عذاب قبر کا علم نبی کریم  ؐ کو کہاں اور کیسے ہوا؟

ایک حقیقت واقعہ ہی تو ہے کہ عقائد کے بارے میں تقریباََ تمام آیات بالخصوص وہ آیات بھی جو عذاب قبر و برزخ کے سلسلے میں ہمارے علماء پیش کرتے ہیں وہ سب کی سب مکہ میں نازل ہو چکی تھیں۔ ان آیات کا عذاب قبر یا برزخ سے اشارۃً بھی تعلق ہوتا تو نبی کریمؐ ان آیات کے حوالے سے لوگوں کو عذاب قبر یا برزخ سے لازماََ اسی طرح ڈراتے جس طرح دنیا و آخرت کے عذابوں سے ڈراتے رہے۔اس طر ح عذاب قبر کی بات مکہ ہی میں مشہور و معروف ہو جاتی جس سے سیدہ عائشہؓ لازماً واقف ہو جاتیں یہ تو ممکن نہیں کہ یہ آیات نبی کریمؐ کو یاد نہ ہوں یا ان آیات کے اس مدعا ومفہو م سے نبی کریمؐ لا علم ہوں جس سے ہمارے علماء واقف ہیں۔ یا ان کا حوالہ دینے میں آپؐ سے چوک ہو گئی ہو ۔  نعوذ باللہ

اگر ان آیات میں عذاب قبر یا برزخ کی بات کا ذرا سا بھی اشارہ ہوتا تو لازماََ نبی کریمؐ ان آیات کا حوالہ دیکر عذاب قبر یا برزخ کی بات ضرور بیان فرمائے ہوتے کیونکہ اہل ایمان کو ہر قسم کے نقصان سے بچانے اور ہر طرح سے نفع پہنچانے کے معاملہ میں نبی کریمؐ کا بے حد حریص ہونا خود قرآن میں بیان ہوا ہے توبہ (۱۲۸) احزاب (۶) لیکن عذابِ قبر کی کسی حدیث میں بھی قرآن کا حوالہ نہیں ہے۔

مندرجہ بالا سے معلوم ہوا کہ مکہ کی تیرہ (۱۳) سالہ نبو ی زندگی عذاب قبر یا برزخ کی بات سے بالکل خالی رہی اور وہ احادیث پیش ہیں جن سے ثابت ہو جاتا ہے کہ عذابِ قبر کا علم نبی کریمؐ کو ایک یہودی عورت کے ذریعہ ملا۔

(۱)بخاری و مسلم میں سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے’’کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عذاب قبر کا ذکر کیا اور عائشہؓ سے کہا کہ اللہ تمہیں عذاب قبر سے بچائے سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ؐ سے عذاب قبر کی بابت پوچھا آپؐ نے فرمایا ہاں عذاب قبر برحق ہے سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں اس کے بعد میں نے رسول اللہؐ  کو دیکھا ہر نماز کے بعد عذابِ قبر سے پناہ مانگتے تھے‘‘۔ (مشکوٰۃ، متفق علیہ)

(۲)مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودن ‘سیدہ عائشہؓ کی خدمت گزار تھی جب کبھی اس کے ساتھ آپؐ کچھ سلوک کرتیں وہ دُعا دیتی کہ اللہ تجھے عذاب قبر سے بچائے۔عائشہؓ نے نبی کریمؐ سے سوال کیا کیا قیامت سے پہلے قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں تو یہ کس نے کہا؟ سیدہ عائشہؓ نے یہودن کا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا یہود جھوٹے ہیں اور وہ تو اس سے زیادہ جھوٹ اللہ پر باندھا کرتے ہیں۔ قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں ’’کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک مرتبہ ظہر کے وقت کپڑا لپٹے ہوئے رسو لؐ اللہ تشریف لائے آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور باآواز بلند فرمارہے تھے کہ قبر مانند رات کے اندھیروں کے ٹکڑوں کے ہے لوگو ! وہ تم جانتے نہیں جو میں جانتا ہوں اگر تم وہ جانتے تو بہت زیادہ روتے اور کم ہنستے۔ پھر لوگو !  قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ یعنی مانو کہ عذاب قبر حق ہے۔‘‘ (رسالہ التوعیہ اسلامک ریسرچ اکیڈیمی جوگا بائی نئی دہلی جلد ۳ شمارہ ۸ بابتہ ماہ ڈسمبر ۱۹۸۸؁ء

