خطبہ نکاح کے بارے میں اللہ و رسول کے احکام و ہدایت

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

خطبۂ نکاح کے بارے میں

اللہ و رسولؐ کے احکام و ہدایات

 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ !

 اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ نَسْتَعِیْنُہُ وَ نَسْتَغْفِرْہُ وَ نُوْمِنْ بِہٖ وَ نَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئٰاتِ اَعْمَالِنَا وَمَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّلَہُ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَ ھٰدِیَ لَہُ وَنَشْہَدُ اَنْ لاَّ ٓاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ نَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہٗ ۔ اَمَّا بعد۔( تمام تعریف و شکر صرف اللہ ہی کے لئے ہے ہم اسی کی تعریف و شکر ادا کرتے ہیں ہم صرف اسی سے مدد مانگتے ہیں اور ہم اسی سے بخشش کی درخواست کرتے ہیں اور ہم اسی پر ایمان لاتے ہیں اور ہم صرف اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہم اپنے نفس کی بری خواہشوں اور اپنے برے اعمال کے وبال سے بچانے کی اللہ ہی سے التجا کرتے ہیں اور اللہ جس کو ہدایت دیتا ہے اس کو کوئی گمراہ نہیں کر سکتااور اللہ جس کو گمراہ کر دیتا ہے پھر اس کے لئے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی ہمارا حاجت روا ، مشکل کشا، فریاد رس داتا نہیں اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں)۔

احکامِ الٰہی

 قَالَ اللہ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ وَ عَزَّوَجَلَّ ۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۔ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

(۱)يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا۝۱  ( النساء)( اے لوگو ! ابدی زندگی کے نقصان سے بچنے کیلئے دنیا کی زندگی میں اپنے پالنہار کی نافرمانی کرنے سے بچو ( جس کی قدرت کا یہ عالم ہے کہ) اسی نے تم کو ایک جان اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کر کے پھر ان دونوں سے (دنیا میں) بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائے (اور ہم ہیں کہ برتھ کنٹرول کر رہے ہیں۔حالانکہ تم اللہ کے اس قدر محتاج ہو کہ اپنا حق مانگنے کیلئے اس کے نام کی دہائی دیتے ہو) اور رشتہ داروں سے تعلقات بگاڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ تعالی تم پر ہر طرح نگران کار ہے)۔

 صرف تمہارے اعمال ہی سے نہیں بلکہ تمہارے وسوسوں تک کو جانتا ہے ۔ ( ال عمران:۲۹، ق : ۱۶) اور ہمارے ہاتھ ، پیر ، سماعت و بصارت ، جلد ، زبان اور  زمین کا  جہاں  ہم  زندگی بسر کرتے ہیں وہ سب ہمارے نیک و بد اعمال کی گواہی دیں گے۔ ( سورہ نور:۲۴، یٰسین : ۶۵ ، حٰم السجدہ : ۲۰ تا۲۲ ، الزلزال : ۴)

(۲)يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۰۲  ( آل عمران) ملحوظ رہے کہ خطاب بے ایمانوں سے نہیں ایمان والوں سے ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ (اے ایمان والو ! ( زندگی کے ہر معاملہ اور ہر کام میں) رب کی نافرمانی کرنے سے بچنے کی کوشش کرتے رہو کیونکہ اس سے ڈرنے کا حق یہی ہے کہ جب بھی ، جس حالت میں بھی ، اور جہاں بھی (گھر ،بازار، دفتر یا راستہ میں) موت آئے تو اس وقت تمہاری حالت رب کی اطاعت کرنے والے کی ہو۔)

(۳)  يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا۝۷۰ۙ  يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا۝۷۱  (الاحزاب)( اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو زندگی کے ہر معاملہ ( قول ہو یا عمل) میں اللہ کی نافرمانی کرنے سے بچنے کی کوشش کرو اور بات کرو تو راستی کی بات کیا کرو اور اپنے عمل سے اپنی بات میں سچے ہونے کا ثبوت دیا کرو، تم ایسا کرنے کی کوشش کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح کر دیگا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا اور جو کوئی بھی اللہ و رسولؐ کی فرمانبرداری کرے گا پس وہی یقینا کامیاب ہوگا یہ بہت بڑی کامیابی ہے) یعنی مغفرت و جنت کا مستحق ہوگا) ۔

