یاسر کی شہادت

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

یاسر کی شہادت

ماخوذ کمی و بیشی کے لئے معذرت خواہی

 

آر۔ا یس ۔ا یس کے ایک رکن نے ’’کب ‘‘اور’’ کیوں‘‘ اسلام قبول کیااورقبول کرنے کے بعد شہید کئے جانے تک الہٰی ونبویؐ طریقہ پریعنی ابدی زندگی کی تباہی سے بچنے اوربچانے کی لوگوں کودعو ت دیتے رہنے کی روداد پیش ہے تاکہ ’’اصلاح و تبلیغ‘‘ کرنے والوں کیلئے عبرت اور دوزخ سے بچنے والوں کے لئے نصیحت اور مستحقِ جنّت بننے والوں کے لئے نمونہ عمل ہو۔

ضلع ملاپورم میں تروّر کے قریب ایک بستی میں گوپالن اور ایپن نامی دوافراد سنارکاپیشہ کرتے تھے۔ ایپن آر۔ایس۔ا یس کے ممبرتھے ایک دن کیسٹ کے ذریعہ ملیالم زبان میں قرآن کا ترجمہ سنے جس میں باربار بتایاگیا کہ تمام مخلوقات کاپیدا کرنے والاہی اکیلا وتنہاسب کی پرورش و حاجت براری کر رہا ہے۔ انسانوں کو  ان کے اقرار   قَالُوْا بَلٰي۝۰ۚۛ  (بے شک آپ ہی ہمارے پالنہارہیں) (اعراف  : ۱۷۲) کے معاملہ میں امتحان وآزمائش کی غرض سے دنیا میں چنددن تک عمل کرنے کیلئے پیدا کیاگیا۔ان کے اعمال کی جزاء دینے کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک دن مقررکیاگیاہے۔ ان سب کیلئے ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ کاایک ہی قانونِ جزاء مقرر کیا گیا۔کیونکہ ان کی اصل ونسل ایک ہی ہے۔ دنیامیں شیطانی وسوسوں ، ضروریات زندگی کی فکر اورخواہشاتِ نفس کو پورا کرنے کی مصروفیات میں عہد ومیثاق یادنہیں رہتا اسی لئے کتاب ورسول کے ذریعہ اس کو یاد دلایا گیاہے۔ اور’’جس میں تمام انسانوں کیلئے دوزخ سے بچنے کاطریقہ ایک ہی بتایا گیا ہے‘‘۔ وہ یہ کہ اپنے پیدا کرنے اورپالنے والے ہی کی عبادت اور فرمانبرداری اسی کے بتائے ہوئے طریقہ پرکرتے ہوئے دوسروں کوبھی ابدی عذاب سے بچنے کی دعوت مرتے دم تک دیتے رہنا ہے۔‘‘ چونکہ یہ باتیں عقل وفطرت کے مطابق ہیں اس لئے ’’ایپن‘‘ کے دل میں اتر گئیں اور وہ مسلسل قرآن کوسمجھنے کی کوشش کرتے رہے اور 11/ اگست  1990ء کو’’ایپن ‘‘نےاپنی بیوی اور دوبچوں کے ساتھ دین اسلام کوقبول کرلیا۔ اوران کا نام ’’یاسر‘‘ اور ’’سمیہ‘‘ رکھاگیا۔

 خالق ورب ہی کاکام ہے کہ وہ اپنے بندوں کودوزخ سے بچنے کا طریقہ بتائے’’الیل۔ ۱۲‘‘ ۔اس لئے قرآن کوانسانوں کی ہدایت کیلئے نازل فرمایا(بقرہ:۱۸۵)اور سورہ قمر آیت :۱۷،۲۲، ۳۲، ۴۰)  میں یہ یقین بھی دلادیاکہ ’’نصیحت حاصل کرنے والوں کیلئے ہم نے قرآن کوآسان بنایاہے۔ ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟انتباہ دے دیا کہ قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کے معاملہ میں تمہارا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے۔ (نحل: ۹۸) اور بتا دیاکہ قرآن کو نہ صرف سننے سے بلکہ دوسرے بھی اس کونہ سن سکیں ‘کی کوشش کرنے والاکافرہے۔ (حٰم السجدہ  :  ۲۶)  اور اللہ کا  دشمن ہے۔ (حٰم السجدہ: ۲۸)۔

اللہ تعالیٰ کی مندرجہ بالایقین دہانیوں کے باوجودیہ کہاجاتاہے کہ قرآن اللہ کاکلام ہے اور چونکہ عربی زبان میں ہے اس لئے اس کوصرف علماء اورعربی داں ہی سمجھ سکتے ہیں۔ عوام اس کو سمجھ نہیں سکتے ‘ قرآن سمجھ کرپڑھنے سے گمراہ ہوجانے کاامکان ہے اوراختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ قرآن سے گمراہی اور اختلافات پیدا ہونے کی بات کیونکر درست ہوسکتی ہے جبکہ قرآن کو اختلافات دور کرنے والی کتاب فرمایاگیاہے۔(البقرہ ۲۱۳، نحل ۶۴)۔

قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کیلئے عربی دانی کافی ہوتی تو عرب کے لوگ حالت کفرمیں نہ مرتے اور آج بھی بہت سے عربی داں حضرات یہودی اورعیسائی ہی ہیں۔ قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کیلئے عربی دانی لازمی ہوتی تواللہ تعالیٰ قرآن کوہرگز  ہُدیً لِّلنَّاسِ (انسانوں کے لئے ہدایت ہے)نہیں فرماتا : ترجمہ کے ذریعہ قرآن کوسمجھنے والے اگر واقعی گمراہ ہوتے ہیں۔ تواس گمراہی کو پھیلانے والے وہ علماء ہیں جنہوں نے قرآن کا ترجمہ کیاہے حالانکہ مترجمین اپنی نیّت کے مطابق بہت بڑے اجرکے مستحق ہوں گے۔

انتشار، افتراق اورگمراہی میںمبتلاہونے سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے خیرِاُمّت بننے کا طریقہ اپنے پیغمبروں کے طریقہ کوبیان کرکے بتادیا،  يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِنَا۝۰ۚ ۔ ہماری آیات پڑھ پڑھ کرسنائے (قصص-۵۹)اور سورہ رعد آیت :۳۰اور النمل آیت ۹۲)میں تونبی کریمؐ کو حکم دیاگیا کہ قرآن پڑھ پڑھ کرلوگوں کوسنائیں ۔چنانچہ نوح علیہ السلام ساڑھے نوسوسال تک اپنی قوم کو پنجتن کی عبادت کرنے سے منع کرتے رہے۔(عنکبوت:۱۴، نوح۲۳)سورہ الممتحنہ آیت۴اور۶میں ابراہیم ؑ نے قوم کوشرک کی گندگی کا جس طرح احساس دلایاہے۔ اس کو اسوئہ حسنہ (بہترین  طریقہ)  فرمایاگیا اسی لئے نبی کریم ؐ مکہ میں ۱۳  سال تک  یٰاَیُّھَاالنَّاسُ قُوْلُوْا لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ تُفْلِحُوْا۔(اے لوگو! اللہ کے سوا یاساتھ میں کوئی بھی معبود‘حاجت روا‘مشکل کشا‘نہیں ہے کہواور فلاح پائو)کی ہی دعوت دینے کی ہی دعوت  دیتے رہے۔ اِلہٰی طریقہ دعوت کی بجائے اپنے فہم سے اصلاح وتبلیغ کاکام کرنے پرہی جماعتیں وجودمیںآرہی ہے اوردن بدن انتشار میںاضافہ ہی ہوتاجارہاہے، مکرر عرض ہے کہ الٰہی و نبوی طریقہ دعوت ترک کرنے ہی سے آج ہم  ذِلّت‘پستی اورمحتاجی کی زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔ جو حقیقت میں عذابِ الٰہی ہی ہے۔

