قرآن کو سمجھ کر پڑھنا کیوں لازمی ہے؟

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

قرآن کو سمجھ کر پڑھنا کیوں لازمی ہے؟ 

 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱ۙ  الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝۲ۙ

مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ۝۳ۭ  اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۝۴ۭ

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۝۵ۙ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ

غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗ لِّيْنَ۝۶ۧ

ترجمہ:  تمام تعریف اللہ ہی کیلئے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے۔ نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔  روزِ جزا ء کا مالک ہے۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا جو معتوب نہیں ہوئے جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔

ایمانِ مفصّل  :  اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ  وَ کُتُبِہٖ  وَ رُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ۔

میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر۔

          وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ۔

اور خوشحالی اور بدحالی پر کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور مرنے کے بعد جی اٹھنے پر۔

دوم کلمہ شہادت: اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں

          وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً عَبْدَہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔

اور میں گواہی دیتا ہوں  محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔

ششم کلمہ ردِکفر:   اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیِءً ا وَّ اَنَا اَعْلَمُ بِہٖ

الٰہی میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ کسی چیز کو تیرا شریک بناؤں اور مجھے اس کا علم ہو ۔

          وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَآ اَعْلَمُ بِہٖ تُبْتُ عَنْہُ وَ تَبَرَّأْتُ مِنَ الْکُفْرِ

میں معافی مانگتا ہوں تجھ سے اس گناہ سے جس کا مجھے علم نہیں میں نے اس سے توبہ کی اور بیزار ہوا کفرسے

          وَالشِّرْکِ وَالْکِذْبِ وَالْغِیْبَۃِ وَالْبِدْعَۃِ وَالْنَّمِیْمَۃِ وَالْفَوَاحِشِ

سے اور شرک سے اور جھوٹ سے اور غیبت سے اور بدعت سے اور بے حیائی کے کاموں سے ۔

 وَالْبُہْتَانِ وَالْمَعَاصِیْ کُلِّہَا وَ اَسْلَمْتُ وَ اَقُوْلَ لآاِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔

اور تہمت لگانے اور ہر قسم کی نا فرمانیوں سے اور میں ایمان لایا اور کہتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔

نیّت ِنماز :-   اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَـنِیْفاً وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ (انعام ۔ آیت:۷۹)

تحقیق میں نے اپنا رخ اس ہستی کی طرف کرلیا جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ایک اسی کا ہو کر اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔

تکبیر    :  اَللّٰہُ اَکْبَرُ     اللہ بہت بڑا ہے۔

ثناء      :  سُبْحٰنَکَ اَللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالٰی جَدُّکَ

اے اللہ تیری ذات پاک ہے خوبیوں والی اور تیرا نام برکت والا ہے اور تیری شان اونچی ہے ۔

          وَ لَآ اِلٰـہَ غَیْرُکَ۔    اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔

سورہ اخلاص   :-    قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ۝۱ۚ  اَللہُ الصَّمَدُ۝۲ۚ لَمْ يَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ يُوْلَدْ۝۳ۙ

          کہو وہ اللہ ایک ہے ۔ اللہ بے نیاز ہے نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی سے جنا گیا۔

          وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ كُفُوًا اَحَدٌ۝۴ۧ  اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں ہے۔

   رکوع میں تین بار پڑھئے  :  سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ پاک ہے میرا پرور دگارعظمت والا۔

تسمیع  :-  سَمِعَ اللّٰہُ لَمِنَ حَمِدَہٗ

اللہ نے اس بندے کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی۔

سجدے میں تین بار پڑھئے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ پاک ہے میرا پرور دگار بڑا عالیشان۔

 

قرآن کو سمجھ کر پڑھنا کیوں لازمی ہے؟

 (ماخوذ کمی بیشی کے ساتھ)

 

" القرآن"  اللہ کی وہ واحد اور محفوظ اور آخری کتاب ہے جو قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کیلئے دستور بندگی و زندگی ، آخرت کی ابدی زندگی کے علم کی کتاب ہے جس کی قیامت تک حفاظت کا اللہ تعالی نے خود ذمہ لے لیا ہے،   اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۝۹  (الحجر) جو محمد ؐ پر نازل ہوئی ہے، اسی کتاب کے نزول کی وجہ سے آپؐ آخری نبی خاتم الانبیاء و رحمۃ للعالمین بنے ۔ قرآن کی اہمیت و عظمت اور اس پر ایمان کا اوّلین و بنیادی و لازمی تقاضا تو یہی ہے کہ مسلمان خود قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں ، مگر دین کے ٹھیکہ داروں نے مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور وہ عربی زبان میں ہے اس لئے اس کلام کا سمجھنا ہر ایک مسلمان کا کام نہیں ، تم صرف دین کی جو باتیں ہم بتلائیں اس پر عمل کرو اور قرآن کی ناظرہ تلاوت کر کے برکت و ثواب حاصل کرتے رہو ، چونکہ یہ بات بظاہر سہل اور آسان ہے اس لئے ہدایت کے لئے قرآن سمجھ کر پڑھنے کی زحمت سے بچنے کے لئے عوام نے اس کو برکت و ثواب کی کتاب بنا لیا ہے اور قرآن کے مقابلے میں ظن و گمان ، اقوال الرجّال اور غیر مستند لٹریچرکواہمیت دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں اللہ پرست بننے کی بجائے شخصیت پرستی میں غرق ہوتے چلے گئے ۔ مثلا ًکوئی قاسمی ہے تو کوئی مظاہری، کوئی دیوبندی ہے تو کوئی بریلوی ۔ وجہ عذر یہ کہ ہم عربی زبان سے ناواقف ہیں اس لئے قرآن کے معنی و مفہوم کا معلوم کرنا ہمارے لئے کوئی ضروری نہیں ۔ یہ بات عذر نہیں بلکہ طفلِ تسلی اور جھوٹا بہانہ ہے اس طرح اپنے آپ کو مغالطہ دے کر ضمیر کو خاموش کر لینا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب کسی اجنبی زبان میں خط آتا ہے تو اس زبان کے جاننے والے سے خط پڑھوا کر خط کا مفہوم معلوم کر لیتے ہیں اگر ایک سے تشفی نہ ہو تو دوسرے سے پڑھوا لیتے ہیں ۔ الغرض ہم خط کے مضمون سے واقف ہوئے بغیر چین نہیں لیتے مگر اللہ پر ایمان کا دعویٰ اور خود اپنے نام کے پیغامِ الہٰی کو جاننے کی اتنی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے‘ جتنی کہ خط کا مضمون معلوم کرنے کی کرتے ہیں جب کہ تقریبا ہر گھر میں مترجم قرآن ہیں اور تفسیریں بھی ہماری اپنی زبان میں موجود ہیں ۔ ہماری لا پرواہی کا عالم یہ ہے کہ بجائے قرآن پڑھنے کے ہم صبح اٹھتے ہی اخبار پڑھتے ہیں یاپسندیدہ لٹریچر، اس کے علاوہ ٹی وی کے لئے گھنٹوں برباد کیے جارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر لمحہ موت سے قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں ‘جس کی ہم کو سب سے زیادہ فکر کرنی چاہئے اُسی سے غفلت برت رہے ہیں ۔ مستقبل سنوارنے کے لئے مختلف علوم و فنون کی کئی کتابیں سمجھ کر پڑھتے ہیں اور حصولِ ڈگری کے لئے اپنی زندگی کے بیش قیمت پندرہ ، سولہ سال بخوشی لگا دیتے ہیں لیکن قرآن کی ایک ، دوآیات کو سمجھ کر ، غور و فکر کے ساتھ پڑھنے کے لئے ہمیں فرصت نہیں ہے ۔ حالاں کہ کلمہ شہادت کے اقرار سے طالبِ آخرت ہونے کا مدّعی ، حصولِ دنیا کے لئے تو وہ سب کچھ کرتا ہے جو اس کے بس میں ہے ، لیکن آخرت کی ابدی زندگی میں اپنے آپ کو تباہی سے بچانے کے لئے قرآن سمجھ کر پڑھنے کی نہ اسے فرصت ہے اور نہ ہی دلچسپی، کیا یہ سنگین جرم نہیں؟ الغرض اللہ پر ، قرآن پر ، محمد رسول اللہ پر ، اور آخرت کی ابدی زندگی پر اگر ایمان رکھتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ قرآن کو سمجھ کرپڑھیں ، تدبّر کریں اور اس کے احکام پر رسول اللہ کی اتباع و سنّت کی روشنی میں صحابہ کرامؓ کے اسوۂ کے مطابق عمل کرنے کی پوری پوری کوشش کریں ، اور اپنے اہل وعیال کو بھی ان ہی باتوں کی تعلیم و تربیت دیا کریں جیسا کہ دیگر مذاہب والوں کو اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اگر ہم ایسا کریں گے تو ہی   قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا (تحریم : ۶)  ترجمہ:  (اے ایمان والو) بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے‘ کی تعمیل کرنے والوں کے زمرے میں ہمارا شمار ہوگا۔ اس طرح ہم دوزخ سے بچنے اور بچانے کے مستحق بنیں گے۔

 

قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کے وجوہات

لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْہِ ذِكْرُكُمْ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۰ۧ  (الانبیاء)ترجمہ: تحقیق ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب بھیجی ہے جس میںتمہارا ہی ذکر ہے کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے۔ ذرا غور کیجئے ! ہماری حقیقت و حیثیت کیا ہے ہم دنیا میں کیوں بھیجے گئے اور ہمارا دائمی ٹھکانہ کہاں ہے؟ اپنے خالق و رب کے متعلق ہماری صحیح معلومات کیا ہیں ۔ والدین ‘ اولاد ‘ میاں بیوی اور رشتہ داروں اور دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات کیسے ہونا چاہئے ۔ یہ  اہم امور ہیں جو قرآن کو سمجھ کر پڑھے بغیر معلوم نہیں کر سکتے۔ غور کیجئے ان آیات پر۔

(الف)  عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۝۵ۭ (العلق ) ترجمہ  :-      سکھلایا انسان کو جو وہ نہیں جانتا تھا۔

