دعوت الی الخیر

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

دعوت الی الخیر

(بھلائی کی طرف بلاؤ)

 

بھائیو اور بہنو!  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ

ہرشخص مانتا ، جانتا اور دوسروں سے کہتا بھی ہے کہ ہرایک کو اِس کے اپنے کئے ہوئے اچھے  یابُرے اعمال ہی کا بدلہ ملے گا ، اورکسی پر رتی برابر ظلم نہیں کیاجائیگا۔ لیکن یہ کتنی بڑی نادانی اورجہالت ہے کہ اپنی ہی کہی ہوئی بات’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ کے خلاف خود نیک عمل کرکے اس کاثواب اپنے فوت شدہ رشتہ داروں یادوسروں کوپہنچانے کی اللہ تعالیٰ سے دعاء کرے۔ مثلاً فاتحہ خوانی، قرآن کی تلاوت یاختم قرآن ، زیارت سیوم ، دسواں، بیسواں، چہلم، برسی، عمرہ یاحج کرنا، مدرسہ، مسجد، مسافر خانہ، دواخانہ، یتیم خانہ بنانا، بورویل لگانا، مردوں کوثواب پہنچانے کیلئے ٹرسٹ قائم کرنا وغیرہ ایصالِ ثواب ہے۔ سوائے شیعہ حضرات کے کوئی بھی نہیںمانتا کہ ایک کے برے اعمال کی سزاء وعذاب دوسروں کوملے گا۔

غورکیجئے کہ ایصالِ عذاب کاانکارکرنا مگرایصال ثواب کوماننا کیا عقل مندی ہے؟

ایصالِ ثواب کا تعلق موت کے بعد کی زندگی یعنی عقیدے سے ہے اِس لیے ایصالِ ثواب کرنے کا حکم قرآن میں ہوناضروری ولازمی ہے لیکن قرآن میں اس کا حکم ہوناتوبڑی بات ہے بلکہ اشارہ تک بھی نہیں ہے بلکہ بیسیوں آیات میں ایصالِ ثواب کی نفی وتردید کی گئی ہے۔ مثلاً (۱) وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا وَلَا يُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ۝۴۸  (البقرہ)(اور ڈرواس دن سے جس دن ایک انسان دوسرے انسان کے رتی برابرکام نہ آسکے گا نہ کسی کی شفاعت ہی قبول کی جائے گی اورنہ کسی کافدیہ (جرمانہ)  لیاجائے گا مختصریہ کہ وہ کسی طرح بھی مدد نہیں کئے جائیں گے)  لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ۝۰ۭ (البقرہ: ۲۸۶)(نیک عمل جو بھی کرے گا اس کااجر اُسی کوملے گا اوربُرا عمل جوبھی کرے گا اس کا وبال اسی پرہوگا)۔ ان کے علاوہ اسی سورۃ کے آیات۱۱، ۱۲۳، ۱۳۴، ۱۴۱، ۲۰۲، ۲۵۴، اور ۲۸۱اور دیگر سورتوں میں بھی ایصالِ ثواب کی نفی وتردید موجودہے مثلاً آل عمران ۲۵، ۱۶۱، ۱۸۵ ، سورہ النساء ۳۲، ۸۵، المائدہ ۳۲، الانعام ۱۶۰، یٰسین ۱۲، الطور  ۲۱، النجم ۳۸، ۳۹،المنٰفقون ۱۰،۱۱، المدثر۳۸، الفجر ۲۴۔مختصر یہ کہ پورے قرآن میں ایصال ثواب کی نفی وتردید ہی تردید ہے جس سے معلوم ہواکہ ایصالِ ثواب قرآن کے بالکل خلاف ہے ۔ایصالِ ثواب کے غلط ہونے کی دوسری دلیل نبی کریم ؐ کی سنت یعنی عمل میںاس کااشارہ تک نہیں ہے حالانکہ آپ ؐ کی زندگی ہی میں آپ ؐ کے سامنے آپؐ کی دو ازواج مطہرات آپ ؐ کے صاحبزادے، صاحبزادی، آپؐ کے چچا حمزہ ؓ اور پچاسوں دیگر صحابہ کرام ؓ وفات پائے اورشہیدہوئے ان میں سے کسی کے لئے بھی آپ نے ایصالِ ثواب نہیں کیا۔ اگرآپؐ کئے ہوتے تو سینکڑوں احادیث بیسیوں راویوں کے ذریعہ ہم تک پہنچتیں ۔نبی کریمؐ کی سنت (عمل) میں ایصالِ ثواب کاجب ثبوت نہیں ہے توایصالِ ثواب کرنے کاآپؐ  حکم یااجازت نہیں دے سکتے، کیونکہ یہ معاملہ رسول  ؐ کی پیروی (اتباع رسولؐ)سے تعلق رکھتاہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہی سے نہیں بلکہ قرآن میں مذکورہ نبی کریمؐ کے اقرار واعتراف سے بھی قطعی ثابت ہے کہ آپؐ ہرگزہرگز قرآن کے خلاف نہ کوئی کام کیئے نہ کوئی حکم دیئے اورنہ اجازت دیئے اس لیے ایصالِ ثواب کے جواز میں جوقولی احادیث پیش کی جاتی ہیں ان کایاتوایصال ثواب سے غیر متعلق ہونایاان کاگھڑی ہوئی ہونا خود بخود ثابت ہوجاتاہے۔

