قرآن کا تعارف

واپس فہرست مضامین

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان بار بار رحم کرنے والا ہے

 

قرآن کا تعارف

 

خالقِ فطرت نے محمد رسول اللہﷺ کے ذریعہ اپنے تمام بندوں کی ہدایت کے لئے علم و عمل‘ حکمت و دانائی کی جو روشنی عطا فرمائی ہے اس کا نام ’’القراٰن‘‘ ہے۔ قرآن کتاب اللہ ہے، کلام اللہ ہے، اس کے الفاظ اور جملوں کی ترتیب اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی ہے، خالقِ فطرت نے اس کتاب کو جن الفاظ میں نازل فرمایا بعینہٖ ان ہی الفاظ میں یہ کتاب لکھی ہوئی ہے۔ ایک ایسا واقعہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا یہ ہے کہ آج دنیا میں صرف یہی کتاب ہے کہ جس زبان ’’عربی‘‘ میں نازل ہوئی ہے بجنسہٖ وہ اسی زبان میں محفوظ ہے اور اس کتاب کی زبان آج بھی علمی و کاروباری حیثیت سے کسی ایک ملک میں نہیں بلکہ دنیا کے مختلف خطوں میں رائج ہے۔ آج اس آب و تاب کی کوئی کتاب دنیا میں نہیں۔ اس کتاب کا اندازِ بیان شروع سے آخر تک بتلارہا ہے کہ اللہ بزرگ و برتر اپنے بندوںسے مخاطب ہے اور اپنے بندوں کو اخلاق و اطوار درست کرنے اور زندگی کے تمام کاروبار و معاملات کو عدل و احسان کے ساتھ انجام دینے اور دنیا و آخرت کی فلاح حاصل کرنے کی ہدایت دے رہا ہے۔ یہی وہ نور ہے جس کے بغیر عقلِ انسانی اندھی ہے۔

تمام انسان چاہے ان کا تعلق کسی قوم‘ رنگ و نسل سے ہو ان کی یہ ایک فطری خواہش ہے کہ سب بھائی بھائی بن کر رہیں یہ خواہش اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک تمام انسانوں کا مطلوب و مقصود ایک نہ ہوجائے ان کے سونچنے‘ سمجھنے کا انداز ایک نہ ہوجائے اُن کی زندگی کے فرائض‘ ان کا نظامِ زندگی ایک نہ ہوجائے۔ انسان کی فطرت کا تقاضا یہی ہے اور یہی قرآنی تعلیم ہے اگر اسی ایک نکتہ پر اچھی طرح غور کرلیا جائے تو ’’القراٰن‘‘ کو خالص اللہ کا کلام تسلیم کرنے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔ قرآن کو ’’الکتاب‘‘ بھی فرمایا گیا ہے۔ ’’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ‘‘ جس میں اس جانب اشارہ ہے کہ اس کی تعلیم سے منتشر و پراگندہ انسان ایک ہی مرکز پر جمع ہوجاتے ہیں اور اس کا ایک نام ’’الفرقان‘‘ بھی ہے یعنی حق و باطل کا فرق ظاہر کر کے اس حقیقت کو پیش کرنے والا جس کو قبول کئے بغیر انسانیت کی تعمیر اور امن و سلامتی کی دنیا آباد نہیں ہوسکتی اور موت کے بعد کے شدائید سے انسان نجات نہیں پاسکتا۔

دینِ فطرت نیا دین نہیں

’’القراٰن‘‘ میں جس دینِ فطرت کی تعلیم ہے وہ کوئی نیا دین نہیں ہے آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک تمام انسانوں کے لئے ایک ہی دینِ فطرت نازل ہوتا رہا جس کا نام قرآنی اصطلاح میں ’’دینِ اسلام‘‘ ہے اس وقت دنیا میں جو مختلف مذاہب پائے جاتے ہیں وہ دینِ فطرت‘ دینِ اسلام ہی کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں جس کو لوگوں نے اپنا تفوق و برتری جتانے کے لئے بنالیا اور انسانی برادری کو اپنے خود ساختہ ادیان میں بانٹ دیا۔ ان آیتوں میں یہی حقیقت بیان فرمائی گئی ہے۔

