خبردار

واپس - فہرست مضامین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 

خبردار!

 

اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ۝۰ۭ  (سورہ یونس آیت : ۶۲)

’’اللہ کے ولیوں کونہ خوف ہوگا اورنہ کوئی غم‘‘

 

اللہ کے ولی وہ ہیں جواللہ کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں اوراَبدی عذاب کے خوف سے دُنیا میں نافرمانی کرنے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ۝۶۳ۭ  (سورہ یونس)اہم ترین بات یہ ہے کہ ان آیات کے نزول کے وقت صرف صحابہ کرام  ؓ ہی تھے، جن کے صدیوں بعدپیدا ہونے والوں کو ان کے مرنے کے بعدہم ولی بنالئے ہیں۔ حالانکہ حشر کے دن ہی اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا، کہ کون اللہ کا ولی بننے کی کوشش کرکے اللہ کا ولی بنا۔ لیکن عذابِ الٰہی سے ہماری بے خوفی کاعالم یہ ہے کہ دُنیا ہی میں اللہ تعالیٰ کی بجائے ہم خود مردوں کواللہ کا ولی قاردے کر اپنے آپ کومُردوں کامحتاج بنالئے ہیں حالانکہ مُردے زندوں کے محتاج ہوتے ہیں۔

عیسائی لوگ عیسیٰ ومریم علیہما السلام کی اور غیر مسلم اپنے اوتار وں، دیوتائوں اوراپنے بزرگوں کے جنم یاوفات کے دن نیکی وثواب اورحصولِ برکت کے لئے میلوں اورجاترائوں کی شکل میں بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں ، نذر ونیاز کرتے ہیں ان سے منّت و مُراد مانگتے ہیں ، اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی فریاد ودُعا کوسُنتے ہیں ان کی بگڑی بناتے ہیں ، ان کی مشکلیں حل کرتے ہیں۔ اللہ کے پاس یہ سفارش کرتے ہیں اللہ اوران کے درمیان یہ لوگ واسطہ، وسیلہ ہیں۔ ان کے نام سے منسوب پرساد، صلیب ، ڈوریاں ،دھاگے ، کڑے انگوٹھیاں وغیرہ بلائوں سے حفاظت اوراظہارِ عقیدت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ غیر مسلموں کے ان تمام باتوں کو ہرمسلمان غلط ہی سمجھتاہے، اور ان کوگمراہ قراردیتاہے، لیکن نادانی کا عالم یہ ہے کہ بزرگانِ دین سے محبت وعقیدت کے نام سے بالکلیہ ان ہی باتوں میں مسلمان بھی مبتلا ہیں اورسمجھتے ہیں کہ ہمارا نہ دین بگڑا اورنہ ایمان۔ غورکیجئے  ! کہ جاترا  اور عرس، بھجن وقوالی میںسوائے ناموں کے جب کوئی اورفرق نہیں ہے تو جاترہ اوربھجن والے غلط وگمراہ دوزخی اورعرس وقوالی والے ہدایت یافتہ اورجنتی کیسے ہوسکتے ہیں؟ جب کہ سب کے سب اللہ تعالیٰ ہی کے بندے ہیں تولازماً ان سب کے لئے ایک ہی قانون ہے۔ چنانچہ اللہ اپنے بندوں کودوزخ سے بچانے کیلئے حسب ذیل تاکید ی حکم وہدایات دیاہے۔

(1) زندہ چاہے، پیغمبرہی کیوںنہ ہو، مُردوں کواپنی آواز نہیں سُناسکتے۔(النمل ۸۰ ۔ الروم ۵۲۔ الفاطر ۲۲)

(2) فوت شدہ چاہے پیغمبر ہی کیونہ ہودنیا والوں کی آواز نہیں سن سکتے ۔(الفاطر۱۳)

چنانچہ حشرکے دن ولی ، پیغمبر ، اللہ کوگواہ بناکرکہیں گے، تمہاری دعائ،پُکار ،درود، نذرونیاز، منّت ومراد وایصالِ ثواب سے ہم قطعی لاعلم وبالکل بے خبر تھے(یونس ۲۸۔۲۹، مریم ۸۲، النحل ۸۶،الاحقاف۵،۶) حدیثِ کوثر سے بھی ثابت ہے کہ نبی کریم ؐنہ صرف اپنے صحابہؓ سے بلکہ تمام مسلمانوں کے اعمال سے حشر تک بالکل بے خبررہیں گے۔