یاد رکھیئے نبی کریم  ؐکے وصال پریابعد میں آپ ؐ کے لئے کسی صحابیؓ نے بھی ایصالِ ثواب نہیں کیا۔ حالانکہ یہ حضرات ‘نبی کریمؐ سے بے حد محبت کرتے تھے لیکن آج ہم نافرمان بارہ وفات یابارھویں کے نام سے ایصالِ ثواب کرکے اپنی عقیدت ومحبت کااظہارکررہے ہیں۔ جس پر بدعت کااطلاق ہوتاہے۔

ایصالِ ثواب غلط ہونے کی تیسری دلیل خلیفہ اوّل ابوبکر صدیق ؓ وفات پائے اورخلیفہ ٔ دوم عمرؓ وخلیفۂ سوم عثمان ؓ اورخلیفہ ٔ چہارم علیؓ شہیدکئے گئے ان کی نہ اولاد نے نہ رشتہ داروں نے نہ دیگر حضرات نے ان صحابہؓ کے لئے کوئی ایصالِ ثواب کیا۔ اگران صحابہؓ کیلئے ایصالِ ثواب کیاگیاہو تاتو ہزاروں روایات وآثار (صحابہؓ  کا قول وعمل ) کی شکل میں ایصالِ ثواب کی بات ہم تک پہنچتی۔

ایصالِ ثواب کے غلط ہونے کی چوتھی دلیل یہ ایک ناقابل انکار حقیقت واقعہ ہی ہے کہ ائمہ کرامؓ کے عمل میں بھی ایصالِ ثواب کااشارہ تک نہیں ملتا۔

غور کیجئے کہ دنیا میں جب یہ ممکن ہی نہیں کہ زیداپنے کھیت میں کاشت کرکے بکرکے کھیت میںپیداوار حاصل کرے اور نہ یہ ممکن ہے کہ دواکوئی کھائے اورصحت کسی دوسرے کوحاصل ہوجائے۔ نہ یہ ممکن ہے کہ امتحان ایک دے اور کامیاب دوسرا ہوجائے توپھر زندہ عمل کرکے اس کا ثواب مردوں کوپہنچانے کی بات کیسے درست ہوسکتی ہے۔ اعمال کی قبولیت کاعلم آخرت میں ہوگا دنیا میںنہیں تو پھرایصالِ ثواب کس چیز کاکیاجاتاہے غور کرلیاجائے۔

سب سے اہم مسئلہ اعمال کی قبولیت کاہے اورقبولیت کے شرائط الٰہی حسب ذیل ہیں:

(۱)  مقصدصحیح ہونا۔

(۲)ایمان کا شرک کے اجزاء سے پاک ہونا۔(الانعام:۸۲)

(۳)سنت رسولؐ اوراسوئہ صحابہؓ کے مطابق ہونا۔(النساء: ۱۱۵، التوبہ:۱۰۰)۔

(۴)دکھاوا(ریاء) سے پاک ہونا۔(البقرہ :۲۶۴)

(۵)بوقت عمل حالت اطاعت میں ہونا۔(المائدہ  :۲۷)