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ ۝۱۹ (اٰل عمران) ترجمہ: (بلاشبہ دین (فطرت) اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔) اور اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا ۝۱۵۹ (انعام) ترجمہ: (لوگوں نے اپنا دین جدا جدا کرلیا اور مختلف گروہ بن گئے۔) نیز یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ اسلام صرف (ساڑھے تیرہ سو برس کا دین ہے) دراصل اسلام اور انسانیت کی پیدائش ایک ہی ساتھ ہے۔ انسانیت جتنی قدیم ہے اسلام بھی اتنا ہی قدیم ہے البتہ تمام دنیا کے لئے کامل و جامع صورت میں یہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا گیا۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ مسلمان‘ دینِ اسلام سے کماحقہٗ واقف نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صحیح نمائندگی نہیں کررہے ہیں، اِلا ماشاء اللہ ۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں بگاڑ ہی بگاڑ ہے اور مسلمان بھی اس غلط نمائندگی کی کافی سزا بھگت رہے ہیں۔ اب اس بگاڑ کو سنوارنے کے فطری تقاضے پیدا ہوتے جارہے ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ شائد دنیا سابق کی طرح پھر ایک مرتبہ دینِ فطرت‘ دینِ اسلام کو اختیار کرے اور دنیا کے سامنے پھر ایک دفعہ چھپی ہوئی حقیقت آشکارا ہوجائے گو بالآخر دنیا بگاڑ ہی پر ختم ہوگی۔

قرآن و گیتا ایک نہیں

ہمسایہ قوم کے مفکرین کو مسلمانوں کی غلط نمائندگی سے اور اپنے طور پر قرآن پڑھ لینے سے یہ دھوکا ہوا کہ وہ قرآن اور گیتا کو ایک ہی سمجھ بیٹھے۔ قرآن میں ان کو وہی نظر آیا جو گیتا میں ہے۔ یہ بڑا دھوکا ہے۔ گیتا کی تالیف کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اپنے مخالفین سے جدال و قتال پر آمادہ کیا جائے۔ گیتا میں نغموں اور افسانوں کے ذریعہ جدال و قتال کے انسانی جذبات اُبھارے گئے ہیں۔ ایسی کتاب کو اس الٰہی کتاب سے کیا مناسبت جس کی تعلیم سے انسانیت کی تعمیر اور انسانوں کی زندگی میں طہارت و پاکیزگی پیدا ہوتی ہے اور انسان اس قابل بنتا ہے کہ زندگی کے کاروبار کو عدل و احسان کی بنیاد پر انجام دے۔

قرآن الہامی کتاب بھی نہیں

دیگر مذاہب کی موجودہ کتابیں توریت‘ انجیل و زبور وغیرہ کی طرح ’’القراٰن‘‘ کو الہامی کتاب سمجھنا اور کہنا بھی ایک بڑا دھوکا اور غلطی ہے۔ توریت‘ زبور و انجیل تو بے شک الٰہی کتابیں تھیں مگر اب ان پر الٰہی کتاب کا اطلاق صحیح نہیں۔ کیونکہ وہ جس زبان میں نازل ہوئی تھیں وہ زبان بھی بدل دی گئی اور اس کے احکام اور مضامین کو بھی بدل دیا گیا۔ ’’القراٰن‘‘ جو اپنی اصلی حالت میں ردّ و بدل سے محفوظ ہے از اوّل تا آخر ’’وحی الٰہی‘‘ ہے وہ وحیٔ الٰہی جس کا تعلق بندوں کی اصلاح و ہدایت سے ہے۔ اس کی تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے احکام و ہدایات‘ اپنے خاص فرشتے جبریل امینؑ کے ذریعہ اپنے پسندیدہ بندوں‘ انبیاء علیہم السلام پر نازل فرماتا ہے جس کو جبریل امینؑ بجنسہٖ پہنچادیتے ہیں تاکہ انبیاء علیہم السلام خود بھی ان ہدایتوں پر پوری طرح عمل کریں اور تمام انسانوں کو بھی وحی کے مطابق بندگیٔ رب کی دعوت دیتے رہیں۔ وحی کے الفاظ و عبارت میں ان انبیاء علیہم السلام کو بھی ردّ و بدل کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے قرآن مجید کے علاوہ موجودہ مذہبی کتابوں پر الٰہی کتاب ہونے کا اطلاق ہوتا ہی نہیں۔ موجودہ توریت‘ زبور‘ انجیل‘ وید اور ژند کو الہامی کتاب کہا جاسکتا ہے مگر قرآن مجید کو الہامی کتاب کہنا‘ ناسمجھی ہے۔ الہام تو ہر انسان کو ہوتا ہے چاہے وہ شخص اپنے خود ساختہ طریقوں سے اپنی کتنی ہی اصلاح کرے، اور کتنا ہی دنیا سے بے تعلق رہے۔ مگر نفس کی شرارتیں چھپی رہتی ہیں۔ اس کے الہامات میں ماحول کے اثرات‘ اس کے طبعی رحجانات اور نفسانی میلانات شامل رہتے ہیں جس کو ملہم (جس پر الہام ہو) اپنے الفاظ و جملوں میں بیان کرتا ہے۔ وحی اور الہام میں یہی فرق ہے۔