 دنیا دار العمل و دار الاسباب ہے جہان عمل کئے بغیر اور اسباب ظاہری و مادی اختیار کئے بغیر ایک گھونٹ پانی کا ملنا بھی ناممکن ہے چنانچہ جنت ہو یا دوزخ کے متعلق فرمایا گیا۔ جَزَاۗءًۢ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝ ( واقعہ :۲۴، طور:۱۶، مومن:۱۷، احقاف:۱۴، صافات:۳۹، یٰسین:۵۴) یہ بدلہ تمہارے اس کسب کا جو تم دنیا میں کرتے تھے) ان اٹل قوانین الہی کے خلاف آج ہم وظائف اوراد‘چلے‘ مراقبے‘ میلاد کے جلسے و جلوس درود کی مجالس، آیت کریمہ کے دسترخوان ، ختم قرآن ، ختم بخاری اور کلمہ طیبہ کے ختم سے نیکی و ثواب و برکت کو حاصل کرنے کی اور نقصان و تکلیف سے بچنے کی چکر میں لگے ہوئے ہیں۔

احکامِ رسولﷺ

قال رسول اللہﷺ(۱) النّکاح من سنّتی ( نکاح کرنا  میرا طریقہ ہے۔)  دوسری  جگہ  فرمایا  : (۲) فمن رغب عن سنّتی فلیس منّی( پس جو کوئی میرے طریقے سے منہ موڑا  وہ میرا  امتی نہیں۔) (۳)الدّنیا کلّہا متاع و خیر متاع الدّنیا المرء ۃ الصّالحۃ (پوری دنیا دراصل زندگی بسر کرنے کا سامان ہے اور بہترین سامان زندگی صالح بیوی ہے)۔(۴) واتّقوا اللہ فی النّساء (عورتوں کے حقوق ادا کرنے میں اللہ کی نافرمانی کرنے سے بچو۔ ماں ، بہن، بیوی اور بیٹی کے حقوق ادا کر کے اللہ و رسولؐ کے جو ارشادات پڑھے گئے وہ سب منتر یا برکت یا ثواب کیلئے نہیں بلکہ ان میں وہ اہم بنیادی امور کی یاد دہانی کرائی گئی ہے جن کو زندگی کے ہر معاملے میں پیش نظر رکھنا ایمان والے اور مسلمان ہونے کیلئے لازمی و ضروری ہے)۔

جس طرح جانور کھاتا پیتا اور جنسی خواہش کی تکمیل کرتا ہے اسی طرح ہم بھی کرتے ہیں لیکن جانور کے پاس آنے والے کل کی فکر نہیں ، پس ثابت ہوا کہ ہم میں اور جانور میں بنیادی فرق مستقبل کی ابدی زندگی کی فکر ہی کا ہے اسی لئے ابدی زندگی سے غافل و بے پروا لوگوں کے متعلق فرمایا گیا۔

لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ۝۱۷۹ (الاعراف) ابدی و عارضی نفع نقصان کے فرق معلوم کرنے کے لئے دماغ دئے اور دیکھنے کے لئے آنکھیں دیں اور کان دئے لیکن انہوں نے ابدی زندگی کے نفع نقصان کے معاملہ میں نہ عقل سے نہ بصارت سے اور نہ سماعت سے کام لئے بلکہ دنیا ہی حاصل کرنے میں ان سے خوب کام لئے ایسے ہی لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے چنانچہ یہ ابدی زندگی کے نفع و نقصانات سے (قطعی) غافل ہیں۔ ہم سب کا پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالی ہی ہے اسی لئے پوری کائنات (آسمان، سورج ، چاند، تارے ، ہوا ، پانی‘ زمین) پیدا کر کے ہماری پرورش فرمارہا ہے جس میں کوئی فرشتہ ، پیغمبر، بزرگ اور جن کا کسی لحاظ سے بھی شریک و دخیل نہیں اور ہماری تمام ضروریات اللہ ہی کے پیدا کردہ اسباب و ذرائع سے پوری ہو رہی ہیں ۔ حتیٰ این کہ ایک لقمہ کھانا، ایک گھونٹ پانی بھی ، اس کے برخلاف جادو، تعویذ، گنڈے، دم، نحوست وبرکت ، نظر بد وغیرہ کی تمام باتیں محض شیطان کے پیدا کردہ وہم ہیں جن میں ہم کو مبتلا کر کے مستحق دوزخ بناتا ہے۔ (اعراف: ۱۷) ۔