(۶)قبولیت کیلئے دعاء بھی کرنا۔(البقرہ  :۱۲۷)

ایصالِ ثواب کوجائز قراردینے کیلئے غیر متعلق(نذرومنت، وصیت حصولِ ثواب وصدقہ جاریہ کی) احادیث، منسوخ شدہ احادیث (ان کے روایوں کے فتوے وعمل ان کی اپنی روایت کردہ احادیث کے خلاف ہیں)اوربعض گھڑی ہوئی(جھوٹی) احادیث اور دعائے مغفرت کوخلط ملط کیا جاتا ہے۔ حالانکہ سب ہی مانتے ہیں کہ ایصالِ ثواب نہ فرض ہے نہ سنت نہ اسوہ صحابہؓ نہ ائمہ کا عمل جس سے خودبہ خود ثابت ہوجاتاہے کہ کسی نے غیر مسلموں کے طریقے کومسلمانوں کے بنا کر مسلمانوں میں رائج کردیاہے۔ چونکہ ایصالِ ثواب بظاہر ثواب حاصل کرنے کاسہل وآسان طریقہ نظر آتاہے اس لئے یہ اس قدر رواج پاگیا ہے کہ اس کوغلط کہناگویا عوام کوغلط قراردینے کے ہم معنی بن گیاہے۔

جوعوام میں اپنا مقام وبھرم حاصل کرنایابرقراررکھنا چاہتے تھے انہوںنے غیر متعلق احادیث وآثار اورجھوٹی احادیث واقوال الرجال سے اس کے جوازکوثابت کرنے کی کوشش کئےہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے عوام میںنماز، روزہ وغیرہ سے زیادہ ضروری ایصالِ ثواب کامعاملہ بن گیاہے۔ چنانچہ فرض نمازوں میں مسجدیں خالی رہتی ہیں۔ لیکن شب معراج، شب برأت ، شب قدر میں جگہ ملنامشکل ہوجاتاہے۔ نمازجنازہ میں شریک ہونااتنا ضروری نہیں سمجھاجاتاجتنا ایصالِ ثواب کرنا ضروری خیال کیاجاتاہے۔ یہاں تک کہ سودی قرض لیکر ایصالِ ثواب کیاجاتاہے اورایصالِ ثواب نہ کرنے پر ناک کٹ جانے، یالوگ کیا کہیں گے، کی باتیں کی جاتی ہیں۔ یاد رکھیئے کہ شیطان کازبردست دھوکہ یہ ہے کہ ظاہری ثواب کے کاموں کی اہمیت اس قدر بڑھادیتاہے کہ فرائض وواجبات کی اہمیت سے دِل ودماغ خالی ہوجاتے ہیں۔ البتہ ان کی اہمیت صرف قول کی حدتک محدود ہوجاتی ہے۔ غور کیجئے قانونِ الٰہی کی روسے مقصد کتناہی نیک ہو اس کوحاصل کرنے کا طریقہ وذریعہ بھی صحیح ودرست ہونالازمی وضروری ہے ورنہ نیکی بربادگناہ لازم کامعاملہ ہوگا۔ ( النساء : ۱۱۵ ) ایصال ِثواب کے نام پرکروڑہا روپیہ خرچ کر کے بدعت کے مرتکب ہورہے ہیں اسی پیسے سے لاکھوں افراد کے جہل کو دورکرنے اورہزاروں لڑکیوں کی شادیوں کابندوبست کیاجاسکتاہے۔ یاد رکھیئے ! ایصالِ ثواب پر ارشاد رسولؐ یَفْعَلُوْنَ مَالَایُؤْمَرُوْنَ(یہ وہ کام کرتے ہیں جس کا حکم انہیں نہیں دیا گیا ہے) کے جرم کااطلاق ہوتا ہے کیونکہ اس کیلئے نہ قرآن میںحکم ہے اورنہ رسول اکرم ؐ کی سنت سے، نہ صحابہ کرام ؓ کے اسوہ میںاورنہ ائمہ کے عمل میں اس کا اشارہ ملتاہے۔