قرآن ہی موجبِ سربلندی ہے

علم و ہدایت کا یہی وہ سرچشمہ ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ قوموں کو سربلندی عطا کرتا ہے اور اس کو نہ ماننے والوں کا درجہ گھٹا دیتا ہے۔ ’’اِنَّ اللّٰہَ یرفع بھٰذِا الْکتاب اَقوامًا وَیضع بِہٖ اٰخرین‘‘ (مسلم) ترجمہ: (بے شک اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعہ قوموں کا مرتبہ بلند کرتا ہے اور اس کے ذریعہ دوسروں کا درجہ گھٹادیتا ہے۔) رفعت و برتری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سیاسی و معاشی برتری ہی حاصل ہوجائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو کوئی قوم اس حیات بخش نسخۂ الٰہی ’’القراٰن‘‘ سے اپنے قلوب کو زندہ اور اپنے افکار و کردار کو نورانی بناکر نمودار ہوگی اس کو دیگر اقوام کی امامت و پیشوائی کا رتبہ بھی عطا کیا جائے گا۔ اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ عرب ہی نہیں بلکہ جس قوم نے بھی اس دستورِ رحمت‘ آئینِ بندگی کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنایا‘ دوسری قوموں نے ان کے آگے سرجھکایا اور ان سے انسانیت کا سبق سیکھا۔ آج بھی امت کے وہ افراد جو تعلیم و تربیت و کردار سے ’’ربانیین‘‘ بنے ہوئے ہیں اس عطیۂ الٰہی سے محروم نہیں ہیں۔

ایمان بالقرآن کا مفہوم

ایمان بالقرآن، قرآن کو اللہ تعالیٰ کی کتاب ماننے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ محض اس کی تعظیم کریں، آنکھوں سے لگائیں اور سر پر رکھیں۔ لیکن اس پر عمل کرنے سے پہلو تہی کریں اور نہ یہ مقصد ہے کہ صبح و شام صرف اس کی تلاوت ہوتی رہے اور پڑھ کر مُردوں کو ایصالِ ثواب کیا جائے بلکہ قرآن پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تلاوت غور و فکر کے ساتھ کی جائے اور اس سے نصیحت حاصل کر کے بگڑی ہوئی ذہنیتوں کو درست کیا جائے۔ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۲۹ (سورہ ص) ترجمہ: (یہ بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہلِ فہم نصیحت حاصل کریں۔) اور یہ کہ رحمتِ حق کے پیاسے انسان اس بابرکت کتاب کی ہدایتوں پر بہرحال و بہرصورت عمل کر کے خیر و برکت حاصل کریں اور عارضی و ابدی رحمتِ الٰہی‘ مغفرت و جنّت کے مستحق ہوجائیں۔ وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۱۵۵ۙ (سورہ الانعام) ترجمہ: (اور یہ بڑی بابرکت کتاب ہم نے نازل کی ہے سو اس کی اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو۔) قرآن پر ایمان لانے کا صحیح مطلب نہ سمجھنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج امت علماً و عملاً اتباعِ قرآن جیسی اللہ تعالیٰ کی نعمت سے بڑی حد تک محروم ہے، بے راہ روی میں مبتلا ہے جیسا ارشاد ہے کہ ’’ھوجل اللہ من اتبعہ کان علی الھدیٰ ومن ترکہ کان علی الضلالۃ‘‘ (مسلم) (قرآن) خدا کی رسی ہے جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پر ہے اور جس نے اس کو ترک کیا وہ غلط راہ پر پڑگیا۔) نیز ہم صرف اپنے حاملِ قرآن ہونے پر اکتفا کئے ہوئے ہے حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمادی تھی کہ ’’یا اھل القراٰن لا تتوسدوا القراٰن‘‘ ترجمہ: (اے اہلِ قرآن اپنے اہلِ قرآن ہونے پر بھروسہ نہ کر بیٹھو۔) اور یہ بھی تاکید فرمادی تھی کہ قرآ ن کی تلاوت سے نصیحت و ہدایت حاصل کرتے رہو ورنہ قرآن تمہارے سینوں سے نکل جائے گا۔ ’’استذکروا القراٰن فانہٗ اشد تفصّیا من صدور الرّجال عن النعم‘‘ قرآن کی تلاوت سے نصیحت حاصل کرتے رہو کیونکہ قرآن سینوں سے بہت جلد نکل جاتا ہے جیسے چوپائے گرفت سے نکل جاتے ہیں۔)