(ب)    وَلَقَدْ جِئْنٰہُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰہُ عَلٰي عِلْمٍ ہُدًى وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝۵۲ (الاعراف )ترجمہ  :اور یقینا ہم نے ان کے پاس ایک ایسی کتاب پہنچا دی ہے جس میں اپنے علمِ کامل سے ان کے لئے ہدایت اور رحمت کے حصول کی باتیں صاف صاف بیان کر دی گئی ہیں )۔

(ج)     لٰكِنِ اللہُ يَشْہَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ۝۰ۚ (النساء آیت ۱۶۶) (ترجمہ: لیکن اللہ گواہ ہے کی قرآن جو آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے وہ اپنے کمالِ علم کے ساتھ نازل کیا گیا ہے)

(د)      فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللہِ  (ہود آیت ۱۴)  ترجمہ: پس اچھی طرح جان لو کہ اللہ نے جو کچھ اتارا ہے وہ اپنے علم کی بناء پر۔)  حقیقت یہ ہے کہ علم صرف عقل اور حواس خمسہ ہی کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ علم کی باتیں نہ عقل کے خلاف اور نہ تجربہ و مشاہدہ میں غلط ہو سکتی ہیں ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علم کی باتوں میں تضاد بیانی نا ممکن ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا  وَلَمْ يَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا۝۱ۭ۫ (الکہف آیت  ۱) (ترجمہ  :  اور اس میں ذرا بھی کجی نہیں۔)  قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِيْ عِوَجٍ لَّعَلَّہُمْ يَتَّـقُوْنَ۝۲۸ (الزمر آیت )  (ترجمہ :  یہ عربی زبان کا قرآن ہے جس میں ذرا بھی ٹیڑھ نہیں تاکہ لوگ (اپنی ابدی زندگی کی تباہی کے ڈر سے‘ نافرمانی کرنے سے)  بچنے کی کوشش کریں)  لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ۝۰ۭ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ۝۴۲ (حٰم السجدہ۔آیت) ترجمہ:-  اس قرآن میں کوئی بھی باطل بات نہ اس کے آگے سے آسکتی ہے اور نہ اس کے پیچھے سے‘ کیوں کہ یہ الحکیم والحمید کی طرف سے نازل کی گئی ہے)۔ چونکہ انسان لا علم پیدا ہوتا ہے اس کی یہ لا علمی علم حاصل کرنے ہی سے دور ہو سکتی ہے۔ اس لئے علم حاصل کرنا انسان کے لئے اتنا ہی اہم و لازمی ہے جتنا زندہ رکھنے والی چیزوں کا حاصل کرنا لازمی ہے۔ علم کے مقابلۂ امتحان میں کامیاب ہونے پر ہی آدمؑ زمین پر خلیفہ بنائے گئے۔ چونکہ ہم آدمؑ کی اولاد ہیں ، اس لئے بنی آدم کہلانے کے مستحق ہم اسی وقت ہو سکتے ہیں جب کہ ہم علم حاصل کریں ۔ اللہ تعالی نے جنت کے مستحق ہونے کے لئے تقویٰ کو لازمی قرار دیا ہے اور تقویٰ کے لئے قرآن سمجھ کر پڑھنا  ضروری  ہے۔  اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ يَہْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ( بنی اسرائیل  : ۹) ترجمہ :  یقینا یہ قرآن ایسا راستہ بتاتا ہے جو بالکل سیدھا ہے۔

(الف) يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمْ بُرْہَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا۝۱۷۴  (النساء) ترجمہ:  اے لوگو  !  یقینا تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آچکی ہے اورہم نے تمہارے پاس ایک صاف کھلا نور بھیجاہے۔

(ب) قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ۝۱۵ۙ( المائدہ آیت)  (ترجمہ: تحقیق تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور کتاب جو بیان کرنے والی ہے‘ آگئی) جس طرح روشنی کی موجودگی میں انسان راستہ بھٹک نہیں سکتا ‘ اسی طرح صرف قرآن ہی کی روشنی سے معلوم کر سکتے ہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے‘ ہدایت کیا ہے گمراہی کیا ہے ، جیسا کہ فرمایا  كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ۝۰ۥۙ بِـاِذْنِ رَبِّھِمْ  ( ابراھیم) ترجمہ : یہ کتاب (قرآن) ہے جس کو ہم نے آپؐ پرنازل کیاتاکہ اس کی روشنی میں آپؐ انسانوں کو گمراہیوں کی تاریکی سے نکال کر ایمان و عمل کی روشنی کی طرف لائیں ، ان کے پروردگار کے حکم سے) اور سورہ البقرہ آیت ۲۵۶ میں ہے۔ ہدایت کو گمراہی سے الگ کر کے بتادیا گیا ہے ۔ اور( آیت ۲۵۷) میں فرمایا گیا کہ اللہ ایمان والوں کا ولی ہو جاتا ہے اور ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ اورسورہ طلاق(آیت :۱۱) میں فرمایا گیا کہ رسول ؐ  تم کو اللہ کی صاف صاف باتیں پڑھ کر سناتے ہیں تاکہ ایمان لانے والے تاریکیوں سے نکل کر روشنی میں آئیں۔ ان آیاتِ الٰہی کی رو سے معلوم ہوا کہ قرآن سمجھ کر پڑھے بغیر کفر ‘شرک ‘نفاق و ریا‘ نا فرمانی و بدعات کی تاریکیوں سے نکلنا و بچنا ممکن نہیں۔

قرآن انسانوں کے لئے ہدایت اور کسوٹی ہے

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ (البقرہ : ۱۸۵)  (ماہ رمضان ہی میں قرآن کے نزول کی ابتداء ہوئی جو انسانوں کے لئے کھلی کھلی ہدایت ہے اور حق و باطل معلوم کرنے کی کسوٹی بھی ہے) اس آیت میں قرآن کی ایک اہم و بنیادی صفت بیان کی گئی ہے وہ یہ کہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لئے چاہے حاکم ہو یا محکوم ‘ عالم ہو یا غیر عالم‘ مرد ہو یا عورت ‘ خواص ہوں یا عوام‘ عرب ہوں یا عجمی غرض ان میں سے جو بھی قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اس کو یقینا  ہدایت مل کر رہے گی جس کا تیقن بھی دیا گیا ہے۔

(الف)  اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ ( البقرہ  :  ۵) (یہی وہ لوگ ہیں جو رب کی طرف سے ہدایت پر ہوتے ہیں)۔

(ب)  وَيَہْدِيْہِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝۱۶ (المائدہ) ( اور اللہ ان کو سیدھے راستہ کی طرف ہدایت دیتا رہتا ہے) ۔

(ج)  يَہْدِيْہِمْ رَبُّھُمْ بِـاِيْمَانِہِمْ۝۰ۚ  (یونس:۹) ( ان کا رب ان کو ان کے ایمان کے مطابق ہدایت دیتا رہتا ہے۔

(د)  وَاِنَّ اللہَ لَہَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝۵۴ (الحج) (اور یقینا ایمان والوں کو سیدھے راستہ پر چلانے کیلئے ان کا رہبر خود اللہ تعالی بن جاتا ہے)۔

ان یقین دہانیوں کے خلاف یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کوئی معمولی کتاب نہیں جو ہر کس و ناکس سمجھ جائے بلکہ اللہ کا کلام وہ بھی عربی زبان میں ہے اس کو سمجھنے کیلئے کئی دوسرے علوم سے بھی واقف ہونا ضروری ہے جو عوام کے بس کی بات نہیں اس لئے عوام کیلئے سلامتی کی راہ یہ ہے کہ وہ صرف واعظ ، یا دینی رہنماؤں کی لکھی ہوئی کتابیں یعنی لٹریچر مثلاً فضائلِ اعمال وغیرہ پڑھ لیا کریں اور برکت و ثواب کیلئے قرآن کی ناظرہ تلاوت کر لیا کریں اور   يُضِلُّ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۙ وَّيَہْدِىْ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۭ (البقرہ ۔ ۲۶) (اللہ اس کے ذریعہ بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت دیتا ہے) کا اختیارِ الٰہی سنا کر ڈرا دیا جاتا ہے حالاں کہ اللہ تعالی اپنے اختیار کا استعمال اپنے قانونِ ہدایت و قانونِ ضلالت کے ذریعہ فرماتا ہے چنانچہ اس کے ساتھ ہی فرمایا گیا  :

 (الف)   وَمَا يُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ۝۲۶ۙ (البقرہ)  ( اور اللہ کسی کو بھی گمراہ نہیں کرتا سوائے ان کے جو نافرمانی کرتے ہیں)۔

(ب)    وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ( المائدہ : ۱۰۸ ) (اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا) اور ظالموں کے لئے بھی یہی بات کہی گئی ہے۔

بعض دینی رہنما  اپنی تائید میں   فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۴۳ۙ (النحل) (پس اہلِ ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے) پیش کرتے ہیں ان آیات کے سیاق و سباق میں’’اہلِ ذکر‘‘ سے اہل تصوف و علماء مراد نہیں بلکہ توریت و انجیل پڑھنے والے یہود و نصاریٰ ہیں۔’’اہلِ ذکر‘‘ سے پوچھنے کی بات ان سے کہی گئی ہے جو محمدؐ کو رسول ماننے سے انکار کر رہے  تھے۔ آیت ملاحظہ ہو وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۴۳ۙ (النحل ) (اے نبیؐ) آپ سے پہلے ہم نے جس کو بھی رسول بنا کرمبعوث کیا وہ سب کے سب مرد (انسان) ہی تھے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے پس اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ کتاب سے پوچھ لو) جس کی تصدیق  فَسْــــَٔـلِ الَّذِیْنَ یَقْرَءُوْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَ  (یونس) (پس کتاب پڑھنے والوں سے پوچھو جن کو آپؐ سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں)سے ہوتی ہے کہ بعثتِ رسولؐ کا قانونِ الہٰی کیا رہا ہے۔