(۳)مسند احمد میں ہے کہ عائشہؓ کے پاس ایک دن رسول ؐ اللہ تشریف لائے اس وقت ایک یہودی عورت عائشہؓ کے پاس پیٹھی ہوئی تھی اس نے کہا آپ کو معلوم ہے کہ تم لوگ اپنے قبروں میں آزمائے جاؤ گے اسے سن کر رسول اللہ ؐ کانپ گئے اور کہا یہودی آزمائے جاتے ہیں ۔ پھر چنددنوں بعد آپؐ نے فرمایا لوگو! تم سب قبر کے فتنہ میں ڈالے جاؤگے اس کے بعد رسول اللہؐ  فتنہ قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔(ایضاً)

بخاری مسلم و مسند احمد کی مندرجہ بالا تینوں احادیث سے ثابت ہے کہ عذاب قبر کی بات کا علم سیدہ عائشہ ؓ اور نبی کریمؐ کو یہودن کے ذریعہ ہی ہوا ہے جو جنگ احزاب کے بعد یعنی  ۵ھ؁ میں یہودن کے آخری قبیلہ بنو قریظہ کی مدینہ سے جلاوطنی کے بعد عائشہؓ کے پاس آئی یا ملازم ہوئی جس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ یہودیوں نے آپؐ کے ہجو و توہین کے لئے عذاب قبر یا عذاب برزخ کی احادیث گھڑی ہیں۔

پہلی حدیث میں یہودی عورت سے عذاب قبر کی بات سن کر نبی کریمؐ کا اسکی تصدیق کرنا اور دوسری دو حدیثوں سے سنتے ہی عذاب قبر کا انکار کرنا آپؐ کی سنت کے قطعی خلاف ہے۔

سوالات کے جوابات دینے میں نبی کریم ؐ کا عموما یہ طریقہ رہا ہے کہ جس بات کا آپ کو علم ہوتا تو اس کا آپؐ جواب دیتے یا آئندہ بتانے کا وعدہ فرماتے جیسا کہ اصحاب کہف یا ذوالقرنین کے بارے میں ہوا ہے لیکن عقیدہ کے بارے میں ایک بھی واقعہ ایسا نہیں ہے جس میں آپؐ نے کسی بات کوسنتے ہی نفی و تردید کر دینے کے بعدپھر اس کے صحیح و درست ہونے کی بات فرمائی ہو آپؐ کا سنتے ہی عذاب قبر کی نفی و تردید کرنا حقیقت واقعہ کے اگر خلاف ہوتا تو اللہ تعالی فوراََ ہی اس کی اصلاح وحی کے ذریعہ فرمادیتا جیسا کہ منافقین کو اجازت دینے کے معاملہ میں ہوا ۔ توبہ (۴۳) اور سورہ عبس آیت ۱ تا ۱۰ میں نابینا صحابیؓ کے بارے میں ہواہے۔

غور کیجئے  قبر میں آزمانے کی بات سن کر نبی کریمؐ  کا کانپنا  پھر یہ فرمانا کہ یہودی آزمائے جاتے ہیں کیا یہ نبی کریمؐ کی کردار کشی نہیں ہے سب کا مسلّمہ ہے کہ دنیا دار العمل ہی آزمائش کا مقام ہے۔ جو موت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے اور قبر میں آزمائش ہونے کی جھوٹی بات کیا نبی کریمؐ فرما سکتے ہیں؟

عذاب قبر یا برزخ کا عقیدہ محض گھڑا ہوا ہونے کے دلائل مختصر مکرر پیش ہیں :

(۱)قرآن الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا ( مفصل کتاب) انعام۱۱۴، یونس آیت ۳۷ ) وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْءٍ (ہر چیز کی تفصیل)(یوسف ۔۱۱۱)   تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ( ہر بات کو کھول کھول کر بیان کرنے والی) (النحل :۸۹ ) الْكِتٰبَ المُبِین ( قسم ہے اس کتاب واضح کی) (الدخان:۲)  مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ  ( ہم نے قرآن میں انسانوں کی ہدایت و گمراہی کے بارے میں کوئی بات بھی نہیں چھوڑی) (انعام۔۳۸)

قرآن میں صرف دنیا و آخرت میں عذاب دیئے جانے کی بات متعدد جگہ بیان ہوئی ہے لیکن تیسری جگہ یعنی قبر یا برزخ میں عذاب دئے جانے کا اشارہ بھی نہیں ہے۔

(۲)قانون جزاء : کُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۝۰ۭ (اٰل عمران ۔۱۸۵) ہر نفس کو موت کا مزہ  چکھنا ہے اور تم کو تمہارا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا حشر کے دن) اس لئے عذاب برزخ کی بات جھوٹ و غلط ہے۔