قرآن کی تلاوت یا تو صرف ایصالِ ثواب و حصولِ ثواب کے لئے رہ گئی ہے یا درس و تدریس اور مناظرہ وہ مجادلہ کے لئے۔ حافظ قرآن بننے اور بنانے کا جتنا شوق ہے عاملِ قرآن (قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے والا) اور عالمِ قرآن (قرآنی تعلیمات کو جاننے کے بعد خود عمل کرتے ہوئے دوسروں تک پہنچانے والا) بننے کا نہ اتنا شوق ہے اور نہ اتنی دلچسپی۔ قرآنی تعلیم کی طرف سے یہی بے توجہی و روگردانی‘ عام گمراہی کا سبب ہے۔

تفریقِ ملّت کی وجہ

امت میں جو مختلف گمراہ فرقے پیدا ہوگئے ہیں، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس مخزنِ علم سے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں قلب و نظر کو منوّر نہیں کیا گیا۔ کیونکہ قرآن مجید میں علم و حکمت کی جو تعلیم ہے وہ باطنی روشنی ہے اور اسوۂ حسنہ ظاہری روشنی ہے۔ انسان کی ہدایت و رہبری کے لئے دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اگر صرف باطنی روشنی ہو (یعنی قرآن) اور ظاہری روشنی (یعنی اسوۂ حسنہ یا سنتِّ رسولؐ) نہ ہو تو جس طرح انسان ٹھوکریں کھائے گا اسی طرح ظاہری روشنی ہو اور باطنی روشنی نہ ہو تو انسان ٹھوکریں کھائے گا اور اس کو منزلِ مقصود تک پہنچانے والی راہ راست نصیب نہ ہوگی یاد رہے کہ ابدی‘ اعلیٰ و لازوال زندگی ہی انسان کی منزل مقصود ہے۔ نیز یہ کہ اسوۂ حسنہ کو سمجھنے کے لئے صحابہ کرامؓ  کی روش کو پیشِ نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔

منزلِ مقصود کو راست پہنچانے والی راہ کا نام القرآن کی اصطلاح میں صراط مستقیم ہے اور وہ کتاب و سنت کا مجموعہ ہے۔ یعنی القرآن اور محمد رسول اللہﷺ کا اسوۂ حسنہ۔ جیسا کہ اس آیت کریمہ سے واضح ہوتا ہے۔ وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۝۰ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّـبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِہٖ۝۰ۭ ۝۱۵۳ (سورہ الانعام) اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو کہ مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔) اس آیت میں رسول کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ لوگوں سے کہیئے کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے پس تم اس پر چلو ورنہ گمراہ ہوجاؤگے۔ نیز اہلِ ایمان کو یہ جو تاکیدی حکم دیا گیا ہے وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ۝۰ۭ ۝۱۰۵ۙ (سورہ اٰل عمران) ترجمہ: (اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے (دین میں) باہم تفریق کرلی اور (نفسانیت سے باہم اختلاف کرلیا) ان کے پاس واضح احکام پہنچنے کے بعد۔) اس کا مطلب یہی ہے کہ کتاب و سنت کی واضح روشنی کو اگر اپنی عقل کا رہبر نہ بناؤگے تو تفریق ملت کی لعنت میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متنبہ فرمادیا تھا کہ میرے بعد کتاب و سنت ہی ایک ایسی مضبوط رسی ہے جس کو اگر مضبوط پکڑے رہوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ’’انی قد ترکت فیکم شیئین لن تضلوا بعد ھما ابدا کتاب اللہ و سنتی‘‘ (مستدرک حاکم) ترجمہ: (میں تم میں دو چیزیں کتاب اللہ اور اپنی سنت چھوڑے جاتا ہوں جس کے بعد تم کبھی بے راہ نہ ہوگے۔) ان تاکیدی ہدایتوں سے بے رخی برتنے کا نتیجہ ظاہر ہے کہ امت میں مختلف گمراہ فرقے پیدا ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں۔ مثلاً شیعہ‘ خارجی‘ قدری‘ جبری‘ قادیانی‘ بِہائی‘ آغا خانی‘ مہدوی وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صراحت فرمادی کہ ایک ہی فرقہ راہ نجات پر ہوگا اور وہ وہی ہوگا جس کی دانش و بینش و روش میرے اور میرے اصحابؓ کے طریقہ کے مطابق ہوگی۔ ’’ماانا علیہ واصحابی‘‘ (متفق علیہ)۔ ہر وہ شخص جو اپنے کو امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھتا ہے اس کے لئے سلامتی کی راہ یہی ہے کہ وہ اپنی دانش و بینش و روش کو اس معیار پر جانچے اور دیکھے کہ وہ صحابہ کرامؓ کے عقیدہ و عمل کے مطابق ہے یا نہیں۔ اور جو عقیدہ اور عمل بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرامؓ کے عقیدہ و عمل کے مطابق نہیں ہے اس کی اصلاح کرے۔ کیونکہ موت کے بعد پیش آنے والی شدید تکالیف سے محفوظ رہنے کی یہی واحد صورت ہے۔