مریدوں کو نماز ، روزہ وغیرہ کی تلقین کے ساتھ خصوصی و تاکیدی ہدایت تصورِ شیخ ، ذکر و یاد‘اوراد و  وظائف کے طریقوں سے کی جاتی ہے ان کے ان طریقوں کا بدعات ہونا خود ان کا اپنا مسلّمہ ہے کیوں کہ ان کے یہ طریقے سنّت رسولؐ اور اسوۂ صحابہؓ کے قطعی خلاف ہیں دوسرے قانونِ الہٰی کی رو سے فکر و عمل کی اصلاح محض الفاظ کے جپنے سے نہیں بلکہ علم سے ہوتی ہے اور علم کا بنیادی تقاضا عمل ہی ہے۔ دینی جامعات میں قرآن کو سبقاً سبقاً نہیں بلکہ اپنے اپنے مسلک کی تفاسیر ، احادیث، منطق و کلام وغیرہ سے پڑھایا جاتا ہے ۔

یاد  رکھئے  !  اللہ تعالی نے عقل سے کام لے کر شرک سے بچنے والوں کو عالم کہا جیسا کہ سورہ عنکبوت آیت ۴۳ سے واضح ہو تا ہے۔اس کے علاوہ عالم انہیں کہا گیا جو اللہ تعالی سے ڈرتے ہوں اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں ۔ (سورہ فاطر: ۲۸)

غرض اہلِ تصوف اور علماء کے مواعظ اور ان کی لکھی ہوئی کتابوں ہی سے عوام دینی معلومات حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے گروہی ، فرقہ جاتی اور جماعتی اور مسلکی عصبیت شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے اور مشرکانہ عقائد و بدعات ہی کو دین سمجھا جا رہا ہے جب ان کے خلاف قرآن و سنّت اور اجماعِ صحابہؓ ہونے کی بات کہی جاتی ہے تو فوراً کہاں کے فارغ یا کس سلسلہ میں بیعت یا کس جماعت سے تعلق یا مسلک کی بات پوچھی جاتی ہے حالاں کہ ایمان کا تقاضا تو یہ تھا کہ تحقیق کر کے اعتراض کے صحیح یا غلط ہونے کو معلوم کیا جاتا اس کی بجائے اعتراض کرنے والوں پر معتزلہ یا خارجی یا منکر حدیث یا کم علم ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔

آیت زیرِ بحث میں قرآن کی دوسری اہم و بنیادی صفت اس کا کسوٹی ہونا ہے کسوٹی کی اہمیت بتانے کے لئے ( ۷۷ ) آیات پر مشتمل ایک مکمل سورہ الفرقان کے نام سے قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کسوٹی ہونے کی صفت کی بناء پر ہی اس کی روشنی میں اختلافات دور کرنے کی ایمان والوں کو ہدایت دی گئی ہے (البقرہ ۔ ۲۱۳) جس سے ثابت ہوا کہ اختلافات دور کرنے کا صحیح ذریعہ صرف قرآن ہی ہے چنانچہ سب ہی مانتے ہیں کہ عقیدہ کی بنیاد قرآن کی آیت ہی بن سکتی ہے جس سے معلوم ہوا کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھے بغیر یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ حق کیا اور باطل کیا ‘ ہدایت کیا ہے اور گمراہی کیا ہے ۔اور نہ ہی اس کے بغیر اختلافات دور ہو سکیں گے۔

ہدایت کا قانونِ الٰہی

(الف)  وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَابَ۝۲۷ۖۚ (الرعد)(اور اسی کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت کیلئے اللہ کی طرف رجوع کرے) ۔

(ب)     وَیَہْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ۝۱۳ (الشوری) (جو اللہ کی طرف ہدایت کیلئے رجوع ہوتا ہے اسی کو اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے) ان ارشاداتِ الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پروردگار کے پیدا و فراہم کردہ ذرائع و اسباب کے بغیر رزق کا حاصل کرنا نا ممکن ہے بالکل اسی طرح ہدایت کیلئے بھی سامان و ذرائع ہدایت (قرآن‘ سنّتِ رسولؐ اور اجماع صحابہؓ ) اختیار کرتے ہوئے ہدایت کے عطا کئے جانے اور اُس پر ثابت قدم رکھنے کی دعا بھی کرتے رہنا ضروری ہے کیوں کہ ہدایت پر ثابت قدم رہنے میں نفس‘ شیطان اور ماحول مانع و مزاحم رہتے ہیں۔

ملحوظ رہے کہ ایمان لانا یا نہ لانا بندوں کا اپنا اختیاری فعل ہے کیوں کہ ان کو عقل دی گئی ہے اور عقل کی صحیح رہنمائی کے لئے علم کی کتاب نازل کی گئی ہے جس پر عمل کرنے کیلئے نمونۂ عمل سنّتِ رسولؐ اور اسوۃ صحابہؓ  بھی فراہم کیا گیا ہے ۔

(الف) قُلْ اٰمِنُوْا بِہٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا۝۰ۭ(بنی اسرائیل ۔ ۱۰۷) ( اے نبیؐ کہدواس پر خواہ ایمان لاؤ یا نہ لاؤ)۔

(ب)    وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۝۰ۙ (الکہف۔۲۹)۔  (اے نبیؐ کہدو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے سو جس کا جی چاہے ایمان لے آوے اور جس کا جی چاہے انکار کرے)۔

(ج)     اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوْراً (الدھر :  ۳) (بے شک ہم نے اس کو راہ دکھلائی خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا) کے ارشادات سے ثابت ہے کہ ہدایت اختیار کرنے یا نہ کرنے کا اختیار بندوں کو دیدیا ہے اور ہدایت و گمراہی ، عارضی و ابدی کے فوائد و نقصانات کا موازنہ کرنے کیلئے سماعت، بصارت اور عقل عطا فرمایا ہے تاکہ امتحان کا مقصد پورا ہو۔

اس قدر وضاحت کے باوجود  فَيُضِلُّ اللہُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ (ابراھیم:۴) (پس اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے) کے اختیارِ الٰہی کا غلط مطلب لے کر اپنی ذمّہ د اری سے آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں حالاں کہ اس اختیار کو اپنے قوانین کے اٹل ہونے کو بتانے کیلئے بیان فرمایا گیا ہے تاکہ بندے ہدایت کیلئے اپنے رب کی طرف رجوع ہوں ہدایت کے بعد گمراہی سے بچنے کے لئے جن باتوں سے بچنا ضروری ہے ان کو بھی صاف صاف بیان کر دیا ہے۔  (سورہ توبہ : ۱۱۵) جس میں سے اہم:

(۱)صحیح ایمان بالآخرت  (بنی اسرائیل:  ۴۵)   جس کی  وضاحت  وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ۝۴ۭ (البقرہ:۴، لقمٰن:۴)۔ (وہ آخرت ہی کے نفع ونقصان کے تحت دنیا کا ہر معاملہ کرتے ہیں) ایسا کرنے کی خود اللہ تعالی نے ہدایت فرمائی ہے یعنی ہر کام کرنے سے پیشتر اس کا ابدی نفع و نقصان سوچ لیا کرو۔  (الحشر:۱۸)

(۲)اللہ پر جھوٹ بات باندھنے والوں اور اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کو سب سے بڑا ظالم  قراردیاگیاہے (الانعام:۲۱‘ الاعراف:۳۷ میں کافر،یونس۱۷ میں مجرم، الزمر:۳۲ میں کافر ‘ ۶۰ میں تکبّر)اور بھی بہت سی جگہ یہ بات فرمائی گئی ہے۔

(۳)  وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۱۶۹ ( جو تم نہیں جانتے اس کو اللہ کے ذمہ نہ لگاؤ)  (البقرہ ،۱۶۹، الاعراف۔۳۳)۔

(۴)     غلو کرنے سے منع کیا گیا ہے ( النساء ۔ ۱۷۱، المائدہ:۷۷)۔

(۵)     اللہ کی طرف حق بات کے سوا کوئی دوسری بات نہ لگائو۔ (النساء:۱۷۱)

(۶)     اللہ کی طرف غیر حق بات نہ لگانا۔  ( المائدہ ۔ ۷۷، الانعام۔۹۲)۔

(۷)      اس بات کے پیچھے مت پڑ‘ جس کا تجھ کو علم نہیں۔ (بنی اسرائیل:۳۶) ملحوظ رہے کہ ہم کو صرف ان ہی باتوں کا علم دیا گیا ہے۔ جن کا جاننا ہمارے امتحان کیلئے ضروری ہے اور ان کے متعلق اتنا ہی علم دیا گیا جتنی کہ ہم کو ضرورت ہے)۔

(۸)     مُسلّمہ حقیقتوں کے خلاف ہر بات قطعی غلط و جھوٹ ہے اس لئے ان کے خلاف حجّت کرنے والو ںپر اللہ کا غضب ہوگا اور عذاب شدید سے دوچار ہوں گے۔(الشوری: ۱۶)