ہم سب ایک مرد آدمؑ اور ایک ہی عورت حوّا ؑ کی اولاد ہیں چنانچہ ہماری پیدائش و موت ، ضروریات ، خواہشات ، نفع و نقصان حتی این کہ جذبات شادی و غم بھی ایک ہی ہیں اور ان کے پورا کرنے کے ذرائع و اسباب بھی  ایک ہی ہیں ہم سب کا مقصد زندگی بھی ایک ہی ہے یعنی نقصان و تکالیف سے بچتے ہوئے راحت و آرام حاصل کرنا ہے۔ اسی لئے تمام انسانوں کے لئے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ صحیح ہو سکتا ہے وہ یہ کہ پیدا کرنے والے اور پالنے والے کی فرمانبرداری کی جائے یہی دین اسلام ہے۔ باالفاظ دیگر ہم سب کو اس دنیا کی زندگی کے تمام معاملات میں اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر کرنے کی کوشش کرکے من مانی عیش و راحت کی ابدی زندگی کے مستحق بننا ہے۔ یہی وہ اہم کام ہے جس کو انجام دینا خیر امت پر فرض کر دیا گیا ہے۔ كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ ( اٰل عمران: ۱۱۰) تم بہترین اُمّت ہو جو لوگوں کے لئے وجود میں لائی گئی ہے تم کو اچھی بات ( اور اللہ ہی کے اکیلے معبود ہونے ) کا حکم دینا اور بری بات (پرورش کے معاملے میں کسی کو بھی کسی لحاظ سے شریک کرنے) سے منع کرنا ہے کیونکہ تم اللہ پر ایمان رکھنے والے ہو) دنیا کے تمام انسانوں تک دامے ، درمے ، سخنے اس پیغام کو پہنچاتے رہنا خیر امت کا فریضہ حیات و مقصدوجود ہے۔اُمّت اس وقت تک خیر نہیں بن سکتی جب تک کہ اس کی بنیادی اکائی (میاں بیوی) خیر نہ ہو۔ اس اکائی کو خیر بنانے کے لئے نکاح کا طریقہ مقرر کر کے اس کے متعلق احکام و ہدایات دئے گئے۔ ہم صرف اللہ ہی کے بندے ہیں اس لئے اپنے ہر عمل کو بندگی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ دنیا میں حکومت کے حکم کی خلاف ورزی کرنے پر تو جیل یا جرمانہ بھگتنا پڑتا ہے اسی طرح اللہ کے کسی قانون کی نافرمانی کرنے سے عذاب بھگتنا ہوگا۔ قانون الہی تو یہ ہے کہ ایک نافرمانی تمام نیکیوں کو باطل کر دیتی ہے۔ (محمد:۳۳) اے نبی ایمان والوں سے کہدو کہ اللہ و رسول کی فرمانبرداری کرو اگر منہ موڑ لو گے تو جان لو کہ اللہ انکار کرنے والوں کو ہر گز پسند نہیں کرتا ( ال عمران :۳۲) اس طرح ثابت ہوا کہ نکاح ایک عبادت ہے جس کو اللہ و رسول کے احکام و ہدایت کے مطابق انجام دینا ضروری ہے چونکہ عبادت میں ایک خلاف ورزی عبادت کو باطل کر دیتی ہے ۔ اسی طرح نکاح کا معاملہ بھی ہے ۔ جس کے متعلق احکام دئے گئے۔

(۱)مشرکین سے نکاح کرنے سے منع کرتے ہوئے انکی بجائے ایمان والے غلام و لونڈی سے نکاح کرنے کو خیر (بہتر) فرمایا گیا ہے ۔ منع کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ مشرک اپنے ساتھ تم کو بھی آگ کا مستحق بنادیں گے ۔( البقرہ : ۲۲۱)

(۲)بد کردار عورت ،  بد کردار یا مشرک مرد سے اور بد کردار یا مشرک مرد بد کردار یا مشرک عورت سے نکاح کرتا ہے۔ بدکرداروں سے نکاح کرنا اہل ایمان کیلئے حرام قرار  دیا گیا ہے۔ ( نور : ۳ )