فرقۂ اہلِ قرآن

آج ہر شخص قرآن مجید کی من مانی تاویلات کر کے گمراہی کے دروازے کھول رہا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسوۂ حسنہ اور روش صحابہؓ سے بے نیاز سمجھتا ہے اور اس طرح امت میں فتنہ پھیلاتا جارہا ہے مثلاً یہ کہ قرآن میں صرف تین ہی نمازیں فرض ہیں اور اللہ اکبر کہنے کا قرآن شریف میں ذکر نہیں ہے اور بقر عید میں کعبۃ اللہ کے سوا کسی اور مقام پر قربانی کا حکم نہیں ہے اور رسول اللہﷺ اور آپؐ کے آل و اصحابؓپر درود بھیجنے کا بھی کہیں حکم نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ قرآن مجید میں جو حکم ہے بس اسی کو مانو۔ شائد اسی لئے مخبرِ صادقﷺ نے ایسے ہوا پرست شکم پرور لوگوں سے پہلے ہی خبردار کردیا تھا منجملہ ان احادیث کے ایک حدیث ملاحظہ ہو۔ ’’عن ابی رافع قال‘ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا الفین احدکم متکئًا علٰی اریکتہٗ یاتیہِ الامرمن امری ممّا امرت بِہٖ اونھیت عنہ فیقول لا ادری ماوجدنا فی کتاب اللہ تبعناہ‘‘ (احمد‘ ترمذی‘ ابوداؤد‘ابن ماجہ) ترجمہ: (ابی رافع نے کہا کہ فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاتا ہوں میں تم میں ایک مغرور شخص کو کہ جب اس کے پاس میرا کوئی امریا نہی پہنچے تو کہے کہ میں اس کو نہیں جانتا میں تو جو کچھ کتاب میں پاتا ہوں اسی کی پیروی کرتاہوں۔) نیزآپ نے یہ بھی وضاحت فرمادی ’’الاوانی واللہ قد أمرت ووعظت ونھیت عن اشیاء انھالمثل القراٰن (الٰی اٰخرہٖ)‘‘ (ابوداؤد) ترجمہ: (خبردار رہو تحقیق قسم ہے اللہ کی کہ میں نے جو حکم دیاہے‘ نصیحت کی ہے اور بہت سی چیزوں سے منع کیا ہے وہ امر و نہی مثل قرآن کے ہے۔) ان ارشادات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہدایات و سنّتِ نبویؐ اور صحابہ کرامؓ  کی روش سے اعراض کر کے قرآن مجید کو سمجھنے کی کوشش کرنا بڑی ہی گمراہی ہے۔

روایات کی تقلید

افسوس ہوتا ہے کہ امت کا پڑھا لکھا دیندار طبقہ بھی روایات کی گھاٹیوں میں ایسا گھرا ہوا ہے کہ بزرگوں کے کشف و ارشاد سے ہٹ کر قرآن کو سمجھنا گناہِ عظیم سمجھتا ہے۔ کشف و ارشاد کی تعبیر قرآن کے تحت کرنے کے بجائے قرآنی آیات کی تعبیر و تفسیر کشف و ارشاد کے تحت کی جارہی ہے اور قرآن مجید کے محکمات کو سمجھنے کی بجائے متشابہات کو سمجھنا کمالِ علمی قرار دیا جارہا ہے۔ اس جامد تقلید کا نتیجہ یہ ہوا کہ وحدۃ الوجود‘ فنا و بقاء‘ تنزلات ستِّہ وغیرہ کو قرآنی و اسلامی تعلیم کا ایک اہم و اعلیٰ جز بنادیا گیا اور یہی قرب و صدیقیّت کی تعلیم قرار دی گئی اور قرآن کریم کو اسرار و غوامض کا مجموعہ سمجھ لیا گیا۔

 

 

نزولِ قرآن کا مقصد

قرآن مجید جس میں بندوں کو بندگی‘ انسانوں کو انسانیت سکھائی جارہی ہے جس کی دعوت اور جس کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں میں بندگی کا شعور بیدار رہے اور خود مختاری و آزادی کا پندار فنا ہوجائے اور آخرت کی خیر و ابقیٰ زندگی اور اس کے بلند مدارج کو بندے مطلوب و مقصود بنالیں۔ کیونکہ اسی سے طالب حق کے نفس کا تزکیہ ہوتا ہے اور قلب کی تطہیر۔ اور وہ مرد مجاہد‘ بندۂ جاں نثار و جاں باز اور خلیفۃ الارض بن سکتا ہے جس کے بغیر انسان کو آخرت کی خیر و ابقیٰ زندگی عطا نہیں کی جاتی۔