·      حصولِ ثواب یاصدقہ جاریہ

ایمان والے اپنی زندگی ہی میں آخرت میں بدلہ پانے کے لئے ایسے کام کریں جس سے اللہ کے بندوں کودنیاوی اور دینی سہولت وفائدے پہنچے مثلاً قرآن کی تعلیم دینا، گھروالوں اور دوسروں کوصالح بنانے کی کوشش کرنا، مسجد ، مدرسہ، دواخانہ یامسافر خانہ بنانایابورویل لگانا، ٹرسٹ قائم کرنا اس کی ایک شکل وقف ہے۔ ایمان کا تقاضایہ ہے کہ ہم ایسے کام کرنے کی بھرپور کشش کریں اور دوست واحباب کوبھی اس کی ترغیب دیں۔

مرحومین کیلئے حسب ذیل باتوں کے انجام دینے کی ہم کوہدایت دی گئی ہے۔ نمازجنازہ مرحوم کے قرض کی ادائی ، اس کے اہل وعیال کی خبرگیری اوران کیلئے دعائے مغفرت کرتے رہنا ہے ۔بھائیو ! اور بہنو ! کیامسلمانی یہی ہے کہ اللہ ورسول ؐ کی کھلی نافرمانیاں کرتے رہنے پربھی سزا  وعذاب کاخوف ہم کو پریشان نہیں کرتا بلکہ غیر شرعی رسم، ایصال ثواب نہ کرنے سے ناک کٹ جانے سے ہم ڈرتے ہیں۔ نہ معلوم کس لمحہ موت ‘توبہ واصلاح کرنے سے ہم کومحروم کردے گی اس لئے عقلمندی یہی ہیکہ اسی وقت ہم اپنی نافرمانیوں سے توبہ کریں اور اپنے گناہوں کی معافی کیلئے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑائیں اوراپنے ایمان وعمل کی اصلاح کے لئے قرآن ترجمہ کے ذریعہ سمجھ کر پڑھیں کیونکہ یہ انسانوں کوہدایت دینے والی کتاب ہے۔(البقرہ۱۸۵)اور نصیحت حاصل کرنے والوں کیلئے نہایت آسان وسہل ہے جیسا کہ ارشادالٰہی ہے۔ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝ (القمر۱۷، ۲۲، ۳۲،۴۰)(یقینا ہم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان بنایا‘ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟)۔ اپنی اصلاح کرلینے کی توفیق دینے کے لئے اللہ تعالیٰ سے التجاء کیجئے کیوںکہ اللہ طالب توفیق ہی کوتوفیق دیتاہے۔ یہ ہرگز نہ بھولئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہربندہ کی چاہے وہ مسلمان ہو یاغیرمسلم، ایمان والاہویاکافر کی دعاء قبول کرنے کی گیارنٹی دیاہے۔ (البقرہ ۱۸۶)شیطان لعنتی کی دعاء قبول فرماکر اپنی گیارنٹی کی سچائی کاثبوت بھی دے دیا ۔ ( الحجر : ۳۶ ‘ ۳۷ ) حسب ارشادِ رسول ؐ دعاء تین طریقوں سے قبول کی جاتی ہیں۔ (۱) بعینہ ٖ  (۲) بالبدل(۳)ذخیرہ آخرت ’’آپ ؐ نے فرمایا کہ بندے کے ہاتھوں کوخالی لوٹانے سے اللہ تعالیٰ کوغیرت آتی ہے‘‘۔ جب بچہ ماں سے مانگ کر محروم نہیں رہ سکتا توہم رب ہی سے مانگ کرکیسے محروم رہ سکتے ہیں۔ باالخصوص جب کہ اسی نے ہم کوپیداکیا ہماری پرورش کیلئے کائنات بنایا‘ہرآن ہمارے وسوسوں کا تک علم رکھنے والا‘ رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہے۔ (ق  ۔ ۱۶) ایسے قادر وقدیر، حکیم پروردگارہی سے راست دعاء کرنے کاتاکیدی حکم خوداسی نے دیاہے۔ (المؤمن ۶۰)جس کی خلاف ورزی کا انجام بھی سنادیاہے۔(الفرقان ۷۷) ۔یاد رکھیئے !دوسروں کے لئے دعاء کروانا یادعاکرنا ایمان کا تقاضاہے لیکن میرے لئے دعاء کرویا دعائوں میں یادرکھو کی بات سنگین جرم ہے۔