نومسلم ’’یاسر‘‘ روایتی طورپر ایمان نہیں لائے بلکہ خود قرآن سے ہدایت معلوم کرکے اس پرعمل کرنے لگے۔ چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے آخرت سے غافل وبے خبرلوگوں کوآخرت کی ابدی زندگی کی طرف توجہ دلاتے اور دوزخ کے ابدی عذاب سے بچنے کاواحد طریقہ یہ بتاتے تھے‘ کہ اکیلے وتنہا پروردگار کی عبادت اوراسی کی فرمانبرداری کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے بندوں کوبھی اسی بات کی طرف ہرطرح سے توجہ دلاناہے۔ مخالفت کرنے والوں سے پوچھتے کہ بھائیو ! ہم سب مل کر اندھیری رات میں ایک راستے سے گزررہے ہیں‘ کسی کے پاس روشنی کاکوئی انتظام نہیں ہے اور میرے سواکسی کونہیں معلوم کہ قریب میں ایک بڑا خطرناک گڑھا آنے والاہے توایسی صورت میں گڑھے سے بچاکرآپ کو آگے لیجاناکیا میرا فرض نہیں ہے؟ لوگ کہتے کہ ہاں یقینا ‘توپھر’’یاسر‘‘ انہیں نرمی اورحکمت سے دین کی باتیں سمجھاتے اوربتاتے کہ یہ ہی کامیابی کاواحد راستہ ہے۔ نومسلموں کے ساتھ ’’یاسر‘‘ نے بڑا تعاون کیا۔ وہ ایک ماہرفن سُنار تھے تقریباً ایک سوسے زائدلوگوں کوانہوں نے فن سکھایا۔ ایک دن بَستی کے مسلمانوں نے اُن سے کہا کہ اگرآپ دعوتی کام کوجاری رکھیں گے تونتیجے میں کسی بڑی مصیبت میں پھنس سکتے ہیں۔ اورایسی صورت میں مسلمان آپ کی کوئی مددنہیں کرسکیں گے۔ اس پر’’یاسر‘‘ نے جواب دیا کہ کسی مسلمان کی مدد کے بھروسہ پرمیں نے اسلام قبول نہیں کیاہے بلکہ رب کائنات کے بھروسہ پرمیںنے اسلام قبول کیاہے وہ ہر جگہ اور ہروقت میرے ساتھ ہے اور وہ میری مدد کیلئے کافی ہے) ۔ ’’یاسر‘‘ کی روز بروز بڑھتی ہوئی دعوتی سرگرمیوں کی وجہ سے آر ۔ا یس ۔ا یس کے کیمپ میں بڑی بے چینی اور پریشانی پھیل گئی اور مسلمان آنے والے خطرہ کومحسوس کرتے ہوئے۔ ’’یاسر‘‘ کو اپنی دعوتی سرگرمیوں سے باز رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن’’یاسر‘‘ یہ کہہ کر سب کو خاموش کردیاکرتے کہ یہ وہ کام ہے جس کوانجام دینے کے لئے پیغمبروں کوبھیجاگیاہے اس لئے اس سے بڑاکوئی کام نہیں ہے۔ ’’یاسر‘‘ کی دعوتی کوشش سے آر۔ایس۔ایس کے خاندانوں میں سے ایک خاندان قبول اسلام کے لئے تیار ہوگیا۔ لیکن رکاوٹ یہ تھی کہ اس خاندان کابجونامی ایک نوجوان آر۔ ایس۔ا یس کاچالک (صدر) تھا وہ اتنا اسلام دشمن تھا کہ اس کاگھر مسلمانوں کے محلے میں ہونے کے باوجود اذان کا کھُلے طورپر مذاق اڑاتاتھا لیکن اتنے سخت متعصب شخص کوبھی’’یاسر‘‘ کی دوگھنٹوں کی گفتگو نے اس قدر متاثرکردیاکہ وہ مسلمان ہوگیا اور اس کا نام’’عزیز‘‘ رکھاگیا۔ اتناہی نہیں بلکہ عزیز بھی ’’یاسر‘‘ کی طرح لوگوں کودوزخ سے بچنے کی دعوت دینے کے لئے بے تاب رہنے لگا بجو کے قبول اسلام کی خبر آر ۔ ایس ۔ایس کے حلقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اوروہ لوگ انتہائی غضب ناک ہوکر’’یاسر‘‘ کودھمکیاں دینے لگے لیکن’’یاسر‘‘ نے ان دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ ایک دن آر۔ ایس ۔ایس کاایک ممبر’’یاسر‘‘ سے کہنے لگا کہ تم ہماری شاکھا(آفس) میں آئو تواپنا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے ۔ ’’یاسر‘‘ نے فورا پوچھا آپ کی شاکھاکدھر ہے؟پھر دوسرے دن’’یاسر‘‘ آر۔ایس ۔ایس کی شاکھا میں پہنچ گئے اوراندر اپنی آمد کی اطلاع بھجوائی۔ وہ نوجوان باہر آیااورحیرت کے ساتھ ’’یاسر‘‘ کودیکھتے ہوئے کہنے لگامجھے معلوم نہیں تھا کہ تم اتنے بہادر ہوحقیقتاً تم عجیب انسان ہو۔آخر کار 17/ اگست 1998 ء کوآدھی رات کے وقت آر۔ ایس۔ا یس کے لوگوں کے ہاتھوں’’یاسر‘‘ شہیدکردیئے گئے۔ ان کے بدن پرتلوار کے چھبیس زخم تھے ایک وار اتنا سخت تھا کہ سرپھٹ کران کا دماغ باہر نکل گیاتھا اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ یاسرکی مغفرت فرماکر جنت الفردوس عطافرمائے۔  (آمین ثم آمین)

’’یاسر‘‘ کی دعوتی سرگرمی میں بڑا اعتدال تھا۔ ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ نٹراج صاحب نے بھی اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ’’یاسر‘‘ نے ایک بات کو حق سمجھا تو اسے کھلے دل سے سب کے سامنے پیش کیااوراسی حق کے راستہ کی طرف اس نے سب کو دعوت دی وہ نہ بنیادپرست تھا اورنہ دہشت گرد بلکہ وہ اللہ پرایمان رکھنے والاانسان تھا’’یاسر‘‘ کی دعوتی کوششوں سے کیرالا میں ۴۰ ہندوخاندان مسلمان ہوئے ہیں۔ یعنی یہ خاندان دوزخ کے ابدی عذاب سے بچنے کی کوشش کرنے والے بنے۔ بالفاظ دیگر ابدی عذاب سے بچنے کی طرف لوگوں کوتوجہ دلاتے رہنااس دنیا میں سب سے زیادہ اہم سب سے زیادہ بڑا اور سب سے زیادہ اعلیٰ کام ہے یہی کام ربَّ العالمین کو بے حدپسند ہے۔ جس سے مسلمان صدیوں سے غافل وبے خبر ہیں۔

یاسراس کام کی اہمیت کاذکر اپنی بیوی سے اکثر کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ ان کی شہادت نے ان کی بیوی بچوں کے ایمان کواور مضبوط کردیا۔ ہردور میں ہزراوں’’یاسر‘‘ یہی کام کئے، انشاء اللہ قیامت تک کرتے رہیں گے۔

ماخوذ روزنامہ ’’منصف‘‘ مورخہ 20/اگست 1999ء