خلافت

انسان جو دنیا میں اللہ کا بندہ بھی ہے اور زمین کا خلیفہ بھی ہے اس کو بندگی کی تعلیم اس لئے دی جاتی ہے کہ اس میں خلافت (یعنی خلافتِ ارض) اور نیابتِ الٰہی کا شعور بیدار ہوجائے اور وہ فرائض خلافتِ ارض انجام دینے کے قابل بنے۔ خلافتِ ارض یہ ہے کہ انسان اپنی ذات اور اپنے دائرہ اثر و حکومت میں‘ چاہے وہ کتنا ہی محدود ہو‘ الٰہی تعلیم و ہدایت جاری و نافذ کرے اور جان و مال کے ضرر کا لحاظ کئے بغیر‘ ملامت کرنے والوں کی ملامت سے بے پرواہ ہوکر تمام انسانوں کو بھی دعوتِ خیر و صلاح دیتا رہے۔ مگر افسوس کہ بندگی و خلافتِ ارض کا یہ قرآنی و فطری شعور‘ انائے واحد‘ وجود واحد‘ اور یافت و شہود جیسے دلفریب و خواب آور تصورات میں گم ہوگیا۔ یہی وہ اسرار ہیں جو وحدۃ الوجود‘ فناء و بقاء وغیرہ کی تعلیم کا ماحصل ہیں یہی تعلیم‘ اللہ تعالیٰ کے اسماء ’’الحیّ القیّوم‘‘ کی تفسیر و تشریح اور رشد و ہدایت کے نام سے رائج ہے۔ بہ توفیقِ الٰہی عرض کرتا ہوں کہ یہ تعلیم نہ قرآنی ہے اور نہ نبویؐ یعنی اسلامی تعلیم کا اعلیٰ جز ہونا تو کجا ادنی جز بھی نہیں ہے۔ یہ تمام عجمی قوموں کے افکار ہیں جو غیر شعوری طور سے اسلامی تعلیم میں داخل ہوگئے۔ دین و کمالِ دین کی یہی گم صم‘ قوائے غور و فکر کو معطل کردینے والی تعلیم‘ صدیوں سے دنیائے اسلام میں رائج ہے۔ اس نام نہاد قرآنی تعلیم کو دیکھ کر اگر تعلیم یافتہ یا مذہبی طبقہ‘ افترائی ادیان والوں کی طرح یہ سمجھنے پر مجبور ہوجائے کہ دین الگ ہے اور سیاست الگ ہے تو ان بے چاروں کا کیا قصور۔ ورنہ دینِ حق کی تعلیم میں تو دینی حرکت و بیداری اور سیاسی حرکت و بیداری کا ایک ہی مفہوم ہے۔

قرآن فہمی

واقعہ یہ ہے کہ قرآن فہمی یعنی کلامِ الٰہی سے مرادِ الٰہی کو پانا ایک خدا داد نعمت ہے۔ وہبی سعادت ہے۔ اس نعمتِ عظمیٰ سے وہی بندے سرفراز کئے جاتے ہیں جو اللہ علیم و خبیر سے احتیاجِ علمی کی نسبت قائم کرلیتے ہیں اور فیضانِ علمی کے لئے صرف آستانہ علیم و خبیر پر سرافگندہ رہتے ہیں اور اپنے قصور و جہل کے اعتراف کے ساتھ ’’ربّ زدنی علما‘‘ ترجمہ: (اے میرے رب میرے علم میں زیادتی فرما۔) کا معروضہ بھی پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس رحمتِ خاص کا امیدوار بننے کے لئے چند خاص شرائط اور چند خاص اصول ہیں۔

شرائط

(۱)اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ سب سے زیادہ محبوب ہوجائیں جس کا حاصل یہ ہے کہ

الف)دنیا کے عیش‘ تنعم‘ جاہ‘ شہرت اور زر و مال کی طلب و حرص نہ رہے اور آخرت کی خیر و ابقیٰ زندگی اور اس کے درجات و فضائل کی طلب و حرص پیدا ہوجائے۔

ب)صورتاً و سیرتاً اتباع و اطاعت رسالتؐ ہو اور تمام افکار و اشغال اسوۂ حسنہ کے مطابق ہوں۔

(۲)روایات‘ کشف اور ماحول کے اثرات سے ذہن پاک ہو اور خرقِ عادات (کرامات) کا مطالبہ نہ ہو۔