(3) مرنے کے بعدکوئی بھی چاہے وہ پیغمبرہی کیوں نہ ہوپھر وہ دنیامیں واپس نہیں آسکتا۔  (مریم ۹۸، الانبیاء ۹۵، یٰسٓ ۳۱)

(4) مردہ وغائب، ہستیوں کوپکارنا دراصل شیطان کوپکارناہے۔(النساء ۱۱۷)کیونکہ یہ شیطان کی سکھائی ہوئی بات ہے۔

(5) اللہ کوچھوڑ کر مردہ وغائب ہستیوں کوپکارنے سے تاکیداً منع کرتے ہوئے فرمایاگیاکہ یہ دنیاوالوں کونہ نفع پہنچاسکتے ہیں نہ نقصان ۔  (یونس ۱۰۶)

(6) وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ (بنی اسرائیل ۲۲ ، ۳۹، القصص ۸۸، الشعرا : ۲۱۳)

مت بنا اللہ کے ساتھ کسی کوبھی معبود ( حاجت روا)  یعنی نہ ان کا وسیلہ لے نہ ان کا واسطہ اور نہ ان کواپنا سفارشی سمجھ۔ اسی لئے نفع وبرکت کے لئے یانقصان وتکلیف سے بچنے کیلئے مردہ ہستیوں کے نام پر جانورذبح کرنے نذر و نیاز کرنے کو قطعی حرام قرار  دیا گیا ہے ۔  (البقرہ ۱۷۳، المائدہ  :  ۳ ،  الانعام  ۱۴۵، النحل  : ۱۱۵)

ایصالِ ثواب سے چونکہ اللہ تعالیٰ کے  مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ہونے پرحرف آتاہے اسی لئے نبی کریم ؐ ‘اجماعِ صحابہؓ اورائمہ ؒ کے عمل سے ایصال ثواب ثابت نہیں۔

(7) اللہ کے ساتھ کسی کوبھی سفارشی یاواسطہ وسیلہ سمجھ کر پکارنا کفر ہے۔ (المومنون  ۱۱۰‘ القصص۸۸)

(8) دنیاوالوں کی مدد کرنے کا اختیار کھجور کی گٹھلی پرکے چھلکے کے برابر بھی کسی ولی، پیغمبر کوحاصل نہیں ۔ (الفاطر : ۱۳)

(9) اللہ کے سوا کسی ولی ، پیغمبر ، کو کارساز ، حاجت روا ، مشکل کشا ، فریادرس سمجھنا ’’کفر‘‘ ہے۔  (الکہف:۱۰۲)

(10) حاجت برابری ، مشکل کشائی وفریاد رسی میں ولی ، پیغمبر کو بھی شریک و دخیل سمجھنا ’’شرک‘‘ ہے۔  (الاعراف :۱۹۱)

(11) ولی، پیغمبر کوبھی یہ نہیں معلوم کہ خودان کوکب دوبارہ زندہ اٹھایاجائیگا۔ (النحل ۲۱ : الفرقان ۳: النمل ۶۵)چنانچہ خود کواور رشتہ داروں کومصیبت مشکل، تکلیف، بیماری اور آفت سے نہ بچاسکے۔

(12) کسی بھی ولی ، پیغمبر کو’’عین اللہ‘‘ سمجھنا کفر قراردیاگیاہے۔(المائدہ :۱۷، ۷۳)

(13) دنیامیں عمل کرناہے جس کاابدی بدلہ آخرت میں پاناہے۔ موت کے ساتھ ہی انسان عالم برزخ میں منتقل کردیاجاتاہے۔ وہ عالم کیسا ہے تم کومعلوم نہیں ہے۔(الواقعہ : ۶۱)

(14) عالم برزخ میں انسان کی زندگی کس طرح سے ہوگی دنیا والے اس کا ادراک  (سمجھ )  نہیں کرسکتے۔ (بقرہ :۱۵۴)