(۳)تمام پیغمبروں کا بنیادی اور اوّلین کام انسانوں کو ان کے ابدی انجام سے باخبر کرنا رہا ہے۔  لیکن کسی پیغمبر نے بھی عذاب قبر یا  عذاب برزخ کا اشارۃََ بھی ذکر نہیں کیا  تو پھر نبی کریمؐ جن کو سابقہ انبیاء کی پیروی کرنے کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے انعام (۹۰) نحل(۱۲۳)  پچھلے پیغمبروں کے خلاف عذاب قبر کی بات کیسے کہہ سکتے ہیں اسلئے عذاب قبر کی احادیث کا گھڑی ہوئی ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔

(۴)اٰل فرعون کو صبح و شام آگ کے سامنے لائے جانے کو ہلکا عذاب یعنی عذاب برزخ قرار دینا تاویل نہیں بلک بے بنیاد قیاس ہے۔

(۵)ملزم عدالت کی تحویل میں فیصلہ تک رکھا جاتا ہے اس مدت کو نہ ملزم سزاء سمجھتا ہے نہ جج ہی فیصلہ کرتے وقت مدت تحویل کو ملحوظ رکھتے ہوئے سزا میں کچھ تخفیف کرتا ہے تو پھر قبر یا برزخ میں عذاب کی بات کیسے کہی جا سکتی ہے۔

(۶)قبر یا برزخ میں ہماری دوسری اور آخری حالت موت ہوگی حالت موت میں عذاب دئے جانے کی بات کیسے صحیح مانی جا سکتی ہے جب کہ بے ہوش انسان اپنے چیرنے پھاڑنے کی تکلیف محسوس نہیں کرتا اس لئے حالت موت میں عذاب دینا غلط بات ہی قرار پاتی ہے۔

(۷)آخری حالت موت میں بھی زندگی ہونا اللہ کی بات ہے ۔ بقرہ (۱۵۴)  آل عمران (۱۶۹) لیکن یہ زندگی کیسی ہے اس کا شعور زندہ لوگوں کو نہیں ہو سکتا کا فیصلہ سنادیا گیا ہے ۔ اس فیصلہ کے بعد بھی حالت موت میں عذاب کی بات بولنا  ولٰکن لا یشعُرون کی الہی بات کو غلط قرار دینا ہے۔

(۸)دنیا میں مرنے کے بعد جس مقام میں ہم کو منتقل کیا جاتا ہے اس مقام کا علم بھی نہیں دیا گیا ہے۔ ارشاد ہے  وَننشِئَکُم فِی مَا لاَ تعلمون پیدا کردیں گے ہم تم کو ایسی جگہ جو تم نہیں جانتے واقعہ (۶۱)

(۹)بخاری و مسلم میں عذابِ قبر یا عذابِ برزخ کی نفی و تردید کرنے والی احادیث موجود ہیں

ملاحظہ ہو (پچھلے صفحات) تو عذاب قبر یا عذاب برزخ کی تمام احادیث کا من گھڑت ہونا خود بخود ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ آپؐ کے ارشادات کا تضاد بیانی سے پاک ہونا خود قرآن سے ثابت ہے ۔ سورہ نجم آیت ۳ اور ۴ ۔اللہ تعالی نبی کریمؐ کو قرآن میں متعدد جگہ حکم دیا کہ نافرمانوں کو عذاب دوزخ کی خبر سنا دیجئیے لیکن کہیں بھی  یہ نہیں فرمایا گیا کہ ان کو عذاب قبر کی اطلاع دے دو۔

ارشادِ الٰہی ہے اے پیغمبر کہو تمام تعریف و شکر اللہ ہی کیلئے ہے جس کو نہ اولاد کی ضرورت ہے اور نہ اس کائنات کے نظام کو چلانے کیلئے کسی بھی مددگار کی ضرورت ہے اور نہ اس میں کوئی کمزوری ہے اور نہ کوئی عیب اور کوئی نقص جسکی بناء پر اس کو کسی مددگار کی ضرورت ہو اور اسکی بڑائیاں ( مخلوقات و پرورش اور حاجت روائی کے نظام کو) کھول کھول کر بیان کیجئے ( بنی اسرائیل:۱۱۱)

التجاء ہے کہ  اَللّھُمَّ ارِناَ الْاَشْیَائَ کما ھِیَ ( اے اللہ ہر چیز کی وہ حقیقت دکھا جیسی کے وہ فی الواقعی ہے) اور اَللّھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقّاَ وَّرْزُقْنَا التِّبَاعَ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاَ وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَہ ( اے اللہ حق کو حق کی شکل میں دکھا اس پر چلنے کی ہم کو توفیق دے اور باطل کو باطل کی شکل میں ہم کو دکھا اور اس سے بچنے کی ہم کو ہمت عطا فرما۔آمین