(۳)اپنی خامی و کمزوری پر ہر وقت نظر رہے اور اس کی اصلاح کی جائے۔

(۴)اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر وقت علم و ہدایت کا جو فیضان ہوتا رہتا ہے اس وقت یہ ادراک (شعور) رہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ہی طرف سے ہے۔

(۵)اہلِ باطل سے بغض و عناد اور قلبی نفرت ہو چاہے وہ دیگر علوم کے کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں مگر دینِ الٰہی کا منکر ہونے کی وجہ سے ان کو جاہل جانے اور دین کے خلاف ان کی جو بات بھی سنے اس کو بکواس سمجھے۔

(۶)قلب میں کسی سے کینہ و حسد نہ ہو اور نہ اپنے ذاتی معاملات میں کسی سے شکوہ و شکایت۔

(۷)اظہارِ حق میں نہ کسی کا خوف ہو نہ کسی کی رو  و  رعایت۔

(۸)لغو اور فضول باتوں سے بالکلیہ اجتناب۔

(۹)امربالمعروف و نہی عن المنکر میں کوتاہی نہ ہو۔

اصول یہ ہیں

(۱)قرآنی دعوت اور نزولِ قرآن کا مقصد پیشِ نظر رہے۔

(۲)ایک آیت کی تفسیر دوسری محکم آیتوں کے خلاف نہ ہو کیونکہ قرآن کی ہر آیت پورے قرآن سے مربوط ہے اور آیاتِ محکمات ہی ام الکتاب ہیں یعنی علم و حکمت کی نہریں ہیں۔ ’’ھُنَّ اُمُّ الْکِتَابِ‘‘ (سورہ اٰل عمران: 7)۔

(۳)فطرتِ انسانی کو قرآن مجید سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ کیونکہ قرآن مجید خالقِ فطرت کا کلام ہونے کی وجہ سے صحیفۂ فطرت ہے آئینۂ فطرت ہے۔ ’’لَقَدْ اَنْزَلْنَـآ اِلَیْکُمْ کِتٰـبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ط اَفَـلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘ (سورہ الانبیاء: 10) ترجمہ: (یقینا تمہاری طرف ایک کتاب اتاری ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، کیا اس پر غور نہیں کرتے۔)

(۴)رسول کریمﷺ کا اسوۂ حسنہ اور صحابہ کرامؓ  کی روش پیشِ نظر رہے۔

(۵)قرآن کے مخاطبین کے حالات‘ کیفیات‘ قلبی واردات‘ شکوک و شبہات اور باطل خیالات‘ قرآن ہی سے معلوم کئے جائیں۔

عربی دانی‘ صرف و نحو کا ماہر یا سند یافتہ عالم ہونا لازمی شرط نہیں ہے۔

غیر اقوام میں قرآن کی اشاعت

غیر مسلم اقوام کے سامنے قرآن مجید کو ترجمہ ہی کی صورت میں پیش کرنا لاحاصل اور سعیٔ نامشکور ہے۔ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِـمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا۝۸۲ (اسریٰ) ترجمہ: (مگر ظالموں کے لئے خسارے کے سواء اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔) کیونکہ قرآن مجید میں حکمت و دانشمندی کی جو تعلیم ہے، انسانیت اور بندگی کا جو درس ہے اس کو سمجھنے کی صلاحیت اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی (یا پیدا نہیں کی جاتی) جب تک دعوتی کلمہ لا الہ الا اللہ اور بعد الموت کی حقیقی و ابدی زندگی کا یقین نہ ہو۔ ابدی زندگی کی وہ تفصیل جو قرآن مجید میں ہے اس پر ایمان لائے بغیر قرآن کی اخلاقی‘ سیاسی‘ معاشرتی تعلیم کتنی ہی شرح و بسط کے ساتھ کیوں نہ پیش کی جائے سنّتِ الٰہی یہی ہے کہ غفلت کے پردے چاک نہ ہوں اور قلب بیدار نہ ہو۔ وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا۝۴۵ۙ (سورہ اسریٰ) ترجمہ: (اور آپ جب قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپؐ کے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے درمیان ایک پردہ حائل کردیتے ہیں۔) صحیح طریق کار یہ ہے کہ غیر مسلم قوموں کے سامنے اولاً توحید خالص و آخرت اور رسالتِ محمدیہؐ پیش کی جائے یہی بنیادی چیز ہے۔ جیسا کہ اس کے ماقبل باب میں عرض کیا گیا ہے۔