نصیحت حاصل کرنے والوں کیلئے قرآن کو آسان و سہل بنایا گیا ہے

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۱۷  (القمر)   ( اور ہم نے قرآن کو آسان بنایا ہے نصیحت کیلئے پس ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا)  یہی بات اسی سورۃ کی آیت ۲۳ ، ۳۲ اور ۴۰) میں بھی بیان کی گئی ہے۔ نصیحت کے متعلق دوسری بات وَيُبَيِّنُ اٰيٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَــتَذَكَّرُوْنَ۝۲۲۱ۧ ( البقرہ )  (اور وہ (اللہ)  اپنی باتیں انسانوں کیلئے صاف صاف کھول کربیان کرتاہے تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں)  فرمائی گئی ہے۔ نصیحت کے متعلق تیسری بات  وَلَــقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ۝۲۷ۚ (الزمر) (اورہم نے قرآن میں انسانوں کے لئے ہرقسم کی مثالیں بیان کیںتاکہ وہ نصیحت حاصل کریں)اور نصیحت کے متعلق چوتھی بات  وَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِيْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لِيَذَّكَّرُوْا۝۰ۭ ( اور یقینا ہم نے قرآن میں طرح طرح سے بیان کیا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں  (بنی اسرائیل ۔ ۴۱) اور یہی بات اسی سورۃ کی آیت ۸۹، الکہف آیت ۵۴ ، طٰہٰ آیت ۱۱۳ میں بھی بیان ہوئی ہے۔ نصیحت کے متعلق پانچویں بات نہ صرف اس کی عمومیت بلکہ اس کے اٹل ہونے کو فرمایا گیا  کَلَّآ اِنَّہٗ تَذْکِرَۃٌ۝۵۴ۚ فَمَنْ شَاۗءَ ذَکَرَہٗ۝۵۵ۭ (المدثر) (ہرگزنہیں ‘یہ تو محض یاد دہانی ہے اب جس کا جی چاہے اس سے نصیحت حاصل کرلے )یہی بات سورہ دھر آیت ۲۹ ، سورہ عبس آیت ۱۱ اور ۱۲ میں بھی بیان ہوئی ہے۔ سورہ التکویر  میں  فرمایا گیا اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ۝۲۷ۙ  لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّسْتَــقِيْمَ۝۲۸ۭ (نہیں وہ ( یعنی یہ قرآن) مگر دنیا والوں کیلئے نصیحت ہے تم میں سے صرف اسی کے لئے جو سیدھے راستہ پر چلنا چاہتا ہے)۔یہی بات (سورہ ص ٓ  آیت  :  ۸۷ ) اور( سورہ القلم آیت :۵۲) میں بھی فرمائی گئی ہے۔ ان کے علاوہ بھی دوسری جگہ قرآن سے نصیحت حاصل کرنے کی بات فرمائی گئی ہے۔ جو بات بار بار اور مختلف اندازِ بیاں کے ساتھ فرمائی گئی ہے اس کے خلاف یہ کہنا کہ قرآن صرف علماء یا عربی داں ہی سمجھ سکتے ہیں کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ قرآن سے خود ثابت ہے کہ قرآن تمام انسانوں (عربی داں و غیر عربی داں ) کیلئے کتاب ہدایت و نصیحت ہے۔ صرف علماء و عربی داں ہی قرآن سے ہدایت حاصل کر سکتے ہیں حقیقتاً و واقعتا غلط ہے ایک تو اس لئے کہ خود قرآن ہی سے ثابت ہے کہ قرآن  ھُدَی لِّلنَّاسِ (تمام انسانوں کیلئے چاہے عالم ہو کہ عامی عربی ہو یا عجمی عورت ہو یا مرد) کیلئے کتاب ہدایت و نصیحت ہے) ہر طالب ہدایت اپنی مادری زبان میں قرآن کا ترجمہ پڑھ کر ہدایت و نصیحت حاصل کر سکتا ہے۔دوسرے ابو طالب ، ابو جہل ، ابو لہب اور موجودہ مصر و شام اور لیبیا کے حکمرانوں اور یہودی یا عیسائی جو عربی داں ہونے کے باوجود ابھی تک محرومِ ہدایت ہی ہیں۔اور نام نہاد علما ء ہی کی وجہ سے مسلمان فرقہ بندی و گروہ بندی میں مبتلا ہیں۔ حالانکہ کلامِ الٰہی سے منشائِ الٰہی (ہدایت) ایک ہی ہے جس سے ثابت ہوا کہ قرآن سے صرف عربی داں اور علماء ہی کے ہدایت حاصل کرنے کی اہلیت کی بات قطعی غلط ہے بلکہ حقیقت واقعہ تو یہ ہے کہ ہر قوم یا ملک کا باشندہ ہدایت و نصیحت حاصل کرنے کے لئے اپنی مادری زبان کے مترجم قرآن کو سمجھ کر پڑھے گا تو وہ یقینا نصیحت و ہدایت حاصل کرے گا کیوں کہ یہی ہدایت حاصل کرنے کا قانونِ الہی ہے۔ قرآن فہمی کے لئے عالم یا عربی داں ہونے کی قید لگانے سے مسلمان جن عقائد و اعمال کے بگاڑ میں مبتلا ہو گئے ہیں اس کا وبال آخرت میں کس کو بھگتنا ہوگا وہ محتاجِ بیان نہیں۔

قرآن فہمی کیلئے عالم یا عربی دان ہونے کی قید اگر درست ہوتی تو ناظرہ پڑھنے والوں کے عقائد و اعمال صحیح و درست ہونا چاہئے تھا لیکن حقیقتاً شرک و بدعات میں مبتلا ہیں۔ قرآن کو ترجمہ کے ذریعہ پڑھنے سے فتنہ میں مبتلا ہو جانے کی بات تو بالکل اُلٹی منطق ہے اگر یہ بات واقعتا صحیح ہوتی تو علماء مختلف زبانوں میں قرآن کا ترجمہ ہر گز نہ کرتے ۔ کیوں کہ ایسا کرنا مسلمانوں کو فتنہ میں مبتلا کرنے کے جرم کا ارتکاب کرنا تھا حقیقت واقعہ تو یہی ہے کہ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ نہ پڑھنے ہی کی بناء پر عوام اپنے اپنے بزرگوں اور عالموں کی لکھی ہوئی کتابوں اور کہی ہوئی باتوں کو چاہے وہ قرآن کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں درست و صحیح سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے غلو ، شخصیت پرستی ، گروہ بندی و فرقہ بندی کی عصبیت میں بری طرح مبتلا ہو گئے ہیں۔

    قرآن اختلافات دور کرنے والی کتاب ہے

كَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۝۰ۣ فَبَعَثَ اللہُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۝۰۠ وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِــيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ۝۰ۭ (البقرہ۔۲۱۳) (تمام انسان ابتداً بلحاظ عقائد و اعمال بالکل ایک ہی اُمّت کی طرح تھے پس جب اختلافات پیدا کر کے فرقے و جماعتیں بنا لئے تو ان کی رہبری کے لئے اللہ تعالیٰ نے بشارت دینے والے اور عذاب سے خبردار کرنے والے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا جن کے ساتھ حق باتوں پر مشتمل کتابیں بھی نازل فرمایا تاکہ کتاب کی روشنی میں ان امور میں فیصلہ کر دیں جن میں یہ لوگ اختلافات پیدا کر کے فرقے و جماعتیں بنا لئے تھے)  اور سورہ البقرہ آیت ۱۷۴ میں فرمایا کہ جو لوگ دنیا کے فائدوں کے لئے یا اپنے گروہ یا جماعت کو آیات کی غلط تعبیر ، تفسیر، تاویل کرکے حق پرہونے کوثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یاکتابِ الٰہی کی باتو ں کو چھپاتے  ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ اور سورہ البقرہ آیت ۱۷۵ میں فرمایا کہ یہ لوگ ہیں جو  ہدایت کے بدلے گمراہی کو اور مغفرت کے بدلے عذاب کو خرید رہے ہیں۔  پس ان کی ڈھٹائی کیسی عجیب ہے کہ ان کو آگ کے عذاب کی بھی پرواہ نہیں اور آیت ۱۷۶ میں فرمایا  :  ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَـقِّ۝۰ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِي الْكِتٰبِ لَفِيْ شِقَاقٍ بَعِيْدٍ۝۱۷۶ۧ (ایسے لوگوں کو آگ کا عذاب محض اس لئے ہوگا کہ انہوں نے اللہ کی نازل کردہ کتاب جس میں صحیح باتیں بیان ہوئی ہیں اسی میں اختلافات پیدا کر کے اپنی مخالفت میں انتہا کو پہنچ گئے) مندرجہ بالا ارشادات الہی کی رو سے بے حد ضروری ہوا کہ ہم اپنے اختلافات بالخصوص عقائد کے اختلافات کو قرآن ہی کی روشنی میں دور کرلیا کریں ورنہ آگ کے عذاب سے بچنا ممکن نہیں۔ اس لئے بھی قرآن کو سمجھ کر پڑھنا بے حد ضروری ہوا۔ ملحوظ رہے کہ قرآن کی آیات میں کج بحثی اور کٹ حجّتی کرنے والوں کیلئے آگ کی وعید بیان کی گئی ہے ۔ ( حٰم السجدہ:۴۰)  (۶)  يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۝۰ۥۙ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۝۵۷ (یونس) اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آگئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہے ان کے لئے شفاء ہے اور ہدایت بتانے والی اور رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لئے۔ یہی بات سورہ بنی اسرائیل آیت ۸۲ ، حٰم السجدہ آیت ۴۴ میں بھی بیان کی گئی ہے۔ دلوں کی بیماریوں سے مراد‘ کفر ‘ شرک‘ نفاق ‘ ریاء‘ دکھاوا‘ نا فرمانیاں ہیں جو آخرت کی بجائے دنیا کو مقصود و مطلوب بنالینے سے پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ فرمایا گیا  فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ(البقرہ : ۱۰) ان کے دلوں میں بیماری ہے۔ یہ وہ بیماری ہے جو بغیر ہدایت حاصل کئے دور نہیں ہو سکتی۔ (انفال: ۴۹)

ملحوظ رہے کہ یہاں صرف قلبی امراض کیلئے قرآن کا شفاء ہونا فرمایا گیا ہے اس لئے جہاں بھی (بنی اسرائیل :۸۲ ، حٰم السجدہ:۴۴) قرآن کیلئے شفاء ہونے کی بات بیان ہوئی ہے وہاں صرف قلبی امراض ہی کے لئے شفاء ہونے کی بات مراد لینا صحیح و درست ہوگا ان سے جسمانی و بدنی امراض کے لئے شفاء ہونا ہر گز مراد نہیں لیا جا سکتا۔ کیوں کہ ایسا کرنا تحریف معنوی کے جرم کا مرتکب ہونا ہے جو ایک نہایت سنگین جرم ہے کیوں کہ اس سے ایک تو قرآن پر تضاد بیانی کا الزام عائد ہوتا ہے دوسرے دار الاسباب میں بِلا مادّی و ظاہری اسباب کے بھی نفع ونقصان پہنچنے کے باطل عقائد پھیلانا ہے جو قطعی شیطانی کام ہے۔ اسی شیطانی فریب میں مبتلا ہونے سے بندے جنت سے محروم ہو جائیں گے۔