(۳)گندی عورتیں گندے مردوں کیلئے گندے مرد گندی عورتوں کے لئے اور پاکیزہ سیرت عورتیں پاکیزہ سیرت مردوں کیلئے اور پاکیزہ سیرت مرد پاکیزہ سیرت عورتوںکیلئے موزوں ہوتے ہیں۔ (نور:۲۶)

(۴)ایمان والی عورت کافروں کیلئے اور کافر مرد ایمان والیوں کیلئے حلال نہیں ہے ( الممتحنہ:۱۰)

(۵)حکم دیا کہ بیوی کی جوباتیں تم کو نا پسند ہوں تو تم ان کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی اچھائیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے خوبی کے ساتھ زندگی بسر کروگے تو اللہ تمہارے لئے خیر کثیر فرمادے گا (النساء:۱۹)  اور خبر دار کر دیا کہ اور جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے ان سب کا اکیلا مالک صرف اللہ ہی ہے اور ہم نے تم سے پہلے کے ایمان والوں کو اور تم کو تاکیدی حکم دیا ہے کہ اللہ کی نافرمانی کرنے سے بچنے کی کوشش کرو اگر نافرمانی کرو گے تو جان لو کہ اللہ ہر ایک سے بے نیاز اور اپنی ذات میں تعریف کیا ہوا ہے ( النساء:۱۳۱) یاد رکھو جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے ان سب کا اللہ اکیلا مالک ہے اگر نافرمانی کرنے سے بچنے کی کوشش کروگے تو جان لو کہ تمہاری کارسازی کے لئے اللہ کافی ہے( النساء:۱۳۲) سورہ طلاق میں بارہ آیتیں ہیں ان میں چار مرتبہ ازواجی زندگی کے بارے میں رب کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے بچنے کی کوشش کرو گے تو فرمایا کہ اللہ تمہارے مشکلات سے نجات پانے کے اسباب پیدا کر دے گا ، ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے تم کو گمان بھی نہ ہوگا۔

 (۶)اور فرمایا کہ جو اللہ کی نافرمانی کرنے سے بچنے کی کوشش کرے گا تو اللہ اس کی مشکلات میں اپنے حکم سے آسانیاں پیدا کر دے گا۔

 (۷)اور فرمایا جو اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے بچنے کی کوشش کرے گا تو اللہ اس کے گناہ معاف کر کے اس کو بڑا اجر دے گا۔

(۸)اور فرمایا اے عقل والو اللہ کے تیار کردہ شدید عذاب سے بچنے کی کوشش کرو۔( طلاق:۱۰)

ہدایت رسولﷺ

(۱)حسن، دولت، نسب کی بجائے صلاحیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نکاح کیا کرو۔

(۲)دنیا کی زندگی محض آزمائش ہے جس میں کامیاب ہونے میں صالح بیوی تمہاری مددگار ہوگی۔ وہ تم کو بھی نافرمانی کرنے سے روکے گی بالغ لڑکی کے جوڑ کا رشتہ ملتے ہی نکاح میں دیر نہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ ہدایت رسولؐ ہے کہ نکاح کو اس قدر آسان بنادو کہ زنا مشکل ہو جائے اس کے لئے فرمایا کہ سب سے بابرکت وہ نکاح ہے جس میں کم سے کم خرچ ہو۔

نکاح

 نکاح کے لئے صرف مہر ، ایجاب و قبول اور دو گواہ ضروری ہیں مہر معجل بوقت نکاح ادا کیا جاتا ہے مہر موجل جو نکاح کے بعد اس کو ادا کرنے کی نیت و ارادہ ہونا ضروری ہے ورنہ نکاح درست ہی نہ ہوگا۔ مہر کا مقرر کرنا لڑکی کا حق ہے مہر موجل سکہ کی بجائے چاندی یا سونے کی شکل میں مقرر کیا جائے تاکہ عورت کا نقصان نہ ہو۔ ملحوظ رہے کہ نبی کریمؐ کی کسی بیوی کا مہر بھی پندرہ سو سال پہلے ) پانچ سو درہم سے کم نہ تھا۔ لڑکے والوں کو مہر میں کمی کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ مہر ادا کرنے کی ہمت نہیں ہے تو ایمان والی لونڈی سے نکاح کرے۔