(15) زندگی میں کوئی پیٹھ کے پیچھے کی بات نہ دیکھ سکتاہے نہ دور کی بات سن سکتا ہے اورنہ ایک ہی وقت میںکئی لوگوں کی باتیں سن سکتاہے اور نہ غیر زبان کی بات سمجھ سکتاہے۔

اللہ کے عذاب سے بچنے کے لئے ہی اللہ کے رسول ؐنے حسب ذیل تاکیدی احکام دیئے ہیں۔ قبروںپر عمارت بنانے ، ان کو پختہ کرنے، گچ کرنے اور کتابت کرنے سے منع فرمایاہے۔ اس کے راوی جابر ؓ اور ابوسعید خدری ؓ ہیں۔(سنن ابن ماجہ جلد اول)

اللہ تعالیٰ نےیہودیوں پر لعنت بھیجی ہے کہ انھوںنے اپنے انبیاء کی قبروں کومسجدیں بنالیں(حدیث نمبر ۴۱۲، کتاب الصلوٰۃ ، تفہیم البخاری  پارہ :۲) نبی کریم  ؐاپنی حالتِ بیماری میں فرمائے ہیں اللہ یہودی ونصاریٰ پرلعنت کرتاہے کہ وہ اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا(حدیث نمبر ۱۲۴۳، کتاب الجنائز تفہیم البخاری ) آپ فرماتے ہیں کہ عیسائیوں میں جب کوئی صالح شخص مرجاتاہے تو اس کی قبرپرمسجد بناتے تھے، اورپھر اس کی تصاویر کولٹکالیاکرتے تھے یہ لوگ اللہ کی سب سے بدترین مخلوق ہیں۔  (حدیث نمبر ۱۲۵۴: کتاب الجائز ، تفہیم البخاری)

نبی کریم  ؐکی خصوصی دعاء رہی ہے کہ اے اللہ میری قبر کو صنم (بت) نہ بننے دے کہ پوجی جائے۔ بت پرستی جو اصل بزرگ پرستی وقبرپرستی ہی کی ایک شکل ہے کے متعلق ابراہیم ؑ فرماتے ہیں: اے میرے رب اس عقیدے نے انسانوں کی بڑی اکثریت کوگمراہ کردیاہے اور اس بگاڑسے اپنے آپ کواوراپنی اولاد کوبچانے کی رب ہی سے دعاء فرمائے ہیں۔(ابراہیم ۳۵،۳۶)

نبی کریم  ؐنے لعنت کی ان عورتوں پرجوقبروں کی زیارت کوجایا کرتی ہیں۔ اس ارشاد ِ رسول ؐ  کو حسان بن ثابت ؓ ، ابوہریرہ ؓ اور عبداللہ ابن عباسؓ تینوں صحابیوں نے بیان کی ہیں۔ (ابن ماجہ جلد اول)

شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ  غُنّیۃُ الطالبین میں فرماتے ہیں :

 قبرایک بالشت سے کم ہونا چاہئے، قبرکوہاتھ لگانا یابوسہ دینا یہودیوں کاطریقہ ہے۔

احمد رضا خاں صاحب ؒ عرس اور عورتوں کی درگاہوں پرحاضری کے متعلق لکھتے ہیں  :

’’عورتوں کامقابر (درگاہوں)پرجانا جواز(جائز) یاعدم جواز (ناجائز) نہ پوچھو، یہ پوچھو کہ اس میں عورت پرکتنی لعنت ہوتی ہے۔ عورت جب گھر سے قبور (درگاہوں )کی طرف چلنے کا ارادہ کرتی ہے تو اللہ اوراس کے فرشتوں کی اس پر لعنت ہوتی ہے۔‘‘ جب گھر سے نکلتی ہے تواسے شیطان گھیر لیتے ہیں۔ جب گھر واپس آتی ہے تو اللہ کی لعنت میں ہوتی ہے۔(فتاوی رضویہ جلدچہارم صفحہ ۱۷۳)