اس بیماری میں مبتلا ہونے کی سب سے خطرناک علامت اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۝۱۰۴ (الکہف ) وہ لوگ جن کی تمام کوشش دنیا ہی کی زندگی کے لئے رہی اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھا کا م کر رہے ہیں)اور ایسے بیمار کی قلبی کیفیت  وَفَرِحُوْا بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۭ وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ۝۲۶ۧ (الرعد)  (یہ لوگ دنیووی زندگی میں مگن ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں محض متاعِ حقیر ہے)جس کی وجہ ان کا رویہ الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَۃِ  (ابراھیم: ۳)  (جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں) بن جاتا ہے یعنی دنیا کے فائدہ کے لئے آخرت کے نقصان کی پرواہ نہیں کرتے اور آخرت کے فائدے کے لئے دنیا کا کوئی نقصان برداشت نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ وہ دنیا کی زندگی ہی کو سب کچھ خیال کرتے ہیں جیسا کہ فرما یا گیا۔  يَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚۖ وَہُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ہُمْ غٰفِلُوْنَ۝۷ (الروم )  ( یہ دنیا کی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور آخرت ( کی ابدی زندگی ) سے بالکل ہی بے خبر ہیں)جس کی وضاحت  وَلَمْ يُرِدْ اِلَّا الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۝۲۹ۭ ذٰلِكَ مَبْلَغُہُمْ مِّنَ الْعِلْمِ۝۰ۭ (النجم۔۲۹‘۳۰) (بجز دنیوی زندگی کے ان کا کوئی (اُخروی) مقصود نہیں ہے اور ان کے فہم رسائی کی حد بس یہی دنیوی زندگی ہے) کے ذریعہ کر دی گئی ہے اور یہ حقیقت واقعہ بھی بتا دیا گیا کہ آخرت کے بجائے صرف دنیا کمانے کو جو اپنا مقصود بنالیتا ہے تو وہ رات کو نہ سکون سے سو سکتا ہے اور نہ دن میں اسے چین و آرام نصیب ہو سکتا ہے بلکہ ہر وقت مال کے نناوے (۹۹) کی چکر اور نقصان و ضائع ہونے کے اندیشوں اور خطرات میں مبتلا رہتا ہے جیسا کہ فرمایا گیا   فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا (طٰہٰ۔۱۲۴) (پس بے شک اس کیلئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی) اور وہ کہتا ہے آخرت کی ابدی زندگی کے متعلق مرنے کے بعد دیکھا جائے گا اور  وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۲۲  (سورہ نور : ۲۲ ، الممتحنہ: ۷ )ہے۔ عارضی کے بجائے ابدی اور دنیا کی بجائے آخرت کیلئے فکر و کوشش کرنا ہر لحاظ سے خیرہی ہونا ہر سمجھ دار کا مسلمہ ہے لیکن  اِلَّا مَاشآئَ اللّٰہُ  سوائے چندکے ہر انسان صرف دنیا ہی کی خوشحالی حاصل کرنے کی ہمہ تن کوشش میں لگا ہوا ہے اس بگاڑ کی اہم و بنیادی وجہ ہمارا الٰہی قانون جزاء کو بھول کر آخرت سے غفلت و لاپرواہی برتنا ہے۔آخرت سے غفلت ولاپرواہی ہم میں پیدا کرنے کیلئے شیطان مردہ غائب ہستیوں سے فیض پہنچنے اور دار الاسباب میں مادّی و ظاہری اسباب کے علاوہ بھی محض تعویذ، گنڈا، دم، جادو، نظرِ بد اور وظائف ، ختمِ قرآن، ختمِ بخاری، ختمِ خواجگان، درود کی محفلیں و مجالس، آیۃکریمہ کے دسترخوان، مقام، افراد اور ساعت میں نحوست و برکت جیسے باطل عقائد میں مبتلا کر دیا ہے۔ (الاعراف۔۱۷، الحجر ۔ ۳۹)۔

          الغرض قرآن کو سمجھ کر نہ پڑھنے ہی کی وجہ سے ہم میں آخرت سے غفلت و لاپرواہی پیدا ہو رہی ہے اور دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے جس کا لازمی نتیجہ ایک ہی ہے وہ ہے دنیا کی خوشحالی کا حصولِ مقصدِ زندگی بن گیا ہے چنانچہ کتاب و سنّت کا علم بھی صرف دنیا ہی کیلئے حاصل کیا جا رہا ہے اگر ہم قرآن سمجھ کر پڑھیں گے تو اللہ کا قانونِ جزاء بار بار پڑھنے میں آئے گا جس سے ہم میں اللہ کے عذاب سے بچنے کی فکر پیدا ہوگی اور ہم اپنی زندگی سے اللہ او ر سول ؐ کی نافرمانی دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی لئے نبی کریمؐ نے دل کے زنگ کو جو نافرمانی سے لگ جاتا ہے اور قلب کے کالے دھبّہ کو جو گناہ کرنے سے پیدا  ہو جاتا ہے ان دونوں کو دور کرنے کے لئے کثرت سے موت کو یاد کرنے اور قرآن کو پڑھتے رہنے کی ہدایت فرمائی ہے۔

جسمانی امراض میں حکیم یا ڈاکٹر کے نسخے کی محض تلاوت نہیں کی جاتی نہ ان کو دھو کر پیا جاتا ہے نہ ان کو گلے میں لٹکایا جاتا ہے نہ بازو پر باندھا جاتا ہے نہ دواؤں کے ناموں کو جپا یاجاتا ہے اور نہ پھونک لیا جاتا ہے لیکن عقل کے دیوالیہ پن کا عالم یہ ہے کہ قرآن میں امراضِ قلبی کے طریقوں کو جن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ان کی تلاوت کر کے پھونک لیا جاتا ہے اور مل لیا جاتا ہے اور عوام کو یہی طریقہ بتایا جا رہا ہے اس لئے عوام کی اکثریت تعویز گنڈا ، دم، جھاڑ پھونک اوتارہ، سایہ سپٹ جیسے شیطانی چکر میں پھنس کر نہ صرف اپنا پیسہ برباد کر رہے ہیں بلکہ ایمان جیسی قیمتی اہم و لازمی چیز سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں ۔حالانکہ شہد کے متعلق  فِيْہِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاسِ۝۰ۭ (النحل:۶۹)۔ (شہد میں انسانوں کیلئے شفاء ہے) کے ارشادِ الہٰی کے باوجود دنیا میں کوئی بھی لفظ شہد کو جپتا ہے نہ دھوکر پیتا ہے نہ گلے میں لٹکاتا ہے نہ بازو پر باندھتا ہے۔ لیکن قرآن یا قرآنی سورتوں و آیات کو ان کے مقصدِ نزول کے بالکل خلاف و ضد تعویذ، گنڈا ، دم ، جھاڑ پھونک عمل ، عملیات اور حصول خیر و برکت کیلئے پڑھے اور پڑھائے جا رہے ہیں ۔ اس گمراہی کے جواز میں جن احادیث کو پیش کیا جاتا ہے وہ قطعی موضوع (گھڑی ہوئی ) ہیں چنانچہ امام ابن جوزیؒ ملا علی قاریؒ احادیث کی صحت کو جانچنے کیلئے درایت کے جو اصول بیان کئے ہیں ان میں سے ایک ’’قرآن کی سورتوں کے فضائل والی تمام احادیث موضوع ہیں‘‘ (ملاحظہ ہو سیرۃ النبی جلد اول از شبلی نعمانیؒ)۔

غور کیجئے القرآن  اَلْحَمْدُسے لے کر وَالنَّاس تک پورے کا پورا اللہ کا کلام ہے یعنی  (۱۱۴)  سورتیں جو کم و بیش(۶۲۳۶) آیات پر مشتمل ہیں ان میں سے کسی ایک آیت یا  سورہ کو دوسری آیات یا سورتوں کے مقابلہ میں افضل قرار دینے کا اختیار پیغمبر کو بھی نہیں دیا گیا کیوں کہ ایک کو دوسرے پر فضیلت دینے سے باقی آیات کو فضیلت سے خالی قرار دینا ہے ۔ اس طرح گویا قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے جو انتہائی سنگین جرم ہے جیسا کہ فرمایا گیا   الَّذِيْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِيْنَ۝۹۱ فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۹۲ۙ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۹۳  ( الحجر) (یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ، پس قسم ہے تمہارے پروردگار کی ضرور ہم ان سب سے پوچھیں گے ا ن اعمال کو جو وہ کئے ہیں۔ یعنی قرآن کے ساتھ انہوں نے کیا سلوک کیا) یہ ایسا ہی جرم ہے جیسا کہ بنی اسرائیل نے صحفِ موسیٰ کے ساتھ کیا تھا جیسا کہ ارشاد ہے ’’ صحف موسیٰ تو انسانوں کے لئے ہدایت و روشنی تھی اس کو تم نے ورق ورق کر دیا جس میں سے بہت تھوڑا لوگوں پر ظاہر کرتے ہو اور بہت سا چھپاتے ہو۔ (الانعام : ۹۱)

قرآن کی سورتوں کے فضائل والی احادیث کے موضوع ہونے کا ناقابلِ تردید و انکار ثبوت دنیا دار الاسباب و دارالعمل میں مادّی و ظاہری اسباب و ذرائع رزق اختیار کئے بغیر رزق کا ملنا نا ممکن ہے اس کے علاوہ طبِّ نبویؐ کی احادیث کے رو سے بھی یہ گھڑی ہوئی ثابت ہو جاتی ہیں۔یا رزاق  یا  یارب کے الفاظ محض جپ لینے سے یا پھونک لینے سے نہ پیٹ بھر سکتا ہے نہ کوئی معمولی ضرورت ہی پوری ہو سکتی ہے۔ ملحوظ رہے کہ یہاں دعا کی بات نہیں کہی جا سکتی کیوں کہ دعا نہ جپی جاتی ہے نہ پھونکی جاتی ہے بلکہ مانگی جاتی ہے یا دعا کی جاتی ہے اور ساتھ ہی جو بھی مادی و ظاہری اسباب میسر ہیں ان کو بھی اختیار کرنا لازمی و ضروری ہے۔ ( کیوں کہ دعا بھی مادّی اسباب و ذرائع ہی کے ذریعہ قبول کی جاتی ہے)۔