اخراجات نکاح۔ غور کیجئے  :-

 اللہ تعالی اپنے ماننے والوں کو ہدایت دیا ہے کہ وہ اپنی ذاتی پیسہ خرچ کر کے شریک حیات لائیں (النسائ: ۲۴) چنانچہ فاطمہؓ کے لئے گرہستی (جہیز) کا سامان علیؓ کے پیسوں سے فراہم کیا گیا ۔ اور ہم ہیں کہ لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں نوشہ کی طرف سے جو چیز بھی دلہن کو چڑھائی جاتی ہے وہ بالکلیہ دلہن کی ذاتی ملکیت ہو جاتی ہے جسکا واپس لینا حرام ہے دی ہوئی چیز واپس لینا قئے کر کے قئے کو چاٹنا ہے۔ ایمان والے مردوں کے لئے سونا چاندی کا استعمال حرام قرار دیا گیا ہے اس کے باوجود نوشہ کو انگوٹھی چڑھائی جاتی ہے اور تحفہ میں دی جاتی ہے۔

تمام رشتہ داروں اور دوستوں کو دعوت دینا فرض ہے نہ سنت نہ صحابہؓ کا طریقہ ۔ چنانچہ عبدالرحمن بن عوفؓ نے اپنے نکاح کرنے کی اطلاع بھی نبی کریمؐ کو نہیں دی تھی ۔ سلامی دینا نہ فرض ہے نہ سنت نہ صحابہ کرامؓ کا طریقہ ۔ بلکہ غیر مسلموں کا طریقہ ہے۔ جس سے بچنا ضروری ہے تاکہ نکاح ( جو کہ عبادت ہے) میں شرکت کرنا گراں نہ بن جائے۔ نکاح کے دوسرے یا تیسرے دن حسب استطاعت لڑکا ولیمہ کرے نہ کہ دلہن والوں کی رقم ملا کر عشائیہ کا اہتمام کرے۔ نکاح اپنے وقت مقررہ پر انجام دینے کی ہر ممکنہ کوشش کی جائے۔ تاخیر دعوتیوں کے وقت کی بربادی کا سبب ہو گی جس کا وبال دعوت دینے والوں پر ہوگا۔ جس معاملہ میں بھی اللہ ورسول ؐ کی ہدایت موجود ہو اس میں اپنی خواہش یا ماحول کے دباؤ سے یا آرزو ارمان کے نکالنے کے بہانے خلاف ورزی کرنے والاکھلا گمراہ ہو جاتا ہے۔ (الاحزاب:۳۶)

(۳)غیر مسلموں کے وہ طور طریقے ر رسم و رواج جو اللہ و رسولؐکے ہدیت کے خلاف ہیں ان کو اختیار کرنے والے کافر ہو جاتے ہیں ۔ اور ان ہی میں سے ہو جاتے ہیں ( ال عمران:۱۰۰، النساء:۱۴۰، الانعام:۱۴۰)

ارشاداتِ رسولﷺ: غور کیجئے :-

(۱)ایمان والا جب نافرمانی کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل جاتا ہے ۔ اگر وہ توبہ کرتا ہے تو پھر لوٹ کر آجاتا ہے۔

(۲)تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات نفس میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو۔

(۳)جو میری سنت (طریقہ) کو محبوب رکھتا ہے وہی دراصل مجھ سے محبت رکھنے والا ہے اور جو بھی میری نافرمانی کرتا ہے وہ میرا انکار کرنے والا ہے۔

(۴)جو میری سنت (طریقہ) کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے۔

 

 

