محترم امام صاحب مسجد ہٰذا

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

محترم امام صاحب مسجد ہٰذا

 

محترم  امام صاحب مسجدہذا   !                     السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ(عبادت کا مغز دراصل دُعاہی ہے)اور اَلدُّعَاءُ ہِیَ الْعِبَادَۃ (عبادت کی اصل دراصل دعاہی ہے) بندے کو رب سے جوڑنے والی بنیادی چیز دعا ہی ہے ۔  اللہ تعالیٰ نے ہردُعا کرنے والے کی دُعا چاہے وہ رات ہویادن کے کسی وقت بھی دُعا کرے تو ضرور قبول کرنے کی گیارنٹی دیا ہے۔ (سورہ البقرہ:۱۸۶) اورشیطان لعنتی کی دعاء قبول کرکے اس گیارنٹی کے سچ ہونے کایقین دلایاگیا۔(سورہ اعراف :۱۵ ، سورہ الحجر : ۳۷، ۳۸،سورہ ص :۸۰، ۸۱)اور فرمایا’’اوریقیناہم ہی نے انسان کوپیدا کیاہے۔(پیداکرکے نہ چھوڑدیانہ اس سے غافل ہوا اور نہ اس کوکسی کے حوالے کیابلکہ) اوراس کا نفس جو بھی وسوسے کرتاہے ان کابھی پورا پورا علم ہم ہی رکھتے ہیں۔(اوریہ علم) اس کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہونے کی بناء پر رکھتے ہیں۔(سورہ ق: ۱۶)کائنات کاذرہ ذرہ ہرآن راست رب ہی سے مانگ رہاہے اور  رب  ہر آن ہرایک کوعطا کررہاہے نہ اُس کے پاس کیوسسٹم ہے نہ ٹائم ٹیبل بلکہ ہرآن ہرایک کیلئے اسکا دَر کُھلاہے۔ ( سورہ رحمن : ۲۹)رب فرماتاہے کہ تم مجھ ہی سے دُعا کرو (کیونکہ) میں ہی تمہاری دعائیں قبول کرتاہوں۔ بیشک جومیری عبادت کرنے سے تَکبّرکرتے ہیں (پیغمبروں اور عبادالرحمن کی طرح مجھ ہی سے دُعا نہیں کرتے)وہ عنقریب ذلیل ہوکر جہنم میں داخل کئے جائیں گے۔ (سورہ مومن:۶۰) اور خبردارکردیاکہ اے پیغمبرؐ  !  بنی آدم  سے کہہ دو کہ میرے رب کواس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ اگر تم(پیغمبر وںاور عبادالرحمن کی طرح) اس سے دُعانہ کرو۔ پس تم ایک اٹل حقیقت(پیدا کرنے والا ہی دُعا قبول کرتاہے) کوجھٹلاتے ہو۔ پس جلد ہی تم کواس کا بدلہ مل کررہے گا جو چپک جانے والا عذاب ہے۔(الفرقان :۷۷) ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ تمہارا رب بڑا حیا والا ہے۔ بندے کے ہاتھوں کوخالی لوٹاتے ہوئے غیرت آتی ہے۔‘‘(ابن ماجہ)  اورفرمایا’’کسی کی بھی دعا رد نہیں ہوتی سوائے اُس کے جس میں کوئی گناہ یاقطع رحمی کی بات ہو۔ البتہ دُعا تین طریقوں(۱) بِعَیْنِہ(۲)بِالْبَدْلِ(۳) ذخیرہ آخرت، سے قبول کی جاتی ہے اور فرمایا : ’’دُعا ایمان والے کاہتھیارہے‘‘۔جس کوشیطان حسب ذیل خرابیوں سے ناکارہ بنا دیتا ہے۔

(۱)قبولیت دُعا کوساعت، اشخاص، مقام کی طرف منسوب کرنا۔

(۲)اپنی ذات کیلئے دوسروں سے دُعاکرنے یا دعائوں میں یادرکھیئے کی بات کہنا، جو رب سے کھلی بدگمانی کاثبوت دیناہے۔

دُعا کی قبولیت کے لئے اللہ کوکسی کابھی واسطہ دینایاوسیلہ لینایاحرمت وطفیل کی بات کہناچاہے وہ نبی کریم ؐ  کاہی کیوں نہ ہو وہ قطعی شرک ہے۔ کیونکہ ایسا کہنے والادراصل اللہ کے ساتھ نبی کریم ؐ  کوبھی اِلٰہ بناتاہے۔(پرورش کے نظام میں آپ  ؐ کوبھی شریک ودخیل سمجھتاہے) ایسا سمجھنے والے کا دنیا و حشر کے دن ذلیل وخوار ہوکررہناہے۔(بنی اسرائیل:۲۲( اور آخرت میں جہنم میں ڈالاجائیگا۔(بنی اسرائیل :۳۹) اور فرمایاکہ کون بندئہ بے قرارکی دُعا قبول کرتاہے جب وہ دُعا کرتاہے؟ کیااللہ کے سوا اور کوئی اِلہٰ ہے۔؟ (نمل :۶۲)  اللہ کے ساتھ دوسرے معبود (پیر‘پیغمبر) کو مت پکار۔اگر توپکارے گا تو عذاب پانے والوں میں سے ہوجائیگا۔(شعراء :۲۱۳)

متذکرہ بالا کی رُوسے دُعائوں میں نبی کریمؐ کو خَیرِخَلْقِہٖ (اس کی مخلوق میں بہتر کہنا)بھی غلط ہے ، کیونکہ تمام انسان ایک ہی طریقہ سے پیدا کے گئے سوائے عیسیٰ علیہ السلام ، البتہ بندوں کوان کے اپنے عقیدے واعمال کی بناء پر اللہ ایک کو دوسرے پرفضیلت دے گا، یہ اللہ کا اختیار ہے۔ اللہ کے رسولؐنے تاکیدفرمائی ہے کہ دعا میں خالق کے سامنے کسی بھی مخلوق کی تعریف نہ کروبلکہ اس کیلئے بھلائی کرنے کی اللہ سے دُعا کروجس سے ثابت ہوا کہ دعاء میں نبی کریم  ؐکو  خَیْرِخَلْقِہٖ کہنا نہ صرف قرآن کے خلاف ہے بلکہ نبی کریم ؐ کی ہدایت کی صریحاً خلاف ورزی کرناہے اور نبی کریم  ؐ کودُعا میں خَیْرِخَلْقِہٖ کہنا سَبِیْلِ الْمُؤ ْمِنِیْن(اسوئہ صحابہؓ) کے خلاف ہے، حقیقت واقعہ یہ ہے کہ یہ محض شاعر کاقول ہے کہ جوبالکلیہ غُلوپر مبنی ہے اورغُلو کرنے کواللہ نے حرام قراردیاہے۔(سورہ النساء :۱۷۱)

ملحوظ رہے کہ ابراہیمؑدعا کی قبولیت کیلئے دُعا کیئے ہیں۔(سورہ ابراہیم :۴۰) یعنی بندے کے فائدے کے پیش نظر دعا قبول کی جاتی ہے۔

اُمید ہے کہ قرآن، ارشادات رسول اور سبیل المومنین (اُسوہ صحابہؓ) کی روشنی میں نہ صرف آپ اپنی اصلاح فرمائیں گے بلکہ مُصَلِّیوں کوبھی اصلاح کرنے کی ہدایت فرمائیں گے۔