ملحوظ رہے کہ سال، ماہ، دن و رات اور ساعت میں نحوست و برکت ہونے کے عقیدے کو اللہ نے  اِنَّمَا النَّسِيْۗءُ زِيَادَۃٌ فِي الْكُفْرِ ( التوبہ : ۳۷ )  ( یقینا (مہینوں کو) آگے پیچھے کر لینا کفر میں اضافہ ہی ہے) فرمایا ہے اور اللہ کے رسولؐ نے جمعہ کے دن و رات کو دوسرے دنوں اور راتوں پر فضیلت دینے سے تاکیداً منع فرمایا ہے (مسلم و بخاری)۔

اللہ و رسولؐ کے مندرجہ بالا ہدایات کے باوجود گمراہ کن عقائد و اعمال میں ہمارے مبتلا ہونے کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم قرآن کو ہدایت کے لئے سمجھ کر نہیں پڑھتے اور جو پڑھتے بھی ہیں تو صرف ثواب کے لئے۔

(۷)     قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا۝۰ۭ ھُوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ۝۵۸ (یونس )  ( اے پیغمبر آپ کہدیجئے کہ اللہ تعالی نے اپنے فضل و رحمت سے قرآن جیسی کتاب ہدایت فراہم کر دی ہے پس اس نعمت پر تم کو خوش ہونا چاہئے کیوں کہ دنیا کی پوری دولت سے زیادہ مفید قرآن ہے)کے ذریعہ حقیقت واقعہ کا بھی علم دے دیا کیوں کہ دنیا کی دولت سے صرف صحت کی حالت میں زیادہ سے زیادہ موت تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلہ قرآن وہ نعمت ہے جس کی ہدایت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرنے سے دنیا میں حَيٰوۃً طَيِّبَۃً۝۰ۚ (النحل۔۹۷) (صاف ستھری زندگی) اور آخرت میں عیش و راحت کی من مانی ابدی زندگی ملے گی چنانچہ جنتی کہیں گے ۔  وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ ہَدٰىنَا لِـھٰذَا۝۰ۣ وَمَا كُنَّا لِنَہْتَدِيَ لَوْلَآ اَنْ ہَدٰىنَا اللہُ۝۰ۚ (الاعراف ۔ ۴۳) (اور جنتی کہیں گے کہ تعریف و شکر صرف اللہ ہی کیلئے ہے جس نے ہمیں یہاں (جنّت ) میں آنے کا طریقہ دکھایا اگر وہ ہمیں یہاں آنے کا طریقہ نہ بتایا ہوتا تو ہم ہر گز یہاں نہیں آ سکتے تھے)اور  وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّۃِ حَيْثُ نَشَاۗءُ۝۰ۚ (الزمر:۷۴) اور (جنتی کہیں گے تعریف و شکر صرف اللہ ہی کیلئے ہے جس نے بندوں سے کئے ہوئے اپنے وعدہ کو سچ کر دکھایا اور جنّت کی زمین کا ہم کو وارث بنایا جس میں جہاں چاہے ہم من مانی عیش کر سکتے ہیں)۔

ایمان بالقرآن کے تقاضے

اللہ تعالیٰ نے قرآن پر ایمان لانے کے اوّلین اور بنیادی تقاضوں کو بیان فرمایا ہے ملاحظہ ہو اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ۝۰ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۱۲۱ۧ (البقرہ) (ہم جس کو بھی کتاب دیتے ہیں اس کو ایسا پڑھتے ہیں جیسے اس کے پڑھنے کا حق ہے ایسا کرنے والے ہی لوگ اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ جو کوئی کتاب کے ساتھ ایسا نہ کرے پس ایسے ہی لوگ گھاٹا پانے والے ہیں)  اور ساتھ ہی دوسرا بنیادی تقاضہ  وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُوْنَہٗ(آل عمران:۱۸۷)  (اور جس کو بھی اللہ تعالی نے کتاب دیا اس سے ایک مضبوط عہد لے لیا کہ وہ کتاب کی باتیں لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرے اور کوئی بات نہ چھپائے) بھی بیان فرمادیا ہے جو نبی کریمؐ کا اولین فرض رہا ہے۔ ملاحظہ ہو  وَاُوْحِيَ اِلَيَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَ۝۰ۭ (الانعام:۱۹)  (اور  وحی کیا گیا ہے طرف میری یہ قرآن تا کہ ڈراؤں میں تم کو اس کے ذریعہ اور جس کو پہنچے)  مَنْۢ بَلَغْ( جس تک قرآن پہنچے) سے مراد ہر وہ شخص ہے جو قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے کا دعویٰ کرتا ہے اپنے اس دعوے کی سچائی کے ثبوت میں قرآن کے ذریعہ لوگوں کو خبردار کرتا ہے یہی انبیائی طریقہ ہے چنانچہ فرمایا گیا۔  ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوْا بِہٖ (ابراھیم : ۵۲)  (انسانوں کو آخرت کی ابدی زندگی کے بارہ میںبتایا جائے اور قانون الٰہی کے مطابق ان کے اپنے فکر و عمل کے جو بدلے ملنے والے ہیں ان سے خبردار کیا جائے) بالفاظ دیگر قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے والوں کے بنیادی فرائض میں سب سے پہلے خود قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنا ہے اور ساتھ ہی آخرت کی ابدی زندگی سے غفلت و بھول میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو آخرت کے ابدی عذاب سے چونکانا ہے جس کا آغاز گھر سے ہونا ضروری ہے۔

قرآن کی اسی اہمیت وا فادیت کو سمجھانے کیلئے اللہ کے رسولؐ نے خیر الحدیث کتاب اللہ  (اس کائنات میں سب سے بڑھ کر نفع بخش اللہ کی کتاب ہے)۔ (بخاری) اور احسن الحدیث کتاب اللہ (سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے) (مسلم) فرمایا ہے: اور امّت میں بہترین فرد بننے کا  طریقہ بھی بتادیا۔ اور  خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ  (تم میںبہترین وہ ہے جو قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دے(بخاری) حشر کے دن بندے عذاب سے بچاؤ کیلئے جتنے بھی عذرات پیش کریں گے ان سب کو قرآن ہی کا حوالہ دے کر جھوٹ و غلط ثابت کر دیا  جائے  گا۔

(۱)  بَلٰى قَدْ جَاۗءَتْكَ اٰيٰتِيْ فَكَذَّبْتَ بِہَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۝۵۹ (الزمر)  (ہاں بے شک تیرے پاس میری آیتیں پہنچی تھیں سو تو نے ان کو جھٹلایا اور تو نے تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوا) یہی بات اسی سورۃ کی آیت ۷۱ سورہ الملک ۹ سورہ الجاثیہ آیت  ۳۱ ، المومنون آیت  ۶۶ میں بھی بیان ہوئی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی باتوں کو جھٹلانے اور اللہ کی باتوں سے تکبّر کرنے اور اللہ کی باتوں کا انکار کرنے سے بچنے کے لئے قرآن سمجھ کر پڑھنا بے حد ضروری ہوا۔

یہ ایک اٹل حقیقت ہی ہے کہ اللہ و رسولؐ  کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی بسر کرنے کیلئے نفس، شیطان اور ماحول سے ہر وقت جنگ کرنا پڑتا ہے جو بظاہر بہت مشکل و کٹھن نظر آتا ہے اس کے مقابلہ میں ثواب و برکت اور نجات کے شارٹ کٹس جو بظاہر آسان و سہل معلوم ہوتے ہیں عوام کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں تو وہ ان کو آنکھیں بند کر کے اپنا لیتے ہیں۔ تعبیر ، تاویل ، کشف و خواب کی آڑ لے کر شرک جیسے سنگین گناہ کو عوام میں پھیلانے والے دینی رہنما ہی تو ہیں یہی حضرات تو کہتے ہیں کہ حقیقی و اصلی حاجت روا ، مشکل کشا، فریادرس بزرگان دین نہیں بلکہ ان کو یہ اختیارات عارضی مجازی طور پر خود اللہ نے دے دیئے ہیں اس لئے اَغِثْنِیْ یَا رسول اللّٰہ، یا غوث المدد یا علی مشکل کشا کہنا سنّتِ جماعت ہونے کی اصل نشانی قرار دیتے ہیں چنانچہ حیدرآباد کی مکہ مسجد ہی میں نہیں بلکہ دیگر بیشتر مساجد میں یا شیخ عبدالقدر جیلانی شیئً لِلّٰہ لکھا ہوا موجود ہے حالانکہ اللہ کے سوا مردہ و غائب ہستیوں کو پکارنا دراصل شیطان کی نکالی ہوئی بات ہے اسی لئے مدد کیلئے مردہ و غائب ہستیوں کو پکارنے کو دراصل شیطان ہی کو پکارنا قرار دیا گیا ہے۔ (النساء  :  ۱۱۷)