قانونِ الٰہی

 جو رسولؐ کی فرمانبرداری کرتا ہے وہ دراصل اللہ کی فرمانبرداری کرتا ہے ( النساء: ۸۰)  جو رسولؐ کی پیروی کرتا ہے صرف وہی رسول ؐ کی اُمّت کا فرد ہو سکتا ہے (اٰل عمران: ۳۲، ابراھیم:۳۶)  ذیل میں چند نافرمانیوں کو بیان کیا جاتا ہے جو نکاح کو عبادت کی بجائے رسم بنا دیتی ہیں جشن کرنا، لین دین، جوڑا گھوڑا، سانچک مہندی، سہرا، باجہ ، ناچ ، رنگ ریکارڈنگ، لائٹنگ، فوٹو، ویڈیو گرافی جس سے پردے کے احکام کی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ شرمگاہ کی حفاظت کے لئے مردوں و عورتوں کو نظر نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ۔ ( نور : ۳۰ ، ۳۱ ) سجاوٹ ، طعام، چوتھی، جمعگی ، گراں قیمت دعوت نامے ، جیسے تمام کام غیر مسلموں کے طور طریقے ہیں جن سے بچے بغیر نکاح آسان و بابرکت نہیں ہو سکتا۔ آرزو ارمان نکالنے کی چکر میں یا برادری یا خاندان میں ناک کٹنے سے بچنے کے لئے اللہ و رسولؐ کی نافرمانیاں کرنا خود اپنے مسلمان ہونے کی نفی و تردید کرنا ہے چنانچہ دکھاوے کے لئے کام کرنے والوں کے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کی نفی کی گئی ہے ( البقرہ:۲۶۳، النساء:۳۸) اسراف ، ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے والے کو اللہ تعالی پسند نہیں فرماتا ۔ فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے یعنی رسومات میں پیسہ خرچ کرنا فضول خرچی ہے اور ضرورت سے زیاد ہ خرچ کرنا اسراف ہے (بنی اسرائیل:۲۷) ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کروڑوں انسانوں کو ایک وقت بھی پیٹ بھر کھانا ، تن ڈھانکنے کو مناسب کپڑا اور سر چھپانے کو جھونپڑی بھی میسر نہیں ۔ خود ہمارے اپنے خاندان میں بیسیوں افراد تنگدستی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ کتنے لڑکے و لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں کتنے بیمار مناست علاج کروانے کی طاقت نہیں رکھتے اور سب سے اہم بات اللہ کے دین کی اشاعت و تبلیغ جو ہم پر فرض ہے جس سے ہم غافل ہیں ان سب باتوں سے آنکھیں اور کان بند کر کے دھوم دھام فضول خرچی، اسراف سے اپنے ہی بھائی بندوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں ۔ یہ بے حسی و غفلت ایمان والوں کے اوصاف نہیں ہو سکتے ۔ ملحوظ رہے کہ صرف نکاح کے معاملہ میں اللہ و رسولؐ کے احکام و ہدایت کی نافرمانی سے صرف دنیا ہی میں ہم جس عذاب میں گھر گئے ہیں وہ محتاج بیان نہیں پھر آخرت میں عذاب سے بچنا کیسے ممکن ہوگا۔ لڑکی کی پرورش پر بشارت کو نحوست میں بدل دیا گیا ہے۔، لین دین کی بناء پر رشتہ کرنے والے کان کھول کر سن لیں کہ حشر کے دن مالک الملک لڑکی سے پوچھے گا۔ وَاِذَا الْمَوْءٗدَۃُ سُىِٕلَتْ۝۸۠ۙ  بِاَيِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ۝۹ۚ (التکویر)( اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم پر قتل کی گئی) تو جہیز کی بنا پر رشتہ کرنے والوں کا انجام کیا ہوگا محتاج بیان نہیں غور کیجئے کتنے خوش حال ، تنگدست اور سود کی لعنت میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔ جس برائی کا نام بھی مسلمانوں کی زبان پر آنا اللہ کو قطعی پسند نہیں وہ ہمارے معاشرہ میں معمولی سی بات بن گئی ہے۔ جھوٹی واہ واہ ، کھوکھلی نمائش کی بجائے اللہ و رسولؐ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی کوشش کیجئے جس سے وہ حقیقی سکون و طمانیت قلب حاصل ہو گا جو کسی اور طریقے سے حاصل ہونا ممکن نہیں یاد رکھئے اللہ و رسولؐ کی نافرمانی سے بچنے کی کوشش کرنے ہی سے ہم دوزخ سے بچائے جا سکتے ہیں ورنہ نہیں۔  دولہا اور دلہن اللہ کے راستہ میں حسب حیثیت خرچ کرنا نہ بھولیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اے دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت و فرمانبرداری کی طرف پلٹا دے۔  آمین ثم آمین۔