’’قرآن مجید‘‘ سابقہ کتب کا مصدق (تصدیق کرنے والا) ہونے کا مطلب

پہلے انسان آدمؑ کے زمانے سے نزولِ قرآن کے زمانے تک اللہ تعالیٰ ہر ملک و قوم کے لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے لئے جو تعلیم نازل فرماتے رہے ہیں۔ قرآن کریم میں وہی تعلیم مکمل پیش کی گئی ہے اسی وجہ سے قرآن کا وصف مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ (سورہ البقرہ: 41) ترجمہ: جو کتابیں تمہارے پاس ہیں ان کی تصدیق کرنے والی (کتاب) فرمایا۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ پچھلی آسمانی کتابیں مکمل نہیں تھیں، تورۃ اور زبور کے لئے بھی تفصیل ’’لکل شیء‘‘ آیا ہے یا پھر مصدق کا مطلب بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب جو مذہبی کتابیں‘ آسمانی کتابوں کے نام سے مذہبی قوموں کے ہاتھوں میں ہیں۔ قرآن مجید ان کے صحیح ہونے کی تصدیق کرتا ہے اور شائد اسی غلط تصور کی بناء پر یہ کہا جاتا ہے کہ تمام موجودہ مذاہب حق ہیں۔ لفظ ’’مصدق‘‘ کی یہ بالکل غلط تعبیر ہے۔ قرآن مجید سے یہ ثابت ہے کہ سابقہ الٰہی تعلیم کے بہت کچھ اجزاء یا تو چھپا دیئے گئے یا ان میں انسانی خیالات و تجاویز بھی ملادی گئیں۔ چنانچہ اہلِ کتاب کے متعلق حق تعالیٰ فرماتے ہیں۔ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَــقَّ (سورہ البقرہ: 42‘ اٰل عمران: 71) ترجمہ: (کیوں ملاتے ہو حق اور باطل کو اور حق کو کیوں چھپاتے ہو۔) اس آیت کریمہ سے صاف ظاہر ہے کہ اب جو مذہبی کتابیں توریت و انجیل وغیرہ کے نسخے دنیا میں موجود ہیں ان میں حق و باطل ملا ہوا ہے اور بہت کچھ الٰہی تعلیم پوشیدہ ہوگئی۔ قرآن مجید ان کتابوں کا مصدق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں حق و باطل کے اجزاء کو الگ الگ کر کے جو حق ہے اس کو پیش کیا گیا ہے گویا اب قرآن مجید کے سوا کسی اور کتاب میں خالص حقّانی و ربّانی تعلیم موجود نہیں ہے۔ اسی لئے قرآن مجید کو ’’مھیمنا علیہ‘‘ (ان کتابوں کا محافظ) بھی فرمایا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اب تمام الٰہی تعلیم اس کتاب میں مکمل و محفوظ ہے۔ بالفاظِ دیگر مطلب یہ ہے کہ اب یہی ایک کتاب ہے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں) جس پر عمل کر کے ہر ملک و قوم کا انسان نجات پاسکتا ہے۔ انسانوں کے تمام قلبی امراض کا علاج اسی نسخۂ شفاء میں ہے، تمام انسانوں کا صرف یہی ایک الٰہی نظامِ حیات ہے۔

ایک ذہنی پستی

مسلمان جب باطل فلسفۂ الہٰیات سے دوچار ہوئے تو اس کے نظریات کی تردید کے لئے علم کلام ایجاد کیا اور اس کا نام معقول رکھا اور کتاب و سنت کا منقول یعنی وہ عقل کو دعوت نہیں دیتی (اللہ تعالیٰ معاف فرمائے) یہ بڑی لغزش ہوئی اور کتاب و سنت کی بڑی ناقدری۔ حالانکہ کتاب و سنت کی تعلیم میں جاہل و نادان انسان کو عقل و دانائی سکھائی گئی ہے۔ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۲۴۲ۧ (سورہ البقرہ) معقول کے مقابلہ میں اس کا نام منقول رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ تعلیم صرف نقل ہی نقل ہے۔ کتاب و سنت کی اس ناقدری کا ردِّعمل یہ ہوا کہ سوچنے سمجھنے کا انداز‘ کلامی ہوکر رہ گیا یا پھر کشفی۔ حالانکہ اس سرچشمۂ علم و حکمت (قرآن) میں باطل خیالات کی تردید کرنے کی بھی بہترین تعلیم ہے اور ایسے دلائل ہیں جس سے باطل کا دماغ پاش پاش ہوجاتا ہے۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَزَاہِقٌ۝۰ۭ ۝۱۸ (سورہ الانبیا) ترجمہ: (بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں تو وہ اس کا بھیجہ نکال دیتا ہے پس باطل فنا ہوجاتا ہے۔) دیکھئے مسلمان کب اس ذہنی پستی سے نکلتے ہیں اور صرف کتاب و سنت ہی سے عقل و دانائی حاصل کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