مزار کوسجدہ توقطعی حرام ہے ، توجاہل زائر(زیارت کرنے والا) کے فعل سے دھوکہ نہ کھا ، دَور ِ جدید کی بدعات (گمراہیاں) میں عورتوں کابے محابہ گھومنا، پھرنا کھانا، پینا، رہنا ، سہنا، زیارت قبور کے لئے قبروں (درگاہوں)پرجانا اور نامحرم پیروں(مرشدوں) کومحرم سمجھ کران کے سامنے آنا حرام ہے ۔ قبر کواونچا تعمیر کرناخلافِ سنت ہے۔(ملفوظات  سوم)

قبروں پرچراغ جلانا بدعت اورمال کاضیاع اوراسراف ہے

اور اسراف حرام ہے  : (رہنمائے دکن مورخہ 24/اگست 1992ء اورمورخہ یکم / اگست1994ء )

اے بھائیو  ، بہنو !  ذراتوسوچو درگاہوں میں بھیک مانگنے والوں کی مشکل کشائی، حاجت برابری صاحب قبرکی بجائے آپ حضرات کرتے ہیں۔ بزرگ اگرواقعی رتی برابربھی مدد کرسکتے توسب سے پہلے ان بھکاریوں کی حاجتیں پوری ہوجانا چاہئے تھا حالانکہ یہ بھیک مانگتے مانگتے مرجاتے ہیں۔ اس اٹل حقیقت واقعہ کو  وَتَوَكَّلْ عَلَي الْـحَيِّ الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِہٖ۝۰ۭ (الفرقان ۵۸) (اوربھروسہ کراس زندہ جاوید رب پرجوکبھی نہیں مرتا ، اسی سے اپنی حاجت بیان کراور اس کی حاجت برابری ومشکل کشائی کی تعریف وشکرکر)کے ذریعہ یاد دلایا گیاہے۔یعنی مردہ بزرگوں کی بجائے زند ہ جاوید رب ہی سے راست دعا کرتے ہوئے اس کے عطاکردہ اسباب وذرائع استعمال کرکے اپنی حاجت وضرورت پوری کرنے کی کوشش کی جائے،یہ ہی ہدایت کاواحدذریعہ ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہرایک کی دعاوپکارسننے اور قبول کرنے کی اللہ نے گیارنٹی وضمانت دیاہے۔(البقرہ ۔ ۱۸۶) اور  لعنتی بننے کے بعد شیطان کی دعاء قبول۔(الاعراف ۱۴ ، ۱۵)کرکے اپنی گیارنٹی کی سچائی کاثبوت بھی دے دیاہے۔ چنانچہ ناریل پھوڑنے والوں کی دعاء بھی قبول ہورہی ہے اسی لئے اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا کہ ہرایک کی دعاء قبول ہوتی ہے مگر تین طریقوں سے (۱)   بعینہٖ(۲) ذخیرہ آخرت (۳)  بالبدل، اورفرمایاکہ بندے کے ہاتھوں کوخالی لوٹاتے ہوئے رَب کو غیرت آتی ہے۔ ہم بندے (محتاج محض)ہونے کے باوجود فقیرکوخالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔ دعاء عبادت کامغز اوراس کی اصل ہونے کی بنا پربھی تاکیدی حکم دیا کہ اپنے رب ہی کوپکارو اور اسی سے دعا کرو کیونکہ وہی ایک اکیلا وتنہا ایساہے جوہرآن سب کی دعائیں سنتااورقبول کرتاہے۔ چنانچہ تمام بزرگان دین  ،  پیغمبر صرف اللہ تعالیٰ ہی سے راست مانگتے ہیں ، اسلئے مردہ غائب ہستیوں کی طرف بگڑی بنانے کیلئے رجوع کرنا یامشکل دورکرنے کیلئے وظیفہ پڑھنا اور دوسروں سے اپنے لئے دعا کرنے کی بات کہنا دراصل اللہ تعالیٰ کے تنہا رب العلٰمین ہونے کی حقیقت کو جھٹلانا ہے اور اپنے آپ کوجہنم کامستحق بنانا ہے۔ (المومن:۶۰:الفرقان :۷۷)

ہر چیز مسبب سبب سے مانگو

منت سے سماجت سے ادب سے مانگو

کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو

بندے ہواگر رب کے تو رب سے مانگو

 

وَمَاتَوْفِیْقِیْ اِلَّابِاللّٰہِ