مردہ و غائب ہستیوں کو پکارنے کی ممانعت محض اس لئے کی گئی کہ مرنے کے بعد پیغمبربھی زندوں کی آواز نہیں سن سکتے۔ (النمل : ۸۰) (الروم:۵۲، الفاطر:۲۲) اور یہ بھی علم دے دیا گیا کہ مرنے کے بعد پیغمبر بھی زندوں کی نہ دعا ہی سن سکتے ہیں اور نہ حشر تک اس کا علم ان کو ہوگا۔ (یونس:۲۸،۲۹، النحل:۸۶، الفاطر:۱۴، الاحقاف:۵،۶) اور حوضِ کوثر کی حدیث( یعنی حوضِ کوثر پر آپؐ اپنے امتیوں کو پانی پلارہے ہوں گے تب فرشتے بعض امتیوں کو کھینچ کر واپس لے جارہے ہوں گے ‘آپؐ  کہیں گے اے اللہ یہ میرے اُمّتی ہیں ، کہا جائے گا آپؐ  نہیں جانتے آپ کے بعد ان لوگوں نے بدعات ( نئی بات ) ایجاد کی تھی ۔ آپؐ کہیں گے دور کرو دور کرو ( کتاب الرقّاق جلد ۳ حدیث نمبر 1498,1497,1496) دعا کی قبولیت کیلئے واسطہ دینے ، وسیلہ لینے ، طفیل و حرمت کی گمراہیوں کے جواز کے لئے جھوٹی احادیث ، اقوال الرجال اور دارالاسباب میں مادی ذرائع و اسباب اختیار کرنے کے نظائر و مثالیں پیش کرنے والے دینی رہنما ہی تو ہیں حالانکہ ان کی یہ دلیلیں دعا (بندے و رب کے معاملہ) کے لئے نہ صرف غیر متعلق بلکہ قطعی غلط و جھوٹ ہیں کیوں کہ اللہ نے رب کو راست بلا واسطہ و وسیلہ پکارنے کے تاکیدی احکام دئے ہیں مثلا : اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً۝۰ۭ (الاعراف۔۵۵) ( اور اپنے رب ہی سے دعا کرو عاجزی اور آہستگی کے ساتھ) اور وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا (الاعراف۔۵۶) ( اور امید اور خوف کے ساتھ اسی سے دعا کرو) اور  وَّقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِٓی اَسْتَجِبْ لَکُمْ ( المومن: ۶۰)  (اور تمہارا پرور دگار تم سے کہتا ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں ہی دعا قبول کرنے والا ہوں) نہ صرف دعا کرنے کا طریقہ بتایا بلکہ دعا کی قبولیت کی گیارنٹی بھی دیا ہے۔ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ (البقرہ:۱۸۶)  (میں ہر دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب بھی وہ دعا کرتا ہے) اور شیطان لعنتی کی دعا (الاعراف:۱۵) قبول کر کے اپنی گیارنٹی کی سچائی کا ثبوت بھی دے دیا۔ قرآن میں بیان کردہ پیغمبر ، صالحین، عباد الرحمن اور ایمان والوں کی دعاؤں میں نہ واسطہ ہے نہ وسیلہ بلکہ راست رب ہی سے دعا کرنے کی بات ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے دعا کی قبولیت کے تین طریقے(۱) بعینہٖ(۲)بالبدل(۳)  ذخیرہ آخرت ۔فرمایا ہے۔ آپؐ  فرماتے ہیں ’’ بندے کے ہاتھوں کو خالی لوٹاتے ہوئے رب کو غیرت آتی ہے‘‘ غور کیجئے رب ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور ہمارے دلوں کے وسوسوں سے تک واقف ہے۔  (ق۔۱۶) اور ہر آن و ہر پل ہمارے حال پر پوری طرح متوجہ رہنے والے پروردگار کو ہماری دعا کی قبولیت کیلئے کیا کسی بھی واسطہ و وسیلہ کی ضرورت ہو سکتی ہے جب کہ ماں سے مانگنے والے بچہ کو نہ کسی واسطہ کی ضرورت ہوتی ہے نہ کسی وسیلہ کی ۔ملحوظ رہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کیلئے بھی دعا کرنا ایمان کا عین تقاضا ہے لیکن دوسروں سے دعا کرنے کی بات کہنا اپنی بد گمانی کا ثبوت دینا ہے۔

ہر نماز کی ہر رکعت میں   اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۝  (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں) کے کلمات کا اعتراف و اقرار کرنے والے ہی یا علی مشکل کشا، یا غوث المدد کا نعرہ لگاتے ہیںجس کی ایک اہم وجہ ان کلمات کے معنوں سے لا علم ہونا ہے۔ دوسری وجہ ان کی غلط رہنمائی ہے۔ مختصر یہ کہ مردہ و غائب ہستیوں کو مدد کیلئے پکارنا ان سے منّت و مرادیں مانگنا، ان کی نذر و نیاز کرنا، بارہویں، گیارہویں ، رجب کے کنڈے، محرم کا شربت، کھچڑی، عرس، صندل، فاتحہ دلانا ، زیارت دسواں، بیسواں ، چہلم ، برسی کرنا ، ختم قرآن، ختم بخاری، ختم خواجگان، درود کی مجالس، آیتِ کریمہ کے دسترخوان بچھانے کو سنّت جماعت ہونے کی علامت سمجھایا جا رہا  ہے اسی وجہ سے عوام ان باتوں کو اختیار کئے ہوئے ہیں حالانکہ ان کی باتوں پر اللہ کے رسول ؐ کی بات یَفْعَلُوْنَ مَالَا یُوْمَرُوْنَ (وہ ایسے کام کرتے ہیں جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا) کا نہ صرف اطلاق ہوتا ہے بلکہ کتاب و سنّت اور اسوۂ صحابہؓ کی روشنی میں بھی یہ اعمال قطعی شرک و بدعات ہیں۔

مساجد و دینی مدارس میں کلمے اور قرآن صرف ناظرہ پڑھائے جاتے ہیں اور چندمختصر سورتیں و نعت و نظمیں زبانی یاد کرائی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ نہ مسلمان کلمے کے معنی جانتے ہیں اور نہ ہی سورہ فاتحہ کے ، ان کے معنی و مفہوم سے ناواقف ہونے کی بناء پر ہی عوام شرک و بدعات کو دین کے کام سمجھ رہے ہیں۔ اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ شروع ہی سے ان بچوں کو کلمے اور زبانی یاد کرائی جانے والی سورتوں کے معنی و مفہوم سمجھایا جائے۔

کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے دینی اجتماعات کا آغاز، درسِ قرآن سے نہیں کیا جاتا اور کیا بھی گیا تو صرف تلاوتِ قرآن سے جو بطور تبرکا ًو رسما ًہوتا ہے اور خطباتِ جمعہ و وعظ میں بھی قرآن سے زیادہ اقوال الرجال و قصے کہانیاں سنائے جاتے ہیں۔

جلسوں ، مشاعروں اور قوالیوں میں جو مجمع ہوتا ہے وہ درسِ قرآن میں نظرنہیں آتا ۔ بندے و محتاج محض ہونے کی بناء پر اپنے رب کریم و رحیم کی باتیں پڑھنے اور سننے کے لئے جتنی دلچسپی لینا چاہئے تھا اس کا ایک فیصد بھی نظر نہیں آتا قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے کا تقاضا تو یہی تھا کہ قرآن کو وہ اہمیت و مقام دیا جاتا جس کا وہ حقیقت میں مستحق ہے اس کے بجائے قرآن کو تعویذ و دم فال اور ثواب و برکت کی کتاب بنائی گئی ہے ۔ ایسے ہی لوگوں کے خلاف حشر کے دن اللہ کے رسولؐ رب سے شکایت کریں گے۔  وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۝۳۰ (الفرقان)  (اور رسولؐ  کہیں گے کہ اے میرے پروردگار میری امّت نے اس قرآن کو بالکل نظر انداز کر رکھا تھا)۔

وقت بے وقت قرآن پڑھنے میں باوضو ہونے کی قید بھی روک بنا دی گئی ہے حالاں کہ باوضو ہونے کی قید صرف نمازکی ادائیگی کے لئے ہے (النساء : ۴۳، المائدہ :  ۶۶) دوسرے قرآن کی درس وتدریس میں استاد و شاگرد کے لئے باوضو رہنے کی قید نہیں ہے۔ تیسرے قرآن کی کتابت کرتے وقت بھی باوضو رہنے کی قید نہیں ہے۔چوتھے حفاظ قرآن حفظ کرتے وقت یا اپنے حفظ کو تازہ رکھنے کے لئے بے وضو ہی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ پانچویں قرآن کی طباعت و جلد بندی و ٹرانسپورٹ کے کام انجام دینے والے عموما غیر مسلم ہی ہوتے ہیں ۔ چھٹے قرآن کا اطلاق تو صرف ایسی کتاب پر ہی ہوتا ہے جس میں عربی متن کے سوا کوئی اور زبان کے الفاظ نہ ہوں ۔ اس کو بھی بلاوضو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ابن عباسؓ ، شعبی، ضحاک، زید بن علی مؤید باللہ ، داؤد ، ابن جزم اور حماد بن سلیمان اس بات کے قائل ہیں کہ بلا وضو قرآن کو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے(ابن کثیر، فتح الباری) لفظ ’’ مطہرون‘‘ سے وہ مراد ہے جو ناپاک نہ ہوں ۔ اس میں بلا وضو ہونے کو بھی شامل کر لینا صحیح نہیں۔ ساتویں ایسی کتابیں جس میں عربی متن کے ساتھ دوسری زبان کے ترجمے و تفاسیر ہوں تو ان پر قرآن کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ ان کو تفسیر یا مترجم کہا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ رب کا نام صرف بے وضو ہی نہیں بلکہ ناپاکی کی حالت میں بھی لیا جاتا ہے اور اسی حالت میں دعا بھی کی جاتی ہے۔ اس لئے قرآن وقت بے وقت پڑھتے رہنے کے لئے باوضو ہونے کی قید غلو پر مبنی ہے اس پر ’’اللہ بڑا نہیں بلکہ اللہ کا کلام بڑا ہے‘‘ کی بات صادق آتی ہے۔

حاصل کلام دین و مذہب وہ طریقہ بندگی و زندگی ہے جس کو خالق و رب نے اپنے بندوں کے لئے ایک تو اس لئے تجویز فرمایا ہے کہ وہ اپنی اصل و نسل میں ایک ہونے کی بناء پر دنیا میں ایک ہی خاندان و برادری بن کر امن و سلامتی کی زندگی بسر کریں ۔ دوسرے آخرت میں وہ اپنی من مانی عیش و راحت کی ابدی زندگی کے مستحق بنیں جس سے ثابت ہوا کہ ہمارے لئے سب سے اہم و عظیم مسئلہ موت کے بعد کی ابدی زندگی کا مسئلہ ہے یہی وہ مسئلہ ہے جس کے لئے سب سے زیادہ فکر و کوشش کرنا عقل و فطرت کا تقاضا ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔

اس لئے ابدی زندگی میں عذابِ الٰہی سے بچنے کیلئے قرآن کو سمجھ کر پڑھنا اپنا روز مرہ کا معمول  بنا لیا جائے چاہے وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو اور اپنے گھر والوں کو بھی اس میں شریک کر لیں یا ان کو قرآن سمجھ کر پڑھنے کا ہر ممکن طریقہ سے شوق و ترغیب دلائیں اور يُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ (الاعراف: ۱۷۰) (یہ کتاب کو مضبوط پکڑے ہوئے ہوتے ہیں) کے ارشادِ الٰہی کی روسے اصلاح کرنے کا یہی اوّلین و بنیادی طریقہ ہے۔

مساجد ہی میں نہیں بلکہ جہاں بھی ممکن ہو درسِ قرآن کے حلقے قائم کئے جائیں ۔ ہر مکتب و مدرسہ میں کلمے اور قرآن کی چھوٹی چھوٹی سورتیں اور دعائیں ترجمے کے ساتھ یاد دلائے جائیں جس سے نہ صرف نماز کی ادائیگی میں زبان کا ساتھ دل و دماغ بھی دے سکیں اور دعا (مغز و اصل عبادت) مانگتے یا کرتے وقت یہ شعور ہوگا کہ قادر مطلق  رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ سے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (چلا ہم کو اس سیدھے راستے پر جس کی منزل مغفرت و جنت ہے )جیسی اہم ترین چیز کی التجاء کر رہے ہیں۔

حصولِ ثواب اور صدقہ جاریہ کیلئے قرآن کے تراجم گھر گھر فراہم کئے جائیں انبیائی طریقہ کار  يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِنَا۝۰ۚ  ( القصص : ۵۹ ) (پیغمبر)  ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سناتے ہیں)  کے مطابق غیر مسلموں تک ان کی اپنی زبان میں مترجم قرآن پہنچائے جائیں ۔ اس طرح ہم اپنے مقصد وجود كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ  (آل عمران:۱۱۰) تم بہترین امت ہو جو (دوسرے)  انسانوں کیلئے وجود میں لائی گئی ہے) اور اُمَّۃً وَّسْطًا  (البقرہ :۴۳ ۱، الحج: ۷۸) (انسانوں پر گواہی دینے والوں ) کی فہرست میں شامل کئے جانے کے مستحق بن سکیں اور ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوْا بِہٖ (ابراھیم:۵۲)  (یہی بات انسانوں تک پہنچانا ہے اسی سے ان کو خبردار کرنا  ہے) کے انبیائی کام کو آگے بڑھانے پر ہی ہمارا  شمار بھی مَعْذِرَۃً اِلٰى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۝۱۶۴ (الاعراف) (ہم یہ کام اس لئے کر رہے ہیں کہ کل رب سے یہ عرض کر سکیں کہ ہم تیرا پیام تیرے بندوں تک پہنچائے ہیں اور شائد کہ ابدی زندگی کی تباہی سے ڈر کر وہ اصلاح کر لیں) کے زمرہ میں ہو۔ یہ کام کرنے پر ہی نہ صرف دنیاوی عذاب سے بچائے جانے کی (ھود : ۱۱۷) بلکہ اہل باطل کے بعد ہم تم کو زمین میں بسائیں گے (ابراہیم : ۱۴) کی بشارت ہے۔

 

  برکت  

تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِہِ الْمُلْكُ۝۰ۡوَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُ۝۱ۙ (الملک) بہت ہی بابرکت ہے وہ جس کی فرمانروائی ہے اور وہی ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا  ہے) ہر قسم کی برکت کا مالک صرف اللہ ہونے کی بات کئی جگہ فرمائی گئی ہے ۔ مثلاً اعراف آیت ۵۴ میں تَبٰرَكَ الَّذِيْ ( بابر کت ہے وہ اللہ) ، مؤمنون :۱۴، فرقان:۱،۱۰،۶۱ میں تَبٰرَكَ الَّذِيْ ( برکت کامالک صرف اللہ ہے ) ۔ اور برکت حاصل کرنے کا قانونِ الہٰی ’’قرآن کی روشنی میں عقائد و اعمال کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنا ہے‘‘۔ (سورہ مائدہ آیت ۱۶۶، اعراف آیت ۹۶) اس قانون پر عمل کرنے کی بجائے صدیوں سے برکت‘رات و دن اور ماہ میں تلاش کی جا رہی ہے۔ اٹل قانون الہی یہ ہے کہ گمراہیوں سے بچے بغیر جو بھی نیک اعمال کئے جائیں گے وہ تمام اعمال غارت ہو جاتے ہیں۔(انعام :۸۸، زمر:۶۵) اسی لئے گمراہی میں مبتلا ہو جانے کی باتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں جیسا کہ ارشاد ہے۔  وَمَا كَانَ اللہُ لِيُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ ہَدٰىھُمْ حَتّٰي يُبَيِّنَ لَھُمْ مَّا يَتَّقُوْنَ۝۰ۭ (التوبہ:۱۱۵) اور اللہ تعالی ایسا نہیں کرتا کہ لوگوں کو ہدایت بتادینے کے بعد گمراہ کرے جب تک صاف صاف ان باتو ں کو بیان نہ کرے جن سے بچنا لازمی ہے) ان میں سے ایک اہم بات قرآن میں ’’محکم‘‘اور متشابہہ دو قسم کی آیات ہیں ۔ محکم آیات ’’یہ کرو‘‘  (امر) اور ’’ یہ مت کرو‘‘ (نہی) ہی کتاب کی اصل ہیں اور متشابہہ آیات کی حقیقت کو اللہ کے سواء پیغمبر بھی نہیں جانتے اسی لئے ان پر صرف ایمان لانا ہے ان کا وہ مطلب لینا جو دوسری آیات قرآنی کے خلاف ہو دل کی کجی قرار دی گئی ہے۔(ال عمران:۷) مزید تاکید  وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ (بنی اسرائیل: ۳۶) اس چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہیں ہے) کیونکہ ان ہی باتوں کا علم دیا گیا ہے جن کی تم سے کل پوچھ ہوگی۔ مزید وضاحت ـ’’ہم نے تمہاری طرف کھلی کھلی باتیں نازل کر دی ہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کے واقعات اور ڈرنے والوں کیلئے بچنے کی باتیں ہیں ‘‘۔ ( النور: ۳۴ )

انسان کے لئے دو موت اور دو  زندگیاں ہیں۔ (بقرہ:۲۸،  مومن:۱۱) پہلی حالت موت میں قَالُوْ بَلٰی(بے شک آپ ہی ہمارے پالنہار ہیں) (اعراف ۔ ۱۷۲) کا اقرار کرنے کی حقیقت اللہ کے سوا پیغمبر بھی نہیں جانتے اسی لئے بیان نہیں کیااور نہ صحابہؓ نے دریافت کیالیکن دوسری حالت موت (برزخ) کے متعلق ایسی قیاسی باتیں کہنا جوقوانین قدرت کے قطعی خلاف ہیں کھلی دل کی کجی ہے۔ مثلا شہداء زندہ ہیں ، مردہ مت کہو لیکن وہ زندگی کیسی ہے اس کا شعور تم کو نہیں ہو سکتا (بقرہ ۔ ۱۵۴) (ال عمران ۔ ۱۶۹) میں مردہ مت سمجھو فرمایا گیا ہے سورہ مومن آیت ۴۶ میں ، آل فرعون کو صبح و شام آگ کے سامنے لائے جانے کی بات فرمائی گئی ہے۔ برزخ میں ہماری دوسری حالت موت میں بھی ہم زندہ ہوں گے، کی بات فرما کر اللہ نے خبردار کر دیا کہ اس زندگی کا تم کو شعور نہیں ہو سکتا اس کے خلاف مردہ پرستی ، قبر پرستی کا جواز نکال لیا گیا ہے۔ عُرس کئے جاتے ہیں حشر کے دن فیصلہ کے بعد ہی ہمارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دینے کا وعدہ الہی ہے (آل عمران۔۱۸۵) جس کو بار بار یاد دلایا گیا ہے جس کے خلاف عذاب قبر کی باتیں کہی جاتی ہیںمتشابہہ آیات کے بارے میں نبی کریمؐ نے فرمایا ’’کہ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہہ آیتوں کے پیچھے ہو لئے ہوں تو متنبہ ہو جاؤ کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی اللہ نے نشاندہی کی ہے۔  (آل عمران آیت۔۷) ان سے بچو (تفہیم البخاری باب ۶۱۴ پ ۱۸ نمبر ۱۶۶۱) اس قسم کی ہدایت صحیح مسلم میں بھی ہے۔ 

تشہد   : -

  اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبٰتُ اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ

تمام زبان کی عبادتیں اللہ کے لئے ہیں اور بدنی عبادتیں اور مالی عبادتیں بھی سلام ہو نبیؐ پر اور اللہ کی رحمت اور

 بَرَکَاتُہٗ ط اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَO اَشْہَدُ اَنْ لاَّ ٓاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُـہٗO

 اس کی برکتیں۔ سلامتی ہوہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسکے بندے اور پیغمبر ہیں۔

درود شریف  :  اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٓیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ط

  الٰہی محمدؐپر اور محمدؐ  کی آل پر رحمت بھیج جس طرح تونے رحمت بھیجیابراھیم علیہ السلام پر اور ابراھیم علیہ السلام کی آل پربیشک تو تعریف کیاگیا ہے بزرگ ہے۔

اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ  وَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔

 الٰہی برکت دے  محمدؐ  کو اور  محمد ؐ  کی آل کو جس طرح تونے برکت دی ابراہیم علیہ السلام کواور ان کی آل کو۔  بیشک تو تعریف کیا گیا ہے بزرگ ہے۔

درود  کے بعد کی دعا  : -

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّلَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔

   اے اللہ میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے اور سوائے تیرے اور کوئی گناہوں کو بخش نہیں سکتا،پس تو اپنی طرف سے خاص بخشش سے مجھ کو بخش دے اور مجھ پر رحم فرمادے بیشک تو ہی بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔

دونوں طرف کہے  :  اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ (ترجمہ:سلام ہوتم پراور اللہ کی رحمت)

فرضوں کے بعد یہ دعا پڑھے: اَللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَ مِنْکَ السَّلاَمُ وَ اِلَیْکَ یَرْجِعُ  السَّلَامُ

الہی تو سلامتی والا ہے اور تجھی سے سلامتی ہے اور تیری طرف سلامتی رجوع کرتی ہے۔

حَیِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلَامِ وَ اَدْخِلْنَا دَارَ السَّلاَم ِتَبَارَکْتَ

اے ہمارے پروردگار ہم کو سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ اور سلامتی کے گھر میں ہم کو داخل کر ،

 رَبَّنَا وَ تَعَالَیْتَ یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ۔

اے ہمارے پروردگار تو برکت والا ہے اور بلند ہے اے صاحب عظمت اور بزرگی والے۔